بانی کا پہلا مجموعہ ’’حرف معتبر‘‘ ۱۹۷۱ء میں اور دوسرا یعنی ’’حساب رنگ‘‘ ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا۔ ان کتابوں کے پیش نظر کسی قطعیت کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بانی دس بیس برس اور زندہ رہتے تو ان کی شاعری کن راستوں سے گزرتی اور اردو شاعری، خصوصاً غزل کے سرمایے میں کتنا اور کس قسم کا اضافہ کرتے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ نا وقت موت کے سبب ان کا تخلیقی سفر ادھورا رہ گیا۔ بانی سے سینیئر نیز ان کے ہم عمر و ہم عصر ایسے کئی شاعر ہمارے درمیان آج بھی موجود ہیں (خداوند کریم ان کی عمریں دراز کرے) جن کی کتابوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو جاتا ہے اور ایسا ہر اضافہ بعض لوگوں کے نزدیک اردو شاعری کے مجموعی سرمایے میں خوشگوار اور بیش قیمت اضافے سے کمتر درجے کی چیز نہیں ہوتی۔ بانی کا ادبی مرتبہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے ایک واضح اور بتدریج ارتقاء کا احساس ہوتا ہے جو اپنے فطری نقطۂ عروج تک نہیں پہنچ سکا۔
جہاں تک بانی کی غزل گوئی کا معاملہ ہے انھیں اس دور کا ’’بہترین‘‘ اہم ترین اور ’’مکمل ترین‘‘ غزل گو کہا گیا ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے نقاد ادیب اور شاعر اپنے ان بیانات پر قائم رہیں۔ قدیم و جدید سے قطعِ نظر اور کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر، ہماری تنقید دوستی، مصلحت پسندی اور افسر نوازی وغیرہ کی حدود سے نکل کر اب تجارتی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ پھر ہمارے یہاں یہ رسم بھی بہت عام ہے کہ ہم کسی ایک شاعر پر لکھتے ہوئے اس کے تمام ہم عصروں کو نیچا دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’اصلی جدیدیت‘‘ محض ہمارے ممدوح کے یہاں نظر آتی ہے لیکن ممدوح کے بدلتے ہی، لہجے کی انفرادیت، موضوعات کی ندرت، اسلوب کی تازگی، زندگی سے قربت اور جدید حسیت وغیرہ تمام خصوصیتیں جن سے پہلے شاعر کو نوازا گیا تھا، ہو بہو اب دوسرے شاعر کے یہاں نظر آنے لگتی ہیں۔
بانی کے پہلے مجموعے ’’حرف معتبر‘‘ میں ایسی ہی کئی آرا شامل ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ ہمارے یہ مشاہیر، ایک درجن سے زائد شعراء کے یہاں وہ تمام خصوصیات دیکھ چکے ہیں جن کا ذکر انھوں نے بانی کے سلسلے میں کیا ہے۔ میں اپنی بات کو آگے بڑھانے کے پہلے محض ایک رائے نقل کروں گا۔ عمیق حنفی لکھتے ہیں:
’’بانی کو اس صدی کی چھٹی دہائی کے بہترین اور اہم ترین غزل گویوں میں شمار کرنے سے مجھے کوئی مصلحت، کوئی تکلیف اور کوئی خوف باز نہیں رکھ سکتا۔‘‘
یہ بات بجائے خود قابل قدر ہے کہ ہمارے لکھنے والے مصلحت، تکلف اور خوف کو بالائے طاق رکھ کر کچھ کہنے یا لکھنے کے متعلق کم از کم سوچ تو سکتے ہیں۔ اب جہاں تک چھٹی دہائی یعنی ۱۹۵۱ء سے ۱۹۶۰ء تک کے زمانے کا تعلق ہے تو اس بیچ اردو غزل بانی کے نام اور کام سے قطعاً نا آشنا تھی۔ بانی کے برسوں پرانے دوست من موہن تلخ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ چھٹی دہائی کے آخر تک بانی، راجندر دیپک کے نام سے لکھتے تھے اور انھوں نے اس زمانے کی شاعری کو سرے سے حرف معتبر میں شامل نہیں کیا۔
در اصل جب عمیق حنفی چھٹی دہائی کہتے ہیں تو ان کا مطلب ساتویں دہائی سے یعنی ۶۱ء سے ۷۰ ء تک کے زمانے سے ہوتا ہے۔ اب اگر بانی واقعی ساتویں دہائی کے یعنی ۶۰ء کے بعد ابھرنے والے ’’بہترین اور اہم ترین غزل گویوں میں‘‘ سے ایک ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ، اور تو اور خود عمیق حنفی جیسے بے خوف اور راست گو شخص کی توجہ سے محروم رہتے۔ یہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ جدیدیت کے عہد شباب میں یعنی ۱۹۶۷ء میں ماہ نامہ ’’کتاب‘‘ لکھنؤ نے اپنے سالنامے میں جدیدیت کی افہام و تفہیم کی غرض سے ایک سمپوزیم شائع کیا تھا جس میں مفصل ترین اور طویل ترین مضمون خود عمیق حنفی کا تھا۔ اس مضمون میں انھوں نے ستّاون ایسے شاعروں کا ذکر کیا تھا جن کے توسط سے جدید شعری رجحانات کو سمجھا اور پرکھا جا سکتا تھا۔ لیکن اس طویل ترین فہرست میں بھی بانی کا نام شامل نہیں تھا۔ اگلے سال یعنی ۱۹۶۸ء میں فنون، لاہور نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا تھا جس میں ڈاکٹر صاحب نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تقریباً دو درجن نمائندہ جدید شاعروں کے نام لئے تھے۔ لیکن ان کی فہرست میں بھی بانی کا نام نظر نہیں آتا۔ اسی طرح جب ۱۹۶۹ء کے آخر میں فنون نے دو جلدوں میں اپنا جدید غزل نمبر شائع کیا تو اس میں بانی کی غزلیں شامل نہ تھیں۔ یہ کوئی اہم یا فیصلہ کن بات نہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی تو پاکستانی، اس نمبر میں شامل اہم ہندوستانی نقادوں مثلاً خلیل الرحمن اعظمی اور شمس الرحمن فاروقی کے مضامین میں بھی بانی کا ذکر نہیں ملتا۔ واضح رہے کہ میرا مقصد بانی اور ان کی شاعری کے تعلق سے نقادوں پر عدم توجہی کا الزام لگانا نہیں بلکہ یہ کہنا ہے کہ ۶۱ء سے ۷۱ء کا عرصہ جو جدید غزل کے عروج کا زمانہ تھا، بانی کے لئے ایک ایسا عبوری دور تھا جب وہ اپنی شعری صلاحیتوں کو سمجھنے، اپنی راہ متعین کرنے اور منزل تک پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ ساتویں دہائی کے ابتدائی دنوں میں جب وہ بانی، ایم۔ اے کے نام سے لکھ رہے تھے ان کی خصوصی توجہ صرف خود نظم نگاری بلکہ ہندوستان میں نظم کو ایک صنف کی حیثیت سے آگے بڑھانے کی طرف تھی۔ اس سلسلے میں ان کا ترتیب دیا ہوا ماہنامہ تخلیق کا ’’مختصر نظم نمبر‘‘ تاریخی اہمیت کا حامل اور بانی کی کاوشوں کا روشن ثبوت ہے۔
بانی، جیسا کہ سب جانتے ہیں، اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود ایک نہایت ہی سادہ، ملنسار اور منکسر المزاج انسان تھے۔ ان کی شاعری کا بنیادی مزاج بھی اسی منکسر المزاجی سے عبارت ہے۔ ان کا شعری سفر اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنی شعری صلاحیتوں اور خلاقانہ قوتوں کو دھیرے دھیرے چھوا اور سمجھا اور انھیں بروئے کار لانے میں جلدی نہیں کی۔ ان کی غزلوں نے قارئین کی آنکھ میں چکا چوند پیدا کرنے کے بجائے آہستہ آہستہ انھیں اپنا گرویدہ بنایا اور غیر محسوس طریقے سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی رہیں۔ بانی کی شعری حیثیت اور قدر و قیمت کے تعین کی کوششیں ۱۹۷۵ء کے بعد یعنی ’’حساب رنگ‘‘ کی اشاعت سے کچھ پہلے شرو ع ہوتی ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں بجا طور پر محمود ہاشمی کو ’’اپنی شاعری کا پہلا پارکھ‘‘ قرار دیا ہے۔ متذکرہ مضمون میں اگر چہ کہ محمود ہاشمی نے اپنا انتہا پسندی والا رویہ بر قرار رکھا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی اولیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میرے نزدیک ۱۹۷۵ء کے بعد بانی کے اچانک ابھر کر سامنے آنے کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ بانی کی اپنی غزلیں جو پہلے مجموعے یعنی ’’حرف معتبر‘‘ تک کی غزلوں کے مقابلے میں موضوع تکنیک اور فنی رویے، غرض کہ ہر لحاظ سے زیادہ منفرد اور مؤثر تھیں، اور دوسری وجہ یہ کہ ان کے بیشتر ہم عصر جو ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیان اپنی طاقت ور شاعری کی بنا پر سکہ رائج الوقت بن گئے تھے، انھوں نے اس عرصے میں حاصل کردہ شہرت کو بہتر شاعری کا نعم البدل سمجھ لیا۔ میں ہر گز یہ نہیں کہتا ’’حرف معتبر‘‘ میں شامل غزلوں کو بعد کی غزلوں کے مقابلے یکسر رد کر دیا جائے۔ لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ غور سے پڑھنے پر یہ مجموعہ قاری پر وہ تاثر نہیں چھوڑتا جو ’’حساب رنگ‘‘ اور پھر بعد کی غزلوں کا حصہ ہے۔’’حرف معتبر‘‘ میں یقیناً کئی اچھے اور بعض بہت اچھے اشعار مل جاتے ہیں۔ اس طرح اس مجموعے میں شاعر کی ذاتی زندگی، اس کے داخل میں واقع ہونے والا مد و جزر، داخلی شعور اور خارج کے درمیان کش مکش، صنعتی اور شہری تہذیب سے عبارت لینڈ اسکیپ کے اندرونی تضادات وغیرہ چیزیں موجود ہیں جن کا ذکر بانی کے نقادوں نے کیا ہے لیکن ان تمام مسائل کے تعلق سے اکثریت ایسے اشعار کی ہے جن کی کچھ مثالیں یہ ہیں:
اندر کی گفتگو تو بڑی پر تپاک تھی
اندر سے، قرب سرد سے دونوں ہلاک تھے
ترے خستہ مزاجوں کو ہمیشہ
جنوں ترک محبت کا رہے گا
محبتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لئے
مگر وہ ملتا تھا ہنس کر، کہ وضع دار جو تھا
پھر نہ گنجائش یک صدمہ بھی ہم تم میں رہی
ٹوٹتا سلسلہ دونوں پہ عیاں تھا کتنا
بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا
اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف!
عجیب بھیڑ یہاں جمع ہے یہاں سے نکل
کہیں بھی چل مگر اس شہرِ بے اماں سے نکل
چلو کہ چین سے بیٹھیں کہیں تو اے یارو
نہیں ہے شہر سے باہر کوئی کھنڈر بھی کیا
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
اک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
یہیں کہیں ترا دشمن چھپا ہے اے بانی
کوئی بہانہ بنا، بزمِ دوستاں سے نکل
مندرجہ بالا نو اشعار میں سے پہلے چار، محبوب کے تعلق سے شاعر کے رویے یا یوں کہئے کہ دونوں کے مشترکہ رویے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جب کہ بعد والے تین اشعار فرد اور وسیع تر معاشرے کے بیچ احساس غیریت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آٹھواں شعر گھریلو زندگی اور نواں مجلسی زندگی سے متعلق ہے۔ یقیناً ان تمام اشعار میں حسیاتی رد عمل کی گہرائی، تہہ داری، شدت اور پیچیدگی جیسے عناصر نسبتاً کم نظر آتے ہیں۔ ہم عصر زندگی کے بے کشش ہونے نیز فرد کی آرزوؤں، امیدوں، اور اس کے خوابوں کے ڈھیر ہو جانے کا ایماندارانہ اور شاعرانہ بیان ملتا ہے لیکن یہ بیان بیشتر یک سطحی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’حرف معتبر‘‘ کے بہت سارے اشعار میں ذاتی حزن و ملال کا اظہار کرتے ہوئے داخلی شعور کو کھنگالنے اور تہہ میں ڈوبنے کی کوشش کم کم نظر آتی ہے۔ مزید یہ کہ مندرجہ بالا اور اس قبیل کے دوسرے اشعار بانی کی ذاتی آواز اور ان کے شعری و فنی اسلوب کو مستحکم بنانے کے بجائے، ہمیں اس خاصے مستعمل اور عمومی ڈھانچے کی یاد دلاتے ہیں جس سے جدید غزل کا قاری ۱۹۶۰ء کے بعد ہی واقف ہو چکا تھا۔ اس لئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ ان اشعار میں پیش کئے گئے واقعات پہلے گزر چکے ہیں اور ان میں بیان کی گئی باتوں کو ہم پہلے بھی دیکھ، سن یا پڑھ چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان باتوں کا شاعر کے داخلی اور نجی تجربات سے تعلق تو ہے لیکن ان پر شخصی اسلوب کی چھاپ نہیں۔ ان اشعار میں ذہنی اور حسیاتی کیفیات کا وہ علامتی اور استعاراتی اظہار بھی نہیں ملتا جو آگے چل کر بانی کی شاعری کی ایک اہم اور منفرد خوبی بن گیا۔ موضوعات کی سطح پر ایک محدود کینوس میں بھی خاصا تواتر دکھائی دیتا ہے۔ وہ عشق، زندگی، احباب اور شہری تہذیب کے بارے میں بار بار ایک ہی طرح کی باتیں دہراتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’حرف معتبر‘‘ میں براہ راست عشقیہ اشعار خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں، لیکن کم و بیش شروع سے آخر تک شاعر کا رویہ وہی رہتا ہے جس سے ہم نقل شدہ پہلے چار اشعار میں دو چار ہوتے ہیں۔ اس مجموعے میں بانی کا محبوب ایک ایسے شخص کی شکل میں ابھرتا ہے جو یا تو کسی وجہ خود محبت کے جذبے سے خوف زدہ ہے یا پھر ضرورت سے زیادہ خود پرست ہونے کے سبب ٹوٹ کے محبت کرنے سے قاصر ہے۔ یہی حال عاشق کا بھی ہے۔ کبھی عاشق محبوب کے تیز گام ہونے سے ڈر کر اسے آواز دینے میں جھجکتا ہے اور کبھی محبوب کی قوت ہمرہی پر شک کر کے اس سے اذن رخصت لے لیتا ہے۔ بانی یہ تو کہتے ہیں کہ:
نہیں عجب اسی پل کا ہو منتظر وہ بھی
کہ چھولے اس کے بدن کو ذرا سی ہمت کر
لیکن یہ ہمت محض خیالی سطح پر رہتی ہے اور ملاقاتیں زیادہ تر ’’قرب تہی لمس‘‘ سے ہی عبارت رہتی ہیں۔ محبت اور زندگی کا حقیقی اور آپسی رشتہ در اصل اور ہی کچھ ہوتا ہے اور اس تعلق کو اطہر نفیس نے اپنے اس شعر میں بڑی خوبصورتی اور چابکدستی سے برتا ہے:
عشق کرنا جو سیکھا تو دنیا برتنے کا فن آ گیا
کاروبار جنوں آ گیا ہے، تو کار جہاں آئے ہیں
اس سے پہلے کہ ’’حرف معتبر‘‘ کے متعلق میری ان باتوں سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو، میں اپنی اوپر لکھی ہوئی اس بات کو دہرا دوں کہ ’’حساب رنگ‘‘ اور اس کے بعد کی غزلوں کے مقابلے میں ’’حرف معتبر‘‘ کی تمام غزلوں کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس مجموعے میں ہمیں اس قسم کے اشعار بھی مل جاتے ہیں۔
میں ترے بعد پھر اے گم شدگی
سایۂ گرد سفر سے نکلا!
اس تماشے میں تاثر کوئی لانے کے لئے
قتل بانی جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں
وقت خود ہی عجب عذاب میں ہے
ایک اک لمحہ رائیگاں خالی
مجھے خبر ہے کہ رستہ مزار چاہتا ہے
میں خستہ پا سہی لیکن نہیں ٹھہرنے کا
یہ موڑ کاٹ کے منزل کا عکس دیکھو گے
اسی جگہ مگر امکان حادثہ ہے بہت
یہ اور ان جیسے اور کئی اشعار اس حقیقت کے غماز ہیں کہ ساتویں دہائی کے عرصے میں بانی اپنی آواز کو پانے، اپنا لہجہ تراشنے، ایک منفرد شعری اسلوب خلق کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے لئے ایک الگ لفظیات وضع کرنے کی جد و جہد شعوری طور پر کر رہے تھے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ بانی کے لئے شاعری محض اشاعت کلام اور اس کے توسط سے وقتی شہرت حاصل کرنے کے شوق تک محدود نہیں تھی۔
میرے نزدیک بانی کے زندگی کے آخری دو سال ان کی بہترین تخلیقی قوتوں کے نفیس ترین اظہار کے سال تھے۔ اس عرصے میں زندگی، سماج، ماحول، عشق، وقت اور پھر شعری تکنیک غرض کہ ہر لحاظ سے بانی کا ذہنی اور فنی رویہ انقلابی اور خوش گوار تبدیلیوں سے دو چار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاصی حیرت ناک لیکن حوصلہ افزا یہ بھی بات سامنے آتی ہے کہ متذکرہ دس برسوں کا عرصہ در اصل وہ عرصہ تھا جب بانی اپنی طویل اور بالآخر جان لیوا ثابت ہونے والی بیماری کا شکار ہو چکے تھے اور بیچ بیچ میں فریش ہو جایا کرتے تھے لیکن بانی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے جسمانی کمزوری کو اپنی فن کارانہ قوتوں پر غلبہ نہیں پانے دیا۔ ایسے وقت میں جب بیماری کی شکل میں موت جسم و جاں کے دروازے پر بار بار دستک دے رہی ہو، شاعر کا گھوم پھر کر، اپنی ذات اور زندگی کی محرومیوں کو موضوع سخن بنا لینا ایک فطری امر ہے۔ یقیناً بانی کو بھی اس شدید کرب کا پورا احساس تھا اور انھوں نے اس سے آنکھ نہیں چرائی کیوں کہ ایسا کرنا محض ایک مصنوعی پوز بن جاتا۔ ’’حساب رنگ‘‘ میں شامل ان کی نظم ’’نفی سارے حسابوں کی‘‘ جس کے آخری چند مصرعے یوں ہیں:
اس سے پہلے بھی یہی ساری زمینیں تھیں
یہی سب آسماں تھے
اور میری آنکھ میں
نیلے ہرے کے درمیاں
اک رنگ شاید اور بھی تھا!
اب مرے اندر نہ جھانکو
میرے باطن میں مسلسل تیرتی ہے
اونگھتی دنیا سرابوں کی
نفی سارے حسابوں کی۔۔۔!
جسم کے زوال کے زیر اثر پیدا ہونے والے کرب کا بے حد مؤثر اور فن کارانہ اظہار ہیں۔ بانی کے یہاں موت کا احساس ضرور ہے لیکن انھوں نے اس احساس کو اپنا مستقل وسوسہ (Obsession) نہیں بننے دیا بلکہ اسے ایک ماورائی کیفیت میں تبدیل کر دیا۔ ملاحظہ ہو:
سیر شب لا مکاں اور میں
ایک ہوئے رفتگاں اور میں
میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں اس پورے عرصے میں ان کے یہاں اپنے اندر سمٹ جانے کی بجائے باہر کی دنیا پر از سر نو نظر ڈالنے اور اس سے رشتہ استوار کر نے کا عمل زیادہ فعال اور قوی تر ہوتا نظر آتا ہے۔ اور یوں ان کی شاعری محض ذاتی رنج و غم اور نفسیاتی حزن و ملال کا براہ راست یا بالواسطہ اظہار نہ ہو کر وسیع تجربات سے آشنا ہوتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور فتنہ پردازیوں کے باوجود، ہماری آج کی زندگی شہری اور صنعتی تہذیب کے لینڈ سکیپ سے ہی عبارت ہے۔ بانی نے (جیسا کہ ’’نہیں ہے شہر سے باہر کوئی کھنڈر بھی کیا‘‘ اور۔۔۔ ’’شہر بے اماں سے نکل‘‘ والی غزلوں سے اندازہ ہوتا ہے) پہلے پہلے اس تہذیب اور زندگی کی عصری روش کو رد کیا۔ اور اجتناب کا رویہ اپنایا، پھر ان کے رد و قبول کا عمل ابھرتا ہے:
ادھ کھلی کھڑکی سے ہم وسعتیں دیکھا کئے
گھر سے نکلتے نہ تھے، چین بھی گھر میں نہ تھا
اور پھر دھیرے دھیرے انھوں نے اس تہذیب کے سارے کرب اور اس کے زہر کو اپنی تخلیقی شخصیت اور اپنے شعور کا حصہ بنا لیا۔
وہ اپنے شہر کے مٹتے ہوئے کردار پہ چپ تھا
عجب اک لا پتہ ذات اس کے اپنے سر پہ رکھی تھی
فرد اور سماج کی آپسی کش مکش میں، بانی کے لئے یعنی ان کی شاعری کے غالب حصے میں زندگی مرکزی نقطۂ نظر یا اہمیت کا درجہ رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے زندگی کا مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمومی، معاشرتی زندگی کے پس منظر میں بانی کا پہلا شعری تعلق اس بات سے ہے کہ مشاہدے یا واقعے سے متعلق حقیقی تجربے کو کم سے کم لفظوں میں، صراحت اور شدت کے ساتھ پیش کر دیا جائے۔ بیشتر اوقات وہ ہم عصر انسانی زندگی اور ماحول سے متعلق انفرادی نیز مشترکہ تجربات کو پیش کر کے حقیقت کی عکاسی اس طرح کرتے ہیں کہ اس پر محض ان کے داخلی موڈ، ذاتی تجربے یا نجی احساس کا دھوکہ نہ ہو کر، ہمیں وسیع تر سچائیوں کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے داخلی شعور اور باہری دنیا میں ایک متوازن اور مناسب علامتی رشتہ قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی کہہ دوں کہ شاعر ی میں تخلیق کار اپنی ذات سے دنیا کی باہر کا مشاہدہ اس کا تجزیہ اور اس پر تبصرہ شاعر سے اپنی انا کو قابو میں رکھنے کا متقاضی ہوتا ہے۔ بانی کی شاعری کی وہ خصوصیت جسے میں نے منکسر المزاجی سے تعبیر کیا ہے یہاں بھی ان کے کام آتی ہے اور وہ باہر کی دنیا کو اپنے نجی احساسات میں گم کر دینے کے بجائے ان سے ہم آہنگ کر کے پیش کرتے ہیں۔ اس بحث کے پیش نظر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
راہ شفاف تھی چادر کی طرح
یعنی کچھ بھی مری ٹھوکر میں نہ تھا
پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا
اے گل آوارگی تیری مہک تاروں سے کھیلے
اے ندی بہتا رہے دائم ترا بیدار پانی
موسم کو بدلتی ہوئی اک موج ہوا تھی
مایوس میں بانی ابھی منظر سے نہیں تھا
کچھ نہ کچھ میرا یہاں چاروں طرف بکھرا پڑا ہے
پھول سے مہتاب تک سب سلسلہ محفوظ کر لے
میں یہاں ان اشعار کے بارے میں بہت لمبے چوڑے دعوے نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ان میں فرد کے داخلی احساسات اور وسیع تر معاشرے کی روایات ایک دوسرے پر جس طرح اثر انداز ہوتی ہیں اس کا نتیجہ یقیناً ایک خوش گوار شعری صورت حال کی شکل میں بر آمد ہوتا ہے۔ یہاں بانی ’’زمانے تری رہبری کے لئے:: بہت یہ غبارِ سفر ہے مرا‘‘ والے مصنوعی، تعلی آمیز اور نا قابل یقین شعری معروضات سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنے داخل اور باہر کی دنیا میں مادی اور منطقی سطح سے بلند ہو کر ایک ایسے قلبی اور روحانی رشتے کی دریافت کرتے ہیں جس پر ان کی شعری گرفت ہمیشہ مضبوط رہتی ہے۔ بصیرت اور رویے کی یہی تبدیلی ان اشعار میں بھی دکھائی دیتی ہے جن کا بنیادی تعلق عشق اور عشقیہ جذبات سے ہے۔ شروع کے صفحات میں بانی کی ابتدائی شاعری کے پس منظر میں ان کے عشقیہ اشعار کے متعلق مختصراً گفتگو کر چکا ہوں۔ اس سلسلے میں بھی بانی کی شعری روش جامد نہ ہو کر خاصی سیال، متحرک اور حقیقت نیز ذہنی پختگی سے قریب تر ہوتی نظر آتی ہے۔ محبوب کے تعلق سے بد گمانی، تشکیک، نیز جسمانی اور طبعی قربت سے ایک طرح کا یاسیت آمیز گریز جیسے عناصر دھیرے دھیرے فعال اور روشن رشتوں کا روپ دھارن کر لیتے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں پہلے جو اشعار نقل کئے ہیں ان کے مقابلے میں یہ اشعار:
اک گھنے سرشار حاصل کی فضا ہے اور دونوں
اب نہیں ہے درمیاں کوئی بھی منزل امتحانی
میں کہ تھا منکر ترا اور اب کہ میں قائل کھڑا ہوں
اے وصال لمحہ لمحہ اے عطائے آسمانی
صبح کی پہلی کرن دھوپ بچھاتی گئی
میں ترے خط کی اسے شوخ عبارت کہوں
اپنے سینے میں کہیں میری وفا محفوظ کر لے
میں کہوں تیرا ہوں میں، میرا کہا محفوظ کر لے
اور ان اشعار کے علاوہ ’’صبح کے سبز نم سی ندا کس کی تھی‘‘۔’’مگر اک شے رفاقت کی طرح تھی۔‘‘’’دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا‘‘۔’’لباس اس کا علامت کی طرح تھا‘‘ جیسی غزلوں کے بیشتر اشعار شاہد ہیں کہ بانی کے لئے محبت تمام انسانی دکھوں کا مداوا نہ ہونے کے باوجود ایک اہم اور فطری صداقت ہے۔ اس صداقت نیز محبت، قربت اور وصل کی مختلف کیفیات کو نرم اور ذہن میں تحلیل ہو جانے والے پیرائے میں نظم کرنے لئے بانی بکثرت مظاہر فطرت سے استعارے اور پیکر اخذ کرتے ہیں اور اس طرح ان کے یہاں احساساتی اور جذباتی رد عمل خود بہ خود تازگی اور شگفتگی سے عبارت ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اس قسم کے استعارے اور پیکر نہ صرف شاعری کی ذہنی کیفیات کی معنویت کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ ہمیں منظر نگاری کی لذت سے بھی آشنا کرتے ہیں۔
استعارہ سازی اور پیکر تراشی کے ذکر کے ساتھ ہی بانی کے عمومی اسلوب اور ان کی شعری تکنیک کا ذکر ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لئے بھی کہ میرے نزدیک بانی کی مرکزی شعری شناخت کا تعلق خیال اور موضوع سے کم اور اسلوب ڈکشن اور تکنیک سے زیادہ ہے۔ بانی کی چند آخری غزلوں میں سے ایک غزل کا یہ شعر:
شاعری کیا ہے کہ اک عمر
چند الفاظ کو امکان و اثر دینے میں
بانی کے اس رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے تحت وہ موضوع کے ذریعے شعر ی تاثر تخلیق کرنے کے بجائے لفظوں میں پوشیدہ معنوی استعداد کو پوری طرح بروئے کار لا کر اپنے مواد و موضوع کو وزن، وقار اور اعتبار عطا کرنے کے قائل تھے۔ بانی کے کم و بیش سبھی نقاد اس مسئلے پر متفق ہیں کہ ان کا عمومی اسلوب ایک غیر معمولی شعری صنعت گری سے عبارت ہے۔ لسانی اور شعری اختراعات ان کے شعری اسلوب کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی غزلوں میں خیمہ گرد سفر، درد منظری، صف ابر رواں، دم پامال، بزم کم یقیناں، لمحۂ خالی، قرب تہی لمس، عکس لا تفسیر، خانہ امید رائیگاں، افسوس خانہ، معنی بیگانہ، ادراک نمو، جیسی اختراعی اور نادر لفظیات و تراکیب کا خاصہ بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایسی لفظیات و تراکیب کا عمومی تاثر ہمیشہ اور یکساں طور پر غیر معمولی نہیں ہوتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بانی کی غزلوں میں ان کا استعمال محض غیر معمولی بننے کے شوق کا نتیجہ نہ ہو کر خیالات و احساسات کے تخلیقی اکتشاف (Exploration) کا نتیجہ ہے۔ مناسب ترین الفاظ کا انتخاب اور شعر میں ان کی مناسب ترین ترتیب بانی کے شعری اسلوب کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے متعلق دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔
جوش ملیح آبادی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ الفاظ ان کے سامنے ’’لونڈیوں کی طرح قطاریں باندھے کھڑے رہتے ہیں‘‘ ممکن ہے کہ جوش کی حد تک یہ رویہ صحیح ہو لیکن اگر ہما شما یہ رویہ اپنائیں تو لفظ بھی شاعر سے لونڈیوں والا ہی سلوک کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر لفظ اپنا ایک یا ایک سے زیادہ ڈپلیکیٹ رکھتا ہے۔ کمتر درجے کے شاعروں سے سابقہ پڑنے پر بہتیرے الفاظ چپ چاپ اپنے ڈپلیکیٹ کو آگے کھسکا دیتے ہیں۔ یوں تو بانی کے بیشتر خیالات و موضوعات تقریباً وہی ہیں، جو ان کے ہم عصر و ہم مرتبہ شعراء کے یہاں عام طور پر پائے جاتے ہیں لیکن شعری رویے کے اختلاف اور اس سے بھی زیادہ لفظوں کے منفرد ترین الفاظ کے استعمال نے ان کی شاعری کو ایک الگ رنگ و آہنگ عطا کر دیا ہے۔ بانی نہ صرف بہترین اور مناسب ترین الفاظ کے استعمال پر زور دیتے ہیں بلکہ جہاں کہیں انھیں احساس ہوتا ہے کہ مروجہ تراکیب و الفاظ ان کے شعری احساس کے اظہار میں پوری طرح معاون نہیں ثابت ہوتے تو وہ یا تو بالکل نئی تراکیب وضع کرتے ہیں یا پھر مستعمل الفاظ و تراکیب میں کاٹ چھانٹ کر کے انھیں اس طرح ایک نئی شکل عطا کر دیتے ہیں:
نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا
خوش یقینی میں نہ تھا اب کوئی نور
ضو کوئی خندہ گمانی میں نہ تھی
بگولے اس کے سر پر چیختے تھے
مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا
ان اشعار میں ’’لا سمتیت‘‘ ’’خندہ گمانی‘‘ اور ’’چپ ذات‘‘ نہ صرف بانی کے اختراعی بلکہ غیر مقلد اور آزاد ذہن کی آئینہ دار ہیں۔ یہاں بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بانی کی غزلوں میں نہ تو کھلنڈرے قسم کے الفاظ ملتے ہیں اور نہ ہی وہ لفظوں کو کھل کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں اس رویے کو بطور معیار قبول نہیں کرتا لیکن بانی کے اسلوب کی خصوصیت ضرور سمجھتا ہوں۔ اسی طرح بانی کے لہجے میں اس دھار دار طنز کی یقیناً کمی ہے جو دوسرے کئی کامیاب جدید غزل گویوں کے یہاں نظر آتا ہے لیکن وہ اس کی تلافی مکالماتی انداز، تفکر آمیز بیانات نیز ابہامی کیفیت اور غنائیت سے کر دیتے ہیں۔
بانی کی شعری تکنیک کی ایک اور خوبی استعارہ سازی اور پیکر تراشی کے شدید اور بکثرت عمل دخل سے عبارت ہے۔ وہ عموماً اپنے داخلی احساسات کو تشبیہہ یا استعارے یا پیکر کے توسط سے پیش کرنے کے بجائے خود تشبیہہ، استعارہ یا پیکر کی شکل میں پیش کرنا پسند کرتے ہیں اور یہ خصوصیت انھیں بطور خاص تقلیل لفظی اور شدت اظہار کے وصف سے نوازتی ہے۔ ان کی غزلوں میں ابر، مہتاب، درخت، سمندر، سفر، آئینہ، خوں، گرد، رنگ، بے رنگی، دود، دھندلا اور دھواں جیسے الفاظ بار بار استعارے اور پیکر کی شکل میں ابھرتے ہیں اور شاعر کے تجربات و احساسات کے علامتی اظہار کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اس طرح کے الفاظ، اگر چہ ان کی غزلوں میں بار بار آتے ہیں، لیکن شعر کے سیاق و سباق میں ان کی استعاراتی معنویت بدلتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار میں:
شامل ہوں قافلے میں مگر سر میں دھند ہے
شاید کہ کوئی راہ جدا ہے مرے لئے
سبز، بھوری دھند میں ڈوبے پہاڑوں سے اترتی
کیا عجب منظر بہ منظر روشنی ہے داستانی
یاد تری، سورج گھلتے ہی
دھند اتر جائے پانی میں
دھند کا استعارہ معنوی تلازم کے الگ الگ رنگوں کا مظہر ہے۔ بانی کے کئی نقادوں نے ان کی طویل تر اور نامانوس بحروں میں لکھی گئی غزلوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ یہ غزلیں یقیناً ان کی ریاضت، فن اور زبان و بیان پر ان کی گہری دسترس کی دلیل ہیں۔ ان غزلوں میں کئی بہت اچھے اور بے حد کامیاب اشعار بھی ملتے ہیں لیکن میرے نزدیک بانی کی وہ غزلیں تاثر کے اعتبار سے زیادہ کامیاب ہیں جو مستعمل بحروں میں لکھی گئی ہیں۔ آخری زمانے میں بانی کو مختصر بحروں سے بہت زیادہ شغف ہو گیا تھا، میں ان کی چھوٹی بحروں والی غزلوں کو ان کے مجموعی شعری اسلوب کے پس منظر میں نہ صرف بہت اہم بلکہ بہت ہی منفرد، نمائندہ اور تخصیصی اہمیت کی حامل سمجھتا ہوں۔ یہ غزلیں در اصل ذہنی یکسوئی اور تخلیقی جذب کی نئی جہات کی نشان دہی کرتی ہیں:
فضا کہ پھر آسمان بھر تھی
خوشی سفر کی اڑان بھر تھی
لباس اس کا علامت کی طرح تھا
بدن روشن عبارت کی طرح تھا
عکس کوئی کسی منظر میں نہ تھا
کوئی بھی چہرہ کسی در میں نہ تھا
صبح کے سبز نم سی ندا کس کی تھی
محو ترتیب نغمہ فضا کس کی تھی
آج اک لہر بھی پانی میں نہ تھی
کوئی تصویر روانی میں نہ تھی
وہی درد مسلسل، وہی حرف دعائیں میں
بسر ہوتی ہوئی شب بسر ہوتی ہوائیں میں
والی سبھی اور ان کے علاوہ دوسری کئی غزلیں، فارسی آمیز گاڑھی تراکیب والی غزلوں کے برعکس زیادہ متحرک اور زیادہ سیال کیفیت رکھتی ہیں۔ ان غزلوں میں سطور کا اختصار اور تحرک، آہنگ کے بہاؤ کو تیز اور شعری تاثر کو شدید تر بنا دیتا ہے۔ لہجے کے اعتبار سے خواہ یہ غزلیں بیانیہ ہوں، یا سوالیہ ہوں یا استفہامیہ، بانی کی قوت ابتکار (Originality) ہر جگہ موجود رہتی ہے۔ ان چھوٹی بحروں والی غزلوں کے بارے میں آخری بات یہ ہے کہ یہ سبھی غزلیں نسبتاً طویل اور طویل تر ہیں لیکن ان پر موڈ اور موضوع کی یکسانیت کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ ان غزلوں کو پڑھتے ہوئے جس ایک مشترکہ خصوصیت کا احساس ہوتا ہے وہ ہے جزئیات نگاری، بلراج کومل نے اپنے مضمون ’’شاعری اور فکشن کی ٹوٹتی حد بندیاں‘‘ میں فکشن پر جدید شاعری کے اثرات کی وضاحت کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بانی کی زیر بحث غزلوں کو جدید غزل پر فکشن کے اثرات کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
اب رہا سوال یہ کہ جدید غزل گویوں میں بانی کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
عمیق حنفی نے بانی پر لکھتے ہوئے ان کی اور ظفر اقبال کی دو ہم طرح غزلوں کا مقابلہ و موازنہ کر کے، ظفر اقبال پر بانی کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس مضمون کا بنیادی مقصد بانی کی شاعری کو سمجھنے سے زیادہ ظفر اقبال کے متعلق شمس الرحمن فاروقی کے مفروضات سے اختلاف کا اظہار نظر آتا ہے۔ بانی کی اہمیت کا راز یہ نہیں ہو سکتا کہ انھوں نے ظفر اقبال کی زمینوں میں اور انھیں کی قوافی و ردیف کے ساتھ بہترین تغئیریں (Variations) پیش کی ہیں۔ ان کی اہمیت، جیسا کہ خود عمیق حنفی نے بعد میں اعتراف کیا ہے، اس میں ہے کہ انھوں نے اہم ہم عصر شعراء کے اثرات سے بچ کر اپنی راہ نکالی ہے۔ ’’حرف معتبر‘‘ کے بعد کی غزلوں میں یہ کوشش زیادہ واضح ہے اور اس کے زیادہ مثبت اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں۔
بانی کے سلسلے میں، میں نے من موہن تلخ کے مضمون کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس مضمون میں تلخ صاحب نے بانی کو بہانہ بنا کر جدید شعری رجحانات اور جدید شاعروں کو گزشتہ بیس برسوں میں دی جانے والی تمام گالیوں کو ایک ایک کر کے دوہرایا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس بات کو بالکل فراموش کر دیا ہے کہ لوگ ان سے اچھی اور قابلِ برداشت شاعری کی توقع بھلے ہی نہ کریں لیکن کم از کم گالیوں کے سلسلے میں تو ایک معیار کی توقع یقیناً کرتے ہیں۔ اس سے قطع نظر تلخ صاحب نے بانی کے سلسلے میں پیش رو اور ہم عصر شعراء کے اثرات وغیرہ کی بابت جو کچھ لکھا ہے، اس سے مستقبل میں بانی کے نقاد کسی نہ کسی حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جہاں تک عمیق حنفی کا تعلق ہے وہ اثر اور تقلید میں فرق نہیں کرتے مجھے ان کے اس بات سے بھی اختلاف ہے کہ ’’بانی کے ساتھ اگر ان کے (ہمارے) ہم عصروں میں سے کسی کا ذکر کیا جا سکتا ہے تو وہ ظفر اقبال، شکیب جلالی اور شہزاد احمد ہو سکتے ہیں‘‘ جدید اردو غزل محض ایک مستطیل نہیں ہے۔ یہ بہت ساری جہات اور سمتوں سے عبارت ہے۔ ظفر اقبال، شکیب جلالی، شہزاد احمد، اور بانی یقیناً جدید غزل کی چار سمتیں ہیں۔ دوسری سمتیں ہیں اطہر نفیس، ساقی فاروقی، محمد علوی، شہر یار، بمل کرشن اشک، انور شعور، احمد مشتاق اور دوسرے کئی شاعر جن کی شاعری یکساں تنقید ی توجہ کی مستحق ہے۔
٭٭٭
تحریرِ نو، ممبئی، شمارہ ۱۴، مدیر ظہیر انصاری