مرے چراغوں کو دفن کر دو
اصول، اونچے وِچار
حق گوئی
کہ جس میں کھولی تھیں تم نے آنکھیں
تو میرے بچو!
چراغ کیا کیا
دیے تھے دادا نے باپ کو
باپ نے یہ ورثہ مجھے تھمایا
اور اب بڑھاپے میں
میں نے چاہا کہ سارا ورثہ، چراغ سارے
میں اپنے بچوں کو سونپ دوں، مر سکوں سکوں سے
بہت ہیں چالاک میرے بچے
وہ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں
ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۱
یہ ساری چیزیں
۔۔۔ ٹمٹماتے چراغ سارے
بہت پرانے ہیں، ان سے کیا روشنی ملے گی؟
انہیں کسی میوزیم میں رکھ آؤ
تاریخ کے پرانے شکستہ پنّوں میں دفن کر دو
کچھ اور ہے آج کی یہ دنیا
یہ وہ نہیں ہے
کہ جس میں کھولی تھیں تھیں تم نے آنکھیں
تو میرے بچو!
نئے زمانے میں جینے والو!
بلند دیواروں اور اونچی چھتوں کے نیچے
نئے کھلونوں کے ساتھ
مصنوعی زندگی راس آئے تم کو
مرے چراغوں کو میرے ہمراہ دفن کر دو
نئے تصور کے قمقموں کا نیا تماشا تمہیں مبارک
اندھیری دنیا تمہیں مبارک
٭٭
بے ردا شام
عالی شان بنگلوں
فارم ہاؤسوں
فائیو سٹار ہوٹلوں میں
سال کی آخری شام
۔۔۔۔ ہزار ہا قمقموں کو زیور کجی طرح پہنے سجی دھجی شام
ادھ کھلے مرمریں بدن
رقص
میوزک
شراب کے جام
لذیذ کھانے
ادھر زمیںؓ میں دھنسے ہوئے پائپوں میں
اک بے گھروں کی دنیا
جہاں پہ اک لالٹین جلتی ہے
جو تیل کے بن بجھا دی جاتی ہے شام ہی کو
بے ردا شام
بدن چرائے
کود جاتی ہے شب کے کالے سمندروں میں
تضاد ہے اس سماج کا یہ
جہاں کے سورج پہ سب کا حق ہے
جہاں کی شاموں کو حق ہے اپنے دئے جلانے کا
تیل لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں ہر اک شام کے لئے ہے
٭٭
ماہنامہ ’سب رس‘ حیدرآباد، ہند، جنوری ۲۰۰۵
٭٭٭