بارش آنے سے پہلے ہی۔۔۔
بارش کے آنے سے پہلے ہی
بارش سے بچنے کی تیاری جا ری ہے
ساری دراریں بند کر لی ہیں
اور لیپ کے چھت، اب چھتری بھی مڑھوا لی ہے
کھڑکی جو کھلتی ہے باہر
اُس کے اُوپر بھی اِک چھجّہ کھینچ دیا ہے
مین سڑک سے، گلی میں ہو کر، دروازے تک آتا رستہ
بجری مٹّی ڈال کے اُس کو کُوٹ رہے ہیں!
یہیں کہیں کچھ گڈّھوں میں
بارش آتی ہے تو پانی بھر جاتا ہے
جوتے، پاؤں، پائینچے سب سَن جاتے ہیں
گلے نہ پڑ جائے ست رَنگی
بھیگ نہ جائیں بادل سے
ساون سے بچ کر جیتے ہیں
بارش آنے سے پہلے
بارش سے بچنے کی تیاری جاری ہے!
٭٭٭
دو سو فٹ سے بھی اونچی اِک دھوئیں کی کھُمبی
’’دو سو فٹ سے بھی اونچی اِک دھوئیں کی کھُمبی
پیچ دار، بل کھاتی ہوئی
اور اُوپر اک چھتری کالے گاڑھے دھُوئیں کی کھُلتی گئی
چھوٹے سے اک بم کے پیٹ سے نکلی اور
پُورے قندھار پہ پھیل گئی
دن دوپہرے، اندھیرا اندھیرا، ہر سُو پھیل گیا۔
جیسے جیسے کالے دھُوئیں کی راکھ زمیں پر گرتی تھی
چلتے پھرتے لوگ سبھی مر جاتے تھے۔‘‘
آنے والی نسلوں میں جب
پھر کوئی نانی آج کی بات سنائے گی تو
بچّے وہ بھی ایک کہانی سمجھ کے آنکھیں بند کر لیں گے۔۔۔ سو جائیں گے!!
٭٭٭
وقت کو جتنا گوندھ سکے ہم۔۔۔
وقت کو جتنا گوندھ سکے ہم، گوندھ لیا
آٹے کی مقدار کبھی بڑھ بھی جاتی ہے
بھُوک مگر اِک حد سے آگے بڑھتی نہیں
پیٹ کے ماروں کی ایسی ہی عادت ہے
بھر جائے تو دستر خوان سے اُٹھ جاتے ہیں!
آؤ، اب اُٹھ جائیں دونوں
کوئی کچہری کا کھُونٹا دو اِنسانوں کو
دستر خوان پہ کب تک باندھ کے رکھ سکتا ہے
قانُونی مہروں سے کب رُکتے ہیں، یا کٹتے ہیں رشتے
رشتے راشن کارڈ نہیں ہیں!!
٭٭٭
چہار سو، راولپنڈی، مئی جون ۲۰۱۰ء، مدیر: گلزار جاوید