ذکیہ مشہدی کے ناول "بلہا کیہہ جاناں میں کون” رشتوں کی طیران پذیری کا بیانیہ ۔۔۔ علی رفاد فتیحی

 

اگر ایک جانب عالمگیریت کے اثرات اور تیز رفتار ہجرت کے مواقع نے جنسیت (sexuality) کے نظریہ کو متاثر کیا ہے تو دوسری جانب جزوی طور پر ختم ہو تے تولیدی اختلاط کے قوانین نے بھی بین نسلی اور بین المذہبی شادیوں کے رواج کو عام کر دیا ہے۔ نتیجتاً نسلی اور مذہبی تضاد کی دیواریں محبت اور ازدواج کے درمیان منہدم ہوتی جا رہی ہیں اور مغربی ممالک کے کوسموپولیٹن شہروں میں بین نسلی اور بین المذہبی شادیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ روایت شکنی کے رجحانات اور انفرادیت پسندی نے بھی ہم عصر خاندانوں کی سوچ میں انقلابی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ خاندان کا وہ روایتی تصور جو خاندان کے درجاتی نظام اور مقر رہ کردار کا حامل تھا اور نظم و ضبط، ہم آہنگی اور فرض شناسی پر زور دیتا تھا ختم ہوتا جا رہا ہے۔۔ وقت کے ساتھ جنسیت کی سوچ میں نمایاں تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور ہم عصر شہروں میں کنبے کے تصور نے سیال وجود اپنا لیا ہے۔ جنسیت کے اس نئے تصور میں انفرادی سوچ اور انفرادی آزادی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے زیر اثر افراد کے ما بین رشتے قابل گفت و شنید (negotiable) بنتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ خاندانی تعلقات ہمیشہ سے مشروط رہے ہیں لیکن عصر حاضر میں آپسی تعلقات کا اتار چڑھاؤ، اور ان رشتوں میں طیران پذیری ( volatility) کا پہلو یہ واضح کرتا ہے کہ ان جنسی شراکت داری کی باریکیوں کو نئے سرے سے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ مثبت طور پر پر ایک نئی وضاحت قائم کی جا سکے۔ جذبات کی جمہوریت سازی نے جنسیت، جنسی شراکت داری اور قربت (Intimacy) کے لے زیادہ کشادگی پیدا کر دی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم جنسوں کے لے ہم جنسی کا اظہار یا اپنے کنبے بنانے کیلئے ساتھی کا انتخاب زیادہ آسان ہو گیا ہے۔

ہندوستان کے ایسے علاقے جہاں پدر اقتداری نظام، خون کے رشتوں، مذہب، ذات اور خاندانی نام کی اہمیت ہے وہاں پیار محبت جیسے الفاظ بے معنی ہی نہیں بلکہ خطرناک بن جاتے ہیں۔ نیک نامی کے قانون (کھاپ قانون) ( Honour Killing) طے کرتے ہیں کہ آپ ’کس سے محبت کر سکتے ہیں‘‘ ، ’’محبت کیسے اور کتنی کر سکتے ہیں‘‘۔ ہندوستان میں قریب 90 فیصد شادیاں مفاہمت کی شادی (Arrange marriages) ہوتی ہیں یعنی خاندان طے کرتا ہے کہ ان کا لڑکے یا لڑکیاں کس سے شادی کریں گے۔ ہندو مسلم شادیاں یا الگ مذاہب کے لوگوں میں شادیاں بہت نایاب ہیں۔ ایک تحقیق میں انھیں دو فیصد کہا گیا ہے۔

ہندوستان میں الگ مذاہب کے لوگوں میں دوستی کی مخالفت کرنے والے گروہوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔

1920 اور 1930 کی دہائیوں میں جب الگ مذاہب کے لوگوں میں تناؤ بڑھ رہا تھا اس وقت کچھ ہندو قوم پرست گروہوں نے شمالی انڈیا کے کچھ علاقوں میں مسلمان مردوں کی جانب سے ہندو خواتین کو ’اغوا‘ کرنے کے خلاف ایک مہم چلائی تھی۔ انھوں نے ایسے میں اپنی ’ہندو بیویوں کی بازیابی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔۔ ہندوستان میں برطانوی راج کے دنوں میں بھی ہندو خواتین کے اغوا کے معاملے پر بحث ہوتی رہی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بعض ممبران نے اس سلسلے میں ایک قرار دار منظور کی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ’ایسی خواتین جنھیں اغوا کیا گیا اور زبردستی شادی کروائی گئی ان کی اپنے گھر واپسی ہونی چاہیے۔ مواقع ملنے چاہیے۔ اس کی وضاحت 1924 کے Patriot اخبار کے اس اداریے سے ہوتی ہے۔

’شاید ہی کوئی دن گزرے جس میں ہمارے سامنے ہندو خواتین اور بچوں کے اغوا نہ کیا جاتا ہو۔ اس میں نہ صرف مسلمان غنڈے بلکہ وہ مسلم مرد بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ انتہائی با رسوخ ہیں‘

پیٹریاٹ 1924 Quoted in Scroll۔in) )

آزادی سے قبل ایسی کئی تحریکیں اخبار کے اندر کے صفحے میں چھپ کر رہ جاتی تھیں۔ پہلے ایسی مرکزی جماعتیں یا بڑے رہنما نہیں تھے جو مختلف عقائد کے لوگوں میں تناؤ پیدا کرتے ہوں۔ لیکن اب یہ اخبار کے پہلے صفحے کا موضوع ہے اور اس میں ان قوانین پر عمل درآمد کے لےب ریاست خود سختی سے ملوث ہے۔

اس پس منظر میں بلا شبہ ہندوستان کے شہروں، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں نوجوان مرد اور خواتین صدیوں سے قائم سماجی رکاوٹ کو عبور کرنے کی جرأت کر رہے ہیں۔ موبائل فون، سستے انٹرنیٹ پیکیج اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے لوگ دوسروں سے مل رہے ہیں، اورمحبت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اورسخت مزاحمت کے باوجود جوڑے مذہبی عقیدے کی حدوں کو عبور کر رہے ہیں اور ان قوانین کو توڑ رہے ہیں جنھیں مشہور و معروف مصنفہ ارندھتی رائے اپنی کتاب ’دی گاڈ آف سمال تھنگز‘ میں محبت کے قوانین کہتی ہیں۔ اس بدلتے سماج میں اکثر لوگ ایسی شادیوں کو مثالی سمجھتے ہیں جو مستحکم، بڑوں کی مرضی کے خلاف، مخالف جنس کے بیچ اور اپنے جیسے لوگوں میں ہوئی ہوں۔ایسا اس لےو بھی آج ممکن ہے کیونکہ عدلیہ اور سپرم کورٹ ان جوڑوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ ہندوستانی قانون اپنی برادری سے باہر شادی کرنے کے لئے دفعات رکھتا ہے۔ اسپیشل میرج ایکٹ، 1954 (یعنی SMA) ایسی شادیوں کو یقینی بناتا ہے جو مختلف عقائد یا برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان جوڑوں کے لےئ بغیر کسی مذہبی رسومات کے سول شادی کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ بالی ووڈ فلموں جیسے غدر، ویر زارا، ممبئی، پنجر اور مسٹر اور مسز ایئر پر اکثر بین المذاہب شادیوں کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، لیکن ایک چیز جو سچ ثابت ہوتی ہے وہ خوف اور خدشات ہیں جو بین المذاہب شادیوں میں اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ ہندو مسلم شادیوں میں تلخ مخالفت، پر تشدد اور مہلک مداخلت ایک عام بات ہے۔

اس پیش رفت کے بیچ ذکیہ مشہدی کا ناول ’’بلہا کیہہ جاناں میں کون‘‘ بین المذاہب ازدواجی رشتوں کے سفر کو تلاش کرتا ہے۔ بین المذاہب ازدواجی رشتے اپنی انفرادیت، مبارزت اور چیلنجوں کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے negotiations کے لحاظ سے زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ اور ذکیہ مشہدی نے ’’بلہا کیہہ جاناں میں کون‘‘ میں یہ حق بخوبی ادا کیا ہے۔ اگرچہ شہری علاقوں میں بین المذاہب اور بین ذات پات کی شادیوں سے مختلف خطوں، عقائد، ذات پات کے گروہوں کے درمیان منہدم ہوتی ہوئی دیوار کا اشارہ ملتا ہے، لیکن ذکیہ مشہدی کے اس ناول کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ علیحدگی اور امتیازی سلوک نے اب بھی اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کی شادیاں عام طور سے ماضی کے تجربات یا‘ہندو مسلم کی تاریخ کی بوجھ سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ ماضی کے تجربات بھی لوگوں میں خوف کو ہوا دیتے ہیں۔

’’بلہا کیہہ جاناں میں کون‘‘ کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ذکیہ مشہدی ایک مختلف الذوق ناول نگار ہیں۔ ان کے اسلوب بیان کی خصوصیت ان کے زبان کے استعمال میں شاعرانہ تجربات کے اوصاف ہیں۔ جو تواتر سے پلاٹ کی پیش روی اور ان کے نقطہ نظر کی تبدیلی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مگر ایک مختصر ناول میں مختلف النوع موضوعات کو بہت تیزی سے چھوتے ہوئے گزرنے پر، ان تفصیلات سے قاری محظوظ تو ہوتا ہے لیکن بعض اوقات الجھتا بھی ہے۔ کیونکہ ان موضوعات کو احاطۂ تحریر میں لانے سے کہیں کہیں بیانیے کی رفتار سست پڑی ہے۔ ذکیہ مشہدی کے اس ناول ’’بلہا کیہہ جاناں میں کون‘‘ کا سب سے نمایاں پہلو اس کی ساخت ہے۔ انھوں نے بہت سارے واقعات اور ان واقعات کی تفصیل کچھ اس طرح شامل کی ہیں کہ وہ یا تو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے دکھتے ہیں یا مخلوط نظر آتے ہیں۔ قارئین کے ذہنوں میں یہ واقعات غیر معمولی اور انوکھے ہیں۔ اگرچہ کہانی کے بیان کرنے کے بہت سارے زاویے ممکن ہو سکتے ہیں لیکن ذکیہ مشہدی نے بین العقائد ازدواجی رشتے کے نتیجے میں سامنے آنے والے کردار کے نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ہرش‘‘ بیان کرتا ہے۔

’’دونوں پاپا اور اماں روایتی مذہبی گھرانے سے ہیں۔ پاپا کے گھر میں ہندو مذہب سے باہر کسی سے بھی شادی کرنے کا خیال ناقابل تصور تھا۔ اسی طرح اماں کے اہل خانہ کے لئے یہ قبول کرنا انتہائی مشکل تھا کہ وہ ایک ہندو لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ پاپا کے یہاں مسلمانوں کے بارے میں ہر طرح کے دقیانوسی تصورات کو سچ سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ اماں کو کبھی بھی پاپا کے گھر والوں نے جسمانی استحصال کا نشانہ نہیں بنایا، لیکن ان کے لئے یہ جذباتی طور پر بہت زیادہ تھا۔ اس نے انھیں پیشہ ورانہ طور پر بھی متاثر کیا۔‘‘

’’وہ دونوں اپنے مذہب پر عمل پیرا تھے اور اس نے ان کی شادی شدہ زندگی میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ میرے لےم خوبصورت بات یہ تھی کہ اب ہمیں مزید تہوار منانے کے موقع مل رہے تھے کیونکہ ہم دونوں مذاہب کو مناتے۔ اماں کے یہاں رمضان کے دوران روزے رکھتے ہیں اور افطار اور عید کی پارٹیاں ہوتی ہیں۔ پاپا کے یہاں ہم ہولی، دیوالی، کڑوا چَوتھ اور دیگر تمام ہندو تہوار بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ مناتے۔ مجھے کوئی بھی ہندو کہہ کر بلاتا تو اماں ناراض ہو جاتیں۔ ایک دن تابش ماموں نے از راہ مذاق مجھے ’’ہندو کی اولاد‘‘ کہہ دیا تو اماں نے انھیں زور سے ڈانٹا۔‘‘

لہذا ’’بلہا کیہہ جاناں میں کون‘‘ کے ابتدائی صفحات میں ایسا لگا کہ معاملات اتنی پیچیدہ نہیں ہیں جتنی کہ بین المذاہب شادی میں لوگ سوچ سکتے ہیں۔ اس عمل میں، ناول کا موضوعاتی نمونہ بہتر ہوتا جاتا ہے۔ چونکہ ناول میں بیان کردہ واقعات ایک تاریخی ترتیب میں پیش نہیں کیے گئے ہیں لہذا بعض اوقات قاری الجھن میں پڑ جاتا ہے اور وہ بین العقائد ازدواجی رشتے کی معنویت اور اس کی الجھنوں کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے۔ ذکیہ مشہدی کے بیانیے کا پیٹرن کچھ اس طرح ہے کہ قاری کو کہانی کے لطیف اور نفیس بیانیہ کی تہوں تک پہنچنے کے لےذ سخت محنت اور صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ کہانی اور اس کی تہوں کے پیچھے اصل معنی تلاش کرنے کے لئے قاری صبر و استقلال سے ناول کو پڑھتا ہے۔ ’’بلہا کیہہ جاناں میں کون‘‘ میں ذکیہ مشہدی نے ایک جانب معاشرے کے اس تہذیبی تنازعہ جس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور بین العقائد ازدواجی رشتے کی الجھنوں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری معاشرتی نا انصافی کو کسی حد تک سمجھ پاتا ہے لیکن ناول کی قرات اسے دل برداشتہ کر دیتی ہے۔ اس کے پڑھنے سے قاری غیر روایتی شادیوں کے ناقابل برداشت نتائج، مروجہ معاشرتی برائیوں اور اضافی ازدواجی تعلقات کے ذریعہ شادی شدہ افراد کے ساتھ غداری جیسے مسائل سے واقف ہو پاتا ہے۔ جیسے سمیر کے اپنی بیوی شبنم کے علاوہ بننے والے نا جائز رشتے پر ناراض ہو کر سمیر کی دادی کہتی ہیں۔۔۔

’’جب تک شبنم طلاق نہ دے اور سمیر آزاد ہو کر اس کی مانگ میں سیندور نہ ڈالے میں تو اسے رکھیل ہی کہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیسے گھر کی لڑکی ہے۔ کن ماں باپ نے بیٹی کو ایسے چھوڑ رکھا ہے کہ اپنے فلیٹ میں سمیر کو بن بیاہ کیسے بلا لیا ہے۔‘ُ‘

یہ آج کے دور کے مسائل ہیں جہاں ایک طرف نئی نسل کی بے جا آزادی نے ازدواجی رشتوں کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے تو دوسری طرف کٹر مذہبی عقائد نے معاشرے کو صدیوں پیچھے کی دقیانوسی سوچ کا غلام بنا رکھا ہے۔

جہاں تک ذکیہ مشہدی کے بیانیہ کا تعلق ہے، تو وہ دو مختلف مائیمیسس (Mimesis) اور ڈائیجیسس (Diegesis) طریقہ کار کی پیروی کرتی ہیں۔ ڈائیجیس بیانیہ ایک راوی کے ذریعہ کہانی سناتا ہے۔ مصنف کرداروں کے ذہنوں اور جذبات میں کیا ہے کی وضاحت کرتا ہے اور واقعات کو بالواسطہ بیان کرتا ہے۔ راوی ایک خاص کردار کی حیثیت سے بات کر سکتا ہے یا ’’پوشیدہ راوی‘‘ narrator Invisible یا بعض صورتوں میں ’’ہمہ دان راوی‘‘ knowing narrator All بھی ہو سکتا ہے جو واقعات یا کرداروں پر تبصرہ کرنے کی صورت میں اوپر سے بات کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ناول کا آغاز ڈائجیسس بیانیہ سے ہوتا ہے۔

’’میری اماں مجھے اس قدر چاہتی تھیں (بلکہ چاہتی ہیں) کہ ان کے لہجے کا ذرا بھی اتار چڑھاؤ میری سمجھ مبیں آ جاتا تھا۔ چہرے کی ایک بھی شکن ان کے جذبات کی ترجمانی کر دیا کرتی تھی۔ مسکراہٹ کی خفیف سے خفیف لکیر بلکہ آواز میں مسکراہٹ کی ‘ آہٹ’ بتا دیتی تھی کہ ان کے ذہن میں کچھ اچھا چل رہا ہے۔ میں جب کی بات کر رہا ہوں جب میں کوئی سات سال کا تھا۔ اس لئے میں نہ تب بتا سکتا تھا نہ اب بتا سکتا ہوں کہ وہ کیا بات ہوتی تھی جو مجھے سمجھا دیتی تھی کہ اماں کے دل میں کیا یے۔ بس وہ گونگے کے گڑ جیسی کیفیت تھی جسے محسوس تو کر لو لیکن بتا نہ پاؤ اور اماں! وہ تو مجھے یوں سمجھتی تھیں جیسے میں ان کا اپنا آپ ہوں، ان کا ہم زاد۔ آج بھی وہ مجھے یوں ہی سمجھتی ہیں جب کہ میں کچھ بڑا ہوتے ہی اپنے احساسات چھپانے میں خاصا شاطر ہو چکا ہوں۔ اس وقت بھی انہوں نے سمجھ لیا کہ میں نے ان کے چہرے کے کھنچاؤ کو محسوس کر لیا ہے۔ وہ جھٹ سے اس کی تلافی کرنے لگیں۔‘‘ّ

اس کے برعکس ناول میں Mimesis بیانیہ کی بھی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ بغیر کسی وقفے کے یکے بعد دیگرے خیالات کی ڈرامائی یا قدرتی پیش کش قارئین کو یہ احساس دلاتا ہے وہ یا تو بیان کردہ واقعات میں حصہ لے رہے ہیں یا اس احساس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ ناول کے کردار ان کی ہی طرح الجھنوں میں گرفتار ہیں۔ کہ وہ اس کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں۔ ان کا Mimesis بیانیہ واقعات کی لفظی تصویر کشی کرتا ہے۔ ہر ناول نگار کو نہ صرف کہانی کے بیانیہ میں بلکہ اپنے نقطہ نظر کے انکشاف میں بھی فنکارانہ طور پر ہنر مند ہونا چاہئے۔ جیرارڈ جینیٹ ناول نگار کے نقطہ نظر کو فوکلائزیشن مانتا ہے۔ فوکلائزیشن کی اصطلاح در اصل بیانیہ کی معلومات پر ’’پابندی‘‘ کے لےن استعمال کی جاتی ہے۔ ماہرین نے فوکلائزیشن کو بھی تین اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک بیرونی فوکلائزیشن، اگلا اندرونی فوکلائزیشن اور تیسرا اور آخری صفر فوکلائزیشن۔

بیرونی فوکلائزیشن سے مراد ہے کرداروں اور ان کے الفاظ اور اعمال کی جسمانی ظاہری شکل و صورت کی تفصیلات۔ داخلی فوکلائزیشن بنیادی طور پر افکار سے وابستہ ہے اور کرداروں کے احساسات اور محسوسات کو پیش کرتا ہے۔ تیسری قسم، صفر فوکلائزیشن ہے۔ یہ بیانیہ کا روایتی طریقہ کارہے جہاں راوی کی حیثیت ہمہ دان راوی کی ہوتی ہے۔ ذکیہ مشہدی نے اس ناول کے بیانیہ میں بیرونی فوکلائزیشن کی پیروی کی ہے۔ راوی ماضی اور حال کی روشنی میں ہر کردار کی زندگی کے اہم پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔

۱۔ ’’میری اماں کے ہم مذہب بھی اگلی دنیا میں دودھ اور شہد کی نہروں، پھلوں کے باغوں اور مرد ہوئے تو۔ عورتوں کے تصور سے خوش۔ اس دنیا کی صعوبتیں برداشت کرتے اور بہت سی نعمتوں سے خود کو محروم کرتے ہیں اور میرے ابا کا دھرم۔۔۔ وی ایس نائپال کا تو ایک جملہ نہیں بھولتا‘‘ Karma the biggest Hindu killer سارا کرموں کا پھل ہے۔ خاموشی سے سب سہہ لو۔۔ اور کرم کئے جاؤ، پھل کی فکر نہ کرو۔ ویسے ان کے دھرم میں جو چوائس ہے وہ کسی میں نہیں۔ چھتیس کروڑ دیوی دیوتا ہیں، جسے چاہو پوجو، رہو گے ہندو۔ ہندو جتنے لبرل ہیں کوئی نہیں۔‘‘

۲۔ ’’اب میں سوچتا ہوں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ براہ راست میں ان سے ایسا کچھ نہیں پوچھنا چاہتا تھا جس کا تعلق ان کی طلاق سے ہو۔ میری اماں جیسے خوش رہنا چاہتی ہیں ویسے رہیں۔ اب کبھی یہ سوال ذہن میں اتا ہے تو لگتا ہے کہ اپنی ساری ماڈرن تعلیم ماڈرن ایٹی ٹیوڈ اور روشن خیال فکر کے باوجود اماں کہیں اندر سے خالص ہندوستانی عورت ہیں۔ ہندوستانی عورت عموماً مطلقہ کے بجائے کسی کی بیوی کہلاتے رہنا پسند کرتی ہے۔۔ خواہ وہ کاغذ پر ہی کیوں نہ ہو۔۔ رہی بیوہ تو اس کی پوزیشن سماج میں بالکل الگ ہوتی ہے۔ لوگ پیٹھ پیچھے باتیں نہیں بناتے۔ ہمدردی بھی کر لیتے ہیں۔ اور اماں کے سامنے دوسری شادی کے راستے شاید بند تھے۔ وہ میری وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ جب میری عمر ان باتوں کو کچھ حد تک سمجھنے کی ہو گئی تھی تو میں نے کئی بار سنا تھا کہ نانا کے گھر میں بھی اس طرح کی بات ہوئی کہ اماں طلاق پر راضی ہو جائیں تو ان کے دوسرے بیاہ کی سوچی جائے لیکن وہ ہتھے سے اکھڑ گئیں۔ دوسری شادی تو بہت سی عورتیں کرتی ہیں۔ ایک آدھ بچے کے باوجود کرتی ہیں۔ شاید اماں کو پاپا سے جو محبت تھی اس کے بعد ان کے دل کے سوتے خشک ہو گئے تھے۔ وہ فاخرہ خالہ سے ایک بار کہہ رہی تھیں کہ اگر انہیں کوئی ایسا شخص ملا جس نے ان کے دل میں محبت جگا دی اور مجھے بھی صدق دل سے قبول کیا تو وہ طلاق لے کر اس کا ہاتھ پکڑ لیں گی۔‘‘

جہاں تک واقعات کی پیش کش کا تعلق ہے ذکیہ مشہدی نے ہرش کو صفر فوکلائزیشن کے طور پر استعمال کیا ہے کیونکہ ہرش ایک ایسا راوی بن جاتا ہے جو سب کے بارے میں بات کرتا ہے واقعات اور پوری کہانی کے کردار اس کی مدد سے سامنے آتے ہیں۔ کہانی شروع ہوتی ہے ہرش کے ڈائجیسس بیانیہ کے ساتھ۔ اس طرح خاندان میں پیش آنے والے واقعات، ہرش اور اس کے اہل خانہ کی گذشتہ زندگی ہرش کے بیانیہ کی مدد سے پیش کی جاتی ہے۔اور اس طرح بظاہر ایک سیدھی سادی سی کہانی اپنے درُوں بین العقائد ازدواجی رشتے کے بہت سے سماجی اور نفسیاتی مسائل کی طرف اشارہ کرتی ہے

’’بلہا کیہہ جاناں میں کون” کے بیانیے کی زیریں رَو میں تانیثی رنگ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ذکیہ مشہدی نے اس ناول میں خواتین کرداروں کی نسائی نفسیات پیش کی ہیں اور اس لےں ’’بلہا کیہہ جاناں میں کون‘‘ کو آسانی سے نسائی ناول کہا جا سکتا ہے۔

ذکیہ مشہدی کے اسلوب بیان کے بعض غالب اور تکراری تانیثی خصوصیات خواتین اور مردوں کے مابین فرق کو بے نقاب کرتے ہیں خیالات، جذبات، تجربات، اور زد پذیری (Vulnerability) مردوں کے خلاف عدم استحکام میں خواتین کردار مرد کرداروں سے مختلف ہیں۔ دوسری طرف، مردوں کو ان کی جسمانی طاقت، شخصیات، خواتین پر حاوی ہونے والے ان کے پدر اقتداری رویوں کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔

’’کچھ عرصہ پہلے جب ایک بار پاپا کے اصرار پر اماں ان کے ساتھ کسی گفتگو کے لے بیٹھی تھیں تو عرصہ تک بات چیت کرنے کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔ پاپا آخر میں کھسیانے ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور چلتے چلتے مڑ کر بولے اس سے اچھا تو کورٹ میرج نہ کی ہوتی بس کلمہ پڑھ کر تم سے نکاح کیا ہوتا تو آج طلاق طلاق کہہ کر مہر تمھارے منہ پر مارتا اور آزاد ہو کر دراتا ہوا نکل جاتا۔ کتنا مہر لے لیتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لاکھ، ڈیڑھ لاکھ، دو لاکھ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ تو نہ بندھتا۔

اماں مسکرائیں، ہولے سے بولیں۔ یہ کبھی نہیں بدلے گا۔ بحث میں ہار جاتا ہے تو کھسیانا ہو کر لڑنے لگتا ہے۔ ان کے چہرے پر کرب تھا لیکن مجھے ایسا احساس کیوں ہوا ان سادہ سے نکتہ چیں جملوں میں کہیں کوئی محبت بھی تھی۔‘‘

عورتوں اور مردوں کے درمیان رویوں، عقائد، اخلاق، ترجیحات اور ان ترجیحات پر انشقاق یا پارگی Fragmentation کی یہ کوشش ذکیہ مشہدی کے نسائی اظہار کی مثال بن جاتی ہے۔ ناول کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ راوی کے خواتین کرداروں کی تصویر کشی اس کے مرد کرداروں کے بیان سے مختلف ہے۔ جب بات عورت کے جذباتی ہونے کی ہو تو، راوی ان کے بارے میں مزید مفصل اور تخلیقی بیانات دیتا ہے۔ گویا، ناول میں خواتین اور مردوں کی نمائندگی اور ان کے بیان کیے جانے کے طریقے پر متعدد مشاہدات ہیں۔ ناول کے اس متن میں مرد و خواتین کے تناظر اور روایتی طور پر پدر اقتداری نظام والے معاشرے میں صنفی روایتی معلومات پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے