اب شور تھما تو میں نے جانا
آدھی کے قریب رو چُکی ہے
شب گرد کو اَشک دھو چُکی ہے
بھاری ہے مثل موت شہپر
ہے سانس کو رُکنے کا بہانہ
تسبیح سے ٹُوٹتا ہے دانہ
میں نقطہ حقیر آسمانی
بے فصل ہے بے زماں ہے تُو بھی
کہتی ہے یہ فلسفہ طرازی
لیکن سنسناتی وسعت
اِتنی بے حرف و بے مروّت
آمادۂ حرب لا زمانی
دُشمن کی اجنبی نشانی
٭٭٭