غزل ۔۔۔ حنیف کیفی

 

آرزوئیں کمال آمادہ

زندگانی زوال آمادہ

 

زندگی تشنۂ مجال جواب

لمحہ لمحہ سوال آمادہ

 

زخم کھا کر بپھر رہی ہے انا

عاجزی ہے جلال آمادہ

 

کیسے ہموار ہو نباہ کی راہ

دل مخالف خیال آمادہ

 

پھر کوئی نشتر آزما ہو جائے

زخم ہیں اندمال آمادہ

 

ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیے

رہ گزر ہے جدال آمادہ

 

ہر نفس ظرف آزما کیفیؔ

ہر نظر اشتعال آمادہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے