ایک رجحان ساز ادیب کی حیثیت سے شمس الرحمٰن فاروقی نے آٹھ سو تیس صفحات پر مشتمل اپنے یادگار اور معرکہ آرا ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ سے تاریخ ادب میں اپنا دوام ثبت کر دیا۔ زمان و مکان کے ساتھ ساتھ اس ناول کی زبان بھی بدلتی رہتی ہے۔ قدیم زمانے سے تعلق رکھنے والے معمر کرداروں کے رخصت ہونے کے ساتھ جب نئے زمانے میں نئے کردار وارد ہوتے ہیں تو اُن کے تکلم کے سلسلے اس بے ساختہ انداز میں بدل جاتے ہیں کہ قاری اس تبدیلی پر ششدر رہ جاتا ہے۔ فارسی اور اُردو کے اشعار کے بر محل استعمال سے اس ناول میں تسلسل اور تجسس قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ناول کی کہانی میں جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اُس کا نقطۂ آغاز اٹھارہویں صدی عیسوی میں راجپوتانہ کے حالات ہیں اور ایک سو سال گزرنے کے بعد لال قلعہ دہلی میں اس کہانی کی تکمیل ہوتی ہے شمس الرحمٰن فاروقی نے اس ناول میں قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھا کر قارئین کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ مطلق العنان بادشاہ اور فن کاروں کی زندگی کے مراحل، بے بس و لاچار سائل، نو آبادیاتی دور کے مسائل، تہذیب و تمدن، معاشرت اور ثقافت کا احوال اس ناول میں جلوہ گر ہے۔ آخری عہدِ مغلیہ میں پرورش لوح و قلم میں انہماک کامظاہرہ کرنے والے اسداللہ خان غالبؔ، امام بخش صہبائی، احسن اللہ خان حکیم، گھنشیام لال عاصیؔ اور نواب مرزا خان داغؔ جیسے حریت فکر کے مجاہد جنھوں نے حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنا اپنا مطمح نظر بنایا اس ناول میں پوری آن بان کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ بر صغیر میں ثروت مند گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں یہاں کے مسلمان اور ہندو برابر کے شریک رہے ہیں۔ یہ یادگار ناول بر صغیر کی تاریخ، ثقافت، لسانی کیفیات اور تمدن و معاشرت کے بارے میں متعدد حقائق کو سامنے لاتا ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی نے پندرہ سال کی عمر میں پہلا ناول لکھا تھا مگر اُسے اپنی تخلیق تسلیم نہ کیا۔ خود احتسابی اور نقد و نظر کے سارے احوال پر اظہار خیال شمس الرحمٰن فاروقی کا کمال سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے ادبی تنقید کو منطق، تنقیدی معائر، نظریاتی مباحث اور طریق کار سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کے چالیس سال بعد ستر برس کی عمر میں اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی اسلامی اور ہندی تہذیب اور ادبی و انسانی روابط کے موضوع پر قدیم عہد کی ایسی عمدہ زبان میں یہ معرکہ آرا ناول لکھا جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے نہایت مہارت سے قدیم زبانوں کے ہزاروں الفاظ کو اپنی نثر میں ایسے شامل کیا ہے جیسے مرصع ساز انگوٹھی میں نگینہ لگا دیتا ہے۔ سب سے پہلے یہ ناول سال 2005ء میں اُردو شائع ہوا سال 2010ء میں اس کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور سال 2013ء میں شمس الرحمٰن فاروقی نے خود اس کا ’’The Mirror of Beauty‘‘ کے نام سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس ناول میں مغلیہ دور میں بر صغیر کی سیاست، تاریخ کے نشیب و فراز، تمدن و معاشرت اور تہذیب و ثقافت کی جس انداز میں عکاسی کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ناول اُنیسویں صدی کی ایک آزاد خیال حسینہ وزیر خانم کے بارے میں ہے جو حُسن و جمال میں یکتا تھی۔ بہت سے چاہنے والوں کے ساتھ پیمان وفا باندھنے والی اسی عورت کے بطن سے اردو زبان کے ممتاز شاعر نواب مرزا خان داغؔ دہلوی (1831-1905) نے جنم لیا۔ وزیر بیگم کا شجرہ نسب اور آباء و اجداد کا حال اس ناول کے ابتدائی ساٹھ صفحات پر محیط ہے۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے زندگی کی راہوں کو جس انداز میں بدل دیتے ہیں یہ ناول نہ صرف اُس کے پس پردہ عوامل کی گرہ کشائی کرتا ہے بل کہ اِس خطے کی تہذیب و ثقافت اور اقدار و روایات پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اُنیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں نو آبادیاتی نظام کے شکنجے کے باعث مغلیہ خاندان کی حکومت کے زوال کے نتیجے میں یہاں تہذیبی اور ثقافتی سطح پر جو تغیر و تبدل رو نما ہوا یہ ناول اس کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ انسان کی مثال ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایسے تحریر کے مانند ہے جسے طوفان حوادث کی مہیب موجیں پلک جھپکتے میں نیست و نابو کر دیتی ہیں۔ تقدیر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے اور انسان بے بسی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھ کر کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے۔
ہر افسانہ نگار اپنے لیے خود لائحہ عمل منتخب کرتا ہے اردو زبان و ادب کے جہاں دیدہ۔ کہنہ مشق اور معمر تخلیق کار کی حیثیت سے شمس الرحمٰن فاروقی نے نو آبادیاتی دور میں اپنے فن پاروں میں اظہار و ابلاغ کے لیے جو طرزِ فغاں منتخب کی پس نو آبادیاتی دور میں وہی بزم ادب میں طرز ادا قرار پائی۔
اپنے ایک مختصر ناول The Sun That Rose From the Earth میں مرزا اسد اللہ خان غالبؔ (1797-1869)، میر تقی میرؔ، (1723-1810) اور غلام ہمدانی مصحفیؔ (1751-1824) کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے شمس الرحمٰن فاروقی کے ناولوں اور افسانوں پر مشتمل اس کتاب میں شمالی ہند میں آخری عہد مغلیہ کی اردو شاعری اور تہذیبی و ثقافتی اور ادب و فنون لطیفہ کے شعبوں میں ارتقا کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ آخری عہد مغلیہ کے حاکم محمد شاہ رنگیلا کے عہد حکومت میں اگرچہ سیاسی اعتبار سے حکومت زوال کا شکار تھی مگر ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں ترقی جاری تھی۔ جہاں تک لسانیات کا تعلق ہے شاہی دربار میں اردو نے فارسی کی جگہ لے لیے اور ساز اور آواز کے شعبوں میں خیال اور گائیکی کے نئے رنگ اور آہنگ سامنے آئے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بر صغیر میں شاعری نے روح اور قلب کیا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی صلاحیت کے اعجاز سے ساحری کا درجہ حاصل کر لیا۔ اسی عرصے میں میر تقی میرؔ، نواب مرزا خان داغ دہلوی ( 1831-1905)، غلام ہمدانی مصحفیؔ اور مرزا اسد اللہ خان غالبؔ جیسے یگانۂ روزگار شعرا پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی تخلیقی فعا لیت کی بنا پر جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اس کتاب میں اپنی جن اردو تخلیقات کو شمس الرحمٰن فاروقی نے انگریزی کے قالب میں ڈھالا ہے اُس میں سوار اور دوسرے افسانے کے علاوہ درج ذیل تین افسانے شامل ہیں۔
"Bright Star, Lone Splendour”,
"In Such Meetings and Paintings, Ultimately”
and "The Sun That Rose from the Earth”
میر تقی میرؔ کی حیات معاشقہ کی کہانی اصفہان سے تعلق رکھنے والی ایک ڈیرے دار کسبی طوائف نورس سعادت کے گِرد گھومتی ہے۔ نو رس سعادت کی ماں لبیبہ خانم ایک یتیم طوائف ہے جو قسمت آزمائی کے لیے آرمینیا سے اصفہان اور پھر دہلی پہنچتی ہے۔ میر تقی میرؔ سے راز داری کے ساتھ محبت کرنے والی اس طوائف کو عیاش پرستاروں نے جیتے جی مارڈالا۔ کرداروں کے ملبوسات، رہن سہن اور طرز تکلم کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مشاہدے کا بھر پور استعمال کیا ہے۔
غرض اپنے وسیع مطالعہ، تجزیاتی انداز فکر اور دُور بین نگاہ سے شمس الرحمٰن فاروقی نے سالہا سال کی محنت کے بعد عالمی ادب میں جو ممتاز مقام حاصل کیا اس کا ایک عالم معترف ہے۔ ادب پر کسی خاص نظریے کے غلبے کو وہ پسند نہیں کرتے تھے اس لیے وہ خالصتاً ادب کی تخلیق کے لیے تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نمو پر توجہ دینے کی حمایت کرتے تھے۔ بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسانی معاشرے میں افراد کا رہن سہن، سماجی روّیے، عادات و اطوار، علوم و فنون، عقائد، ادب و فنون لطیفہ، رسوم و رواج، قواعد و ضوابط اور استعدادِ کار سے ادیب گہرے اثرات قبول کرتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے روسی ہئیت پسندی اور محمد حسن عسکری کے افکار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شمس الرحمٰن فاروقی کے فکری ارتقا کا سلسلہ جاری رہا اور انھوں نے جدیدیت سے گہرے اثرات قبول کیے۔ اردو، انگریزی، فارسی اور ہندی زبانوں پر یکساں خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے عالمی ادب کے ماہرین سے اپنے فکر پرور اور خیال افروز مباحث سے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
٭٭٭