غزل ۔۔۔ اصغرؔ شمیم

 

میں جاگتا رہا یونہی چھت پر پڑے پڑے

کرتا رہا شمار میں اختر پڑے پڑے

 

دستِ ہنر سے فصلیں اُگا تُو زمین سے

بنتا نہیں ہے ایسے مقدر پڑے پڑے

 

جب جنگ ہی نہیں تو ضرورت نہیں رہی

بے دھار ہو گئے ہیں یہ خنجر پڑے پڑے

 

میں تو گھرا ہوا ہوں کتابوں کی بھیڑ میں

لفظوں سے کھیلتا ہوں میں اکثر پڑے پڑے

 

سارے مکین نیند سے چونکے کچھ اس طرح

پڑنے لگے تھے سر پہ جو پتھر پڑے پڑے

 

کس کی ادائے ناز نے بے چین کر دیا

دیکھا تھا ایک خواب جو اصغرؔ پڑے پڑے

٭٭٭

آج کل، نئی دہلی، جولائی ۲۰۲۰ء، مدیر: ابرار رحمانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے