لازم ہے کہ میں اس طرف دیکھوں جدھر سے خوشبوؤں کا کارواں اور موسم بہار کا جنازہ گزرا ہے۔۔ اور حافظ شیرازی نے کہا،
ہر روز دِلَم بَزیرِ بارے دِگرست
دَر دیدۂ منز ہجر خارے دگرست
مَن جہد ہَمی کُنَم، قضا می گویَد
بیروںز کفایتِ تو کارے دِگرست
ہر روز میرا دل ایک بوجھ سے لرز جاتا ہے۔ میری آنکھوں میں جدائی کا کانٹا چبھتا ہے۔ میں جد و جہد کرتا ہوں تو قضا کہتی ہے، کچھ کام تیرے بس کے نہیں۔ کچھ صحبتوں کے بارے میں ہم کبھی نہیں سوچتے کہ چاند سے چاندنی، آفتاب سے روشنی، اور زمین سے ہیرے کی چمک بھی ماند پڑ سکتی ہے۔ اور رومی نے کہا، جیسا کہ اس چہرے پر شباب ہے، اس کا تصور کہیں اور کہاں۔
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو رانجھا، ہیر نہ آکھو کوئی
جب رانجھا کا الوہی عکس ہیر کے پانیوں میں ظاہر ہوا تو ہیر پکار اٹھی، مجھ میں رانجھا اتنا بس چکا ہے کہ مَیں خود رانجھا بن چکی ہوں، اب مجھے ہِیر کوئی نہ کہے۔ میں اس ذات کے الوہی عکس کے بارے میں سوچتا ہوں تو تعبیر ملتی ہے کہ اس نے اپنی چمک سے اردو ادب کو فاروقیت کے مشکیزے میں تبدیل کر دیا۔ ۱۹۶۰ کے بعد ایک موسم ایسا آیا جب اردو زبان کا عکس اس کے وجود میں تحلیل تھا اور ایک زمانے نے کہا، کہ میرا چہرہ شان فاروقی کی گواہی دینے کو تیار ہے۔ ۱۹۶۰ کے پہلے کی تاریخ گم، اور ایک نئی بوطیقا نئی روشنائی سے تحریر ہوئی جس نے ادب کی تنقید کو ایک نیا ولولہ اور ایک نئی جہت فراہم کی لیکن اس بوطیقا میں یہ بھی تحریر تھا، کہ جو اس شاہراہ کی نفی کرے، وہ ادیب کے منصب پر نہیں۔ جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں۔
کھو گئی ہیں مری دونوں آنکھیں۔
پھر پئے نذر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں۔
حسن کی مدح کروں شوق کا مضمون لکھوں۔
یہ شوق کا مضمون لکھنا مجھے نہیں آیا، اور میں زندگی میں کبھی خود کو اس الوہی طاقت کا عکس نہیں بنا پایا۔
میں فاروقی کے نظرئے کا منکر ہوں مگر ان کی علمیت سے واقف کہ جب دو سو برس کے سفر میں علمی و ادبی اداروں کا ذکر آئے گا تو فاروقی کی ذات کو بطور ادارہ شمار کیا جائے گا۔ داستان طلسم ہوش ربا کی ۴۶ جلدوں میں دس جلدوں کو ترتیب دینے والا کوئی ادبی شہنشاہ ہی ہو سکتا ہے۔ ابن صفی کی کچھ کتابوں کو انگریزی زبان میں لانے کا سہرا بھی ان کے سر ہے اور بے شمار خدمات کہ جب جب مستقبل کا مورخ اردو زبان کے بارے میں تفصیلات جمع کریگا، اسے فاروقیت کے چشمہ سے گزرنا ہو گا۔ مگر جب ادب کو لے کر ایک مخصوص خیمے کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ احساس بھی شدت سے ہوتا ہے کہ ۱۹۶۰ کے بعد، ان ساٹھ برسوں میں ایک دانشور ایسا بھی آیا، جس کی تحریروں پر شہنشاہی حکم کی مہر تھی، اور جو اس حکم کی پیروی نہیں کرتا تھا، وہ عتاب کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ میں اب بھی افسانے یا ادب کے رموز کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن یہاں میرا حال اس شخص کی طرح نہیں ہے جو زمانہ جاہلیت میں اپنے ہاتھوں پر شیر کی تصویر بنانے آیا تھا۔ سوئی گرم ہوئی۔ ہاتھوں پر سوئی رکھی گئی تو وہ چیخا۔ کیا کرتے ہو۔ جواب ملا۔ شیر کی دم بنا رہا ہوں — شخص نے کہا۔ دم کے بغیر بھی تو تصویر بن سکتی ہے۔ چلیے صاحب۔ سوئی پھر گرم ہوئی۔ پھر چیخ ابھری۔ اب کیا کرتے ہو۔ جواب ملا۔ اب شیر کے کان بنائے جا رہے ہیں۔ چیخ کر کہا گیا کہ کانوں کے بغیر بھی تو شیر کی تصویر بن سکتی ہے۔۔۔ ایک دوسری حکایت کا سہارا لوں تو معاملہ کچھ کچھ پانچ اندھے اور ہاتھی کی شناخت کا تھا۔ جدیدیت کی لہر اٹھی تو پانچ اندھے، ہاتھی پر مکالمہ کر رہے تھے۔ ادب غائب تھا۔
شمس کی روشنی کے آگے ہر روشنی ماند مگر ان کے نظریات نے مجھے الجھایا ضرور، مگر میں ان کے بتائے راستے پر کبھی نہیں چل سکا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج زندگی کی ریس میں بھاگتے ہوئے عام آدمی کو ادب کی ضرورت نہیں ہے۔ نئی تکنالوجی کا خیر مقدم کرتے ہوئے عام آدمی نے اپنی زندگی سے ہی ادب کو خارج کر دیا ہے۔ سوال یہاں سے بھی پیدا ہوتے ہیں جب عام آدمی نے ادب کو مسترد کر دیا ہے تو کیا ہم عھد فاروقی میں، محض خوش فہمیوں کا شکار ہیں؟ ادب برائے زندگی اورسماجی حقیقت پسند کے دعوے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ ہم کیوں لکھتے ہیں؟ کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔ مارکیز سے لے کر مویان اور پایلو کو لہو تک اس کے جواب مختلف ہوں گے۔۔۔۔ اردو میں بھی اکثر ایسے سوالوں کے جواب تلاش کیے جاتے ہیں پھر بھی کیوں لکھتے ہیں، کی الجھن دور نہیں ہوتی — آغاز سے ہی اردو ادب کو تحریکوں کا ساتھ ملا اور ہر ادبی تحریک نے اچھے ادب کے لیے راستہ بھی ہموار کیا۔ رومانی تحریک سے لے کر ترقی پسند، جدیدیت اور مابعد جدیدت تک جہاں برے لکھنے والے سامنے آئے وہیں بہتر لکھنے والے بھی تھے، جن کی شناخت میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ آزادی کے بعد کا ہندستان، فساد اور دنگوں کی نئی نئی کہانیاں رقم کر رہا تھا۔ اردو افسانہ نگار خوفزدہ تھا۔ 1936 کی ترقی پسندی کو، اظہار میں دقت پیش آ رہی تھی____ زمین گرم اور بارودی ہو چکی تھی۔ ’انگارےٍ‘ کا عہد ختم ہو چکا تھا۔ ڈرے سہمے تخلیق کار نے لکھنا چاہا تو جدیدیت کے علاوہ کوئی روشنائی میسر نہ تھی۔ آپ مانیں نہ مانیں، نقّاد تسلیم کریں نہ کریں لیکن جدیدیت کی پیدائش اسی پُر آشوب موسم میں ہوئی تھی۔ خوف کی سرزمین، وحشت کے سائے، دہشت کا پس منظر: کل ملا کر مجموعی فضا ایسی تھی کہ تحریر پر نئے اور جدید الفاظ حاوی ہوتے چلے گئے۔ ڈرے سہمے لوگ انگارے کی ترقی پسندی اور بے باکی چھوڑ، نئے الفاظ سے تاش کا نیا محل (کہانی) تعمیر کرنے میں جُٹ گئے تھے۔ فاروقی کا معاملہ ادب کو لے کر ہمیشہ متنازعہ رہا۔
٭ ادب کی خوبصورتی اور خوبی کا معیار ادب ہی کو ہونا چاہئے —
٭ تاثراتی تنقید لچر ہے۔
— کھول دو منٹو کا نہایت لغو افسانہ ہے — تھرڈ گریڈ بلکہ فورتھ گریڈ۔
فاروقی نہ پریم چند کو پسند کرتے ہیں، نہ منٹو بیدی، کرشن چندر، عصمت کو— ہر جگہ ان کی پسند کا معیار مختلف ہے۔ ادب میں سب سے پہلی قدر حسن اور جمالیاتی قدر ہوتی ہے — ادب میں نئے طوفان برپا کرنے کی غرض سے ۱۹۶۶ میں شب خون رسالے کی پالیسی سامنے آ گئی۔ جدیدیت کا فروغ— اور اس فروغ کے لیے، دو کالم کے ذریعہ فاروقی نے ادب پر ہلّہ بول دیا۔ مرضیات جنسی کی تشخیص— اور بھیانک افسانہ— اب افسانہ سماجی قدروں اور مسائل سے نظریں چرا کر مرضیات جنسی کی تشخیص میں پناہ لیتے ہوئے بھیانک ہو چکا تھا— یہ منٹو کی کہانیوں کی طرح چونکانے والا معاملہ تھا۔ اس میں اگر نیا کچھ تھا تو یہ، کہ فاروقی نے اس عہد کے فنکاروں کو اس پس منظر میں جدیدیت کے سبز باغ دکھا دیئے تھے۔ پریم چند کے بعد جمود اور تعطل کی فضا جہاں قائم ہوئی، وہ وہی دور تھا، جہاں فاروقی نے بہت سوجھ بوجھ اور اسٹریٹجی کے ساتھ شب خون کا اجراء کیا۔ جاگیردارانہ نظام سے باہر نکل کر ایک ہونہار ذہین نوجوان کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مغربی ادب کا مطالعہ کرتا ہے۔ پھر غالب کو پڑھتا ہے۔۔۔۔۔ داستانوں کو — وہ جانتا ہے، داستان سے غالب تک تفہیم و تنقید کے لیے اگر اس نے اپنے لیے نئے راستوں کا انتخاب نہیں کیا تو وہ بہت سے لوگوں کی طرح بھیڑ میں شامل ہو جائے گا— یہاں زبردست مطالعہ تھا اور شاید اسی لیے نئے ادب کو تلاش کرتے ہوئے وہ بھیانک افسانوں کی سرنگ میں بھی اترتے چلے گئے —
جب ہم اچھی باتوں کو یاد کرتے ہیں تو ان باتوں کو یاد کر لینے میں کوئی برائی نہیں، جن سے ہم ذہنی رابطہ پیدا نہیں کر سکے۔ افسانہ، غزل، میر و غالب کی تفہیم، بہت سے موضوعات ایسے ہیں، جہاں اختلاف کیے گئے اور اب بھی کیے جا رہے ہیں۔ ادب میں بت پرستی کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ مگر ان سب سے الگ، یہ حقیقت ہے، کہ ادب میں فاروقی کی حیثیت کسی شہنشاہ جیسی تھی۔ یہ خلا کبھی پر نہ ہونے والا خلا ہے۔ اس نے انفرادی نظریات کا دسترخوان نہ آراستہ کیا ہوتا ہم حمایت یا مخالفت میں سامنے بھی نہ آتے۔ اس نے ادب سے مسلسل سوال کیا اور کچھ جواب تلاش کرنے کی ذمہ داری ہم پر بھی چھوڑ دی۔ اس نے کورونا موسم سے پہلے اور بعد میں بھی یہی دہرایا: دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں۔
٭٭٭