شمس رحمن عرف فاروقی
تھے جو شب خون کے سپہ سالار
ہاتھ میں لے کے ذو الفقارِ قلم
سومناتِ ادب پہ کی یلغار
دہریوں کو نکالا قلعوں سے
کر دیے ان کے حوصلے مسمار
زعفرانی تھا گیانؔ یرقانی
اس سے دنیا کو کر دیا ہشیار
میرؔ و غالبؔ کے شعر۔ شور انگیز
اور باقی کے شعر بے معیار
چاند چہرہ وزیر خانم کا
تھا سرِ آسمان رونق بار
نثر کا امتیاز سمجھایا
شعر اور غیر شعر کا معیار
درس دیتے رہے بلاغت کا
لکھ کے بوطیقۂ جدید آثار
آپ کے تبصرے بھی تھے بھرپور
اور تنقیدِ نَو بھی خوش اقدار
رد کیا جوشؔ ملسیانی کا
بن کے اقبال کا سپہ سالار
دشمنوں کی خبر وہ لیتے تھے
تھا ’’خبر نامہ‘‘ ان کا اک ہتھیار
تھے وہ علمِ عروض کے ماہر
تھے زبان و بیاں کے شاہ سوار
بے گماں دشمنوں کے دشمن تھے
جاں نثاروں کے اور یاروں کے یار
ناصرِؔ کاظمی کبھی مشتاقؔ
ان کی نظروں میں تھے فراقؔ سے پار
بڑھ کے غالبؔ سے ہے ظفرؔ اقبال
کبھی ایسا بھی کر دیا اظہار
لے لیا یہ بیان پھر واپس
اور ان اسناد کو کیا بے کار
وہ بدلتے رہے ہیں ترجیحات
اپنے الفاظ پر نہ تھا اصرار
خود میں اک انجمن تھے فاروقی
زیبِ سر کر کے علم کی دستار
قلعہ شعر و ادب کا تاریخی
اس دسمبر میں ہو گیا مسمار
خیرؔ تاریخ کوئی ’’پاک‘‘ نکال
وقنا ربّنا عذاب النار
ھ1465-23=1442
٭٭٭