رات شیطانی گئی
ہاں مگر تم مجھ کو الجھاؤ نہیں
میں نے کچل ڈالے ہیں کتنے خوف
ان پاکیزہ رانوں کے تلے
(کر رہا ہوں عشق سے دھوئی ہوئی رانوں کی بات!)
رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟
لاؤ جو کچھ بھی ہے، لاؤ
یہ نہ پوچھو
راستہ کے گھونٹ باقی ہے ابھی
آج اپنے مختصر لمحے میں اپنے اُس خدا کو
رُو برو لائیں گے ہم
اپنے ان ہاتھوں سے جو ڈھالا گیا۔۔۔
آج آمادہ ہیں پی ڈالیں لہو۔۔۔
اپنا لہو۔۔۔
تا بکے اپنے لہو کی کم روائی تا بکے؟
سادگی کو ہم کہیں گے پارسائی تا بکے؟
دست و لب کی نارسائی تا بکے؟
لاؤ جو کچھ بھی ہے، لاؤ
رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟
صوت و رنگ و نور کا وہ رجز گاؤ
جو کبھی گاتے تھے تم
رات کے حجرے سے نکلو
اور اذانوں کی صدا سننے کی فرصت دو ہمیں۔۔۔
رات کے اس آخری قطرے سے جو اُبھری ہیں
اُن بکھری اذانوں کی صدا۔۔۔
رات۔۔۔شیطانی گئی تو کیا ہوا؟
٭٭
عکاس، اسلام آباد، شمارہ دس، مدیر: ارشد خالد
٭٭٭