معمول
میری موت
جھیل میں پھینکے جانے والے کنکر جیسی ہی تو ہو گی
کچھ یاروں پیاروں کے دل میں
ہوک کی لہر ابھرتی ہے
کچھ لمحوں کو غم کے دائرے پھیلتے ہیں
پھر پانی پانی سے مل جاتا ہے
دائمی فرقت کا ہر زخم
۔۔۔۔۔۔ چار دنوں میں سل جاتا ہے
٭٭
دھوکا
خواب میں کل شب
میرا بڑھاپا مجھ کو ڈھونڈ رہا تھا
اس سے پہلے کہ وہ مجھے آ لیتا
میں اس کیو چکمہ دے کر
بچی کھچی جوانی کا دھوکا دے کر
اپنی قبر میں جا لیٹا
٭٭
شعر و حکمت، کتاب ۹، ۲۰۰۶ء، مدیر اختر جہاں، مرتبین: شہریار، مغنی تبسم
٭٭٭