ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے ۔۔۔ شفیق فاطمہ شعریٰ

 

چاند بیگانہ ہے، کون اس کو کہے گا اپنا

اس کے حالات جدا، اس کے مقامات جدا

نو دمیدہ کبھی، کامل کبھی، نا پید کبھی

بس یہی رنگ تلوّن ہے تشخّص اس کا

 

تارے سرگوشیاں کرتے رہے، ان کی تب و تاب

ان سے اچھی کہ رسائی مرے دل تک پائی

چاند نے سوچا، مرا قصہ بھی مجھ سے بہتر

جو وہاں چلتا رہا، گونج یہاں تک آئی

 

ورنہ ’آفاق کی یہ کار گہِ شیشہ گری‘

اس میں ڈھلتی ہیں عجب بھید بھری سیمائیں

قرب کی حد سے تجاوز ہو تو در پیش فنا

انتہا دوری کی چھو لیں، تو بکھر ہی جائیں

 

جب زمیں ابگری ، مٹا واہمۂ تنہائی

جاگ اٹھا ہمہمہپ انواعِ کشش کا ہمہ گیر

جاگ اٹھی آئینہ رو بحر میں کروٹ لیتی

اونچے آفاق شکن سیل کی مستانہ نفیر

 

اجلی اکسیر سی مٹی وہیں لَو دیتی ہوئی

جھومتے پیڑوں کے سائے ہیں جہاں نقش آرا

پرتوِ ماہ نہ ہوتا تو یہ دیوانِ بسیط

اس بیاباں میں نہ ترتیب دیا جا سکتا

 

نغمۂ موج بھی موج اس کا ہے دریا گہرا

لہجۂ میرؔ کی گیرائی کا جادو جاگا

چاندنی ہو نہ کہ یں نالۂ لَے کی تجسیم

اب تو پہچاننا مشکل ہے، کہاں، کون ہے کیا

٭٭

شعر و حکمت، حیدر آباد ہند، کتاب ۶، مارچ ۲۰۰۴ء، مدیر: اختر جہاں، مرتبین: شہریار، مغنی تبسم

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے