مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔

مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔

سمت کا جشن زریں مبارک ہو، زیر نظر شمارہ آپ کے اپنے جریدے ’سمت‘ کا پچاسواں شمارہ ہے۔ کئی لحاظ سے یہ ایک اہم عہد ساز جریدہ رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ جدیدیت کا علم بردار ماہنامہ ’شبخون‘ الہ آباد بھی ایک اور عہد ساز جریدہ رہا ہے۔ اور یہ اتفاق بھی دیکھئے کہ ’شبخون‘ کا آخری شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ء کو منظر عام پر آیا، اور ’سمت‘ کا پہلا شمارہ بھی دسمبر ۲۰۰۵ء کا ہی تھا۔ گویا یہ اسی صالح اور صحتمند ادب کا تسلسل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میری شعوری کوشش یہ رہی ہے کہ ’سمت’پر میں کوئی لیبل نہ لگنے دوں۔ اس لیے بھی یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ علامتی طور پر ’شبخون‘ کے اس آخری شمارے سے بھی کچھ تخلیقات ضرور منتخب کی جائیں۔ خیر، اس کا ذکر بعد میں۔ پہلے کچھ اپنی بات ہی کی جائے۔
ارادہ تھا کہ جنوری میں ہی شمارہ ۴۹ کے اجراء کے بعد، اُسی شمارے میں شمس الرحمٰن فاروقی کی یاد میں گوشہ شامل کر دیا جائے، اور اس کی تیاریاں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ صرف ایک تخلیق کے انتظار میں وہ گوشہ ۱۰ جنوری تک بھی شائع نہیں ہو سکا، اور اسے مؤخر کرنا پڑا۔ پھر ادھر یہ وجہ بھی تھی کہ مجھے دھندلا دکھائی دینے کی پریشانی جو کرونا کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی،مزید بڑھتی جا رہی تھی، یہاں تک کہ دونوں آنکھوں میں موتیا بند کی تشخیص ہوئی اور فوراً آپریشن کا مشورہ دیا گیا۔ چنانچہ ۱۳ جنوری کو ایک آنکھ کی سرجری ہو گئی، لیکن اس کے باعث ایک ماہ تک میں کچھ لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں رہا۔ اور جب وسط فروری میں نئی عینک بھی حاصل ہو گئی تو اتنی دیر ہو چکی تھی کہ یہی مناسب سمجھا گیا کہ یہ گوشہ، بلکہ ضمیمہ، اب اسی جشن زریں نمبر کی زینت ہنے۔ ابھی دوسری آنکھ کی سرجری ان شاء اللہ رمضان المبارک کے بعد کروانے کا ارادہ ہے۔
جیسا کہ اس شمارے کے بارے میں سوشل میڈیا میں اعلان کیا گیا تھا کہ اس جشن زریں نمبر کے دو حصے ہوں گے۔ پہلا حصہ ڈائجسٹ ہو گا یعنی ’سمت‘ کے اجراء کے بعد جو جریدے پرنٹ میڈیا میں شائع ہوئے اور جن کا انٹر نیٹ پر وجود نہیں ہے، (اگر ہے بھی تو سکین شدہ پی ڈی ایف فائل کی شکل میں) ان جریدوں کا انتخاب شامل کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کئی مدیران کو متوجہ کیا تھا کہ وہ اپنے جریدوں میں جن تخلیقات کو اہم سمجھیں، ان کی ان پیج فائل مجھے فراہم کر دیں۔ مصنفین سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ اپنی شائع شدہ تخلیق کی ان پیج (یا یونی کوڈ) فائل مجھے بھیجیں۔ یہ تو شاید آپ کو علم ہو گا کہ میں ایک بڑے ادارے کا کام تنہا کرتا ہوں، اس لئے یہ میرے بس کا نہیں تھا کہ سارا مواد خود ٹائپ کر سکوں۔ لیکن مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ مطلع کرنا پڑ رہا ہے کہ چار چھ تخلیقات کے علاوہ کسی نے اسے در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ آخر مجھے ہی اس کام کا بیڑا اٹھانا پڑا، اور اپنے ذخیرے کے رسالوں میں سے کچھ غزلیں نظمیں تو میں نے ہی ٹائپ کر لیں اور کچھ مواد برقی کتب کی کمپوز شدہ شکل کی فائلوں میں دستیاب ہو گیا۔ بہر حال جو کچھ بھی حاصل ہو سکا ہے، دوستوں کی خدمت میں پیش ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ اس صدی کے ادب کے ہر مکتبِ فکر کی نمائندگی ہو سکی ہے۔
جشن زریں نمبر کا دوسرا حصہ، اس صدی کی اہم کتب پر شامل کرنے کا تھا، لیکن اس سلسلے میں بھی تعاون کی مکمل کمی رہی، مجبوراً اسے محض ناول کی حد تک محدود کیا جا رہا ہے، البتہ اس میں آپ کچھ ناولوں کے اقتباسات بھی پڑھ سکیں گے۔
اگر عدم تعاون کی یہی حالت رہی تو بہت ممکن ہے کہ یہ شمارہ ’سمت‘ کا آخری شمارہ بھی ہو!
اس ضخیم شمارے کی وجہ سے کچھ سلسلے منقطع ہو گئے ہیں، اور کچھ کو دوسروں میں ضم کر دیا گیا ہے۔ جیسے عقیدت کے تحت بھی ظفر اقبال کی حمدیہ غزلیں الحمراء سے اخذ کی گئی ہیں (یا ٹائپ کی گئی ہیں)۔ غالب عرفان کے یاد رفتگاں کے گوشے کی نعت بھی عقیدت میں شامل ہے۔ جب کہ امرتا پریتم کی نظم کا ترجمہ ڈائجسٹ کی ذیل میں ہی ہے۔
ا۔ ع

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے