دوسری ناہید
حمید قیصر
مجھے فلمی دنیا کے گورکھ دھندوں میں بھٹکتے ہوئے ایک عرصہ ہو چلا تھا اور اس جنون کو کسی بھی پَل قرار نہ ملتا تھا ۔صبح جلد بیدار ہونا اور رات کو جلد گھر لوٹنا فلمی دنیا کے نصاب میں ہی نہ تھا۔ اس لۓ فلمی مدرسے اور اس کے نصاب نے اب تک شادی جیسی کل وقتی مشقّت سے دور رکھا تھا۔جو لوگ فلمی دنیا کے اسرارورموز سے آگاہ ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس دنیا میں فلم ڈائریکٹر اور آرٹسٹ سے لے کر ٹی بوائے تک سب کے سب روزانہ اپنے حصے کی کمائی جیب میں ڈال کر گھر جاتے ہیں ۔یا پھر ادھار کھاتے چلاتے ہیں ۔میں کالج کے بعد اپنی ابتدائی عمل زندگی کا بیشتر حصّہ فلمی دنیا کی نذر کر چکا تھا اور مجھے اس میدان میں بہت سے اچھے بُرے لوگ ملے تھے لیکن جب تجمّل سے دوستانہ ہوا تو ہم اس دنیا میں ایک سے گیارہ ہو گئے اور شہر کے ممتاز فلم سٹو ڈیوز میں پہلی بار با ضابطہ دفتر بنا کر ہوائی روزی کمانے لگے۔ یہ پاکستان فلم انڈسٹری کے عروج کا وہ زمانہ ہے جب موبائیل فون ابھی نہیں آئے تھے اور کمپیوٹر ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ ہمارا کام سٹوڈیو میں زیرِ تکمیل فلموں کے لۓ لگائے گئے سیٹوں پر فلمی وی نٹس کو انواع و اقسام کی تکنیکی سہولتیں فراہم کرنا تھا ۔کام کی زیادتی کے دنوں میں ہمیں اکثر رات بھر بھی کام کرنا پڑتا تھا۔میرا تو آگے پیچھے کوئی تھا نہیں مگر تجمّل کی ہمیشہ شامت آئی رہتی۔جب بھی فون کی گھنٹی بجتی ،میں تجمّل کو چھیڑتا ’’لو آ گئی تمہاری سختی….‘‘اور وہ جب بھی فون اٹھا تا تو دوسری طرف بیوی اسکی خبر گیری شروع کر دیتی۔
اب تجمّل کے بارے میں، میں آپ کو کیا بتاؤں۔یوں تواس کی عمر بیالیس سال تھی مگراس نے اپنے بانکپن کو بڑھاپے جیسی بیماری سے اب تک بچا رکھا تھا۔یہ شادی بھی اس کی دوسری تھی اور تھی بھی محبت کی ۔جبھی تو تجمّل کو گھر سے باہر رات گزارنا مشکل ہو جاتا۔پرلے درجے کا عاشق مزاج اور دل پھینک قسم کا انسان واقع ہوا تھا، جس کا خمیازہ اکثر مجھ کو ہی بھگتنا پڑتا….فلم انڈسٹری میں اس کی آمد کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہی عوامل کارفرما تھے۔تھوڑے ہی عرصے میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ تجمّل کے پاس ضرور کوئی ’’گیدڑ سِنگی‘‘ہے ۔جس نے اسے بہت ہی ’’چالو‘‘ بنا ڈالا ہے۔یا پھر اسکی شخصیت میں ایسی مقناطیسّیت ہے کہ جسے چاہے اپنی طرف کھینچ لے۔ پوری فلم انڈسٹری میں شیطان کی مانند مشہور تھا۔آدمی تھا بڑے کام کا مگر چکمہ دینے پر آتا تو اس کا کوئی ثانی بھی نہ تھا اور تو اور اکثر مجھے بھی گولی کرا جاتا۔یوں انتہائی مصروفیت کے دنوں میں ،میں بیٹھا ایمرجنسی کا لیں بھگتا اور تجمّل میاں مزے سے گلچھرے اُڑاتے پھرتے۔ اگلے روز ایسی زور دار کہانی اُگلتے کہ کوئی فلمی کہانی کار کیا لکھے گا….؟اس کے ساتھ ساتھ، اس جی دار انسان میں اس قدر خوبیاں تھیں کہ ہر شے پہ بھاری تھیں ۔’’کام کرو مگر زندگی بھی انجوائے کرو ‘‘۔یہ اس کی زندگی کا بنیادی ماٹو تھا۔
تجمّل کی دوسری بیوی سے شاید میں ایک آدھ بار ہی ملا تھا۔پہلی بار اس وقت جب ابتدائی دنوں میں تجمّل نے مجھے کھانے پر بلایا تھا۔اس کی بیوی ناہید نہایت خوش شکل ،سگھڑّ اور تعلیم یافتہ تھیں اور تجمّل سے عمر میں پورے دس سال چھوٹی تھیں ۔اس روز کھانا اس قدر اچھا بنایا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی تعریف کرنا پڑی اور دوسری بار کسی ایمرجنسی میں تجمّل کو لینے آئیں تھیں ….اس کے علاوہ ان سے جب بھی کبھی بات ہوئی ،ٹیلی فون پر ہی ہوئی، پہلے پہل ناہید صرف تجمّل کا پوچھتیں اور فون رکھ دیتیں ۔پھر کبھی کبھی کوئی پیغام بھی دے دیتیں کہ آئیں تو کہیں گھر فون کر لیں۔وغیرہ ….وغیرہ ۔‘‘یہاں تک کہ ناہید کی معمول کی گفتگو سے مجھے یہ اندازہ ہونے لگا جیسے اسے تجمّل پر شک سا ہو گیا ہے ۔اکثر یوں جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو،کچھ پوچھنا چاہتی ہو مگر ہمت نہ کر پاتی ہو اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں دونوں میاں بیوی کے معاملے میں خواہ مخواہ الجھنا نہیں چاہتا تھا۔ یوں بھی عائلی زندگی کا میرا تجربہ تو بالکل ہی صفّر تھا۔
ایسے ہی مصروفیات کے دنوں میں ایک دوپہر کو ناہید کا فون آیا ،پہلے پوچھا ’’تجمّل ہیں ….؟‘‘میں نے کہا ’’حسبِ معمول کام پر ہیں ‘سا تھ والے سٹوڈیو میں ٹیم کے ساتھ لائٹنگ کروا رہے ہیں ،….خیریت؟‘‘تھوڑی دیر خاموشی رہی،پھر غیر متوقع طور پر کہنے لگیں ۔’’نوید صاحب ! آپ ان کے دوست ہیں اور کام بھی اکٹھے کرتے ہیں ….مگر آپ انہیں سمجھاتے کیوں نہیں ….؟‘‘میں نے پوچھا کیا ہوا ،خیریت….؟ ’’کچھ دنوں سے تجمّل بالکل بدلے بدلے سے ہیں ۔کام سے گھر آ کر اکثر باہر چلے جاتے ہیں اور پھر آدھی آدھی رات کو لوٹتے ہیں ‘‘۔میں نے کہا ’’آپ پریشان نہ ہوں ۔تجمّل کی کوئی بھی بات مجھ سے چُھپی ہوئی نہیں ۔پھر بھی میں کسی مناسب وقت بات کروں گا۔آپ تسلی رکھیں ۔‘‘ اور فون بند ہو گیا۔میں نے اس روۓ کو غیر اہم اور وقتی جان کر تجمّل سے کوئی تذکرہ نہ کیا ۔ویسے بھی کام کی زیادتی کی وجہ سے ہماری آپس کی گفتگو کم ہی ہوا کرتی۔دن کو گرمی کی وجہ سے شام اور رات کو کام زیادہ ہوتا۔سٹوڈیو کی شامیں اور راتیں نسبتاً زیادہ رنگین اور شاندار ہونے لگیں ….چہل پہل بڑھ گئی ۔دن قدرے ویران اور سُنسان سے رہنے لگے مگر رابطے اور بکنگ کے لئے دفتر کھلا رہتا تھا اور کوئی نہ کوئی فون اٹینڈ کرنے کے لۓ ضرور ہوتا ۔تقریباً ہفتہ بھر ناہید کا فون نہ آیا۔پھر ایک کڑکتی دوپہر ‘میں رَت جگے کی وجہ سے کرسی پر اُونگھ رہا تھا ۔تجمّل ابھی نہیں آیا تھا۔اچانک فون کی گھنٹی نے مجھے جھنجھوڑ ا۔جلدی سے فون اٹھا یا تو دوسری طرف ناہید کو پریشانی میں مبتلا پایا ۔
’’نوید صاحب !وہ کہاں ہیں ؟‘‘
مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا ’’ اجیّ وہ معلوم نہیں ابھی تک آئے نہیں دفتر ‘‘
’’آپ کی تجمّل سے کوئی بات ہوئی….؟‘‘
ایک تو میں ویسے بھی اس اچانک حملے کے لۓ تیار نہ تھا اور ناہید کے اس سوال کا معقول جواب بھی میرے پاس نہ تھا۔میں نے کہا’’ شاید بازار سے دفتر کے لۓ سامان خرید کر آتے ہی ہونگے ….‘‘
’’ہاں آپ اپنے دوست کی خوب طرفداری کرتے ہیں مگراسے سمجھاتے نہیں ۔‘‘اب میں خاموش!
’’اور ۔دیکھیں آپ بھی تو ہیں ….خوش شکل اور جوان ہیں ،شادی بھی نہیں کی، ہر وقت کام پر رہتے ہیں، تجمل سے چھوٹے ہیں ،مگر انتہائی ذمہ دار ۔آپ کے بارے میں کبھی کسی سے کوئی ایسی ویسی بات بھی نہیں سنی ! مجھے آپ سے بس یہ شکایت ہے کہ آپ اپنے دوست کو سمجھاتے نہیں ‘‘ناہید دوبارہ بولی
’’لیکن اس قدر بے خبر بھی نہیں کہ آپ اپنے دوست کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں ۔؟‘‘ میں نے کہا
’’کیا مطلب میں سمجھا نہیں ….؟‘‘جواب آیا
’’آپ کے دوست آج کل سٹوڈیو کی کسی نئی تتلی کے عشق میں مبتلا ہیں اور آپ کو کوئی پتہ ہی نہیں ….‘‘ناہید کے شک نے سچ کا رُوپ دھار لیا تھا مگر میں نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ۔
’’ناہید آپ فکر نہ کریں، اگر ایسی ویسی کوئی بات ہے بھی تو آج اس کا فیصلہ ہو جائے گا ۔ذرا آ لینے دیں تجمّل کو میں پوچھتا ہوں اس سے ۔آپ خواہ مخواہ جھگڑا کر کے اپنے گھر کا ماحول خراب نہ کریں ‘‘پھر بولیں ۔
’’نہیں میں ایک دن اُسے رنگے ہاتھوں پکڑواؤں گی۔بس ذرا موقع کی تلاش میں ہوں ۔‘‘یہ کہتے ہوئے غصے میں فون بند کر دیا گیا ۔اس روز تجمّل دیر سے آیا گاڑی سامان سے لدّی پھنّدی تھی۔اور تجمل سارے کا سارا پسینے میں شرابور‘ مجھے پہلی بار اس کی حالت پر بہت پیار آیا کہ بیچارہ کتنا محنتی اور ذمہ دار ہے لیکن ناہید اسکے بارے میں جانے کیا کیا گمان کرتی ہے ؟ یہ سوچتے ہوئے میں بھی گاڑی سے سامان اتارنے لگا۔کیونکہ اس کے فوراً بعد برابر کے سٹوڈیو میں نئی فلم کے سیٹ پر کام شروع ہونا تھا۔میں نے کینٹین کے چھوٹے کو بلایا اور چائے بسکٹ کا آرڈر دے کر تجمّل سے گپ شپ شروع کر دی۔
’’یار تم نے اچھا کیا ایڈوانس میں سامان لے آئے ورنہ اگلے دو دنوں میں خاصی مشکل ہوتی ‘‘ میں نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا ’’ہوں میں نے کل رات ہی لسٹ بنا لی تھی ، مجھے پتہ تھا دونوں فلموں کے سیٹ لگنے ہیں ‘‘ تجمّل نے پانی کا گلاس حلق میں انڈیلتے ہوئے کہا
’’ یار وہ گھر سے ناہید کا فون آیا تھا ، تمھارے بارے میں آج کل خاصی پریشان ہے ، گھر پر وقت نہیں دے رہے کیا ؟ میں نے یونہی بات چھیڑی۔
’’ تمھیں کیا معلوم یہ بیویاں کس قدر شکّی مزاج ہوتی ہیں ، اگر تمھاری بھی کوئی ہوتی تو پوچھتا ‘‘ وُہ ہنستے ہوئے بولا
’’ بھئی ! میں تو ابھی تک اس نعمت سے محروم ہوں ‘‘ میں نے قہقہہ لگا یا
’’ کہیں تو شادی کے لئے دعا کر دوں ؟ ‘‘ تجمّل نے چھیڑ کے انداز میں کہا ’’ نا بھئی ! میرے لئے یہ بَددعا تم رہنے ہی دو ؟ ہم دونوں ہنسنے لگے ۔ ہوٹل والا منّا چائے بسکٹ کی ٹرے رکھ کر جانے کے لئے مڑا تو تجمّل نے اسے پانی لانے کے لئے جگ پکڑا دیا ۔
’’ یار ویسے یہ چکر کیا ہے ناہید کیوں شک و شبہ میں مبتلا نظر آتی ہے ؟ ‘‘ میں نے کُریدا۔
’’ کچھ نہیں یار ! تم نے سنا نہیں ’’ بَد نال بدنام بُرا ‘‘ ذرا کوئی خوبصورت لڑکی پاس سے گزر جائے تو ناہید کو جیسے دورہ ساپڑھ جاتا ہے آسماں سر پر اٹھا لیتی ہے ‘‘ تجمّل صفائی پیش کرنے لگا
’’ پھر بھی کچھ تو ہو گا نا جس پر ناہید اتنی سیخ پا ہے ‘‘ میں نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا
’’ یار وہ نہیں شنّوڈانسر جسے بھٹی نے نئی فلم کے لئے انگیج کیا ہے ؟
گھر پر اسکا فون کیا آ گیا کہ ناہید میری جان کو ہٹلر ہو گئی ‘‘ تجمّل نے سارا سچ اُگل دیا۔
’’ ارے واہ شنو کو بھی پٹا لیا ؟ مان گئے استاد ، چاروں اور یونہی تو نہیں چرچے تمھاری گیدڑ سِنگی کے ؟ ؟‘‘ میں نے اس کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ ارے یار ! پرسوں لیٹ نائیٹ شوٹنگ کے بعد گھر تک لفٹ کیا دے دی کہ شنّو تو پیچھے ہی پڑ گئی پتہ نہیں گھر کا نمبر کہاں سے ہاتھ آ گیا کمبخت کے ضرور گمّی نے دیا ہو گا ، اپنے نمبر ٹانکنے کے لئے آ لینے دو سالے کو ابھی پوچھتا ہوں ! ‘‘ تجمل نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’ مگر استاد تم تو ’’ نو لفٹ وِدھ آؤٹ گفٹ ‘‘ کے قائل ہو پھر یہ لفٹ ؟؟ ‘‘ میں نے اسے استفہامیہ نظروں سے گھورا۔
’’ یار سمجھا کرو ناں !! ‘‘ تجمّل نے کچھ ایسے انداز میں کہا کہ میری ہنسی چھوٹ گئی۔
آئندہ چند روز ہماری ٹیم کے لئے بے حد مصروف تھے ۔ لگا تار کام بک تھا اِن ڈور شوٹنگ کے سیٹ لگنے تھے اس لئے رات دن لگاتار کام تھا ۔اس روز بھی میں حسبِ معمول آفس میں ٹیلی فون ڈیوٹی پر ڈائجسٹ کی کسی مہماتی کہانی میں الجھا تھا کہ فون کی گھنٹی نے چوکنّا کر دیا ۔ فون اٹھایا تو دوسری جانب ناہید تھی ۔
’’ دیکھا میں نا کہتی تھی کہ ایک دن آپکے دوست کو رنگے ہاتھوں پکڑاؤں گی آج آپ بھی دیکھیں گے کہ میں اسکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں میں دس منٹ میں ٹیکسی لیکر پہنچ رہی ہوں تیار رہئے گا ‘‘ اور ٹھک سے فون بند ۔
میں اس عجیب و غریب صُورت حال سے سخت پریشان ، جانے آج تجمّل کی شامتِ اعمال کیا گُل کھلاتی ہے؟ لگتا ہے تجمّل کے ساتھ ساتھ آج بیچاری شنّو کی بھی خیر نہیں اب اگر میں جاؤں تب مصیبت ، نہ جاؤں تب بھی عذاب ، کیا کروں ؟ ابھی میں اسی تذبذب میں تھا کہ باہر ٹیکسی کا ہارن بجا ۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑا ہوا اور آفس بند کر کے ناہید کے ساتھ ہو لیا ۔
ناہید نے راستے بھر مجھ سے کوئی بات نہ کی مگر جب بیچارے ٹیکسی ڈرائیور کو اِدھر اُدھر مڑنے کا کہتی تو یوں محسوس ہوتا اگر ذرا بھی غلطی کی تو جان سے مار دے گی میں سخت الجھن میں تھا ۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق اس وقت تجمّل کو اپنی ٹیم کے ساتھ باری سٹوڈیو کے سیٹ پر ہونا چاہۓ تھا ۔ جبکہ ہماری ٹیکسی کا رُخ اُلٹی سمت میں تھا ۔ مارے تجّسس کے میرا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔ کوئی آدھ گھنٹہ نیو ٹاؤن کی سڑکوں اور گلیوں میں بھٹکنے کے بعد ناہید نے ٹیکسی ایک نِسبتاًویران گلی میں رکوائی ،نیچے اتر کر ٹیکسی کو فارغ کر دیا گیا ۔ ہم ایک نو تعمیر شدہ بنگلے کے بغل میں تھے ۔
’’ بنگلے کا مین گیٹ اندر سے بند ہے ۔ آپ نے کمپاؤنڈ وال پھلانگ کر اندر سے گیٹ کھولنا ہے اور میں اندر آ جاؤں گی اور دیکھئے کوئی شور نہ ہونے پائے ورنہ وہ ہوشیار ہو جائیں گے ‘‘ ناہید کسی ماہر سراغ رساں کی طرح اپنا پلان بتا رہی تھی۔ اِدھر ڈر اور تجسّس کے ملے جلے اثرات سے میرا وجود لرزنے لگا ۔ میں نہیں جانتا تھا آنے والے لمحات میں کیا ہونے جا رہا ہے ۔
’’ چلیئے نا جلدی کیجئے سوچتے کیا ہیں ؟ ناہید بولی ۔اللہ جانے اس لمحے مجھ میں کہاں سے طاقت عود کر آئی میں ایک ہی جست میں کود کر اندر۔ میں نے جین اور جاگرز پہنے ہوئے تھا، اس لئے کوئی شور نہ ہوا اور آہنی گیٹ بھی نئے رنگ و روغن کی وجہ سے چُوں چراں کے بغیر کھل گیا ۔ ناہید آہستگی سے اندر آ گئی اور گیٹ بند کر دیا گیا ۔صحن اور برآمدہ پھلانگنے کے بعد سامنے کمروں کے دو دروازے تھے ۔ ناہید نے پہلے بائیں جانب کا دروازہ دھکیلا تو وہ اندر سے بند تھا ۔ پھر جب دوسرے دروازے کی طرف بڑھی تو مجھے بھی قریب آنے کا اشارہ کیا ۔ اس نے دروازے پرآہستگی سے دباؤ ڈالا تو وہ کھل گیا اور ہم دونوں اندر ۔ پھر میں نے دروازے کی چٹکنی لگنے کی آواز سنی ، کمرے میں گہری تاریکی تھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ابھی سامنے بیڈ پر تجمّل اور شنّو بے خبر غلطاں و پیچاں پڑے ہونگے اور ناہید دوسرے ہی لمحے سینڈل اتار، ان پر برس پڑے گی مگر دوسرے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو ناہید کی نرم گرم بانہوں کے معطر حصار میں سحر زدہ سا محسوس کیا تھوڑی دیر بعد دو جسم آپس میں بیڈ پر تا دیر الجھتے رہے اور پھر ایسے بے نیاز کہ وقت کے گزرنے کا ذرا بھی احساس نہ ہوا تا دیر ناہید باتھ روم سے بالوں میں برش کرتی باہر آئی تو وہ پہلے والی نہیں بلکہ مجھے کوئی دوسری ناہید نظر آنے لگی تھی اور میں میں بھی شاید پہلے والا نوید نہیں رہا تھا ۔ میری نگاہیں تھیں کہ شرم سے فرش میں گڑی جاتی تھیں ۔
***