شہناز نبی کی نظمیں ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی

 

شہناز نبی کی یہ نظمیں ایک بہت پیچیدہ ذہن اور با شعور شخصیت کا پتہ دیتی ہیں۔ ابہام اور استعارہ ان نظموں کا بنیادی وصف ہے۔ لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ شاعر کو ہم سے توقع ہے کہ ہم اس کی بات سمجھ سکیں گے، یا سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ضرور کریں گے۔ زیادہ تر نظمیں برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی است کی مثال میں پیش کی جا سکتی ہیں۔

یہ تو ظاہر ہے کہ جدید عورت کی شاعری میں بعض مسائل، بعض صورتیں، بعض خواب، بعض خوابوں کی شکستگی، یہ سب باتیں ضرور ہوں گی۔ لیکن اگر ان باتوں کو نظم کر دینے سے شعر بن جاتا تو بھلا کیا مشکل تھی؟ یہ چیزیں کچھ خارج کے تجربات ہیں اور کچھ باطن کے خواب یا تجربات ہیں تو سہی، لیکن انھیں نظم بننے کے پہلے کم و بیش اسی طرح کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے جو غزل کے کسی مشہور مضمون کو نیا رنگ یا نئی جہت دے کر اپنا شعر بنانے کے دوران پیش آتے ہیں۔ جس طاقت کے ذریعہ شاعر یہ کام انجام دیتے ہیں، آسان زبان میں اسے تخیل کی طاقت کہا جاتا ہے۔ لیکن تخیل کی طاقت کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ بیان کرنا غیر ممکن ہے۔ تخیل کی طاقت ہے کیا، اور تخیل کوئی طاقت ہے بھی کہ نہیں، یہ سوالات اب تک لاینحل رہے ہیں۔

شہناز نبی کی نظم میں کچھ سیاسی معاملات کی جھلک ہے۔ لیکن اس سے زیادہ وہ معاملات ہیں جنھیں ہم عام زبان میں تانیثی معاملات کہہ سکتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ جن معاملات کی کار فرمائی ان نظموں میں ہے وہ کسی بیچین لیکن سوچتی ہوئی ہستی کے سوالوں اور کبھی کبھی ان سوالوں کا جواب نہ ملنے پر محزونی اور برہمی کے معاملات ہیں۔ بعض نظموں میں کچھ انقلاب اور تبدیلی کی بات ہے، لیکن وہ ’’بڑھے چلو‘‘ اور ’’صبح ہو کے رہے گی‘‘ وغیرہ قسم کی باتیں نہیں ہیں۔ کئی نظموں میں تو تلخی اس قدر ہے کہ لگتا ہے نظم کا متکلم ان باتوں کا خاکہ اڑا رہی ہے۔ یا شاید وہ وہاں پہنچ چکی ہے جہاں صبح کے مناظر جلوہ فرما تھے۔ لیکن پھر اس نے اس نے جگہ سے واپسی اختیار کی، پسپائی کے معنی میں نہیں، بلکہ وجود کے متزلزل ہونے کے معنی میں، کہ میں وہاں نہیں ہوں لیکن میں سمجھی تھی کہ ’’وہاں‘‘ کسی جگہ یا وقت کا نام ہے اور اب معلوم ہوا کہ ’’وہاں‘‘ صرف ایک کیفیت ہے، جو کبھی کبھی وجود میں آتے ہی غائب ہو جاتی ہے۔

تلخی، یا فریب شکستگی کی لائی ہوئی کلبیت، یا زمانے کے نا مساعد ہونے کا تجربہ (کہ زمانہ ہمیشہ نا مساعد رہتا ہے، کبھی بھی ہمارا ساتھ نہیں دیتا) یا اپنے اندر جھانک کر دیکھنا اور وہاں کئی چیزیں ایسی پانا جو سمجھ میں نہیں آتیں، ان تجربات کو بیان کرنے کے لئے شاعرکے قلم میں وہ صلاحیت ہونا چاہیئے جسے ’’زور‘‘ کہتے ہیں، اور اس زور کا سب سے اہم اور زرخیز سر چشمہ خود ترحمی کا شکار بننے سے انکار کرنے کی قوت ہے۔ یہاں انفعالیت کے لئے کوئی کرسی نہیں، لیکن تجربے سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ ضرور ہوتا ہے۔ عشق اور عورت دونوں اکثر ہمارے ذہن میں ایک ساتھ جاگزیں رہتے ہیں۔ لیکن عشق جھوٹ بھی بولتا ہے، اور اس جھوٹ کا شکار ہم نہیں ہوتے، عورت ہوتی ہے، یہ انسانی تجربے کی وہ جہت ہے جس سے اکثر مرد واقف نہیں ہوتے، یا یوں بھی کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ واقف ہو بھی نہیں سکتے۔

اسی طرح، انقلاب اور آزادی ہمارے ذہنوں میں اکثر ساتھ ساتھ جلوہ دکھاتے ہیں۔ انقلاب چاہے صرف حالات کا تختہ ہی پلٹنے کا نام کیوں نہ ہو، لیکن کم سے کم گذشتہ دنیا سے ہمیں دور تو پھینک دیتا ہے۔ مومن کا کیا عمدہ شعر ہے ؂

اے حشر جلد کر تہ و بالا جہان کو

یوں کچھ نہ ہو امید تو ہے انقلاب میں

افسوس کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کبھی کبھی انقلاب کا نہ ہونا ہی زندگی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ معشوق کی نگاہ لطف ہم پر پڑے تو گویا ہماری زندگی میں انقلاب آ جائے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اس کی ایک نگاہ ہمارے خرمن ضبط، بلکہ خرمن حیات ہی کو تاراج کر سکتی ہے۔ مومن کو پھر سنئے ؂

پامال اک نظر میں قرار و ثبات ہے

اس کا نہ دیکھنا نظر التفات ہے

انقلاب اور عشق دونوں ہی ہم عام انسانوں کے لئے رومانی تصورات ہیں۔ یعنی دونوں کیفیات کی بدولت شروع شروع میں دنیا کی ہر چیز گلابی، نارنجی اور شفقی رنگ کی نظر آتی ہے، لیکن پھر بقول میر ؂

نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں

آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا

ایسے حقائق کو شہناز نبی ہی شاید بہتر سمجھ سکتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کی نظر (کم سے کم ان کی نظموں میں) مآل کار کو اس طرح دیکھ سکتی ہے کہ ہونے پر خوشی ہے اور انجام پہلے سے معلوم ہے، پھر بھی زندگی کو ایک دلچسپ اور رومانی مہم یا کھیل کی طرح کھیل سکنے کی سکت ہے۔ ان کی مختصر سی نظم ’’گھوڑے کی پیٹھ، تم اور میں‘‘ یوں ختم ہوتی ہے:

اک پیاسا اگنی کنڈ میرا منتظر ہے

اور پدمنی شعلوں کو سیراب کرے گی

لیکن بس ایک بار

گھوڑے کی پیٹھ

پرتھوی راج اور میں

اسی طرح، نظم ’’اوندھے منھ گرنے سے پہلے‘‘ کے پہلے دو مصرعے ہیں:

کب تک یوں ہی برستا رہے گا چابک

میری تھکی ہوئی پیٹھ پر

اور نظم یوں ختم ہوتی ہے:

شاید اک دم سے رک جاؤں

تماشا دیکھوں

اپنے پرزوں کے اڑنے کا

لیکن ان کا کیا ہو گا

جنھوں نے مجھ پر داؤ لگا رکھے ہیں

ایسی نظمیں پڑھ کر زندگی پر سے اعتبار اٹھنے لگتا ہے لیکن نظم کی متکلم خود ہمارا وجود بننے لگتی ہے۔ اس قدر تلخ لیکن خود آگاہ ہم بھی ہوتے تو کیا برا تھا۔’’مجھے مت اس طرح دیکھو‘‘ میں انقلاب کی رومانیت غالب آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن انقلاب کی ناکامی میں بھی جو کشش اور دلفریبی ہے وہ متکلم کے مخاطب کو (اور شایدخود متکلم کو) رونے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ نہ رونے کی تلقین اسی لئے ہے کہ آنسوؤں پر اختیار نہیں ہے:

وہ رستے

جو کہ کترا کر نکل جاتے ہیں منزل سے

وہ صحرا جن کی وسعت پر گلستاں ناز کرتا ہے

وہ سپنے جو کہ شرمندہ نہ ہوں تعبیر کے ہاتھوں

انھیں رویا نہیں کرتے

نظم ’’اپدیش‘‘ میں امریکہ کو طرح طرح سے چنوتی دی گئی ہے اور اسے متنبہ کیا گیا ہے کہ:

ہم نے اب ساری نوآبادیات پر کڑے پہرے لگا دئیے ہیں

جہاں نوجوانوں کو جغرافیہ

اور بچوں کو تاریخ کی تعلیم نہیں دی جاتی

جہاں مائیں خواب دیکھنے

اور بہنیں حوصلے بڑھانے لگتی ہیں

لیکن نظم کا عنوان ’’اپدیش‘‘ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ متکلم شاید اپنے مقصود سے مخلص نہیں ہے اور یہ سیاسی باتیں ہیں، ان میں حقائق کی تلاش ذرا احتیاط سے کرنی چاہیئے۔’’تم، میں اور وہ‘‘ میں حقائق زیادہ صاف نظر آتے ہیں اور انھیں سیاسی بھی کہا جا سکتا ہے اور ذاتی بھی۔ یہ نظم جس درون بینی کی نظم ہے اس تک پہنچنے کے لئے نہ جدید انسان کے پاس راستے ہیں اور نہ جدید رہنما کے پاس وسائل۔ یہ نظم بیک وقت غیر معمولی عشقیہ نظم ہے اور سیاسی بصیرت کے وزن کو بھی اٹھائے ہوئے ہے۔ نظم یوں ختم ہوتی ہے:

میں تمھیں بالواسطہ یابلاواسطہ

ایک لمحے کو بھی پا سکوں

تو صدیاں اسے دان کر دوں

جس نے میرے اور تمھارے درمیان

یہ فاصلے رکھے ہیں

اب نظمیں ملاحظہ کیجئے۔ سب نظمیں شہناز نبی کے تازہ مجموعے ’’پس دیوار گریہ‘‘ سے لی گئی ہیں۔ جگہ اور وقت کی تنگی کے باعث مزید نظمیں انتخاب میں نہ لے سکا لیکن یہ پوری کتاب نہایت عمدہ اور بالکل منفرد شاعری سے بھری ہوئی ہے۔

 

(۱)

گھوڑے کی پیٹھ، تم اور میں

 

بھری سبھا میں انتظار رہے گا تمھارا

مجھے یقین ہے تم آؤ گے

ہزاروں شاطر نگاہوں

پر پیچ گھاتوں کے درمیان سے

صاف نکل جائیں گے ہم

چاند ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرے گا

ہوائیں آنچل میں گرہیں ڈالیں گی

جانتی ہوں

اک پیاسا اگنی کنڈ میرا منتظر ہے

اور پدمنی شعلوں کو سیراب کرے گی

لیکن بس ایک بار

گھوڑے کی پیٹھ

پرتھوی راج اور میں

*

 

 

(۲)

اوندھے منھ گرنے سے پہلے

 

کب تک یوں ہی برستا رہے گا چابک

میری تھکی ہوئی پیٹھ پر

سرپٹ بھاگتے بھاگتے

میری سانسیں اکھڑ چکی ہیں

آنکھیں حلقوں سے باہر

میرے ساتھ پہلا قدم مارنے والے

جانے کہاں تھم گئے ہیں

اور تیز، اور تیز، کی صدا

خون کی روانی میں لاوے انڈیل رہی ہے

میں ہر ضرب کو مات دے کر

اپنی کسر کی پروا نہ کرتے ہوئے

شاید اک دم سے رک جاؤں

تماشا دیکھوں

اپنے پرزوں کے اڑنے کا

لیکن ان کا کیا ہو گا

جنھوں نے مجھ پر داؤ لگا رکھے ہیں

*

 

 

(۳)

مجھے مت اس طرح دیکھو

 

مجھے مت اس طرح دیکھو

کہ جیسے کوئی دیمک سے اٹی لکڑی کو تکتا ہے

کسی سنسان کمرے کے در و دیوار پر لکھی ہوئی تنہائی

پڑھتا ہے

کھنڈر سے تار عنکبوت کا رشتہ سمجھنے کے لئے

خود سے الجھتا ہے

مجھے مت اس طرح روؤ

اچانک موت پر جس طرح روتے ہیں عزیزوں کو

فلک پر ٹوٹے تاروں کو جیسے چاند روتا ہے

سمندر خالی سیپی کے لئے جیسے تڑپتا ہے

 

وہ رستے

جو کہ کترا کر نکل جاتے ہیں منزل سے

وہ صحرا جن کی وسعت پر گلستاں ناز کرتا ہے

وہ سپنے جو کہ شرمندہ نہ ہوں تعبیرکے ہاتھوں

انھیں رویا نہیں کرتے

*

 

 

(۴)

اپدیش

 

سنو اے بائیس کروڑ بیوقوفو

یہ ہمارا جزیرہ نما ہے

ہم نے سمندروں سے ناویں

اور درّوں سے مویشی

اس لئے نہیں گذارے

کہ تم اناجوں کے ڈھیر میں

گھن کی صورت

ہمارا حصہ چپ چاپ نگلتے رہو

اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے

ہمیں معلوم ہے

تمھاری تلواریں زنگ آلود ہو چکی ہیں

گھوڑے بیمار

حرم سراؤں کی قرقی سے پہلے

تم نے جن نقابوں کو بہ حفاظت سمیٹ لیا تھا

وہ اب بھی کہیں کہیں لہراتے ہیں

اور تمھاری جھوٹی حمیت کاپردہ فاش کرتے ہیں

ننھی فاختاؤں کو بوڑھے عقابوں کے ہاتھ بیچنے والے

اونٹ کی پیٹھ پر چیختے ہوئے میمنے

تمھیں یاد آتے ہیں کہ نہیں

تمھارے پیٹ کی مکروہ آگ

جلتے ہوئے صحراؤں کی تپش کو شرمندہ کئے دیتی ہے

تم نے ہمارے دھاگے چرا کر

اپنے موتی پرو لئے

ہمارے دیوتاؤں کو گھر بدر کر دیا

تمھاری غلام گردشوں میں پوشیدہ چراغوں نے

ہمارے راج محلوں کو پھونک ڈالا

پرکھوں کی جائداد کا بٹوارہ بھی

تمھاری حرص و ہوس کوسیراب نہ کر سکا

ہمارے حصوں کے مزید حصے کرنے سے پہلے

اتنا سوچ لو

ہم نے ان ساری نوآبادیات پر کڑے پہرے لگا دئیے ہیں

جہاں نوجوانوں کو جغرافیہ

اور بچوں کو تاریخ کی تعلیم نہیں دی جاتی

جہاں مائیں خواب دیکھنے

اوربہنیں حوصلے بڑھانے لگتی ہیں

اپنی حدوں پہ اصرار کرنے سے پہلے

اپنے کمپاس کی سوئی درست کر لو

*

 

 

(۵)

تم، میں اور وہ

 

میں وہ ساری جگہیں دیکھنا چاہتی ہوں

جنھیں تمھاری موجودگی نے مرتعش کر دیا

میں ان تمام راستوں سے گذرنا چاہتی ہوں

جن پر تمھارے قدموں نے منزلیں تراشیں

میں ان ہواؤں کو پینا چاہتی ہوں

جنھیں تمھاری خوشبو نے سیراب کیا

میں وہ ساری کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں

جن کے حروف تمھارے مطالعے سے روشن ہیں

میں ان ساری چیزوں کو چھونا چاہتی ہوں

جنھیں تمھارے لمس نے جاوداں کر دیا

میں تمھیں بالواسطہ یابلاواسطہ

ایک لمحے کو بھی پا سکوں

تو صدیاں اسے دان کر دوں

جس نے میرے اور تمھارے درمیان

یہ فاصلے رکھے ہیں

*

 

 

(۶)

بھول

 

جس نے مجھے لوہے کے جوتے پہنائے

وہ سر کی گرفت کرنا بھول گیا

مجھے اس کا غم نہیں کہ آلات حرب کے بغیر

لڑنا تھا ہر پل

وار بچانا پڑا ڈھال نہ ہوتے ہوئے بھی

بیک وقت پیادہ اور سوار

زمیں سخت تھی

گھوڑا منھ زور

مگر میدان مارنے کا جنون

قلعے پر کارزار کی فوقیت کا قائل تھا

زمیں لہو سے گندھ کر نرم ہو گئی

مرکب وقت بے بس

جب تک فتح کا پرچم لہرائے گا

تب تک نئی جوتیاں تلاش کر لی جائیں گی

لیکن سر کو قید نہ کرنے کی بھول ہوتی رہے گی

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے