من عرف نفسہ ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی

 

روشنی کی ایک ننھی سی لکیر

میرے کمرے کے اندھیرے کا بدن

چپکے چپکے ٹٹولتی ہے

جس طرح حبشی حسینہ کے ڈھلے

صندل کے سے

آبنوسی جسم کے اعصاب میں

تیز سوئی کی اچانک اک چبھن

سرسراتے سانپ کی مانند دوڑاتی ہے خوں

جھنجھنا اٹھتے ہیں سارے تار و پو

اور پھر آہستہ آہستہ کہیں

زیر سطح جان و دل

یہ تلاطم

رک کے سو جاتا ہے

یعنی

اژدر آسودہ خاطر کی طرح

خواب نوشیں کے اڑاتا ہے مزے

پھر بھی لیکن

اک غبار انتظار

میرے کمرے کی فضا میں

مثل آب سیاہ روشن ہے

جیسے تاریکی خود اپنی تہ تک

پہنچنے کو بے چین ہو

اس لیے

روشنی کی اس انگشت بے رحم کا

خیر مقدم کرے

اژدر آسودہ خاطر کو جگائے

درد یہ ہے

میرے کمرے کا اندھیرا کبھی اک بار مسخر نہیں ہو پاتا

نقش تاریک منور نہیں ہونے پاتا

کوئی گوشہ

کبھی روشن

کہیں گوشہ کوئی

اجلے کپڑوں کی قطاروں سے لٹکتے ہوئے انجیر کے خوشے

راکھ کے ڈھیر

غلاظت کے کنویں

سونے چاندی کے دمکتے ہوئے پھل

روشنی

یا تیز سوئی

یا تلاطم

جو بھی ہو تم

تیرگی کو اس طرح سے منقسم

تم جو کر دیتے کہ دیواروں کا رنگ

صاف کھل اٹھتا تو اپنے کو بھی ان میں منعکس میں دیکھ لیتا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے