محمد علی جوہر کی شاعری اور جذبۂ حریت ۔۔۔ پرو فیسر گوپی چند نارنگ

 

رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر ایک شیر دل قائد تھے۔ ان کے عزم میں ہمالہ کی سی عظمت، جذبے میں آتش فشاں لاوے کی سی گرمی اور ولولے میں سیل بے پناہ کی سی تندی و تیزی تھی۔ وہ کردار اور گفتار دونوں کے غازی تھے۔ بیسویں صدی کے دور اول میں انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی تحریر و تقریر اور عبارت و اشارت سے قوت و توانائی کی ایسی آگ بھڑکا دی کہ پوری تحریک آزادی میں خود ارادی اور خود اعتمادی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ قومی رہنما دوسرے بھی تھے اور ان میں سے کئی مولانا محمد علی جوہر سے آگے اور ان سے بڑے تھے، لیکن آتش فشانی اور شعلہ سامانی کا منصبِ بلند گویا انہیں کو ودیعت ہوا تھا۔ ان کی مجاہدانہ شخصیت کے جوش و خروش نے چند ہی برسوں میں عمل کا ایسا صور پھونکا اور انگریزوں کی قاہرانہ طاقت سے ایسی ٹکر لی کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ مسلمانوں میں ملی بیداری پیدا کرنے اور انہیں ہندوستان کی سیاست میں موثر قوت بنانے میں مولانا محمد علی کا بڑا حصہ ہے۔

مولانا محمد علی جوہر کی تعلیم ہندوستان میں بھی ہوئی اور ہندوستان سے باہر بھی، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ شبلی کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ شاعری پر اصلاح انہوں نے بھلے ہی داغ سے لی ہو۔ لیکن ذہنی مناسبت انہیں شبلی سے تھی۔ یہ مناسبت صرف تحریک آزادی کی وجہ سے نہیں بلکہ جمالیاتی اور شعری اعتبار سے بھی تھی۔ شاعری میں انہوں نے بڑی حد تک اسی طرز فغاں کو اپنایا جس کی طرح شبلی کے رچے ہوئے ذوق، احساس تغزل، رنگینیِ بیان اور مزیہ لے نے ڈالی تھی۔ محمد علی جوہر اگر چہ تحریک آزادی کے مجاہد تھے اور ان کی شخصیت کا عملی اور سیاسی پہلو ان کی شاعری سے کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ لیکن مزاج چونکہ تخلیقی تھا، اس لئے عمل کی سیمابیت برابر جذبہ و احساس کی سرشاری کا پتہ دیتی ہے۔ حریت پسندی ان پر ختم تھی۔ یہ ان کی سب سے بڑی طاقت تھی اور شاید کمزوری بھی۔ وہ مکمل آزادی کے تصور میں معمولی سی تبدیلی کے روا دار نہ تھے۔ ان کی روح مجاہد کی تھی۔ لیکن دل شاعر کا تھا۔ ان کے شعری کر دار کا ذکر کرتے ہوئے شبلی کی یاد تو تازہ ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن حسرت موہانی کا نقش بھی ساتھ ساتھ ابھرنے لگتا ہے جو مولانا کے معاصر تھے۔ غزل کی رمزیت اور ایمائیت میں قومی و سیاسی جذبات کے بیان کی گنجائش تو آغاز سے تھی لیکن جس انداز سے محمد علی جوہر اور حسرت موہانی نے پرانی مینا میں نئی شراب بھری اس سے ایک اور ہی دلنواز نقش سامنے آیا اور غزل میں ایک نئی معنیاتی جہت کا اضافہ ہو گیا۔ حسرت بیسویں صدی کے ایوان غزل کا ایک تابناک باب ہیں۔ ان کے رنگ تغزل کی کئی سطحیں اور کئی شانیں ہیں۔ جبکہ محمد علی جوہر کے یہاں پوری غزل اسی کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ محمد علی جوہر کا تو اصل کارنامہ یہی ہے کہ ان کی غزلوں میں عاشقی و آزادی دونوں مل کر ایک ہو گئے۔ ان کا ذوق شعری اتنا بالیدہ، لطیف اور رچا ہوا ہے کہ عام طور پر ان کے کلام پر روایتی عاشقانہ رنگ کا دھوکا ہو سکتا ہے۔ لیکن در اصل ایسا نہیں۔ عاشقانہ لے کی رمزیت کے پردے میں وطنی لے ہے۔ جو عاشقانہ لے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ لیکن سرسری پڑھنے والوں کو اس کی پوری قوت اور درد مندی کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو کی قومی شاعری میں محمد علی جوہر کی غزل کا اتنا ذکر نہیں کیا جاتا جتنا اس کا حق ہے۔ مولانا غزل کی وضعداری کے قائل تھے۔ ان کی شعری میزان میں برہنہ گفتاری یا موضوع بندی کی سر ے سے گنجائش تھی ہی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو جتنے بڑے وہ قائد تھے، قومی اور سیاسی تقاضوں کی وجہ سے انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں موضوعاتی نظمیں بھی کہی ہوتیں۔ لیکن ان کا کلام دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے نظم تقریباً نہیں کہی۔ دو چار نظمیں جو ان کے مجموعے میں ملتی ہیں۔ شاید فرمائشی ہیں اور ان کے شعری سرمائے میں کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ داغ کی شاگردی کی وجہ سے ابتدا غزل سے ہی کی تھی اور یہ بھی واقعہ ہے کہ ان کا تخلیقی جوہر تغزل سے عبارت تھا۔ انہوں نے اپنے ایام گرفتاری میں یا اس کے بعد جب جب شعر کو سخن کا پردہ کیا تو اپنے مزاج تغزل کی وجہ سے اشاریت اور ایمائیت کی بہترین روایتوں کی پاسداری کی۔ اردو تنقید کو دیوان جوہر کے رنگ تغزل کے اس پہلو کا حق شاید ابھی ادا کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے قومی اور ملی احساسات تمام و کمال تغزل کے پیرا یے میں بیان کئے اور اس Heightened Emotion یعنی جذبہ و احساس کی اس شدت اور تندی کے ساتھ اس کی دوسری نظیر کم سے کم اس دور کی غزل میں نہیں ملتی۔

محمد علی جوہر کی شاعری میں مرکزیت، جذبہ عشق ہی کے ذریعہ پیدا ہوئی ہے۔ یہ عشق وطن کا، ملت اسلامیہ کا اور آزادی ہند کا عشق ہے۔ غیر مشروط اور ہر طرح کے تحفظات سے مبرا۔ لیکن یہ مشاہدۂ حق کی وہ گفتگو ہے جو بادہ و ساغر کے پیرایۂ رنگین میں بیان ہوئی ہے اور اس میں سرشاری اور سر مستی کی والہانہ اور بے تابانہ کیفیت ہے۔ یوں تو اس میں جیب و داماں کی شکایت بھی ہے اور زلف پریشاں اور ابر و مژگاں کی حکایت بھی ہے لیکن و حشی کو جس ناقہ لیلیٰ کی تلاش ہے، اس کا راز غزل کی پوری فضا کو نظر میں رکھنے سے کھلتا ہے۔ ان غزلوں میں اکثر و بیشتر اشعار لخت لخت نہیں بلکہ ان میں ایک مسلسل کیفیت ہے، نہ صرف روانی اور بہاؤ اور جذباتی ترفع کی، بلکہ اس معنیاتی فضاء کی بھی جس کی شیرازہ بندی مولانا کے تصور ملی اور جذبہ حریت سے ہوئی ہے۔ ان غزلوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے ان کی مجموعی فضا اور قومی و سیاسی محرکات کو نظر میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ قومی عاشقانہ کیفیت اتنی عام ہے کہ محمد علی جوہر کی غزلوں کو کہیں سے بھی دیکھیے ان میں حدیث قوم و وطن کو سر دلبراں کے پیرایے میں بیان کرنے کا یہی دلنواز اور لطیف انداز ملے گا :

 

یہ نظر بندی تو نکلی ردِ سحر

دیدہ ہائے ہو ش اب جا کر کھلے

 

اب کہیں ٹوٹا ہے باطل کا فریب

حق کے عقدے اب کہیں ہم پر کھلے

 

فیض سے تیرے ہی اے قیدِ فرنگ

بال و پر نکلے قفس کے در کھلے

٭٭

 

قید اور قید بھی تنہائی کی

شرم رہ جائے شکیبائی کی

 

قیس کو ناقہ لیلیٰ نہ ملا

گو بہت بادیہ پیمائی کی

 

ہم نے ہر ذرے کو محمل پایا

ہے یہ قسمت ترے صحرائی کی

٭٭

 

یاد وطن نہ آئے ہمیں کیوں وطن سے دور

جاتی نہیں ہے بوئے چمن کیا چمن سے دور

 

مست مئے الست کہاں اور ہوس کہاں

طرز وفائے غیر ہے اپنے چلن سے دور

 

گر بوئے گل نہیں، نہ سہی یاد گل تو ہے

صیاد لاکھ رکھے قفس کو چمن سے دور

٭٭

 

آئی ہو نہ زنداں میں خبر موسم گل کی

سننا تو ذرا شورِ عنادل تو نہیں یہ

 

مجنوں ہے تو کیا عشق کا احساس بھی کھویا

جس میں تیری لیلیٰ ہو وہ محمل تو نہیں یہ

٭٭

 

نہ اڑ جائیں کہیں قیدی قفس کے

ذرا پر باندھنا صیاد کس کے

 

ان اشعار میں درد وطن کی داستان اگر چہ قیس و ناقۂ لیلیٰ، محمل و صحرا اور بوئے گل و صیاد و قفس کے پیرایے میں بیان ہوئی ہے تا ہم کہیں کہیں نظر بندی، قید فرنگ اور وطن و چمن کے کھلے اشارے بھی آ گئے ہیں۔ لیکن محمد علی جوہر بالعموم کھلے اشاروں میں بات نہیں کرتے۔ ان کا عام اندازِ بیان تغزل میں اس حد تک رچا بسا ہے کہ ان کے قومی وطنی جذبات کو عام عاشقانہ جذبات سے الگ کر کے دیکھنا ممکن ہے۔

 

سینہ ہمارا فگار دیکھیے کب تک رہے

چشم یہ خونابہ بار دیکھیے کب تک رہے

 

ہم نے یہ مانا کہ یاس کفر سے کمتر نہیں

پھر بھی ترا انتظار دیکھیے کب تک رہے

 

یوں تو ہے ہر سو عیاں آمد فصل خزاں

جور و جفا کی بہار دیکھیے کب تک رہے

 

اس غزل سے حسرت موہانی کی مشہور غزل کی یاد تازہ ہو جاتی ہے

 

رسم جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے

جب وطن مستِ خواب دیکھیے کب تک رہے

 

ان اشعار میں ایک مجاہد کے دل کی تڑپ، امنگ اور ولولہ دیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا نے ایسی غزلیں زیادہ تر قیدِ فرنگ کے دوران کہیں۔ ذرا ملاحظہ ہو ان اشعار میں جہاں عشق کے جذبہ صادق کی آنچ ہے۔ وہاں شور سلاسل کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔

 

یقیناً فصل گل میں پھر نکل بھاگا ہے زنداں سے

وہی شور سلاسل ہے، وہی دیوانہ آتا ہے

٭٭

 

آخر کو لے کے عرش سے فتح و ظفر گئی

مظلوم کی دعا بھی کبھی بے اثر گئی

 

اپنی ہی عمر نے نہ وفا کی وہ کیا کریں

ہم ہو چکے تو ان کو ہماری خبر گئی

 

کہنے نہ پائے وصل کی شب مدعائے دل

اک داستان غم تھی وہی تا سحر گئی

٭٭

 

یاں تو ہے نام عشق کا لینا

اپنے پیچھے بلا لگا لینا

 

شرطِ تحریر پہلے سن لے، پھر

خامے کو ہاتھ میں دلا لینا

 

نامۂ شوق ان کو شوق سے لکھ

غیر کو بھی مگر دکھا لینا

 

ایک ہی جام اور سرمستی

ساقیا، دیکھ میں چلا لینا

٭٭

 

مولانا کا عشق ایک عاشقِ صادق کا عشق تھا، اس میں ایک ایسے شعلۂ جوالہ کی کیفیت تھی۔ جس نے ان کے پورے وجود کو پگھلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے عشق میں دیوانگی کا رنگ ہے اور اس کی عام کیفیت جذب و جنون کی ہے۔ آزادی کی راہ میں وہ ہر شے کی بازی لگانے کو تیار تھے۔ حتیٰ کہ عزیز ترین متاع یعنی نقد جان کے ٹھکانے لگانے کو وہ سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے۔ وطن و ملت کے لئے جان قربان کرنا ان کی سب سے بڑی تمنا تھی اور اسی تمنا کی وجہ سے ان کے کلام میں ایک عجیب و غریب سرشاری اور مرکزیت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ مرکزیت اور محویت اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب تک عشق پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اور زندگی اور اس کے نصب العین میں پوری تطبیق پیدا نہ ہو جائے۔ مولانا کے اشعارسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا انہیں یقین تھا کہ اس راہ میں جان تو جانی ہی جانی ہے اور یہی عشق کا کمال اور منتہا ہے۔ مولانا کے شعری اظہار میں شوق شہادت، قتل اور قتل کے متعلقات خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ذرا ان اشعار میں دیکھیے کہ جان قربان کرنے کا جذبہ کیا کیا شکلیں اختیار کرتا ہے:

 

کر گئی زندۂ جاوید ہمیں

تیغ قاتل نے مسیحائی کی

 

عقل کو ہم نے کیا نذرِ جنوں

عمر بھر میں یہی دانائی کی

٭٭

 

دے نقدِ جان تو بادۂ کوثر ابھی ملے

ساقی کو کیا پڑی ہے کہ یہ مے ادھار دے

 

رہرو تھا راہ عشق کا منزل کو پا لیا

اب اور کیا نشاں مری لوح مزار دے

 

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

٭٭

 

ستم سے کچھ نہ ہوا اب کھلا ستم گر پر

ابھی کچھ اور بھی باقی ہے قتل عام کے بعد

 

تمہیں کرو سر تسلیم پہلے خم پئے قتل

کہ سر جھکاتے ہیں سب مقتدی امام کے بعد

٭٭

 

جنس گراں تو تھی نہیں کوئی مگر یہ جاں

لائے ہیں ہم بھی رونق بازار دیکھ کر

 

ہم خاصگان اہل نظر اور یہ قتل عام

جور و ستم بھی کر تو ستم گار دیکھ کر

٭٭

 

ہو کچھ بھی مگر شور سلاسل تو نہیں یہ

جوہر کا تڑپنا دم بسمل تو نہیں یہ

 

ہے بات تو جب نزع میں تمکیں رہے قائم

مقتل ہے دلا، رقص کی محفل تو نہیں یہ

٭٭

 

کچھ بھی وہاں نہ خنجر قاتل کا بس چلا

روح شہید رہتی ہے نعش و کفن سے دور

 

شاید کہ آج حسرت جوہر نکل گئی

اِک لاش تھی پڑی ہوئی گور و کفن سے دور

٭٭

 

نہیں پالا پڑا قاتل تجھے ہم سخت جانوں سے

ذرا ہم بھی تو دیکھیں تیری جلادی کہاں تک ہے

 

گویا ہے لاش بھی تو تمہارے شہید کی

پیہم صدا بلند ہے ہل من مزید کی

 

ساقیا، دیکھ تشنہ کام نہ جائیں

ذبح سے پہلے کچھ پلا لینا

 

ان اشعار میں قتل، قتل عام، قاتل، تبغ قاتل، خنجر قاتل، مقتل، جنوں ، نذر جنوں، موت، نقد جاں کا لٹانا، ذبح کرنا، بسمل، شہید، نعش، مزار، لوح مزار، گور و کفن وغیرہ کلاسیکی غزل کی عام لفظیات کا حصہ ہیں اور بظاہر ان میں کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن جذبے کی جس سرشاری اور انہماک سے مولانا نے انہیں برتا ہے اور جس کثرت اور تواتر سے یہ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ و تراکیب تخلیقی اور استعاراتی طور پر مولانا کی غزل میں وارد ہوتے ہیں اور ان کے حسی اور بصری پیکروں سے جو خاص فضا مرتب ہوتی ہے۔ اسے مولانا کے تخلیقی مزاج کو سمجھنے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا کی غزل میں خاص بات یہ ہے کہ ان کا جوشِ حریت انہیں ہمیشہ جذبۂ شہادت سے سرشار رکھتا ہے۔ قاتل کا ہاتھ سے لہو کو دھوتے ہوئے رو رو دینا اور خامے کا خونچکاں ہونا اردو غزل کی روایت کا حصہ ہے۔ لیکن اگر پوری غزل ہی قتل، شہادت، لہو یا خون کے رنگ میں ڈوبی ہوئی نظر آئے تو یقیناً اس سے ایک خاص شعری مزاج اور افتاد ذہنی کا سراغ ملتا ہے۔

مولانا نے بیشتر غزلیں قید فرنگ کی تنہائی میں کہیں۔ نور الرحمن نے لاہور سے دیوان جوہر کا جو ایڈیشن شائع کیا تھا۔ اس میں مولانا کی نایاب تحریروں کا عکس بھی ہر غزل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے جو پاکستان قومی میوزیم میں محفوظ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان غزلوں کے اوراق جیلر کے دستخط اور مہر لگانے کے بعد باہر بھیجے جاتے تھے۔ ان غزلوں میں خاصی تعداد ایسے اشعار کی ہے جن میں ذوق شہادت، قتل یا واردات قتل کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کی روشنی میں کہنا غلط نہ ہو گا کہ مولانا کی غزل کا منظر نامہ اور ان کی شعری امیجری قتل و شہادت اور خون سے عبارت ہے۔ گو یا یہ جذبہ کی سر فروشی کا لالہ زار ہے۔ جہاں سرخیِ خون شہدا سے آزادی کی تمناؤں کا رنگ سرخ ہو گیا ہے۔

 

اللہ کے بانکوں کا بھی ہے رنگ نرالا

اس سادگی پہ شوخیِ خونِ شُہدا دیکھ

 

میرے لہو سے خاک وطن لالہ زار دیکھ

اسلام کے چمن کی خزاں میں بہار دیکھ

 

مرنے کو یوں تو مرتے ہیں ہر روز سینکڑوں

اپنے لئے پیام قضا ہو تو جانیے

 

کہتے ہیں نقد جاں جسے ہے عاشقوں پہ قرض

یہ قرض ہم سے جلد ادا ہو تو جانیے

 

شہدا و شرابِ خلد میں یہ چاشنی کہاں

کچھ خونِ دل سے بڑھ کے مزا ہو تو جانیے

 

قاتلِ جوہر کے ہاتھوں سے نہ چھوٹا حشر تک

کس بلا کا خون ظالم کی رگِ گردن میں تھا

 

بہارِ خونِ شہادت دکھا گئے جوہر

خزاں میں اور یہ رنگ شباب دیکھو تو

 

ہے قبل مرگ ہی اعدائے دیں کا واویلا

ابھی ہوا ہی کہاں ہے عذاب دیکھو تو

 

اور کس وضع کی خوباں ہیں عروسانِ بہشت

ہیں کفن سرخ شہیدوں کا سنورنا ہے یہی

 

تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر

شبِ فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی

 

نقد جاں نذر کرو سوتے کیا ہو جوہر

کام کرنے کا یہی ہے تمھیں کرنا ہے یہی

 

ذوقِ شہادت اور قتل کا گہرا تعلق دار و رسن سے ہے۔ یہ اور اسی طرح کی دوسری تراکیب فارسی غزل سے اردو غزل کے کلاسیکی سرمائے میں آئیں۔ بالعموم سمجھا جاتا ہے کہ یہ ترقی پسند کی دین ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ترقی پسندوں سے تقریباً ربع صدی پہلے حسرت موہانی اور محمد علی جوہر ان ترکیبوں کو پوری تخلیقی محویت اور دلسوزی کے ساتھ برت چکے تھے۔

 

جوہر نہ کیوں یہ رسم کہن زندہ کر چلیں

دار و رسن کے گر چہ نہ ہوں بانیوں میں ہم

 

اے مسیحا اس مرض سے کون چاہے گا شفا

دار پر موت آئے اس کی بھی کوئی تدبیر ہے

 

کیا عشق نا تمام کی بتلاؤں سر گزشت

دار و رسن کا اور ابھی انتظار دیکھ

 

پاداش جرم عشق سے کب تک مفر بھلا

مانا کہ تم رہا کیے دار و رسن سے دور

 

مولانا کے مجاہد ملت ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ مولانا نے ہوس زیست پر کچھ اس طرح قابو پا لیا تھا کہ وہ بار بار تلقین کرتے ہیں کہ جو انسان راہ حق اور راہ وطن میں موت سے ڈرتا ہے اس کی زندگی موت سے بد تر ہے۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ قلزم عشق میں ڈوبنا ہی در اصل پار اترنا ہے اور انہوں نے اپنی زندگی سے اس کا عملی ثبوت بھی دیا۔ مولانا کے تخلیقی ذہن کو واردات قتل، شہادت اور خون سے جو مناسبت ہے اب تک اس کی مثالیں ادھر ادھر سے پیش کی گئیں۔ لیکن اس کی بہترین توثیق اس غزل سے ہوتی ہے جسے بلا شبہ مولانا کی شاہکار غزل کہا جا سکتا ہے۔ مولانا نے اگر کچھ اور نہ لکھا ہوتا اور یہی ایک غزل کہی ہوتی تو بھی اردو کے جریدۂ شعر پر ان کا نام ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جاتا۔ لیکن یہ بات ہے سخن گسترانہ، کیونکہ اس غزل میں جو سرشاری اور دلسوزی ہے وہ دشت شہادت میں عمر کھپانے اور اُس کیفیت سے گزرنے کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اک خون کا دریا ہے ڈوب کے جانا ہے۔ ملاحظہ ہو اس غزل کی امیجری کا کتنا گہرا تعلق قتل و خون سے ہے۔

 

دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد

ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

 

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو کوئی آرزو

باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد

 

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے

میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

 

لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں

آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد

 

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 

اس غزل میں ابتدا و انتہا، حیات و موت، قضا و سزا، آرزو اور دل بے مدعا، لہو اور حنا، قتلِ حسین اور مرگِ یزید اور اسلام و کربلا میں جو مناسبتیں ہیں ،ان سے جو پیکر اور حسی معنیاتی نقش ابھرتے ہیں اور ان کا جو ربط شہادت سے اور واردات قتل سے ہے۔ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ یہ تمام تصورات جو مولانا کے تخلیقی مزاج میں بمنزلۂ جوہر کے جا گزیں تھے۔ اِس غزل میں ان کا بھرپور تخلیقی اظہار ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غزل خود ارادی و خود اعتمادی، سرشاری و سرمستی اور کیف و سرور کے اعتبار سے خاصی اہمیت رکھتی ہے اور اس کا آخری مصرع تو ضرب المثل بن چکا ہے۔

ابھی مولانا کے تصورات کی دو منزلیں اور بھی ہیں جن کی طرف اشارہ کرنا بات کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اول یہ کہ جیسا کہ مندرجہ بالا غزل کے آخری شعر سے ظاہر ہے۔ قتل حسین اور کربلا، تحریک آزادی اور اتحاد اسلامی کے تناظر میں غالباً اُردو غزل میں پہلی بار استعمال ہوئے ہیں اور انہیں وسیع قومی و ملی معنوں میں پہلی بار استعمال کرنے کا امتیاز مولانا کو حاصل ہے۔ مولانا نے جاں فروشی اور پیرویِ حق کے ضمن میں منصور اور انا الحق کو بھی استعار ے اور علامت کے طور پر برتا ہے اور ان کی مدد سے تخلیقی سطح پر مجاہدین آزادی کے جذبہ حریت اور حوصلہ شہادت کو للکارا ہے۔

 

منصور

 

یہ بھی کیا پیروی حق ہے کہ خاموش ہیں سب

ہاں انا الحق بھی ہو، منصور بھی ہو، دار بھی ہو

 

جاں فروشی کے لئے ہم تو ہیں تیار مگر

کوئی اس جنس گرامی کا خریدار بھی ہو

 

کشتوں کو تیرے کس نے کیا ہے سپرد خاک

ان میتوں کے وا سطے گور و کفن کہاں

 

سنتے ہیں یہ بھی ایک بزرگوں کی رسم تھی

اس دور اعتدال میں دار و رسن کہاں

 

سن لیجے خلوتوں میں انا الحق کا ادعا

سولی پہ چڑھ سنائے وہ اب نعرہ زن کہاں

 

حسین و کربلا

 

پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو

خوش ہوں وہی پیغامِ قضا میرے لئے ہے

 

کہتے ہیں لوگ ہے رہِ ظلمات پر خطر

کچھ دشت کربلا سے سوا ہو تو جانیے

 

جب تک کہ دل سے محو نہ ہو کربلا کی یاد

ہم سے نہ ہو سکے گی اطاعت یزید کی

 

بیتا ب کر رہی ہے تمنائے کربلا

یاد آ رہا ہے با دیہ پیمائے کربلا

 

بُنیادِ جبر و قہر اشارے میں ہل گئی

ہو جائے کاش پھر وہی ایمائے کربلا

 

رو ز ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات

جائے گا سر کے ساتھ ہی سودائے کربلا

 

فرصت کسے خوشامِد شمر و یزید سے

اب ادعائے پیروی پنجتن کہاں

 

ماتم شبیر ہے آمد مہدی تلک

قوم ابھی سوگوار دیکھیے کب تک رہے

 

ہم عیش دو روزہ کے بھی منکر نہیں لیکن

ایمائے شہ کرب و بلا اور ہی کچھ ہے

 

خود خضر کو شبیر کی اس تشنہ لبی سے

معلوم ہوا،آب بقا اور ہی کچھ ہے

 

لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان سب تصورات کا منبع و ماخذ مولانا محمد علی جوہر کی پاکیِ باطن اور نورِ ایمانی تھا۔ انگریز کے جبر و استبداد سے ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ بلکہ جس قدر ظلم و جور میں شدت ہوئی۔ مولانا کا جوشِ قربانی اور جذبۂ ایثار و شہادت اتنا ہی کھل کر سامنے آیا۔ مولانا نے قرآن حکیم کا درس شبلی سے علی گڑھ میں لیا تھا۔ اپنی ذہنی اور دینی تربیت کے ضمن میں اس کو انہوں نے ہمیشہ اہمیت دی۔ شہادت کے جذبۂ فراواں کا اصل سر چشمہ بھی ذات باری میں یقیں کامل تھا اور اسی سے انہوں نے خدمت خلق، خدمتِ ملت، اور خدمتِ وطن کو اپنا شعار بنایا تھا۔ مولانا کا دل جب نبویﷺ سے لبریز تھا۔ اکثر معلوم ہوتا ہے کہ اشعار نوک قلم سے بے اختیار ٹپک پڑے ہیں۔ ایسے اشعار اور جذبہ شہادت کے اشعار میں ایک خاص مناسبت ہے اور اکثر ایسے اشعار ساتھ ساتھ ایک ہی غزل میں واقع ہوئے ہیں اور کچھ غزلیں تو تمام و کمال اسی کیفیت کی ترجمانی کرتی ہیں اور ان میں جب نبویؐ اور جذبۂ شہادت گھل مل گئے ہیں۔

 

تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے

اک درِ مے خانۂ کوثر کھلے

 

چاک کر سینے کو پہلو چیر ڈال

یوں ہی کچھ حالِ دل مضطر کھلے

 

لو وہ آ پہنچا جنون کا قافلہ

پاؤں زخمی خاک منہ پر سر کھلے

 

رونمائی کے لئے لایا ہوں جاں

اب تو شاید چہرۂ انور کھلے

 

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لئے ہے

پر غیب سے سامانِ بقا میرے لئے ہے

 

حُورانِ بہشتی کی طر ف سے ہے بلاوا

لبیک کہ مقتل کا صِلا میرے لئے ہے

 

کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے

ماتم یہ زمانے میں بپا میرے لئے ہے

 

سرخی میں نہیں دستِ حنا بستہ بھی کچھ کم

پر شوخیِ خونِ شہدا میرے لئے ہے

 

کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہو ں کہ جو فرمائے

اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے

 

اے شافعِ محشر جو کرے تو نہ شفاعت

پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے

 

اللہ کے رستے ہی میں موت آئے مسیحا

اکسیر یہی ایک دوا میرے لئے ہے

 

حب نبویؐ کی اسی کیفیت سے مولانا کا جذبہ شہادت اپنی روحانی غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ دشتِ رہِ حق میں خود کو اکیلا نہیں سمجھتے بلکہ بطحا کے مہاجر کا نقشِ کفِ پا ہمیشہ ان کے حوصلوں کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ عاشقوں کے لئے دار ہی عین شفا ہے اور رسم وفا داری کا تقاضا یہی ہے کہ جان بچا کر نہ رکھی جائے۔ اس نظر سے دیکھیے تو مولانا کی شاعری لہو رنگ نظر آتی ہے۔ وہ سر فروشی کے لئے ہمیشہ آمادہ رہے اور بالآخر انہوں نے وطن و قوم ہی کے لئے جان کھپا دی۔ سنہ 1931 میں جب وہ خرابی صحت اور احباب و اعزہ کے روکنے کے با وجود راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے لئے لندن گئے۔ تو انہوں نے غلام ملک میں واپس آنے پر مر جانے کو ترجیح دی اور وہیں جانِ جاں آفریں کو سپر د کر دی اور بیت المقدس میں دفن کئے گئے۔ وہ ایک سچے قائد اور جری مجاہد تھے۔ تاریخ میں جہاں وہ اپنے جوش و ولولے، عزم و استقلال، جرأت و بے با کی اور خدمت و ایثار کے لئے یاد رکھے جائیں گے۔ وہاں اردو شاعری میں وہ اپنے سخن کی دل نوازی اور جان کی پر سوزی کے لئے فراموش نہ کئے جا سکیں گے۔ انہوں نے غزل میں قومی و ملی جذبات سے ایک نئی معنوی جہت کا اضافہ کیا۔ ان کا شعری منظر نامہ جذبۂ شوق شہادت سے لالہ رنگ نظر آتا ہے۔ انہوں نے جوشِ تخلیق میں اس امیجری اور واقعہ کر بلا اور منصور کے ملفوظی اور حسیاتی متعلقات کو نئے قومی اور سیاسی مفاہیم کے لئے برتا اور اس طرح اردو غزل کو نئے ذائقے سے آشنا کرایا۔ ان کی غزل کی زمین جذبۂ حریت کے خون کے چھینٹوں سے سرخ ہے۔ اس میں شہادت کا مژدہ بھی ہے اور اس حیات جاوداں کی بشارت بھی جو کسی اعلیٰ نصب العین کے لئے نقد جاں کو ہارنے اور سب کچھ ٹھکانے لگا دینے سے حاصل ہوتی ہے۔

٭٭٭

تفہیم، اپریل تا جون ۲۰۱۲ء، مدیر: شیخ خالد کرار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے