مرتضیٰ راہی: نکتۂ چند ز پیچیدہ بیانے ۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی

 

(غلام مرتضی راہی: پیدائش ۱۹۳۷)

جدیدیت کا سورج جب چمکا تو جہاں بہت سی نئی باتیں ظہور میں آئیں وہاں ایک بات یہ بھی ہوئی کہ بہت سے نو عمر شعرا جنھیں اندھیرے ماحول میں اپنی راہ نہیں مل رہی تھی یا جن کی صلاحیتوں پر نئی دریافت کی کرن نہیں پڑی تھی، انھوں نے یا تو اپنی راہ نکال لی، یا ان کی صلاحیتوں کو روز روشن میں آنے کا موقع ملا۔ غلام مرتضیٰ راہی موخر الذکر گروہ کے قابل قدر اور قوت مند نمائندے کی حیثیت سے ارباب نظر کے سامنے آئے اور بہت جلد سب کو معلوم ہو گیا کہ نئی اردو غزل کو ایک سنجیدہ، محنت کوش اور دور رس شاعر مل گیا ہے۔’’لامکاں‘‘ اور ’’لاریب‘‘ دو مجموعے تھوڑے تھوڑے وقفے سے شائع ہوئے (۱۹۷۱ اور ۱۹۷۳)۔ غلام مرتضیٰ راہی نے ان مجموعوں میں غزل کی متانت کو نئی لفظیات کی تلاش کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی بڑی خوش آئند کوشش کی تھی۔ مجموعی طور پر ان کے یہاں متفکر ذہن اور متجسس روح کی کارفرمائی نظر آتی تھی اور ان کے لہجے کی پختگی انھیں جدید غزل کے کسی ایسے ٹھکانے کی طرف لے جانے کا وعدہ کرتی تھی جہاں روایتی ’’روایت پسندی‘‘ اور فیشن ایبل جدیدیت دونوں کا ہی گذر نہ تھا۔

پھر اچانک غلام مرتضیٰ راہی کا قلم رک گیا، اور وہ اس طرح اور اس قدر رکا کہ شعر گوئی ہی ان سے چھوٹ گئی۔ معاصر ادب کے پڑھنے والوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کا حافظہ دیر پا نہیں ہوتا۔ آنکھ اوجھل تو پہاڑ اوجھل جیسا معاملہ ہے۔ چنانچہ کہاں تو غلام مرتضیٰ راہی کے روشن تر مستقبل کے بارے میں خیال آرائیاں ہو رہی تھیں اور کہاں تنقیدی مضامین اور ادبی محفلوں میں غلام مرتضیٰ راہی کا ذکر النادر کالمعدوم ہوتے ہوتے بالکل ہی معدوم ہو گیا۔ گذشتہ زمانے میں جب شعر گوئی کے طریقے مقرر تھے اور شعر و شاعری کا طرز بہت جلد جلد بدلتا نہ تھا، یہ آسان تھا کہ شاعر کئی برس کی خاموشی کے بعد لب کشا ہو اور اسے حال کو ماضی سے جوڑنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔ اب تو یہ ہے کہ شعر گوئی کے لئے اظہار ذات لازمی ہے اور جتنے منھ اتنی باتیں کی طرح جتنے شاعر اتنی طرح کی شخصیتیں، اتنی طرح کی ذاتیں۔ اب تو انسان بدلتا رہتا ہے، زمانے کی ہوا میں تبدیلی سے متاثر ہوتا ہے۔ نو آمدہ لوگ اپنے اپنے دعوے پیش کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کئی سال کا سکوت جب ٹوٹے تو شاعر گویا دو بارہ پیدا ہوتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے ’’لاریب‘‘ کے بارے میں کہا تھا کہ اس مجموعے کا شاعر ایسا ہے جس کا چہرہ پہچانا جا سکتا ہے۔ لیکن پندرہ سولہ برس میں چہرہ بدل جاتا ہے، اعتماد سے اٹھائے ہوئے قدم ڈگمگاتے ہوئے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ غلام مرتضیٰ راہی نے بڑی ہمت اور تازہ فکری سے کام لیا کہ جب ڈیڑھ دہائی بعد میدان شعر میں پھر انھوں نے قدم رکھا تو اپنے پہلے مجموعے ’’لامکاں‘‘ (۱۹۷۱) اور دوسرے ’’لاریب‘‘ (۱۹۷۳) کو ’’حرف مکرر‘‘ (۱۹۹۷) کے نام سے چھپوایا، لیکن ترمیم اور اضافے کے ساتھ یعنی یہ مجموعہ پرانا ہے بھی اور نہیں بھی۔ بہت سے اشعار وہی ہیں جو پہلے تھے، بہت سے اشعار بدلے ہوئے ہیں۔ مثلاً ’’لامکاں‘‘ کا پہلا ہی شعر ہے

حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا

مجھے کسی نہ کسی روز کوئی آ لے گا

اب ’’حرف مکرر‘‘ میں یہی مطلع یوں نظر آتا ہے

حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا

ضرور کوئی مجھے قید سے چھڑا لے گا

یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ’’لامکاں‘‘ کے شعر میں اگر تجربہ موت اور جسم کے انہدام سے متعلق تھا، تو ’’حرف مکرر‘‘ کے شعر کا مضمون روحانی ارتقا کی منزل سے گذر چکا ہے اور اب موت بہ حیات یا حیات بہ موت کی بلندی پر فائز نظر آتا ہے۔ اگر ’’لامکاں‘‘ کا شعر جدید تھا تو ’’حرف مکرر‘‘ کا شعر بھی جدید ہے۔ لیکن جہاں ’’لامکاں‘‘ کا شعر ایک خاص بلکہ تھوڑے سے محدود زمانی اور ذہنی ماحول سے متعلق قرار دیا جا سکتا تھا، وہاں ’’حرف مکرر‘‘ کا شعر زمانی اور ذہنی حدود سے ماورا نکل گیا ہے۔ اس بات میں ان غزل گویوں کے لئے بھی سبق آموز نکات پوشیدہ ہیں جو غلام مرتضیٰ راہی کے بعد آئے اور جو خود کو راہی اور ان کے پیش روؤں سے الگ ثابت کرنے کی سعی میں سر گرم ہیں۔

غلام مرتضیٰ راہی اب نیا مجموعہ لے کر بازار میں آئے ہیں۔ لفظ ’’بازار‘‘ میں نے میر کے تتبع میں استعمال کیا ہے ع

یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا

اور اس غزل میں یہ مصرع بھی ہے ع

خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا

ڈیڑھ دہائی بعد ان کی غزل نئے حسن اور نئی خوبی کے کام لے کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ وہ ذہن جو نوجوانی کے جوش میں زمانہ اور اہل زمانہ کے ساتھ ستیز کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتا تھا، اب ملٹن کے الفاظ میں Calm of mind کی منزل پر تو نہیں پہنچا اور اچھا ہی ہوا لیکن اس کی آواز میں بہ یک وقت متانت اور ذرا سی کڑوے پن کی ایمائیت ہے۔ گویا ان غزلوں کا شاعر گرم و سرد زمانہ دیکھ کر اکتایا نہیں، لیکن دنیا کو ناقابل اصلاح پا کر اور اہل دنیا سے دل ہی دل میں خفا ضرور ہے

سبزے کی طرح میں نے بھی خود کو جھکا لیا

اب آندھیوں کو سر سے گذر جانا چاہئے

 

نہ جانے قید میں ہوں یا حفاظت میں کسی کی

کھنچی ہے ہر طرف اک چار دیواری سی کوئی

 

پہلے دیوار میں چنوا دیا مالک نے مجھے

پھر عمارت کو مرے نام سے موسوم کیا

 

رگوں سے خنجر و نشتر زیادہ جانتے ہیں

لہو ہمارا کہاں کم کہاں رواں تھا بہت

 

غلام مرتضیٰ راہی کے تازہ کلام میں پہلے سے زیادہ تہ داری ہے، اور یہ بات مناسب بھی ہے کہ شاعر اگر ارتقا کرے تو گہرائی کی طرف جائے۔ بلند آہنگ اور احتجاج کا شور نئے استعارے کی خیال بند چمک، یہ سب جوانی کے خصائص ہیں، یعنی ایسے مزاج کے جسے شعر کہنے کی جلدی ہے کہ لاؤ جلد از جلد لوگوں کو متوجہ کر لیں۔ خیال بند یعنی تجریدی استعارہ گہری بات میں بدل جائے تو بیدل اور غالب کے بلند منارے نظر آنے لگتے ہیں۔ بیدل کا شعر ہے

چو حباب غیر لباس توچہ توقع و چہ ہر اس تو

نہ تو مانی و نہ قیاس تو چوکشند جامہز پیکرت

یعنی لفظ و معنی کچھ نہیں، صرف اوپری لباس ہیں، معنی تو کہیں اور ہیں۔ لیکن جو شاعر گہرائی میں اترنا چاہے اور اترنے کی صلاحیت بھی رکھے، وہ زمین کو آسمان سے ملا بھی سکتا ہے۔ ناصر علی سر ہندی نے اسی لئے کہا تھا

سخن از عرش بہ دل بردن رنداں آمد

ایں مئے صافز نہ شیشۂ افلاک چکید

لہٰذا شراب چاہے دکھائی نہ دے لیکن رگ و ریشے کو متاثر کرتے ہے۔ شعر تو آسمان سے اترا ہے، کہ رندوں کے دل کو اڑا لے جائے۔ شعر میں گہرے معنی کا رنگ بھی ہوتا ہے اور غلام مرتضیٰ راہی کے تازہ مجموعے میں یہ رنگ دیکھیے

اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا

مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے

 

کرتا نہیں ہے کیوں وہ حقیقت مری بیاں

اوروں کے قصے کر دیے مشہور کس لیے

 

دل نے تمنا کی تھی جس کی برسوں تک

ایسے زخم کو اچھا کر کے بیٹھ گئے

 

مثال سنگ ہوں میں اس کے بے رخی کے سبب

سراپا آئینہ اس کی توجہات سے تھا

 

آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال

اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں

 

سب ایک موڑ تک آئے مرے تعاقب میں

پھر اس کے بعد سمجھنے لگے سراب مجھے

 

رسم باقی رہے غم خواری کی

آمری آگ میں جل جا تو بھی

 

اکثر دروازوں کے ہوتے

گھر کھلنے سے رہ جاتے ہیں

 

اے مرے پایاب دریا تجھ کو لے کر کیا کروں

ناخدا، پتوار، کشتی، بادباں رکھتے ہوئے

 

جھانکتا بھی نہیں سورج مرے گھر کے اندر

بند بھی کوئی دریچہ نہیں رہنے دیتا

 

راہی کی ان غزلوں میں آہنگ کا تنوع گذشتہ مجموعوں سے زیادہ ہے۔ ان کے یہاں آہنگ میں وہ نرم روی تو کبھی نہ تھی جسے بعض لوگ غزل کے لئے ضروری جانتے ہیں۔ لیکن پچھلی غزلوں کے آہنگ میں جو تنوع تھا وہ غیر یقینی کی منزل سے آگے نہ جاتا تھا، گویا شاعر خود یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہو کہ کس لہجے میں شعر کہنا ہے۔ اب جو تنوع ہے اس میں کھردرے پن اور بے یقینی کی جگہ نئے لہجے دریافت کرنے اور انھیں کامیابی سے نبھا لے جانے کا اعتماد بھی ہے۔ ایسی عمر میں جب اکثر شاعر تھک کر بیٹھ چکے ہوتے ہیں، غلام مرتضیٰ راہی نئے مرحلے تسخیر کر رہے ہیں۔

غلام مرتضی راہی کی غزل پر اظہار خیال کا مجھے یہ تیسرا موقع ہے۔ اول بار میں نے ۱۹۷۱ میں ان کے بارے میں ’’شب خون‘‘ میں ایک نوٹ لکھا تھا جس کے چند جملے حسب ذیل ہیں:

ان غزلوں میں ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جو متفکر، تھوڑا سا چلبلا، دراک، انانیت اور قوت سے بھر پور ذہن رکھتا ہے۔ شاعر کی شخصیت حقائق حیات سے مفاہمت کرنے کے بجائے ان سے ستیز کرتی نظر آتی ہے۔ اور اس ستیز کا آہنگ انتہائی ذاتی، انتہائی داخلی، اور درون بینی، جگہ جگہ نوک دار استعاروں، اور غیر متوقع تناظروں سے عبارت ہے۔

کسی نسبتاً نو آمدہ شاعر، اور وہ بھی غزل کے شاعر، کے کلام میں ایسی صفات کا وجود غیر معمولی تو ہے ہی، لیکن یہ بھی ہے کہ ایسے شاعر کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟ اس نے تو بہت جلد ہی پختگی اور گہرائی کے منازل طے کر لئے ہیں، اب وہ کون سی راہ اختیار کرے؟ اس کا جواب تو خود شاعری ہی میں موجود ہونا چاہیئے، لیکن خود نقاد کا بھی فرض ہے کہ اپنے تئیں غور کرے کہ زمانے سے ستیزکرنے والا اور تیز ذہن رکھنے والا شاعر اب کس طرف جا سکتا ہے؟ اس کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی کے مصداق ایسا شاعر بھی اسی پرانی ڈگر پر کاربند رہ کر ستیز کی لے کو تیز تر کر کے یہ گمان کر سکتا ہے کہ میں ترقی کر رہا ہوں۔ یہ بیماری، یا کمزوری، اکثر تیز طبع شعرا میں ہوتی ہے کہ وہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ جس رنگ نے مجھے پہچنوایا ہے اسی کو اور چوکھا کروں تو کافی ہو گا۔ وہ اسے تکرار نہیں کہتے، بلکہ تشدید کہتے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ستیز کی لے بلند کرنے سے تکرار کے علاوہ قاری کے تئیں حقارت کا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے جو لکھ دیا اور جس طرح لکھ دیا اسی کو اور بھی قوت کے ساتھ کہتے چلے جائیں گے۔ مظفر حنفی اور پھر شجاع خاور کے ساتھ یہی ہوا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ذہانت اور طباعی شئے دیگر ہیں، اور ہوشیاری اور ذکاوت اور شے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہوشیار اور ذکی طالب علم اپنے استاد سے جو کچھ حاصل کرتا ہے اسے گھما پھرا کر کام چلاتا رہتا ہے اور تخلیقی قوت رکھنے والا طالب علم جوکھم مول لیتا ہے اور استاد کے بتائے ہوئے طریقوں کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ نظامی عروضی نے ’’چہار مقالہ‘‘ میں لکھا ہے کہ جو شخص شاعری کرنا چاہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ استادوں کے کم از کم دس ہزار شعر یاد کر لے۔ لیکن عربوں کا قول تھا کہ پہلے دس ہزار شعر یاد کرو، پھر انھیں حافظے سے محو کرو، تب شاعری شروع کرو۔

اس میں نکتہ یہ ہے کہ اچھا شاعر صرف مطالعہ نہیں کرتا، وہ گذشتگاں کی شاعری کو اپنے خون میں جذب کر لیتا ہے۔ غلام مرتضی راہی نے یہی کیا۔ انھوں نے اپنی طبیعت کی جولانی کو تجرید اور خیال بندی کی طرف موڑ دیا۔ ان کے جس مجموعے کے اشعار میں نے اوپر نقل کئے ہیں، وہ اسی عدم انفعال، اسی مضموں یابی اور اسی بلند لیکن غیر خطیبانہ لہجے میں ہے جسے ہم لوگوں نے خیال بندوں کے حوالے سے پہچا نا ہے، خواہ وہ شاہ نصیر ہوں یا غالب ہوں یا آتش و ناسخ و ذوق ہوں۔ اردو غزل گویوں کا عام رویہ محزونی اور واماندگی کا اظہار کرتا ہے۔ خیال بندوں کا رویہ اس سے مختلف تھا، بلکہ ان کی واماندگی بھی اپنا طنطنہ رکھتی تھی۔ غالب نے یوں ہی نہیں کہا تھا

رنج رہ کیوں کھینچئے وا ماندگی کو عشق ہے

اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے

اور مزید یہ بھی کہا

موج خوں سر سے گذر ہی کیوں نہ جائے

آستان یار سے اٹھ جائیں کیا

اسی طرح یہ بھی دیکھئے کہ خواجہ میر درد نے کہا

سخت بیباک ہے یہ خامۂ شوق

اپنے ہاتھوں کو قلم کیجئے گا

تو غالب نے کہا

لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

عدم انفعال کے رنگ اسی وقت چوکھے نظر آتے ہیں جب شاعر (یعنی غزل کا متکلم) کار زار حیات میں مستحکم رہے۔ اگر آگے نہ بڑھ سکے تو اپنی جگہ پر قائم تو رہے۔ میں یہاں اس بات میں نہ جاؤں گا کہ راہی کے یہاں عدم انفعال کے رنگ ابھرنے اور چمکنے کا زمانہ وہی ہے جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے اور دیر تک ایسے عالم میں تھے جہاں انھیں اپنی زندگی کا مستقبل تاریک نظر آتا تھا۔ میرے خیال میں یہ معاملہ شاعر کے سوانح حیات سے زیادہ شاعر کے مزاج سے تعلق رکھتا ہے۔ بہر حال، غلام مرتضیٰ راہی نے اپنے انداز بیان کو بتدریج اس انداز سے دور کر لیا جسے ’’غزل کا عام مزاج‘‘ کہا جاتا ہے، اور جو آج بھی بہت مقبول ہے۔ ان کے مجموعے ’’ؒلا کلام‘‘ سے چند شعر اور دیکھئے

 

بھول کر بھی کبھی چنگاری کو جگنو کہتا

ہم تو دامن ہی جلا لیتے اگر تو کہتا

 

سب تہی ظرف تھے پانی کے لئے دوڑ پڑے

قصۂ صبر و رضا کون لب جو کہتا

 

جہاں سوال ہے قدموں پہ اس کے رکھنے کا

وہاں بھی چاہیئے سر کی سلامتی مجھ کو

 

اب انتظار کے دن ختم ہو گئے راہی

گلے لگائے گی اکیسویں صدی مجھ کو

 

چاروں شعروں میں اعتماد اور خود احتسابی کاجو رویہ ہے، وہ شاعر/متکلم کو عام انسانوں سے الگ کرتا ہے۔ اسی مجموعے کا ایک شعر میں نے اوپر نقل کیا تھا، اسے پھر دیکھئے

پہلے دیوار میں چنوا دیا مالک نے مجھے

پھر عمارت کو مرے نام سے موسوم کیا

کہیں سے بھی رونے دھونے، اپنی تقدیر پر افسوس کرنے، زمانے یا ’’مالک‘‘ کے ظلم پر شکوہ کرنے، اپنے کو پامال بتانے کا کوئی ذکر نہیں۔ بس ایک سخت اور سرد طنز ہے، صرف ’’مالک‘‘ پر نہیں، بلکہ پورے نظام حیات پر۔ اگلے مجموعے میں کئی لوگوں کی رائیں اور تقریظیں طبیعت کو منغض کرتی ہیں۔ جس شاعر کا دعویٰ ہو (اور صحیح دعویٰ ہو) کہ اکیسویں صدی اسے گلے لگانے کو بیچین ہے، اسے ادھر ادھر کے نقادوں اور رائے دہندوں کی ضرورت نہیں، خصوصاً ً اس صورت حال میں، کہ لوگ ابھی غلام مرتضی راہی کے کلام کے ابعاد اور اس کے اعماق تک پہنچ نہیں سکے ہیں۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ غلام مرتضیٰ راہی ’’ہم عصر شاعروں میں اپنے منفرد اسلوب سے فوراً پہچان لئے جاتے ہیں۔ شاعر صاحب بصیرت ہو اور اپنا منفرد ڈکشن رکھتا ہو توایسے گہرے جمالیاتی تجربے سامنے آتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ادھر ادھر سے کچھ شعر نقل کر دئیے گئے ہیں۔

در اصل ہم لوگ ’’انفرادیت‘‘ کی نشان دہی کرنے کی دھن میں ’’اچھائی‘‘ کی نشان دہی کرنا بھول جاتے ہیں۔ میں نے اکثر کہا ہے کہ انفرادی اسلوب ٹھیک تو ہے، لیکن پہلی شرط ہے کہ شاعری اچھی ہو۔ دوسری بات جو میں نے اکثر کہی ہے وہ یہ ہے کہ معاصر ادب کے تناظر میں یہ کہنا بہت معنی خیز نہیں کہ ہمارا ممدوح کوئی ’’عظیم‘‘ شاعر ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ وہ اچھا شاعر ہے کہ نہیں؟ عظمت کا فیصلہ تو ہم آپ نہیں، تاریخ کرے گی جب ہم آپ اور ہمارا ممدوح سب اپنے اپنے تکیے کو آباد کر چکے ہوں گے

یلوح الخط بالقرطاس دہرا

وہ کاتبہ، رمیم فی التراب

بات یہ ہے کہ ’’اچھے‘‘ کی تو پہچان کم و بیش مقرر ہے، لیکن ’’عظیم‘‘ کی کوئی پہچان نہیں، بالخصوص معاصر ادب کے تناظر میں۔ مجھے تو ایسے شعر اچھے لگتے ہیں، جیسا کہ راہی کا یہ شعر ہے

خلوت میں اپنی کھل کے مجھے باریاب لکھ

اپنے کو با مراد مجھے کامیاب لکھ

معلوم نہیں راہی نے غالب کا یہ شعر پڑھا یا سنا ہے کہ نہیں

سوے خود خوان و بخلوت گہ خاصم جا دہ

انچہ دانی بشمار انچہ نہ دانی بشنو

غالب کے شعر میں مضمون زیادہ ہے اور بے نظرع برجستگی کے ساتھ نظم ہوا ہے۔ دوسرے مصرعے میں دونوں کا توازن اور معنی کی کثرت ایسی ہے کہ راہی کا شعر وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ غالب کا شعر اپنے وقت میں بے حد اچھا شعر تھا اور آج ہم اسے بڑا شعر کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔ راہی کا شعر آج کے زمانے میں نہایت توجہ انگیز ہے، اور یہی آج کے لئے بہت ہے۔ راہی کے شعر میں حقیقت سے زیادہ تخیل کا بیان ہے، یعنی جب تو مجھے اپنی خلوت میں بلائے گا تویوں ہو گا۔ غالب کے شعر میں انداز بیان انشائیہ، امریہ ہے، لیکن اس لطافت کے ساتھ کہ کہیں سے بھی تحکم کا شائبہ نہیں۔

غلام مرتضیٰ راہی کے قدم آج کل انھیں راہوں پر رواں ہیں۔ اب ان کے لہجے میں کچھ ایسی سنجیدگی اور تفکر کار فرما ہو گئے ہیں جو زندگی کے سرد و گرم کو دیکھنے والے کا خاصہ ہوتی ہے، لیکن ہر ایک کو وہ نصیب نہیں ہوتی۔ اس سنجیدگی میں المناکی جیسا انداز آ گیا ہے جو پہلے نہیں تھا۔

 

یہ دور ہے جو تمھارا رہے گا یہ بھی نہیں

کوئی زمانہ تھا میرا گذر گیا وہ بھی

 

ٹلا نہ آ کے مرا وقت ایک پل کے لئے

جسے قیام نہیں ہے ٹھہر گیا وہ بھی

 

شکل ایسی نہ تھی کنارے کی

لگ گئی کاٹ اس کو دھارے کی

 

کھل سکیں کب غبار میں آنکھیں

منتظر ہی رہیں ستارے کی

 

رہا ہمیشہ ہمیں ایک دوسرے کا خیال

اسے زمیں سے مجھے آسماں سے کام رہا

 

یوں ہی ذراسی ہلائی تھیں اس نے بنیادیں

نہ پھر کسی بھی بلندی پہ کوئی بام رہا

 

بہت خون اس میں بہا خواہشوں کا

لڑائی جو اک ہم نے دل سے لڑی ہے

 

میں تصویر بن کر اسے دیکھتا ہوں

جو دیوار میں کیل خالی گڑی ہے

 

میسر تھا جس کو کبھی چھت کا آنچل

وہ دیوار اب سر برہنہ کھڑی ہے

 

راہی نے غزل کے عشقیہ مضامین سے زیادہ تر حذر کیا ہے۔ جس شاعری پر تفکر اور تجریدی مضمون کا سایہ ہو، اسے عشق کی روایتی باتوں کی فکر نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ راہی کے یہاں المناک لہجہ بھی روایتی عشقیہ مضامین سے نہیں حاصل ہوا ہے۔ ان کے یہاں ابھی یہاں کائناتی المیے کا احساس بہت کار فرما نہیں ہے، لیکن سامنے کی ’’حادثاتی‘‘ باتوں سے ان کا شعر بالکل محفوظ ہے۔ اس زمانے میں جب اکثر شعرا روزمرہ کی اخباری باتوں، یا کچھ مقبول، بلکہ ’’چلنے والے‘‘ والے مضامین کو نظم کر کے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے انسانی زندگی کے درد کو بیان کر دیا، غلام مرتضیٰ راہی ایسے تمام ’’چلتے ہوئے‘‘ مضامین سے گریز کرتے ہیں۔ یہ گریز کچھ شعوری بھی ہو سکتا، لیکن زیادہ تر یہ ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔ وہ پیچیدہ بیانی کے قائل ہیں، سیدھی اور آسان بات سے انھیں کوئی شغف نہیں۔ اگر ان کے یہاں عصر حاضر کی باتوں کی جھلک ملتی بھی ہے تو اشاروں اور کنایوں میں لپٹی ہوئی ملتی ہے۔ ان کے یہاں استعارہ، یا پیکر، دونوں ہی کا وفور نہیں ہے۔ لیکن بیان کے ابہام سے وہ اپنے کام نکال لیتے ہیں۔

 

برادری نے اسے پھر نہیں قبول کیا

قفس سے چھوٹ کے آیا ہوا پرندہ تھا

 

رہا میں نقطۂ پرکار کی طرح تنہا

ہزار گرد مرے ایک وسیع حلقہ تھا

 

پرکھوں سے چلا آتا ہے یہ نقل مکانی

اب مجھ سے بھی خالی مرا گھر ہونے لگا ہے

 

اب سنگ دلی مجھ سے چھپائے نہیں چھپتی

آنکھوں سے نمودار شرر ہونے لگا ہے

 

عرصہ کبھی درکار ہوا کرتا تھا راہی

اب روز کوئی معرکہ سر ہونے لگا ہے

 

دو چار پل ایسے کہ صدی جن پہ کرے ناز

جینے کی زیادہ میں تمنا نہیں رکھتا

 

کیا لطف تھا ہلکی سی جھلک میں کبھی اس کی

اب مجھ سے روا نام کو پردہ نہیں رکھتا

 

جب جوش میں آ جائے تو کیا چیز ہے کشتی

کچھ ہوش کناروں کا بھی دریا نہیں رکھتا

 

ان اشعار میں خارج کی کائنات اور فرد کی کائنات کی پیچیدگی کے نئے منظر دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی رشتوں کا ذکر یہاں متکلم کی تہ دار شخصیت کے پردے میں ہوتا ہے۔

 

ہوئے ختم فرصت کے اوقات جب سے

ملاقات ہونے لگی رہ گذر میں

 

انھیں نیند سے اب جگانا ہے مشکل

جو سوتے نہ تھے انتظار سحر میں

 

سوالوں کی بوچھار کے بعد راہی

جواب اس کا اک جملۂ مختصر میں

 

یہ دنیا آسانی سے نبھ جانے والی جگہ نہیں، لیکن راہی اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ایسا اسلوب استعمال کرتے ہیں جو بظاہر سادہ لیکن بباطن معنی سے بھر پور ہے۔ غالب نے اسی لئے کہا تھا۔

سخن سادہ دلم را نہ فریبد غالب

نکتۂ چند ز پیچیدہ بیانے بمن آر

٭٭

(۲۰۰۰، نظر ثانی اور اضافہ، ۲۰۱۲)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے