شمس الرحمن فاروقی : ایک عہد کا مرقع۔۔۔ علی اکبر ناطق

 

(میں شروع کرنے ہی والا تھا کہ علی اکبر ناطق مجھ پر سبقت لے گئے۔ خیر، ان کے بعد میں فاروقی صاحب کے حوالے سے اپنی کچھ یادیں قسط وار شیئر کروں گا، لیکن ابھی سے معذرت کر لوں کہ ان یادوں میں شیرینی بھی ہو گی لیکن اس میں تھوڑا بہت تلخابہ بھی شامل ہو گا۔ یادوں کا ایک ریلا ہے جو مجھے کل سے اپنے ساتھ بہائے لے جا رہا ہے، ان یادوں کے جھروکوں میں فون پر ہونی والی بے شمار گفتگو بھی شامل ہے، ان کے متعدد برقی خطوط بھی ہیں، تین بار ان کے گھر (الہ آباد) پر قیام کے دوران ایک عہد ساز نقاد کے شخصی پہلوؤں کا مشاہدہ بھی ہے، سہ ماہی ‘اثبات’ اور ماہنامہ ‘اردو کیمپس’ کی رسم رونمائی میں ان کی ممبئی آمد اور یہاں قیام سے وابستہ کئی دلچسپ یادیں بھی ہیں۔ ان یادوں میں شفقت ہے، غصہ ہے، جھنجھلاہٹ ہے، مروت ہے، قہقہہ ہے، گالی ہے، دل جوئی ہے، مطالعہ ہے، تنقید ہے، غیبت ہے، اعتراف ہے، شوخی ہے، شرارت ہے، گویا فاروقی صاحب کے حوالے سے یادوں کا ایک ایسا نگار خانہ ہے جس میں ایک عہد ساز ادیب اپنے جمال و جلال و کمال اور اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ منعکس ہوتا ہے۔ اگرچہ فاروقی صاحب سے ہمارا رشتہ کاغذ اور قلم کا ہی ہے لیکن کسی نابغہ اور عہد ساز شخصیت اس رشتے سے جب سوا ہو جاتا ہے تو پھر لوگ اس کی شخصیت کے تعلق سے بھی متجسس ہو جاتے ہیں لیکن انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم انسان کا ذکر کر رہے ہیں، فرشتے کا نہیں اور فاروقی صاحب تمام انسانی صفات سے متصف تھے، ایک بھرپور انسان جسے اپنے انسان ہونے پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی بلکہ سینہ ٹھونک کر ہر مقام پر اپنے انسانی جذبات کا برملا اظہار کیا، جس کا ایک معمولی حصہ میری یادوں میں ملفوف ہے۔ وہ جلد ہی میں آپ کے ساتھ شیئر کروں گا لیکن فی الحال ہم علی اکبر ناطق کی یادوں سے روبرو ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں ایک جواں سال ادیب جو آج اپنے اوج کمال پر نظر آ رہا ہے، اسے دریافت کرنے اور اس کی پرداخت کرنے میں فاروقی صاحب کا کردار کیا تھا، کیوں کہ آپ جانیے فاروقی صاحب پر ایک الزام تواتر سے عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ‘انھوں نے پوری ایک نسل کو گمراہ کیا ہے ‘، خیر اس پر تو میری تحریر میں مفصل باتیں ہوں گی لیکن فی الحال ہم ایک ‘گمراہ’ نوجوان ادیب کے تجربات سے کسب فیض کرتے ہیں۔

اشعر نجمی

————————

 

(نوٹ: یہ تمام مضمون جو اقساط میں یہاں لگایا جا رہا ہے اِسے فاروقی صاحب کی زندگی میں لکھا جا چکا تھا اور وہ اسے پڑھ چکے تھے۔ علی اکبر ناطق)

 

 

ہم چھوٹے تھے، تیرہ چودہ برس کے۔ گاوں میں رہتے تھے، پنجاب کے شہر اوکاڑا کے پاس۔ زمانے کا پھیر کہیے یا ہماری قسمت، جہاں گھر تھا، اُس کے سامنے یونین کونسل کا آفس تھا۔ مصطفیٰ زیدی صاحب ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے، تب یہ دفتر بنا اور اُنھی کی ایما پر بنا۔ اوکاڑا اُن دنوں ساہیوال کی تحصیل تھی اور یہ گاؤں ماڈل ولیج تھا۔ یہاں کا ہائی سکول جب مڈل ہوا تو اِس کی بنیاد انسپکٹر سکولز مولوی کریم الدین کے ہاتھوں رکھی گئی۔

شنید ہے اُن کے ساتھ مولوی محمد حسین آزاد بھی آئے تھے۔ شاید اِس ولیج کو ماڈل بنانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو۔ و اللہ اعلم۔ یونین کونسل میں ایک لائبریری بنا دی گئی۔ کسی دیہات میں اول یونین کونسل کا بننا، وہ بھی گھر کے سامنے، پھر اُس میں لائبریری قائم ہونا اور وہیں قریب ہمارا پیدا ہو جانا، یہ سب باتیں کم سے کم حادثے سے کم نہیں۔ دفتر میں سیکرٹری کم آتا تھا بلکہ نہیں آتا تھا البتہ چوکیدارصاحب بلا ناغہ تشریف لاتے اور جمعہ کے روز بھی ناغہ نہ فرماتے (اُن دنوں جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی) اِس کی بڑی وجہ فرض شناسی کی بجائے وہ چائے تھی، جو ہم عین ۳ بجے گھر سے بنا کر لاتے، اُسے پلاتے اور عوض میں کتابوں کی پوٹلی پاتے۔ یہاں وہ ساری کتابیں پڑھ لیں جنھیں شاید یونیورسٹی اور کالج میں ممنوعہ قرار دے کر داخلِ دفتر کر دیا جاتا ہے تاکہ اساتذہ اور طلبا کی ادبی تربیت خدا نخواستہ قومی ترانے سے آگے نہ بڑھ جائے۔ کن کن کتابوں کا ذکر کروں کہ یہاں اُن کا مذکور میرے مضمون کی ضرورت سے باہر ہے۔ بس یہ بتانا اِس تمہید سے مقصود ہے کہ یہیں سے فاروقی صاحب کی اور ہماری جان پہچان ہوئی، جب ایک کتاب تفہیم غالب اور دو جلدیں شعر شور انگیز کی پڑھنے کو ملیں۔ یہ کتاب اور اِسی طرز کی دیگر کتابیں ہندوستان کے شہر دہلی سے یہاں کیسے پہنچیں، یہ مصطفیٰ زیدی صاحب جانیں یا اُن کی انتظامیہ مگر ہوا یہ کہ اِنھی کے ذریعے ہمیں پہلے غالب اور میر سے محبت ہوئی، پھر خود فاروقی صاحب سے ہو گئی کہ نصیب میں بقائے دوام لکھی تھی۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ ہم نے جو رشتہ میر و غالب سے عقیدت کا شعر شور انگیز اور تفہیم غالب سے آغاز کیا تھا، وہ مولوی محمد حسین آزاد کی آبِ حیات سے ایسا وسیع ہوا کہ پھیلتا ہوا اردو کے تمام کلاسیک شاعروں تک نکل گیا اور مولانا سے محبت کا عریضہ بھی اُنھی عرصوں میں ہاتھ لگا۔ ہمارا وطیرہ تھا، سکول سے آتے، بستہ پھینکتے اور مویشیوں کا کھاجا لینے نکل جاتے۔ قریب دو گھنٹے میں بھینسوں کو چارہ ڈال کر جلدی سے کلاسیکل ادب کی کتاب پکڑ لیتے۔ پھر تو رات دو بجے ہاتھ سے چھُٹتی اور صبح سکول جانے کے لیے سلیبس کا بستہ ڈھونڈنا پڑتا۔ سکول کا کام ہم نے کبھی کر کے نہ دیا اور روزانہ مار کھائی۔ اُنھیں دنوں کا ایک مزیدار واقعہ سُن لو۔ یہ ا۹۹۱ کا زمانہ تھا، ہم ابھی میٹرک میں تھے اور چھُٹی کا دن تھا۔ معمول کے مطابق گھر کے سامنے سے گزرتی سڑک کے کنارے چار پائی بچھائے لیٹے تھے۔ نیچے ٹھنڈے پانی کا نالہ بہتا تھا اور اُوپر شیشم کے درختوں کے سائے تھے۔ فاروقی صاحب کی ایک کتاب تفہیم غالب پڑھ رہے تھے، جو دہلی سے غالب انسٹیٹیوٹ نے چھاپی تھی۔ ہم غالب کے اشعار کے معنی و مفہوم میں کھوئے ہوئے تھے اورطبیعت پر سحر طاری تھا۔ اچانک سڑک سے گزرنے والی ایک موٹر سائیکل گرِ گئی۔ موٹر سائیکل پر مرد کے پیچھے غرارہ پہنے عورت سوار تھی اور غرارہ کیا تھا بقول میر

آنچل اُس دامن کا ہاتھ آتا نہیں

میر دریا کا سا اُس کا پھیر ہے

مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ دریا کا سا پھیر موٹر سائیکل کے پہیے کی تاروں میں آ گیا، جس کا اُنھیں پتا نہ چلا اور پہیہ گھومنے کے ساتھ غرارہ تاروں میں پھنستا چلا گیا اور ایسا پیچ در پیچ پھنسا جیسے غالب کے اشعار اپنی رعایتوں میں پھنسے تھے اور اُنھیں فاروقی صاحب کھولنے کی کوشش میں لگے تھے۔ خیر عین ہمارے گھر کے سامنے آ کر وہ دونوں میاں بیوی گِر گئے۔ خاتون موٹر سائیکل کے نیچے آ گئی اور غرارہ تاروں کے بیچ۔ اب بیچارا وہ آدمی جیسے ہی موٹر سائیکل اُٹھانے لگتا، بی بی درد کی کراہ سے چیخ مارتی۔ چنانچہ وہ موٹر سائیکل پکڑ کر کھڑا ہو گیا اور چار پانچ منٹ تک کھڑا دیکھتا رہا کہ شاید کوئی مدد کو آئے۔ سڑک بالکل ویران تھی۔ یہاں مَیں تفہیم غالب میں مگن اور ایسا مگن کہ پاس کے حادثے کی خبر تک نہ ہوئی۔ فاروقی صاحبؓ کی شرحوں میں غروب رہا۔ اِتنے میں والد صاحب باہر نکل آئے۔ اُنھوں نے جب دیکھا کہ عورت بیچاری گری پڑی ہے اور مرد موٹر سائیکل پکڑے کھڑا ہے اور میرا برخوردار مزے سے لیٹا کتاب میں مصروف ہے، تو وہ سیدھا میری طرف آئے، کان پر ایک جما کر دی اور کتاب ہاتھ سے چھین لی۔ اُس کے بعد دونوں خاتون کے غرارے کو موٹر سائیکل کی تاروں سے نکالنے لگے، مگر وہ اِس طرح پھنس گیا تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود غرارۂپُرپیچ و خم کے پیچ و خم نہ نکلے۔ آخر گھر سے قینچی منگوائی اور بڑی مشکل سے کاٹ کاٹ کے تاروں سے نکالا، یعنی طُرہ کے پیچ وخم کھول کر اُسے دھجیوں میں تبدیل کیا اوریوں خاتون ظالم کے خدو خال کا بھرم کھُلا اور وہ بچاری پہیے کی تاروں سے آزاد ہوئی۔ تب ایک چادر گھر سے لا کر اُسے دی اور دوبارہ موٹر سائکل پر سوار کرا یا۔ اُس کے بعد فاروقی صاحب کی تفہیمِ غالب کتاب والد صاحب نے پکڑی لی اور دو مہینے اُسی میں گرفتار رہے اور گھر بار یعنی اماں جان سے بھی بے خبر۔ تب سے سلسلہ یہ ہوا، جو کتابیں ہم نے پڑھیں تھیں، وہ ساری والد صاحب نے پڑھ لیں اور پھر پڑھتے چلے گئے، خدا زندگی دے، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ معاشی افلاس تو خیر جیسا تھا ویسا رہا، کم از کم علمی افلاس تو گھر سے نکلا۔

یہ تو ہمارا فاروقی صاحب سے پہلا تعارف تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ افتخار عارف صاحب نے ہمیں اکادمی ادبیات میں بلایا اور اکادمی ادبیات پاکستان کے کتاب گھر کا انچارج بنا یا۔ اِس کے بعد تو آن کی آن میں سب کتابیں ہماری دسترس میں تھیں۔ چونکہ پاکستان بھر کے پبلشروں سے چنیدہ ادب ہمارے پاس پہنچ چکا تھا اور ہم نے وہاں بیٹھ کر اُنھیں سوائے پڑھنے کے کوئی کام نہ کیا۔ چنانچہ یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے فاروقی صاحب کا ناول کئی چاند تھے سرِ آسماں پڑھا، بعد ازاں کچھ ہی مہینوں میں اُن کی سب کتابیں چاٹ گئے۔ کیا فکشن، کیا شاعری اور کیا تنقید، کوئی چیز نہ رہی کہ ہم سے چھُٹی ہو۔ یہ تو قصہ تھا ہمارا فاروقی صاحب سے محبت کا، جس کی ظاہر ہے فاروقی صاحب کو کیا خبر تھی کہ پنجاب کا ایک لونڈا اُن کا اسیرِ بے دام ہے اور اُن کے تحریروں کے سحر میں شاد باد ہے۔ اب ایک دلچسپ واقعہ اور سنیے۔ ہم جب اکادمی میں تھے تو وہاں کا ایڈمن آفیسر جی دار آدمی تھا۔ پنجابی میں افسانے لکھتا اور یہ پنجابی اُس کی اپنی ہی تھی۔ جسے شمال و جنوب میں اُن کی اپنی ہی لغت سہار سکتی تھی۔ اُس کے پاس اسلام آباد کے اکثر ادیب اور شاعر حضرات جمع ہوتے، خوش گپیاں کرتے اور ہمیں مذاق میں رکھتے۔ تب تک ہم نے کسی کو کچھ نہیں سنایا تھا۔ نہ شعر، نہ نثر، مگر دیکھنے سُننے والوں کو شاعر ضرور لگتے تھے یعنی طبیعت کچھ بے نیاز سی تھی۔ چنانچہ سب پوچھتے، میاں آپ کا مستقبل کیا ہے؟ اِدھر ہم نے کبھی اِس بارے میں غور نہیں کیا تھا۔ وہاں ایک صاحب بہت اچھے شاعر تھے، وہ بھی روزانہ تشریف لاتے اور اُن کا اسلام آباد میں بہت غلغلہ تھا۔ اپنے علاوہ نہ تو کسی کو شاعر مانتے، نہ نقاد اور ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتے۔ ایک دن سب ہی ہمیں یہی کچھ مذاق کر رہے تھے۔ اِنھی تمسخرانہ جملوں کے تسلسل میں اُسی ایڈمن آفسر نے کہا، میاں ناطق جب آپ شاعری کریں گے تو آپ کے خیال میں فلاں صاحب آپ کی تحسین میں تنقیدی مضمون لکھیں گے۔ ہمیں اِس بات پر ایک دفعہ جوش ہی تو آ گیا اور اِسی جوش میں کہہ گزرے، بھئی یہ کون صاحب ہوتے ہیں ہماری شعری جمالیات کو سمجھنے والے؟ دیکھیے میاں جس وقت ہم نے کہنا شروع کیا تو اُس پر فاروقی صاحب لکھیں گے، اُن کے علاوہ ابھی تو کوئی پیدا نہیں ہوا جو یہ بار اُٹھائے۔ ہماری اِس بات پر ایک زور کا قہقہہ ایسا اُٹھا کہ ایڈمن آفس کا تمام عملہ دوڑا آیا، مبادا کمرے میں زلزلہ آ گیا۔ تب ایک دوسرے شخص نے آوازہ کسا، میاں اِسے علاج کے لیے دماغی دوا خانہ لے جاؤ، کہیں بیماری لا علاج نہ ہو جائے۔ لیجیے صاحب اُس دن کے بعد ہم نے وہاں بیٹھنا بند کیا اور اپنے کام میں لگ گئے۔ اپنی تمام سابقہ تحریریں نکالیں اُنھیں پرکھا، دیکھا، اور اکثر پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکیں اور نئے سِرے سے اپنی ذات کے اندرون میں جھانکا مارا اور کچھ جگر کے لہو سے جوہر کشید کیے۔ پھر ایک دن کچھ نظمیں آصف فرخی کو بھیجیں اور لکھا کہ اِن میں کچھ پسند آئے تو دنیا زاد میں چھاپ دیجیے۔ چار دن بعد اُن کا فون آیا، کہنے لگے بھئی آپ شاعری تو کمال ہی کرتے ہیں۔ اپنا مکمل تعارف اور مزید نظمیں دو۔ ہمارا نام کے علاوہ کچھ تعارف ہوتا تو بتاتے، بولے بس جناب یہی تعارف ہے کہ فلاں شہر میں پیدا ہوئے، فلاں جگہ نوکری کرتے ہیں اور نظمیں مزید نہیں ہیں، جو تھیں بھیج دیں۔ لو صاحبو! آنے والے شمارے میں ہماری سب نظمیں ایک گوشے کی صورت میں لگا دی گئیں اور وہ رسالہ پہنچ گیا فاروقی صاحب کے پاس انڈیا میں اُن کے گھر اِلہ آباد۔ وہاں سے اُن کا خط مدیر کے نام آیا کہ بھئی یہ علی اکبر ناطق نام کا جو شاعر آپ نے چھاپا ہے، یہ تو بہت بڑے انوکھے طور کا شاعر دریافت کر لیا آپ نے۔ ہمیں تو اِس پر رشک آتا ہے۔ لیجیے اِس خط کا دنیا زاد کے اگلے شمارے میں چھپنا تھا کہ ہُمائے شہرت ہمارے سر پر لہرانے لگا۔ اُس کے بعد اجمل کمال کے رسالے آج میں چھپنے والے ہمارے افسانے فاروقی صاحب کے ہاتھ لگ گئے۔ وہاں بھی اُنھوں نے وہی باتیں کیں اور اِس کے ساتھ ہی اشعر نجمی صاحب کو ہدایت کی کہ علی اکبر ناطق سے رابطہ کر کے اُسے اثبات میں چھاپو۔ پھر اشعر نجمی صاحب کے توسط سے اثبات میں چھپ کر ہم ہندستان بھر میں چلنے پھرنے لگے۔ اب آپ ہی بتایے، کجا ایک ایسا لڑکا جو پنجاب کے دور دراز کے گاوں میں پانی کے نالے پر چارپائی بچھائے اور اُس پر لیٹے فاروقی صاحب کی شعر شور انگیز اور تفہیم غالب پڑھتا تھا اور کبھی وہ کتابیں آنکھوں سے الگ نہیں کرتا تھا اور پڑھ کر اُن کا صحابیِ خاص ہو گیا تھا۔ اُس لڑکے کے کہیں تصور تک میں نہیں تھا اپنے اِس ہیرو کا سامنا کرنے کا۔ ہیرو بھی ایسا جو ادب کی دنیا میں ایک نابغے کی حیثیت رکھتا ہو، جس سے بڑے بڑے طرم خانِ ادب اپنے لیے ایک جملہ کہوانے کو ترستے ہوں، کجا آج وہی دیوتا ہماری شاعری اور افسانے کی تعریفیں کرے، اور فون پر اُن سے باتیں ہوں۔ آپ ہی بتایے ہمارے پاؤں کہیں زمین پر لگنے والے تھے؟ اِدھر تو معاملہ یہ تھا کہ ہم فاروقی صاحب کی بندہ پروری سے پاکستان میں اور ہندوستان بھر میں آن کی آن مشہور ہو گئے اور ادب کی زلیخائیں گریبان پھاڑ کر رہ گئیں اور حاسدانِ مصر نے چھُریاں نکال لیں۔ یہ الگ بات کہ وہ چھُریاں اپنے ہاتھوں کی بجائے ہمارے گلے پر چلانے کی کوشش کی اور ہم پر پھبتیاں کسنے والوں کی آنکھیں حیرت سے اور دل حسد سے پھٹ گئے۔ کیوں نہ پھٹتے، وہ تو اُسی ایڈمن آفس میں سُکٹر کے رہ گئے اور ہم فاروقی صاحب کے دامنِ دولت سے بندھے برصغیر کے طول و عرض میں پھیل گئے۔

اِسی عرصے میں ہم نے فاروقی صاحب کی کہانیاں اور ناول پڑھا۔ کہانیوں کے بارے میں عرض کر دوں کہ ’’سوار اور دوسری کہانیاں‘‘ جنھیں آج پبلشر نے کراچی سے چھاپا تھا، ہمیں ایسے دہلی میں کھینچ لے گئیں کہ آج تک وہیں پھرتے ہیں وآپس نہیں لوٹے۔ جنھوں نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کا دہلی دیکھنا ہے اُنھیں پڑھ لے، پھر اُسی دنیا کا نہ ہو جائے تو ہمارا ایمان جھوٹا ہم جھوٹے۔ اِسی طرح ناول اُن کا، فقط ایک ناول نہیں جہان آباد ہے کہ اُس میں زمانوں کی آبادیاں بسی ہوئی ہیں۔

اکادمی ادبیات میں میرے ایک باس تھے کہ وہ خود افسانہ اور ناول لکھے بیٹھے تھے اور اکادمی کا رسالہ ایڈٹ کرتے تھے مگر لوگوں کی تخلیقات پڑھنا اُنھوں نے میرے ذمے لگایا ہوا تھا اور خود کبھی نہ پڑھتے تھے، ایک دن مجھے کہنے لگے دیکھو میاں یہ فاروقی کے ناول کا بڑا چرچا پھیلا ہے، تم نے پڑھا ہے؟ مَیں نے کہا جی مَیں نے پڑھا ہے۔ آصف فرخی نے شہر زاد سے چھاپ رکھا ہے (جسے حال ہی میں بک کارنر جہلم نے بہت خوبصورت انداز میں چھاپا ہے اور وہ آن لائن بھی منگا سکتے ہیں) اور ہم نے اکادمی کی بک شاپ میں بھی منگوا رکھا ہے، آپ کو لا کر دوں؟ کہنے لگے مجھے نہ دیجیے اتنی موٹی ناول مَیں نہ پڑھ پاوں گا۔ یہ بتائیے اُس میں کیا ہے اور لوگ اُسے خریدتے بھی ہیں یا نہیں؟

مَیں نے کہا حضت، اُس میں ایک تو دہلی کی تہذیب اور ثقافت کا مرقع گُندھا ہے اور دوئم یہ بتایا ہے کہ انگریز بہادر نے یہ مرقع اُلٹ دیا یعنی اچھا نہیں کیا۔ اس واسطے وہ اُن کے خلاف ہیں۔ رہی بکنے کی بات تو ابھی تک میں اُن کے ناول کی اِسی بک شاپ سے دو سو کاپیاں نکال چکا ہوں۔ اور ظاہر ہے یہ سب قارئین اسلام آباد کے ہیں، باقی شہروں کی بابت معلوم نہیں۔

وہیں ایک صاحب اور بھی بیٹھے تھے اور سیاہ آئنے لکھتے تھے، وہ کہنے لگے کیا ثقافت دکھانا ناول کا کام ہے؟

مَیں نے اُن صاحب کو جواب دیا، تو کیا ناول کا کام صرف لوگوں پر مُوت کی پچکاریاں مارنا رہ گیا ہے (اُن صاحب کے کم و بیش ہر افسانے میں مُوت کا بہت ذکر ہوتا ہے)؟ میرے اس جواب پر وہ صاحب بہت سیخ پا ہوئے۔ اور کہنے لگے، پہلے فکشن پڑھنا سیکھو۔ اب مَیں نے ایک پھر ترنت جواب دیا، تو کیا بھائی صاحب مَیں اتنے عرصے سے صرف مُوت کرنا سیکھ رہا ہوں؟ اور وہ بھائی صاحب آج تک ناراض ہیں اور وہی کچھ کر رہے ہیں۔ جو اپنے افسانوں میں کرتے ہیں۔

ہم نے عرض کیا تھا کہ ہم اکادمی میں افتخار عارف کے لطف سے ٹھہرے تھے لیکن اُنھوں نے جیسا کہ عام دنیا کا اُصول ہے کہ ڈھنگ کے آدمی کو ہمیشہ اُس جگہ چھوڑا جاتا ہے جہاں اُسے ہر صورت کربلا پیش آئے۔ افتخار عارف ہمیں ریگولر کیے بغیر ایک دوسرے دفتر میں منتقل ہو گئے حالانکہ اُس سے پہلے اُنھوں نے تمام بقیہ ملازمین کو ریگولر کر دیا تھا۔ تب ایک اور صاحب ایسے آئے کہ ادب کے نام پر اُنھوں نے الف لکھا تھا۔ اُسں نے آتے ہی پہلا کام ہمیں وہاں سے نکالنے کا کیا لیکن خدا نے جو عزت ہماری شروع کی تھی، وہ پھیلتی چلی گئی۔ ایک ایجوکیشن کے سیکرٹری ہمارے دوست بن چکے تھے، اُٹھا کر ہمیں فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکشن میں لے گئے۔ اِس کے ساتھ ہی ہم نے ایک ایسا کام کیا کہ اسلام آباد میں غالب کتاب گھر کے نام سے ایک نجی بک شاپ کھول دی، جس کا افتتاح بھی افتخار عارف صاحب نے کیا۔ اِس میں چُن چن کر اردو ادب کی نایاب کتابیں جمع کر لیں اور صرف پاکستان ہی نہیں، ہندوستان سے بھی بہت سی کتابیں منگوائیں۔ اِن سبب سے خدا جھوٹ نہ بلوائے اور کئی دوست گواہ ہیں، ہماری اِس بک شاپ سے فاروقی صاحب کی کتابوں کے کئی کئی سو سیٹ قارئین تک پہنچے۔ لاہور میں ایک شخص ہیں شیخ مبارک، صفاں والا چوک میں اُن کی پُرانی سی ایک دوکان تھی اور ہندوستان سے کتابوں کی تجارت کرتے تھے، ہم نے اُن سے رابطہ کیا اور کتابیں منگوانا شروع کیں۔ پھر اتنی کتابیں خریدیں اور بے منافع آگے بیچیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔ ایک دن شیخ صاحب کہنے لگے میاں ناطق، آپ کتابیں بیچتے ہیں یا کھاتے ہیں، اتنی تو ہم نے عمر بھر نہ بیچی تھیں اور یہ فاروقی صاحب کی کتابوں کو تو گویا پر لگ گئے ہیں۔ کیا وجہ ہے۔ ہم نے کہا میاں وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں فاروقی صاحب کو پڑھنے والوں کی بارش ہو گئی ہے۔ اِس کا ایک سبب تو خود ہم ہی تھے کہ جو آتا ہے ہم اُسے فاروقی صاحب کی تحریر کا چٹخارا لگا دیتے، دوسری وہاں کی اوپن یونیورسٹی ہے، جہاں کے ڈاکٹر عبد العزیز ساحر اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ہیں جو خود فاروقی صاحب کی تحریروں کے عاشقان جانثار ہیں۔ تیسری اور آخری اور حتمی وجہ فاروقی صاحب کا جمالیاتی تنقیدی شعور ہے جس پر بر صغیر کا عام نقاد تو ایک طرف خود حسن عسکری بھی نہیں پہنچ پایا اور یہ بات ہم دعوے سے کہے دیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہماری وہ بک شاپ یعنی مرزا غالب کتاب گھر ایسا ادبی مرکز بن گئی، کہ اُس کی ایک الگ داستان ہے جس کا ذکر ہم الگ سے کریں گے۔ اِن کتابوں میں فاروقی صاحب کی تمام کتابوں کے تمام سیٹ موجود تھے۔ اُنھی میں سوار اور دوسری کہانیاں (افسانے) اور کئی چاند تھے سرِ آسماں (ناول) اور شعرِ شور انگیز (شرح میر صاحب) بھی شامل تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں یہ بک شاپ اپنی طرز کا انوکھا کتاب گھر مشہور ہو گیا اور نام اِس کا ہوا مرزا غالب کتاب گھر۔ یہ کتاب گھر آئی ایٹ مرکز اسلام آباد میں تھا۔ اب ہوا یہ کہ کچھ ہی عرصہ بعد یہاں کراچی سے لے کر لاہور اور وہاں سے ہندوستان کے ادیب شاعر اور ادب دوست افراد آنے لگے۔ اُس میں ایک تو میری شاعری اور افسانوں کے سبب جان پہچان ہو گئی تھی اور دوسرے چونکہ مَیں نے آج اور دنیا زاد جیسے ادبی رسائل کو اسلام آباد کے ادبی حلقوں میں پھیلا دیا تھا۔ اُس سبب سے بھی کم و بیش پورا شہر اور مضافات کے شہر بھی واقف ہو گئے تھے۔ اُنھی دنوں اثبات رسالہ ممبئی سے شائع ہو رہا تھا، جسے اشعر نجمی صاحب نکال رہے تھے اور فاروقی صاحب اُس کی سرپرستی فرما رہے تھے، وہ بھی پاکستان آنے لگا اور مَیں یہاں اُس کا نمائندہ مقرر ہو گیا۔ اس رسالے میں پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں کی جزئیات چھپنے لگیں۔ اور فاروقی صاحب کے تبصرے بھی مسلسل پڑھے جانے لگے۔ حالت یہ ہو گئی کہ جس شخص پر فاروقی صاحب کا کچھ لکھا ہوا شذرہ ملتا یا کسی کے خط کا جواب وہ دیتے وہی آدمی بحث میں آ جاتا۔ میرے ساتھ چونکہ فاروقی صاحب اب فون پر بھی گفتگو فرمانے لگے تھے چنانچہ میرے بانس کا جھنڈا سب سے بلند ہو گیا۔ کراچی سے لے کر حیدر آباد دکن، دہلی، لاہور اور لکھنؤ تک پھریرا لہرانے لگا۔ لوگوں میں یہ چرچے زبان پکڑنے لگے کہ میاں دیکھو اِس لونڈے سے فاروقی صاحب خود بات کرتے ہیں۔ بلکہ اِس معاملے میں ایک دن ایک لطیفہ بھی رو نما ہوا۔

ایک صاحب اسلام آباد میں بڑے افسانہ نگار بزعم خود تھے اور میرے دشمن ایسے تھے کہ جگہ جگہ نام لے کر انگارے پھینکتے تھے حالانکہ مجھ سے کوئی بیس برس بڑے تھے اور ایک دوسرے بڑے افسانہ نگار کی دُم سے بندھے ہوئے تھے۔ وہ مشہور کرنے لگے تھے کہ اصل میں فاروقی صاحب نے ناطق پر نہ کچھ لکھا ہے اور نہ اِس کے شعر و افسانہ کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ڈھونگ اِس نے خود رچا رکھا ہے، اپنی طرف سے جعلی مضمون لکھ کر فاروقی صاحب کے نام منڈھ رہا ہے۔ وہ حضرت ایک دن بک شاپ پر تشریف لائے اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ خدا کا کرنا ہوا عین اُسی وقت فاروقی صاحب کا فون آ گیا۔ فون پر فرمانے لگے میاں ہم نے کچھ دن پہلے کتابوں کا بنڈل بھیجا ہے وہ پہنچا کہ نہیں؟ جلد مطلع کیجیو اور ہو سکے تو خود کسٹم والوں سے پوچھ لو۔ اور ہاں اس بار اثبات میں جو آپ کی نظمیں اور افسانے چھپے ہیں، وہ بہت کمال ہیں، مَیں اُنھیں ایک اور رسالے میں بھی چھپوا رہا ہوں جو لکھنؤ سے نکلتا ہے، پھر اور بھی بہت سی باتیں کیں۔ مَیں نے شرارت یہ کی کہ فون کی آواز اوپن کر دی، اب ایک اور بڑی شرارت سوجھی اور اُسی حضرت کی طرف دیکھ کر کہا فاروقی صاحب ہمارے ہاں جو فلاں صاحب افسانہ نگار ہیں، کیا اُن کا افسانہ بھی چھپنے کو بھیج دوں؟ میرا یہ کہنا تھا، کہ فاروقی صاحب نے یہ بڑی سی گالی دی اور فرمایا، میاں تم بس اپنی چیزیں بھیج دو، وہ سالا قیامت تک افسانہ نہیں لکھ سکتا۔

لیجیے صاحب پھر تو کچھ نہ پوچھیے فاروقی صاحب کا جواب سُن کر اُن حضرت کی کیا حالت ہوئی۔ یوں غصے سے لال پیلے ہو کر اُٹھے کہ ابھی آسمان کو قینچینوں سے کاٹ کر کائنات کا نظام خراب کر دیں گے۔ بھئی ایسا غصہ پہلے میں نے کبھی اُن میں نہ دیکھا تھا، اُن کے بس میں ہوتا تو اللہ میاں کو بے لباس کر دیتے۔ اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل بھاگے کہ فاروقی صاحب سٹھیا گئے ہیں، بوڑھے ہو کر لونڈوں کو شرفا پر سوار کرنے لگے ہیں۔ اور ہر ایک سے اُلجھنے لگے۔ تب سے آج تک اُس سالے کی مجھ سے نہیں نبھ سکی۔

الغرض سب مملکت میں یہ بات شہرت پا گئی کہ میاں ٓ ناطق کو فاروقی صاحب بہت مانتے ہیں، دیکھو اُن سے فون پر باتیں کرتے ہیں، اُن کی جو نظم یا افسانہ چھپتا ہے، اُس پر ایڈیٹر کو خط لکھ کر اِس کی تعریفیں بھرتے ہیں۔ چنانچہ کسی نے کچھ فاروقی صاحب کے بارے میں پوچھنا ہوتا تو مجھی سے رجوع کرتا اور میں اکڑا اکڑا رہتا۔ یعنی میرا حساب غالب کے اُس شعر کی صورت ہو گیا،

بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

۔۔۔

 

جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا افتخار عارف صاحب مقتدرہ کے دفتر چلے گئے اور اکادمی کے کار مداروں نے ہمیں لات مار کر نکال باہر کیا۔ اِس کسمپرسی کے دور میں ہوا یہ کہ کم و بیش اسلام آباد کی زمین پر تمام شاعر اور ادیب اور نقاد ہمارے دشمن ہو گئے اور حسد کی ایسی منزلوں پر جا پہنچے جہاں عزازیل کا مقامِ بلند ہے۔ سوائے سید منظر نقوی کے کوئی ہمارا یاور نہ رہ گیا۔ وہ اُن دنوں حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری تھے اور ہمارے داد گر دلی تھے۔ بلکہ اُن کی ہم سے مسلسل محبت اور دلجوئی دیکھ کر خود اُن کے پرانے دوست بھی اُن سے بگڑ گئے۔ مگر اُنھوں نے ہمارا ساتھ نہ چھوڑا اور برابر حوصلہ دیتے رہے اور آج تک دے رہے ہیں، خدا اُن کو سلامت رکھے۔ مگر وہ صرف ادبی طور پر حوصلہ دے سکتے تھے، معاشی معاملے میں ہؤبے بس تھے۔ معاشی طور پر بے روزگار ہونے کے سبب ہم اپنے دیس اوکاڑا جانے ہی والے تھے کہ عین اُسی وقت ہماری پُرسش کو اللہ نے فیڈرل سینئر ایڈشنل سیکرٹری ایجوکیشن عتیق الرحمن کو نازل کیا۔ وہ صاحب کتابوں کے رسیا اور ہمارے داد خواں تھے اور فیڈرل ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ اسلام آباد کے انچارج کا عہدہ اُنھی کے پاس تھا۔ وہ ہمیں سستے میں وہیں لے گئے اور نوکری پکی کر دی۔ یہاں ہم نے چھ ماہ خوبی میں گزارے دفتر کی جوتی منزل کی چھت پر دھوپ میں صف بچھا کر کتابیں پڑھنے لگے اور چائے پینے لگے۔ مگر بعد میں ایک ایڈمن آفیسر ایسا بے دماغ آیا کہ اُس نے ہم سے فائلوں پر نوٹنگ کروانا اور دھاگے بندھوانا چاہے، اِدھر ہم روز اِس دفتر میں ایک کتاب ختم کرنے کے چکروں میں تھے اور وحید احمد خاں صاحب و دیگران آفسران کے ساتھ چائے پینے کے علاوہ کچھ کرنا نہ چاہتے تھے۔ یوں ایڈمن آفس سے حالات خراب چل نکلے اور ایک دن اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے ساتھ اچھی خاصی تو تکار ہو گئی۔ وہ سالا رائے ونڈ یا مولوی ہم سے بھی چلہ لگوانے کے چکروں میں تھا۔ یہاں پھر ہمارے کام افتخار عارف آئے اور ہمیں ڈپوٹیشن پر مقتدرہ لے گئے۔ اوراِس جگہ ایک بک شاپ قائم کر دی۔ لیجیے جناب دوبارہ یہاں وہی کتابوں کا کام تام شروع ہو گیا۔ تب ہم نے بھی اپنی شاعری کی کتاب چھاپنے کا ارادہ کیا اور نام اُس کا ’’بے یقین بستیوں میں‘‘ رکھا اور فاروقی صاحب نے فرمایا میاں لڑکے آپ کی شاعری کی کتاب کا دیباچہ ہم لکھیں گے۔ ہم نے مسودہ فاروقی صاحب کو ارسال کر دیا۔ تب ہی اُنھوں نے دیباچہ لکھا۔ جسے پڑھ کر یہاں کے ادبی مہاتیروں پر اچھی خاصی اوس پڑ گئی۔ لیجیے بھائی وہ دیباچہ آپ بھی پڑھ لیجیے۔

’’علی اکبر ناطق کو ادبی منظر نامے پر نمودار ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے مگر اُنھوں نے تقریباً سب کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی ہے۔ وہ افسانہ نگار بھی ہیں اور شاعر بھی لیکن عجب بات یہ ہے کہ اُن کے افسانے پنجاب کی زمین اور تہذیب سے غیر معمولی دلچسپی اور اُن کے بیان میں غیر معمولی مہارت کا ثبوت دیتے ہیں۔ اُن افسانوں کو پڑھ کر افسانہ نگار کی نثر، مکالمہ اور بیانیہ کے نامانوس گوشوں پر بھی اُن کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پڑھنے والا ہر صفحے پر خود انسان اور فطرت کے پیچیدہ رشتوں، انسان اور انسان کے درمیان محبت اور آویزش کے نکات سے بہرہ اندوز ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ لیکن یہی علی اکبر ناطق جب نظم کہنے پہ آتے ہیں تو اُن کی شاعرانہ شخصیت کے مابعد الطبیعاتی پہلوؤں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص بیک وقت دو اتنے مختلف اسالیب اور شخصیتوں کا اظہار کس طرح کر سکتا ہے؟

یہ بات ہم پڑھنے والوں کے لیے معمہ ہو تو ہو لیکن علی اکبر ناطق بظاہر اس تضاد اور اس تضاد کی پیدا کردہ پیچیدگیوں سے بے خبر یا بے نیاز معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُن کی نظم کے مابعد الطبیعاتی سروکار میرا جی کی یاد دلاتے ہیں (اور میرا خیال ہے کہ کوئی جدید شاعر ایسا نہیں ہے جس نے میرا جی کو اِس طرح جذب کر لیا ہو)۔ متاثر ہونا اور بات ہے لیکن مزاج کے اختلاط کا میل بالکل دوسری بات ہے اور نادر بات ہے۔ علی اکبر ناطق کو میرا جی کا مقلد نہیں کہہ سکتے لیکن اِس وقت اُن کے علاوہ کوئی شاعر ایسا ہے بھی نہیں جس کے شعر کی گہرائیوں اور دنیا کو دیکھنے کے اور برتنے کے طور اور اظہار کے پیرائے ہمیں میرا جی کی یاد دلائیں۔ ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ میرا جی کی طرح علی اکبر ناطق بھی آزاد، پابند اور معرا نظم میں یکساں طور پر مہارت رکھتے ہیں۔

علی اکبر ناطق کی نظم ’’بانسوں کا جنگل‘‘ مجھے کبھی خوفزدہ کرتی ہے اور کبھی رنجیدہ کرتی ہے۔ نظم کا پہلا مصرع ہے

مَیں بانسوں کے جنگل میں ہوں جن کے نیزے بنتے ہیں

نیزہ نرکل کے ٹکڑے کو بھی کہتے ہیں جسے چھیل کر قلم بناتے ہیں اور نیزہ کے دوسرے معنی ہم سب جانتے ہیں۔ اس جنگل میں نرم ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں

لیکن صد افسوس یہاں کے کالے ناگ قیامت ہیں

اب نیزہ بمعنی قلم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے اور بانسوں کا یہ جنگل انسانی اظہار کی علامت لگتا ہے۔ کالے ناگ اور کالے حرف جنھیں نیزے لکھتے ہیں، ایک ہی شے بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ سانپ کے اندر جا کر خود سانپ بن جاتے ہیں۔

یہ الفاظ کی وہ قوت ہے جو انسان کو مغرور، دروغ گو اور مفسد بناتی ہے

وائے کچھ معصوم یہاں سے بچ کر بھاگنے لگتے ہیں

لیکن جنگل بانسوں کا ہے جن جس نیزے بنتے ہیں

ایک لمحے کے اندر یہ جنگل الفاظ کا نہیں بلکہ انسانوں کا جنگل بن جاتا ہے جہاں آلاتِ حرب و ضرب بنتے ہیں۔ جن سے کسی کو مفر نہیں۔ جو لوگ بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں وہ معصوم بمعنی احمق ہیں کہ اِنھیں خبر ہی نہیں کہ یہاں ٓ سے بھاگنا نا ممکن ہے۔

ہزیمت نامی نظم بھی انسان کی تقدیر میں پنہاں نارسائی اور بے قیمتی کا قصہ انسان کی زندگی میں رفتار اور ترقی کے فریب کے استعارے میں بیان ہوا ہے۔

مسافر کی سواری تیز اور اُس کا چابک سخت ہے، اُس کے خون کی گردش اُس سے بھی زیادہ تیز ہے لیکن ریگزاروں کی ہوائیں اچانک اُس کی سواری کو دفن کر دیتی ہیں۔

اور صحرا کی ہوائیں راستی پر آ گئیں

ایک پل میں پھر وہاں پر خامشی سی چھا گئی

یہ خاموشی موت کی بھی ہے اور تقدیر کی بھی جو اگلے مسافر کے لیے گھات لگائے بیٹھی ہے

علی اکبر ناطق سے اردو ادب جتنی بھی اُمیدیں وابستہ کرے، نامناسب نہ ہو گا۔ اُن کا سفر بہت لمبا لیکن راہیں کشادہ اور منفعت سے بھری ہوئی ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی

اِلہٰ آباد ۱۱ستمبر۲۰۱۰

۔۔۔۔

دیباچے میں فاروقی صاحب نے ہمیں زندگی کے فکری میلانات میں میرا جی کی شعوری اُپج کا شاعر قرار دیا لیکن جمالیاتی حوالے سے اُس سے الگ کہا اور سب جانتے ہیں کہ اردو نظم میں فاروقی صاحب میرا جی کو باقی شعرا پر کیسے فوقیت دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ذرہ نوازی تھی کہ آگے کیا کہیے۔

تب ایسا ہوا کہ ۲۰۱۰ میں دہلی میں کہیں سارک کانفرنس ہوئی۔ اور ہمیں بھی وہاں لے جانے کا ارادہ ہوا۔ اِس سفر میں کچھ خواتین کے ساتھ،’’آج‘‘ رسالے کے ایڈیٹر اجمل کمال اور وجاہت مسعود بھی ہمارے ساتھ تھے اور تمام رستے ہمیں مذہب کی گمراہی سے نکالنے کی کوششیں کرتے گئے۔ ہم فاروقی صاحب سے ہر حال میں ملنا چاہتے تھے مگر وہ اُن دِنوں اِلہٰ آباد میں تھے جہاں کا ویزہ ہمارے پاس نہیں تھا۔ البتہ فون پر کئی دفعہ بات ہوئی۔ فاروقی صاحب نے ہمیں فرمایا کہ جلد وہاں موجود اُن کی بیٹی باران فاروقی سے ملوں مگر فون پر اُن سے رابطہ نہ ہو سکا کہ آج کی طرح ۲۰۱۰ میں فون زیادہ چالاک نہ تھا۔ البتہ یہی وہ دِن تھے جب شمیم حنفی صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی۔ اُنھوں نے ہمارے ساتھ غالب اکیڈمی میں ایک پروگرام رکھا اور بہت لوگوں کو جمع کر کے وہاں اچھا خاصا جلسہ کر مارا۔ شمیم صاحب نے ایسی محبت دی کہ بہت سی یادوں میں وہ بھی ایک یاد کا حصہ رہ گئی، کسی دوسری جگہ بیان میں لائیں گے۔

اب ایک اور سُنیے، تین برس کے بعد ہی فاروقی صاحب پاکستان آئے، لمز والوں کی دعوت تھی اور لمز یونیورسٹی لاہور کے ریسٹ ہاوس ہی میں ٹھہرے تھے۔ ہم اُن دنوں اسلام آباد میں تھے۔ فاروقی صاحب نے آتے ہی اپنی آمد سے خبردار کیا اور ہم اسلام آباد سے لاہور کی طرف جبہ سائی کو دوڑے۔ اب یہاں ایک مزے کا واقعہ سُنیے۔ پاکستان میں ایک ایسے ادیب ہیں جن کی بہت سی کتابیں ہیں اور پندرہ بیس کے قریب ناول ہیں۔ پاکستان بھر کی سرکاری لائبریریاں اُس کی کتابوں سے اَٹی پڑیں ہیں۔ جب ہم یعنی مَیں یونیورسٹی میں مطلوبہ جگہ پہنچا جہاں فاروقی صاحب ٹھہرے تھے، تو وہ صاحب بھی ریسٹ ہاوس کے ریسپشن پر موجود تھے اور ریسپشنلسٹ اُنھیں بتا رہا تھا کہ فاروقی صاحب کہیں نکلے ہیں، پتا نہیں کب آئیں گے۔ اپنی کتاب دے دیں، مَیں اُن تک پہنچا دوں گا۔ اُس ادیب صاحب نے اپنی ایک موٹی تقطیع کی ناول فاروقی صاحب کے نام لکھ کر دی اور وآپس ہو گئے۔ وہ تو چلے گئے مگر ہم کہاں جاتے کہ اسلام آباد بہت دُور تھا۔ بہت پریشان ہوئے کہ اتنی دور سے پہنچے ہیں اور فاروقی صاحب نہیں ہیں، چلیے یہاں لان میں بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں۔ اب ہم نے اُسی آدمی سے عرض کیا حضرت!ہم یہیں سامنے والے لان میں بیٹھے ہیں، جب فاروقی صاحب آ جائیں تو ہمیں بتا دیجیے گا۔ اُس نے نام پوچھا۔ ہم نے بتایا، وہ کہنے لگا، بھائی، فاروقی صاحب ۵ نمبر کمرے میں ہیں اور آپ کے انتظار میں ہیں۔ یہ سُن کر ہم گھوم ہی تو گئے اور پوچھا بھئی، اتنا بڑا ادیب ملنے آیا تھا۔ آپ نے اُنھیں کیوں جھوٹ بولا، کہنے لگا، فاروقی صاحب کی ہدایت ہے کہ اِس وقت تھکے ہوئے ہیں، کوئی بھی ناطق کے علاوہ آئے تو اُسے اندر نہ آنے دیں۔ آپ تشریف لے چلیے۔ لیجیے ہم کمرے میں داخل ہوئے اور فاروقی صاحب یعنی اردو ادب کے طُور کا جلوہ پایا۔ یہ تو نہیں کہیں گے کہ نظارے سے جل گئے مگر مرعوبیت کی وادیِ سینا میں ضرور کھو گئے۔ یہ وہی فاروقی صاحب تھے جن کو برسوں تک دل کی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی اُٹھ بیٹھے اور یوں گلے سے لگایا جیسے صحرائے سینا میں بھٹکا اسرائیلی ملا ہو۔ اب کیا تھا، اُنھیں دیکھتے جاتے تھے اور اُن کی ایک ایک کتاب کے حوالے یاد کرتے جاتے تھے۔ کبھی شعرِ شور انگیز کی شرحیں کھُلنے لگیں، کبھی ساحری شاہی اور صاحب قرانی کے باب آنکھوں میں پھرنے لگے، کبھی سوار اور دوسری کہانیاں چلنے لگیں، کبھی کئی چاند تھے سرِ آسماں کی گردشیں آغاز ہوئیں۔ اِدھر فاروقی صاحب تو ہماری نظموں اور افسانوں کی بابت اچھا اچھا فرماتے جاتے تھے مگر وہاں یہ کچھ سُننے کا ہوش کسے تھا، رہ رہ کے اُنھی کی کتابوں کے دیباچے کھُلے جاتے تھے اور خیال اسپِ تیز رو دہلی، آگرہ اور وہاں وہاں ٹاپیں بھرتا جاتا تھا جہاں وہ اپنی کتابوں میں لے جا چکے تھے۔ پھر ایک بات اور بھی تھی کہ جو شے ہم زندگی کے ابتدائی زمانوں میں پڑھتے ہیں، وہ کبھی نہیں بھولتی۔ اُس وقت دماغ سائنسی سے زیادہ تخیلاتی جمال کے پیچھے دوڑتا ہے اور تعقل کی بجائے سرشاری میں چلتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جو چیزیں ہم نے لڑکپن کے زمانے اور جوانی میں پڑھیں، ابھی تک حافظے نے اُنھی کے نشاط میں رکھا ہے۔ سچ پوچھیں تو اُس وقت میرے ذہن میں بالکل نہیں تھا کہ مَیں لمز یونیورسٹی کے ایک مہمان خانہ کے کمرہ نمبر ۵ میں بیٹھا ہوں۔ فاروقی صاحب خود تو وہاں شمس الرحمن فاروقی ہی بن کر بیٹھے تھے مگر ہم اُنھیں کبھی میر صاحب تصور کر لیتے، کبھی غالب، کبھی مصحفی، کبھی نواب شمس الدین صاحب اور کبھی وزیر خانم۔ رہ رہ کر غیر حاضر ہو جاتے۔ یہ پہلی ملاقات تھی اور ہم ایک برخوردار کی حیثیت میں سامنے دو زانو تھے۔ وہ بولا کیے اور ہم محض سنا کیے اور تصور کیا کیے۔ ایک بار ٹھہر کر ہم نے عرض کیا، قبلہ! باہر فلاں ادیب آپ سے ملنے آئے تھے، فرمانے لگے میاں صاحب ہم انھیں نہیں جانتے۔ ہاں کچھ کتابیں ہندوستان بھجواتے رہتے ہیں اور یہاں بھی یہ موٹی کتاب دے گئے ہیں۔ سالے کچھ پڑھتے وڑھتے ہیں نہیں، محض لکھنے کا شوق ہے۔ پھر اپنا لکھا کوڑا ہمارے سر لا مارتے ہیں۔ ایسی خزفی کتابوں پر آنکھوں کا تیل ہم سے تو خرچ نہیں ہوتا۔ ایسا صبر پیغمبروں میں ہو تو ہو، ہم میں نہیں۔ یہ کہہ کر وہ ناول ایک میز پر رکھ دی۔ یہ ہماری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔ بہت باتیں ہوئیں۔ جس کرسی پر بیٹھے تھے، دائیں طرف تپائی پر بیسیوں قسم کی ٹیبلٹ اور معجون دھرے تھے۔ ٹھہر ٹھہر کے کچھ نہ کچھ معجون اور ٹیبلٹ کی خوراک لیے جاتے تھے۔ تھوڑی دیر میں ہمارے لیے چائے اور کچھ بسکٹ یا پیسٹری آ گئی، جسے شاید ہم نے کھایا کہ نہیں، یاد نہیں ہے البتہ چائے ضرور پی ہو گی کہ یہ مشروب اگر اچھا بنا ہو تو ہم کم ہی گریز کرتے ہیں۔ چونکہ پہلی ملاقات تھی اِس لیے کچھ حیرانی کا سا دورہ اِس لیے پڑا کہ ہم سوچتے تھے، آپ مدھم آواز میں پُر تکلف گفتگو یوں کرتے ہوں گے کہ کان ذرا ہشیار باش کر کے رکھنا ہوں گے ورنہ کچھ سنائی نہ دے گا مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ آواز میں گرج دار طلسم کا سا عمل تھا۔ کان برابر ایسے سُنتے تھے کہ علم کا نقارہ بجتا ہو۔ ہم ایک آدھ سوال کر کے چُپ ہو رہتے پھر اُس کا تفصیل سے جواب پاتے۔ دو گھنٹے سے اُوپر گزرے اور ہمیں لگا ابھی دو منٹ پہلے آئے ہیں۔ واللہ جھوٹ نہیں بولتا فاروقی صاحب خود بھی مزے میں تھے۔ سُنتے تو مدتوں سے آئے تھے کہ عالم کی صحبت کا ایک لمحہ ہزار کتابوں کے پڑھنے سے بہتر ہے مگر تجربہ آج ہوا تھا۔ شعر و ادب کے متعلق کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے شرح کر دیتے کہ جھٹ پٹ علم سینہ گزیں ہو جاتا۔ برس ہابرس میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ہر لفظ سے علم کی مہک آتی ہو۔ وہ جو بولے وہی موتی ہو۔ ہم تو کہیں گے، اِس وقت جتنے بھی شعر و علم کے نقاد ہیں کچھ لمحے فاروقی صاحب کی خدمت میں ضرور بیٹھیں، کہ اُن کی شورہ زمین کو آبِ شیریں ملے اور کچھ نمو بھی ہو۔ اتنے میں فاروقی صاحب کی بیٹی مہر افشاں فاروقی بھی آ گئیں۔ وہ کہنے لگیں، ابا جان تھوڑا آرام کر لیں، تھک گئے ہوں گے۔ بولے، لو بھئی ناطق کے آنے سے ہماری تھکاوٹ اُتر گئی، مہر، یہ ناطق بہت اچھا شاعر ہے اور افسانے بھی خوب ہی لکھتا ہے، نام پائے گا، ہمیں تو اِس میں بہت کچھ نظر آتا ہے۔ وہ تو یہ کچھ فرمائے جاتے تھے اور ہم اپنی کم ہنری پر آنکھیں چرائے جاتے تھے۔ کچھ دیر میں کھانا آ گیا۔ ہمیں حکم ہوا، میاں کھانا کھاؤ۔ تب حکم کی تعمیل ہوئی۔ واللہ اُس دن دیکھا، فاروقی صاحب کھانا اِس قدر کم کھاتے ہیں، گویا بالکل نہیں کھاتے۔ بابا فرید کے بارے میں سُنتے ہیں کہ جب بھوک لگتی تھی تو کاٹھ کی روٹی کو چباتے تھے۔ فاروقی صاحب تو یہ بھی نہیں کرتے۔ بس کھانے کے نام پر اُسے سونگھتے ہیں۔ پھر چائے آئی، وہ بھی پی۔ اب ہم نے محسوس کیا فاروقی صاحب تھک گئے ہیں۔ یوں بھی ۴ گھنٹے ہو گئے تھے۔ اجازت لے کر اور دوسرے دن خدمت میں حاضر ہونے کا وعدہ لے کر نکل آئے، یہ وہ سرشاری تھی جو سونا چاندی ملنے پر بھی حاصل نہ ہوتی۔

دوسرے دن مکرر گئے۔ ایک نوجوان شاعر بھی ہمارے ساتھ تھا، ہم نے فاروقی صاحب سے عرض کیا، اچھے مصرعے کہہ لیتا ہے، اُنھوں نے راہِ مروت اُس سے کچھ شعر سُنے، پھر باتیں ہونے لگیں۔ بہت کچھ شاعروں کے متعلق اُنھوں نے کہا، خاص ایک جملہ فراق کے بارے میں بہت سخت تھا، کہ فراق تو غالب کی دربانی کے بھی لائق نہیں۔ یہ ملاقات بھی بہت کچھ اچھی رہی۔ فاروقی صاحب در اصل اپنے مطالعے اور شعر فہمی کے معاملے میں بہت کچھ جمالیاتی اور کیفیاتی رعایتوں کو سمجھے ہوئے ہیں جو بڑے بڑے نقادوں اور سخن فہموں سے پوشیدہ ہیں، اُن کے ہاں میرجیسی سخت کسوٹی موجود ہے، جس میں ایسا ویسا شاعر جگہ پا ہی نہیں سکتا۔

یہ ہماری فاروقی صاحب سے پہلی ملاقات تھی، دوسری ملاقات دلی میں ۲۰۱۵ میں ہوئی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے افسانوں کی ایک کتاب قائم دین جسے اردو میں پاکستان میں آکسفورڈ پریس والوں نے چھاپا تھا۔ ہمارے دوست علی مدیح ہاشمی نے اُس کا انگریزی میں ترجمہ کر دیا۔ علی ہاشمی فیض صاحب کے نواسے ہیں اور منیزہ ہاشمی کے بیٹے ہیں۔ خود بہت عالم فاضل ہیں۔ اُن کا ترجمہ پینگوئن والوں کو بہت بھایا۔ پینگوئن انڈیا والوں نے وہ کتاب اپنے ادارے سے دہلی میں چھاپ دی۔ اب اُنھوں نے اُس کی تقریب کا اہتمام کیا اور ہمیں مراسلہ بھیجا کہ میاں دہلی چلے آو۔ ہم یعنی مَیں اور علی مدیح ہاشمی دہلی چلے گئے۔ اُنھی دِنوں ریختہ والوں کا جشن چل رہا تھا اور فاروقی صاحب الہٰ آباد کی بجائے دہلی میں رُکے ہوئے تھے۔ وہیں ہمارے دوست محمود فاروقی صاحب کہ سگے بھتیجے فاروقی صاحب کے ہیں، ہماری نگہبانی کو موجود تھے اور ہمیں کراچی میں بھُگت چکے تھے۔ ہم ۲۰۱۳ میں محمود فاروقی اور دارین شاہدی (دونوں اول درجے کے داستان گو ہیں) کو اسامہ صدیق کے ہمراہ اوکاڑا اپنے گھر بھی لا چکے تھے اور ساگ کے ساتھ پاکستانی بھینس کے پایوں کا شوربا پلا پلا کر اُن سے گائے کُشی کا بدلہ لے چکے تھے۔ اوکاڑا اپنے گاؤں کے کھیتوں میں پھرا چکے تھے اور درختوں کی چھاؤں میں بٹھا چکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ناطق چھاؤں والا آدمی ہے، اِسے دہلی میں دھوپ نہ لگنے دی جائے، چنانچہ وہ محبت کی چھتری لیے ساتھ ساتھ رہے۔

ریختہ کے جشن میں جیسے ہی فاروقی صاحب کا سامنا ہوا، اُنھوں نے ہمیں ایسی محبت سے گلے لگا کر بھینچا کہ اللہ میاں والی ستر مائیں یاد آ گئیں۔ کہنے لگے ناطق بھئی آپ آخر دہلی آ ہی گئے۔ اب وہ تمام ارد گرد کھڑے لوگوں سے کہنے لگے میاں اس لڑکے کو دیکھ لو، آئندہ کا اردو ادب کا بادشاہ یہی ہے، سالا شاعری اور افسانہ، دونوں میں میدان مار گیا۔ ایک آدمی کیمرہ لیے وہاں موجود تھا، اُنھیں بولے، لاؤ میاں ہماری ایک اچھی سی تصویر کھینچ دیو۔ اور اُس طرح بغل میں لیے لیے اُنھوں نے تصویر کھنچوا دی۔ اب اللہ جانے وہ تصویر کہاں ہو گی۔ اگر باران صاحبہ کے پاس ہو تو ہمیں ضرور بھجوا دیں۔ شکریہ پکاریں گے۔ پھر تو اُس دن ہم نے فاروقی صاحب کا پلہ نہ چھوڑا۔ اُن کے دو لکچر میر صاحب پر اور انعام اللہ یقین پر وہاں تھے، وہ سُنے اور دل میں قینچی کی طرح کھب گئے۔ ابھی تک اُن کا وہ انداز اور جملے یاد ہیں۔ لکچر سے فارغ ہوئے تو ہمیں کھانے پر ساتھ بٹھا لیا۔ یہ وہ عنایتیں تھیں جنھیں دہلی والے دیکھ رہے تھے اور بعض رشک سے اور بعض حسد سے ہماری بلائیں لے رہے تھے۔

لیجیے بھیا پھر اگلے ہی دن ہماری کتاب کی تقریب تھی۔ تقریب جامعہ ملیہ یونیورسٹی دہلی میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے تحت رکھی گئی جہاں فاروقی صاحب کی بیٹی باراں فاروقی پڑھاتی تھیں۔ تقریب کی صدارت فاروقی صاحب نے کی اور ایسی محبت سے کی کہ بھائی کیا کہیے۔ غرض اس تقریب میں شاندار طریقے سے اہتمام کیا گیا۔ ایک بڑے ہال میں لگ بھگ دو سو آدمی براجمان تھے۔ امریکہ سے نعیم صاحب آئے ہوئے تھے، وہ بھی وہیں تھے

محمود فاروقی نے نظامت کے فرائض بلکہ شدائد ادا کیے۔ ہم دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ بہت جگتیں چلا کیں اور پورا ہال زعفران بنا کیا۔ محمود فاروقی نے از راہِ مزاح پوچھا ناطق، ذرا یہ بتاؤ اِس وقت اردو ادب میں یعنی شاعری اور فکشن میں آپ سے بڑا تو کوئی اور نہیں ہو گا۔ ہم نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا جی ہاں، مَیں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ اِس پر ہال میں ایک زبردست قہقہہ بلند ہوا۔ علی ہاشمی وہاں موجود تھے اور اب تک ہمیں اِسی جملے پر چھیڑتے ہیں۔ خیر تقریب کھنچ کر ڈیڑھ گھنٹہ پر چلی گئی۔ کچھ دوست یعنی تصنیف حیدر اور اُن کے ساتھ چار پانچ لڑکے مزید تھے، وہ ہمارے ساتھ تقریب میں گئے مگر فاروقی صاحب کے ساتھ اُن کی کوئی رنجش تھی اس وجہ سے اُنھیں دیکھتے ہی وآپس ہو گئے۔ اِس بات کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ در اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا نوجوان ادیب سوشل میڈیا کے سبب جتنی جلدی سیانا ہوا ہے، اتنا ہی زیادہ حاسد اور سطحی ہو گیا ہے اور بد تمیز بھی ہو گیا ہے۔ مجھے تصنیف حیدر سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ علمی سطح کے کسی اختلاف کو ذاتی بنائیں گے، مگر اُنھوں نے برملا مجھ سے کہا کہ وہ بہرحال فاروقی صاحب کی وجہ سے اِس تقریب میں نہیں بیٹھ سکتے اور وآپس لوٹ گئے۔ تصنیف حیدر کو آج بھی مَیں چاہتا ہوں مگر اُن کا رویہ بعض اوقات عجیب ہو جاتا ہے۔ یہ بات اِس لیے لکھ دی ہے کہ ضروری تھی۔

خیر باراں فاروقی صاحبہ نے بھی بہت عمدہ تبصرہ کیا اور ہم سے کہا ناطق آپ اپنے افسانے کے کرداروں کو اتنی بے رحمی کے ساتھ بے نیاز ہو کر کیسے پیش کر دیتے ہیں؟ کہ ذرا بھی اُن پر ترس نہیں کھاتے۔ مَیں نے جواب دیا کہ جب عام زندگی میں وہ کردار تنہا و لاچار ہوتے ہیں تو فکشن میں کیسے اُنھیں درد مندی سے سہارا دے دیں۔

پھر ایک ہی دم صدارت کی گفتگو شروع ہوئی اور صدارت ظاہر ہے فاروقی صاحب کی تھی۔ اب جو اُنھوں نے ہماری شان میں بولنا شروع کیا تو کچھ نہ پوچھیے، ہمیں نہ صرف موجودہ نسل بلکہ دَور کا سب سے بڑا نظم کا شاعر اور افسانہ نگار قرار دے دیا اور اپنی گفتگو میں اِس پر اصرار بھی کیا۔ فاروقی صاحب کی گفتگو میں دلچسپی ایسی تھی کہ صرف اُن کی باتیں کھنچ کر ایک گھنٹے تک چلی گئیں مگر مجال ہے کہیں ایک متنفس بھی اِدھر سے اُدھر ہلا ہو۔ ہماری ایک ایک نظم پر بات کی ایک ایک افسانے کو زیرِ بحث لائے، اور ایسی ایسی گرہیں کھولیں کہ ہمیں لگا شاید فاروقی صاحب صرف ہمیں ہی پڑھتے رہے ہیں، اے نقادو! اب آپ کو پتا چلا کہ ہم فاروقی صاحب کی عزت کیوں کرتے ہیں اور آپ کی دُم پر پاوں کیوں رکھتے ہیں، بڑا آدمی وہ نہیں ہوتا جو اپنے جونیر کے ساتھ مقابلہ باندھ لے، کتاب بالکل نہ پڑھے اور حسد کی چھینٹیں اُڑاتا پھرے۔ بڑے آدمی وہیں ہوتے ہیں جن کا کردار عدل اور علم کے محاسبے میں ڈھلا ہو۔ فاروقی صاحب بلا شبہ کتاب پڑھتے تھے اور پڑھ کر عادلانہ داد دیتے تھے، آپ کی طرح بغض اور احساسِ کمتری کے مارے نہیں تھے۔ خدا کی قسم وہ نہ ہوتے تو آپ مجھے کچا چبا جاتے۔

خیر اب یہاں ایک دلچسپ قصہ سُنیے۔ تقریب میں نہ صرف دہلی بلکہ ہندوستان بھر سے اردو ادب کے کئی سرخیل جمع تھے۔ اُن میں ایک ایسا افسانہ نگار بھی تھا، جسے زعم تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا اور کوئی فلسفی قسم کا افسانہ نگار ہے، اور مارکیز در اصل وہی ہے۔ اُس کے افسانوں اور ناول کی کتابیں پاکستان میں آصف فرخی نے اپنے ادارے شہر زاد سے بھی چھاپ رکھی تھیں۔ جب کراچی آئے تو اُن سے اچھی ملاقات رہی تھی اور وہاں دہلی میں بھی ہم سے بہت مروت سے مل رہے تھے۔ اب ہوا یہ کہ جیسے ہی اُن صاحب نے فاروقی صاحب کی باتیں سُنیں، آگ بگولا ہو گئے۔ گفتگو کے دوران مسلسل زیرِ لب بڑبڑاتے رہے اور ایسے بے چین، جیسے اُن کی کُرسی کے نیچے انگاروں کی انگیٹھی پڑی ہو اور اُس پر اُنھیں زبردستی بٹھا دیا ہو۔ آخر ایک ہی دم اُٹھے اور کھٹاک سے باہر نکل گئے اور ایسے نکلے کہ پھر ہم نے اپنے دہلی کے بیس روزہ قیام تک اُن کا چہرہ نہ دیکھا۔ ہمیں اُن کی پریشانی کا اندازہ تو تھا مگر پریشانی پیٹھ جلانے والی ہو گی، یہ خبر نہ تھی۔ اُسی یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے بھی تھے۔ ہم نے ایک دن تصنیف حیدر کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ بھائی ایسا بھی کیا دل پر لیے بیٹھے ہو۔ ایک بار مل کے چائے تو پی لیجیے مگر وہ نہ آئے بلکہ اول فول باتیں کیں، کہنے لگے، یہ فاروقی صاحب اپنے کو سمجھتے کیا ہیں؟ ناطق کو بانس پر چڑھا دیا۔ اُنھیں ہمارا افسانہ نظر ہی نہیں آیا اب۔ بات بات پہ اِسے اُچھالے جاتے ہیں، کبھی کہتے ہیں، اِس سے اچھی نظم کہنے والا اِس وقت نہیں، کبھی اِسے افسانے کا طرم خاں بنائے جاتے ہیں۔ اردو دنیا میں اِس وقت اِس سے اچھا لکھنے والا موجود نہیں، یعنی ہم افسانہ نہیں لکھتے، گھانس کاٹتے ہیں؟ لیجیے صاحب وہ تو اُس دن کے بعد ہمارے لیے فوت ہو گئے۔ آج تک نہیں کھٹکے۔ ہم نے ایک دن فاروقی صاحب سے عرض کیا، حضور آپ کے ہمارے بارے میں جو بیانات ہیں، اُن کی وجہ سے اکثریت دین سے پھِر گئی ہے۔ ہم تو ایک طرف خود آپ کی تنقیدی پیغمبری بھی چلی گئی۔ ہنس کر بولے، ابے جانے دے سالوں کو، کنویں کے مینڈک ہیں، وہیں ٹراتے رہتے ہیں۔ اَب اِن کے ڈر سے رائے بدل دوں؟

۔۔۔۔۔۔

اُس سے اگلے دِن ہمیں حکم ہوا شام کا کھانا اُن کی بیٹی باران کے گھر اُن کے ساتھ کھایا جائے اور محمود فاروقی کو پابند کیا کہ ناطق کو گیارہ بجے دو پہر لے آؤ۔ دوسرے دن محمود فاروقی ہمیں لے کر چل دیے، دارین شاہدی اور فضل بھی ساتھ تھے، یہ دونوں صاحب محمود فاروقی صاحب کے منکر نکیر ہیں، دارین شاہدی داستان گو ہونے کے علاوہ اینکر ہیں اور فضل شریف آدمی ہیں۔ فضل کا ذکر آ گیا تو ایک قصہ اُن کا بھی سُن لیو۔ ایک دن دارین شاہدی ہمیں مہرولی کے آموں کے باغ اور کھنڈرات دکھانے گئے جہآں ایبک اور التتمش وغیرہ حکومت کیا کرتے تھے اور مندروں کے پتھر توڑ کر مسجدیں بنایا کرتے تھے۔ پھر اُن کا نام مسجد قوت الالسلام رکھتے تھے۔ اور بعد میں ہمارے قومی شاعر ولی اللہ اقبال اُن پر نظمیں لکھتا تھا۔ مہرولی اُس قصبے کا نشان ہے جو ہزار سال پرانی اصل دہلی تھی۔ یہاں اب سوائے کھنڈرات کے اللہ کا نام ہے، یا پھر چوہڑوں نے یہاں سؤروں کے اِجڑ پال رکھے ہیں جن کا گوشت دہلی کے بڑے ہوٹلوں کی نذر ہوتا ہے اور پہاڑی کیکروں کا جنگل ہے، پتا چلا طاقت کے نام پر پھیلایا ہوا مذہب سؤروں کے باڑوں میں بدل جاتا ہے۔ اِسی لیے ہم کہتے ہیں اذان وہ ہے جو علی اکبرؑ ابنِ حسینؑ کربلا میں دے گئے جو آج تک دلوں میں گونج رہی ہے۔ نہ کہ وہ جو تلواروں کے بل بوتے پر مندروں اور کلیساؤں میں دی اور آج وہ ہمیں پر اُلٹ پڑ گئی ہے۔

خیر یہاں مہرولی میں ایک شمسی تالاب بھی ہے۔ اِسی جگہ ایک بہادر شاہ کا محل بھی ہے جس کے صحن میں اُس کے باپ دادا کی قبریں ہیں اور اُنھیں میں ایک قبر کی جگہ اُس غریب نے اپنے لیے رکھی ہوئی تھی مگر اُسے وہاں دفن ہونا نصیب نہ ہوا، قبر کی چاہ میں رنگون جا پہنچا۔ پاس ہی ایک شمسی تالاب ہے۔ باغوں کی نشانیاں ابھی چار پانچ کوس آگے تھیں جہاں پیدل جانا تھا۔ فضل نے کہا بھائی میں تو اِسی تالاب کے کنارے بیٹھا ہوں۔ آگے نہ چلا جائے گا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ میاں کچھ نہیں ہوتا مگر وہ چوکڑی مار کے بیٹھ گئے۔ بولے تب تک نہ آؤ گے ہم یہیں بیٹھیں گے۔ خیر جی داریں اور مَیں آ گے گئے اور کوئی تین گھنٹے بعد پھرے تو فضل اُسی جگہ بیٹھے تھے۔ تو بھئی یہ وہی ٹھنڈے آدمی ہیں بڑے آدمی ہیں اور بہت بھلے آدمی ہیں۔

قصہ مختصر بھیا جب ہم فاروقی صاحب کے گھر پہنچے فاروقی صاحب چوکی پر بیٹھے ایک کتاب میں حسن شوقی کے بارے میں مطالعہ فرما رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر کتاب ٹھپ دی اور بولے آؤ میاں آپ ہی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ وہ ایک تخت پوش پر تکیہ لگا کر بیٹھے تھے۔ سامنے تپائی تھی۔ اُس پر چائے کا سب سامان تھا اور کچھ کباب دھرے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بولے آ گیا بدمعاش، ہم تو کہتے ہیں، پاکستان واکستان چھوڑ یہیں دہلی میں بسیرا رکھ لے، وہاں کی ادبی اشرافیہ آپ کو مان کے نہیں دے گی۔ سالے چھابے کے بچھو ہیں، ڈنک مار مار کے مار دیں گے۔ ابھی کل ہی کشور کہہ رہی تھی ناطق کو آخر آپ نے کیوں سر پہ چڑھا رکھا ہے؟۔ ہم نے کہا فاروقی صاحب ہم تو یہی چاہیں گے کہ دہلی میں بسرام کر لیں مگر آپ کب تک ہماری داد رسی کریں گے۔ آپ کے بعد یہاں بھی وہی ابو الکلام قاسمی بھرے پڑے ہیں۔ وہ ایک دم قہقہہ لگا کر ہنس دیے، فاروقی صاحب کا قہقہہ شرارت اور جمالیات کا ملا جُلا احساس ہوتا تھا جو مخاطب کے دل میں اُتر جاتا تھا۔ آپ جانو اُن کے قہقہے کی ایک مکمل تصویر بن جاتی تھی۔ دیر تک ہنسنے کے بعد بولے بڑے حرامی ہو، صلیب پر لٹک کے رہو گے لیکن ایسا کوئی ضرور چاہیے جو روز نہیں تو کبھی کبھی سچ ضرور بولے۔ یہ سالے کتاب نہیں پڑھتے۔ یونیورسٹیوں میں بیٹھے تمام دن دماغ میں اُگی گھاس کو پانی دیتے ہیں۔

فاروقی صاحب کا ایک سادہ قصہ یہ ہے کہ تکلفات کو ایسے برطرف کرتے کہ ہم جیسا مبتدی بھی سوال و جواب کی جرات پر اُتر آئے۔ یہاں بھی اُن کا باتیں کرنا گویا ایسی ادب آموزی تھی جس میں نورِ علم کے تریڑے برستے تھے مگر نشاط انگیزی کے ساتھ، نہ کہ بیزار کر دینے والی تقریریں جو اکثر اصطلاحات بھرے نقادوں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ مَیں نے بہت سے سوالات کیے جن کے اُن کے پاس بہت مدلل جوابات تھے۔ مَیں نے شعر شور انگیز پر اُن سے مفصل گفتگو کی۔ بہت سے میر صاحب کے شعروں پر اُن کی شرح کے حوالے سے اپنی رائے ظاہر کی۔ پھر سوار اور دوسری کہانیوں پر بات ہوئی۔ پھر مَیں نے کہا فاروقی صاحب، کل مَیں نواب شمس الدین کے پھانسی گھاٹ پر اکیلا پھرتا رہا ہوں صرف آپ کے ناول سے پڑھا تھا اور وہاں جا پہنچا۔ یہ سُن کر تو بہت ہی خوش ہوئے۔ مجھے کہنے لگے میاں حیرت ہے تم دہلی سے اُدھر دُور پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بیٹھے میری کتابیں اور خاص کر شعرِ شور انگیز پڑھ رہے تھے اور اِدھر سالے نارنگ تک نے نہیں پڑھی بلکہ کسی نام نہاد چوتیے پروفیسر نے نہیں پڑھی (ایک بات یاد رکھیے فاروقی صاحب جیسے خیالات کے کھرے تھے گالی دینے میں بھی ویسے ہی کھرے تھے اور مَیں سمجھتا ہوں کوئی بھی آرٹسٹ بہت زیادہ نستعلیقیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگے کوئی چوتیا ایک صفحہ پڑھ کے ہمیں مشورہ دینے نکل آتا ہے۔ کوئی صرف سونگھ کر ہی اُس پر لمبا مضمون کھینچ دیتا ہے۔ ناول کی بھی یہی حالت ہے۔ آپ کے پاکستان سے بہت اچھی خبریں آتی ہیں۔ مَیں نے کہا حضت وہاں بھی پڑھائی کی توقع پروفیسروں سے نہ کیجیے۔ اُدھر کا بھی عام قاری ہی آپ کو پڑھتا ہے۔ اس طرح گفتگو بہت لمبی کھنچ گئی۔ اِسی دوران ہم نے تین بار چائے پی، درجنوں کباب کھا گئے۔ باران بار بار کباب تل رہی تھیں۔ ایک بار کھانا کھایا اور کئی بار قہوہ چُسکایا۔ وقت ایسے نکلتا گیا جیسے جبریل اُڑ کے نکل جائے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے شام ہو گئی۔ محمود فاروقی نے چونکہ اگلے دن داستان گوئی بھی کرنا تھی اس لیے بیچ بیچ میں وہ طلسم ہو شربا پر اپنی اصلاحیں لیے جاتے تھے۔ اُس دن ہم رات دس بجے وہاں سے نکلے اور کیا بتائیں کیسے شاد نکلے۔ وہاں کھانے پر اور گفتگو کے دوران بہت تصویریں لی گئیں۔ دارین نے ہمیں آج تک ایک تصویر نہیں بھیجی۔ اے اللہ کے بندے کوئی دو چار تو بھیج دے۔ اِس ملاقات کے بعد فاروقی صاحب تو اِلہٰ آباد چلے گئے اور ہم کچھ دِن مرزا فرحت کی بیان کردہ مہرولی اورجُگ جُگ جینے والی شاہجہان آباد کی گلیوں میں پھیرے لگا کر اسلام آباد لوٹ آئے۔

یہ ۲۰۱۶ کا سال تھا اور پاکستان میں فاروقی صاحب سے ہماری تیسری ملاقات تھی۔ فیض فیسٹول لاہور میں آئے اور اِس بار بھی لمزیونیورسٹی میں ٹھہرے تھے۔ کچھ پروگرام لمز میں بھی تھے۔ یہاں ایک دو واقعات ایسے ہوئے کہ آپ فاروقی صاحب کے مزاج سے خوب واقف ہو جائیں گے۔ لمز میں داستان گوئی پراُن کا لیکچر تھا۔ ہم نے اپنے ساتھ ارسلان احمد راٹھور کو لیا اور لمز جا پہنچے ارسلان نوجوان ہے، جی سی یونیورسٹی لاہور میں لیکچرر ہے، شعر و نثر کو بہت کچھ سمجھتا ہے اور فاروقی صاحب کے تمام کام کو حفظ کیے بیٹھا ہے۔ سچ کہوں تو آئندہ زمانے میں ادبی تنقید کی باگ اِسی کے ہاتھ میں ہو گی۔ یہ ہمارا کہنا لکھ رکھو۔ خیر جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا پاکستان بھر کا اردو ادب سامنے دو زانو تشریف فرما تھا۔ اورینٹل کالج کے ایک اُستاد نے فاروقی صاحب کو لکچر کے لیے بلایا اور ستم یہ ہوا کہ اُس نے دعوت دینے کے لیے فراق کا شعر پڑھ ڈالا،،، آنے والی نسلیں تم پر رشک کریں گی ہم عصرو،،، اور ابھی دوسرا مصرع پڑھنے ہی والا تھا کہ فاروقی صاحب نے وہیں ٹوک دیا،، اور کہا، بس بس رہنے دو اور اپنی جگہ سے اُٹھ کر لکچر کی کرسی پر آ گئے۔ صاف لگ رہا تھا، فراق کا شعر پڑھ کر دعوت دینے پر فاروقی صاحب کا موڈ آف ہو گیا ہے۔ حیرت ہے اُس اُستاد صاحب کو دعویٰ تھا کہ اُس نے فاروقی صاحب کے تمام کام کو پڑھ رکھا ہے اور اُن کے خیالات و نظریات سے تمام و کمال آگاہ ہے مگر یہاں اُسے چھوٹی سی بات کا پتہ نہ چلا کہ فاروقی صاحب کو فراق کے نام ہی سے چڑ ہے اور اُسی کا شعر پڑھ کر دعوت دینے لگا اور شعر بھی نہایت بے کار قسم کا۔ اب آگے کی سُنیے لکچر شروع ہوا تو ایک صاحب جن کی عادت ہے کہ ہمیشہ کسی تقریب یا لکچر میں کھڑے ہو کر صاحبِ لکچر کے ساتھ تمسخرانہ گفتگو کر کے اپنی توجہ چاہتے ہیں اور پڑھے وڑھے خاک نہیں۔ یہاں بھی اُنھیں بار بار اُلٹے سیدھے سوال کر کے توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی سوجھی۔ جب ایک دو بار فاروقی صاحب کی جاری گفتگو کو ٹوک کر اپنا سوال کیا، پھر سوال کو خود ہی جواب بنا کر اِدھر اُدھر کے جملے لڑھکانے لگے تو فاروقی صاحب ایک دم بھڑک ہی تو گئے، کہنے لگے، ابے گھاگھس یہ کیا فضول بکے جاتا ہے۔ آخر تیرا مدعا کیا ہے؟ اور تو کون ہے، چُپ ہو کے نہیں بیٹھ جاتا۔ وہ صاحب بولے مَیں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں اور پروفیسر ہوں۔ اب فاروقی صاحب کا غصہ دو چند ہو گیا، کہا، او نالائق یہاں کئی ڈاکٹر لڑھکتے پھرتے ہیں۔ یہ سب جو سامنے بیٹھے ہیں، یہ بھی ڈاکٹر اور پروفیسر ہیں۔ چُپ بیٹھ رہو اور اُس کے بعد وہ صاحب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر داستان پر ایسا لکچر دیا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ایسی پُر تاثیر اور مغز بھری گفتگو آج تک نہ سُنی تھی مگر اُس پی ایچ ڈی صاحب کا مغز آج بھی خالی ہے، سچ ہے جس کا جیسا ظرف ہوتا ہے، ویسا ہی رزق اُٹھاتا ہے۔

اُنھی دِنوں اِسی سے ملتا جلتا واقعہ ظفر اقبال کے گھر پیش آیا لیکن اِس واقعہ سے پہلے ایک مزے کی تفصیل بتا دوں۔ ہوا یہ کہ کچھ عرصہ قبل یعنی ۲۰۰۵ کے قریب ہمیں اوکاڑا میں کسی نے بتایا کہ ظفر اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ اُنھیں فاروقی صاحب نے غالب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے۔ ہم اُن دنوں ادبا و شعرا کے ہاں محض نامعلوم تھے۔ کسی سے کچھ واقفیت نہ تھی مگر فاروقی صاحب کی کتابیں اور ظفر اقبال کی شاعری تو پڑھے ہی بیٹھے تھے اور حیران تھے کہ فاروقی صاحب نے یہ کیا کہا ہے، اور کیوں کہا ہے؟ اگرچہ شعرِ شور انگیز میں اُنھوں نے جا بجا ظفر اقبال کے اشعار کے حوالے دے کر اُن کی عظمت کو تسلیم کیا تھا مگر وہ اِنھیں غالب سے بڑا شاعر قرار دیں گے، اِس کی ہمیں خبر نہ تھی۔ خیر وقت نکلتا چلا گیا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ افتخار عارف صاحب نے ہمیں اسلام آباد لا بٹھایا۔ شاعروں سے ملنا جلنا ٹھہر گیا۔ وہیں ایک دن یہ ذکر چل نکلا اور ہم نے کہہ دیا، ظفر اقبال صاحب کا دعویٰ ہے کہ فاروقی صاحب نے اُنھیں غالب سے بڑا شاعر کہا ہے۔ اختر عثمان نے اُسی وقت ظفر اقبال کو فون کر دیا کہ ناطق کے اِس بیان کی کیا حقیقت ہے؟ اللہ جانے اُنھوں نے اُس وقت کیا جواب دیا البتہ دنیا زاد کے اگلے شمارے میں اِسی سے متعلق ایک مضمون کھینچ دیا۔ مضمون کا چھپنا تھا کہ چاروں اور ڈھول پٹ گئے۔ اُدھر فاروقی صاحب نے اِس بات کی سختی سے تردید کر دی۔ جب ہماری دہلی میں فاروقی صاحب سے ملاقات ہوئی، تب بھی اُنھوں نے اِس کی تردید کی اور کہا ظفر اقبال اپنے اُسلوب کا عہد ساز شاعر ضرور ہے مگر غالب سے اِس کا کوئی جوڑ نہیں۔ ہم جب لاہور آئے اور ظفر اقبال سے ملاقات ہوئی تو اُن کے پوچھنے پر ہم نے فاروقی صاحب کی تمام بات مِن عن بیان کر دی۔ تب تو ظفر اقبال نے اخباروں اور رسالوں میں کالم پہ کالم چڑھانا شروع کیے اور سخت ناراضی ہو گئی۔ فاروقی صاحب کو بیان سے پھِر جانے والا اور پتا نہیں کیا کچھ کہہ بیٹھے۔ اُدھر فاروقی صاحب بھی بگڑ گئے۔ اُنھوں نے اِس مسئلے میں ظفر اقبال کے بیان کو مکمل وضعی قرار دے کر بات ختم کر دی۔ سچ پوچھیں تو اِس معاملے میں ظفر اقبال زیادتی کر گزرے تھے۔ پھر جب فاروقی صاحب ۲۰۱۶ میں لاہور آئے تو اُنھوں نے کہا، میاں ناطق ظفر اقبال کے ہاں چلنا ہے۔ ظفر اقبال صاحب اُن دنوں لاہور میں اپنے بیٹے آفتاب اقبال کے فارم ہاوس پر تھے اور کچھ صحت کی درستی سے نہیں تھے مگر ملنے کو بے چین تھے۔ اُنھوں نے گاڑی بھیج دی اور ہم بیٹھ کر فارم ہاوس پہنچ گئے۔ اِس بار بھی مہر افشاں فاروقی صاحبہ ساتھ تھیں۔ غرض دونوں طرف سے دل صاف ہو گئے۔ شکر رنجیاں شیرینیوں میں بدل گئیں۔ بہت کچھ مہر و محبت کی باتیں ہوئیں اور گِلے شکوے کی ایک بھی نہ کہی۔ اب یہاں ایک اور مزے کا قصہ سُنیے، فاروقی صاحب نے پہلے بھی کئی دفعہ فراق کو بُرا شاعر کہا اور لکھا ہے اور یہاں مختلف باتوں میں جب اُس کی بات ہوئی تو بھی اُنھوں نے اُس بچارے کو روند کے رکھ دیا اور کہا، سالا پھکڑ تھا، شاعر کہاں تھا۔ وہیں ظفر اقبال صاحب کا بیٹا آفتاب اقبال بیٹھا تھا، اُس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ روز فرہنگِ آصفیہ سے ایک لفظ دیکھ کر آتا تھا اور ٹی وی پر اُس کے معنی بتا کر عوام الناس پر علمی و ادبی دھاک بٹھاتا تھا اور داد پاتا تھا۔

ہوا یہ کہ فاروقی صاحب کسی لفظ کے استعمال کی بابت بات کر رہے تھے، کہ فراق نے کتنے بُرے طریقے سے استعمال کیا ہے اور ہم سب چُپ بیٹھے سُن رہے تھے مگر آفتاب اقبال نے تو فرہنگ آصفیہ پڑھ رکھی تھی، بحث پر اُترنے لگے اور مزے کی بات کہ اُسے اُس لفظ کی نفسیاتی، جمالیاتی اور معنوی اُپج تو ایک طرف، تلفظ تک کا نہیں پتا تھا۔ فاروقی صاحب نے ایک دفعہ کہا، میاں فرہنگ سے زبان نہیں آتی، یہ تیرے ابا خوب جانتے ہیں مگر اُس نے بحث جاری رکھی۔ مَیں نے روکا اور اُسے خاموش رہنے کا کہا مگر وہ تو جیو ٹی وی کے علامہ تھے، میری کب سُنتے تھے۔ نہ چپ ہوئے اور پھر درمیان سے بول پڑے۔ اب فاروقی صاحب کا فشار خون تھرمامیٹر کے حکم سے باہر ہو گیا۔ ایک دم اُس کی طرف مڑ کر بولے، او بے جاہل مطلقِ! کیا ٹیں ٹیں کیے جا رہا ہے، گیدی کہیں کا۔ یہ تمھارا باپ جو بڑا شاعر ہے، یہ چُپ بیٹھا ہے، یہ ناطق جو بڑا شاعر بننے جا رہا ہے، یہ بھی خاموش بیٹھا ہے اور تُو بولے چلا جاتا ہے، چُپ ہو کے کیوں نہیں بیٹھتا۔ پھر جو فاروقی صاحب نے اُس کی درگت بنائی، کچھ نہ پوچھیے، تب تو صاحب وہ علامہ صاحب کچھ ہی دیر میں کان لپیٹ کے نکل لیے اور ہم جی میں بہت خوش ہوئے کہ صاحب آج اچھا پکڑا، مگر اگلے ہی پروگرام میں پھر فرہنگِ آصفیہ کھولے بیٹھے تھے۔ اب ٹی وی کے بھانڈ دیکھنے والوں کو کیا خبر، حضرت کتنے پانی میں ہیں۔ وہیں بیٹھے ہوئے ایک اور بھی درفتنی ہوئی، وہ کل بتائیں گے۔

۔۔۔۔

 

ظفر اقبال کے گھر وہیں تحسین فراقی صاحب بھی موجود تھے۔ سب کو کھلا معلوم ہے کہ فراقی صاحب جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور جیسا کہ معدودے چند کو چھوڑے کر جماعتیوں کی عادت ہے اپنی طرح کے مذہب کو سامنے رکھ کر ہر اُس آدمی سے بغض رکھتے ہیں جس کے ماتھے پر علم و ادب کی تھوڑی سی روشنائی بھی جھلکتی ہو۔ اِن کو مذہب کا بانس ایسا چڑھا ہوا ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وہاں بھی یہی ہوا، فراقی صاحب نے اِدھر اُدھر کی باتوں سے کہیں جوش صاحب کا نام لے کر اُسے مطعون کرنا شروع کر دیا۔ پہلے اُس کی شراب نوشی کو بیچ لایا اور اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگا۔ اِدھر مجھے شدید غصہ آ گیا لیکن بڑوں میں بولنا مناسب نہ سمجھا۔ فراقی صاحب جانتے تھے کہ فاروقی صاحب کو جوش کی شاعری کچھ پسند نہیں ہے اِس لیے کچھ زیادہ لبرٹی لے گئے مگر میری طبیعت بہت منغض ہونے لگی۔ ظفر اقبال بھی چپ بیٹھے سنا کیے۔ لیکن حد تب ہوئی جب فراقی نے اِسی گفتگو میں اقبال کی بات چھیڑ دی اور کہا کہ جوش اِس قدر احسان فراموش تھا کہ اقبال نے حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم کو خط لکھ کر جوش کو وہاں نوکری دلوائی اور وہی جوش اقبال کو گالیاں دیتا رہا۔ فاروقی صاحب نے فوراً اِس بات کی تردید کی مگر مجھے لگا کہ صرف تردید ہی حل نہیں ہے۔ اب مجھ سے نہ رہا گیا، مَیں نے کہا کہ فراقی صاحب، اقبال کے وہ خطوط جن میں اقبال خود سر اکبر حیدری اور نواب ذوالفقار سے دکن میں اپنی ملازمت کی منتیں کرتا رہا ہے، ابھی تک محفوظ ہیں۔ اُنھوں نے خود اِسے وہاں ملازمت نہیں دلوائی اور کہا یہ شاعر بندہ ہے اِسے کام نہیں آتا۔ اور جج کے عہدے پر تو ہرگز نہیں لگایا جا سکتا۔ حتیٰ کہ اقبال دونوں صاحبان سے ناخوش ہو گئے حالانکہ سر اکبر حیدری نے ۵۰۰ ماہانہ اقبال کا وظیفہ بھی لگا رکھا تھا۔ جسے خود وہاں نوکری نہ ملی وہ جوش کو کیسے ایک خط پر ملازمت دلوا گیا۔ اب مَیں چونکہ زیادہ تپ گیا تھا اور چلتے چلتے یہ بھی کہہ دیا، کہ مولوی محمد حسین آزاد ۱۹۱۰ تک زندہ رہے، اور اقبال اُن کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا مگر مجال ہے زندگی میں اقبال نے کبھی مولانا محمد حسین آزاد سے ملنے کا ارادہ کیا ہو یا اُن کے بارے میں کوئی خیر کے کلمات ہی ادا کیے ہوں، ایک جملہ تک اُس کی تعریف میں نہیں کہا۔ ہاں مگر حالی، شبلی اور سر سید کے قصیدے کہتا رہا۔ اپنی نظموں میں اُن کا ذکر کرنا نہ بھولا۔ معاملہ در اصل یہ تھا۔ اقبال کو معلوم تھا آزاد تو مجذوب ہو گیا ہے، اِس سے مجھے کیا ملے گا؟ البتہ حالی، شبلی اور سر سید حتیٰ کہ حسن نظامی کچھ نہ کچھ نجی فائدے میں کام آ سکتے ہیں لہذا اُن کا جا بجا ذکر کرتے تھے۔ جو آدمی اپنے ذاتی مفاد اور شہرت کے لیے اتنا باریکی سے سوچے وہ جوش کو کس آلو پر رکھے گا۔ اقبال بلا شبہ عظیم شاعر تھا مگر معذرت کے ساتھ عظیم انسان بالکل نہیں۔ میری اِس بات پر حضرت صاحب بھِنا ہی تو گئے۔ اب مجھے کیا، مَیں نے کون سا اِن لوگوں کی ڈگڈگی پر ناچنا ہے کہ یہ باتیں نہ کہوں۔ ایک اور بات کہتا جاؤں، احباب کہیں گے میاں کچھ خیال کرو فراقی صاحب بزرگ آدمی ہیں۔ تو اُن سے عرض ہے خود جوش صاحب جنھیں وہ گالیاں دے رہے تھے، وہ اُن سے بھی زیادہ بزرگ آدمی تھے۔

خیر جی آدھی رات وہیں ہو گئی، تب پر تکلف کھانا کھایا اور نکل آئے۔ البتہ ظفر اقبال صاحب اور فاروقی صاحب کے دلوں کا مَیل ہمیشہ کے لیے جاتا رہا۔ اُس کے بعد فاروقی صاحب بھارت چلے گئے لیکن مَیں گاہے گاہے ظفر اقبال کی طرف جا کر اُن کی فاروقی صاحب سے فون پر بات کراتا رہا۔ اور قسمت سے مَیں تب لاہور چلا گیا تھا۔

اب ایک بات آپ دوستوں کے گوش گزار کر دوں۔ ۲۰۱۸ میں مَیں نے ایک پروگرام بنایا کہ جیسے مولانا محمد حسین آزاد نے آبِ حیات لکھی ہے اور داغ سے پہلے شاعروں کا اُس میں تذکرہ ہے، ایک آبِ حیات مَیں بھی لکھوں اور اُسی طرز پر لکھوں مگر اُس کتاب کا نام بابِ حیات رکھوں۔ اُس میں داغ دہلوی سے لے کر اب تک کے پچاس شاعروں کا تذکرہ لکھوں۔ زبان بھی ویسی ہی ہو جیسی ’’فقیر بستی میں تھا‘‘ کی زبان ہے۔ فاروقی صاحب سے مَیں نے اپنے اِس ارادے کا ذکر کیا۔ اور مفصل اُن سے گفتگو ہونے لگی۔ وہ میری اِس بات پر بہت خوش ہوئے اور مجھے چالیس نام چُن کر دیے کہ اِن کو اُس کتاب میں شامل کرنا اور باقی دس نام اپنی مرضی کے رکھ لینا۔ اِس سارے معاملے کو ارسلان احمد راٹھور بھی جانتا ہے۔ یہ چالیس نام میرے پاس محفوظ ہیں۔ اِسی طرح کچھ نثر کے دیوتاؤں پر بھی لکھوں گا۔ ۲۰۱۸ میں فاروقی صاحب نے مجھے ایک انوی ٹیشن لیٹر بھجوایا کہ میاں ایک بار مل لیجیو تاکہ اُس پراجیکٹ پر بیٹھ کر تسلی سے پروگرامنگ کر لیں۔ یہ لیٹر سُمت بترا کے ذریعے بھجوایا جو ہندوستان کا ایک بڑا بزنس مین ہے اور ہمارا بھی دوست ہے۔ اور ویزے کی بہت کوشش کی مگر مودی کی برکت سے ویزہ نہ لگا جس کا فاروقی صاحب کو اور خود مجھے بہت قلق ہوا۔ البتہ اُن سے گاہے گاہے فون پر باتیں ہوتی رہیں۔

پچھلے دِنوں وہ عکس پبلی کیشن والوں سے کافی بگڑ گئے اور مجھے کہنے لگے میاں ناطق دیکھو اُنھوں نے میرے ساتھ کیا کیا، مَیں نے کہا فاروقی صاحب آپ ہمارے لیے اُنھیں معاف کر دیجیے کہ وہ ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے ناطق میرا ارادہ ہے کہ آپ کے تمام کام پر ایک مفصل مضمون لکھ دوں مگر تھکاوٹ بہت ہو جاتی ہے۔ مَیں نے عرض کیا حضور آپ اب لکھنے وکھنے کا کام چھوڑیے اور آرام کیجیے، آپ نے جو کچھ جملے لکھے ہیں وہی سند ہیں۔

اور پھر فاروقی صاحب کو کرونا ہو گیا۔ ایک دن جہلم بک کارنر پر بیٹھ کر مَیں نے اور امر شاہد نے بہت دیر اُن سے باتیں کیں۔ کہہ رہے تھے اب ٹھیک ہو رہا ہوں مگر اُنھیں بہت سانس بھر آتی تھی اور مجھے یہی اندیشہ تھا اور وہ اندیشہ سچ ہوا۔ اُس کے تیسرے ہی روز چل دیے۔ اور عالم تمام سیاہ پوش ہو گیا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

فاروقی صاحب کی تنقید اور تخلیق کے بارے میں ہم کیا رائے دیں گے۔ ہم نے کہیں لکھا تھا کہ فاروقی صاحب ہمارے دیوتا ہیں اور دیوتاؤں کو پوجا جاتا ہے، اُن پر تبصرے نہیں کیے جاتے۔ پھر بھی مناسب ہے کہ یہاں اُن کی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت کی اُپج کا کچھ بیان ہو جائے۔ فکشن کے حوالے سے تو یہ ہے کہ جس قدر مغل سماج اور معاشرت کی زندگی کے عوامل ہیں، وہ اُن کی کہانیوں اور ناول میں ایسے ڈرامائی طور سے سامنے آتے ہیں کہ قاری اُس ماضی کو پڑھنے کی بجائے دیکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فاروقی صاحب کا قاری، قاری نہیں ہوتا، ناظر ہوتا ہے اور وہ نظارہ بیں بھی ایسا کہ فاروقی صاحب کے پیدا کردہ زمانوں کے فرد کا خود روپ دھار لیتا ہے اور زندگی گزارتا ہے اُنھیں زمانوں میں، اُنھیں افسانوں میں، اُنھی مکانوں میں۔ بلکہ یوں کہہ لیں فاروقی صاحب کا ناظر صدیوں کے اوراق تہہ کر کے دہلی کے قہوہ خانوں میں قہوہ نوشی کرتا ہے، حویلیوں میں مجلسیں جماتا ہے، کٹڑوں میں ہمسائگی رکھتا ہے، چوکیوں اور چوباروں پر بیٹھکیں کرتا ہے اور اِن سب میں اُس کی تمام محسوسات سے لے کر کیفیات تک فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے، جب فاروقی صاحب نے کئی چاند تھے سرِ آسماں میں تراب علی خاں کو ٹھگوں سے مروایا، مجھے اول تو کئی دن تک خواب میں تراب علی خاں کا ہاتھی گھوڑوں کے بیوپاری کی حیثیت سے سفر کرنا، پھر سفر کے دوران شہروں اور بیابانوں کی منظر کشی اور آخر کار ٹھگوں کا اُس کو مارنا دکھائی دیتا رہا، پھر اِس بات پر کئی مہینے غصے میں رہا، آخر تراب علی کو ضرورت کیا تھی ٹھگوں پر اعتماد کرنے کی اور جو نواب شمس الدین کی پھانسی کا واقعہ تھا اُس کے تو ہم ایسے ناظر بن گئے کہ انگریزوں کے پانچ سو گھُڑ سوار سپاہی، پھانسی کا جھولا اور نواب کی پھانسی گھاٹ پر آمد ابھی تک آنکھوں میں اَٹکی ہوئی ہے۔ اِسی طرح سوار اور دوسری کہانیاں اور قبضِ زماں کے زمانے اور اُن کی تصویریں، مرزا فرحت اور مولوی آزاد کے بنائے ہوئے مرقعوں سے یکسر مختلف ہونے کے باوجود اُن سے ایسے متصل ہیں کہ قاری کے ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔ فاروقی صاحب کا ایک ایک افسانہ ایسا متحرک مرقع ہے جس میں زمانوں کی شبیہوں کے رنگ آبِ حیات میں گُندھ کر صفحۂہستی میں بکھیرے گئے ہیں۔ کوئی شک نہیں، اُن کی تحریریں ایک طرف آنکھوں کو دوربین عینکیں بخشتی ہیں تو دوسری طرف زبان کی گرہیں کھولتی ہیں۔ ہم نے تو بھائی دہلی اور اُس کے مضافات کی جو سیر کی ہے اُس میں ستر فی صد فاروقی صاحب کی تحریروں کا کمال ہے۔ ہم نے بس اتنا کیا، اُنھیں پڑھ گئے۔ اِس قبضِ زماں ہی کو لیجیے۔ مشکل ایک سو صفحات کا ناولٹ ہے مگر جیسی پرانی دہلی کو اُس میں مصور کیا گیا ہے، اُنھیں کا کام تھا۔

فاروقی صاحب کے تنقیدی کام کو آپ تخلیق کی جمالیاتی پرتوں کے تہہ در تہہ مطالعے کا نام دے سکتے ہیں۔ فاروقی صاحب تنقید میں فن پارے کو سمجھانے کی بجائے خود سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِن دونوں یعنی قاری کو سمجھانے اور خود سمجھنے کے نقطہ ہائے نظر میں فرق یہ ہے کہ جب کوئی نقاد سمجھانے کی کوشش کرے تو سمجھیں نقاد تخلیق کار پر اپنی نظریاتی اساسوں کا حکم لگا رہا ہے۔ اِس عمل میں وہ فن پارے کو نہ صرف اپنے دماغ کے محدود اور سطحی دائرے میں لے آتا ہے بلکہ اپنے قاری کو بھی اُسی محدود اور سطحی بیانیے اور جمالیات میں بند کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جو قاری تو ایک طرف نقاد کے سیکھنے کی اہلیت کو بھی کھا جاتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک نقاد صاحب جو آجکل ایک ادارے کے انچارج بھی ہیں، کی اِسی سوچ کی غماز ایک کتاب منظر پر آئی ہے،’’نظم کیسے پڑھیں‘‘۔ اول تو اِس کتاب کا نام ہی ایڈورڈ ہائرچ کی کتاب، ہاؤ ٹو ریڈ پوئم سے چرایا ہوا ہے۔ اگرچہ موجودہ پاکستانی نقاد کی اِس کتاب کو اُس سے کچھ علاقہ نہیں مگر آپ نے دیکھا کتاب کا عنوان ہی پکار پکار کر نقالی، تنگ نظری اور محدود رویے کا اعلان کر رہا ہے۔ یعنی اگر آپ نے یا کسی نے بھی آئندہ اِس کتاب کو پڑھے بغیر کوئی نظم پڑھی تو آپ کا یہ قدم غلط ہو گا کیونکہ بقول نقاد اُس نے طے کر دیا ہے کہ جو فارمولا اُس نے نظم پڑھنے کا پیش کیا ہے، وہ حتمی اور بے نقص ہے اور اُس سے آگے نہیں جایا جا سکتا، نہ اُس سے زیادہ سیکھا جا سکتا ہے۔ بر عکس اِس کے فاروقی صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں اور اُسے امکانات دیتے ہیں۔ وہ امکانات لفظ کی لغت کی بجائے، سماج، تاریخ، محاورے اور روز مرہ کی مختلف شکلوں اور رعایتوں سے کشید ہوتے ہیں۔ اُن امکانات کی روشنی میں قاری کو فن پارے کے سمجھنے میں اور اپنی طرف سے نئی منزلیں تلاش کرنے میں معاونت ملتی ہے۔ فاروقی صاحب کے یہ امکانات تعقل کے ساتھ ساتھ جمالیاتی ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ادب میں تنہا تعقل ہمیشہ راہ کو محدود کر دیتا ہے اور جمالیاتی تعقل سے مزید راہ پیدا ہوتی ہے۔ آپ فاروقی صاحب کی کوئی تنقیدی کتاب اُٹھا لیں، شاعری پر ہو یا فکشن پر۔ اُن کی تنقیدی بصیرت اشیا کی ٹائپیکل حالت کو رد کرتی ہے اور اُس جمالیاتی استعارے کی تلاش میں رہتی ہے، جسے شاعر کی اختراع ساز طبیعت اپنے اندرون سے اُٹھاتی ہے۔ اُن کے ہاں ادب میں نیا استعارہ سب سے اہم ہے اور وہ اساطیری وجود کا حامل ہوتا ہے، نہ کہ جدید و مابعد جدید ادبی تھیوریاں۔ اِس معاملے میں اُن کی کتاب، شعر، غیر شعر اور نثر پڑھنے کے لائق ہے۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے فاروقی صاحب نے شعر شور انگیز میں میر کے اکثر اشعار میں خود معنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اُن صاحب کی بات کا جواب یہ ہے کہ اُنھوں نے لفظوں کو لغت سے پہچاننے کی کوشش کی ہے، جبکہ میر جیسے شاعر کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے جب تک فاروقی صاحب کی تنقید سے شعور حاصل نہ کیا جائے گا لفظ اپنی اصلی پہچان نہیں دیں گے۔ وہ شعور یہ ہے کہ شعر کو سمجھنے کے لیے لفظ کو رعایت سے پہچانا جائے اور ایک لفظ کی جتنی رعایتیں دریافت ہو سکتی ہیں، اُن سب کا احاطہ کیا جائے۔ اِس سے فائدہ یہ ہو گا کہ کوئی نہ کوئی رعایت ایسی نکلے گی جس سے شعر کے اندر موجود بالکل نئے معنی دریافت ہوں گے اور وہی معنی شاعر کی عظمت کی دلیل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر شعر کو بنیادی اور بیان کردہ بوسیدہ تھیوریوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو نئی رعایت کی دریافت تو ایک طرف، بڑے شاعر کے شعر کو سمجھنا ہی محال ہو جائے گا۔ جس آدمی نے شعر شور انگیز اور تفہیم غالب کا مطالعہ کر رکھا ہے، اُس کے لیے یہ بات بالکل عجیب نہیں کہ وہ شعر کی تفہیم کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ لفظ کے تاریخی، سماجی، معاشرتی اور ارتقائی مرحلوں سے اُس کی مختلف رعایتوں کا مطالعہ کرتا معنی کی اُس تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جہاں شاعر نے نئے معنی پیدا کرنے کے لیے غوطہ زنی کی ہے اور نئے استعارے کی شکل وضع کی ہے۔ ظاہر ہے اگر نئے استعارہ کی پیدائش آسان نہیں تو اُس کو سمجھنے کی تربیت بھی کچھ آسان کام نہیں۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ شعر کی لغتی شرح کسی بھی شعر کے لیے زہر ہے لیکن قاری کو لغتی شرح سے دُور کرنے کا کام سوائے شمس الرحمان فاروقی کے آج تک کسی نے نہیں کیا۔

٭٭٭

This entry was posted in زمرے کے بغیر. Bookmark the permalink.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے