دھوپ کیوں نہیں آتی
جانے میرے کمرے میں
دھوپ کیوں نہیں آتی
دِن تو دِن ہے راتوں کو
جب بھی اُس کے کمرے میں
میں نے جھانک کر دیکھا
جتنے روزنِ در ہیں
کیسے اُن سے چھَن چھَن کر
چاندنی اُترتی ہے
اُس کے فرش پر دیکھے
میں نے لاکھ سیّارے
کہکشاں سی آبِ جو
روشنی کے فواّرے
اُس کا چاند سا ماتھا
اُس کی مانگ میں تارے
صبح ہوتے ہی سورج
اُس کے دَر پہ آتا ہے
ایک تھال میں لے کر
طائروں کی چہکاریں
ایک تھال میں کلیاں
اک تھال میں سونا
یوں بکھیر دیتا ہے
جگمگانے لگتا ہے
اس کے گھر کا ہر کونا
اور یہاں یہ عالم ہے
صبح ہو گئی دل میں
رات کا بسیرا ہے
چار سو اندھیرا ہے
جانے کیوں اِن آنکھوں کو
روشنی نہیں بھاتی
جانے میرے کمرے میں
دھوپ کیوں نہیں آتی
٭٭٭
دعا
خدائے برتر! تِری اطاعت میں مجھ کو ایسا سُرور آئے
نہ بندگی میں ہو شَر اَنا کا، نہ میرے دِل میں غرور آئے
میں تجھ سے مانگوں، مجھے عطا کر دے اپنے محبوب کی محبّت
نہ جاہ و زَر کی ہَوس، نہ دِل میں خیالِ حُور و قصور آئے
مِرے لبوں پر ہو تیرا کلمہ، مِری نگاہوں میں تیرا جلوہ
نہ میرے ہمراہ آئیں موسیٰ، نہ بیچ میں کوہِ طُور آئے
یہ تیری جلوت، یہ میری خلوت، یہاں پہ کیوں ہو گزر کسی کا
میں تجھ کو دیکھوں، میں تجھ کو سوچوں، نہ کوئی نزدیک و دُور آئے
مرے خدا بے گناہ ہیں جو وہ تیری رحمت کے مستحق ہیں
مگر وہ موذی جو ظلم کرتے ہیں قہر اُن پر ضرور آئے
جو پھول سی عصمتیں لُٹی ہیں عطا ہو خلدِ بریں سے اُن کو
اِک ایسی چادر کلی کی دوشیزگی کا جس میں غرور آئے
مِرے خدا! یہ مِری نمازیں مِری دُعائیں قبول کر لے
میں اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیروں تو میرے چہرے پہ نُور آئے
*
شعر و حکمت، حیدر آباد، ہند، مدیر: اختر جہاں، مرتبین: شہریار، مغنی تبسم، کتاب سات، دور سوم، ۲۰۰۵ء
٭٭٭