’’رباعیات عجائبات‘‘ نام کا یہ مختصر دیوان رباعی کہاں چھپا اور کب، اس کی خبر نہیں۔ امو جان ولی کا دیباچہ (جو خود بمشکل ایک صفحے کا ہے) ہمیں اتنا ہی بتاتا ہے کہ یہ دیوان ۱۳۱۸ ہجری (۱۹۰۰/۱۹۰۱ حالی) میں تیار ہو گیا تھا اور وہ خود اپریل۱۹۰۲میں سرکاری نوکری سے وظیفہ یاب ہوئے، لیکن ان کی دیگر نظم نثر اردو و فارسی کی طرح یہ دیوان بھی منظر عام پر آنے کا منتظر رہا۔ اب جب ’’حضور شاہ عالم پناہ کے دربار تاجپوشی‘‘ کا وقت قریب آیا تو انھیں خیال آیا کہ دیوان رباعی کو تو چھپوا ہی لیا جائے۔ اگر ’’شاہ عالم پناہ کی تاجپوشی‘‘ سے دلی دربار (۱۹۱۱) مراد لیا جائے تو یہ دیوان ۱۹۱۰ میں کبھی منطبع ہوا ہو گا۔
امو جان ولی نے اپنے بارے میں اتنا اور بتایا ہے کہ میں غالب کا شاگرد ہوں اور تصوف میں حضرت غوثی علی شاہ صاحب کا مرید ہوں۔ وہ اپریل ۱۹۰۲ میں وظیفہ یاب ہوئے تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ ان کی پیدائش ۱۸۴۷ کے بالکل قریب ہوئی ہو گی، کیونکہ اس زمانے میں انگریز کی نوکری سے وظیفہ یابی کی عمر ہندوستانیوں کے لئے پچپن (۵۵) سال تھی۔
میں نے امو جان ولی اور ان کے دیوان رباعی کا ذکر سنا تھا لیکن اسے دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ اور نہ ہی مجھے ان کے بارے میں کچھ اور معلوم تھا، سواے اس کے کہ وہ غالب کے شاگرد تھے اور ’’مطبع امو جان ولی واقع دلہائی‘‘ کے مالک تھے۔ کئی سال کی بات ہے، ایک بار سعودی عرب کے سفر میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جنھوں نے بتایا کہ میں امو جان ولی کے اخلاف میں ہوں۔ دیوان انھوں نے بھی نہ دیکھا تھا لیکن مشتاق تھے کہ کہیں مل جائے تو خوب ہو۔ بات آئی گئی ہوئی۔
مجھے مطبع امو جان ولی کی کئی کتابیں دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا تھا۔ ان میں پریس کا نام یوں لکھا ہو ا ہوتا:’’در مطبع امو جان ولی واقع دلہائی طبع شد‘‘ (یا ایسے ہی کچھ الفاظ، جگہ کا نام ’’دلہائی‘‘ یقیناً تھا۔) کتاب سازی کے لحاظ سے ان میں کوئی خاص بات ایسی نہ تھی جو اس زمانے کے دیگر مطبعوں میں ممتاز کرتی۔ صرف ایک بات مجھے بہت بری لگتی تھی، اور وہ یہ کہ میں سمجھتا تھا ’’دلہائی‘‘ کچھ اور نہیں، ہم جاہل اور خوشامدی ہندوستانیوں نے انگریزوں کا املا Delhi دیکھ کر سمجھا کہ انگریز لوگ شہر دہلی کا نام یوں ہی ’’دلہائی‘‘ تلفظ کرتے ہوں گے۔ لہٰذا یہی نام ہم لوگوں نے بھی اپنے اچھے خاصے ناموں ’’دہلی‘‘ یا ’’دلی‘‘ کو بگاڑ کر ’’دلہائی‘‘ کر لیا۔
خدا کا شکر ہے کہ محمد حسین آزاد کی کوئی تحریر ایک بار اتفاقاً میری نظر سے گذری جس سے معلوم ہوا کہ ’’دلہائی‘‘ کسی دوسرے نام، مثلاً ’’دہلی‘‘ کی مسخ شدہ شکل نہیں ہے۔ دلہائی نام کا ایک محلہ دلی میں تھا، یعنی شاہجہان آبادی دلی میں، اور جہاں انگریزوں نے ۱۸۵۷ میں دلی کے بہت بڑے حصے کو تاراج و تباہ کیا وہاں دلہائی کا محلہ بھی ان کے ظلم کی زد میں آ گیا۔
ایک مدت تک میں سمجھا کیا تھا کہ اردو میں صرف دو دیوان رباعی مرتب ہوئے، ایک تو جعفر علی حسرت لکھنوی (۱۷۳۴/۱۷۳۵ تا ۱۷۸۵/۱۷۸۶) کا دیوان، جو اب نا پید ہے اور دوسرا امو جان ولی کا، جو شائع تو ہوا لیکن ملتا نہیں ہے۔ خدا نما سید غمگین حضرت جی (۱۷۵۳ تا ۱۸۵۱) اور غالب کے مابین کچھ مراسلت میں نے بہت پہلے پڑھی تھی اور اس میں حضرت خدا نما کی کچھ رباعیاں بھی تھیں۔ لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان کا کوئی دیوان بھی ہے۔ مدتوں بعد حضرت خدا نما کے اخلاف نے ان کا کلیات شائع کیا تو میں نے اس میں کئی رباعیاں دیکھیں۔ مگر چونکہ وہ کسی رد یف وار ترتیب سے نہ تھیں، ا س لئے میں نے یہ محسوس نہ کیا کہ یہ تو پورا دیوان رباعیات ہے۔
کچھ دن ہوئے محمد علی اثر نے دکن کے رباعی گویوں پر ایک نہایت معلوماتی مضمون لکھا تو اس سے مجھے معلوم ہوا کہ حضرت خدا نما کی رباعیاں تمام ردیفوں میں ہیں اور اس طرح انھیں اردو کے دوسرے دیوان رباعی کا مصنف کہنا چاہیئے۔ اغلب ہے کہ جعفر علی حسرت (جن کا زمانہ حضرت خدا نما سے ذرا ہی پہلے کا ہے) کا دیوان رباعی ہی اردو کا پہلا دیوان رباعی ٹھہرے۔ محمد علی اثر نے میر شمس الدین فیض (۱۷۸۱تا ۱۸۶۶) کے دو شاگردوں احمد علی عصر اور محمد غوث عزم، کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے بھی رباعی کے دیوان ترتیب دئیے تھے۔ لہٰذا اب زمانۂ ماقبل جدید میں رباعیوں کے پانچ دیوان قرار پائے۔ ہمارے زمانے میں شاہ حسین نہری اورنگ آبادی (پیدائش۱۹۴۱) نے دو دیوان رباعیوں کے مرتب کئے ہیں۔
امو جان ولی نے اپنی رباعیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ان میں ’’علم اخلاق و تصوف کے عجیب و غریب نکات دینی دنیوی شرعی، معاملات توحید و عرفان، حال، مقام حضوری، استغراق، وصول الی اللہ‘‘ بیان کئے گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں شاید ہی کسی شاعر نے در مدح خود اس طرح اور اس قدر لکھا ہو۔ بہر حال، یہ دیوان بہت مختصر ہے۔ اس میں کلاں تقطیع کے ۲۳ صفحے اور ۹۸۱ رباعیاں ہیں۔ اس میں ردیف ژ نہیں ہے۔ کلام کا رنگ بیشک صوفیانہ اور موعظانہ ہے۔ لیکن اس میں کچھ خاص برجستگی یا لطف نہیں۔ حضرت غمگین کا کلام بہت مشکل اور حقائق و معارف سے واقعی مملو ہے، لیکن ان کے یہاں بھی وہ روانی نہیں ہے جو استادوں کے کلام کا خاصہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ شاعر کو باریک نکات کے درست بیان سے غرض تھی نہ کہ شاعرانہ کمال دکھانے کی۔
امو جان ولی کی چند رباعیاں ملاحظہ ہوں
مخلوق سے دو روز کی بیکار ہے پیت
معدوم جو ہو اس سے بھلا کیا پرتیت
خالق کی محبت میں جو کھوئے دل و جاں
آخر اسے معلوم ہو اس ہار میں جیت
پرتیت:ظاہر
یہاں میر کا شعر یاد آتا ہے
غم زمانہ سے فارغ ہیں مایہ باختگاں
قمار خانۂ آفاق میں ہے ہار ہی جیت
اگلی رباعی دیکھیں
مکاری سے بن پیر تو دنیا کو نہ مونڈ
اک پیٹ ہے چھوٹا سا بنا اس کو نہ کونڈ
محنت سے کما کونے میں کر رب کو یاد
مرشد تجھے حق کر دے تو خود ہو تری ڈھونڈ
کونڈ: بڑا مٹکا
یہاں ’’ڈھونڈ‘‘ بمعنی ’’تلاش، مقصود‘‘ خوب ہے۔ مگر ’’تری ڈھونڈ‘‘ ذرا مخدوش بھی ہے۔ لوگوں نے غالب پر اعتراض کیا کیا تھا
اور میں ہوں کہ اگر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے
اعتراض یہ تھا کہ ’’میری اوقات‘‘ کی جگہ ’’اپنی اوقات‘‘ کہنا تھا۔ لیکن امو جان ولی کے یہاں بھی اس طرح کا صرف دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے اہل دہلی کا محاورہ یہی ہو اور طباطبائی اس سے واقف نہ رہے ہوں۔ خیر، لیکن ذرا سرمد کو سنتے چلیں
سرمد اگرش وفاست خود می آید
گر آمدنش رواست خود می آید
بیہودہ چرا در پئے او می گردی
بنشین اگر خدا ست خود می آید
لیکن امو جان ولی کا مقابلہ سرمد سے، یا حضرت خدا نما سے، کچھ ٹھیک بھی نہیں۔ امو جان ولی کی ایک اور رباعی دیکھیں، یہاں البتہ تصوف کا مسئلہ بڑی صفائی سے نظم ہوا ہے
اول یہ فنا خلق سے دوری کر لے
اور دوسری خواہش سے صبوری کر لے
ہے تیسری امید کا مٹنا دل سے
چوتھی یہ ارادے سے نفوری کر لے
آخری رباعی، اور حق یہ ہے کہ بڑی عمدہ رباعی، اور جس پر غالب کا پرتو بھی بڑے حسن سے آیا ہے
حال دل شیدا تو چھپائے نہ بنے
سن کر اسے بن میرے ستائے نہ بنے
کہنا بھی نہ کہنا بھی ہیں دونوں آفت
اب بات کوئی موت بن آئے نہ بنے
٭٭٭