یہ لوح مزار تو میری ہے ۔۔۔ اشعر نجمی

 

اگرچہ میں نے آج ہی صبح فیصلہ کیا تھا کہ علی اکبر ناطق کے ‘مرقع فاروقی’ کے بعد میں اپنی وہ یادیں شیئر کروں گا جو فاروقی صاحب سے وابستہ ہیں، لیکن اندر کی گھٹن پل پل بڑھ رہی ہے، وہ بوجھ جو میں اب تک ڈھوتا رہا تھا، ناقابل برداشت ہو گیا ہے، اس وقت میری آنکھوں کے سامنے جیسے فلم کی ریل چل رہی ہے، اگر میں اب اس کی ٹرانسکرپٹ نہ کر پایا تو شاید پھر کبھی نہ کر پاؤں گا، سو ناطق بھائی سے معذرت کے ساتھ پیش خدمت ہے میرا وہ اثاثہ جو شاید سب سے زیادہ قیمتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

‘یہ لوح مزار تو میری ہے پھر اس پہ تمھارا نام ہے کیوں؟ ‘

 

’’برادرم، عزیزم، سلام علیکم۔

تمھاری ایمیل ملے کوئی تین مہینے ہو رہے ہیں۔ میں اتنی دیر تک خاموش اس لیے رہا کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا لکھوں۔ بظاہر تمھاری تسلی میری کسی بات سے نہیں ہو سکتی۔ تمھاری حالت اس بوڑھے بھیڑئیے جیسی ہے جسے اس بچہ گوسفند پر کوئی بھی الزام لگا کر اس کا خون بہر حال کرنا تھا۔ ……… اب میری طرف سے سلسلہ بند سمجھو، بلکہ اب تمام سلسلے بند سمجھو۔

شمس الرحمٰن فاروقی، 21 دسمبر، 2013‘‘

یہ فاروقی صاحب کا میرے نام آخری ایمیل تھا جو میرے آخری ایمیل کے جواب میں آیا تھا۔ مجھے فاروقی صاحب کے اس رد عمل سے کوئی صدمہ نہیں پہنچا تھا، در اصل میں ان سے ایسے ہی کسی جواب کی توقع کر رہا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اگر وہ میرے ایمیل کو نظر انداز کر جاتے تو شاید مجھے مایوسی ہوتی لیکن انھوں نے جواب دے کر گویا میری اس ذہنی اذیت پر فل اسٹاپ لگا دیا تھا جس سے میں ان دنوں دو دو ہاتھ کر رہا تھا۔ ایمیل پڑھ کر اطمینان کی ایک سانس لی، چلو اچھا ہوا یہ قصہ ختم ہوا۔ لیکن یہ قصہ شروع کہاں سے ہوا تھا؟

میری عمر اس وقت شاید سترہ اٹھارہ سال تھی، دسویں کلاس کا طالب علم تھا۔ لیکن ان دنوں میں نصابی کتابیں کم، پاپولر لٹریچر زیادہ پڑھتا تھا۔ ابا اور اماں میری پڑھائی کے معاملے میں کافی سخت تھے۔ ابا نے دو دو ٹیوشن مجھ پر تھوپ رکھے تھے، جن میں ایک ٹیچر مجھے سائنس اور ریاضی پڑھانے گھر آتے تھے اور بقیہ مضامین ایک دوسرے ٹیچر سے پڑھنے کے لیے میں ان کے گھر جایا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ گھر پر میری پڑھائی کی ذمہ داری میری والدہ کے سر تھی جو تعلیم یافتہ تھیں۔ لیکن ان تمام پہرے داریوں کے باوجود میں نے پاپولر لٹریچر پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا۔ پریکٹیکل کی بڑی بڑی کاپیوں کے اندر چھپا کر ڈائجسٹ پڑھنا چوری کے گڑ سے زیادہ ذائقہ دار لگتا تھا اور اسی ذائقے نے مجھے نویں کلاس میں فیل کر دیا تھا اور اپنے ہم مکتبوں سے ایک سال پیچھے چلا گیا۔ ان دنوں ابن صفی کا بڑا نام تھا لیکن میری دلچسپی کبھی بھی جاسوسی کہانیوں میں نہیں رہی، البتہ دیبا خانم، رضیہ بٹ، کرشن چندر، گلشن نندہ، رانو کے علاوہ اور ہاں مظہر الحق علوی کے ترجموں پر تقریباً روزانہ میں قبضہ جمائے رہتا تھا۔ میرے ذوق کی کفالت محلے کی ایک چھوٹی سی اردو لائبریری کر دیا کرتی تھی جس کی ممبر شپ میں نے اپنے جیب خرچ کے عوض لے رکھی تھی۔

ان دنوں میں باقاعدہ اپنے پسندیدہ رسائل خریدا کرتا تھا، پیسے زیادہ نہیں ہوا کرتے تھے، سو سینے پر پتھر رکھ کر صرف ایک دو ہی خرید پاتا تھا۔ اس وقت بہت سارے رسائل نکلا کرتے تھے؛ بیسویں صدی، شمع، بانو، شبستان، ہما، ہدیٰ، جرائم، فلمی ستارے وغیرہ وغیرہ۔ جب بھی جیب تھوڑی سی وزنی ہو جاتی، میں کتاب کی دکان پر لپک کر پہنچتا اور نئے شماروں پر ٹوٹ پڑتا۔ سب کی ورق گردانی کرتا لیکن ظاہر ہے خریدتا ایک ہی، بالکل اسی طرح جیسے خواتین پوری دکان کو اُلٹنے پلٹنے کے بعد ایک اوڑھنی یا ایک بلاؤز خرید کر دکاندار پر احسان کر جاتی ہیں۔ لیکن اس اکلوتے رسالے کی طرف میں نے کبھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا جو دیدہ زیب سرورق رسالوں کے درمیان مسکین بنا پڑا رہتا تھا، نام بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا؛ ’شب خون بھلا یہ بھی کسی ادبی رسالے کا نام ہوا۔ ایک بار کی بات ہے کہ اس دن جیب گرم تھی، میں نے دکان کی طرف رخ کیا۔ بڑی مایوسی ہوئی، میرے کسی بھی پسندیدہ رسالے کا نیا شمارہ نہیں آیا تھا البتہ اسی مسکین پرچے ‘شب خون’ کا نیا شمارہ اسٹال پر مجھے آنکھیں مار رہا تھا۔ میں نے منھ بنایا لیکن مجھے سنیما گھر اور کتابوں کی دکان سے خالی ہاتھ لوٹنا کبھی پسند نہ آیا، سو اسے اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔ سوچا کہ میری پسندیدہ رسالوں کے مقابلے میں قیمت کافی کم ہے، چلو بیکار نکلا بھی تو زیادہ پیسے ضائع نہیں ہوں گے، خرید لیا۔

حسب توقع اس پرچے کا رعب تو دماغ میں بیٹھ گیا لیکن سمجھ میں کچھ خاک نہ آیا۔ پیسے وصول کرنے کی غرض سے دماغ پر کافی زور ڈال کر پھر پڑھنے کی کوشش کی لیکن کچھ پلے نہ پڑا؛ نہ غزلیں، نہ افسانے، نہ مضامین، البتہ ایک بات سمجھ گیا تھا کہ یہ پرچہ اعلیٰ تعلیم یافتوں کے لیے ہے نہ کہ ہم جیسے تفریح بازوں کے لیے۔ میں اپنی تفریح پر قانع تھا، سو ‘شب خون’ کو کنارے پھینکا اور گلشن نندہ سے تجدید یاری کر لی۔

انھی دنوں دو ایسے واقعے ہوئے جنھوں نے بتدریج میری ترجیحات اور پسند و ناپسند کو بدل دیا۔ پہلا یہ کہ میں ٹاٹا اسٹیل میں ملازم ہو گیا اور دوسرا یہ کہ میرے والدین اسی شہر کے دوسرے علاقے میں شفٹ ہو گئے۔ ملازمت نے مجھے کتابیں خریدنے کے قابل بنا دیا۔ اب میں ہر ماہ تنخواہ لینے کے بعد گھر سے پہلے کتاب کی دکان پر پہنچ جایا کرتا تھا اور اپنی اوقات کے اعتبار سے کتابیں خرید لیا کرتا تھا اور بقیہ پیسے اماں کو تھماتے ہوئے ہر ماہ نئے بہانوں کی ایجاد کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کرتا رہا، حتیٰ کہ ایک بار میں نے پوری تنخواہ ہی گول کر دی اور ان کی کتابیں خرید کر ایک راز دار دوست کے گھر رکھو ادیا اور اماں کو بتایا کہ میری جیب کسی نے کاٹ لی۔ اماں بیچاری میری رونی صورت دیکھ کر مجھے اُلٹا تسلی دینے لگیں اور ابا نے فرضی جیب کترے کی شان میں ٹھیٹ بہاری انداز میں مغلظات کے دریا بہا دیے۔ اس چوری کے صدمے سے مجھے باہر نکالنے کے لیے ابا نے خاص میرے لیے قلاقند منگوایا جو مجھے بہت پسند تھا، اس دن اس میں سے میری بہنوں کا کوئی حصہ نہیں لگایا گیا جیسا کہ عموماً ہوتا تھا، ان بے چاریوں کی قہر برساتی آنکھوں کے سامنے میں مزے لے لے کر قلاقند کھاتا رہا اور تصور میں ان کتابوں کو پڑھنے کے منصوبے بناتا رہا۔

نئے محلے میں دو نئے رنگروٹ مجھے ملے۔ بدر عالم خلش کو فلسفہ و تصوف میں دلچسپی تھی، شاعری اور شاعری میں تجربے بہت کیا کرتا تھا۔ اس کی اُٹھان مدرسے کی تھی، اس لیے اسے فارسی اور عربی کے کلاسیکی لٹریچر پر عبور حاصل تھا لیکن بعد میں اس کے انگریزی کے بے پناہ مطالعے نے اسے گمراہ کر دیا۔ شاید مطالعہ ہضم نہ کرنے کے سبب وہ تھوڑا confusing سا ہو گیا تھا۔ دوسرے بندے کا نام اس وقت ارمان شباب تھا جس کا نام کافی عرصہ بعد فاروقی صاحب نے بدل کر ابرار مجیب رکھ دیا تھا اور آج بھی یہی بدلا ہوا نام اس کا تعارف ہے۔ ابرار مجیب اچھا افسانہ نگار تھا۔ شاعری اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ بدر عالم خلش کے برعکس ابرار مجیب جلد باز اور عملی آدمی تھا۔ بدر عالم خلش میں ٹھہراؤ تھا، اس کے اندر سچ مچ کسب علم کا شغف تھا لیکن ابرار اپنے مطالعے کا ریزلٹ فوراً چاہتا تھا۔ وہ ضخیم سے ضخیم کتابیں کا دیباچہ یا فلیپ نوٹ پڑھ کر پوری کتاب پر تبصرہ کرنے کا حوصلہ رکھتا تھا جنھیں بدر عالم خلش پڑھنے میں مہینوں لگا دیا کرتا تھا۔ نتیجتاً خلش کے مقابلے میں ابرار ادب کے مبتدیوں کے درمیان جلد دھاک جمانے میں کامیاب رہا۔ خیر ہم تینوں ٹاٹا اسٹیل کے مختلف شعبوں میں ہی ملازم تھے، اس لیے ہماری شامیں تقریباً ایک ساتھ ہی گزرا کرتی تھیں۔ ان دونوں کے ساتھ رہنے کا ایک فائدہ جو مجھے ہوا، وہ کتابوں کی پسند و ناپسند اور ان کی ترجیحات تھیں۔ ارمان اور خلش دونوں میری موجودگی سے بے خبر گھنٹوں ایک دوسرے سے عصری ادب پر گفتگو کیا کرتے تھے، ان کی گفتگو میں کئی کتابوں اور مصنفین کا بھی ذکر آتا تھا جو میرے ذہن کے نوٹ پیڈ میں محفوظ ہوتے چلے گئے۔ وہ بار بار ‘شب خون’ کے نئے شماروں پر گفتگو کرتے، بار بار ان کی زبان پر ایک نام کسی ‘فاروقی’ کا آتا، کبھی وہ اس نام کا مذاق اڑاتے تو کبھی اسے اردو ادب کا سورما گردانتے۔ ایک اور نام ان کی زبان سے پھسلتا تھا؛ ’وارث علوی‘، یہ نام بھی میرے حافظے میں نقش ہو گیا۔

اگلے ماہ کی تنخواہ میں، میں نے کوئی ناول اور کوئی رسالہ نہیں خریدا، کتاب کی دکان پر گیا اور وارث علوی کی کتاب ‘اے پیارے لوگو!’ خرید لایا۔ آخر مجھے بھی بدر عالم خلش اور ابرار مجیب کی برابری جو کرنی تھی۔ میں کب تک ان کا منھ تکا کرتا اور کب تک وہ مجھے نظر انداز کرتے۔ کمال کی بات یہ تھی کہ میں پہلی بار کوئی تنقیدی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میں ڈرا ہوا تھا لیکن اس کتاب کو پڑھا تو روانی میں اسی طرح پڑھتا چلا گیا جس طرح اب تک مزے لے لے کر پاپولر لٹریچر پڑھتا رہا تھا۔ اچھا اسے تنقید کہتے ہیں؟ میں تو خواہ مخواہ ڈر رہا تھا، ہاں کچھ باتیں تو سمجھ میں نہیں آتیں لیکن بہرحال ہے تو مزے کی چیز۔ اب سالوں کو بتاتا ہوں۔ اس شام میں نے وارث علوی کی وہ کتاب بغل میں دبائی اور اسے جھلکاتے اور چھلکاتے ہوئے ان کے درمیان آن بیٹھا۔ خلش اور ابرار نے مجھے شک اور کچھ حیرت بھری نظروں سے دیکھا، میں اپنا وار نشانے پر بیٹھا دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا۔ پھر خلاف توقع اچانک خلش ہنسنے لگا، ؔؔتمھیں تنقید پڑھنا ہے تو وارث کو ضرور پڑھو لیکن آغاز اس سے مت کرو، فاروقی سے کرو۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کیوں کہ وارث کے پاس لفظوں کی صناعی ہے، اس میں تنقید کم ہے۔ مطالعہ ہے لیکن ان کی کتابوں میں تنقید کی زبان نہیں ہے جو نئے پڑھنے والوں کو گمراہ کر سکتی ہے۔‘‘

’’کیسی گمرہی؟‘‘ میں نے زچ کر کہا۔

’’تمھارا دماغ متن اور نفس موضوع سے ہٹ کر لفظوں کے چٹخارے اور فقرے بازی میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور وارث اس کام کو بہتر طور پر جانتے ہیں۔‘‘

ابرار نے بھی خلش کی ہاں میں ہاں ملایا اور اس نے وارث علوی کی تنقید نگاری پر کچھ تبصرہ کیا لیکن مجھے اب بھی شک ہے کہ اس وقت اس نے بھی وارث علوی کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی، البتہ ‘شب خون’ میں چھپے ایک دو مضمون کو پڑھ کر اس نے اپنی دانشوری جھاڑی تھی۔

خیر، ایک بار پھر تنخواہ کا دن آیا اور میں ایک بار پھر ‘آزاد کتاب گھر’ پر کھڑا تھا۔ میں نے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ ستار بھائی سے پوچھا،’’فاروقی کی کوئی کتاب ہے آپ کے پاس؟‘‘

ستار بھائی نے چونک کر میری طرف دیکھا چونکہ وہ میرے ‘ٹیسٹ’ سے بخوبی واقف تھے، آخر کو ایک زمانے سے میں انھی کے ہاں سے ہر ماہ بیسویں صدی، شمع اور جرائم جیسے رسائل خرید رہا تھا۔ انھوں نے اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے مجھ سے پوچھا۔’’شمس الرحمٰن فاروقی؟‘‘

میں نے تھوک حلق کے نیچے دھکیلا اور اثبات میں سر ہلایا۔

ستار بھائی نے شیلف سے ایک کتاب نکال کر سامنے رکھ دی، عنوان تھا، ’شعر، غیر شعر اور نثر۔‘

میرے گھر اور میری زندگی میں فاروقی صاحب کا یہ پہلا قدم تھا۔

میں ایک بات بتانا بھول گیا تھا کہ ‘شعر، غیر شعر اور نثر’ خریدنے سے پہلے میں لکھنا شروع کر چکا تھا۔ کلکتہ سے ایک ہفتہ وار اخبار نکلتا تھا، ‘فلم ویکلی’، جس کے مدیر احساس گونڈوی مرحوم ہوا کرتے تھے۔ اس اخبار میں میرے ‘منی افسانے’ شائع ہوا کرتے تھے جنھیں اب ‘افسانچہ’ کہا جاتا ہے اور بالکل اسی طرز پر لکھتا تھا، جیسے آج کل افسانچے کے نام پر لوگ لطیفے لکھتے ہیں۔ اس وقت میری عمر یہی کوئی انیس بیس سال کے آس پاس رہی ہو گی۔ ہر اشاعت کے بعد میں ‘فلم ویکلی’ کے متعلقہ شمارے کی چار پانچ کاپیاں خرید لیتا تھا۔ میرے والد بھی خوش تھے اور اخبار کی ایک کاپی لے کر وہ اپنے دوستوں کو دکھاتے پھرتے۔ ابا کا محلے میں اچھا خاصا دبدبہ تھا، وہ کئی فلاحی کمیٹیوں سے وابستہ تھے۔ سو ہر شام ہمارے گھر کے باہر بیٹھک ہوا کرتی تھی جہاں ریٹائرڈ ملازموں سے لے کر پنواڑی تک جمع ہوتے، ریڈیو پر 9 بجے آنے والی بی بی سی نیوز اور اس کے بعد نشر ہونے والی ‘سیر بین’ سنتے اور مابعد اس پر ماہرین سیاست کی طرح تبصرے شروع ہو جاتے۔ میری ہر ‘منی کہانی’ پر سب سے زیادہ داد کے ڈونگرے وہیں برسائے گئے۔

اچھا پھر، میرا حوصلہ بڑھا تو ملک سے شائع ہونے والے دیگر رسائل کی طرف میں نے نظریں گھمائیں۔ ‘روشن ادب’ میں ایک مضمون چھپا تو میں نے خود کو اہم سمجھنا شروع کر دیا اور اس وقت تو غضب ہی ہو گیا جب ‘شاعر’ کے ایک شمارے میں میرا خط چھپا، اب میرا سر ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا۔

لیکن یہ طلسم اس وقت ٹوٹا جب بدر عالم خلش اور ارمان شباب (ابرار مجیب) نے ‘شب خون’ کے حوالے سے ایک قصہ مجھ سے شیئر کیا۔ قصہ یوں تھا کہ پرکاش فکری (جو شب خون میں برابر چھپتے تھے) نے صدیق مجیبی (جو اپنی خوب صورت شاعری اور بڑ بولے پن کے سبب کافی معروف تھے) کو چیلنج کیا کہ میں تمھیں اس دن بڑا شاعر تسلیم کروں گا جب تمھاری غزل ‘شب خون’ میں شائع ہو جائے گی۔ ‘شب خون’ میں ہر کس و ناکس اور ہر آڑی ٹیڑھی چیزیں کبھی نہیں چھپیں، فاروقی اور شب خون سے کچھ اردو ادیبوں کی ناراضگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انھیں وہاں جگہ نہیں مل پاتی تھی۔ خیر صدیق مجیبی اس چیلنج پر خاموش ہو گئے۔ لیکن تقریباً دو ماہ بعد ایک رات جب پورا رانچی شہر سو رہا تھا، پرکاش فکری کے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ پرکاش فکری نے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھولا، سامنے نشے میں دھُت صدیق مجیبی ‘شب خون’ کا وہ تازہ شمارہ لیے کھڑے تھے جس میں ان کی کئی غزلیں ایک ساتھ چھپی تھیں، وہ ایک ہی تکرار لگائے ہوئے تھے،’’مان سالے، میں بڑا شاعر ہوں۔‘‘

اس قصے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں بھی جب تک ‘شب خون’ میں نہیں چھپ جاتا، تب تک یہ ‘سالے ‘ بھی مجھے بڑا ادیب تسلیم نہیں کریں گے۔ اب میری چھٹپٹاہٹ شروع ہو گئی۔ میں نے شب خون کا مزاج سمجھنے کے جمشید پور کی سب سے بڑی اردو لائبریری ‘مسلم لائبریری’ کا رخ کیا۔ مسلم لائبریری میں مسلمانوں جیسی کوئی بات نہ تھی، شاید اردو کے متبادل کے طور پر انھوں نے ‘مسلم’ کا لاحقہ لگا لیا تھا اور اس غلط فہمی کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالا تھا کہ اردو صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور اس زبان پر اجارہ صرف ان ہی کا ہے۔ خیر، اس لائبریری کی ممبر شپ لے کر میں نے ‘شب خون’ کے شمارے ایشو کرانے شروع کر دیے۔ کئی پرانے شماروں کو بالترتیب یکجا کر کے ان کی جلد بندی کر لی گئی تھی، سو میں نے کافی کم عرصے میں سارے پرانے شمارے چاٹ لیے۔ مجھے اس وقت پتہ نہیں تھا کہ صرف ‘شب خون’ میں چھپنے اور خود کو ‘بڑا ادیب’ منوانے کی ہوس میں فاروقی مجھے ‘ٹریپ’ کرنا شروع کر چکے تھے، غیر شعوری طور پر میری ذہنی آبیاری ہو رہی تھی، میرے سانچے بدل رہے تھے، میرا مذاق بدل رہا تھا۔ میں نے اس وقت نوٹس نہیں کیا تھا لیکن آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو مجھ پر انکشاف ہوتا ہے کہ دکانوں پر دیدہ زیب سرورق والے رسائل اب میرے لیے کشش کھو چکے تھے اور وہ مسکین صورت ‘شب خون’ اچانک میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ اس وقت تک ادب میرے لیے وظیفہ حیات بن چکا تھا، ہرگز نہیں، بلکہ محض ‘بڑا آدمی’ بننے کے لیے میں ادب پڑھ رہا تھا تاکہ اپنے حلقہ احباب میں رعب جما سکوں۔ ایسے احساسات صرف میرے نہیں ہیں، بلکہ ہم میں سے اکثر اسی سیڑھی سے اوپر چڑھنے کا حوصلہ دکھاتے ہیں۔ خود فاروقی صاحب کی خود نوشت ‘گزارش احوال واقعی’ پڑھ لیجیے، انھیں ادب کی طرف راغب کرنے میں اس محرک کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن مجھے ‘بڑا’ بننے کی جلدی تھی، سو میں نے اپنی زندگی کی پہلی نظم لکھی۔ لکھی نہیں سرقہ کیا۔ حیدر آباد کے رؤف خیر (جو اب ہمارے دوستوں میں سے ہیں) کی ایک مختصر آزاد نظم کو توڑ کر نثری نظم بنا ڈالا اور ‘شب خون’ میں ارسال کر دیا۔ میری دلیری کی داد دیجیے کہ رؤف خیر کی متذکرہ نظم ‘شب خون’ کے ہی کسی شمارے میں چھپ چکی تھی اور میں نے مسروقہ مال بھی اسی پرچے میں بھیج دیا اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ ‘شب خون ‘ میں میری وہ نظم چھپ بھی گئی۔ ان دنوں میں ‘امجد نجمی’ کے قلمی نام سے لکھا کرتا تھا۔

اب جناب، اس نظم کا چھپنا تھا کہ شہر کے کونے کھدروں کے ادیبوں (اور نا ادیبوں) میں میری دھاک بیٹھ گئی۔ مجھے شعری نشستوں میں مدعو کیا جانے لگا لیکن میں ہمیشہ رعونت کے ساتھ معذرت کر لیتا، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان نشستوں میں جاتا بھی کون سا منھ لے کر، چونکہ میں شاعر تو تھا نہیں، متشاعر بھی نہ تھا، ایک نظم کو بڑی محنت سے چرایا تھا محض شب خون میں چھپنے کے لیے، اب اس اکلوتی نظم کو لے کر کہاں کہاں جاتا، چنانچہ بھرم کھلنے کے ڈر سے میں نے نشستوں کو نظر انداز کرنا شروع کیا۔ میں کوئی پیشہ ور چور تو تھا نہیں کہ ہر شعری نشست کے لیے ایک نظم پر نقب لگاتا اور یوں بھی ایمان سے کہیے تو میرا بعد کا تجربہ کہتا ہے کہ تخلیق سے زیادہ محنت سرقے میں کرنی پڑتی ہے بشرطیکہ سارق کا ‘ذوق رہزنی’ اعلیٰ درجے کا ہو۔ خیر یہ بھرم بھی کب تک باقی رہتا، کانچ کا گھوڑا کتنی دور اور کاٹھ کی ہانڈی کتنی دیر، ‘شب خون’ کا آئندہ شمارہ منظر عام پر آتے ہی میرے کارنامے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹی جس کا تعفن پورے شہر میں پھیل گیا۔ شب خون کے آئندہ شمارے میں رؤف خیر کا ایک خط چھپا جس میں ‘امجد نجمی’ کی جتنی بھد ممکن تھی، ظالم مکتوب نگار نے کر ڈالی، پھر یہ کہ مکتوب نگار کے خط کے نیچے فاروقی صاحب کا ادارتی نوٹ بھی تازیانے سے کم نہ تھا۔ انھوں نے اپنے نوٹ میں مجھ سے صفائی طلب کی تھی اور آخر میں یہ جملہ لکھا تھا کہ کیا یہ مان لیا جائے کہ دس سال قبل رؤف خیر جہاں تھے، آج وہاں امجد نجمی صاحب کھڑے ہیں؟ ایک عرصہ بعد جب میں نے الہ آباد میں یہ واقعہ انھیں یاد دلایا تو وہ اتنا ہنسے کہ انھیں ‘اچھو’ لگ گیا، پانی پی کر ہنستے ہوئے کہنے لگے،’’اچھا تو وہ تم تھے!میاں کئی بڑے ادیبوں کا آغاز یہیں سے ہوا ہے۔‘‘ پھر انھوں نے سرقے پر ایسے ایسے واقعات سنائے کہ مجھے فخر ہونے لگا جیسے میں نے ماضی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ اب لگتا ہے کہ اس دن فاروقی صاحب نے سرقے پر جو معلومات کے دریا مجھ پر لُنڈھائے تھے، وہ کافی آگے چل کر ‘اثبات’ کے سرقہ نمبر کا محرک بنا۔

اس جگ ہنسائی کے بعد میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور ان دوستوں سے تقریباً قطع تعلق کر لیا جن کا ادب سے تھوڑا بہت بھی واسطہ تھا۔ ہاں ایک چیز نہیں چھوڑی، ‘پڑھنا’۔ اسی عرصے میں دو ایسے واقعات ہوئے جس نے ایک بار پھر میری زندگی کا رخ موڑ دیا۔ پہلا واقعہ میرا عشق تھا۔ میرے اس عشق کی سزا وار کوئی لڑکی نہیں تھی بلکہ میرا ایک دوست تھا۔ ایک منٹ رکیے، میں جانتا ہوں کہ عام طور پر لفظ ‘عشق’ کی وابستگی ہمارے ہاں صرف صنف مخالف سے مخصوص ہے اور اس وابستگی میں بھی جنسی پہلو ہی نمایاں ہوتا ہے لیکن میں gay نہیں ہوں، اگر ہوتا تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا اس دوست سے ایک ایسا قلبی رشتہ تھا، جس کا بیان مشکل ہے۔ وہ کوئی ادیب اور شاعر نہیں تھا، ایک کم پڑھا لکھا میرا ہم عمر تھا۔ اسے محلے میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ وہ ایک لا اُبالی اور کھلنڈرا سا لڑکا تھا، اس کا خاندانی پس منظر بھی ایسا نہ تھا کہ شرفا اپنے بچوں کو اس کے ساتھ دیکھنا پسند کرتے۔ لیکن مجھے اس سے عشق تھا، اس کی بے تکلف باتوں سے، اس کی دنیا کو ٹھوکر پر رکھنے والی اداؤں سے، اس کی خطرناک راست بیانی سے، اس کے سگریٹ کے دھوؤں کے مرغولوں سے جس سے وہ سب کچھ جیسے اُڑا دینا چاہتا ہو۔ ایک باغی، ایک انارکسٹ کی طرح وہ میرے حواس پر سوار تھا۔ میرے والدین کے لیے یہ چنتا کی بات تھی، انھوں نے مجھ پر سختی کرنی شروع کر دی، بطور خاص میرے والد جو فوجی ڈسپلن کے قائل تھے، انھوں نے مجھ پر پہاڑ توڑ دیے۔ لیکن یہ وہ عشق بلا خیز تھا جو ہر بند کو اپنے سامنے حقیر سمجھتا ہے، نتیجتاً مجھے سبق سکھانے کے لیے ابا نے آخری داؤ مجھ پر آزمایا اور انھوں نے مجھے ایک دو روز کے لیے گھر سے باہر نکال دیا۔ تنخواہ دور تھی، جیب میں پیسے نہ تھے، رہنے سونے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور میں اسے بتانا نہیں چاہتا تھا جس کے سبب یہ سب ہو رہا تھا لیکن اسے کسی طرح پتہ چل گیا۔ وہ مجھے اپنے کسی دوست کے گھر لے گیا، وہاں وہ میرے ساتھ دو روز رہا لیکن اس نے نہ تو مجھے اس بارے میں کریدا اور نہ نصیحت وغیرہ کی۔ ابا کو پتہ چلا تو انھیں لگا کہ داؤ الٹ گیا، انھوں نے مجھے واپس گھر بلا لیا۔ میں کسی فاتح کی طرح خود کو محسوس کر رہا تھا لیکن یہ میری غلط فہمی تھی۔ ابا نے اب اپنے اولاد نرینہ کو جسے حاصل کرنے کے لیے انھوں نے خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ میں جا کر منت مانگی تھی، اسے بات بات پر مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ مجھ پر پہرے بٹھا دیے گئے، مجھ پر نظر رکھی جانے لگی، میرا گھر سے نکلنا تقریباً بند کر دیا گیا۔ میرا کالج چھڑا دیا گیا، مجھے آفس پہچانے اور چھٹی کے بعد وہاں سے لانے کی ذمہ داری ابا نے اپنے سر لے لی۔ اس درمیان میرے ساتھ ہمیشہ کتابیں رہیں کہ جب جی زیادہ الجھتا تھا تو شب خون کا کوئی شمارہ اور فاروقی کی کوئی کتاب اٹھا لیتا تھا اور تھوڑی دیر کے لیے گرد و پیش سے بالکل لاپروا ہو جاتا تھا، حتیٰ کہ میں اپنے انارکسٹ کو بھی بھول جاتا تھا۔ ابا نے بھی موقع غنیمت جانا اور مجھ سے پوچھ پوچھ کر کتابوں کے ڈھیر میرے پاس لگا دیے۔

لیکن کب تک؟

تنخواہ کا دن آیا تو شاید یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کتاب کی دکان کا رخ نہیں کیا، بلکہ کتاب کی جگہ کیڑے مارنے والی دوا خریدی اور پی لی۔

(آپ میں سے کئی گزشتہ دو قسطیں پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے اور شاید کچھ تو کوس بھی رہے ہوں کہ میں نے فاروقی صاحب کے نام سے اپنی زندگی کی روداد لکھنی شروع کردی ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ میں نے اب تک جو لکھا ہے، ان سب کا جواز آپ پر اس وقت آشکار ہوگا جب ہمارا ہیرو کہانی میں ‘انٹری ‘ مارے گا، اس کے بعد کسی چراغ میں روشنی نہ رہے گی۔ اس کی آمد میری زندگی میں ایک لمحاتی واقعہ نہ تھی، محض دو چار فون کال یا ایک دو ملاقات تک میری یادیں محدود نہیں ہیں، بلکہ اس نور کے ہالے نے مجھے کس طرح برسوں اپنے حصار میں رکھا، یہ دو قسطیں صرف اس کی تمہید ہیں۔ اور تمہید اس لیے ضروری ہے تاکہ بیان کنندہ کا کردار اور اس کے مزاج کا اندازہ ہو سکے کہ وہ کس مٹی سے اٹھا اور فلک پایہ ہوا، ورنہ فاروقی کی رحلت کے بعد تو سوشل میڈیا پہ ہر کس و ناکس دو چار پرانی تصاویر اور اپنی کتاب پر ان کی ایک دو سطریں لے کر ان کی قربت خاص کا ڈھونگ رچانے میں کوئی کور کسر باقی نہیں رکھ رہا ہے، حتیٰ کہ ان لوگوں کے منھ سے بھی اب عقیدت کے پھول جھڑ رہے ہیں جن سے کل تک شعلے برستے تھے۔ فاروقی کی کہانی میں یہ سارے ڈھونگی بھی آئیں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس قصے کے آغاز میں، میں نے کہا تھا کہ میرے سینے میں ایک ایسا قرض ہے جس کے بوجھ سے اب میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ وہ قرض کیا تھا؟ وہ قرض ان سے دسیوں ملاقات، ان کے سینکڑوں فون کال اور تقریباً 250 برقی خطوط میں ملفوف ہے، اور اس اثاثے میں زبان و ادب پر بے شمار نکتہ سنجیاں، ادبی اور سیاسی ماحول پر بے لاگ گفتگوؤں کے ڈھیر، ادیبوں اور ان کی کتابوں پر بے تکلف تبصرے، اثبات کے ہر شمارے کی باریک سے باریک پہلوؤں پر گرفت، خوشامدیوں اور حاسدوں کے نام بہ نام تذکرے، نئی نسل کے باصلاحیت ادیبوں کی سفارشیں،اعتذار اور استغنا کی درویشانہ جھلکیاں وغیرہ سب کچھ اس میں ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا نگار خانہ کسی کے پاس نہ ہوگا اور نہ وہ فاروقی جو میرے پاس ہے، وہ اپنے تمام جلال و کمال کے ساتھ کہیں اور موجود ہوگا، حتیٰ کہ وہ ہمیں اپنی ڈھیر ساری کتابوں میں بھی موجود نہیں ہے۔ میں نے ایک بار فاروقی صاحب سے کہا تھا کہ کیوں نہ ان سب کے حوالے سے میں ایک طویل مضمون لکھ دوں۔ ہنسنے لگے اور کہا تم بڑھاپے میں مجھے رسوا کرو گے؟ میں نے اصرار کیا کہ ان تمام چیزوں کو دنیا کے سامنے آنا ہی چاہیے اور یوں بھی آپ ‘پبلک پراپرٹی’ ہو چکے ہیں اس لیے لوگوں کو فاروقی کو پوری طرح جاننے کا حق ہے۔ فاروقی صاحب نے اپنی مخصوص گالی (ب۔ چ) کے ساتھ کہا، ٹھیک ہے لیکن ابھی نہیں، میرے بعد لکھ دینا جو لکھنا ہے۔ پھر کہا، میرے تمام ایمیلز کی تاریخیں درست لکھنا، ورنہ چھان بین کرنے والے اسے ایشو بنائیں گے۔

پچھلے دو دنوں سے میں ان کے سینکڑوں برقی خطوط اکٹھا کر رہا ہوں، لیکن وہ ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ رسمی ایمیل کو خاص ایمیل سے علیحدہ کر رہا ہوں، ہر ایمیل کے موضوع کو عنوان دے رہا ہوں، خاص سطروں کو ہائی لائٹ کر رہا ہوں۔ یہ سب بالترتیب پیش کیے جائیں گے۔ لیکن اس طرح کے شخصی گوشوں پر کام کرنے والے پر سوال اٹھنا فطری ہے کہ وہ کون ہے؟ کیا بیچتا ہے؟ اس لیے اس سے پہلے کہ کوئی ‘غالب کون ہے’ کے سوال پر آئے، بیان کنندہ کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا تعارف پیش کرے کہ وہ کون ہے؟ لہٰذا، میرا یقین کیجیے،یہ میری کہانی نہیں ہے اور نہ میری سوانح ہے، البتہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فاروقی صاحب کے حوالے سے میں خود کو دریافت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر میں اپنے بارے میں سچ بول نہیں سکتا تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں کسی اور کے ‘سچ’ پر لب کشائی کروں۔ (یہ چند سطور آپ کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے لکھی ہیں ورنہ گزشتہ سے پیوستہ قصہ جاری ہے۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیڑے مار دوا کا ذائقہ بہت خراب تھا، اس سے ایسی بدبو اٹھ رہی تھی کہ اللہ کی پناہ، اتنے برس گزر جانے کے بعد اب بھی جب کبھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے شکر پھانکنی پڑتی ہے اور ‘روم فریشنر’ اسپرے کرتا ہوں۔ خیر، اس دن مجھے سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن چونکہ اس زمانے میں آپ کا اپنی موت پر بھی اختیار نہیں تھا اور سرکاری طور پر یہ جرم تھا، سو اسپتال کے عملے کو پیسے کھلانے پڑے، انھوں نے میری ناک کے ذریعہ ایک پتلی سے پائپ میرے حلق کے راستے میرے معدے میں اتاری۔ سچ مانیے، خودکشی کرنے کا یہ طریقہ بہت تکلیف دہ ثابت ہوا، سارا عشق ہوا ہو گیا۔ میں اپنے بعد والوں کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ خود کشی کرنا چاہتے ہی ہیں تو براہ کرم یہ طریقہ بالکل نہ استعمال کریں کہ یہ اس زندگی سے بھی بد تر آپ کو محسوس ہوگا جس سے آپ بھاگنا چاہتے ہیں۔ قصہ مختصر، پورا معدہ خالی کرنے کے بعد رات کو ہی مجھے ڈسچارج کر دیا گیا لیکن شاید کچھ زہر معدے میں بچ گیا تھا جس نے رات گئے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا۔ ساری رات میرے گھر کے علاوہ پورا محلہ جمع رہا۔ میرا پورا جسم گاہے گاہے اینٹھ کر ہوا میں اچھلتا تھا اور پھر بستر پر زور سے گرتا تھا۔ میں ہوش اور بیگانگی کے درمیان کہیں معلق تھا۔ میرے سرہانے خواتین نے آیت الکرسی بھنبھنانا شروع کردیا جو عموماً اس وقت پڑھی جاتی ہے جب کسی پر سکرات طاری ہو۔ پرائیوٹ اسپتال سے رابطہ رِسک تھا کیوں کہ یہ ایک ‘پولیس کیس’ تھا۔ رات کے آخری پہر شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کو بھاری معاوضے پر گھر لایا گیا، اس نے چیک کرنے اور ضروری ہدایات دینے کے بعد کہا، اگر آج کی رات گزر گئی تو سمجھیے سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن کمبخت رات ہی تو نہیں گزر رہی تھی۔ اس دن گھڑی کی سوئیاں سب کے لیے سست ہو گئی تھیں۔ ابا کا سارا کر و فر پانی بن کر ان کی آنکھوں کے راستے بہہ رہا تھا۔ ان کے سامنے وہی لڑکا زندگی اور موت کی آپسی ہاتھا پائی کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا تھا جس کی پیدائش پر ان کے دروازے پر کبھی شادیانے بجے تھے اور جس کا نام رکھنے کے لیے کبھی پورے محلے نے قرعہ اندازی کی تھی، آج وہ ان سے رخصت ہوا چاہتا ہے۔ میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، میں اپنے گرد بہت سے لوگوں کو دیکھ رہا تھا لیکن پہچان کسی کو بھی نہیں پا رہا تھا سوائے ابا اور اماں کے۔ بالآخر صبح ہوئی اور مجھے نیند آ گئی۔ خطرہ ٹل چکا تھا۔

جلد ہی صحت یاب ہو گیا۔ اس واقعے نے سب کچھ بدل دیا۔ ابا نے کچھ کہے بغیر مجھے اپنے دوست سے ملنے کی اجازت دے دی، شاید وہ ڈر گئے تھے۔ اب تو یوں ہونے لگا کہ پہلے جہاں میرے گھر سے نکلنے اور لوٹنے کے وقت مقرر تھے، اب اس لاک ڈاؤن سے مجھے رہائی مل گئی تھی۔ میں اپنے انارکسٹ سے بے خوف و خطر مل سکتا تھا، حتیٰ کہ بلا روک ٹوک اس کے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر شہر کے چکر لگا سکتا تھا اور اس کے ساتھ تھیٹر بھی جا سکتا تھا۔ لیکن میرا انارکسٹ پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکا تھا۔ اس کی وہ بے نیازی جس کا میں گرویدہ تھا، اس کی جگہ مروت اور caring نے لے لی تھی۔ وہ مجھے اجنبی سا لگنے لگا، حالاں کہ میں نے خود کو اکیلے میں سمجھانے کی بہت کوشش کی اور اس کوشش میں مجھے خود کلامی کی عادت پڑ گئی جو کم و بیش آج تک قائم ہے۔ میں اب بھی سارے مسائل کا حل، سارے فیصلے خود سے بات کر کے کرتا ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ کوئی نفسیاتی اٹیک ہو لیکن میں اسے مرض نہیں سمجھتا چونکہ اس نے مجھے اب تک کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ سچ پوچھیے تو اس نے ہمیشہ مجھے ڈپریشن سے باہر نکالا ہے۔

خیر، میں اب اپنے انارکسٹ کی مروت و شفقت سے بیزاری محسوس کرنے لگا، مجھے لگا کہ وہ بھی ابا کی طرح مجھ سے خوفزدہ ہو کر یہ ناٹک کر رہا ہے کہ کہیں میں پھر سے خود کو نقصان نہ پہنچاؤں، اس جذبے میں محبت نہیں خوف کا غلبہ تھا۔ اس شک کو تقویت اس وقت ملی جب وہ روزگار کے لیے بحرین چلا گیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مجھے اس کی یہ جدائی بھی شاق نہیں گزری۔ حالاں کہ وہ رخصت ہوتے ہوئے مجھے طرح طرح کی تسلیاں دیتا رہا، مجھے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتا رہا اور میں بھی رونی صورت بنائے سرجھکائے کھڑا رہا لیکن در حقیقت میں اپنے اندر کسی طرح کا غم، دُکھ، خالی پن نہیں محسوس کر رہا تھا۔

میں نے ایک بار پھر کتابوں میں پناہ لی اور یہ وقفہ اس وقت ختم ہوا جب والدین نے حفظ ماتقدم کے تحت میری کم عمری میں ہی شادی طے کر دی۔ شاید وہ مجھ پر ذمہ داریاں ڈال کر مجھے مصروف رکھنا چاہتے تھے۔ میں بھی خوش تھا۔ کم عمری میں شادی کا تصور علیحدہ ہوتا ہے۔ نئے لباس، نیا دوست، نئی رشتہ داریاں، سلسلہ تقریبات، مرکز توجہ بننا، ہم عمر دوستوں کے نگاہ رشک کی گرفت، بہت کچھ ہوتا ہے، اگر کچھ نہیں ہوتا تو وہ آگہی نہیں ہوتی جو ایک رشتے کو دوستی میں بدلنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہی ہوا جو اکثر ایسی شادیوں کا ہوتا ہے۔ میں اپنی بیوی کے لائق شاید نہ تھا، پھر بھی اس کا احسان کہ اس نے مجھے دو بچے دیے؛ ایک لڑکی اور دوسرا لڑکا۔ ہماری زندگی میں دونوں کے گھر والوں کی توقعات کی در اندازی ہوتی رہی اور یہ سلسلہ ایک دو ماہ نہیں، دس سال تک چلا۔ ان دس سالوں میں شب خون، فاروقی اور دیگر کتابوں کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ اب ادب میرے لیے وظیفہ حیات بن چکا تھا، اب میں پورے جسم کے ساتھ ادب پڑھنے لگا تھا۔ بعض امریکی سائنس دانوں نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ مطالعے کے دوران یا بعد میں ہارمون یا کوئی اور ایسے ہی عملیات جسم میں پیدا ہوتے ہیں۔ میں دراصل ادیب سے زیادہ قاری ہوں بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ میں قاری ہونے کے ناطے سے ادیب بنا ہوں۔ اکثر پڑھتے ہوئے میں نے خود کو زمین سے کسی قدر اوپر اٹھتا محسوس کیا ہے، حتیٰ کہ بے وزن ہونے کا احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک پوری بوتل ‘وہسکی ‘کا نشہ بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ کئی بار اپنے انہماک کے سبب حادثات کا شکار ہوا ہوں یا ہوتے ہوتے بچا ہوں۔ زینے پر لڑکھڑاتا ہوں۔ روٹی کاٹنے کے بجائے اپنی انگلیاں زخمی کر چکا ہوں۔ سڑک کو عبور کرتے ہوئے کئی چیزوں سے ٹکراتا اور دوسروں کی گالیاں سنتا ہوں۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ مجھے کتابوں نے ہی کئی بار خود کشی کرنے سے بچایا ہے۔ میں آج بھی جب بہت پریشان ہو جاتا ہوں، ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہوں تو کوئی نیا ناول شروع کر دیتا ہوں، اگر اس سے بھی کام نہیں چلتا تو لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر میری انگلیاں تھرکنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کاش مجھے رقص آتا تو شاید انگلیوں کی بجائے میرے پاؤں تھرکتے اور میں سب کچھ بھول جاتا لیکن اب اسی کمی کو میری انگلیاں پوری کرتی ہیں، میں اکثر کی بورڈ پر پر اپنی تھرکتی انگلیوں کو دیکھ کر محظوظ ہوتا ہوں جیسے میں رقص کر رہا ہوں، بے تکان، پسینے پسینے، سرشار، سب سے بے نیاز، اس وقت مجھے آس پاس کا دھیان نہیں رہتا، صبح کا کھانا شام کو کھاتا ہوں، اکثر رات کے کھانے کو سحری بنا کر کھاتا ہوں، اس وقت مجھے اگر کوئی ٹوکتا ہے تو میں اسے قہر آلود نگاہ سے دیکھتا ہوں، باتھ روم جانا ہوتا ہے تو پیشاب کو کافی دیر تک روکے رہتا ہوں اور خود کو بار بار تسلی دیتا رہتا ہوں کہ بس تھوڑی دیر اور۔ میں اب تک آدمی سے کاکروچ بن چکا تھا۔

دس سال بعد کئی پنچایتوں اور مقدموں کے بعد میری طلاق ہو گئی۔ میری بیٹی اور بیٹے کا بٹوارہ ہو گیا۔ بیٹی نے میرا انتخاب کیا اور میں نے اور اپنی پوری زندگی مجرد گزارنے کا فیصلہ لے لیا۔ میں نے ٹاٹا اسٹیل کی ملازمت سے والینٹری ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنے بچے کھچے اثاثے کے ساتھ ممبئی کی ٹرین پکڑ لی۔

ممبئی نے میرا استقبال کیا لیکن میں قدرے ڈرا ہوا تھا۔ اتنا بڑا شہر، انسانوں کا جنگل، اتنا بڑا آسمان۔ میں تو اس میں گم ہو جاؤں گا۔ چھوٹے شہر میں ڈر کم ہوتا ہے۔ کم از کم خود کو کھونے کا ڈر نہیں ہوتا لیکن ممبئی جیسا بڑا شہر مجھ جیسوں کو ایک ہی نوالے میں نگل لیتا ہے اور اسے ڈکار تک نہیں آتی۔

لیکن اس شہر نے مجھے بہت عزت دی، ہاتھ پاؤں ضرور مارے لیکن اس نے مجھے کبھی نراش نہیں کیا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے مجھے کتاب سے نکال کر زندگی پڑھانا سکھایا۔ ہر روز لوکل ٹرینوں میں سینکڑوں نئے چہروں پر نظریں پڑتیں جن میں شاید ہی دو چار repeat ہوئی ہوں گی۔ اتنے سارے چہرے، اتنی ساری کہانیاں، بھلا کتابیں پڑھنے کی کسے فرصت تھی۔ میں نے تقریباً سال بھر ممبئی کی سیر کی، کوئی کام نہ کیا، گھر ٹاٹا کمپنی کی پنشن اور اس کی دی ہوئی رقم پر چلتا رہا۔ ہوش اس وقت آیا جب اماں کو فالج مار گیا اور وہ بستر سے جا لگیں۔ ابا بھی کافی ضعیف ہو گئے تھے، میری بچی جس کی عمر اب 13-14 سال ہو چکی تھی، دادی کی لاڈلی نے گھر سنبھال لیا تھا۔ میں نے ایک فلمی رسالے میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی نوکری کر لی۔ وہاں سے ہوتا ہوا میں ایک ٹی وی سیریل کی اسکرپٹ رائٹنگ کی طرف نکل آیا۔ کتابوں کی ضرورت ایک بار پھر بڑھ گئی تھی لیکن اب تنقید اور فلسفے کی جگہ فکشن نے لے لیا تھا۔ اسی زمانے میں فاروقی صاحب کا ‘سوار اور دیگر افسانے’ پڑھا تھا، اس کے تمام افسانے تو نہیں، البتہ ‘لاہور کا ایک واقعہ’ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا، آج بھی میں اس افسانے کی سنسنی اپنی رگ و پے میں محسوس کرتا ہوں اور معاف کیجیے گا، آج بھی میرے نزدیک ‘کئی چاند تھے سر آسماں’ اس افسانے کی جگہ لینے میں ناکام رہا۔

اب میں اسکرپٹ بھی لکھ رہا تھا اور مقامی اخباروں میں مضامین بھی۔ اس وقت ‘اردو ٹائمز’ کے ایڈیٹر عالم نقوی صاحب ہوا کرتے تھے۔ پتہ نہیں انھیں اس فقیر میں کیا نظر آیا کہ وہ میرا ہر مضمون اس میں چھاپنے لگے بلکہ کئی بار تو ایسا ہوتا تھا کہ وہ ادارتی صفحے پر (جو عموماً اخبار کے ایڈیٹر کے لیے مخصوص ہوتا ہے) میرا مضمون لگانے لگے۔

ایک شام عالم نقوی صاحب کا فون آیا کہ فاروقی صاحب کل ممبئی آ رہے ہیں، ممبئی اردو یونیورسٹی میں ان کا پروگرام ہے، آپ چل رہے ہیں ناں! مجھے کسی نے دعوت نہیں دی تھی اور ظاہر ہے مجھے یہاں کے ادبی حلقوں میں جانتا بھی کون تھا۔ نقوی صاحب میرے اس تردد پر جھنجھلا گئے، انھوں نے حکماً کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فاروقی کسی کی جاگیر نہیں ہیں اور نہ ممبئی یونیورسٹی۔ اس لیے کل آپ 2 بجے میرے ساتھ چل رہے ہیں۔ پتہ نہیں، انھوں نے اور کیا کیا کہا، کچھ سنائی نہ دیا، میرے قدم بادلوں پر تھے اور کانوں میں امیر خسرو گنگنا رہے تھے:

انگنا تو پربت بھیو، دیہری بھئی بدیس

جا بابل گھر آپنے، میں چلی پیا کے دیس

 

میرے سامنے فاروقی صاحب براجمان تھے؛ میر مجلس، رفیع الشان، روشن، رخشندہ، تابندہ، عصا بردار اور وہ جس کی اب تک خیالوں میں تجسیم کی تھی، وہ میرے سامنے مجسم تھا۔

ممبئی یونیورسٹی کا جے۔ پی۔ نائک ہال شہر بھر کے ادیبوں، دانشوروں، طلبا اور فاروقی کے مداحوں سے اٹا پڑا تھا۔ مختلف اخباروں کے کیمروں کے فلش چمک رہے تھے اور ہال کے آخری سرے پر کئی ویڈیو کیمرے قطار بند تھے۔ ایک عجب سا فسوں پورے ہال میں طاری تھا، مشاعروں اور لیڈروں کی آمد پر جس قسم کے ہاؤ ہو کا بازار گرم ہوتا ہے، ویسا نہیں تھا بلکہ جیسے سینکڑوں عقیدت مندوں اور عابدوں کی موجودگی کے باوجود خانقاہوں اور مسجدوں میں ایک فرحت بخش خاموشی چھائی ہوتی ہے۔

اس مذاکرے کا عنوان اس وقت میں بھول رہا ہوں لیکن اس میں ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ادیبوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انتظار حسین اور اجمل کمال کی زیارت بھی اسی پروگرام میں ہوئی تھی۔ میں اور عالم نقوی صاحب جب ہال میں داخل ہوئے تو پہلا سیشن ختم ہونے کو تھا اور فاروقی صاحب کی تقریر ختم ہو چکی تھی۔ لیکن لنچ کے بعد آخری سیشن ہونا باقی تھا، جس میں فاروقی صاحب کا الوداعی خطبہ تھا۔ میرے لیے یہی کافی تھا۔ ہال میں ہم دونوں نے اپنی نظر یں دوڑائیں اور اتفاق سے ٹھیک انتظار حسین صاحب کی کرسی کے پیچھے تین خالی کرسیاں ہمیں دعوت نشست دے رہی تھیں جنھیں ہم نے لبیک کہا۔ میرے بالکل سامنے مسند صدارت پر فاروقی صاحب فروکش تھے۔ اب یاد نہیں رہا کہ اس وقت کون صاحب حاضرین سے مخاطب تھے، شاید وقفہ سے پہلے حاضرین کا شکریہ ادا کیا جا رہا تھا اور آخری سیشن کے بارے میں معلومات دی جا رہی تھی۔ وہ چند منٹ میری پوری زندگی کا حاصل تھے۔ مجھے شک ہے کہ جس طرح میں ٹکٹکی باندھے فاروقی صاحب کو دیکھ رہا تھا، اس طرح انھیں کسی نے دیکھا ہو گا۔ میں کافی پہلے ایک انارکسٹ کھوچکا تھا، دوسرا میرے سامنے بیٹھا تھا۔ چہرے دونوں کے الگ تھے، کافی الگ، لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے محسوس ہوا کہ فاروقی کی زیر لب مسکراہٹ، ان کی بے نیازی، بیچ بیچ میں ان کی پُر مزاح فقرے بازی، ان کا ایک پاؤں پر دوسرا پاؤں چڑھا کر بیٹھنا، ان کا اپنے جوتوں پر نظریں ٹکائے مخاطب کو انہماک سے سننا ؛ سب کچھ، سب کچھ میرے اس انارکسٹ کی یاد دلا رہا تھا جس کے لیے میں نے کبھی زہر پھانکا تھا۔ نہیں، شاید میں غلط بول رہا ہوں، یہ اس سے بھی سوا تھا چونکہ یہ وہ باغی تھا جس نے صرف مجھے نہیں بلکہ ایک دنیا کو بغاوت کی ترغیب دی تھی، انھیں ایک نیا آسمان اور ایک نیا آنگن دیا تھا جس کی وسعت کی کوئی حد نہ تھی، کوئی سرحد نہ تھی، کوئی چار دیواری نہ تھی۔ میری نظر اپنے محبوب کی ہر حرکت، ہر جنبش کو جیسے اپنے اندر اُتار رہی تھی۔

اپنی چھوی بنائی کے میں تو پی کے پاس گئی

جب چھوی دیکھی پیہو کی سو اپنی بھول گئی

(امیر خسرو)

 

’’چلیے، لنچ کرتے ہیں۔‘‘ عالم نقوی صاحب کی آواز نے مجھے زمین پر لا پٹخا۔

میں یہاں کون سا دوسروں کو سننے آیا تھا یا لنچ کرنے آیا تھا، اگرچہ اکثر اس طرح کے مذاکروں میں بیشتر لوگ لنچ ہی کرنے آتے ہیں اور لنچ کے بعد والے سیشن میں صرف باقیات الصالحات ہی بچتے ہیں۔ لیکن معاملہ فاروقی کی صدارت کا تھا، اور شاید انتظامیہ کی حکمت عملی بھی یہی تھی کہ کوئی نمک حرامی نہ کر سکے۔ یہی ہوا، لوگوں نے جلدی جلدی زہر ماری کی اور رزق حلال کرتے ہوئے واپس جلسہ گاہ پہنچنے لگے۔ ہم نے لنچ نہیں کیا، صرف چائے پی۔ عالم نقوی صاحب کا نہیں جانتا لیکن میں نفخ شکم کا پرانا مریض ہوں، گھر سے نکلتے وقت جتنا ٹھونس سکتا ہوں، ٹھونس لیتا ہوں، پھر باتھ روم کا رخ کرتا ہوں۔ ہر طرف سے مطمئن ہونے کے بعد گھر سے نکلتا ہوں اور گھر لوٹنے تک باہر کی کوئی چیز سوائے چائے کے کچھ بھی کھاتا نہ پیتا۔

چائے پیتے ہوئے عالم نقوی صاحب اچانک میرا ہاتھ پکڑ کر اس گوشے کی طرف لے گئے جہاں ایک گرانڈیل بزرگ اپنے لیے جار سے چائے انڈیل رہے تھے۔ یہ فضیل جعفری تھے۔ اس وقت تک میں ان کے نام سے واقف تھا، ان کی تنک مزاجی کے کئی قصے سن چکا تھا، جواز (مالیگاؤں) میں ان کے بدنام زمانہ’ ڈویل’ کا نظارہ کر چکا تھا جو کئی قسطوں میں انھوں نے انور سدید سے ‘داغ دار گھوڑے ‘ کے عنوان سے لڑا تھا۔ وارث علوی کی زبان جنھیں ‘اردو کا پڑھا لکھا نقاد’ کہتے نہیں تھکتی تھی اور جو اپنی صاف گوئی اور راست بیانی کے لیے بدنام تھے۔ سر محفل کسی کو ٹوک دینا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، کسی بھی طرم خاں کو خاطر میں نہ لاتے تھے، حتیٰ کہ فاروقی صاحب کو بھی نہیں، اگرچہ ان میں وارث علوی کی سی منافقت اور مصلحت پسندی نام کی کوئی شے نہ تھی لیکن بہرحال وہ فاروقی کی مداحی کے باوجود ‘خود سپردگی’ کے قائل نہ تھے۔ ان کی معروف زمانہ کتاب ‘کمان اور زخم’ (1986) اسی لیے آج بھی ان کی دیگر تمام کتابوں کے مقابلے میں اہمیت کی حامل ہے کہ خود ایک جدید نقاد ہونے کے باوجود اس میں انھوں نے جدید اردو تنقید کا دیانت دارانہ محاکمہ کیا ہے۔ یہ کتاب فاروقی صاحب کو بھی بہت پسند تھی، وہ اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ فضیل کو بولو کہ اس کتاب کو آگے بڑھائے۔

عالم نقوی نے مجھے آگے بڑھاتے ہوئے میرا تعارف فضیل جعفری صاحب سے کرایا،’’یہی وہ اشعر نجمی ہیں جن کے ہر مضمون کو پڑھ کر آپ مجھے فون پر ان کے متعلق دریافت کیا کرتے ہیں۔‘‘ میرے لیے یہ ایک انکشاف تھا کہ میرے ہر مضمون کو فضیل جعفری صاحب بھی دلچسپی سے پڑھا کرتے تھے۔ میں تھوڑا سا لرز گیا کہ پتہ نہیں کس لیے میرے بارے دریافت کرتے تھے، کہیں یہ تنک مزاج میری خراب اردو پر میری ٹھکائی نہ کر دے۔

فضیل جعفری نے سب سے پہلے اپنی چائے کی پیالی پاس رکھے ٹیبل پر رکھی۔ میرا چوکنا جسم کسی بھی ناگہانی حملے کے انتظار میں اکڑا ہوا تھا۔ فضیل صاحب نے پہلے تو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے میرا سر تا پا ایکسرے کیا اور پھر اچانک ان کے چہرے پر ایک شفقت آمیز مسکراہٹ آ گئی۔ انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا، مارنے کے لیے نہیں بلکہ مصافحہ کے لیے۔ ان کے بڑے بڑے پنجوں کی گرفت میں میرا ہاتھ کسی چوزے کی طرح دُبکا پڑا تھا۔

’’آپ اچھا لکھتے ہیں۔ تلوے میں کیل ٹھونکتے ہیں تو سر کے پار نکلتا ہے۔ بس ذرا جواز جوئی کم کر دیجیے، ہر بات کی صفائی دینا ضروری نہیں ہے۔ کھل کر لکھیے، بے خوف۔‘‘

مجھے اب لگتا ہے کہ میری تحریر میں جو بے خوفی بعد کے دور میں آئی، اس میں دوسرے محرکات کے علاوہ فضیل جعفری کے اس مشورے کا دخل بھی غیر شعوری طور پر شامل تھا چونکہ فضیل جعفری سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، آخری نہیں، بلکہ اس کے بعد ملاقات اور گفتگو کا دور عرصہ دراز تک جاری رہا۔

ہم، یعنی میں اور عالم نقوی جب کانفرنس ہال واپس لوٹے تو اختتامیہ سیشن شروع ہوا نہ تھا بلکہ کچھ لوگ اِدھر اُدھر بیٹھے گپیں لڑانے میں مشغول تھے، کچھ ڈائس سے قریب تر کرسیوں پر اپنے جملہ حقوق ثبت کر چکے تھے۔ ہم نے بھی ڈائس سے قریب تر کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ سکون کی سانس لے کر پورے ہال پر ایک غائرانہ نظر ڈالی تو آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ایک نسبتاً نیم تاریک گوشے میں دو کرسیاں پڑی تھیں جن میں سے ایک پر فاروقی صاحب بیٹھے فضیل جعفری صاحب سے گفتگو کر رہے تھے۔ دو دوست آپس میں بے تکلفی کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہے تھے، بیچ بیچ میں فاروقی صاحب زندگی سے بھر پور قہقہہ لگاتے لیکن فضیل جعفری صاحب صرف ہونٹوں کے حسابی زاویوں پر ہی قناعت کر رہے تھے۔ اس مقام پر بھی مجھے فاروقی صاحب کی شخصیت منفرد نظر آئی کہ وہ انسانی جذبوں کے اظہار کے لیے کنجوسی نہیں کرتے، کھل کر خرچ کرتے ہیں اور میرے اس اندازے پر آنے والے دنوں نے مہر تصدیق ثبت کر دی۔

اچانک فضیل جعفری نے عالم نقوی کو وہیں سے آواز دی۔ عالم نقوی تھوڑا سا سٹپٹا گئے چونکہ وہ بھی میری طرح مجلسی آدمی نہ تھے، ان کے دوستوں کا حلقہ بھی کافی محدود تھا اور وہ بھی اجنبی ماحول میں بہت کم کھلتے تھے۔ خیر فضیل جعفری کی پکار تھی، سو انھیں کرسی چھوڑنی پڑی، فضیل جعفری اور فاروقی کے سامنے جا کر ہاتھ باندھے کھڑے ہو گئے۔ فضیل صاحب نے ان کا تعارف فاروقی صاحب سے کرایا کہ یہ ‘اردو ٹائمز’ کے ایڈیٹر ہیں اور آپ کے غالی مداح ہیں۔ فاروقی صاحب نے کرسی سے آدھا اٹھ کر نقوی صاحب سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا،’’اچھا تو آپ ہیں عالم نقوی۔ آپ کی زبان بہت پیاری ہے جناب۔‘‘ میں آپ کو یہاں بتا دوں کہ فاروقی جب بھی کسی سے ملتے، ان کی ساری توجہ اپنے مخاطب کی زبان پر ہوتی جس کا وہ اظہار بعد میں کسی نہ کسی بہانے کر دیتے۔ مثلاً کافی عرصے بعد جب امیر حمزہ ثاقب کے پیہم اصرار اور میری سفارش پر وہ ایک توسیعی خطبہ دینے کی غرض سے بھیونڈی تشریف لے گئے تھے تو وہاں سے لوٹتے ہوئے انھوں نے کار میں مجھ سے کہا کہ پروگرام تو یوں ہی سا تھا، لیکن حمزہ کی زبان بہت اچھی ہے، وہ اردو بہت اچھی بولتا ہے۔ اس کے برعکس وہ ہمیشہ مجھ سے بولتے تھے کہ تم کب ہندی بولنا چھوڑو گے؟

فضیل جعفری نے عالم نقوی کا تعارف کراتے ہوئے اس میں اضافہ کیا،’’لیکن ان کا اصل تعارف یہ ہے کہ انھوں نے ‘کئی چاند تھے سر آسماں ‘ پورا ختم کیا ہے جو میں اب تک نہ کر سکا۔‘‘

فاروقی صاحب کا ایک زور دار قہقہہ گونجا جس سے اِدھر اُدھر بکھرے لوگوں نے ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ فضیل جعفری کے ہونٹوں پر ایک شرارت بھری مسکراہٹ تھی اور فاروقی صاحب پہلو بدل بدل کر ہنس رہے تھے۔ میں نے سرمحفل ادب کے کسی جغادری کو اپنی تخلیق پر ایسے ریمارکس کے رد عمل میں اس طرح محظوظ ہوتا اب تک نہیں دیکھا تھا۔ محبت زینے طے کر رہی تھی۔

فاروقی صاحب کی تقریر پہلی بار سن رہا تھا، لیکن سچ بولیے تو تھوڑی مایوسی بھی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اب تک ڈائس توڑ مقر روں کو سن رکھا تھا۔ فن خطابت سے فاروقی صاحب بالکل نابلد محسوس ہوئے یا شاید انھوں نے قصداًاس میدان میں بھی بغاوت کی تھی۔ ان کی تقریر، تقریر نہیں تھی، گفتگو تھی جس میں واحد متکلم بے تکان بغیر اٹکے بغیر رکے بولتے چلے جا رہا تھا۔ وہ گفتگو کرنے کا ناٹک نہیں کر رہے تھے جیسے مثلاً ڈاکٹر ظ۔ انصاری کیا کرتے تھے بلکہ وہ سچ مچ گفتگو کر رہے تھے۔ وہ نارنگ صاحب کی طرح آواز کے زیر و بم سے ریڈیائی ڈرامہ پیش کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے یا آنکھ، ہاتھ اور اپنی بھنویں نچا کر دانشوری نہیں جھاڑ رہے تھے بلکہ وہ مائک پر اسی لہجے میں گفتگو کر رہے تھے جیسے تھوڑی دیر پہلے نیم تاریک گوشے میں بیٹھ کر فضیل جعفری سے بے تکلفانہ گفتگو کر رہے تھے، ان میں زیادہ فرق نہ تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جب وہ بات کرتے ہیں تو شاید خفیف سا ہکلاتے یا توتلاتے ہیں، ان کی زبان بات کرتے ہوئے بار بار تھوڑی سی باہر ہو جاتی ہے۔ کافی بعد میں فاروقی صاحب نے میرے اس شک کی تائید کی کہ وہ بچپن میں توتلاتے تھے جو speech therapy سے دور ہو گئی لیکن ایک خفیف سا شائبہ باقی رہ گیا۔

مجھے اس دن سب سے اچھی چیز جو لگی وہ یہ تھی کہ فاروقی صاحب موضوع پر جو کچھ بول رہے تھے وہ ان کا اپنا تجزیہ تھا، ان کی اپنی رائے تھی نہ کہ وہ قے کر رہے تھے جیسا کہ بیشتر نقاد اپنے مطالعے کو ٹھکانے لگاتے وقت بد ہضمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فاروقی صاحب کسی پرانے سے پرانے موضوع پر بھی جب بولتے ہیں تو اس میں ان کا اپنا آپ نظر آتا ہے، مطالعے کو کس طرح اپنی فکر کے ساتھ انگیز کیا جاتا ہے، مبتدیوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو بھی ان سے سیکھنا چاہیے تھا لیکن کندہ ناتراشوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔

تقریر کب ختم ہوئی، مجھے یاد نہیں، شاید کسی کو بھی یاد نہ رہا ہو کیوں کہ وہاں حاضر کوئی نہ تھا، سب نے سامع کا چولا بدل لیا تھا، مجسم سماعت۔ اس وقت ہال میں سابق سیشن سے زیادہ بھیڑ تھی۔ ساری کرسیاں بھری ہوئی تھیں، کچھ لوگ کھڑے انھیں سن رہے تھے، حتیٰ کہ اجمل کمال بھی عقبی دروازے کے پاس کھڑے تھے۔ فاروقی صاحب کی نظر ان پر اچانک پڑی اور تقریر کے دوران ہی انھوں نے اجمل کمال کا نام لے کر سامنے بیٹھنے کی دعوت دی۔ منتظمین ہڑ بڑا گئے، کئیوں نے اپنی مقبوضہ کرسیاں چھوڑ دیں۔ اجمل کمال لجائے شرمائے ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ اجمل کمال کے سامنے یا شاید بغل میں انتظار حسین بیٹھے تھے۔ اس وقت تک اجمل کمال سے بھی میں متعارف نہ تھا، البتہ ‘آج’ کے ایک دو شمارے شاید دیکھے تھے۔ انتظار حسین کو پڑھ چکا تھا اور وہ مجھے منٹو سے زیادہ پسند تھے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس الوداعی سیشن میں جب سب مہمانوں کو تاثرات کے لیے مدعو کیا جا رہا تھا تو انتظار حسین صاحب نے کہا تھا،’’ادب میں ‘چاہیے’ کا مطالبہ متروک ہونا چاہیے۔ اس ‘چاہیے’ نے پوری ترقی پسند ادب کو ڈبویا ہے۔‘‘ (مجھے لفظ بہ لفظ یاد نہیں، لیکن مفہوم کچھ ایسا ہی تھا) اجمل کمال سے کہا گیا تو وہ سٹپٹا گئے کہ کیا بولوں۔ وہ سیر سپاٹے کے شوقین ضرور ہیں لیکن مجلسی ہرگز نہیں ہیں۔ انھیں پُر تصنع گفتگو کرنے کی مشق نہیں ہے، سو وہ کیا بولتے، بس ایک مختصر جملہ بول کر خاموش ہو گئے،’’اچھا لگا۔ یہاں ٹیکسی والے اسی جگہ اپنا پسینجر اتارتے ہیں جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔‘‘ محفل زعفران زار بن گئی۔

جلسہ ختم ہونے کا اعلان ہوا اور سارے حاضرین فاروقی صاحب سے مصافحہ کرنے کے لیے دوڑے، ان میں عالم نقوی بھی شامل تھے۔ مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ جب میں محلے کی مسجد میں فجر کی نماز کے لیے جاتا تھا تو کچھ ایسا ہی منظر نماز ختم ہونے کے بعد دیکھتا تھا۔ امام مسجد سے مصافحہ کرنے کے لیے نمازی اس کی طرف دوڑ لگا دیتے تھے۔ میں نے اس زمانے میں بھی کبھی امام مسجد سے مصافحہ نہ کیا تو اب امام ادب سے مصافحہ کیسے کرتا؟ مجھے یہ خواہ مخواہ کی رسمی کار روائی لگتی تھی۔ بھلا آپ کسی اجنبی سے مصافحہ کر کے کون سا تیر مار لیں گے؟ مزہ تو جب ہے کہ آپ سے وہ متعارف ہو، آپ کو وہ جانتا ہو، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہوئے مصافحہ ہو تو طبیعت سیر ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے مصافحوں میں مجھے سبکی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے جب لوگ فاروقی صاحب کی طرف دوڑے، میرا رخ باہر کے دروازے کی طرف تھا۔ آخر عشق کی بھی کچھ عزت نفس ہوتی ہے۔ میں اس اردو ناول نگار جو جرمن ترجمے کے چیتھڑے سے اپنے داغ چھپانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی طرح فاروقی کو متاثر کرنے کے لیے یہ ناٹک تو نہیں کر سکتا تھا کہ ان سے کہوں،’’سر میں آپ کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

نہیں، میں انتظار کروں گا، میں دیکھوں گا کہ میرا محبوب مجھے پلٹ کر کب تک نہیں دیکھتا، میرے عشق کی آنچ کب تک اسے تپش کا احساس نہیں دلاتی، میں انتظار کروں گا اس دن کا۔

اور وہ انتظار دو برس بعد ختم ہوا جب میرے عشوہ گر نے دروازے پر پہلی دستک دی۔ ایک صبح میرے موبائل کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے آواز آئی،’’سلام علیکم، میں شمس الرحمٰن فاروقی بول رہا ہوں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میں نے جب اس سلسلہ وار تحریر کو لکھنا شروع کیا تھا تو اس وقت سچ پوچھیے تو میں اپنے اس ڈپریشن سے باہر نکلنے کے لیے لکھتا چلا گیا جو فاروقی صاحب کی رحلت کی خبر نے مجھ پر طاری کیا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مجھے ہر بار یا تو کتابوں نے بچایا ہے یا پھر میرے لیپ ٹاپ نے، جب کبھی فرار کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے تو میری انگلیاں لیپ ٹاپ کے ‘کی بورڈ’ پر رقص کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ پڑھتے ہوئے ہم خود کو دھوکا دے سکتے ہیں، لیکن لکھتے وقت بالکل نہیں۔ پڑھتے ہوئے ہمارا ذہن منتشر ہو سکتا ہے، ہماری نظریں سطروں پر اور دماغ کہیں اور ہو سکتا ہے لیکن لکھتے ہوئے آپ کا پورا جسم ایک نقطے پر مرکوز ہوتا ہے۔ آپ کے خیالات، آپ کے تصورات، آپ کی یادداشت، آپ کی انگلیاں حتیٰ کہ آپ کی زبان (میڈیم) کی تاکید، اس کی ڈانٹ پھٹکار بھی آپ کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ اس لیے لکھنا،اس فرار میں آپ کا نسبتاً زیادہ بڑا مدد گار ثابت ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے علیحدہ شکلوں میں ہو سکتا ہے یا ہوتا ہوگا؛ مثلاً کچھ لوگ اس طرح کی حالت میں رو کر، گا کر، رقص کر کے، کسی اور پر غصہ نکال کر بلکہ کچھ لوگ دوسروں پر تشدد کر کے اپنے ڈپریشن سے نجات پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں یہی کام لکھ کر کرتا ہوں۔ چونکہ اول تو مجھے یہی آتا ہے اور دوم، میرے لیے لکھنا درد بھی ہے اور دوا بھی، سزا بھی ہے اور جزا بھی، زخم بھی ہے اور مرہم بھی، قید بھی ہے اور رہائی بھی، گمشدگی بھی اور بازیافت بھی۔ یہی وہ ایک چیز ہے جس کا استعمال میں ہر آڑے وقت میں کرتا ہوں۔ فاروقی صاحب کے انتقال کی خبر میرے لیے صرف ایک دانشور، ایک نقاد، اردو کے ایک بڑے ادیب کی موت نہیں ہے بلکہ اس خبر نے کچھ پل کے لیے مجھے شل کر دیا، ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنی ہی لاش کے سامنے کھڑا ہوں، چنانچہ اس لاش کو زندہ کرنے کے لیے میرا لکھنا ضروری ہو گیا تھا، نہ لکھنا شروع کرتا تو شاید میں بھی ان یادوں کے ملبے کے نیچے دفن ہو جاتا جس کے سنگریزے اب بھی مجھ پر برس رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسےجب کوئی بڑی عمارت زمین بوس ہوتی ہے تو نہ صرف اس کی دھمک سے زمین کا وجود دہل جاتا ہے بلکہ اس عمارت کے ملبے کے نیچے اس عمارت سے ملحق کئی لوگ اور کئی چیزیں دفن ہو جاتی ہیں۔ میں اس ملبے کے نیچے سے خود کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہوں، اس سے باہر آنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں، سو اس تحریر سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں فاروقی سے اپنی قربت کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہوں (جیسا کہ اکثر لوگ کرتے ہیں اور کر رہے ہیں)، بلکہ میں صرف خود کو بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس تحریر کا آغاز کسی منصوبے کے تحت نہ ہوا تھا اور نہ اس کی پہلی قسط لکھتے ہوئے مجھے احساس تھا کہ بات نکلے گی تو کتنی دور تلک جائے گی۔ مجھے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ لکھتے ہوئے وہ یادیں بھی میرا راستہ روکے کھڑی ہوں گی جنھیں میں تقریباً فراموش کر چکا تھا جو اب کونوں کھدروں سے نکل کر مجھ پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ چند قسطوں میں ختم ہونے والی یہ سرگزشت کہاں تک جائے گی کہ میرے پاس صرف فاروقی صاحب سے آدھی ادھوری ملاقات یا رسمی فون کالوں کی بازگشت نہیں ہے بلکہ 2007 سے 2020 تک کے عرصے کی ایسی دستاویز ہے جو ایک مینار ہ نور کی حیثیت سے کئی نسلوں کی رہنمائی اور سیراب کرنے کی گنجائش رکھتی ہے اور جسے میں آئندہ کئی قسطوں میں جستہ جستہ شیئر کروں گا۔ فاروقی صاحب نے ہمیں زندگی میں بہت کچھ دیا ہے لیکن اپنے بعد بھی وہ ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ کچھ میرے پاس ہیں اور بہت کچھ ان کی بیٹیوں افشاں فاروقی اور باراں فاروقی کے پاس ہوگا، ان کے علاوہ شاید ان کے قریبی دوستوں کے پاس بھی بہت کچھ ہوگا چونکہ جہاں تک مجھے علم ہے کہ فاروقی صاحب ہر علمی و ادبی استفسارات کے جواب بڑی دلچسپی سے لوگوں کو دیا کرتے تھے۔ انھیں اکٹھا کرنے کی اگر کوئی ہمت کرے تو مجھے امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ خزانہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہوگا۔ مجھے یہ یقین اس لیے بھی ہے چونکہ خود میرے پاس سینکڑوں صفحات پر مبنی ایسی چیزیں موجود ہیں جنھیں میں آئندہ کی قسطوں میں بالترتیب شامل کرتا جاؤں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

خیر چلیے، گزشتہ سے پیوستہ اپنی داستان جاری رکھتے ہیں۔

ممبئی یونیورسٹی کے اس جلسے کے بعد دو سال کے وقفے میں بہت کچھ ہوا۔ شب خون تو پہلے ہی بند ہو چکا تھا، اس کے ساتھ ہی فاروقی کے موسم شناس چاہنے والوں نے اپنا قبلہ بدل لیا، آس پاس کی بھیڑ چھٹ چکی تھی، وہ لوگ جو کل تک فاروقی کو ‘چھو’ کر دیکھنا چاہتے تھے، انھوں نے نارنگ صاحب کو پتہ نہیں کہاں کہاں سے چھونا شروع کر دیا اور اعلان کر دیا کہ صاحب فاروقی صاحب کو تو فکشن کی ہی سمجھ نہیں ہے۔ یہ بیان اس شخص کا تھا جس کے تین چار افسانے فاروقی صاحب نے رگڑ رگڑ کر صاف کر کے شب خون میں شائع کیے تھے، ظاہر ہے انھیں فکشن کی سمجھ ہوتی تو وہ اس پر اپنے دونوں کتے چھوڑ دیتے، اس کے افسانے صاف کر کے چھاپنے کی زحمت نہ کرتے۔ کتوں کی بات نکلی ہے تو ایک اور بات یاد آ گئی۔ ایک بار قاضی شہاب عالم (اثبات کے سابق پبلشر) اور میں، دونوں فاروقی صاحب کی دعوت پر الہ آباد میں ان کے گھر عشائیہ کے لیے مدعو تھے۔ اِدھر اُدھر کی بات چل ہی رہی تھی کہ اندر سے ان کا کتا ٹہلتے ٹہلتے ڈرائنگ روم کی طرف نکل آیا۔ اب شہاب اور میرا یہ حال تھا کہ کاٹو تو خون نہیں، شہاب مجھ سے زیادہ کتوں سے خوف کھاتے ہیں۔ فاروقی صاحب کہتے رہے کہ ‘کچھ نہیں کرے گا، کچھ نہیں کرے گا’ لیکن کرنا تو کتے کو تھا جس سے ہماری یہ پہلی ملاقات تھی۔ کتے کی آنکھوں میں اجنبیت صاف جھلک رہی تھی، اس نے ہمیں سونگھنا شروع کر دیا۔ شاید اس کتے کا نام ‘بادل’ یا ‘بجلی’ تھا، چونکہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک نام سے اسے بار بار تنبیہ کر رہے تھے۔ فاروقی صاحب کے یہ دونوں کتے شہر الہ آباد میں مشہور تھے۔ خیر صاحب، اس ‘بادل’ یا ‘بجلی’ نے فاروقی صاحب کی گھرکیوں کا اثر لیا اور وہ ان کے قدموں پر جا بیٹھا، فاروقی صاحب اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے اس کے جسم کو سہلاتے رہے اور ہم سے گفتگو کرتے رہے لیکن ہمارا دماغ اس کتے کی موجودگی کے سبب منتشر ہو گیا تھا، بولنا کچھ اور چاہ رہے تھے، منھ سے کچھ اور نکل رہا تھا۔ دوران گفتگو شہاب نے اچانک فاروقی صاحب سے پوچھ لیا،’’سر، یہی ایک ہے یا اور بھی ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ فاروقی صاحب جواب دیتے، میرے منھ سے غیر ارادی طور پر نکل گیا،’’پورے ملک میں ان کے پالتو گھوم رہے ہیں۔‘‘ اس بات پر فاروقی صاحب اتنا ہنسے اور ہنسی کے دوران ٹکڑوں ٹکڑوں میں کہتے رہے،’’صحیح ہے۔۔۔بالکل صحیح ہے۔۔۔ٹھیک کہا تم نے۔۔۔واہ۔۔۔‘‘

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، چلیے آگے بڑھتے ہیں۔ ممبئی یونیورسٹی کے اس پروگرام کے بعد سناٹا چھا گیا۔ میں نئے شہر ممبئی میں قدم جمانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ جیسا کہ بتا چکا ہوں کہ اماں کو فالج مار گیا تھا، نہ بول پاتی تھیں، نہ کھا پاتی تھیں۔ میرے گھر میں عورت کے نام پر میری 14-15 سالہ بیٹی تھی، جو وقت سے پہلے بڑی لگنے لگی تھی کیوں کہ اس نے گھر کی پوری ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔ اماں کی یہ حالت دو چار ماہ تک نہ تھی بلکہ وہ اسی حالت میں چار سال زندہ رہیں۔ انھیں پائپ سے پانی اور Liquid Diet دیا جاتا تھا، میری بچی کے ذمے یہ سب تھا۔ دو تین روز کے بعد ہمارا فیملی ڈاکٹر جو پائپ بدلنے کے لیے آتا تھا، اس نے اس سے یہ ساری کاریگری سیکھ لی اور ایک دو بار ڈاکٹر کے سامنے اس نے کھانے اور پیشاب کی پائپ کو بدلا اور جب ڈاکٹر مطمئن ہو گیا تو اس نے اسے اجازت دی کہ اب تم خود یہ کر سکتی ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہر روز اماں کے پورے جسم کو بھیگے کپڑے سے پوچھنا، ان کے بالوں کو دھلانا، انھیں ہر گھنٹے کے بعد ان کی کروٹ بدلنا، انھیں ہر ہفتے نہانا، ان کے پاس لیٹ کر ان سے ہنسی مذاق کرنا وغیرہ، دراصل ان چار سالوں میں وہ 15 سال کی کمسن بچی میری ماں کی ماں بن چکی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان چار برسوں میں اماں کو Bedsole/Bed Sore کبھی نہیں ہوا جس کا اندیشہ ڈاکٹروں نے اسپتال سے اماں کو ڈسچارج کرتے وقت کیا تھا۔ ڈاکٹر خود حیرت زدہ تھے کہ ایسا کیسے ممکن ہے لیکن مجھے پتہ تھا کہ محبت کوئی بھی معجزہ کبھی بھی دکھا سکتی ہے۔

میں ٹیلی ویژن سیریل میں ایسا مصروف ہوا کہ کتاب بھول گیا۔ فرصت ہی نہ تھی۔ ڈیلی سوپ لکھنے کا مطلب ہے کہ آپ پوری دنیا سے لاتعلق ہو جائیں۔ رات گئے گھر لوٹنا اور صبح اٹھ کر آئندہ ایپی سوڈ کی اسکرپٹ تیار کرنا تاکہ جاری شوٹنگ نہ رکے، اسی بیچ دوسری میٹنگیں، پھر شام کو پروڈکشن ہاؤس جا کر ڈائریکٹر اور کریٹیو ڈائرکٹروں اور کبھی کبھی ٹی وی چینل جا کر ان کی ہدایات کو ازبر کرنا وغیرہ کے بعد مجھے اپنے لیے بھی وقت نکالنا مشکل ہوگیا تھا۔ ایک بار تو زی ٹی وی کے ایک ڈیلی سوپ ‘ایک ٹکڑا چاند کا’ کے ڈائیلاگ مجھے سیٹ پر لکھنے پڑے تھے۔ یعنی ایک سین کی شوٹنگ جاری ہے اور دوسرے سین کا سیٹ لگایا جا رہا ہے اور اس سے پہلے کہ پہلا سین مکمل ہو، مجھے دوسرے سین کے اسکرین پلے کے اعتبار سے ڈائیلاگ لکھ کر ڈائریکٹر کو سونپ دینا ہوتا تھا اور واضح رہے اس وقت کمپیوٹر کا رواج ترقی نہ پایا تھا، میں ہاتھ ہی سے لکھتا تھا۔

خیر، اس سے یہ ہوا کہ گھر میں اتنے پیسے آنے لگے کہ ممبئی جیسے مہنگے شہر میں ہم اماں کے مہنگے علاج کو برداشت کر سکیں اور خود بھی سکون سے رہ سکیں۔ لیکن یہ سکون کچھ دنوں کے بعد اس وقت جاتا رہا جب اچھے خاصے ابا نے ہمیں دھوکہ دے دیا۔ اماں بستر پہ پڑی تھیں، لوگوں کے ساتھ ڈاکٹر اور ہم بھی ان کی امید کھو چکے تھے اور ہم نے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا کہ کسی بھی وقت وہ ہم سے بچھڑ سکتی ہیں،لیکن ان کی جگہ چلتے پھرتے ابا چٹ پٹ ہو گئے۔ انھوں نے ہمیں ایک روز کی بھی مہلت نہ دی، حتیٰ کہ اسپتال لے جانے تک کا بھی وقت نہ دیا۔

اب میری بچی میرے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہو چکی تھی۔ اسی دوران ہمارے پڑوس سے ایک رشتہ اس کے لیے آیا۔ رشتہ اچھا تھا۔ مجھے کافی بعد میں پتہ چلا کہ میری بیٹی اور ان کا بیٹا ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ گھرانہ شریف تھا، لڑکا بہت ہی شریف تھا بلکہ بعد میں احمق کی حد تک شریف نکلا۔ میرے پس و پیش کو دیکھ کر لڑکے کی والدہ نے ایک تجویز رکھی کہ آپ پریشان نہ ہوں، ہم بچی کو شادی کے بعد بھی اسے اپنے گھر نہ لے جائیں گے، بلکہ جب تک اس کی دادی حیات سے ہیں وہ یہیں رہے گی اور میرا بیٹا بھی اس وقت تک یہیں رہے گا۔ یہ ان کی بڑی قربانی تھی لیکن اس کے باوجود میں کئی دنوں تک متذبذب رہا اور خود کلامی کرتا رہا یعنی اپنے ‘الٹر ایگو’ سے رائے مشورہ کرتا رہا۔ بالآخر میں نے اپنے الٹر ایگو کی یہ دلیل تسلیم کر لی کہ ممکن ہے اماں کی جان اپنی پوتی کا گھر بستا دیکھنے کے لیے اٹکی ہوئی ہو کیوں کہ میری طلاق کے بعد وہی اماں کی محبت و شفقت کا مرکز تھی۔ میں نے لڑکے والوں کو گرین سگنل دے دیا۔ شادی ہوئی اور بہت دھوم دھام سے ہوئی، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ میری بچی ایک بن ماں کی بچی تھی، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہی میرا کل اثاثہ تھی، اسے بھلا میں ایسے کیسے رخصت کر سکتا تھا، تیسری اور آخری وجہ یہ تھی کہ میں اماں (جو اب تک جتنے فیصد بھی زندہ تھیں، لیکن تھیں) کے سامنے بھی شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا کہ ان کی لاڈلی کی شادی میں کوئی کور کسر باقی رہ گئی۔ میری پوری بلڈنگ، جس میں میرا فلیٹ تھا، وہ ایک ہفتہ تک میری بچی کا مائکہ بن گیا، اتنا بڑا مائکہ کہ ہر فلیٹ والوں نے اپنے اپنے گاؤں سے اپنے رشتے داروں کو بھی بلا لیا تھا تاکہ ایک بن ماں کی بچی کا مائکہ بھرا پورا لگے۔ مجھے گھر سے باہر کر دیا گیا تھا، صرف رات کو انٹری ہوتی تھی، باقی وقت بلڈنگ والے اپنی چلاتے تھے۔ بھلا اتنا بڑا پریوار کس کا ہوتا ہے۔

شادی ہو گئی، ہفتہ بھر ہنگامہ رہا۔ میرے داماد اور اس کے گھر والوں نے اپنا وعدہ پورا کیا، صرف علامتی رخصتی کرائی اور دو دن بعد انھوں نے میری بیٹی کو گھر بھیج دیا اور اس کے ساتھ ہی میرا داماد بھی میرے ہاں شفٹ ہو گیا۔ اماں شروع سے ایک با غیرت خاتون رہی تھیں، کیا ہوا ان کے اعضا اگرچہ بے حس و حرکت تھے لیکن ان کی متحرک غیرت نے برداشت نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے گھر کی بیٹی اور داماد یہاں رہیں، ایک دن انھوں نے چپکے سے سکون کی آخری سانس لی اور ہم سے رخصت ہو گئیں۔

ابا پہلے جا چکے تھے، اماں جا چکی تھیں اور اب بیٹی بھی اپنے گھر رخصت ہو چکی تھی۔ کمرہ بھائیں بھائیں کر رہا تھا، کوئی نہ تھا لیکن رکیے کوئی تو تھا جو میرے ساتھ ہمیشہ ہوتا تھا،جس سے میں گھنٹوں بات کر سکتا تھا، اپنی بھڑاس نکال سکتا تھا، اس کے نادیدہ اور غیر مرئی کندھوں پر سر رکھ کر سسک سکتا تھا، اس پر اپنا غصہ نکال سکتا تھا۔ شاید وہ دوسرا بھی میں ہوں، یا شاید میرا ہمزاد ہو۔ بہرحال، اس کے ساتھ میں نے رفتہ رفتہ جینا سیکھ لیا۔ ساری ذمہ داریاں ختم ہو چکی تھیں، سو اسکرپٹ رائٹنگ کی رفتار بھی بتدریج سست ہوتی گئی۔ اب میں تھا اور میں تھا۔ میں اب بھی لکھ رہا تھا لیکن خود کے لیے لکھ رہا تھا۔

انھی دنوں گیان چند جین کی متنازعہ کتاب پر فاروقی کے تبصرے نے اردو کے ادبی حلقوں میں ہنگامہ برپا کیا ہوا تھا۔ فاروقی اور نارنگ آمنے سامنے ہو گئے تھے لیکن پیر صاحب سے زیادہ مریدوں کو حال آیا ہوا تھا۔ ہر جگہ سے بھونکنے اور غرانے کی آواز آ رہی تھی۔ میں الگ تھلگ خاموش تماشائی کی طرح ایک طرف پڑا تھا۔ اچانک میری نظر سہ ماہی ‘نیا ورق’ کے اداریوں پر پڑی جس میں ساجد رشید (مرحوم) نے توپ کا دہانہ فاروقی کی طرف کر رکھا تھا۔ وارث علوی کے ایک جملے کے مطابق، نارنگ ‘نیا ورق’ کے کاندھے پر بندوق رکھ فاروقی پر گولے داغ رہے ہیں۔ خیر اس وقت مجھے دونوں سے بلکہ تینوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ یہ درست ہے کہ فاروقی میرا عشق تھے لیکن بہرحال اس عشق نے مجھے کبھی کافکا کا’ کاکروچ’ نہیں بنایا۔ نارنگ صاحب یا ساجد رشید کو نہ میں جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتے تھے، ان سے میرا کوئی جائیداد کا جھگڑا بھی نہ تھا، سو میں نے ایک قاری کی حیثیت سے اس تنازعہ پر تبصرہ لکھا اور طویل اور سخت تبصرہ لکھا۔ پہلے اسے ‘نیا ورق’ میں بغرض اشاعت بھیجا چونکہ فی الحال وہی پانی پت کا میدان بنا ہوا تھا۔ لیکن ظاہر ہے غیر جانب داری کا ڈھونگ رچانے والوں کا مکھوٹا اکثر ایسے موقعوں پر ہینگر میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ سو وہاں خاموشی اختیار کر لی گئی۔ میں نے اس طویل مضمون کو شاید یو این آئی UNI میں بھیج دیا جو اردو کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی ہے۔ خلاف توقع دوسرے ہی دن یہ ہندوستان کے مختلف صوبوں سے نکلنے والے 32 اخباروں میں ایک ساتھ چھپا اور نارنگی خیموں میں ایک زلزلہ سا آ گیا۔ مجھے اس کی خبر نہ تھی کہ کہاں کس اخبار میں یہ مضمون چھپا، لیکن ایک روز جب میں معمول کے مطابق دیر سے اٹھا تو بہت سارے کال میرے موبائل پر نظر آئے۔ ان میں سے کچھ کال تو میرے پرو ڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے تھے، لیکن ان میں سے ایک نمبر اجنبی سا لگا۔ میں نے اس نمبر پر کال بیک کیا تو دوسری طرف سے آواز آئی،’’سلام علیکم، میں شمس الرحمٰن فاروقی بول رہا ہوں۔‘‘

مجھے پتہ نہیں کہ آپ نے زندگی میں کبھی عشق کیا ہے یا نہیں لیکن عشق والے ذرا ریاض خیر آبادی کے اس شعر کو پڑھیں تو شاید اس وقت کی میری دلی کیفیت کو خود بھی محسوس کر سکیں گے:

ہم بند کیے آنکھ تصور میں پڑے ہیں

ایسے میں کوئی چھم سے جو آ جائے تو کیا ہو

دوسری طرف سے بار بار ہیلو ہیلو کی آواز آتی رہی اور میں ہاتھ میں فون تھامے فرط جذبات سے لرز رہا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ میں ذرا سا بھی ہلا ڈُلا تو زمین پر ابھی ڈھیر ہو جاؤں گا۔ میں نے اپنے جسم کی پوری طاقت صرف ‘ہیلو’ کہنے میں جھونک دی۔ فاروقی صاحب پوچھ رہے تھے کہ آپ اشعر نجمی صاحب بول رہے ہیں۔ میرا نام اس کی زبان پر تھا جس سے میں کبھی بغیر مصافحہ کیے لوٹ آیا تھا۔ میں نے بمشکل اثبات میں جواب دیا۔ پھر وہ بولتے رہے اور میرا شکریہ ادا کرتے رہے کہ اب تک اس تنازعے پر میں نے جیسا لکھا ہے، کوئی نہ لکھ سکا حتیٰ کہ اس تنازعے کی اصل کو کوئی سمجھ نہ سکا۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے اپنے پیشے کے بارے میں بتایا تو انھیں مایوسی ہوئی۔ ان کا اندازہ تھا کہ میں وکالت کرتا ہوں۔ میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے یہ اندازہ میرے اسلوب سے لگایا تھا، بقول ان کے اردو والوں میں کسی مقدمے پر اس طرح کے جرح والا اسلوب ناپید ہے اور یہ صرف انگریزی کے بعض ناقدین میں پایا جاتا ہے، انھوں نے کچھ نام بھی لیے تھے جو اب مجھے یاد نہیں رہے۔ خیر بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے، میں ہاں ہوں سے کام چلا رہا تھا چونکہ اس وقت میرے حواس پوری طرح میرے قابو میں نہیں تھے۔ میں دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ وہ جلدی سے اب فون رکھ دیں ورنہ میں کہیں رونا نہ شروع کر دوں۔ یہی ہوا، انھوں نے جیسے ہی فون رکھا، میں کسی کٹے ہوئے پیڑ کی طرح بستر پر گر پڑا۔

جب تھوڑا ہوش میں آیا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ فاروقی صاحب نے جس نمبر سے مجھے فون کیا تھا، اسے اپنے موبائل میں محفوظ کر لیا۔ شام ہوئی تو دوستوں کے حلقے میں بطور خاص پہنچا اور اس کی خوب پبلسٹی کی کہ مجھے آج فاروقی صاحب نے فون کیا تھا، ثبوت کے طور پر میں اپنے فون پر ان کا کال ریکارڈ دکھاتا پھرا جس میں وہ وقفہ بھی درج تھا کہ کتنی دیر انھوں نے مجھ سے بات کی تھی۔

کوئی اور ہوتا تو شاید اس فون نمبر کا ناجائز فائدہ یہ اٹھاتا کہ روز روز فون کر کے انھیں تنگ کر مارتا لیکن عشق تو صبر سکھا دیتا تھا، انتظار کرنا سکھا دیتا ہے، آداب سکھا دیتا ہے۔ میرے لیے یہی کافی تھا کہ فاروقی صاحب نے بالآخر مجھے کال کیا تھا، مجھ سے نہ صرف گفتگو کی تھی بلکہ میری تحریر کے اسلوب پر تبصرہ بھی کیا تھا۔ میں اس ایک تبرک کے ساتھ پوری زندگی گزار سکتا تھا، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔

فاروقی صاحب کی حوصلہ افزائی کے سبب میری لکھنے کی رفتار بڑھ گئی۔ میں نے اب اپنے مضامین اخباروں کے علاوہ اردو کے ادبی رسائل کو بھی بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ اُدھر ‘نیا ورق’ میں میرے خلاف ایک مورچہ کھل چکا تھا۔ اسی زمانے میں ایک مضمون ‘تفسیر کی شرح’ جو کم و بیش چالیس صفحات پر مشتمل تھا، میں نے اسے شاہد علی خان صاحب کی ادارت میں نکلنے والے پرچے سہ ماہی’نئی کتاب’ میں بغرض اشاعت بھیجا اور بھول گیا۔

تقریباً دو ماہ بعد جب میں ایک شام شعری نشست میں بہت سارے لوگوں میں گھرا بیٹھا تھا تو اچانک میرا موبائل بجنے لگا، مجھے سخت کوفت ہوئی کہ ایسے وقت میں مجھے فون کو سائلنٹ موڈ پر رکھنا تھا، فون کو بمشکل جیب سے باہر کھینچا، لوگ مجھے ناگواری سے دیکھ رہے تھے، میں نے ڈسپلے پر نظر ڈالی تو وہاں ’فاروقی‘ کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس بار میں پہلے کی طرح نہیں لرزا بلکہ بیچ نشست میں ایک جست لگائی اور لوگوں کی خشمگیں نگاہوں کے درمیان سے ہوتا ہوا تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔

دراصل شاہد علی خان جب بھی کسی تحریر کی اشاعت کے بارے فیصلہ نہ کر پاتے تھے تو وہ اسے فاروقی صاحب کو بھیج دیا کرتے تھے تاکہ وہ اس بارے میں فیصلہ کر سکیں۔ میرا چالیس صفحات پر پھیلا ہوا مضمون بھی شاہد صاحب نے فاروقی صاحب کو بھیج دیا تھا جسے پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے فون کیا تھا۔

’’تم ہو کیا چیز جی؟ جس وقت شب خون چھپ رہا تھا، اس وقت تم کہاں تھے؟ میں ممبئی کئی بار آیا تم سے کبھی ملاقات کیوں نہیں ہوئی؟ تم میری نظروں سے کیسے بچ نکلے؟‘‘

وہ ایک سانس میں کئی سوال کر گئے۔ میں کچھ بولنا چاہتا تو تھوڑا سا ڈپٹ دیتے،’’پہلے میری بات ختم ہونے دو۔ شاہد صاحب نے تمھارا مضمون بھیجا تھا، اس کا پرنٹ آؤٹ لے کر پڑھا بلکہ پڑھ کر سب سے پہلے تمھیں ہی فون لگایا۔ میں سچ بولتا ہوں، تمھارے مطالعے نے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور تمھارا وہ اسلوب اور تمھارے وہ punches، قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے کم از کم اردو میں تو نہیں دیکھا۔‘‘

میری حالت غیر ہو رہی تھی، اور کیوں نہ ہوتی، معشوق جب عاشق کا جون بدل لے تو آدمی اپنا سر اپنے ہاتھوں میں لے کر ‘سر بازار می رقصم’ ہی تو گنگنائے گا۔

خیر، میرا وہ طویل مضمون ‘نئی کتاب’ میں چھپا اور کافی اہتمام سے چھپا۔ اس کے بعد ایک بار پھر سلسلہ منقطع۔ لیکن اب میری لگام مجھ سے چھوٹ چکی تھی۔ میں نے شاید دس پندرہ دنوں کے بعد ہی پہلی بار فاروقی صاحب کا نمبر ڈائل کیا۔ انھوں نے نہیں اٹھایا، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایک میسیج ملا کہ وہ کسی میٹنگ میں ہیں، فارغ ہوتے ہی مجھے فون کریں گے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ان کا فون آیا۔ سلام میں وہ ہمیشہ پہل کرتے تھے، میں نے برسوں کوشش کی کہ میں کبھی سلام کرنے میں بازی لے جاؤں لیکن ناکام رہا۔ انھوں نے حسب معمول سلام کیا، خیریت پوچھی۔ میں نے پہلی بار پوری جرات اور خود اعتمادی کے ساتھ ان سے براہ راست کہا:

’’سر میں ایک رسالہ نکالنا چاہتا ہوں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فضیل جعفری اکثر میرا روڈ آتے جاتے رہتے تھے اور اکثر آنے سے پہلے مجھے فون پر بتا دیا کرتے تھے۔ ہم کسی مقامی ریسٹورنٹ میں چلے جاتے، چائے پیتے اور گھنٹوں بات کرتے۔ بِل بھی وہی ادا کرتے۔ باتیں کیا ہوتیں، غیبت زیادہ ہوتی۔ فاروقی کے علاوہ شمیم حنفی، وارث علوی، ساجد رشید، ندا فاضلی، گوپی چند نارنگ، سلام بن رزاق وغیرہ ان کے پسندیدہ ہدف ہوتے۔ ان حضرات کے تعلق سے وہ ایسے ایسے واقعے سناتے اور اتنے دلچسپ انداز میں سناتے جیسے آپ لائیو شو دیکھ رہے ہوں، اس پر مستزاد وہ ان پر ایسے فقرے چست کرتے کہ طبیعت سیر ہو جاتی۔ مزاج میں بے نیازی تھی، سو دوست کم دشمن زیادہ تھے۔ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کا ایوارڈ ملا تو بڑی شائستگی کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اکیڈمی نے گھر پر ڈاک سے بھیج دیا، انھوں نے واپسی ڈاک سے لوٹا دیا۔ مجھے اس وقت پتہ نہ تھا کہ کچھ برسوں بعد میری ان سے بھی پانی پت کے میدان میں ملاقات ہونے والی ہے۔

ایک دن میں نے فضیل جعفری صاحب سے پوچھا،’’میں اردو کا ایک ادبی رسالہ نکالنا چاہتا ہوں، آپ کی کیا رائے ہے۔‘‘ انھوں نے چشمے کے اوپر سے مجھے دیکھا، تھوڑی دیر چپ رہے، پھر فرمایا ’’جناب ایسا ہے کہ لوگ خود کشی کرنے سے پہلے رائے نہیں مانگتے، آپ نے مانگ لی بہت شکریہ۔’’

ایسا نہیں ہے کہ کسی نئے اردو رسالے کو جاری کرنے کا خیال میرے دماغ میں اچانک آ گیا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ‘سوغات’ (بنگلور) ‘شب خون’ (الہ آباد)، ‘جواز’ (مالیگاؤں) اور ‘اردو چینل’ (ممبئی) کے بند ہونے کے بعد ہم جیسے قارئین کے لیے پورا منظر نامہ ہی سپید و سیاہ ہو گیا تھا۔ ‘نیا ورق’ مطلق العنانیت کا شکار ہو گیا تھا اور ایک خاص نظریے اور گروہ کا بھونپو بن گیا تھا، خیر اس میں بھی کوئی قباحت نہ تھی لیکن انتہا اس وقت ہوئی جب ‘نیا ورق’ کے جارحانہ رویے نے ‘شرفا’ کا جینا حرام کر دیا۔ کبھی کسی بزرگ ادیب کی پگڑی اچھال دی، کسی کا تمسخر اڑا دیا، کسی کو حجام کے خاندان کا فرد بتایا تو کسی پر مسلم فرقہ پرستی کا طوق جڑ کر اسے طالبانی کہہ دیا، وغیرہ وغیرہ۔ گویا ایک طوفان بد تمیزی برپا تھا جس سے بیزار ہو کر شرفا نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور یوں ہم اچھا لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ایسے میں کسی ادبی رسالے کا اجرا اور اسی شہر سے اجرا کرنا دراصل اپنی ‘شہادت’ پیش کرنے کے مصداق تھا۔ لیکن میں تو ‘شہید ناز’ کی صف میں روز اول سے کھڑا تھا، یوں بھی ایک شہید کا مرتبہ غازی سے بڑا ہوتا ہے۔

میں نے پہلی بار فاروقی صاحب کا نمبر ڈائل کیا، ورنہ اب تک وہی مجھے فون کرتے رہے تھے۔ انھوں نے فون نہیں اٹھایا، تھوڑی دیر بعد میسیج آیا کہ وہ اس وقت کسی میٹنگ میں ہیں، اس سے فارغ ہونے کے بعد خود فون کریں گے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ان کا فون آ گیا۔ سلام کرنے کا وہی مخصوص انداز، شفقت کی خوشبو میں بسا ہوا وہی لہجہ جسے میں ہزاروں کلو میٹر دور سے بھی محسوس کر سکتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میرے پائے استقلال میں لرزہ آتا، میں نے پورے استقلال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کر دیا:

’’سر، میں اردو کا ایک ادبی رسالہ نکالنا چاہتا ہوں۔‘‘ جملہ ادا کر کے محسوس ہوا جیسے اپنا بوجھ اتار پھینکا ہو۔

دوسری طرف سے فاروقی نے قہقہہ لگایا، کہا ’’میاں! تم پڑھے لکھے ہو، کیوں اس جھنجھٹ میں پڑتے ہو؟‘‘

’’مجھ سے زیادہ تو آپ پڑھے لکھے ہیں، پھر۔۔۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے دھیرے سے کہا لیکن جملہ پورا نہ کر سکا۔

پھر ایک قہقہہ۔ بولے،’’تم بہت بدمعاش ہو۔ ہاں بھائی وکیلوں سےکون جیت سکا ہے۔ چلو، نکالو۔ لیکن کیسے نکالو گے؟ دو چار شمارے اپنا شوق پورا کرنے کی خاطر نکالنا چاہتے ہو تو میرا مشورہ ہے، نہ نکالو۔ وقت چاہیے، پیسے چاہئیں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ ریاضت چاہیے۔ ‘شب خون’ بند کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میں اپنا کام نہیں کر پاتا تھا۔ بہت سارے ادھورے کام عرصے سے پڑے تھے، جنھیں اب مکمل کر رہا ہوں۔ سو اچھی طرح دیکھ اور سمجھ کر فیصلہ کرو۔‘‘

’’میں نے اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیا ہے سر۔ آپ ہیں نا!‘‘

’’مجھے تو معاف کرو بیٹا۔ اگر مجھ میں ہمت ہوتی تو ‘شب خون’ بند ہی کیوں کرتا۔‘‘

ان کی دلیل مجھے معقول لگی، میں نے پینترا بدلا؛’’آپ کو کچھ نہیں کرنا، میں اس پرچے کو اپنے طور پر نکالوں گا۔ اسے ترتیب بھی میں ہی دوں گا، تخلیقات کا انتخاب بھی میں ہی کروں گا، اس کی اشاعت میں پیسے بھی میں ہی لگاؤں گا اور اگر مجھ پر آپ یقین کر سکیں تو وعدہ کرتا ہوں کہ رسالہ دو چار شماروں کے بعد بند نہیں ہوگا بلکہ میری سانس جب تک چل رہی ہے، جاری رہے گا۔‘‘

’’اور وقت کی پابندی؟ یہ کسی رسالے کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔ ماہنامہ مت نکالنا، سہ ماہی نکالو، تمھیں تھوڑا وقت مل جایا کرے گا۔ لیکن بہرحال اگر سہ ماہی بھی نکالتے ہو تو وقت کی پابندی کا خیال ضروری ہے۔‘‘

’’میں سب کر لوں گا۔ آپ صرف میرے ساتھ کھڑے رہنے کا وعدہ کیجیے۔‘‘

’’ٹھیک ہے بھئی، جیسی تمھاری مرضی۔ نکالو، پرچہ نکالو۔ اور مجھے کیا کرنا ہے، وہ بھی بتا دو۔‘‘

فاروقی نے ایک سرد سانس لے کر اسی طرح جواب دیا جیسے ایک مشفق باپ اپنے ضدی بیٹے کے تقاضوں کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔

مجھے اس اجازت نامے کے بعد پَر لگ گئے تھے۔ تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں نے اپنے حلقہ احباب میں اعلان کر دیا، ہندوستان بھر کے ادیبوں کو خط لکھے، حوصلہ افزائی کے خطوط ملنے لگے۔ اپنے بینک اکاؤنٹ میں جھانکا، اتنے پیسے تو تھے جس سے کم از کم تین شمارے نکل سکتے تھے۔ ایک ڈیسک ٹاپ خریدا اور تخلیقات ترتیب دینے لگا۔ جس وقت میں ‘اثبات’کا پہلا شمارہ ترتیب دے رہا تھا، اس وقت چاروں جانب سے میری حوصلہ شکنی ہو رہی تھی۔ کوئی مجھے ڈرا رہا تھا تو کوئی میری اہلیت پر شک کر رہا تھا، کوئی مذاق اڑا رہا تھا تو کوئی مجھے قابل اعتنا ہی نہ گردان رہا تھا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب فیاض رفعت نے میرے سامنے ندا فاضلی سے درخواست کی کہ وہ اپنی تخلیقات پہلے شمارے کے لیے دے کر میری حوصلہ افزائی کریں تو ندا فاضلی اپنی مخصوص لیکن محتاط مسکراہٹ کے ساتھ بس سر ہلا کر رہ گئے۔ اسی طرح زبیر رضوی (جنھوں نے میرے طویل مضمون کو برضا و رغبت کبھی ذہن جدید میں شائع کیا تھا اور ہمیشہ میری صلاحیتوں کے معترف رہے) سے جب میں نے تخلیقات کی گذارش کی تو انھوں نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے جواب دیا کہ وہ دو شماروں کی اشاعت کے بعد اپنی تخلیقات سے مجھے ‘نوازیں گے’۔ ظاہر ہے کہ ندا فاضلی یا زبیر رضوی کی طرح کوئی بھی معتبر ادیب کسی ایسے رسالے کو اپنی تخلیقات نہیں دینا چاہے گا جس کے بارے میں ابھی اسے یہ بھی علم نہ ہو کہ یہ پرچہ ان کے شایان شان ہوگا بھی یا نہیں اور پتہ نہیں اس کا مدیر واقعی اس کا اہل ہے بھی کہ نہیں۔ لیکن اس وقت یہ فاروقی ہی تھے جنھوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ اقلیم ادب کا یہ فرمانروا جس کے دروازے پر ہاتھی، گینڈے اور چوہے تک جھوما کرتے تھے، اس نے ایک نو زائیدہ مدیر اور ایک نو خیز رسالے کی درخواست پر اپنی محبوب ترین ہستی یعنی اپنی اہلیہ مرحومہ جمیلہ فاروقی کے نام سے وابستہ کرنے کی اجازت بھی دی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بقول ارشاد حیدر، فاروقی کی اکٹھا اتنی ساری چیزیں کبھی ‘شب خون’ میں بھی نہیں چھپیں۔ ظاہر ہے، میں ‘اثبات’ کے اس محسن اول کی نوازش خسروانہ کو فراموش کر کے ان ابن الوقتوں میں شریک نہیں ہو سکتا تھا جو بقول نصرت ظہیر مثل چراغ جل رہے تھے۔ چنانچہ میں نے چراغ تربت پر چراغ چشم بننے کو ترجیح دی اوریوں ‘آستانہ ذلیلہ’ (یہاں غلط تلفظ کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی) پر اپنی غیرت اور ضمیر کی چراغی چڑھانے سے محفوظ رہا۔خیر، اس کا تفصیلی ذکر تو بعد میں آئے گا۔ فی الحال صرف اتنا جاننا کافی ہوگا کہ اگرچہ میں اس سمندر سے صرف ایک قطرے کا ہی آرزو مند تھا لیکن اس نے مجھے سر تا پا سیراب کر دیا جس سے انکار کر کے میں بد دیانتوں کے اس ٹولے میں شریک نہیں ہونا چاہتا جو کل تک دیار فاروقی میں کاسہ گدائی لیے قطار میں کھڑے نظر آتے تھے لیکن وقت بدلتے ہی سجدہ گاہیں بھی بدل دیں۔

میں نے ‘اثبات’ کا پہلا شمارہ مرتب کیا اور اب اس کی صفحہ سازی کے لیے آدمی تلاش کرنے لگا چونکہ اس وقت تک میں نہ کورل ڈرا (CorelDraw) سے واقف تھا اور نہ ‘اِن پیج’ سے اچھا دوستانہ تھا، صرف ٹائپ کر لیتا تھا لیکن خاطر خواہ اسپیڈ کے ساتھ۔ انور مرزا سے انھی دنوں ملاقات ہوئی، وہ اردو اخباروں کی صفحہ سازی کا کام کرتے تھے، کافی مصروف بندے تھے لیکن انھوں نے ہفتے میں ایک روز جو ان کی چھٹی کا دن ہوتا تھا، وہ مجھ پر خرچ کرنے لگے۔ اگرچہ ہفتے میں ایک دن غیر تشفی بخش تھا، لیکن مجبوری تھی، سو وہ ہر اتوار میرے گھر چلے آتے تھے اور شام تک میرے ساتھ بیٹھ کر میرے کمپیوٹر پر صفحہ سازی کرتے۔ بیچ بیچ میں ایک دو اتوار گول بھی کر جاتے، بڑی کوفت ہوتی۔ کبھی مجھے صفحہ سازی کے بعد کسی صفحے کو بدلنا ہوتا تو وہ اس پر جھنجھلا جاتے۔ ان کا جھنجھلانا فطری تھا لیکن اب اس کا کیا کریں کہ میں بھی کوئی پروفیشنل مدیر تو تھا نہیں بلکہ اب تک ولادت بھی نہ ہوئی تھی، البتہ حمل ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے اسی وقت دل ہی دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر اسقاط حمل سے بچنا ہے تو مجھے خود یہ ورزش کرنی ہوگی۔ جتنے دنوں انور مرزا ‘اثبات’ کے نقش اول کی صفحہ سازی کرتے رہے، میں ان کے بغل میں دھونی رمائے بیٹھا رہا اور خاموشی سے سیکھتا رہا۔ ‘کی بورڈ’ پر ان کی انگلیوں کی حرکت اور کمپیوٹر ڈسپلے میں اس کی برکت نوٹ کرتا رہا۔ کہیں کچھ الجھ جاتا تو ان سے پوچھتا اور وہ مجھے بتا دیتے۔ ان کے جانے کے بعد اگلے اتوار تک انھی صفحات کی دوسری کاپی بناتا اور اب تک کے سبق کی مشق کرتا تھا۔ انور مرزا میرے اس ذوق و شوق سے کافی متاثر ہوئے اور اب وہ صفحہ سازی کرتے ہوئے اس کے اسرار رموز بھی مجھے سکھاتے جا رہے تھے۔ حتی کہ جب دوسرا شمارہ آیا تو اس کی مکمل صفحہ سازی کر کے میں نے انور مرزا کو دکھایا تو وہ بڑے خوش ہوئے کہ اس میں تکنیکی اعتبار سے کوئی غلطی نہ تھی۔

میں نے پہلے شمارے کا مسودہ بذریعہ ڈاک فاروقی صاحب کو بھیج دیا۔ فاروقی صاحب نے مسودے کی ہارڈ کاپی میں سرخ نشان لگا کر کئی جگہ اصلاح کی۔ مثلاً ‘انہوں’ کی جگہ ‘انھوں’ لکھنے کی تاکید کی، ‘لئے’ کی جگہ ‘لیے’، ‘گزشتہ’ کی بجائے ‘گذشتہ’ اور ‘گزرنا’ کی بجائے ‘گذرنا’ وغیرہ وغیرہ۔ شاعروں کی ترتیب بدل دی، کچھ بڑے شاعروں کے اشعار کی تقطیع کرکے انھیں خارج از بحر دکھا دیا، کچھ کی زبان کی گرفت کی، مجھے اپنے مدیرانہ استحقاق کے استعمال کی تاکید کی، کچھ کم درجہ تخلیقات کے بارے میں مشورہ دیا کہ آئندہ اس طرح کی چیز نہ چھاپو کہ ان سے پرچے کے وقار پر آنچ آتی ہے لیکن پھر آخری میں وہ یہ جملہ لکھنا بھی نہ بھولے کہ بہرحال پرچہ تمھارا ہے اور اس کا انتخاب تمھاری صوابدید پر منحصر ہے۔ اور بھی بہت سی اصلاحات اور رائے تھیں جو اس وقت مجھے یاد نہیں، البتہ وہ پہلا مسودہ میرے پاس بطور تبرک آج بھی موجود ہے۔

پرچہ مکمل ہو چکا تھا، اسے پریس کو دے دیا۔ شہاب نے کہا کہ اس کے رسم اجرا کی تقریب ہونی چاہیے۔ میں نے فاروقی صاحب سے کہا تو ان کا جواب تھا کہ جتنے پیسے تم تقریب میں خرچ کرو گے، اس سے آئندہ شمارہ نکل آئے گا۔ ایک بار پھر میں نے ضد پکڑ لی اور ایک بار پھر انھوں نے اس ناہنجار کی بات مان لی۔

قاضی شہاب عالم ان دنوں صرف میرے دوست ہوا کرتے تھے، اس وقت تک وہ ‘اثبات’ کے پبلشر نہ تھے۔ اس کے باوجود وہ میرے جنون اور میری قوت ارادی کو دیکھتے ہوئے اس میرے ساتھ ہو لیے، صرف زبانی نہیں بلکہ اجرا کی تقریب کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ رسم اجرا کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی؛ 26 مئی 2008۔

شہاب نے فاروقی صاحب کے لیے ائیر ٹکٹ خریدنا چاہا چونکہ ہم جانتے تھے کہ وہ شاذ ہی ٹرین سے سفر کیا کرتے تھے لیکن فاروقی صاحب نے ہمیں منع کر دیا اور کہا وہ اپنے پیسوں سے ٹکٹ خرید کر آ جائیں گے۔ ایک بار پھر میں نے ضد پکڑ لی کہ کم از کم اس ایک خدمت کا موقع مجھے بخش دیجیے۔ انھوں نے ایک بار پھر سر جھکا لیا اور کہا ٹھیک ہے، فلاں ٹرین کا ٹکٹ بھیج دو۔ میں جانتا تھا کہ وہ میری جیب پر غیر ضروری بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ جب میں نے ائیر سے آنے پر اصرار کیا تو جھوٹ موٹ مجھے تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے کہ میاں ٹرین کا سفر کیے بہت دن ہو گئے، کھیت، سبزہ، ہریالی کو دیکھتے ہوئے آؤں گا تو طبیعت بحال ہو جائے گی۔ اس بار وہ اپنی بات پر اڑے رہے، میں نے سر جھکا دیا۔ عشق میں ایسے مقامات بہت آتے ہیں جب محب اور محبوب اپنی اپنی جگہ ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔

26 مئی 2008 کو فاروقی صاحب بذریعہ ٹرین آنے والے تھے۔ ہال بک ہو چکا تھا، رسالہ چھپ کر آ چکا تھا، دعوت نامے تقسیم کیے جا چکے تھے اور فاروقی صاحب کے قیام کا بندوبست کیا جا چکا تھا۔ بھیونڈی کے یٰسین مومن صاحب جو پورے شہر میں ادب اور ادیب نواز کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور ان دنوں ہر ادبی تقریب کی شہ نشین پر براجمان نظر آتے تھے، انھوں نے اپنے میرا روڈ کے وسیع فلیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ ان کا فلیٹ اب بھی بہت نفیس ہے۔ قیمتی فرنیچروں سے آراستہ ہے۔ خیر، یٰسین مومن خود بھی ایک روز پہلے ایک باورچی کے ساتھ میرا روڈ شفٹ ہو گئے، ان کا اہتمام یہ تھا کہ ان کے فلیٹ کے کچن میں ہی فاروقی صاحب کی پسند کے مطابق کھانا بنے گا۔ اگرچہ ان کے پاس خود کی ایک کار تھی لیکن فاروقی صاحب کا استقبال کرنے کے لیے انھوں نے اپنے کارپوریٹر بھتیجے یا بھانجے کو اس کی نئی SUV کا ڈرائیور بنا کر میرے ساتھ دادر اسٹیشن بھیج دیا اور خود اپنے فلیٹ پر رکے رہے تاکہ وہاں مہمان کا استقبال کرنے کے لیے کوئی موجود ہو۔

دادر اسٹیشن سے میں نے فاروقی صاحب کو فون لگایا، انھوں نے فوراً فون اٹھایا، تھوڑا سا جھنجھلائے ہوئے تھے۔ شاید ٹرین کی طویل مسافت ان پر اثر انداز ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت ان کی ٹرین اسٹیشن کے آؤٹر میں رکی ہوئی سگنل کے سبز ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔ میں نے انھیں دلاسا دیا کہ بس دو چار منٹ کی بات ہے، میں یہاں پلیٹ فارم پر آپ کا منتظر ہوں۔

اور سچ مچ دو چار منٹ بعد ہی پلیٹ فارم پر مطلوبہ ٹرین کی آمد کا اعلان گونجنے لگا۔ شریانوں میں خون کی رفتار بڑھ گئی، اعصاب تھوڑے سے کھنچ گئے تھے۔ میں ایک ایسے شخص کا استقبال کرنے کے لیے یہاں موجود تھا جس کی میزبانی کو اک دنیا ترستی تھی۔ جس نے میری سونی زندگی میں چراغ روشن کیا تھا، جو میری تنہائی کو انجمن میں بدل رہا تھا، جو ایک مردم بیزار کو مردم شناس بنا رہا تھا اور جو ایک خانماں برباد بے چہرہ شخص کا تعارف بن کر اس کے غریب خانے پر پدھار رہا تھا۔ ٹرین کا انجن پلیٹ فارم میں داخل ہوا تو زمین ہلنی شروع ہو گئی، دھمکنے لگی۔

‘کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے’

ٹرین کے کمپارٹمنٹس میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ فرسٹ کلاس بھی گزرتا چلا گیا۔ میں اس کے پیچھے بھاگا چونکہ میں پلیٹ فارم پر غلط جگہ کھڑا تھا۔ ٹرین رک گئی۔ فرسٹ کلاس کافی آگے جا کر رکا۔ ٹرین نے مسافروں کو اُگلنا شروع کر دیا۔ پلیٹ فارم میں بھیڑ بڑھ گئی تھی۔ میں لو گوں سے بچتا بچاتا، ان کے لگیج سے ٹکراتا ہوا فرسٹ کلاس کی طرف تیز قدموں سے بڑھ رہا تھا۔ اچانک قدم ٹھٹھک گئے، فاروقی صاحب ٹرین کے باہر اپنے لگیج کے ساتھ کھڑے ادھر اُدھر نظریں دوڑا رہے تھے، ظاہر ہے انھیں میری تلاش تھی، انھوں نے مجھے اب تک دیکھا نہ تھا، سو وہ ہر چہرے کو غور سے دیکھ رہے تھے، اپنی طرف بڑھتے ہوئے ہر شخص پر انھیں اشعر نجمی کا دھوکہ ہو رہا تھا۔ میں ان کی طرف بڑھا۔ شاید وہ سمجھ گئے تھے کہ ہو نہ ہو یہی خچر اشعر نجمی ہے، ان کی آنکھیں چمکنے لگیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن انھوں نے مجھے گلے لگا لیا۔

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر جائے نہ کہیں

(ناصر کاظمی)

انھوں نے پاس سے گزرتے ہوئے قلی کو سامان اٹھانے کے لیے آواز دی۔ میں نے قلی کو رقیب رو سیاہ کی طرح گھورا کہ تیری یہ مجال کہ تو یہ موقع مجھ سے جھٹک لے۔ میں نے قلی کو جھٹکا، اور ان کا ائیر بیگ کندھے پہ ڈالا اور اٹیچی کو اس کی وہیل پر کھینچتا ہوا آگے بڑھ گیا، فاروقی صاحب ‘ارے ارے’ کرتے رہ گئے۔

اسٹیشن کے باہر کارپوریٹر صاحب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے چلتے ہوئے فارقی صاحب کو کارپوریٹر صاحب کا غائبانہ تعارف جلدی سے کرا دیا۔ فاروقی صاحب بولے، ارے واہ، میں ان کے بغل میں بیٹھ جاتا ہوں تاکہ ان کی اس محبت کا شکریہ ادا ہو جائے۔ ‘بڑائی’ کی تعریف بہت سنی تھی لیکن ایک بڑا آدمی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ایسی وضع داری صرف اس میں ہو سکتی ہے جس کا علم اس کی زندگی کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہو اور خون بن کر شریانوں میں دوڑتا ہو۔

فاروقی صاحب راستے بھر نوجوان کارپوریٹر صاحب سے بتیاتے رہے۔ کارپوریٹر صاحب کے عزائم بڑے تھے، انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ آئندہ اسمبلی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے حوصلہ بڑھاتے ہوئے جھٹ ان سے پوچھ لیا کہ اس میں کتنا خرچ آتا ہے۔ کارپوریٹر صاحب نے کئی لاکھ کی رقم جب بتائی تو فاروقی صاحب نے برجستہ کہا، گویا اتنے پیسوں میں اس جیسی دس کاریں آ سکتی ہیں۔ میں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھا ان کی گفتگو کے مزے لے رہا تھا۔ فاروقی صاحب نے اچانک چائے کی فرمائش کر دی۔ کارپوریٹر صاحب جو اب تک فاروقی صاحب کے تقریباً مرید ہو چکے تھے، فوراً ریسٹورنٹ کے نام گنوانے شروع کر دیے۔ فاروقی صاحب نے کہا، آپ بمبئی والے چائے پینا نہیں جانتے، چائے کا کلچر آپ کے ہاں نہیں ہے۔ مجھے اس وقت اس جملے کا مطلب سمجھ میں نہ آیا لیکن آئندہ دو دنوں میں اس ایک ‘چائے’ نے میری ‘وائے’ کر دی۔

اس سے پہلے کہ کارپوریٹر صاحب کسی ریسٹورنٹ میں گاڑی روکتے، یٰسین مومن صاحب کا فون آ گیا کہ راستے میں چائے نہ پئیں، یہاں چائے آپ لوگوں کا انتظار کر رہی ہے اور دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی احسان خان صاحب فاروقی صاحب کو خوش آمدید کہنے کے لیے تشریف فرما ہیں۔

فاروقی صاحب کو بتایا تو انھوں نے کہا، ‘اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، چلیے کارپوریٹر صاحب چائے کینسل، وہیں پیتے ہیں۔

یٰسین صاحب اپنے وسیع و عریض فلیٹ کے دروازے پر فاروقی صاحب کے استقبال کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ فاروقی صاحب کے ساتھ ہم لفٹ سے باہر نکلے تو یٰسین صاحب سے قبل فاروقی صاحب خود ہی پُر تپاک انداز میں بڑھے اور یٰسین صاحب سے اس طرح مصافحہ کیا گویا ان سے کافی پرانی شناسائی ہو۔ فاروقی صاحب کا یہ حسن اخلاق ہر کسی کے ساتھ تھا، وہ اجنبیوں تک سے بھی اس گرمجوشی سے ملتے کہ اسے شبہ ہونے لگتا کہ یہ ان کی پہلی ملاقات ہے۔ کمرے کے اندر دلیپ کمار کے بھائی احسان خان نے فاروقی صاحب کو خوش آمدید کہا۔ یٰسین صاحب، فاروقی صاحب کو یاد دلانے لگے کہ ان کی ملاقات کہاں کہاں اور کب کب ہوئی، فاروقی صاحب بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ چائے آئی، فاروقی صاحب دودھ والی چائے پیتے نہیں تھے، سو انھوں نے معذرت کر لی۔ باورچی نے ان کے لیے بغیر دودھ والی چائے بنائی لیکن بڑے میاں سے پھر غلطی ہو گئی، انھوں نے چائے کو بہترین بنانے کے چکر میں اسے ‘فلیورڈ’ کر دیا، ایک بار پھر فاروقی صاحب نے ایک گھونٹ بھرنے کے بعد کپ کو سنٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔ اب یٰسین صاحب ہڑبڑائے، شاید ان کا کسی ایسے ‘ٹیڑھے’ مہمان سے پہلی بار سابقہ پڑا تھا جو شاید ان کی میزبانی کا امتحان لینے پر آمادہ تھا۔ حالاں کہ یٰسین مومن صاحب کی زندگی ادیبوں کی میزبانی میں گزر گئی تھی لیکن وہ فاروقی بھی کیا جو ہر شعبے میں آپ کے لیے چیلنج نہ بن جائے۔ فاروقی صاحب نے یٰسین صاحب کی غیرت پر دلجوئی کا پھاہا رکھا۔ انھوں نے تیسری بار کی چائے کا زہر گھونٹ گھونٹ بھرا اور ہر گھونٹ کے بعد تعریف کی۔ یٰسین صاحب کے دل کو قرار آیا تو وہ اپنا پورا گھر دکھانے لگے، ڈرائنگ روم، بیڈ روم، ملحق باتھ روم، کتابوں کی الماریاں لیکن ایک چیز نہ دکھا سکے، ائیر کنڈیشن۔ فاروقی صاحب بہت کم ائیرکنڈیشن کے بغیر آرام کر پاتے تھے، الہ آباد میں اپنے بنگلے پر جرنیٹر اسی لیے رکھا ہوا تھا تاکہ بجلی چلی جائے تو کم از کم ائیر کنڈیشن آن رہے۔ فاروقی صاحب نے بڑی انکساری کے ساتھ معذرت کر لی۔ شام کو ملاقات کا وعدہ کر کے ہم رخصت ہوئے، تھوڑی ہی دور پر وہ ہوٹل تھا جس کا ایک کمرہ ایک روز قبل ہی ہم نے فاروقی صاحب کے لیے حفظ ماتقدم کے تحت بک کرا لیا تھا۔ میرا روڈ ممبئی کا مضافاتی علاقہ ہے، اچھا خاصا بڑا ہے لیکن ظاہر ہے یہاں فائیو اسٹار ہوٹل نہیں ہے اور 2008 میں تو کم از کم فور اسٹار ہوٹل تک نہیں تھے۔ فاروقی صاحب نے ہوٹل کے کمرے کو بڑی مایوسی سے دیکھا لیکن مجھے آزردگی سے محفوظ رکھنے کے لیے انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔ چائے کے لیے پوچھا تو وہ کہنے لگے، رہنے دو میاں، مجھے نہیں لگتا کہ میری چائے یہاں مل سکے گی، بعد میں دیکھتے ہیں۔ میں نے انھیں غسل کرنے اور اپنی مرضی کا کھانا آرڈر کرنے کا کہا اور باہر نکل آیا۔ ہوٹل کے ریسیپشن کو سختی سے کچھ ہدایات دیں اور شہاب کی طرف چل پڑا۔

شہاب نے پورا ماجرا سنا، اسے بھی شرمندگی ہوئی کہ ہم فاروقی صاحب کو ان کی پسند کے مطابق چائے تک نہ پلا سکے۔ خیر، اس نے اپنی کار اور ڈرائیور میرے ساتھ کر دیے کہ جب تک فاروقی صاحب ممبئی میں رہیں گے، یہ دونوں ان کی خدمت میں رہیں گے۔

شام کو یٰسین مومن صاحب اور میں، فاروقی صاحب کو گھمانے پھرانے کے لیے ساحل سمندر (گورائی بیچ) کی طرف لے گئے۔ سمندری ہواؤں نے فاروقی صاحب کا خیر مقدم کیا، ان کے چہرے کی بشاشت لوٹ آئی۔ یٰسین صاحب نے ساحل پر ‘تاڑ گولا’ (Ice Apple) خریدا اور ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے اس کا گودا کھرچ کھرچ کر نکالتے رہے اور فاروقی صاحب کو پیش کرتے رہے۔ فاروقی صاحب نہ نہ کر کے تین قاشیں کھا گئے۔ تاڑ یعنی palm کا درخت۔ یہ ناریل کے پیڑ کی طرح سیدھا ہوتا لیکن اس میں ٹہنیاں نہیں ہوتیں بلکہ اس کے تنے سے پتے نکلتے ہیں۔ آپ کو سن کر شاید حیرت ہو کہ تاڑ کے درخت کی دو قسمیں ہوتی ہیں، مرد اور عورت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکر تاڑ کے پیڑ میں صرف پھول کھلتے ہیں اور مونث تاڑ پر ناریل کی طرح گول گول پھل آتے ہیں جنھیں ‘تاڑ گولا’ کہا جاتا ہے۔ اور اس درخت کو کاٹ کر اس میں سے جو رس کشید کیا جاتا ہے، اسے ‘تاڑی’ کہا جاتا ہے جسے لوگ اپنے اپنے ظرف کے مطابق یا تو نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا دوا کے طور پر۔

خیر ہم ساحل سمندر سے جب لوٹ رہے تھے تو مجھے لکشمن دوبے کا فون آ گیا، لکشمن دوبے میرا روڈ ہی میں رہتے ہیں، شاعر ہیں، دوہے کہتے ہیں۔ انھیں بھنک لگ گئی تھی کہ فاروقی صاحب آ چکے ہیں اور عادل منصوری جو امریکہ سے ہندوستان آئے ہوئے تھے، وہ بھی کل تشریف لانے والے ہیں۔ انھوں نے فون پر میری منت سماجت کی کہ وہ مہمانوں کی خدمت کا موقع دیں اور ان کا قیام ان کے ہاں ہو۔ لکشمن دوبے رئیس آدمی تھے، ان کا مہمان خانہ میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ جب کبھی دو چار دوہے ہو جاتے تو وہ اسے میرا روڈ کے شاعروں کو سنانے کے لیے اسی مہمان خانے میں پُر تکلف پروگرام کا اہتمام کرتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے مائیک اور اعلیٰ قسم کے اسپیکر بھی خرید رکھے تھے اور ‘بقدر دوہا’ اسے استعمال میں لاتے تھے۔ میرا روڈ کیا، شہر کے شاعر بھی ان کی ایک آواز پر جمع ہو جاتے، حالاں کہ یہ امر اب تک تحقیق طلب ہے کہ یہ کشش ان کے دوہے کی تھی یا ان کے پُرتکلف عشائیے کی جو مابعد دوہا پروسا جاتا تھا۔ خیر میں نے معذرت کی کہ بھائی فاروقی صاحب اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں، وہ کسی کے ہاں نہیں رکنا چاہتے، حتیٰ کہ یٰسین مومن کے فلیٹ میں بھی رہنے سے انھوں نے انکار کر دیا۔ لکشمن دوبے پھر بھی کہتے رہے کہ اچھا نہ رہیں، لیکن کم از کم فاروقی صاحب ایک بار میرا مہمان خانہ دیکھ کر انکار کر دیں تو مجھے کوئی ملال نہ ہو گا۔

میں نے فاروقی صاحب سے کہا تو وہ حسب توقع انکار کر گئے۔ لیکن یٰسین مومن اور میں نے ان پر زور ڈالا کہ آپ ایک بار دیکھ تو لیں۔ شاید فاروقی صاحب ہوٹل کے کمرے سے یوں بھی ناخوش تھے، اس لے ہماری بات مان گئے۔ اب ہماری کار کا رخ لکشمن دوبے کے گھر کی طرف تھا۔

لکشمن دوبے سے بھی فاروقی صاحب اسی طرح تپاک سے ملے جیسے وہ صبح یٰسین مومن سے ملے تھے۔ دوبے جی بچھے جا رہے تھے۔ دوبے جی کا مہمان خانہ گراؤنڈ فلور پر تھا۔ فاروقی صاحب کا چہرہ بتا رہا تھا کہ انھیں وہ جگہ پسند آ رہی ہے۔ اس نفیس مہمان خانے کو دیکھ کر صاحب خانہ کے اعلیٰ ذوق کا اندازہ ہوتا تھا۔ ایک وسیع و عریض ہال، امپورٹڈ سامان تعیش سے بھرا ہوا دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ دو کافی بڑے بیڈ روم، ایک نہایت ہی صاف ستھرا باورچی خانہ جس میں ہر شے جگمگا رہی تھی، اور سب سے بڑی بات یہ کہ پورا مہمان خانہ ہی ائیر کنڈیشنڈ تھا حتیٰ کہ باتھ روم بھی۔ فاروقی صاحب انکار نہ کر سکے، میں نے چین کی ایک لمبی سانس لی۔

لکشمن دوبے نے اپنی کار بھی ساتھ لے لی، ہماری کار تو ہمارے ہی ساتھ تھی۔ ہوٹل پر لعنت بھیجی، سامان سمیٹا اور لکشمن دوبے کے ہاں فاروقی صاحب شفٹ ہو گئے۔ دوسرے دن عادل منصوری آنے والے تھے۔ لکشمن دوبے نے ان دونوں کے قیام و طعام کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔

دوسرے دن عادل منصوری صاحب، ان کی اہلیہ اور ان کا بیٹا بھی تشریف لے آئے۔ عادل صاحب کی شاعری کو بھی اس وقت تک میں نے گھول کر پی رکھا تھا، سو میرے تصور میں ان کی شباہت کی تجسیم اس سے مختلف تھی جیسے وہ مجھے نظر آئے۔ نہایت ہی کم گو، نستعلیق، خوش اخلاق۔ ان کی اردو میں تھوڑی سی گجراتیت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی مثلاً وارث علوی کی گفتگو میں محسوس ہوتی تھی۔ عادل منصوری اپنی اہلیہ اور بیٹی سے گجراتی ہی میں بات کرتے تھے۔ فاروقی صاحب کو ان کا دوست مل گیا تھا، سو مجھے دوسرے کاموں کو نمٹانے کے لیے تھوڑی سی آزادی مل گئی، بطور خاص اس دن سہ پہر کے وقت میں نے یٰسین صاحب کے فلیٹ پر میرا روڈ کے تمام ادیبوں اور کچھ صحافیوں کو مہمانوں سے ملاقات کے لیے ایک غیر رسمی پروگرام رکھا تھا۔

سلام بن رزاق، شکیل رشید، فیاض رفعت، رحمان عباس، شکیل اعظمی، شمیم عباس، مشرف شمسی، سکندر مرزا، لکشمن دوبے، ساگر ترپاٹھی کے علاوہ بیسوں لوگ یٰسین مومن کے فلیٹ پر وقت سے پہلے ہی آ موجود ہوئے اور فاروقی صاحب کے انتظار میں اِدھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔ یٰسین صاحب نے اپنا پسندیدہ موضوع اردو زبان کی موجودہ زبوں حالی کا قصہ چھیڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہاں رائے اور اختلاف رائے نے محفل اچھی خاصی گرما دی۔ اسی گرمیِ بحث کے درمیان اچانک فاروقی صاحب اندر داخل ہوئے تو سب اسی طرح اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے جیسے کلاس روم میں استاد کے داخل ہوتے ہی طالب علموں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

فاروقی صاحب اور عادل صاحب دونوں لوگوں سے مصافحہ کرتے رہے، گلے لگتے رہے، پھر سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ فاروقی صاحب نے کہا، کیا بات ہو رہی تھی بھائی، باہر تک شور سنائی دے رہا تھا، ہمیں بھی بتاؤ۔ انھیں اس بحث کا مرکزی موضوع بتایا گیا تو فاروقی صاحب بول پڑے اور ایسا بولے کہ آدھا گھنٹہ گزر گیا لیکن نہ کوما نہ فل اسٹاپ، سامعین میڈم تساد کے میوزیم کے مومی مجسمے لگ رہے تھے۔ پھر فاروقی صاحب کو ہی احساس ہوا تو انھوں نے موضوع بدل دیا اور عادل منصوری کو کچھ اشعار سنانے کو کہا۔ عادل منصوری نے کہا وہ سنائیں گے لیکن پہلے وہ یہاں کے لوگوں کو سننا چاہتے ہیں۔ پھر کیا تھا، محفل میں جتنے شعرا تھے، سب کے گالوں میں سرخی دوڑ گئی۔ فیاض رفعت نے نظمیں سنائیں، شکیل اعظمی اور شمیم عباس نے ایک ایک غزل سنائی۔ کم بخت کوئی مجھ سے فرمائش ہی نہیں کر رہا تھا، سو لپک کر میں خود آگے بڑھ آیا۔ فاروقی صاحب نے آنکھیں پھاڑ کر حیرت سے میری طرف دیکھا اور ان کے منھ سے نکلا،’’تم بھی؟ …… تم سے ایسی امید نہ تھی اشعر۔‘‘

محفل میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔ میری مٹی خراب ہو چکی تھی لیکن میں نے ایک پوری غزل سنا کر ہی دم لیا۔ عادل منصوری نے اپنی بہت سی غزلیں اور نظمیں سنائیں۔ پھر فاروقی صاحب کی فرمائش پر انھوں نے اپنی پینٹنگز اور خطاطی کے البم حاضرین کے سامنے کھول دیے۔ ان حاضرین کے درمیان وہ مخبر بھی فاروقی کی عقیدت مندی کا چولا پہنے بیٹھا تھا جو آنے والے دنوں میں اسی محفل کے تعلق سے ایک ایسی شر انگیزی کا محرک بننے والا تھا جس نے پوری ادبی فضا کو مکدر کر کے رکھ دیا لیکن یہ قصہ بعد میں آئے گا۔

یٰسین صاحب اور عادل صاحب لوٹنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ساگر ترپاٹھی نے فاروقی صاحب سے چلتے چلتے رشتہ نکالنا شروع کر دیا اور ان کے پیچھے پڑے رہے جب تک یہ ثابت نہیں کر دیا کہ فاروقی رشتے میں ساگر ترپاٹھی کے منھ بولے باپ لگتے ہیں۔ ان سے تھوڑی فراغت نصیب ہوئی تو سکندر مرزا آگے بڑھے اور اپنے سسرال کی طرف سے فاروقی کا شجرہ نکال کر ان سے قربت کا کشکول بھرنے لگے۔ میں نے کسی طرح سے فاروقی اور عادل صاحب کو ان سے نجات دلائی اور لکشمن دوبے کی نگرانی میں رخصت کیا۔ رخصت ہوتے ہوئے کار کی کھڑکی سے فاروقی میرے کان میں پھسپھسائے،’’مبارک ہو، پہلا مرحلہ بخیر خوبی ختم ہوا۔‘‘

اسی شام فضیل جعفری، فاروقی سے ملاقات کے لیے لکشمن دوبے کے گھر آ گئے اور فاروقی کو اپنے ساتھ شہر گھمانے پھرانے اپنی کار میں لے گئے۔ کافی دنوں بعد انھوں نے بتایا کہ وہ فاروقی کو چائے پلانے کے لیے ایک فائیو اسٹار ہوٹل لے گئے تھے۔ 700 روپے کی چائے پی کر فاروقی صاحب کے چہرے پر تازگی آئی۔ در اصل فاروقی صاحب بغیر دودھ والی چائے اور ایک خاص چائے کی پتی (جس کا نام انھوں نے بتایا تھا کہ وہ یہ پتی اپنے ہر سفر میں اپنی دیگر دواؤں کے پٹارے کے اندر رکھ کر چلتے ہیں، اتفاق سے اس بار وہ اسے رکھنا بھول گئے تھے) کے ساتھ ہی نوش کرتے ہیں۔ اس کی تصدیق اس وقت ہو گئی جب میں تین بار الہ آباد ان کے گھر پر رکا تھا اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ وہ ایک چائے کے لیے کیا کیا اہتمام کرتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ 28 جون 2008 کو تھا اور یہ میرا بلڈ پریشر بڑھانے کے لیے کافی سے زیادہ تھا۔ دوپہر کو کھانا شہاب نے اپنے گھر پر رکھا تھا۔ میرا گھر اس لائق نہ تھا کہ میں ان معزز مہمانوں کو دعوت دے سکوں، سو میری طرف سے شہاب نے ظہرانے کا اہتمام اپنے گھر پر رکھا تھا۔ فاروقی صاحب سے اس دن میری صرف ایک ہی مختصر سی ملاقات تھی، باقی وقت پروگرام کے انتظامات کی نذر ہو گیا۔ میری حالت کا اندازہ خود مجھے اس وقت ہوا جب فاروقی صاحب نے پے در پے اصرار اور شہاب سے بار بار فون کر کے مجھے طلب کیا۔ انھوں نے مجھے دیکھا اور کہا، یہ کیا حالت بنا رکھی ہے میاں؟ میرا پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے، چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔ فاروقی صاحب نے مجھے ڈانٹ لگائی کہ اتنا تناؤ کیوں ہے تمھارے چہرے پر؟ کیا تمھاری بیٹی کی رخصتی ہے؟ ہوش میں آؤ، نہاؤ دھوؤ، شیو کرو لیکن ان سب سے پہلے ابھی میرے پاس بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔ میں نے بہانہ بنانا چاہا تو ڈانٹ کی لَے اور تیز ہو گئی۔ شہاب اور عادل منصوری بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے، میں نے عادل منصوری کے بغل والی کرسی کھینچی۔ فاروقی صاحب نے حکماً کہا، یہاں اِدھر، میرے پاس بیٹھو۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور زہر ماری کرنے لگا۔ حلق سے نوالہ نیچے اتر ہی نہیں رہا تھا۔ سب کھانا ختم کر کے اپنے ہاتھ بھی دھو چکے تھے، فاروقی صاحب میرے بغل میں بیٹھ کر مجھے سالن پروستے رہے اور زبردستی کر کر کے کھلاتے رہے، اس وقت تک انھوں نے اپنی کرسی نہیں چھوڑی جب تک میرا کھانا ختم نہ ہو گیا۔

شہاب کے گھر سے رخصت ہوتے ہوئے فاروقی نے شہاب کے بچوں اور بطور خاص ان کی بیوی نگار کے سر پر ہاتھ رکھا اور ہزار روپیہ تھمایا۔ نگار کو کچھ تامل ہوا تو انھوں نے ڈانٹ دیا کہ تم میری بہو ہو، چپ چاپ سے رکھ لو۔ شہاب خود الہٰ آباد کے ہیں، شاید اسی نسبت سے انھوں نے نگار کو بہو کہا چونکہ وہ بنارس کی ہیں۔

پروگرام کا وقت چھ بجے کا تھا لیکن لوگ پانچ بجے سے ہی میرا روڈ کے سب سے پُر وقار ہال اسمیتا کلب میں آنا شروع ہو گئے تھے۔ میں اور شہاب مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ میں نے یہاں آنے سے پہلے اپنے لیے ذرا سا وقت نکال لیا تھا اور نہا دھو کر کپڑے بدل لیے تھے، البتہ شیو کرنے میں وقت ضائع نہ کیا۔ عبدالاحد ساز صاحب (مرحوم) سے بہتر نظامت اس پروگرام کی کوئی اور نہ کر سکتا تھا، سو میں نے انھیں دو روز پہلے ہی سے بول رکھا تھا۔ کمال جائسی (مرحوم) جو ‘بزم ہم لوگ’ کے صدر تھے وہ بھی تشریف لا چکے تھے، اسی بزم کے بینر تلے اس پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ میں نے ہال میں ایک طائرانہ نظر ڈالی تو محسوس ہوا کہ ممبئی کا شاید ہی کوئی بڑا یا اہم ادیب ہو جو اس وقت یہاں موجود نہ ہو۔ ادیبوں کے علاوہ دانشوروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مجھے یہ سب خواب سا محسوس ہو رہا تھا جو اس وقت ٹوٹا جب اچانک ائیر کنڈیشنڈ ہال کا دروازہ ایک جھٹکے کے ساتھ کھلا اور شمس الرحمٰن فاروقی اندر داخل ہوئے، اس کے ساتھ ہی دو رویہ قطار میں بیٹھ سارے حاضرین رو بوٹ کی طرح اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور تالیوں کے شور میں ان کا استقبال کیا۔ فاروقی صاحب مسکراتے ہوئے پہلی صف میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ پیچھے پیچھے عادل منصوری اور فضیل جعفری بھی ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ اس پورے پروگرام کی روداد ‘اثبات’ کے نقش ثانی میں چھپ چکی ہے، چنانچہ اسے یہاں دہرانا غیر ضروری ہے۔ میں صرف کچھ اہم جھلکیاں پیش کر دیتا ہوں۔

اردو کے معروف اور بزرگ افسانہ نگار سلام بن رزاق صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں تبصرہ کرتے ہوئے ستائشی جملے کہے اور مدیر کی حوصلہ افزائی بھی کی لیکن اداریہ پر گرفت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس میں معاصرین پر کچھ چھینٹے بھی ہیں جس سے ‘اثبات’ کا ایک منفی پہلو نکلتا ہے (یہ اداریہ نقش اول کا تھا جو میری سائٹ پر موجود ہے)۔ فضیل جعفری نے اپنے مخصوص انداز میں اپنی بات شروع کی کہ اثبات ابھی مال گاڑی ہے کل پسینجر اور پھر ایکسپریس میں خدا کرے تبدیل ہو جائے۔ دوران تقریر فضیل جعفری صاحب نے سلام بن رزاق کی زبان دانی پر وار کرتے ہوئے کہا، جب بر صغیر کا اتنا بڑا افسانہ نگار ‘مدعا’ کو ‘مدا’ بول رہا ہو تو اردو کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ اس قہقہے میں اگرچہ سلام بن رزاق کا قہقہہ بھی شامل تھا لیکن بعد کے دنوں میں ان کے کئی رد عمل نے جتا دیا کہ اس دن کا لگا ہوا زخم وہ بہت دنوں تک چاٹتے رہے۔

اب فاروقی صاحب نے مائک سنبھالا، بہت کچھ کہا، مثلاً یہ کہ کسی بھی معیاری رسالے کے وقار کے لیے ضروری ہے کہ مدیر اپنے نفس کو موٹا نہ ہونے دے اور دوسری شرط یہ ہے کہ مدیر میں غیر معیاری تحریروں کے لیے انکار کی ہمت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے فضیل جعفری صاحب کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا، کہ ‘اثبات’ مال گاڑی تو ہے مگر خالی نہیں ہے، مال سے بھری ہوئی ہے۔ اس پر تالیوں کا ایک شور اٹھا۔ پھر انھوں نے سلام بن رزاق کی خبر لیتے ہوئے کہا کہ اداریہ پر معاصرین پر چھینٹے نہیں ہیں بلکہ معاصر حقائق کی نشان دہی کی گئی ہے، پھر بھی اگر سلام کو ایسا لگتا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ’چور کی داڑھی میں تنکا‘ ہے۔ تالیوں کے شور نے ایک بار پھر فاروقی کی تائید کی۔

مسند صدارت پر براجمان عادل منصوری کی طبیعت تھوڑی بگڑی ہوئی تھی چونکہ انھوں نے دوران نشست ایک بار شہاب سے ایک کولڈ ڈرنک کی درخواست کی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ low blood pressure کے مریض تھے۔ خیر انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں اتنا بھر کہا کہ اثبات میں جو کچھ شائع ہو، اس سے اس کے پڑھنے والے کو ایک تجربہ بھی حاصل ہو، کیوں کہ تجربہ ضروری ہے۔ تجربے سے زبان و ادب کو زندگی ملتی ہے، تجربے سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

افسوس، تجربے سے نہ ڈرنے والا یہ انسان اس تقریب سے امریکہ لوٹتے ہی ایک اور تجربہ کر بیٹھا؛ ‘موت کا تجربہ’۔ اور وہ گدھ جو اس تقریب کے دوران آسمان پر چکر کاٹ رہے تھے، اس مخلص اور منفرد شخص و شاعر کی بوٹیاں نوچنے کے لیے ‘اثبات’ اور فاروقی پر جھپٹ پڑے۔

سہ ماہی ‘اثبات’ کا اجرا اور فاروقی کے ہاتھوں اس کا اجرا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ فاروقی نے کئی کتابوں کا اجرا کیا تھا، ‘اثبات’ جیسے ادبی رسالوں کا نکلنا بھی کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن جب آپ اس پس منظر کو غور سے دیکھیں گے، جس کا کچھ اشارہ میں گزشتہ قسطوں میں دے چکا ہوں، تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو محسوس ہو گا کہ اس اجرا نے حریفوں اور حاسدوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔

میں کہہ چکا ہوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے ملک میں ادبی فضا مکدر ہو چکی تھی۔ شب خون بند ہو چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی فاروقی کے موقع پرست مداحوں نے رکوع کی حالت میں ہی اپنی سجدہ گاہیں بدل لی تھیں۔ قبلہ الہ آباد سے نئی دہلی منتقل ہو چکا تھا۔ لوگوں سے بیعتیں کرائی جا رہی تھیں اور اس کے عوض سرکاری خزانے کا منھ ان پر کھول دیا گیا تھا۔ کسی کو ایوارڈ سے نوازا جا رہا تھا تو کسی کو اردو کا نمائندہ بنا کر امریکہ اور چین کی سیاحی کے لیے بھیجا جا رہا تھا، کسی کو سرکاری سیمیناروں میں بلا کر ان کی جیبیں گرم کی جا رہی تھیں تو کسی پر سرکاری مشاعروں کا جال پھینکا جا رہا تھا۔ کسی کو ہندوستان کے مختلف صوبوں کی اردو کی اکیڈمیوں کا سکریٹری بنایا جا رہا تھا تو کسی کو ان اکیڈمیوں کے انعامات سے نوازا جا رہا تھا، کسی کو سرکاری پرچوں کی ایڈیٹری سونپی جا رہی تھی تو کسی کے ادبی رسالے کی سینکڑوں کاپیاں سرکاری پیسوں سے خریدی جا رہی تھیں۔ مثلاً بھدوئی (بنارس کا مضافاتی علاقہ) سے ‘سبق اردو’ فاروقی کی سرپرستی میں نکلتا تھا، اس وقت اس کے مدیر دانش الہ آبادی صاحب کی زبان خود کو فاروقی کا ‘امتی ‘ کہتے نہیں تھکتی تھی۔ ان کے پرچے کا لے آؤٹ اور فانٹ سائز تک ‘شب خون’ کی طرز پر رکھ کر فاروقی صاحب سے اپنی قربت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔ میں ایک بار الہ آباد گیا تو فاروقی صاحب کے اصرار پر ان کے مہمان خانے میں ہی قیام کیا، وہاں مجھ سے ملاقات کے لیے فاروقی صاحب نے الہ آباد کے کچھ ادیبوں کو مدعو کر لیا۔ ان گنہگار آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا تھا جب دانش الہ آبادی نے فاروقی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ان کی کس طرح قدم بوسی کی تھی، اس وقت بھی مجھے یہ سب کچھ عجیب سا لگا تھا، میں نے بعد میں فاروقی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ادب میں بھی پیری مریدی کا دھندا شروع کر دیا ہے؟ وہ ہنس پڑے، کہا،’’ارے میاں، جو کچھ نہیں کر پاتا، وہ یہی کرتا ہے اور مجھے متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ میں گدھوں کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میں ان چیزوں سے خوش نہیں ہوں گا، مجھے خوش کرنا ہے تو پڑھو۔‘‘ لیکن دانش الہ آبادی نے پڑھنے کی بجائے اپنا قبلہ بدل لیا اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ہاتھ پاؤں چومنے شروع کر دیے، کچھ دنوں بعد نارنگ صاحب بھی اپنی ایک تحریر/انٹرویو میں اس کارنامے پر فخر کرتے نظر آئے کہ کس طرح فاروقی کا رسالہ (سبق اردو) اب ان کی ماتحتی اختیار کر چکا ہے۔ اب ‘سبق اردو’ کے ہر شمارے میں فاروقی صاحب کی جگہ نارنگ صاحب اور ان کے خایہ برداروں کی تحریریں نظر آنے لگیں۔ بنارس سے الہ آباد گولے داغے جانے لگے۔ اگرچہ اب بھی فاروقی کی سرپرستی میں ہندوستان سے کچھ رسالے نکل رہے تھے لیکن ان میں سے بیشتر کی ریڑھ غائب تھی، سو وہ اس ہنگامہ بدتمیزی کا جواب کیا دیتے، اپنا دفاع بھی نہ کر پاتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ادبی معاشرے میں ببانگ دہل فاشزم اور انارکزم کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی۔ جب جی چاہا، کسی بزرگ ادیب کی پگڑی اچھال دی، کسی کا تمسخر اڑا دیا، فاروقی صاحب کی بہو اور بیٹیوں پر ہجو لکھ کر تقسیم کر دیا، فضیل جعفری صاحب کو حجام کے خاندان کا فرد بتایا تو کسی پر مسلم فرقہ پرستی کا طوق جڑ کر اسے طالبانی کہہ دیا۔ گویا ایک طوفان بد تمیزی برپا تھا جس سے بیزار ہو کر شرفا نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور یوں ہم اچھا لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ فضیل جعفری صاحب نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ علی احمد فاطمی کا اس زمانے میں قول تھا کہ ساجد رشید کے نام سے فاروقی صاحب کا پیشاب خطا ہو جاتا ہے۔ (دروغ بر گردن راوی) مجھے نہیں پتہ کہ اس میں کتنی سچائی ہے لیکن اتنا تو ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان دنوں فاروقی صاحب کا ممبئی آنا جانا کافی کم بلکہ بند ہو چکا تھا، ظاہر ہے وہ پڑھے لکھے آدمی تھے، علمی و ادبی مکالمہ کر سکتے تھے، شہدوں سے پنجہ آزمائی کرنے کا ان میں حوصلہ نہ تھا۔ اب شاید آپ کچھ کچھ سمجھ گئے ہوں گے کہ کن سنگین حالات میں اثبات کا اجرا اور وہ بھی فاروقی کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا۔

رسالہ نکالتے ہوئے میرے پاس دو Options تھے۔ (۱) رسالے کا استعمال اپنے ذاتی مفادات کے لیے کروں (۲) یا واقعی ایسا رسالہ نکالوں جو میرے خوابوں کی تعبیر ہو۔ اگر میں نے پہلے Option کا انتخاب کیا ہوتا تو ظاہر ہے اس کے لیے فاروقی ناموزوں شخص تھے کیوں کہ وہ اس وقت تک تمام سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہو چکے تھے، حتیٰ کہ’شب خون’ بھی بند ہو چکا تھا۔ لہٰذا وہ میرے لیے ‘جرسی گائے’ تو ثابت نہیں ہو سکتے تھے بلکہ اس کے برخلاف نارنگ اس ’ٹارگیٹ‘ کو پورا کرنے کے لیے نہایت ہی مناسب شخص تھے۔ اس حقیقت کے ادراک کے باوجود اگر میں نے دوسرے Option کو ترجیح دی تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ میری نظر دولت دنیا پر نہیں بلکہ دولت عظمیٰ پر تھی یعنی فاروقی کے غیر معمولی علم اور ان کی حیثیت عرفی پر تھی۔ دولت دنیا تو منڈیر کا کوّا ہے، آج آپ کے منڈیر پر کاؤں کاؤں کر رہا ہے تو کل کسی اور کی چھت پر بیٹھا شور مچا رہا ہو گا۔ اس بے نیازی کا سبب شاید یہ بھی ہو کہ بحمد للہ میں شکم سیر بھی ہوں اور قناعت کے خزانہ عامرہ کا وارث بھی۔ چنانچہ اس بار میں نے عقل کے بجائے دل کا فیصلہ سنا اور علم و دانش کے اس بحر ذخار کو ترجیح دی جسے دنیا شمس الرحمن فاروقی کے نام سے جانتی ہے۔

اس فیصلے کے نتیجے میں مجھ پر جس قسم کے الزامات کی بارش ہوئی، وہ سب جانتے ہیں اور میں اس پر اثبات کے شمارہ 8 کے اداریے میں مفصل لکھ چکا ہوں جو میری سائٹ پر اب بھی موجود ہے، لوگ پڑھ سکتے ہیں۔ ’اثبات‘ کی پیشانی پر ‘بیاد جمیلہ فاروقی’ درج تھا، جسے لے کر یاروں نے اندازے لگانے شروع کر دیے۔ عام قارئین کو جانے دیجیے، وارث علوی جیسے شخص نے بھی پہلے شمارے کی اشاعت کے بعد یہی رائے قائم کی تھی۔ انھوں نے فون پر مجھ سے گفتگو کرتے وقت یہی کہا تھا کہ رسالے کے مشمولات خوب ہیں لیکن جمیلہ فاروقی کے نام سے جاری کر کے میں نے رسالے کا جھکاؤ فاروقی کی جانب کر دیا ہے۔ گویا ایک رسالے کی خوبی کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ اس کے مشمولات خوب ہوں بلکہ اس کی پیشانی پر کس کا نام درج ہے، اس سے اس کے معیار کا اندازہ لگایا جائے گا؟ ندا فاضلی بھی ایک تقریب میں قاضی شہاب عالم سے یہی فرما رہے تھے کہ رسالہ ایک جانب جھکا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی ندا فاضلی تھے جنھوں نے پہلے شمارے کے لیے اثبات کو تخلیقات کی بجائے ایک ‘پُر اسرار’ مسکراہٹ دی تھی، حالاں کہ بعد کے شماروں میں وہ خوب چھپے۔ مجھ پر یہ بھی الزام عائد ہوا کہ ‘اثبات’ کی تخلیقات کا انتخاب فاروقی صاحب کرتے ہیں۔ میں اس پر اپنی زبان سے کچھ نہ کہوں گا، آپ خود فاروقی کی زبانی سنیے۔ مجھے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’…ابھی دہلی میں محبوب میاں (محبوب الرحمٰن فاروقی) پھر وہی شکایت کر رہے تھے کہ انھوں نے زر تعاون بھیجا، مجھ سے کہلوایا لیکن پرچہ انھیں پھر بھی نہ ملا۔ لہٰذا جب تم مجھے پیکٹ بھیجو گے تو میں انھیں فوراً شمارہ بھیج دوں گا۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ابھی ایک ترجمہ ان کا منتظر اشاعت ہے۔ میں نے ان سے بتا دیا کہ تخلیقات کے انتخاب میں میرا کچھ دخل نہیں لیکن میں اشعر نجمی کو یاد دلا دوں گا۔ ……

راشد طراز اچھے شاعر ہیں لیکن اب بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میں نے ان کے تازہ مجموعے پر لکھا ہے لیکن ان سے صاف کہہ بھی دیا ہے کہ یہ مجموعہ پچھلے سے کمزور ہے۔ یہی میں نے امین اشرف سے بھی زور دے کر کہہ دی ہے۔ راشد طراز اپنا مضمون جہاں چاہیں بھیجیں۔ میں نے انھیں کوئی مشورہ نہیں دیا ہے۔ اگر تمھارے یہاں آئے تو تم اپنی صوابدید سے کام کرنا، میرے نام پر نہ جانا۔‘‘

(6 مئی 2011)

کیا آپ اب بھی کہیں گے کہ فاروقی صاحب مجھے ‘ڈکٹیٹ ‘ کراتے تھے۔ ارے صاحب، ڈکٹیشن تو چھوڑیے، اسی اثبات کے شمارہ نمبر 8 میں ان کی ایک کتاب ‘معرفت شعر نو’ جو 2010 میں ریلیز ہوئی تھی، پر اسی زمانے میں میرا جو تبصرہ چھپا تھا، وہ پہلے ملاحظہ کر لیں:

’’جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ فاروقی منطقی طرز استدلال سے کام لیتے ہیں جو ان کی تنقید کو وقار اور اعتبار بخشتا ہے لیکن کبھی کبھی یہی ان کی کمزوری بھی بن کر سامنے آتا ہے۔ کیوں کہ منطقی طرز استدلال کی سب سے بڑی کمزوری تو یہی ہے کہ وہ کلی طور پر مفروضوں سے اپنا دامن نہیں بچا سکتا بلکہ اصولی طور پر اس کی بنیاد مفروضے ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس طرز استدلال میں جو سب سے بڑی کمی ہوتی ہے، وہ یہ کہ طے شدہ نتائج تک پہنچنے کے لیے کچھ ایسے مفروضے قائم کر لیے جاتے ہیں جو منزل تک اس کی رہنمائی کر سکیں، یعنی یہاں معاملہ ’دریافت‘ کا نہیں بلکہ اپنے دعوے کے ’اثبات‘ کا رہ جاتا ہے۔ مثلاً فاروقی، فراق صاحب کی سب سے بڑی خامی یہ بتاتے ہیں کہ وہ اردو شاعری کی روایت سے بے خبر ہیں اور یہ کہ وہ الفاظ کے مرتبے سے واقف نہیں ہیں لیکن ظفر اقبال کے دفاع میں وہ اقبال کو سپر بنا لیتے ہیں،’’بیسویں صدی کے آغاز تک نوبت بہ ایں جا رسید کہ جدید عہد کے سب سے بڑے شاعر اقبال کی زبان پر اعتراضات ہونے لگے۔ فلاں ترکیب غلط ہے، فلاں استعمال خلاف محاورہ ہے، فلاں فقرہ غیر فصیح ہے، وغیرہ۔‘‘ مجھ جیسے فاروقی کے مداحوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ جس معاملے میں انھوں نے فراق کی گرفت کی، اسی معاملے میں ظفر اقبال کو رعایت کیوں دے دی؟ ایک دوسری مثال بھی دیکھیے،’’فیض اور کلاسیکی غزل‘‘ میں فاروقی لکھتے ہیں کہ ’’ظاہر ہے کہ شعر کے وہ معنی جو شاعر کے عقائد کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر بر آمد ہی نہ ہو سکیں، بالآخر باطل ہی ٹھہریں گے۔ کیوں کہ اول تو تمام شاعروں کے سیاسی عقائد کے بارے میں معلومات نہیں، بلکہ بعض اوقات تو شاعر کا نام بھی معلوم نہیں۔‘‘ لیکن فاروقی کو زیب غوری کا نام بھی معلوم تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اس شاعر کو مصوری سے غیر معمولی شغف ہے، لہٰذا انھوں نے اس کی غزل کا تجزیہ کرتے ہوئے مصوری اور پکاسو کا ذکر خاص طور پر کیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ پھر فیض کی نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے سیاسی عقائد کو ذہن میں کیوں نہ رکھا جائے؟ میرے خیال میں ایسا تنقیدی رویہ افہام و تفہیم کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے اور کبھی کبھی یہ ادعائیت کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے۔‘‘

۔۔۔

کیا نارنگ صاحب کا کوئی حواری نارنگ صاحب کی کتاب پر ایسا تبصرہ کرنے کی جرات بھی کر سکتا ہے؟ اور کیا خود نارنگ صاحب اپنی کسی کتاب پر اپنے کسی حواری کا ایسا تبصرہ برداشت کر سکتے ہیں۔ انجام معلوم۔ فاروقی صاحب نے ہمیشہ اختلاف رائے کو اہمیت دی اور مجھے تربیت دی کہ ایک خوشامدی سے زیادہ بہتر اور سچا دوست ایک دیانت دار قاری ہوتا ہے۔ لہٰذا جب اثبات کے صفحات پر معید رشیدی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں فاروقی صاحب کے تنقیدی نظریات کے تعلق سے مضمون نگار نے کچھ اختلاف رائے کیا تو جمیل الرحمٰن صاحب نے مدح فاروقی میں ایک سخت خط معید رشیدی کے خلاف اثبات میں لکھ ڈالا، میں نے اسے آئندہ شمارے میں چھاپ دیا لیکن فاروقی صاحب مجھ پر خفا ہوئے کہ مجھے جمیل کا خط نہ چھاپنا تھا، اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے معید رشیدی کو ایک ایمیل کر کے اس اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ معید رشیدی آج بھی موجود ہیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیکچرار ہیں، ان سے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

خیر، ان کے علاوہ بھی کافی قصے ہیں جن میں سے کچھ تو نہایت ہی عبرت انگیز ہیں لیکن یہاں چند مثالوں اور واقعات کے ذریعہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ‘اثبات’ کا اجرا صرف ایک ادبی رسالے کا اجرا نہیں تھا بلکہ اس کا اجرا اس وقت کے ‘فرمانروائے ادب’ اور ان کے خایہ برداروں کے لیے دہن تیغ ثابت ہوا۔ لہٰذا انھوں نے اپنے جاں نثاروں کو رزم گاہ میں اتار دیا۔ لیکن ان سورماؤں کی لیاقت کا یہ حال تھا کہ اپنی ہی شمشیر سے یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کر لیا۔ شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے بزرگوں نے کہا ہے کہ ’جو گدھے جیتیں سنگرام، تو کا ہے تازی خرچیں دام‘۔

۔۔۔

اس سنگرام میں ایک نوجوان ناول نگار بھی شامل تھے /ہیں، جنھوں نے اردو کا قاعدہ پڑھنے سے قبل ناول لکھنا شروع کر دیا۔ شروع شروع میں ان کی چرب زبانی سے مجھ جیسا سادہ لوح شخص کافی متاثر ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے انھیں ایک انگریزی مضمون "Boy Love in Urdu Ghazal” ترجمے کے لیے پیش کر دیا۔ اب جو انھوں نے اس مضمون کا اردو ترجمہ کیا، وہ دیدنی تھا۔ مکمل مضمون جانے دیجیے، صرف عنوان کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:’’اردو غزل میں امرود پرستی‘‘۔ جی نہیں، یہاں کمپوزنگ یا پروف ریڈنگ کی غلطی نہیں ہے بلکہ میں نے وہی لکھا ہے جو فاضل مترجم کے دست خطی کا نتیجہ تھا۔ میں نے بھی اس وقت یہی سمجھا تھا کہ شاید ان سے املا کی غلطی سرزد ہو گئی ہو لیکن صاحب، اس ایک مضمون میں اتنے ‘امرود’ نظر آئے جتنے میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھے تھے اور بلاشبہ یہ امرود کم از کم الہٰ آباد کے تو نہ تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ غلطی صرف املا کی نہیں تھی بلکہ موصوف ‘امرد’ اور ‘امرود’ کے درمیان کا فرق تک نہیں جانتے تھے۔ موصوف کے یہ امرود اب تک میرے ‘فریزر’ میں محفوظ ہیں جنھیں بوقت ضرورت ‘پھل منڈی’ میں بھی سجایا جا سکتا ہے۔ اس امرود پرست نوجوان نے، جب تک ‘شب خون’ نکلتا رہا، فاروقی سے اصلاح لینے کی کوشش کی لیکن فاروقی بھی انسان ہیں، کسی کندہ نا تراش کو آخر کیوں کر کوئی صورت دے پاتے۔ فاروقی کے اس ‘شاگرد رشید’ نے ایک رسالے کے ‘فاروقی نمبر’ کے لیے مبتدیانہ مضمون بھی قلم بند کیا تھا جس میں فاروقی کی افسانہ نگاری پر غیر ضروری مبالغہ آرائی کی گئی تھی لیکن جب ‘شب خون’ بند ہوا تو کچھ دنوں بعد اس اَن گڑھ نے اعلان کر دیا کہ ’’ایک نقاد کی آمریت کا خاتمہ‘‘ ہو چکا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ فاروقی کو فکشن کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ لیجیے صاحب، اب آپ اس قلا بازی پر لاکھ اپنا سر پٹخیے، لیکن مداری تو یہی کہے گا کہ ‘قاضی جی بہتیرا ہرائیں، میں ہارتا ہی نہیں’۔ خیر اس موقع اور زمانہ شناس جرمن نژاد اردو کے نان رائٹر کے فیصلے نے رنگ دکھایا اور فاروقی سے برات کے اعلان کے ساتھ ہی ان کی گود ہری ہو گئی اور گود بھرائی کی رسم میں انھیں ‘ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ’ دے دیا گیا۔ ابھی کل ہی فیس بک پر میری نظر ان کے ایک اشتہار پر پڑی کہ ریختہ پر گزشتہ سال جو کتاب سب سے زیادہ پڑھی گئی وہ یا تو فاروقی صاحب کی تھی یا پھر ان کی۔ درست ہے کہ اس دنیا میں دو ہی سب سے زیادہ معروف ہستیاں ہیں، اول خدا اور دوم شیطان۔

فاروقی صاحب کے مخالفین کی دو قسمیں تھیں۔ اول، جو ‘شب خون’ میں نہ چھپ پانے کا غصہ ان پر اُتار رہے تھے اور دوم، وہ جنھیں فاروقی صاحب کی قربت کے باوجود کوئی مادی منفعت حاصل نہ ہو سکی۔ نصرت ظہیر کا درج ذیل تحریری بیان (جو انھوں نے میرے خلاف اپنے پرچے ‘ادب ساز’، شمارہ 12-13-14 میں چھاپا تھا) میرے اس دعوے کی تصدیق کر دے گا، ملاحظہ فرمائیں:

’’سب جانتے ہیں اور اشعر نجمی کو بھی معلوم ہو گا کہ فاروقی کے تھنوں میں کتنا دودھ ہے۔ اور یہ کہ دودھ ہو بھی تو فاروقی ایسے کشادہ دل نہیں کہ کسی کو اس کا ایک قطرہ بھی بخش دیں۔ ان کے بارے میں ادبی حلقوں میں یہ مثل عام ہے کہ دو سو اسرائیلی یہودی مرتے ہیں تب ایک شمس الرحمٰن فاروقی پیدا ہوتا ہے۔ حسن سلوک کے معاملے میں دنیا جانتی ہے اور دشمن بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ گوپی چند نارنگ جیسے ’ہندو‘ کی بدولت ہندوستان میں ایک دو درجن نہیں اردو کے سیکڑوں مسلم چراغ جل رہے ہیں۔ خود فاروقی کو بھی نہ جانے کتنی مرتبہ انھوں نے نوازا ہو گا۔‘‘

گویا نصرت ظہیر خود اپنی زبان سے اعتراف کر رہے تھے کہ جب وہ فاروقی کی تھنوں سے دودھ دوہنے میں ناکام رہے تو نارنگ کے تھنوں کو چوسنا شروع کر دیا، انھوں نے خود اس کا اعتراف کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

’’گوپی چند نارنگ جیسے ‘ہندو’ کی بدولت ہندوستان میں ایک دو نہیں اردو کے سینکڑوں چراغ جل رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً)

نصرت ظہیر نے یہاں ‘ہندو مسلم کارڈ’ کھیلا جو اس سے پہلے گیان چند جین والے قضیے پر ساجد رشید کھیل چکے تھے۔ ‘شب خون خبر نامہ’ میں جب فاروقی پر پرتپال سنگھ بیتاب نے یہ الزام لگایا تھا تو اس کا جواب عالمی شہرت یافتہ مورخ ہربنس مکھیا نے دو تین قسطوں میں دیا تھا اور بتایا تھا کہ فاروقی صاحب نے شب خون کے ذریعہ جتنے لائق غیر مسلم ادیبوں کی پشت پناہی کی، انھیں سجایا سنوارا، انھیں اردو حلقے میں متعارف کرایا، شاید ہی کسی دوسرے مدیر یا نقاد نے کرایا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی ادیبوں کے حلقے میں بھی یکساں طور پر مقبول تھے۔

لیکن یہاں غور طلب بات جس کے لیے میں نے اوپر نصرت ظہیر کو مقتبس کیا تھا، وہ یہی تھی کہ فاروقی سے بد ظنی کا ایک بڑا سبب ان حضرات کے ناجائز توقعات تھے، ان کے لیے فاروقی میں کشش کا سبب ان کا علم نہ تھا بلکہ وہ ان سے مادی منفعت چاہتے تھے، انھیں جرسی گائے کی طرح دوہنا چاہتے تھے اور جب اس میں انھیں ناکامی ہوئی تو انھوں نے اس شخص کو ڈھونڈ نکالا جو فاروقی سے علمی مرتبے میں کم لیکن جس کی تھنیں دودھ سے لبا لب تھیں۔ لیکن پھر وہ دن بھی آیا جب اثبات کی تیغ میان سے نکلی اور اس نے سارے بردہ فروشوں کو انھی کی زبان میں جواب دینا شروع کر دیا اور کشتے کے پشتے لگا دیے۔ ابھی کئی اور ‘چوتیان ہند’ کا تذکرہ باقی ہے۔

اختلاف رائے کو میں نعمت تصور کرتا ہوں لیکن ہمارے یہاں ‘مخالفت’ اور ‘اختلاف رائے’ دونوں کو ایک ہی شے تصور کر لیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی تعریفیں مصلحتوں اور مفادات کے پیش نظر گاہے گاہے بدلتی بھی رہتی ہیں۔ کبھی اختلاف رائے کے نام پر کردار کشی کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی اس کے برخلاف جب خود پر ضرب پڑتی ہے تو فوراً چولا بدل کر اسے شخصی اختلاف کے نام سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ اپنے نجی تعصبات کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی یاروں نے اس اصطلاح کا خوب خوب استعمال کیا ہے اور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مجھ پر بھی ایسے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں لیکن میں نے پہلے بھی دعویٰ کیا تھا، پھر کرتا ہوں کہ اگر ‘اثبات’ میں شائع میری کسی بھی تحریر سے کوئی یہ ثابت کر دے کہ میرا اختلاف ذاتی تعصبات پر مبنی تھا تو میں اسی وقت اپنے منصب سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دوں گا۔

‘اثبات’ کے نقش ثالث کا اداریہ ممبئی سے ہی شائع ہونے والے سہ ماہی ‘نیا ورق’ کے شمارہ نمبر 30 کے اداریے پر مبنی تھا جس میں رسالہ مذکور کے مدیر (ساجد رشید) نے عادل منصوری (مرحوم) کی ‘ولی گجراتی ایوارڈ’ قبول کرنے پر مذمت کی تھی۔ فاضل مدیر نے نہ صرف عادل منصوری بلکہ اسی بہانے شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی سمیت اشاروں کنایوں میں راقم الحروف کو بھی ہدف ملامت بنایا تھا کیوں کہ ‘اثبات’ کی رسم اجرا کی تقریب کی صدارت عادل منصوری نے فرمائی تھی جب کہ شمس الرحمٰن فاروقی اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ میں نے اپنے اداریے (‘اثبات ‘ کا نقش ثالث میری سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے) میں ان تمام مفروضوں کی بیخ کنی دلائل اور حقائق کی روشنی میں کر دی تھی جو رسالہ مذکور کے مدیر نے اپنے ذاتی تعصبات اور ترددات کی سیاہی سے سیاہ کیے تھے۔ میں اس قضیے کو یہاں دہرانا نہیں چاہتا لیکن ایک سوال تو بہرحال اب بھی قائم ہے کہ کیا میرا وہ اقدام غلط تھا؟ اور اگر غلط تھا تو پھر مجھے کوئی بتائے کہ کیا اختلاف رائے کا عمل یک ضربی ہوتا ہے؟

‘اثبات’ کے نقش ثالث میں ہی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی بدنام زمانہ کتاب ‘ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات’ پر ایک گوشہ بھی شامل تھا جس میں فضیل جعفری کے ایک پرانے لیکن اہم مضمون کے علاوہ حیدر قریشی اور عمران شاہد بھنڈر کے مضامین بھی شامل کیے گئے تھے۔ اسی گوشے میں شمیم طارق کا وہ طویل خط بھی شامل تھا جسے مذکورہ گوشے کا محرک بھی کہا جا سکتا ہے اور جس میں انھوں نے نارنگ کے سرقے کے دفاع میں اپنا نقطہ نو گریز پیش کیا تھا۔ اب یہ شاید دہرانے کی ضرورت نہیں رہی کہ عمران شاہد بھنڈر نے ٹھوس حوالوں کی بنیاد پر نارنگ کے سرقے کو ثابت کر دیا تھا۔ ان کے یہ مضامین بعد میں کتابی شکل (‘فلسفہ ما بعد جدیدیت: تنقیدی مطالعہ’) میں یکجا ہو کر ہند و پاک میں کئی بار شائع ہو چکے۔ بلا شبہ ادبی سرقہ کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پرانا فعل شنیع، امتداد زمانہ کے ساتھ جائز یا مباح ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کالی داس، شیکسپیئر، غالب، اقبال وغیرہ جیسے لوگوں کا حوالہ دینے کے باوجود نارنگ یہ ثابت نہ کر پائے کہ انھوں نے سرقہ نہیں کیا ہے۔

بہرحال، میں اس قضیے کو بھی دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتا لیکن یہاں بھی وہی سوال راستہ روکے کھڑا ہے کہ کیا میں نے غلط کیا؟ اس سوال کا جواب تو خود نارنگ صاحب اپنے ایک انٹرویو کے دوران دے چکے ہیں ؛’’ادب میں ذات نہیں قدر دیکھی جاتی ہے لیکن ظرف چھوٹے ہو گئے ہیں اور شخصیتیں کوتاہ‘‘۔ اسی بات کو کافی پہلے عمران شاہد بھنڈر نے اپنے انداز میں کہا تھا کہ ’’ادبی شخصیات کی صرف اتنی اہمیت ہوتی ہے جس حد تک شخصیات ادبی اقدار کے معیار پر پورا اترتی ہیں‘‘۔ لہٰذا، میں نے یہی کیا اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی ذات یا شخصیت سے علیحدہ صرف ان کے کارناموں کو نشان زد کیا۔ کیا یہ کوئی جرم ہے؟ نارنگ کے تعلق سے میری کوئی تحریر ایسی نہیں ہے جو ان کی ادبی کارگذاریوں کے بجائے ان کی ذاتی اور شخصی کار کردگی پر مبنی ہو۔ نارنگ سے بھی میرا اختلاف ادبی نوعیت کا رہا ہے، جسے حکما نے علامت صحت قرار دیا ہے۔ تو کیا اس سے یہ مطلب نکالا جائے کہ نارنگ سے ادبی اختلاف بھی رکھنا یا کوئی ادبی مکالمہ قائم کرنا، ناقابل معافی گناہ ہے؟ کیا اردو ادب میں ہونے والی معرکہ آرائیاں ہمارا بیش قیمت سرمایہ نہیں ہیں؟ تو پھر اگر میں نارنگ صاحب سے نظریاتی اختلاف رائے رکھتا ہوں اور اس کا اظہار اپنے اداریے میں بغیر کسی تعصب کے، بلکہ موضوع پر مرکوز رہ کر کرتا ہوں تو پھر مجھ پر یہ الزام کیا معنی رکھتا ہے کہ میں فاروقی کے اشارے پر نارنگ کی مخالفت کر رہا ہوں؟ جب کہ مجھ پر الزام لگانے والے اب تک قولاً یا فعلاً ثابت نہ کر پائے کہ وہ فاروقی کی کردار کشی اپنے رسالے، بیانات اور انٹرویو میں کس کے اشارے پر کر رہے تھے؟

اس کے باوجود میں نے کوشش کی کہ تنگ نظری جیسے موذی مرض سے ‘اثبات’ کو محفوظ رکھوں۔ شاید اسی سبب چودھری محمد نعیم کی وہ تحریر جو مولا بخش کی تحریر (‘آؤٹ لک’ میں شائع شدہ) کے جواب میں رقم کی گئی تھی، میں اسے شائع نہ کر سکا، کیوں کہ اس قضیے کو مزید طول نہیں دینا چاہتا تھا اور اس بات پر نعیم صاحب نے مجھ سے اور ‘اثبات’ سے تمام رشتے منقطع کر لیے۔ دوسری طرف علی گڈھ کے شاعر عابد علی عابد نے جب نارنگ کی ہجو (مشتاق صدف کی ہجو کے جواب میں) برائے اشاعت مجھے ارسال کی تو میں نے ان سے معذرت کر لی (یہ ہجو بعد میں دوسرے رسالے میں شائع ہوئی)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نارنگ صاحب سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ انھیں میں نے نہ صرف ‘اثبات’ کا ہر شمارہ ارسال کیا بلکہ کئی بار خط اور ایمیل کے ذریعہ دعوت دی کہ وہ ‘اثبات’ کے لیے اپنی تحریر ارسال کریں، حتیٰ کہ ایک بار میرے دوست اور نارنگ صاحب کے قریبی شاعر شکیل اعظمی نے ان سے کہا کہ اشعر نجمی بھلے آدمی ہیں، آپ ان کے پرچے میں اپنے مضامین ضرور بھیجا کریں۔ جواب میں نارنگ صاحب نے سوال کر دیا،’’کیا آپ اشعر نجمی کی ضمانت لیتے ہیں؟‘‘ شکیل اعظمی نے کہا،’’نہیں۔‘‘ ظاہر ہے نارنگ صاحب مجھ سے جس قسم کی ‘ضمانت’ کے طلب گار تھے، وہ میں ان کو تو کیا، فاروقی صاحب کو بھی نہیں دے سکتا تھا۔

غالب خوش نصیب تھے کہ وہ گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آخری ایام میں وہ اس بات پر شاکی تھے کہ لوگوں میں گالیاں دینے کا سلیقہ بھی نہ رہا۔ چنانچہ ہمارا اور آپ کا اس دور بد مذاق میں اس پر گلہ گذار ہونا کہ لوگوں نے اب لام گاف بکنے کا ’ہنر‘ بھی کھو دیا، عبث ہے۔ مجھے کئی گمنام خطوط ملتے رہے جن میں اس ہیچ مداں کو عجیب و غریب القابات و خطابات سے نوازا جاتا تھا۔ ایک بار مجھے ایمیل کے ذریعہ بھی ایک ایسا ہی مکتوب ملا جس میں حسب توقع مکتوب نگار نے اپنا اصل نام پوشیدہ رکھا تاکہ یہ پتہ نہ چل سکے کہ ان کا شجرہ خواجہ سراؤں سے جا ملتا ہے۔ انھوں نے ماں کی گالی سے مجھے نوازا تو غالب کی طرح میں بھی بجائے رنجیدہ ہونے کے مکتوب نگار کی بد مذاقی پر آبدیدہ ہو گیا۔ گالیوں کے انتخاب میں بھی میرے اس کرم فرما نے اپنی کنگالی کا ثبوت دیا کہ انھیں یہ بھی علم نہ تھا کہ ماں کی گالی کم سنوں کو دی جاتی ہے، کیوں کہ وہ ماں کے تعلق سے نسبتاً زیادہ حساس واقع ہوتے ہیں۔ مجھ جیسا پچاس سالہ شخص تو اس نالائقی پر محض مسکرا ہی سکتا تھا یا پھر اللہ کا شکر ادا کر سکتا تھا کہ کم از کم اس معاملے میں، میں غالب سے زیادہ خوش بخت نکلا، کیوں کہ جو گالیاں انھیں آخری ایام میں نصیب ہوئیں، وہ مجھے کافی پہلے ہی مل گئیں۔

ایسا نہیں ہے کہ صرف خط یا ایمیل کے ذریعے میری حوصلہ شکنی کی کوشش کی گئی بلکہ تمام مقبوضہ ذرائع کا استعمال میرے خلاف کیا گیا۔ مثلاً ‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان’ کے رسالہ ‘اردو دنیا’ (جولائی 2012) میں معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کا ایک انٹرویو چھپا جو ظاہر ہے منصوبہ بند تھا، انٹرویو لینے والے عالی جناب رحمٰن عباس تھے۔ نند بھاوج کی جوڑی نے اپنی تان اس غریب پہ لا توڑی۔ نند نے پوچھا،’’ادبی رسائل کے مدیروں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ بھاوج نے ساڑی کے پلو سے اپنی بہتی ہوئی ناک پونچھی اور فرمایا،’’پہلے جو ادبی رسالے نکلا کرتے تھے، ان کے مدیروں کا ایک ادبی پس منظر ہوا کرتا تھا، وہ ادب کے شناور اور ادیبوں کے سچے قدر دان ہوا کرتے تھے مگر آج کل بعض مدیر جن کا ادب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، محض رسالہ (اس لیے) نکالتے ہیں کہ وہ ادب میں اپنی ساکھ بنا سکیں اور اپنی جبلت خود نمائی کا سامان کر سکیں۔ ان کا کوئی سرمایہ دار دوست ان کی مالی اعانت کرنے کے لیے اس لیے تیار ہو جاتا ہے کہ اسے اس رسالے کے بہانے اپنے انکم ٹیکس کو ٹھکانے لگانے کا ایک آسان ذریعہ مل جاتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ بعض خوشامدی قسم کے قلم کار اپنے خطوط کے ذریعے ایسے ‘رنگیلے سیار’ قسم کی مدیروں کی جھوٹی تعریفیں کر کے ان کی انانیت کو تقویت پہنچاتے ہیں۔‘‘

جی ہاں یہ وہی سلام بن رزاق ہیں جنھوں نے ‘اثبات’ کی رسم اجرا کی تقریب کے موقع پر جب اپنی زبان دانی کے جوہر دکھائے تو فضیل جعفری نے بر صغیر کے اس نامور افسانہ نگار پر گرفت کی تھی۔ سلام نے ’مدعا‘ کی جگہ ’مُدّا‘ کا تخلیقی استعمال کچھ اس طرح کیا تھا کہ وہاں موجود اہل زبان کی طبیعت پھڑک اٹھی، اس لیے اب اگر وہ ‘رنگے سیار’ کو ‘رنگیلے سیار’ کہہ رہے تھے تو ہمیں کچھ زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ خیر، سلام بن رزاق کا کھلا اشارہ میری طرف تھا اور ‘سرمایہ دار دوست’ سے ان کی مراد قاضی شہاب عالم تھے جو پہلے شمارے سے اثبات کے ساتھ رہے۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ ساجد رشید کی نگرانی میں نکل رہے روزنامہ ‘صحافت’ (ممبئی) میں انھوں نے پھر مجھے چھیڑا،’’ابھی تو ان کے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے ہیں۔ ان کی ادارت میں ایک سہ ماہی نکل رہا ہے جس کے خیر صرف تین شمارے آئے ہیں مگر وہ اپنے آپ کو بڑا نقاد سمجھنے لگے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے از راہ مہربانی ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ کیا رکھ دیا، وہ سمجھنے لگے کہ ان کے سر پر ہما کا سایہ ہے۔‘‘

‘دودھ کے دانت ٹوٹے ‘ کو’ گرانے’ کے باوجود ‘اثبات’ کے صرف تین شماروں نے سلام بن رزاق اور ان کے حلقے کی نیند حرام کر رکھی تھی، سو اتنا تپنا تو بنتا تھا لیکن چونکہ ہر مسلمان پر چونکہ سلام کا جواب دینا واجب ہے، سو میں نے بھی ‘اردو ٹائمز’ میں جواب دیا، مضمون کا عنوان تھا؛ ‘وعلیکم سلام بن رزاق’۔

سلام اچھے آدمی ہیں، اتنے اچھے کہ کوئی بھی ان کا دماغ بآسانی خراب کر سکتا ہے۔ سلام صاحب کا دماغ ان کی جرمن نژاد ‘نند’ نے خراب کر رکھا تھا، ورنہ آج بھی وہ ‘اثبات’ کے مداحوں میں ہیں اور میرے دوست ہیں، میں نے ان کے کئی افسانے ‘اثبات’ کے مختلف شماروں میں چھاپے اور آئندہ شماروں میں بھی چھپیں گے۔

فاروقی صاحب ان تمام معرکہ آرائیوں سے با خبر تھے، کبھی کبھی وہ اپنے خطوط میں اس پر اظہار خیال بھی کرتے تھے۔ مثلاً جب نصرت ظہیر نے اپنے رسالہ ‘ادب ساز’ میں مجھ پر لعن طعن کیا اور فاروقی صاحب کے تعلق سے یہاں تک لکھ دیا کہ،’’کہ دو سو اسرائیلی یہودی مرتے ہیں تب ایک شمس الرحمٰن فاروقی پیدا ہوتا ہے‘‘ (گزشتہ قسط میں اس کی تفصیل موجود ہے) تو فاروقی صاحب نے اس کا سخت نوٹس لیا۔ اپنے ایک ایمیل میں وہ مجھے لکھتے ہیں:

’’نصرت ظہیر نے مجھ سے عاجزانہ معافی مانگی کہ انھوں نے دو سو یہودیوں والا جملہ میرے بارے میں لکھ کر بہت بڑی بھول کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اگلا شمارہ جب (اگر) آیا تو وہ اس میں اپنی طرف سے اپنے ہی نام ایک لعنت ملامت سے بھرا ہوا اور معافی نا مے کے ساتھ شائع کریں گے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘اردو دنیا’ میں ایک مضمون نظام صدیقی کا جو میرے خلاف خرافات سے بھرا ہوا چھپ گیا تھا، اس کے خلاف وہ ایک مراسلہ اور اپنی طرف سے بھی معذرت شائع کر دیں گے۔ خدا جانے ماجرا کیا ہے۔ شاید نارنگ سے ان کی ان بن ہو گئی ہے۔ میرے ساتھ جو بات ہوئی وہ حمید اللہ بھٹ (سابق ڈائریکٹر، قومی کونسل) کے فون پر ہوئی اور ان کے سامنے ہوئی۔ ممکن ہے کہ بھٹ نے انھیں درست کیا ہو۔ مجھ سے تو بھٹ یہی کہہ رہے تھے۔‘‘ (12 مئی 2011)

اس ایمیل سے پہلے بھی فاروقی، نصرت ظہیر کی دریدہ دہنی سے بیزار تھے کہ وہ ایک سرکاری پرچے کو فاروقی کے خلاف صرف اس لیے استعمال کر رہے تھے چونکہ انھیں اس کی ادارت نارنگ صاحب کی سفارش پر ملی تھی، چنانچہ فاروقی اپنے ایک ایمیل میں کہتے ہیں:

’’نظام (نظام صدیقی) کے بارے میں کچھ کہنے یا لکھنے یا لکھوانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کا ایک اور انتہائی بیہودہ مضمون ‘اردو دنیا’ میں ابھی شائع ہوا ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کپل سبل (متعلقہ شعبے کے وزیر تھے) کو خط لکھ کر نصرت ظہیر کی حرکتوں سے انھیں مطلع کروں۔ پھر سوچتا ہوں، چھوڑو۔ یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے۔ شبلی یاد آتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی حملے کا نوٹس نہیں لیا۔‘‘ (5 اپریل 2011)

اس زمانے میں ایک اور صاحب ہوا کرتے تھے، اب کہاں ہوتے ہیں پتہ نہیں۔ ان کا نام تھا جاوید رحمانی۔ ان کا مختصر تعارف یہ ہے کہ ایک مدت تک آپ انجمن ترقی اردو (ہند) میں ملازم رہے اور اس کا فائدہ انھوں نے یہ اٹھایا کہ اپنی ایک نہایت معمولی کتاب انجمن کی طرف سے چھپوا لی۔ اس کے بعد وہ خلیق انجم کے خلاف ایک مہم میں پیش پیش رہے اور انجمن کے بارے میں طرح طرح کے افسانے پھیلاتے رہے۔ پھر وہ قومی کونسل براے فروغ اردو سے منسلک ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد الگ ہو گئے (الگ کر دیے گئے؟ )۔ الگ ہوتے ہی جاوید رحمانی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور بالخصوص اس کے ڈائرکٹر اور گوپی چند نارنگ کے خلاف مہم چلانے لگے اور ڈائرکٹر کونسل حمید اللہ بھٹ کے خلاف طرح طرح کے سنسنی خیز الزامات کی تشہیر کرتے رہے۔ لیکن مجھے ان باتوں پر بالکل تعجب نہ تھا۔ اور اس سے بھی کم تعجب اس بات پر ہوا کہ یہی جاوید رحمانی بعد میں دوبارہ اسی قومی کونسل برائے اردو زبان کے تنخواہ دار ملازم ہوئے اور اسی زمانے میں ہوئے جب قومی کونسل میں ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ ہی ڈائرکٹر تھے اور گوپی چند نارنگ کی ہستی کونسل میں انتہائی با وزن اور با وقار ہستی تھی۔ ممکن ہے ‘اثبات’ اور فاروقی پر کیچڑ اچھالنے میں بھی جاوید رحمانی کی کوئی بہت بڑی ادبی ضرورت کارفرما ہو۔ خیر انھوں نے ایک بار ‘اثبات’ کے مدیر کو ایک مضمون اور خط ‘اثبات’ کے پتے پر بھیجنے کی بجائے فاروقی کے ایمیل ایڈریس پر بھیجا۔ ظاہر ہے، رحمانی اپنا وہ مضمون فاروقی کو پڑھانا چاہتے تھے۔ فاروقی نے مجھے وہ ایمیل فارورڈ کر دیا۔ مضمون ویسا ہی تھا جیسا جاوید رحمانی سے توقع کی جا سکتی تھی، سو میں نے مضمون تو نہیں لیکن ان کا خط ضرور ‘اثبات’ میں چھاپ دیا جس کا آغاز انھوں نے کچھ یوں کیا تھا،’’ایک مضمون بھیج رہا ہوں، چھاپ تو آپ کیا سکیں گے، پڑھ لیں اتنا کافی ہے۔ ’اثبات‘ کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ آپ کی خود ستائی کی لَے جس قدر تیز ہوتی جا رہی ہے، ’اثبات‘ کا معیار اتنا پست ہوتا جا رہا ہے۔ ………‘‘ (شمارہ۔ 9) خیر، اس خط کا جواب میں نے اسی شمارے میں دے دیا تھا جسے قارئین میری سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔

فاروقی صاحب کا اس پر رد عمل تھا:

’’امید، بلکہ یقین ہے کہ رحمانی کے مزاج بحال ہو گئے ہوں گے۔ لیکن وہ بہت ہی فتنہ پرداز شخص ہے۔ میں نے اس جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ وہ واقعی بچھو کی طرح اپنے محسنوں کو ڈنک مارتا ہے۔ سنا ہے حمید اللہ بھٹ نے حال ہی میں اس کی ٹھکائی کر دی اور اس نے تھانے میں رپٹ لکھوائی ہے۔‘‘ (18 مئی 2011)

میرے جواب کے بعد جاوید رحمانی نے تلملا کر فیس بک پر فاروقی صاحب کے خلاف لکھنا شروع کر دیا۔ میں نے فاروقی صاحب کو بذریعہ ایمیل خبر کی تو ان کا جواب تھا:

 

’’تمھاری دونوں ایمیل مل گئیں۔ اچھا تھا، اگر رحمانی اور اس کی فیس بک سے مجھے بے خبر رکھتے۔ طبیعت بہت منغض ہوئی۔ میرے حق یہی بہتر ہے کہ میرے بارے میں جو بھی لکھا یا کیا جائے (اچھا یا برا) مجھے اس سے بے خبر رکھا جائے۔

تم نے رحمانی کے مضمون کی نقل مانگی ہے۔ کل میں اسے ڈاک سے بھیج دوں گا۔ اس کا سارا مضمون میرے دو اردو مضامین ‘ایرانی فارسی، ہندوستانی فارسی اور اردو: مراتب کا معاملہ’ اور ‘مطالعات غالب، سبک ہندی اور پیروی مغربی’ اور میرے انگریزی کے طویل مضمون،‘ A Stranger in the City: The Poetics of Sabk-i Hindi’پر مبنی ہے۔ رحمانی کے بہت سے حوالے میرے اردو مضامین سے لیے گئے ہیں اور اس حقیقت کو چھپانے کے لیے رحمانی نے اپنے ہی ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے جو مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے سرکاری رسالے میں چھپا تھا۔ موجودہ مضمون قائد اعظم لائبریری لاہور کے رسالے مخزن میں چھپا ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دونوں مضامین میں جو مسائل اردو اور فارسی زبانوں کے بارے میں درج کیے گئے ہیں، انھیں اردو یا انگریزی میں مجھ سے پہلے کسی نے نہیں اٹھایا تھا اور میرے بعد کسی کی ہمت انھیں چھیڑنے کی نہیں ہوئی۔ رحمانی نے سارا استدلال تمام باریکیاں میرے یہاں سے اٹھائی ہیں اور آخر میں میرے ایک اردو مضمون کا سرسری حوالہ دے دیا ہے۔ پھر فوراً ہی مجھ پر امیر خسرو کے سلسلے میں ‘بے ایمانی’ الزام لگا کر حساب برابر کر دیا۔

رحمانی کے سرقے کا عمومی ذکر تو ممکن ہے۔ جس نے بھی میرے متذکرہ بالا مضامین پڑھے ہوں گے وہ فوراً دیکھ لے گا کہ سارا مال چوری کا ہے لیکن کسی جملے یا عبارت کو میرا اقتباس نہیں کہہ سکتے۔ رحمانی تو کیا، اردو کے بڑے سے بڑے جغادری کو بھی وہ طرز فکر نصیب نہ ہوئی جو ان مضامین ہے۔ رحمانی نے عنوان تک مجھ سے اڑایا ہے۔ اس کا عنوان ہے: ‘ہندوستانی فارسی اور اردو گویوں کا تصور استناد اور غالب’۔ اور میرے عنوان ہیں ؛ (1)’مطالعات غالب، سبک ہندی اور پیروی مغربی’، (2)’ ایرانی فارسی، ہندوستانی فارسی اور اردو: مراتب کا معاملہ’۔

اردو کے مضمون کئی جگہ چھپے ہیں۔ پہلے والا مضمون ‘غالب پر چار تحریریں ‘ اور دوسرا مضمون ‘جدیدیت، کل اور آج’ میں شامل ہے۔ انگریزی مضمون دو جگہ چھپا ہے اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔‘‘ (15 مئی 2011)

 

آپ نے درج بالا خط کو دیکھ کر محسوس کیا ہو گا کہ فاروقی کے خواہ مخواہ کے مخالفین انھیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے اور وہ کس حد تک ان سے بیزار تھے کہ انھیں یہاں تک کہنا پڑا کہ ’’اچھا تھا، اگر رحمانی اور اس کی فیس بک سے مجھے بے خبر رکھتے۔ طبیعت بہت منغض ہوئی۔ میرے حق میں یہی بہتر ہے کہ میرے بارے میں جو بھی لکھا یا کیا جائے (اچھا یا برا) مجھے اس سے بے خبر رکھا جائے۔‘‘ ایک ایسا شخص جس نے اردو زبان و ادب کو جیا تھا، تنقید کے علاوہ جس نے ہر صنف ادب کو مالا مال کیا، اور ایک پورے عہد پر اپنے نقش ثبت کر گیا، ذرا سوچیے کہ ان احسان فراموش کار روائیوں سے اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ آج جو لوگ فاروقی کی وفات پر ٹسوے بہا رہے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے ان کی زندگی میں انھیں ایسی ذہنی اذیت دی جس کا بیان بھی مشکل ہے لیکن وہ آہنی اعصاب والا شخص کتابیں لکھتا رہا، زبان و ادب کو بار آور کرتا رہا۔ حاسدین بھی اپنا کام جاری رکھے رہے اور پھر وہ وقت آیا جب نارنگی لیبارٹری میں رات دن تحقیق کر کے سائنس دانوں نے فاروقی صاحب کے ‘سرقے ‘ کا انکشاف کیا اور گوپی چند نارنگ کے سرقے کی جائے سوزش پر برف کی ڈلی رکھنے کی کوشش کی۔ اور اس بے بدل محقق کا نام تھا……

چلیے، اگلی قسط میں اس کے نام کے ساتھ اس کا شجرہ بھی بتاتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔

سہ ماہی ‘انتساب’ کے مدیر سیفی سرونجی نے فاروقی کے ایک خط کی بنیاد پر ان پر سرقے کا الزام عائد کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران شاہد بھنڈر کے طویل مضامین ہندوستان اور پاکستان میں نارنگ صاحب کے نمک خواروں پر چابک کی طرح برس رہے تھے اور بلبلاتے خایہ بوسوں کی ایک ٹکڑی انگریزی اور اردو کے اخباروں میں یا تو نارنگ صاحب کے سرقے کی صفائی پیش کر رہی تھی، یا جوابی ردعمل کے طور پر فاروقی پر نشانہ سادھ رہی تھی اور تقریباً ہر روز آقائے ولی نعمت کی بارگاہ میں اپنی فتوحات کے نذرانے پیش کیے جا رہے تھے لیکن برہنگی ایسی کہ اسے جتنی ڈھانپنے کی کوشش کی جا رہی تھی، وہ اتنی ہی کھلتی جا رہی تھی۔ لہٰذا اس جاں کنی کے دور میں فاروقی صاحب کا سیفی سرونجی کے نام ایک خط نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا اور انھیں لگا کہ اس خط کی بنیاد پر اگر فاروقی پر سرقے کا الزام جڑ دیا جائے تو نارنگ صاحب کے سرقے کی جانب سے لوگوں کا دھیان منتشر کیا جا سکتا ہے، پھر کیا تھا سیفی سرونجی نے اپنے رسالہ ‘انتساب’ میں ایک نیا مورچہ کھول دیا، لیکن افسوس فاروقی کے ایک خط نے اس مورچے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ فاروقی نے محمد توفیق صاحب (تلیا، سرونج) کے ایک استفسار پر انھیں جواب دیتے ہوئے لکھا(اس برقی خط کو انھوں نے میرے ساتھ بھی شیئر کیا):

 

’’جناب سیفی سرونجی کچھ دن تو آپ کے تنبیہ کے بعد درست رہے، اب انھوں نے پھر مجھ پر مہربانیاں شروع کر دی ہیں۔ رسالوں میں، انٹرنیٹ پر، ان کی اس ‘دریافت’ پر لکھا جا رہا ہے کہ میں نے ابو محمد سحر کے مضمون سے ‘سرقہ ‘ کیا ہے اور ان کے نام جو میرا خط تھا، اس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ میں نے اپنے ‘جرم’ کا ‘اعتراف’ بھی کر لیا ہے۔ اب ان سے اور ان کے ساتھی سازش گروں اور ان کے آقا و مربی گوپی چند نارنگ سے کیا کہوں، آپ سے عرض کرتا ہوں کہ سرقہ تو دور رہا، ابو محمد صاحب کی تحریر سے ایک جملہ، بلکہ ایک فقرہ ہی کوئی نکال کر دکھا دے کہ میں نے اسے اپنی کتاب میں بے حوالہ نقل کر دیا ہو۔ واضح رہے کہ سرقے کی پہلی شرط یہ ہے کہ سرقہ وہاں سے کرتے ہیں جہاں انکشاف یا پکڑے جانے کا امکان نہ ہو، یا بہت کم ہو۔ اب اگر کوئی شخص غالب کا کوئی مصرع بے حوالہ اپنے کلام نثر یا نظم میں ڈال دے تو اسے سرقہ نہیں، اقتباس کہیں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ سرقہ ایسی چیز یا بات کا کیا جا سکتا ہے جو سارق کی لیاقت یا حیثیت سے بعید ہو۔ میری جیب میں ہزار روپے کا نوٹ موجود ہو تو میں کسی اور کی جیب سے پچاس پیسے کا سکہ کیوں چراؤں گا؟ اردو زبان، اس کے رسم الخط، اس کے املا پر میں بہت کچھ لکھ چکا تھا جب میں اپنی کتاب Early Urdu Literary Culture and History لکھی اور پھر اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی خود ہی کیا۔ اس ترجمے کے کئی ابو اب جگہ جگہ شائع ہو چکے تھے۔

’’ابو محمد صاحب مرحوم میرے کرم فرما اور بہی خواہ تھے۔ ان کی کسی تحریر کو بے حوالہ نقل کر لینا میرے لیے شرافت سے بعید ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہ وہ ان کی کوئی پرانی گمنام تحریر تھی جس سے میں نے کچھ نکال لیا ہو۔ ‘ہماری زبان’ میں ان کا چھوٹا سا مضمون تھا جو بوقت اشاعت میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ ممکن ہے اس وقت میں ملک سے باہر رہا ہوں یا بیمار رہا ہوں۔ بہرحال، اس مضمون میں امرت رائے کے خیالات کے رد میں سحر صاحب نے کچھ نکات پیدا کیے تھے۔ جب میں نے سحر صاحب کی کتاب دیکھی جس میں وہ مضمون تھا، یا کچھ نکات ایسے تھے جنھیں میں بھی اپنی کتاب میں زیر بحث لایا تھا تو میں نے انھیں فوراً لکھا کہ مجھے آپ کے مضمون کا حوالہ دینا چاہیے تھا، اب انشا اللہ اکی تلافی کر دوں گا۔ سحر صاحب مرحوم نے ذرا سی بھی ناراضی یا کبیدگی کا اظہار نہ کیا اور کہا کہ کوئی بات نہیں، اپنی کتاب کے اگلے ایڈیشن میں ذکر کر دیجیے گا۔

’’واضح رہے کہ میری کتاب کے جس باب میں مجھ پر سحر صاحب سے سرقہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، وہ باب ‘شب خون’ میں چھپ چکا تھا لیکن سحر صاحب، یا ان کے کسی ‘بہی خواہ’ نے اس پر کوئی اعتراض اس وقت نہ کیا تھا۔

’’غور فرمائیے کہ سحر صاحب مرحوم کی عین حیات میں یہ معاملہ بالکل نہیں اٹھایا گیا، کیوں کہ اٹھانے والے جانتے تھے کہ سحر صاحب اسے ہرگز نہ پسند کریں گے کہ ان کے نام کا فائدہ اٹھا کر شمس الرحمٰن فاروقی پر جھوٹا الزام لگایا جائے۔ یقین ہے کہ سحر صاحب کی زندگی میں ایسی کوئی بات کہی جاتی تو وہ سختی سے اس کی تردید کرتے، کیوں کہ وہ جھوٹ کو ہرگز برداشت نہ کر سکتے تھے۔ ان کے انتقال کے کئی سال بعد یاروں کو سوجھی کہ گوپی چند نارنگ کو خوش کرنے کا یہ بھی ایک اچھا بہانہ ہے کہ ان کے نام کا سہارا لے کر ایک بے بنیاد بات کہی جائے۔

’’ملحوظ رہے کہ ‘سرقے’ کی یہ ساری کہانی اس وقت شروع ہوئی جب سیفی سرونجی صاحب نے سحر صاحب کی کتاب پر اپنے تبصرے میں لکھا کہ فاروقی کی کتاب اور ابو محمد صاحب مرحوم کی کتاب میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ سیفی صاحب اس سے پہلے بھی اپنے نام میرا ایک نجی خط میری اجازت کے بغیر جگہ جگہ عام کر چکے تھے۔ مجھے متنبہ رہنا چاہیے تھا کہ سیفی صاحب پھر میری کسی ایمان دارانہ بات کو غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن میں نے اپنی خلقی دیانت داری کے تحت از خود انھیں خط لکھا اور حقیقت ان کے گوش گذار کر دی۔ یہ سب باتیں میرے اس خط میں مذکور ہیں جو میں نے سیفی صاحب کو لکھا تھا لیکن اس وقت وہ خط میرے سامنے نہیں ہے۔ اگر میں سیفی صاحب کو خط نہ لکھتا تو سرقے وغیرہ کی کوئی بات نہ اٹھتی۔ سیفی صاحب نے حسب معمول میری صاف گوئی اور دیانت داری کا غلط فائدہ اٹھالیا اور میرے دوستانہ خط کو میرے ہی خلاف استعمال کرنا چاہا۔ اب میں ان سے کیا کہوں:

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل

دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا

’’یہ بھی خیال رہے کہ سیفی صاحب کا تبصرہ کوئی دس یا گیارہ سال پرانا ہے اور میں نے خط بھی انھیں اسی زمانے میں لکھا تھا۔ اب اس گڑے مردے کو اکھیڑنے میں کیا مصلحت ہو سکتی ہے، یہ سیفی صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔‘‘ (21 ستمبر 2011)

 

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو لوگ (بشمول سیفی سرونجی) فاروقی صاحب کی وفات کے بعد ان کی دانشوری کا نغمہ چھیڑے ہوئے ہیں، ان میں سے اکثر نے فاروقی صاحب کو ذہنی طور پر مفلوج بنانے میں کوئی کور کسر باقی نہیں رکھی۔ لیکن فاروقی صاحب کا کارنامہ صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے 85 سال میں اردو زبان و ادب کو بار آور کیا بلکہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے یہ سب کن حالات میں کیا، کوئی اور ہوتا تو کب کا بد دل ہو جاتا اور گوشہ نشینی اختیار کر لیتا جیسا کہ بہتوں نے کیا بھی لیکن فاروقی کا معاملہ مختلف تھا، انھوں نے نمائشی اور اوڑھی ہوئی دانشوری اختیار نہیں کی تھی، ایسا لگتا ہے جیسے وہ ایک ایسے اسپ تازی ہوں جس پر جب چابک پڑتا ہے تو وہ ہوا سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر فاروقی کا درج ذیل خط دیکھیں جو انھوں نے مجھے انھی دنوں لکھا تھا، ان کی مصروفیت کا اندازہ لگائیں:

’’میں نے کانپور سے واپس آ کر دو بار تمھیں فون کیا لیکن نمبر نہیں ملا۔ براہ کرم یہ بتاؤ کہ تمھیں فون کرنے کا بہتر وقت کون سا ہے؟

’’شہاب سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہے۔ ان سے میں نے کہا تھا کہ اگلے دن فون کرو تو وقت طے کر دوں۔ میرے یہاں مہمان اس وقت بہت تھے، بیٹی اور بچے بھی اسی دن آئے تھے۔ انھوں نے اگلے دن فون کیا تو میں نے دن بھر فون اٹھایا ہی نہیں۔ دوسرے دن میں نے فون کیا، اور پھر فون کیا، لیکن جواب نہ ملا۔ پھر ان کا پیغام فون پر دیکھا کہ انھوں نے یاد دہانی کی تھی کہ کب ملنا ہو سکتا ہے۔ بہت افسوس ہوا۔ میری طرف سے معذرت کر لینا۔ میں واقعی شرمندہ ہوں۔

’’ان دنوں میں افسانے میں بے طرح پھنس گیا تھا۔ روز امید کرتا تھا کہ آج ختم کر لوں گا لیکن وز کوئی نئی بات ہو جاتی، یا افسانے میں کچھ اور پیچیدگی نظر آ جاتی جسے حل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کہنے کو تو بنا بنایا پلاٹ تھا لیکن اسے افسانہ بنانے کے لیے اس پر چمکیلا کاغذ، پنی، لہرئیے، رنگین ربن، گوٹا، کناری وغیرہ چڑھانے میں ایک مصیبت آ گئی کہ کٹنے کا نام نہ لیتی تھی۔ افسانہ منسلک ہے۔ جب چاہو چھاپو۔ شاید اگلے شمارے میں جگہ نہ نکل سکے۔ میں نے اسے آصف (آصف فرخی) کو بھی بھیج دیا ہے۔ اب انشا اللہ ایک افسانہ اور لکھوں گا۔ اللہ ہمت دے۔

میں نے داستان کی کتاب کی جلد چہارم (1) مکمل کر لی۔ چھ سو صفحات سے متجاوز ہے۔ اب اس کی پروف خوانی شروع کروں گا۔ پاکستانی ادارے Readings نے صفحہ سازی، اشاریہ سازی اور چھاپنے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ صفحہ سازی کے بعد اسے یہاں ‘قومی کونسل’ سے بھی چھپواؤں گا، انشا اللہ۔

”لغات روزمرہ’ کی آخری توسیع اور تصحیح آدھی کے قریب مکمل ہو گئی ہے۔ آخری صفحہ سازی کے بعد اشاریہ الفاظ بنانے کا نہایت ٹیڑھا کام شروع ہو گا۔ دعا کرو جلد اور بخوبی تکمیل پائے۔

’’اردو ناول کو انگریزی میں منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ پچیس تیس صفحے ہو گئے ہیں۔ پتہ نہیں اپنی زندگی میں یہ کام مکمل کر سکوں گا کہ نہیں۔ اس کے لیے بھی دعا کرو۔

’’مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے لیے کلیات مرتب کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یعنی ادھر اُدھر بکھرے ہوئے کلام کو مجتمع کرنے کا۔ بہت کچھ بھیج چکا ہوں۔ ابھی ایک قسط اور ہے۔ اس کے بعد وہ جانیں اور ان کا کام۔ ممکن ہے شہناز کل کو ہٹ جائیں تو یہ کام ہی نہ ہو۔ مگر جب وہ وقت آئے گا تو دیکھیں گے۔ کلیات کا نام رکھا ہے: ‘مجلس آفاق میں پروانہ ساں ‘۔

’’یہ میر کا مصرعہ ہے۔ پورا شعر ہے:

مجلس آفاق میں پروانہ ساں

میر بھی شام اپنی سحر کر گیا

’’نیر مسعود کے خیال میں مصرع ثانی بہتر ہے۔ میرا بھی ایک حد تک یہی خیال تھا، لیکن اس میں لوگوں کو تعلی زیادہ نظر آئے گی۔

’’خطوں کے جواب، کتابوں کی رسید، یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے۔

’’ان کے علاوہ فرمائشی کام بھی دو ایک کرتا ہی رہتا ہوں۔ ابھی ابھی راشد طراز پر ایک مضمون لکھ ہی دیا۔ ایسے ہی دو تین اور باقی ہیں۔ مدت حیات بہت کم رہی ہے۔ صحت ساتھ نہیں دیتی۔ میرا وقت ضائع کرنے والے بے شمار ہیں اور دل کو دکھانے والے بھی کچھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

’’دعا کرو کہ انجام بخیر ہو اور کسی کو مایوس نہ کروں۔‘‘ (4 مئی 2011)

ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں:

’’میری یاد داشت اب پہلے جیسی نہیں ہے۔ لیکن اپنی تحریروں کے بارے میں میرا ہمیشہ یہی حال رہا۔ لکھتا ہوں اور بھول جاتا ہوں۔ کیا تم یقین کرو گے کہ گزشتہ دو مہینے کے اندر میں نے پانچ مفصل مضمون لکھے ہیں؟ اور ان میں سے دو تو میر کے بارے میں ہیں؟ اس وقت کون ایسا ہے جس نے میر پر تین ہزار صفحے لکھنے کے بعد ان پر پچیس صفحے کا ایک مضمون اور دس صفحے کا ایک اور مضمون لکھا ہو اور پھر کچھ مدت بعد دو چار ہفتوں کے اندر وہ مضمون پھر لکھ دیے ہوں؟

’’گذشتہ چار پانچ مہینوں سے اس کٹی مری حالت کے باوجود میں نے اوسطاً ایک مضمون ہر مہینے لکھا ہے۔ پانچ سو سے زیادہ صفحے داستان پر لکھے ہیں اور متفرقات کا تو واقعی کوئی شمار نہیں۔‘‘ (5 اپریل 2011)

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح حاسدوں کو اپنے کام پر لگا رکھا تھا اور خود اپنے کام میں کُل وقتی طور پر مصروف تھے۔ اگرچہ فاروقی ہندوستان سے شائع ہونے والے کچھ اور ادبی رسائل کی ‘سرپرستی’ فرما رہے تھے لیکن ‘اثبات’ میں ان کی دلچسپی سوا تھی، شمارہ نمبر 4-5 میں اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’اثبات’ کا نیا شمارہ گذشتہ دونوں شماروں کی طرح بہت کامیاب ہے، اور امید افزا بھی ہے۔ امید افزا اس معنی میں کہ پرچے میں اب استقامت کی شان نظر آتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس وقت یہ واحد پرچہ ہے جس کے ہر صفحے پر مدیر کی شخصیت کی چھاپ موجود ہے۔ جو کچھ بھی پرچے میں شائع ہوا ہے، وہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض پرچے کا پیٹ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ پرچے کی ادبی حیثیت مستحکم کرنے اور خوشامد اور گروہ سازی کی سیاست سے برات کا اظہار کرنے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔‘‘

پھر ایک خط میں لکھتے ہیں،’’تم مبارک باد کے مستحق ہو کہ اب تمھاری مدیرانہ شخصیت میں کچھ محمود ایاز (مدیر، سوغات) کا سا رنگ نظر آنے لگا ہے۔‘‘ (شمارہ نمبر 8)

‘شب خون’ جیسے عہد ساز رسالے کا سخت ترین مدیر اگر ‘اثبات’ کی ادارت کو اس قدر سراہ رہا ہے تو پھر مجھے کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اس سند پر کیوں نہ اِترایا جائے۔

یہ تعریف و توصیف صرف حوصلہ افزائی کے لیے نہیں تھی (اور خیر فاروقی جیسے راست گو سے ایسی امید بھی نہیں کی جا سکتی) بلکہ وہ اس درمیان ‘اثبات’ کے اس قدر قریب ہو گئے تھے کہ نہ صرف وہ مجھے ہر شمارے کے لیے کوئی نہ کوئی چیز ارسال کر رہے تھے بلکہ وہ اس کے لیے اپنے پرانے دوستوں سے بھی کبھی کبھی لڑ بھڑ جاتے تھے۔ مثلاً انھوں نے نیر مسعود صاحب سے کئی بار ‘اثبات’ کو اپنا افسانہ دینے کی درخواست کی لیکن وہ بار بار وعدہ کر کے مکر جاتے تھے۔ فاروقی صاحب کا یہ خط دیکھیں:

’’کل ایمیل لکھتے وقت کئی بار خیال آیا کہ کچھ بھول رہا ہوں، لیکن کیا بھول رہا ہوں، یہ خیال میں نہ آتا تھا۔ آج صبح یاد آیا، نیر مسعود کے بارے میں بتانا بھول گیا تھا۔ انھوں نے اپنا افسانہ ‘دھول بن’ زبیر رضوی کے یہاں چھپوا لیا۔ میں نے کچھ لعنت ملامت کی لیکن ان کے مزاج میں مروت بہت کم ہے۔ آج کل ان کے معشوق بالترتیب (1) میمن (2) اجمل کمال (3) فاروقی کے سوا کوئی اور مثلاً زبیر رضوی ہیں۔ بہرحال میں نے بہت زور دے کر کہا کہ کوئی افسانہ جو ہندوستان میں نہ چھپا ہو، اور اس سے بہتر یہ کہ کوئی پرانا افسانہ کچھ کاٹ چھانٹ کر مجھے یا تمھیں بھیج دیں۔ انھوں نے ہاں تو کر دی ہے لیکن وعدہ کب وفا ہو گا، میں نہیں کہہ سکتا۔ (13 مئی 2011)

بیرون ملک جب بھی جاتے تو اثبات کے لیے اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتے۔ مثلاً ایک بار ‘لمز’ والوں کی دعوت پر فاروقی پاکستان گئے اور لوٹنے پر مجھے کاشف حسین غائر، علی اکبر ناطق اور خرم خرام کا تحفہ دیا۔

علی اکبر ناطق کو لے کر وہ کافی جوش میں تھے، کہتے تھے کہ یہ غضب کا لڑکا ہے۔ مجھے کہا کہ تم اس سے رابطہ کرو۔ میں نے نمبر یا ایمیل مانگا تو کہا کہ ناطق کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔ پھر انھوں نے خرم خرام کی ایمیل آئی ڈی دی اور کہا اسے بولو کہ وہ ناطق سے تمھاری بات کرائے۔ ناطق سے بات ہوئی اور خوب ہوئی۔ ناطق نے مجھے اپنی بہت سے افسانے اور نظمیں بھیجیں۔ خرم خرام نے بھی بھیجیں۔ میں نے اپنے طور پر آئندہ شمارے کے لیے ناطق کے تین افسانوں اور کچھ نظموں کا انتخاب کیا اور انھیں ‘انداز بیاں اور’ کے عنوان سے اکٹھے چھاپ دیا۔ اگرچہ خرم خرام کی کچھ غزلیں بھی اس شمارے میں چھاپیں لیکن انھوں نے مجھے خط لکھ کر اپنی ناراضگی جتائی اور مطالبہ کیا کہ آئندہ شمارے میں انھیں بھی اس اہتمام کے ساتھ چھاپا جائے جس طرح اِس شمارے میں ناطق کو چھاپا گیا تھا۔ خیر، انھیں اس وقت یہ پتہ نہ تھا کہ وہ کس سرپھرے مدیر سے مخاطب ہیں، میں نے ان سے معذرت کر لی۔ ناطق ہندوستان میں متعارف ہوئے تو یہاں بھی ان کے مداحوں اور حاسدوں کا ٹولہ پیدا ہو گیا۔ خیر یہ تو عام بات ہے، لوگوں نے پیغمبروں کو نہیں چھوڑا تو ادیبوں کا کیا شمار۔ ناطق اب ‘اثبات’ میں مسلسل چھپتے رہے۔ ہندوستان سے نکلنے والے دیگر رسائل کی نظر ناطق پر پڑی تو انھوں نے بھی ناطق سے رابطہ کیا لیکن اکثر مدیران رسائل ‘اثبات’ میں چھپی ہوئی ان کی تخلیقات کو اپنے رسالے میں کاپی پیسٹ کرنے لگے۔ ناطق کی معروف نظم ‘سفیر لیلیٰ’ اور کچھ دیگر نظمیں جب ‘اثبات’ میں شائع ہوئیں تو فاروقی صاحب نے مجھے اپنے ایک خط میں اس کا ذکر کچھ یوں کیا:

’’یہ چاروں نظمیں بہت ہی غیر معمولی ہیں۔ ہر چند کہ ذرا بے ربط نظر آتی ہیں لیکن پورا منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ ایک حزنیہ دھند سب پر طاری ہے اور کلام میں روانی اور زور ہے۔ صرف اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہر نظم اس طرح کی نہ ہونی چاہیے۔ یہ طرز ایسا ہے کہ اس کی نقل اُڑانا مشکل نہیں۔ اپنی اپنی جگہ پر چاروں نظمیں بہت خوب ہیں۔‘‘ (یکم دسمبر 2011)

لیکن ایسا نہیں کہ فاروقی صاحب میری یا ناطق یا اپنے کسی پسندیدہ تخلیق کار کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہا کرتے تھے، بلکہ بقدر ضرورت اور برمحل اس کی گرفت بھی کرتے تھے، جیسے ناطق کو ایک ایمیل (جسے انھوں نے مجھ سے بھی شیئر کیا) میں کہتے ہیں:

’’تمھیں چاہیے کہ منیر نیازی کی طرف مڑ کر مت دیکھو۔‘‘ (28 اگست، 2011)

اسی طرح جب معروف شاعر امجد اسلام امجد صاحب نے فاروقی کو اپنی ایک طویل غزل بھیجی جس کا عنوان انھوں نے ‘غزل در غزل’ رکھا تھا۔ ایسا اکثر ہوتا تھا کہ کئی ادیب بطور خاص پاکستان کے ادبا فاروقی صاحب کو اپنی تخلیقات صرف ان کے مشورے کے لیے نہیں بھیجتے تھے بلکہ وہ فاروقی صاحب کے توسط سے ہندوستانی رسائل میں تخلیقات کو دیکھنے کے خواہاں بھی ہوتے تھے، سو مجھے وہ منتخبہ تخلیقات شیئر کر دیتے تھے۔ چنانچہ امجد اسلام امجد کی غزل کی بھی تعریف کرتے ہوئے انھیں مطلع کیا کہ وہ یہ غزل ‘اثبات’ میں شائع کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں اور اشعر نجمی کو یہ ایمیل فارورڈ بھی کر رہے ہیں لیکن فاروقی نے پسندیدگی کے باوجود پوری انکساری کے ساتھ اس غزل پر اپنے کچھ مشورے بھی دیے جو غزل کی رسمی پیشکش اور اعراب وغیرہ پر مشتمل تھے۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں:

Dear Amjad Islam, I wasn’t able to open your ghazal dar ghazal when it came and wrote you about it۔ Now today I tried again, quite by chance, and was delighted to be able to open it۔

Thanks very much for sending me such a remarkable ghazal۔ It’s almost word-perfect۔ It is full of ravani and its images are clear and colourful۔ I like it very much۔ There’s hardly a misra’ that is superfluous۔

I have the following suggestions:

You shd call it just ghazal and put them all together in the original sequence with a one line gap between one ghazal and the next۔ Ghazal dar ghazal is something else۔ This title doesn’t do justice to your great effort۔

Do not spell words like rasta and saya and parda with an alif۔ There is no need to mutilate our beautiful spelling because some mullah said so۔ Let the original choti he remain۔ These are Urdu words and choti he is an Urdu letter۔ Why change the spelling?

Remove all the marks of interjection (!)۔ They serve no purpose and in fact disturb the rhythm of the calligraphy۔

I am sending the ghazal to Ash’ar Najmi, who brings out a very good magazine called "Isbaat” from Bombay۔ I have already carried out my suggestions no۔ 2 & 3۔ If you don’t agree with me, just email Ash’ar & say that you don’t agree with my suggestions and the ghazal shd be printed as it is۔

Ash’ar will email you soon۔

Thanks again for letting me see this excellent poetry۔

Yours, with best regards,

SRF۔, July 3, 2010۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ اردو کے بیشتر بڑے ادیب خود کو عرش معلیٰ کے آس پاس سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، چنانچہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ خود کو خواص بشری سے ماورا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، وہ اپنا محاسبہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں حتیٰ کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کے بجائے اس کی جواز جوئی کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ فاروقی صاحب کے پاؤں زندگی پر زمین پر جمے رہے اور اس سختی سے پیوست رہے کہ تعریف و ستائش کا طوفان بھی ان کے قدم زمین سے نہ اکھاڑ سکا۔

مثال کے طور پر ‘اثبات’ کے ایک شمارے میں شائع عبدالرحمٰن نوری کے ایک خط کی گرفت کرتے ہوئے فاروقی صاحب نے جواب لکھا جسے میں نے آئندہ شمارے میں چھاپ دیا۔ حسب معمول پرچہ ان کے پاس پہنچا، انھوں نے مجھے خط لکھا:

’’ابھی ابھی نیا ‘اثبات’ ملا۔ دیکھ ہی کر جی خوش ہو گیا۔ پرچہ حسب معمول دل کی گرمی اور تخلیقی وفور کی سرگرمی سے گرم ہے۔ مبارک باد۔ لیکن سرسری دیکھنے میں عبد الرحمٰن نوری کے جواب میں اپنا مراسلہ دیکھا تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ یہ میں نے کیا کر ڈالا؟ ہر چند کہ عبدالرحمٰن نوری کے الفاظ میں میرا مصرع technically درست ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مصرع جس طرح چھپا ہے (مراسلے میں اور تمھارے رسالے میں) وہ صحیح شکل نہیں ہے۔ میں نے مصرع پہلی بار لکھ کر نظر ثانی کی تو دیکھا ایک سبب خفیف زائد ہے۔ پھر میں نے اسی وقت دوسرا مصرع موزوں کیا:

ایون کا گویا ہو کہ ورجل ہومر

لیکن میری خالی الذہنی یا حماقت کہیے کہ مصرع اسی غلط شکل میں ٹائپ ہی نہیں ہوتا گیا بلکہ میں اپنے خیال میں اسے صحیح طور پر پڑھتا بھی گیا۔ یہ خیال ہی نہیں آیا کہ مصرعے کی جو شکل میں نقل کر رہا ہوں، وہ اصل شکل نہیں ہے۔ خیال پر تصحیح شدہ مصرع حاوی تھا اور میں سمجھتا رہا کہ وہی صحیح مصرع ہر جگہ لکھا ہے۔ میں اس سہو کے لیے تم سے، عبدالرحمٰن نوری سے اور ان تمام دوستوں سے معذرت خواہ ہوں جو میری شاعری کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔‘‘ (14 اپریل 2011)

اگرچہ فاروقی صاحب اپنی جس غلطی کا ذکر اپنے درج بالا خط میں کر رہے ہیں، آج تک ‘اثبات’ کے کسی قاری نے اس غلطی کی گرفت نہ کی اور شاید انھیں اس غلطی کی ہوا تک نہ لگی لیکن یہ فاروقی جیسے ایک کشادہ قلب اور باضمیر دانشور کا اضطراب تھا جس نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ اس پر وہ اپنے خط میں ماتم کرتا بھی نظر آ رہا ہے۔

ماتم تو خیر انھوں نے ظفر اقبال کے اس دعویٰ پر بھی کیا کہ فاروقی صاحب نے انھیں غالب سے بڑا شاعر قرار دے دیا ہے۔ اس پر جو ہنگامہ ہوا، تقریباً سب واقف ہیں لیکن شاید اس سے ناواقف ہیں جو انھوں نے مجھے کئی خط لکھ کر شیئر کیا۔ لیکن اب یہ قصہ کل۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

بہت ساری یادیں ہیں جنھیں سمیٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ کبھی کوئی واقعہ پہلے آ جاتا ہے یا کوئی واقعہ درمیان میں چھوٹ جاتا ہے۔ ایسا ہونا فطری ہے کہ جب آدمی کے پاس خرچ کرنے کے لیے بہت کچھ ہو تو وہ تھوڑا سا بوکھلا جاتا ہے کہ کب اور کہاں خرچ کرنا ہے۔ مجھے آج بھی بچپن کی وہ عیدیں یاد ہیں، جب ابا ہمیں دس روپے دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں دس روپے بہت ہوا کرتے تھے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دس روپے کہاں خرچ کریں؛ جھولا جھولیں، برف کا گولا چوسیں، ٹافیاں خریدیں، میٹھا پان بنوائیں یا اپنی ایک دن کی بادشاہت کو جتانے کے لیے کسی فقیر کے کٹورے میں اِکنی ڈالیں تاکہ اس کی ‘چھن’ کی آواز ہماری امارت کا دبدبہ ہمارے دوستوں میں قائم کر سکے۔

فاروقی صاحب اتنا بڑا خزانہ تھے اور اس ہیچمداں پر اتنا کچھ لُٹا گئے کہ اس کا ذکر میں ہزار انکسار کے ساتھ قلم برداشتہ کروں تو بھی اس میں احساس تفاخر کا شائبہ تو مل ہی جانا ہے اور پھر سوال اٹھتا ہے کہ آدمی اس پر کیوں نہ اِترائے کہ یہ ایک ایسے صاحب علم کی رفاقت کی ہمرہی کے ذکر کے حوالے سے ہے جس کے نام سے پورا ایک عہد موسوم ہو چکا ہے اور شمیم حنفی صاحب جیسا نقاد کہہ اٹھتا ہے کہ ہم ‘عہد فاروقی’ میں جی رہے ہیں۔

ظفر اقبال بلا شبہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ غزلیہ شاعری کی میں انھوں نے جو اجتہادات کیے، ان کے اثرات نئی نسل پر واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ ‘شب خون’ میں فاروقی نے انھیں بہت اہتمام سے شائع کیا، خود ظفر اقبال صاحب اپنے حالیہ ایک بیان میں تسلیم کرتے ہیں کہ انھیں ہندوستان میں کوئی نہ جانتا تھا، شب خون ہی کے ذریعے ان کا ڈنکا چار دانگ عالم بجا۔ لیکن اس ڈنکے کی چوٹ ظفر اقبال خود برداشت نہ کر سکے اور انھوں نے ایک روز، جب ان کا سورج سوا نیزے پر تھا، انھوں نے صور اسرافیل پھونک دیا کہ فاروقی نے انھیں غالب سے بڑا شاعر قرار دے دیا ہے۔ ظاہر ہے قیامت آنی تھی، سو آئی۔ حساب کتاب شروع ہو گئے۔ ‘احمد کی داڑھی بڑی یا محمود کی’، بحث چل نکلی۔ سوشل میڈیا اور ہند و پاک کے رسائل سب مصروف ہو گئے۔ میں نے بھی فاروقی کو کریدا:

’’آپ نے تازہ ‘خبرنامہ شب خون’ (نمبر 19) میں ظفر اقبال کے ایک دعوے کی تردید میں لکھا ہے، ‘ظفر اقبال صاحب ایک بات اکثر کہتے رہے ہیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی نے مجھے غالب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے۔ جب تک وہ یہ بات بلا ثبوت کہتے رہے تھے، مجھے تردید کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اب انھوں نے شمیم حنفی کی سند دی ہے کہ حنفی صاحب کہتے ہیں۔۔۔ (الخ)’

’’میرے خیال میں ظفر اقبال اور دوسروں کو یہ غلط فہمی آپ کی اس بات سے ہوئی ہو گی، ‘گلافتاب’ کے بارے میں ایک بار میں نے لکھا تھا کہ دیوان غالب کی اول اشاعت (1841) کے بعد اردو غزل کی تاریخ میں دوسرا انقلابی قدم ‘گلافتاب’ کی اشاعت (1966) تھی، بیچ میں کچھ نہ تھا۔’ (معرفت شعر نو، ص 226)

آپ نے شاید یہ بات سب سے پہلے ‘گلافتاب’ کے دیباچے میں لکھی تھی۔ اس بارے میں میرا طالب علمانہ استفسار یہ ہے کہ بے شک آپ نے اپنے اس جملے میں ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار نہیں دیا ہے لیکن اس موازنے نے ظفر اقبال کو غالب کا ہم پلہ قرار تو دے ہی دیا، جب کہ اس ‘اعزاز’ سے اس ‘بیچ’ کے دوسرے کئی اہم شعرا مثلاً شاد عظیم آبادی وغیرہ محروم ہو گئے۔ کیا واقعی 1841 اور 1966 کے درمیانی عرصے میں غزل کے حوالے سے تازہ فکری، زبان پر قدرت اور عروض و آہنگ میں بے تکلفی کی ایسی مثال ناپید ہے جس کے سبب آپ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے مجبور ہوئے؟‘‘ (5 مارچ 2013)

فاروقی صاحب کا جواب اسی روز آ گیا۔ لکھتے ہیں:

’’اجی، انقلابی قدم کو شاعرانہ عظمت سے کیا تعلق؟ عظمت اللہ خان نے بھی انقلابی قدم اٹھایا تھا، لیکن وہ قدم اٹھا کا اٹھا ہی رہ گیا۔ اقبال کو معرض بحث میں لانا غیر مناسب تھا کیوں کہ اقبال کے کارنامے کے لیے ‘انقلابی’ وغیرہ صفات بہت چھوٹی ہیں۔ اور بہرحال، غزل میں اقبال نے کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا۔ انھوں نے یہ ضرور کیا کہ جن کاموں کے لیے غزل پہلے استعمال ہوتی رہی تھی (عملی پیغام، سیاسی رائے زنی، ناصحانہ باتیں، غیر عشقیہ مضامین) ان کو وہ اپنی غزل میں آگے آگے لائے۔ (خیال رہے کہ میں ‘بال جبریل’ کے ان منظومات کو غزل نہیں سمجھتا جن پر نمبر پڑے ہیں۔ اس پر میں نے کہیں تفصیل سے اظہار خیال بھی کیا ہے۔) غالب کی غزل اپنے زمانے میں انقلابی تھی، کیوں کہ غزل کے شاعر کا منصب اس زمانے میں عشقیہ اور ‘پُر تاثیر’ مضامین کو بیش از بیش باندھنا تھا۔ غزل کو کھلے طور پر اور پورے طور پر غالب نے خیال بند بنایا اور اس میں نیا انداز استفسار کا بھی داخل کیا۔ (یہ سب باتیں لوگ اس وقت تک بھول چکے تھے، یا غالب کے پہلے اس پہلو پر، یعنی استفسار پر، زور بہت کم تھا۔) ان معاملات کو میں نے دو تین مضامین تفصیل سے بیان کیا ہے۔

’’رہے شاد عظیم آبادی تو وہ غالب کی دربانی کے بھی لائق نہیں ہیں۔ وہ اچھے شاعر تھے، اور بس۔ انھوں نے حسرت موہانی سے بہت پہلے غزل پر زور دیا اور حالی وغیرہ کے اتباع میں یہ نہ کہا کہ غزل اب فضول ہو چکی ہے۔ یہ بڑی بات تھی، اور یاروں نے اسی بات کو کچھ اہمیت نہ دی۔

’’غالب کا انتقال 1869 میں ہوا۔ ذرا خیال کرو، ان کے بعد کون سا شاعر ایسا ہوا جس نے غزل کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہو، اس کو تہ و بالا کر دینا تو بڑی ہے؟ یہ مقام تو داغ کو بھی نصیب نہیں۔

’’میں نے ‘گلافتاب’ پر کوئی دیباچہ نہیں لکھا۔ اس کی اشاعت کے وقت میں ایک کم و بیش غیر اہم شخص تھا۔ میں نے چودھری محمد نعیم کی فرمائش پر ایک مضمون انگریزی میں ظفر اقبال پر لکھا تھا، 1980 میں۔ وہ غزل پر انگریزی میں ایک کتاب مرتب کر رہے تھے ؛‘Urdu Ghazal Text and Context’، اس کے لیے انھوں نے مضمون کی فرمائش کی تھی۔ کتاب تو نہ بن سکی لیکن مضمون میں نے لکھ دیا جو بعد میں میرے انگریزی مضامین کے پہلے مجموعے میں شامل ہوا اور پھر شاید کبھی اور کہیں نہیں چھپا۔

’’خیال رکھو کہ اہمیت اور شے ہے، عظمت اور شے۔ اہم تو نظیر اکبرآبادی بھی ہیں۔ اہم تو فراق گورکھپوری بھی ہیں لیکن ان کے اچھے شاعر ہی ہونے میں شک ہے، ان کا عظیم شاعر ہونا معلوم۔

’’چلو، اسی بہانے تم سے گفتگو بھی ہو گئی۔‘‘ (5 مارچ 2013)

اِدھر ہمارے درمیان باتیں ہو رہی تھیں اور اُدھر ظفر اقبال اور ان کے قارئین کے بیانات کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک بار پھر میں نے فاروقی صاحب کو اس تعلق سے ایمیل کیا:

’’جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ گذشتہ دنوں ’خبر نامہ شب خون‘ میں شائع شدہ آپ کی تحریر ‘غالب یا مغلوب’ پر اور پھر اس ضمن میں میرے استفسار پر آپ نے جو خط لکھا تھا، اس پر ‘فیس بک’کے احباب نے کافی گرما گرم بحث کی تھی۔ اسی بحث کے دوران ظفر اقبال صاحب کے کسی قریبی مداح نے یہ نوید سنائی تھی کہ ظفر اقبال جواب لکھ رہے ہیں۔

’’اب یہ جواب چھپ چکا ہے۔ روزنامہ ‘دنیا’ میں ظفر اقبال نے اپنے کالم ‘دال دلیا’ میں دو قسطوں میں جواب دیا ہے جو یکم اپریل اور ۲ اپریل ۲۰۱۳ کی اشاعت میں شامل ہے۔ اس جواب کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ مزاح نگاری بھی ان کا میدان ہے۔ ‘عذر لنگ’ کی ایسی نادر مثال اس سے پہلے میں نے دیکھی نہ سنی۔

‘اثبات’ کا نیا شمارہ تیار ہے اور میں اسے پرسوں پریس میں دینے والا تھا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب اپنے اداریہ میں ظفر اقبال کی اس ‘ داستان مغلوبیت’ پر ذرا روشنی ڈال دوں۔ پہلے بھی سوچا تھا، لیکن ایک بڑے شاعر کی رعایت دے کر انھیں بخش دیا تھا۔ بلاشبہ وہ بڑے شاعر ہیں لیکن بہت برے مضمون نگار ہیں۔ پہلے بھی اپنے ایک کالم میں وہ آپ پر بہت ہی نا زیبا حملہ کر چکے ہیں۔

’’بہرحال ان کے جواب کی تصویری فائل آپ کو بھیج رہا ہوں، اسے zoom کر کے پڑھ لیں۔ بطور خاص دوسری قسط میں انھوں نے جن لوگوں کے حوالے سے اپنا موقف درست قرار دیا ہے، اس بارے میں آپ کی رائے جاننے کا خواہش مند ہوں تاکہ میں اسے اپنے اداریے میں شامل کر سکوں۔ حالاں کہ یہ کار زیاں ہے لیکن میرے خیال میں کبھی کبھی ایسے بے کار کام بھی کر لینے چاہئیں۔‘‘ (12 اپریل 2013)

ایک بار پھر فاروقی صاحب نے اس کا جواب فوراً بلکہ اسی دن دے دیا، ملاحظہ فرمائیں:

’’برادرم، عزیزم، سلام علیکم۔

’’پرچہ پریس جانے دو۔ پرچے کا چھپنا زیادہ اچھی خبر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ظفر اقبال کی خبر لی جائے۔

’’لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ میری کوئی تحریر ‘غالب یا مغلوب’ نام کی نہیں ہے۔ خدا معلوم تم کس طرح ظفر اقبال کے فریب میں گرفتار ہو گئے۔ تم نے تو خبر نامہ دیکھا ہو گا۔ ظفر اقبال کی تحریر کا عنوان میں نے دیا ہے: ‘ایک اور تبصرہ’۔ اس کے بعد میں نے اپنا جواب لکھا ہے جس پر کوئی عنوان نہیں ہے۔ ظفر اقبال صاحب نے لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے یہ عنوان اپنے کالم میں شروع میں لگا دیا ہے اور اسی عنوان سے ان کا کالم کئی جگہ اور چھپا ہے (بقول حیدر قریشی)۔ تعجب ہے کہ تم بھی اس دھوکے میں آ گئے۔

’’میرا خیال ہے اس بات کا جواب زیادہ ضروری ہے۔

’’لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ ‘اثبات’ کے صفحات زیادہ قیمتی ہیں، اور تمھارا اداریہ تو بالکل ان کاموں میں نہیں لگنا چاہیے۔‘‘

آپ اس خط سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فاروقی صاحب میری خواہش کے باوجود ‘اثبات’ کو اپنے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس رسالے کو دفاعی مورچہ نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ ‘اثبات’ کی سنجیدگی اور وقار کو بحال رکھنا چاہتے تھے، سو انھوں نے کہا کہ ’’اثبات کے صفحات زیادہ قیمتی ہیں۔‘‘

میں نے ان کی بات مان لی اور اثبات کو اس قضیے سے دور رکھا لیکن میں نے ظفر اقبال کا جواب لکھا اور وہ فاروقی صاحب کو بھیج دیا۔ فاروقی نے اسے پڑھا اور مجھے لکھا:

’’ظفر اقبال کو تم نے خوب کھری کھری سنائی۔ جزاک اللہ۔ لیکن ان کی اصلاح اب شاید ممکن نہیں۔ آصف فرخی چھاپ دیں تو اچھا، ورنہ جہاں بھی چھپے گا ایک شور تو اٹھے گا ہی۔ گرم بازاری تو ہو گی ہی۔ ‘اردو ٹائمز’ میں چھپنا بہت اچھا ہو گا۔‘‘ ( 3 مئی، 2013)

میرا جواب ‘اردو ٹائمز’ میں شائع ہو گیا۔ میں نے اس کا تراشہ فاروقی صاحب کو بھیج دیا۔ فاروقی صاحب نے ‘خبر نامہ شب خون ‘ میں اسے شائع کرنے کے لیے مجھ سے کہا کہ اسے ذرا مختصر کر کے اس کی اِن پیج فائل بھیج دو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی، ان کا خط آیا:

’’تم نے ظفر اقبال کے بارے میں کالم مطبوعہ، ‘اردو ٹائمس’ کی اِن پیج فائل بھیجی، اچھا کیا۔ میں اسے پڑھ کر محظوظ ہوا۔ اسے محفوظ کر لیا ہے کہ غالباً خبر نامے کے لیے کار آمد ہو گا۔ حتمی فیصلہ ابھی نہیں کر رہا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طبیعت اس سارے تنازعے سے کچھ اُکتا سی گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ سنا ہے ظفر اقبال نے ابھی کوئی اور کالم تحریر فرمایا ہے۔ ہم لوگ جواب لکھتے رہے اور وہ مسلسل جواب آں غزل فرماتے رہے۔ اور ہم یہاں سے جواب لکھتے رہے تو یہ سلسلہ شیطان کی آنت بن جائے گا۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ کلکتے سے ندیم احمد نے ظفر اقبال کے دفاع میں ایک مراسلہ لکھا ہے، اگر اسے چھاپوں گا تو تمھارا کالم ضرور چھاپوں گا۔ ( 18 مئی، 2013)

یہ مضمون بعد میں ‘شب خون خبر نامہ’ میں بھی چھپا لیکن اس کے بعد میں نے اس قضیے سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور اس خاص شمارے کی طرف رُخ کیا جس کا عنوان تھا؛ ’’ادب میں عریاں نگاری اور فحش نگاری‘‘ جس کی اشاعت کے بعد میں جماعتیوں کی زد میں آ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

حضرت خواجہ عبد الواحد بن زیدؒ کا قول ہے کہ دولت کی حفاظت تم کرتے ہو اور علم تمہاری حفاظت کرتا ہے۔ دولت بانٹنے سے کم ہوتی ہے لیکن علم تقسیم کرنے سے بڑھتا ہے۔ فاروقی صاحب کا علم کے تعلق سے یہی مسلک تھا۔ ان کی مطبوعات کی تعداد جتنی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ انھوں نے لوگوں کو اپنا علم تقسیم کیا۔ فاروقی صاحب ہمیشہ اردو کے طالب علموں اور متجسس حضرات کے استفسارات کے جواب بذریعہ ایمیل دیا کرتے تھے۔ فاروقی صاحب کے ایسے مکتوبات جمع کیے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ اب تک جتنا منظر عام پر آیا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ علم ان مکتوبات میں مدفون ہو گا۔ میری خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ میری درخواست پر وہ دوسروں کے استفسارات کا جواب دیتے ہوئے اسے مجھ سے بھی اکثر شیئر کر لیا کرتے تھے۔ ان استفسارات کے موضوعات مختلف النوع ہیں۔ میں اس قسط اور آئندہ کی کچھ قسطوں میں زبان و ادب کے حوالے سے ان کے ایسے ہی کچھ برقی خطوط کو پیش کروں گا جو فاروقی صاحب نے مجھ سے شیئر کیے تھے۔

 

محمد سیف عالم (کھڑگ پور، مغربی بنگال) نے حسب ذیل سوال دریافت کیے:

1۔ شعر فہمی کے بنیادی اصول کیا ہیں؟

2۔ میر کو ’خدائے سخن‘ کیوں کہتے ہیں؟ (اگر دو چار جملوں میں کہنا ہو تو کیا کہنا چاہیے)

3۔ تغزل کیا ہے؟ (بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک تغزل کی جو تعریف کی گئی ہے وہ بڑی گڈ مڈ ہے۔)

4۔ میر اور حسرت کو شہنشاہ متغزلین کیوں کہتے ہیں؟

5۔ کلکتہ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں ‘میر تقی میر۔ حیات اور فن’ کے حوالے سے دو روزہ سمینار تھا۔ اس سمینار میں پروفیسر ابو الکلام قاسمی صاحب بھی مدعو تھے۔ انھوں نے آپ کے متعلق کہا کہ ‘شعر شور انگیز’ واقعی غیر معمولی کام ہے مگر اس کتاب میں آپ نے دو طرح کی زیادتیاں کی ہیں۔ اول، آپ نے جن شاعروں کی پہلے تعریف کی تھی، جب میر کی تعریف و توصیف کرنے میں آئے، تو ان تمام شاعروں کو یہ کہہ کر disown کر دیا کہ میر کے سامنے یہ تمام شاعر (مثلاً مومن، غالب، فراق وغیرہ) نہیں ٹھہرتے۔ انھوں نے دوسری زیادتی بتائی ہی نہیں۔ ان کے اس comment میں کہاں تک صداقت ہے؟

6۔ اسی سمینار میں پروفیسر لطف الرحمان صاحب بھی تھے۔ انھوں نے آپ کے تعلق سے کہا کہ کبھی انھوں نے آپ سے ایک شعر کا مطلب پوچھا تھا مگر آپ بتا نہ سکے۔ وہ شعر ہے۔

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید ہی کچھ رہے

دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

کیا شعر واقعی مشکل اور ناقابل تشریح ہے؟

————————

اب فاروقی صاحب کا جواب ملاحظہ فرمائیں:

عزیزم، سلام علیکم۔ تم ابو الکلام سے اتنا تو پوچھ لیتے کہ وہ دوسری بات کیا تھی؟ فراق کی تعریف میں نے کھل کر کبھی نہیں کی۔ اور میر کے مقابلے میں وہ طفل مکتب معلوم ہوتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور؟ مومن پر میں نے شاید ہی کچھ لکھا ہو، اور جو بھی لکھا ہے اس میں ان کی اتنی ہی تعریف کی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ غالب کے کئی مضامین اور ان کی کئی شاعرانہ صفات میر پر مبنی ہیں۔ یہ بات میں مدتوں سے کہتا رہا ہوں۔ اس میں غالب کی برائی کہاں سے نکلی؟ اگر یہ کہا جائے کہ غالب نے بہت کچھ بیدل سے مستعار لیا ہے تو اس میں غالب کی کوئی برائی نہیں، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ غالب نے میر سے بہت کچھ مستعار لیا ہے تو اس میں غالب کی برائی ہے۔ ایسا کیوں؟ کیا اس لیے کہ میر بچارہ ہندی کا شاعر ہے اور بیدل فارسی کے شاعر ہیں۔ ‘شعر شور انگیز’ شاید تم نے پڑھی نہیں۔ غالب نے جگہ جگہ میر سے استفادہ کیا ہے اور کبھی کبھی وہ میر سے بڑھ گئے ہیں۔ دوسروں سے استفادہ کرنا کوئی بری بات نہیں۔ یہ سب بحثیں ‘شعر شور انگیز’ میں مذکور ہیں۔ اگر تم نے وہ کتاب پڑھی ہوتی تو تمھیں الجھن نہ ہوتی۔ کچھ نہیں تو ہر جلد کا اشاریہ دیکھ لیتے کہ اس میں غالب کا ذکر کہاں کہاں ہے اور کس انداز سے ہے۔

شعر فہمی کے بنیادی اصول چار ہیں:

جس زبان کا شعر ہے اس زبان سے بہت اچھی واقفیت ہونا۔ پوری واقفیت ہو تو اور بھی اچھا ہے۔

جس شعریات اور جن رسومیات کے تحت وہ شعر کہا گیا ہے اس سے پوری واقفیت ہونا۔

جس طرح کا شعر زیر بحث ہے، اس طرح کے اور بھی شعروں، اور اگر کسی شاعر کا مطالعہ ہے، تو اس کی طرح کے اور شعرا سے اچھی طرح واقف ہونا۔ یہ شعرا ماضی کے بھی ہوں گے اور حال کے بھی۔

جس شعر یا شاعر کا مطالعہ مقصود ہے، اس سے پوری مناسبت اور ذہنی قرب ہونا۔

ان میں سے ایک چیز بھی کم ہو گی تو شعر فہمی کا تقاضا پورا نہ ہو گا۔

میر کو خدائے سخن کیوں کہتے ہیں، اس کا جواب’ شعر شور انگیز’، جلد اول، کے پہلے باب میں ہے، اور دوسری جگہوں پر بھی مذکور ہے۔ اس میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ میر کو شہنشاہ متغزلین کیوں کہا جاتا ہے۔ رہے حسرت، تو میں انھیں شہنشاہ متغزلین بالکل نہیں سمجھتا۔ جو انھیں ایسا سمجھتا ہو، اس سے پوچھو۔

‘تغزل’ کوئی اصطلاح نہیں۔ پرانے زمانے میں اس کا وجود نہ تھا۔ محمد حسین آزاد تک کے یہاں یہ نہیں ملتی۔ یہ ایک فضول تصور ہے جو اس بات پر مبنی ہے کہ غزل اور انگریزی Lyric ایک ہی طرح کی چیز ہیں۔ لہٰذا اگر Lyric میں Lyricism ہوتی ہے تو غزل میں تغزل ہوتا ہے۔ یہ باتیں بالکل مہمل ہیں۔ میں انھیں نہیں مانتا۔ جو مانتا ہو اس سے پوچھو کہ انگریزی Lyric کیا ہے اور اردو /فارسی غزل کیا ہے اور Lyricism کیا ہے اور تغزل کیا ہے۔

مجھے یاد نہیں آتا کہ لطف الرحمٰن نے مجھ سے میر کے اس شعر کے معنی پوچھے ہوں اور میں نہ بتا سکا ہوں۔ ‘شعر شور انگیز’ جلد سوم کو چھپے ہوئے مدت ہو گئی اور اس شعر پر مجھے لکھے ہوئے اس بھی زیادہ مدت ہو گئی۔ ہو سکتا ہے کبھی بچپن میں انھوں نے مجھ سے پوچھا ہو اور میں بتانے سے قاصر رہا ہوں۔ فی الحال’ شعر شور انگیز’کی جلد سوم (پہلا ایڈیشن)، صفحہ ۲۹۳ تا صفحہ ۲۹۶ دیکھ لو۔ (صحیح مصرع بھی دیکھ لو۔)

تم سے استدعا یہ ہے کہ میری تحریریں کچھ پڑھ لو پھر میرے بارے میں سوال کرو تو میرا وقت ضائع نہ ہو۔ (2 جنوری 2011)

————–

11 فروری 2012 کو محمد سیف عالم صاحب نے فاروقی صاحب کو ایک اور ایمیل بھیج کر دریافت کیا کہ علامہ اقبال نے یہ شعر کس پس منظر میں کہا تھا:

تمدن، تصوف، شریعت، کلام

بتان عجم کے پجاری تمام

 

فاروقی صاحب نے اس ایمیل کا جواب 28 فروری 2012 کو دیتے ہوئے کہا:

عزیز، میں سمجھا نہیں کہ تم ‘پس منظر’ سے کیا مراد لیتے ہو۔ شعر بالکل صاف ہے۔ اقبال کا خیال تھا (بعد میں اس میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی) کہ مسلمانوں کی فکر، ان کا قومی مزاج، ان کا فلسفہ مذہب (یعنی علم کلام)، ان کا تصوف، یہ سب غیر اسلامی ہیں۔ ‘عجم’ سے مراد ہے ‘وہ شے یا وہ بات یا وہ لوگ جو غیر عرب ہوں۔’

اقبال کا خیال اس شعر میں یہ ہے کہ ‘عجم’ سے جو کچھ نکلا ہے (اس میں تصوف بھی شامل ہے) وہ سب غیر اسلامی اور عرب اور رسول عربی کی تعلیمات سے دور، بلکہ اس کا مخالف ہے۔

ظاہر ہے کہ اس بات میں بحث اور اختلاف کی گنجائش ہے۔ لیکن اقبال نے جب ‘ساقی نامہ’ لکھا تھا تو ان کا خیال یہی تھا کہ تصوف کی اصل اسلام میں ہے، اور فلسفہ خاص کر علم کلام، سارے کا سارا یونان کی فکر پر مبنی، یا اس سے متاثر ہے۔ حتیٰ کہ شرعی مسائل میں بھی جس قسم کی چھان بین ہوئی ہے وہ عقل پر مبنی ہے، اسلام کی اصل روح سے بہت دور ہے، خاص کر وہ چھان بین جو شریعت کے فروعی مسائل کے بارے میں ہے کہ تیمم کن حالات میں جائز ہے اور کنویں میں بلی گر کر مر جائے تو کتنے ڈول پانی نکالا جائے کہ پانی پاک ہو جائے، وغیرہ۔

————————

سید اشرف بیابانی کے شعر پر ماسکو سے لدمیلا واسیلووا نے فاروقی صاحب سے دریافت کیا؛ ’اردو کا ابتدائی زمانہ’ میں آپ نے سید اشرف بیابانی کا جو شعر پیش کیا ہے، اسے نہایت عمدہ کہا ہے اور میں اس پر اٹک گئی۔

سارے لوگاں کتے ہیں اشرف کے شعر سن کر

کیا پھر جیا ہے شوقی یارواں مگر دکن میں

اس کی خوبی کیا ہے؟ سادگی؟ یا لہجہ جو میں محسوس نہیں کر سکتی ہوں۔ اگر اس شعر کی آپ کی تعریف نہ پڑھتی تو اس پر رُکنے کا مجھے کبھی خیال تک نہ آتا۔ یہی میری مصیبت ہے کہ کبھی بہت ہی آسان شعر بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ (عجیب بات ہے لیکن کبھی کبھار مشکل اشعار بہتر طور پر سمجھ میں آتے ہیں۔)‘‘

 

فاروقی صاحب جواب لکھتے ہیں:

’’اشرف بیابانی کے شعر میں پہلی خوبی تو یہ ہے کہ یہ شعر انھوں نے اپنی تعریف میں کہا ہے، لیکن اس طرح کہا ہے گویا دوسرے تعریف کر رہے ہیں اور میں تو صرف دوسروں کا بیان دہرارہا ہوں۔ اس طرح اپنی تعریف بھی ہو گئی اور خود اپنے منھ میاں مٹھو بننے کے الزام سے بھی بچ گئے۔

’’دوسری خوبی یہ ہے کہ اشرف بیابانی اپنے شعر کی تعریف تو کر ہی رہے ہیں، لیکن یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ میں بہت مشہور بھی ہوں۔ جو لوگ میرے شعر سنتے ہیں وہ حیرت کرتے ہیں کہ ولی دوبارہ پیدا ہو گئے ہیں کیا؟ ‘سارے لوگاں ٗ کے دو معنی ہیں ؛ (1) ہر شخص، جو بھی سنتا ہے اور (2) سارے لوگ، یعنی جو لوگ جہاں بھی ہیں۔

’’تیسری خوبی یہ ہے کہ شعر میں انشائیہ انداز ہے، یعنی اس میں سوالیہ جملہ ہے: کیا شوقی دکن میں پھر سے پیدا ہو گیا ہے؟ اس طرح کہنے سے بات میں زور ہے اور معنی کا لطف ہے۔ اگر یہ بات یوں کہتے کہ:

‘پھر سے جیا ہے شوقی یاراں یہاں دکن میں ‘

’’تو یہ زور اور یہ لطف نہ پیدا ہوتا۔ جیسا کہ تم جانتی ہو، انشائیہ جملے کی طاقت اس بات میں ہے اسے جھٹلا نہیں سکتے، یعنی اس پر جھوٹ یا سچ کا حکم نہیں لگ سکتا۔ اور انشائیہ جملہ اسی باعث عام جملوں سے زیادہ معنی رکھ سکتا ہے۔

’’ایک بات اور بھی ہے: اشرف نے اپنے بارے میں کچھ کہے بغیر بتا دیا کہ میں دکن کا ہوں، اور یہ بھی اشارہ کر دیا کہ شوقی جیسا شاعر اگر ہو گا تو دکن ہی میں ہو گا۔‘‘ (6 اگست 2011)

——————–

ایک اور باذوق قاری نے فاروقی صاحب سے بذریعہ ایمیل (4 مارچ 2012) دریافت کیا کہ:

’’تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

’’مومن کے اس شعر میں آخر کیا خوبی ہے کہ غالب اس کے بدلے اپنا پورا دیوان دینے کے لیے تیار تھے؟‘‘

 

فاروقی صاحب اس استفسار پر جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’عزیزم، اس بات کی کوئی سند نہیں کہ غالب نے یہ بات کہی تھی، صرف کچھ لوگوں کا بیان ہے کہ غالب ایسا کہتے تھے۔ یا اگر انھوں نے کہا تو کس بنا پر کہا۔

’’شعر یقیناً اچھا ہے۔ اس میں معنی کی کثرت ہے، خاص کر دوسرے مصرعے میں۔ اور پورا شعر بظاہر نہایت صاف اور سادہ ہے۔

(1) جب کوئی دوسرا میرے پاس نہیں ہوتا۔ میں بالکل اکیلا ہوتا ہوں۔

(2) جب کوئی غیر میرے پاس نہیں ہوتا، صرف اپنے ہوتے ہیں۔

(3) غیر سے خود متکلم مراد ہو سکتا ہے۔ یہ مضمون عام ہے کہ اپنے وجود کا احساس اس بات کی دلیل ہے کہ ابھی ہم غیریت کی منزل میں ہیں۔ غالب کا مصرعہ ہے: ‘درمیان ماو غالب ماو غالب حائل است’

(4) گویا ہوتے ہو، یعنی تب واقعی پاس نہیں ہوتے، لگتا ہے کہ تم پاس ہو۔

(5) گویا، بمعنی ‘گفتگو کرتا ہوا’۔ تم اس وقت مجھ سے گفتگو کرتے ہو جب کوئی اور نہیں ہوتا۔

(6) ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب کوئی دوسرا معشوق پاس نہ ہو تو تم (معشوق حقیقی) میرے پاس ہوتے ہو۔

(7) جب دوسرے لوگ ساتھ چھوڑ کر دو ہو جاتے ہیں تو تم میرے پاس آ جاتے ہو۔

(4 مارچ 2012)

 

فاروقی صاحب 27 اکتوبر 2011 کو محمد اظہار الحق کے استفسار پر جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

 

‘حیاتی’ بمعنی ‘زندگی’ پرانی اردو میں تھا۔ ‘اردو لغت، تاریخی اصول پر’ میں یہ معنی نہیں دیے ہیں لیکن جو سندیں آپ نے بیان کردہ معنی کے شاہد کے طور پر لکھی ہیں، ان سے ‘حیاتی’ بمعنی ‘زندگی’ صاف ظاہر ہیں۔ مثلاً ‘آرائش محفل’ کا جملہ کہ حاتم نے کہا، ‘اگر میری حیاتی باقی ہے تو میں۔ ‘

‘حیاتی’ بمعنی ‘زندگی’ جدید اردو میں نہیں ہے۔ فارسی (جدید و قدیم) میں بھی نہیں ہے۔‘‘

————————-

ایک صاحب نے فیض کی درج ذیل نظم پر فاروقی صاحب کی رائے جاننی چاہی:

 

اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند

عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے

عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری

سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے

آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں

اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی

بے وفائی کی گھڑی، ترکِ مدارات کا وقت

اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی!

ترکِ دنیا کا سماں، ختمِ ملاقات کا وقت

اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے

اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں، رہنے دو

کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو

اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے

اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے

 

اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح

زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے

اور ہر کشتۂ واماندگیِ آخرِ شب

بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب

جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے

 

فاروقی صاحب اس نظم پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’یہ نظم فیض کی ان نظموں میں سے ہے جو کہنا کچھ چاہتی ہیں لیکن شاعر انھیں کچھ اور کہنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ کوئی بہت اچھی نظم نہیں ہے۔ اس میں فیض صاحب کی تمام کمزوریاں نمایاں ہیں۔ خاص کر کے ان کی یہ کمزوری کہ ان کے الفاظ بہت اچھے اور شیریں معلوم ہوتے ہیں لیکن ان میں معنی بہت کم ہوتے ہیں۔ اس نظم میں یہ کمزوری بھی ہے کہ ایک ہی بات کے لیے کئی کئی لفظ لائے گئے ہیں لیکن پھر بھی معنی پوری طرح ادا نہیں ہوتے۔

’’بہرحال، دل آوارہ سے مراد کوئی تھکا ہارا شخص ہے جو شاید کوئی انقلابی ہے یا شاید کوئی آدرش پرست نوجوان یا کوئی عاشق جس نے انقلاب یا آدرش یا معشوق کو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن ناکام رہا ہے۔ اب رات کا وقت ہے، یعنی کوششیں تھک گئی ہیں، یا اب اس کی عمر ختم ہو رہی ہے۔ ایسے میں وہ ایک اور کوشش کرنا اور جان کی بازی لگا دینا چاہتا ہے کہ شاید کچھ کامیابی حاصل ہو۔ لیکن متکلم اسے سمجھاتا ہے کہ ہر راہ بند ہو چکی، ہر امکان کھنگالا جا چکا، اب تم کہیں بھی جاؤ، کچھ ملنا نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں بہتر یہ ہے کہ تم (یعنی انقلابی جوش اور انقلابی تحریک وغیرہ) کچھ دیر کے لیے اپنی جد و جہد بند کر دو اور کسی مناسب وقت کا انتظار کرو۔ ‘وہ صبح کبھی تو آئے گی’ کے پلپلے پیغام کی طرح یہ نظم بھی اسی ‘امید’ پر ختم ہوتی ہے کہ کبھی وہ لمحہ آئے گا جب آخر شب کی تھکن کے مارے ہوئے لوگ (یعنی تم جیسے انقلابی/آدرش پرست/عاشق) اپنی پرانی تھکن اور مایوسی کو پس پشت ڈال کر ملاقات اور جان پہچان (یعنی انقلاب وغیرہ میں کامیابی) کے لیے جد و جہد پر آمادہ ہو سکیں گے۔

’’امید ہے بات اب واضح ہو چکی ہو گی۔ نظم کی اصل کیفیت مایوسی اور شکست کی ہے۔ لیکن فیض صاحب نے اپنی ترقی پسندی سے مجبور ہو کر اس میں کچھ امید اور ولولہ گھولنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے برخلاف ‘تنہائی’ جیسی نظم بہت کامیاب ہے، کیوں کہ اس میں ترقی پسندی اور انقلاب کا چکر نہیں چلایا گیا ہے۔

(19 نومبر 2010)

———————–

 

جب میں زی ٹی وی (Zee Tv) کے ایک شو کے لیے مکالمے لکھ رہا تھا تو ایک عجیب تماشے سے دو چار ہوا۔ یہ شو ایک پرتگالی شو کی ٹرانسکرپٹ پر مبنی تھا جس کا اسکرین پلے تو ظاہر ہے وہی رہنا تھا لیکن اس کا مکالمہ ہندی (روزمرہ کی زبان) میں لکھنا تھا۔ یہ ایک بڑا پروجیکٹ تھا، چینل کی طرف سے معروف ہندی ادیب کملیشور کو اس کا creative head بنایا گیا تھا جو ہر قسط کے مکالموں کو دیکھ اور پرکھ کر فائنل کرتے تھے، تب کہیں جا کر پروڈکشن ہاؤس کو اسے شوٹ (shoot) کرنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ میں پوجا بھٹ کے پروڈکشن ہاؤس‘Fish Eye’کی طرف سے تھا۔ اس وقت تک میرے تمام پروڈیوسروں کو میرے مکالمے پر کافی بھروسہ قائم ہو چکا تھا چونکہ اس شو سے پہلے ‘زی ٹی وی’ میں میرے دو سیریلز آ چکے تھے اور ‘سہارا ٹی وی’ میں ایک شو پر مجھے انڈین ٹیلی ویژن اکادمی ایوارڈ بھی مل چکا تھا۔ لیکن متذکرہ شو نے مجھے ناکوں چنے چبوا دیے۔

اس شو کے پہلے ایپی سوڈ کی اسکرپٹ کا مکالمہ لکھا، پروڈکشن ہاؤس نے اسے چینل میں جمع کیا، دوسرے دن کملیشور جی نے اسے مسترد کر دیا۔ استفسار کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ کملیشور جی کے مطابق مکالمے روزمرہ کی زبان میں ہونے چاہئیں، یہ پُر تصنع زبان ہے، کتابی ہے۔ پروڈکشن ہاؤس نے مجھے آفس بلا لیا اور کہا، سر جی کل سے ہم نے چار روز کی شوٹنگ رکھ لی تھی، اب آپ جلدی سے اسے re-write کر دیں۔ میری مدد کو ڈائریکٹر انل شرما (سینئر) بھی پہنچ گئے، وہ میرے پرانے دوست تھے۔ ایک بار پھر ہم دونوں سر جوڑ کر بیٹھے اور دو گھنٹے کے اندر اندر مکالمے کو پھر سے لکھ کر پروڈکشن ہاؤس کو تھما دیا۔ وہ تو خیر ہمارے سر پر منڈلا ہی رہے تھے، انھوں نے اسکرپٹ لپکا اور فوراً چینل کو بھیج دیا۔ دو گھنٹے کے اندر کملیشور جی کا جواب آ گیا، ‘رائٹر بدل دیجیے، زبان نہیں جانتا۔ ‘

میری زبان تالو سے جا لگی، اس لیے نہیں کہ ایک بڑا سیریل میرے ہاتھوں سے جا رہا تھا بلکہ اس لیے کہ میری خود اعتمادی رخصت ہو رہی تھی۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ اس وقت تک میں کئی سیریل لکھ چکا تھا، کچھ اور پائپ لائن میں تھے لیکن کسی نے اب تک یہ نہیں کہا تھا کہ میری زبان خراب ہے۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ در اصل میری نتھری ہوئی زبان کملیشور جی کو مکالموں کے لیے پُرتکلف لگ رہی ہے، انھیں مکالموں میں برجستگی اور زبان میں کھردرا پن چاہیے تھا۔ مجھے چیلنج ہمیشہ سے پسند رہا ہے، سو میں نے اسے قبول کر لیا۔ پروڈکشن ہاؤس نے چینل کو یقین دل ادیا کہ وہ کسی اور رائٹر سے لکھوا رہے ہیں۔ کملیشور جی چونکہ میرے نام سے واقف ہو چکے تھے، سو پروڈکشن ہاؤس نے آئندہ کے دو چار ایپی سوڈ ایک ساتھ بغیر میرے نام کے بھیج دیے۔ چونکہ میں نبض پکڑ چکا تھا، سو میں نے اپنی زبان کو کمرشیلائز کرنا شروع کر دیا یعنی جتنا میں اپنی زبان ‘کھردری’ کر سکتا تھا، کر لی۔ اور پھر وہ دن بھی آیا جب کملیشور جی نے فون پر پروڈکشن ہاؤس کو سفارش کی کہ ‘پرانے رائٹر’ کو ہٹائیں اور ‘اس نئے رائٹر’ کو مستقل کر لیں، اس کے پاس زبان ہے۔ گویا میں اپنی زبان قلم کر کے اب ٹیلی ویژن والوں کے لیے ‘اہل زبان’ بن چکا تھا۔

لیکن حد تو اس وقت ہو گئی جب میں دو تین سال بعد فاروقی صاحب کے رابطے میں آیا تو انھوں نے کہا، ‘ہندی بولنا چھوڑو۔’ یہاں ان کی ‘ہندی’ سے مراد ہندی کے شبد نہیں بلکہ ہندی کے اصول قواعد سے تھی۔ گویا اب مجھے واپس اسی جگہ لوٹنا تھا جہاں سے کملیشور جی نے مجھے دھکیلا تھا۔

چنانچہ دو زبانوں کے درمیان پینگ بڑھانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری زبان سے ملمع اتر گیا جو عموماً ہمارے ناول نگاروں یا افسانہ نگاروں کی زبان پر چڑھا ہوتا ہے۔

فاروقی صاحب زبان کے معاملے میں بلا شبہ جدت پسند تو تھے لیکن ان کی جدت پسندی زبان کے بنیادی ڈھانچے پر ہی استوار تھی۔ مثلاً وہ اعراب لگانے کے سخت خلاف تھے۔ امجد اسلام امجد کو انھوں نے جو خط لکھا تھا اور جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، اس میں بھی وہ اعراب پر شاکی تھے، اسے وہ ‘تکلف’ سے گردانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی زبان میں حرف اور لفظ صرف آواز کی علامت ہیں، اور کسی زبان کو سیکھنے کا مطلب اس آواز پر قابو پانا ہوتا ہے، سو اس کے بعد اعراب کی ضرورت ہی نہیں بچتی، البتہ نامانوس آواز/ الفاظ کے لیے اگر ضروری ہو تو اس پر اعراب لگائے بھی جا سکتے ہیں لیکن جب وہ آواز /الفاظ بھی قابو میں آ جائیں تو پھر وہاں سے بھی اعراب کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً ابھی کچھ روز پہلے مکرم نیاز صاحب نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ پر کسی پڑھے لکھے شخص پر اعتراض کیا تھا کہ ‘اُردو’ کے الف پر ضمہ لگانے کی ضرورت انھیں کیوں پیش آئی، کیا انھیں اس بات کا خطرہ ہے کہ اردو جاننے والے اسے ‘اَردو’ یا ‘اِردو’ پڑھیں گے؟ میرا واسطہ تو اعراب لگانے والوں سے پرانا ہے، بحیثیت مدیر ہر طرح کی تحریروں سے میرا واسطہ پڑا رہتا ہے۔ کوئی ‘بل کہٗ والا بھی مل جاتا ہے، تو کوئی ‘اَور’ والا بھی۔ علی محمد فرشی صاحب اپنے رسالے ‘سمبل’ میں گفتگو کو ‘گفت گو’ لکھا کرتا تھے، بھئی آپ کے لسانی تحفظات اپنی جگہ لیکن میں گفتگو کے درمیان اتنی بد بو برداشت نہیں کر سکتا۔

آل احمد سرور صاحب کو فاروقی ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’املا اور رسم خط کے بارے میں ابو محمد سحر صاحب کی کتاب میں نے دیکھی ہے۔ ان کی تقریباً ہر بات سے میں متفق ہوں۔ لیکن وہ بہت نرم خو اور نیک دل ہیں، بات کو زور دے کر نہیں کہتے۔ آپ نے درست کہا ہے کہ الفاظ کو ملا کر لکھنے کے میں عام طور پر خلاف ہوں، الا یہ کہ جو مروج ہو گئے ہوں؛ مثلاً گلدستہ کو گل دستہ لکھنا محض تکلف ہے۔ رہا سوال اعلا، ادنا وغیرہ کا، تو مجھے اس کی منطق سمجھ میں نہ آئی اور نہ اس املا میں کوئی حسن نظر آیا۔ اور ‘بالکل’ کو ‘بل کل’ لکھنے کی سفارش جو صاحبان کرتے ہیں، وہ ‘بل للہ/لاہ’ اور ‘بل التزام’ اور ‘بت ترتیب’ اور ‘بض ضرور’ بھی کیوں نہیں لکھتے؟‘‘ (23 مارچ 1999، مرتب: کوثر صدیقی، کاروان ادب)

اسی طرح فاروقی صاحب جو برقی خطوط مجھ سے شیئر کرتے رہے، ان میں زیادہ تعداد زبان پر لوگوں کے استفسارات اور ان کے جواب پر مشتمل تھے۔ لیکن سب سے پہلے وہ استفسارات جو میں نے اردو املا کے تعلق سے ان سے کیے۔ میں یہاں خوف طوالت کے سبب صرف ان کے جواب لکھ رہا ہوں، یوں بھی ان کے جواب میں میرے کیے گئے سوال آپ کو نظر آ جائیں گے۔ فرماتے ہیں:

’’زبان کے تقریباً ہر معاملے میں، اور خاص کر املا اور قواعد کے معاملات میں رواج عام ہی مستند ہے۔ جائز، ناجائز، کوئی معنی نہیں رکھتے۔ بیسویں صدی میں کچھ علما نے ‘اصلاح املا’ وغیرہ کا جھگڑا اٹھا دیا۔ کئی لوگوں نے رواج عام کے خلاف جا کر یہ بھی کہا کہ عربی الفاظ کو یوں لکھا جائے جس طرح وہ عربی میں لکھے جاتے ہیں۔ کچھ باتیں کچھ لوگوں نے مان لیں۔ اکثر باتیں لوگوں نے عام طور پر نہیں مانیں۔ بعض باتوں میں عربی کی جگہ فارسی کا معاملہ اٹھایا گیا، کہ فلاں حرف فارسی میں نہیں ہے، لہٰذا اسے اردو میں بھی نہ ہونا چاہیے۔ یہاں بھی رواج عام کا خیال کچھ زیادہ نہ رکھا گیا، فتوے سے زیادہ دیے گئے۔ فارسی حرف ‘ذال’ کے باب میں غالب نے سب سے زیادہ گھپلا گیا۔ ان کی بات غلط تھی لیکن اکثر لوگوں نے غالب اور پھر ان کے بعد کے علما کی دھونس میں آ کر غالب کی بات مان لی۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

1۔ جو الفاظ الف مقصورہ (یٰ) پر ختم ہوتے ہیں، ان کا معاملہ یہ ہے کہ عربی املا کو قائم رکھنے کی سفارش کرنے والوں نے بھی رواج عام کی بنیاد پر کئی ایسے املے قبول کرنے کی سفارش کی جو اردو میں ہیں اور عربی میں نہیں ہیں۔ مثلاً:

تمنا، نہ کہ تمنیٰ، ماجرا نہ کہ ماجریٰ، مربہ نہ کہ مربا یا مربیٰ، تماشا نہ کہ تماشیٰ، ملجا نہ کہ ملجیٰ، ماوا نہ کہ ماویٰ۔

کچھ لوگوں (مثلاً مکتبہ جامعہ) نے بعض سفارشوں کو مان لیا، چنانچہ ان کے یہاں یوں ہے: دعوا نہ کہ دعویٰ، اعلا نہ کہ اعلیٰ۔ لیکن وہ لوگ بھی اولیٰ کو اولا اور ادنیٰ کو ادنا لکھنے سے باز رہے۔

میرا موقف اس وقت قریب قریب وہی ہے جو ‘املا نامہ’ کے دوسرے ایڈیشن میں درج ہے۔ لیکن اب میرے یہاں رواج عام پر زور پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ‘املا نامہ’ کا نیا ایڈیشن ابھی چھپا ہے۔ سب لوگ اس سے استفادہ کریں۔ جو الفاظ تم نے پوچھے ہیں، انھیں میں حسب ذیل املا سے لکھتا ہوں، اور میرا خیال ہے کہ یہ املا رواج عام کو پوری طرح منعکس کرتا ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علما کی سختی اور اصرار کے باعث رواج عام کہیں کہیں فاسد ہو جانے کی طرف مائل ہو گیا ہے، لیکن ابھی اس بات کا امکان ہے کہ اس املا کو فروغ دیا جا سکے جو علما کی ضد اور اصرار کے پہلے رائج تھا: مدعا، مولا، ماجرا، یوں ہی ٹھیک ہیں۔

مجھے نہ مربا اچھا معلوم ہوتا ہے اور نہ مربیٰ۔ میں تو مربہ ہی لکھتا ہوں، اس میں مربے کا مزہ اور چاشنی زیادہ ہے۔

ادنیٰ، قصہ، دعویٰ، اعلیٰ، تعالیٰ، فتویٰ یوں ہی ٹھیک ہیں۔

خیال رہے کہ ‘قصہ’ میں الف مقصورہ یا کسی قسم کا الف نہیں ہے۔ اس کا آخری حرف اردو میں ہاے ہوز ہے اور عربی میں تاے مدورہ، یعنی ۃ۔ ‘قصہ’ کو ‘قصا’ کبھی نہیں لکھا گیا، الا یہ کہ لکھنے والا زبان کا جھٹکا کر رہا ہو۔

‘املا نامہ’ کا دوسرا ایڈیشن میری نگرانی میں مرتب ہوا تھا۔ جس کارگاہ کے غور و فکر کے نتیجے میں یہ ایڈیشن تیار ہوا تھا، اس کے تمام اجلاسوں کی صدارت میں نے کی تھی۔ پروفیسر نارنگ نے انتہائی فراخ دلی سے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ‘املا نامہ’ کا دوسرا ایڈیشن اس وقت سامنے نہیں ہے۔ اسے ڈھونڈ لانے کی سکت بھی اس وقت مجھ میں نہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ اس میں حسب ذیل کی سفارش کی گئی ہو:

تقوا بجائے تقویٰ، اعلا بجائے اعلیٰ، ادنا بجائے ادنیٰ

بہرحال اگر ایسا ہے بھی، تو میں اب تقویٰ، اعلیٰ، ادنیٰ کو بہتر سمجھتا ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کہیں بھی ادنا/اعلا/تقوا/مولیٰ لکھا ہو۔ اردو کے مشہور شاعر صادق پہلے اپنا نام ‘صادق مولیٰ’ لکھتے تھے، لیکن وہ نام کا معاملہ تھا۔ ہر شخص کو اپنے نام کا املا اور تلفظ خود مقرر کرنے کا حق ہے۔ کبھی کبھی ناموں میں بھی عربی تلفظ کے بجائے کچھ اور تلفظ رائج ہو جاتا ہے ؛ مثلاً ‘باقِر’ عربی میں بر وزن ‘باعث’ ہے، یعنی تیسرے حرف پر زیر ہے۔ لیکن اردو میں ‘باقَر’ بر وزن ‘باہر’ ہے، یعنی تیسرے حرف پر زبر ہے۔ یہی اب مرجح ہے۔ باقر مہدی مرحوم اپنا نامق مع زبر لکھتے بولتے تھے، لیکن وحید اختر مرحوم ہمیشہق مع زیر کے ساتھ ‘باقِر’ بولتے تھے۔ قمر احسن کا اصل نام سید محمد رضا باقر ہے۔ وہ ہمیشہ ‘باقر’ کو ق مع زبر ‘باقَر’ لکھتے بولتے تھے۔ میں نے ‘تھے’ اس لیے کہا کہ مدت سے قمر احسن سے ملاقات نہیں ہوئی، ممکن ہے اب وہ ق مع زیر ‘باقِر’ بولنے لگے ہوں۔

حسب ذیل الفاظ کے دونوں املا رائج ہیں:

مصلیٰ/ مصلا، معریٰ/معرا

میں مصلیٰ اور معرا لکھتا ہوں کہ میں انھیں املا کو رائج تر سمجھتا ہوں۔

2۔ ‘گزرنا، گزشتہ، سرگزشت، رہ گزر، گزر بسر، گزارا/گزرا، گزارش’ وغیرہ آج کل تقریباً سب لوگ یوں ہی لکھتے ہیں جیسے کہ میں نے اوپر لکھا۔ بعض لوگ ‘پذیرائی’ کی جگہ ‘پزیرائی’ اور ‘ذرا’ کی جگہ ‘زرا’ لکھتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ایسے لوگ ابھی بہت کم ہیں۔

فارسی میں (لہٰذا اردو میں) ذال اور زے کا جھگڑا غالب کے وقت سے ہے۔ ان کے پہلے بھی اس معاملے میں کچھ انتشار تھا، لیکن اتنا نہیں جتنا غالب نے اور بعد کے لوگوں نے پیدا کیا۔ اس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ اس باب میں کچھ گفتگو میں نے ‘لغات روزمرہ’ میں درج کی ہے۔ افسوس کہ وہ فی الحال دستیاب نہیں۔

بہرحال، میرا موقف یہ ہے کہ ‘گزرنا، گزشتہ، سرگزشت، رہ گزر، گزر بسر’ وغیرہ کو ذال سے لکھنا چاہیے۔ آج کے رواج کو دیکھتے ہوئے میں مندرجہ بالا الفاظ کو زے سے لکھنا غلط یا قبیح نہیں کہتا لیکن اس املا سے اجتناب بہتر سمجھتا ہوں۔

‘پذیرا/پذیرائی’ کو زے سے بالکل نہیں لکھنا چاہیے۔ ‘ذرا ‘کو زے سے بالکل نہیں لکھنا چاہیے۔ ‘گزارنا (بمعنی پیش کرنا)، ‘گزارش’ بمعنی عرضداشت کو بھی میں ذال ہی سے لکھتا ہوں لیکن زے لکھا جائے تو اسے قابل قبول سمجھتا ہوں۔ (7 جولائی 2011)

————————————-

ایک بار میں نے انھیں خط لکھتے ہوئے ‘محبی و مکرمی’ کا القاب لگایا، اس پر وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’بڑے بوڑھوں کو ‘محبی’ لکھنا، اور ساتھ ہی ‘مکرمی’ لکھنا عجیب سی بات ہے۔ ساتھیوں اور دوستوں کو ‘محبی’ لکھنا ٹھیک ہے۔ کبھی کبھی اظہار شفقت کے لیے چھوٹوں کو بھی ‘محبی’ لکھ دیتے ہیں لیکن اپنے سے بڑوں کو محبی نہیں لکھتے۔ ایک بزرگ پروفیسر نے اپنی ایک کتاب ‘محبی’ خواجہ احمد فاروقی کے نام معنون کی ہے۔ استاد تو اظہار شفقت کی غایت سے شاگرد کو ‘محبی ‘ لکھ سکتا ہے لیکن شاگرد اپنے استاد کو اور وہ بھی عمر میں بہت بڑے استاد (خواجہ صاحب کی پیدائش: 1917) کو ‘محبی’ لکھے، ایسا دیکھا نہ سنا۔‘‘ (2 جولائی 2011)

ایک واقعہ یاد آیا کہ ممبئی یونیورسٹی میں جب فاروقی صاحب تشریف لائے تو میں انھیں مہمان خانہ سے لے کر ہال کی طرف روانہ ہوا تو میں احتراماً ان کے پیچھے ہو لیا لیکن انھوں نے مجھے ٹوکا کہ ‘بڑوں کے آگے اور بچوں کے پیچھے چلا جاتا ہے۔’

————————————-

 

27 ستمبر 2011 کو سری نگر کے غلام نبی خیال صاحب کے استفسار پر جواب دیتے ہوئے فاروقی صاحب لکھتے ہیں:

ہماری زبان کا جو حال اخبارات اور ریڈیو ٹی وی کے علاوہ خود اردو کے نام نہاد ادیب کر رہے ہیں، میں بھی اس سے بہت نالاں ہوں اور بار بار اس کے بارے میں لکھتا بھی رہتا ہوں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ غلط استعمالات کی مخالفت کریں۔ آپ کے سوالات کا جواب حسب ذیل ہے۔

1۔ ‘پروگرام کا یہ وقت رہے’ غلط ہے۔ ‘پروگرام کا یہ وقت ہو گا’ یا ‘پروگرام اس وقت شروع ہو گا’ کہنا چاہیے۔

2۔ ‘سہولت’ کی جمع ‘سہولات’ سراسر غلط ہے۔

3۔ ‘اسکیم’ کی جمع ‘اسکیمات’ حیدر آبادی لوگ بولتے ہیں۔ میں دونوں کو غلط سمجھتا ہوں۔ ‘اسکیم’ کی جگہ ‘منصوبہ’ یا ‘تجویز’ کہنا چاہیے اور اسی اعتبار سے جمع بنانا چاہیے۔

4۔ ‘رسم اجرائی’ یا ‘اجرائی رسم’ دونوں غلط ہیں۔ ‘رسم اجرا’ کہنا چاہیے۔

5۔ ‘اِقدام’ مع الف پر زیر بر وزن ‘اِنعام’، ‘قدم’ کی جمع نہیں ہے۔ ‘قدم ‘ کی جمع ‘اَقدام’ مع الف پر زبر ہے۔ لہٰذا ‘اِقدامات کرنا’ غلط نہیں ہے لیکن اس کی ضرورت بھی کچھ نہیں ہے۔ ‘اِقدامات’ کے بجائے ‘اِقدام’ سے کام چل سکتا ہے۔

6۔ ‘بدعت’ کی جمع ‘بدعات’ غلط نہیں ہے لیکن اردو میں رائج نہیں ہے۔ ‘بدعتیں ‘ کہنا زیادہ بہتر ہے۔

7۔ 67 کو ‘سرسٹھ’ یا ‘سڑ سٹھ’ لکھ سکتے ہیں۔ ترجیح اول الذکر یعنی ‘سرسٹھ’ کو ہے۔

8۔ ‘رگ’ اور ‘ایما’ دونوں مونث ہیں۔ آپ نے جمع کو مذکر لکھا ہے لیکن جمع مونث ہے۔

امید ہے آپ کی تشفی ان جوابات سے ہو گئی ہو گی۔

————————

6 اگست 2011 میں محمد سیف عالم شاہیں کے ایک استفسار پر فاروقی صاحب جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’برادرم، تمھیں چاہیے کہ ایک مہینے میں ایک سے زیادہ سوال نہ پوچھو اور ایسے سوال نہ پوچھو جن کا جواب کسی معمولی کتاب میں بھی مل سکتا ہو۔ مجھے اپنے ہی کاموں کے لیے وقت نہیں ملتا۔ خیر۔

نئی نویلی/نیا نویلا اصلاحی لفظ ہیں (مجھے شک ہے کہ یہاں ٹایپوز یا کتابت کی غلطی کے سبب اصطلاحی کی بجائے اصلاحی ہو گیا ہے)۔ دلہن، دولہا، لباس، وغیرہ کے لیے مستعمل ہیں اور زور دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ‘نئی حکومت’ میں کیا قباحت ہے جو ‘نئی نویلی’ کہا جائے؟ ہاں اگر طنزیہ کہا جا رہا ہے تو اور بات ہے۔ مثلاً ‘نئی نویلی تحقیق’ کسی ایسی تحقیق کے بارے میں طنزیہ کہا جائے گا جو بہت کمزور اور ناقابل اعتبار ہو۔

نہیں، میں نے کسی مدرسے میں نہیں پڑھا۔ تھوڑی بہت عربی اپنے آپ سیکھی اور فارسی اسکول میں ہائی اسکول تک پڑھی تھی۔

‘جانکاری’ نہایت واہیات اور بے مطلب قسم کا لفظ ہے۔ تمھارا جملہ ہے:

’’فلاں فلاں علم کا اچھا جانکار ہے۔‘‘

اب اس کو حسب ذیل طرح لکھ کر یا بول کر دیکھو، تمھیں خود فرق معلوم ہو جائے گا کہ لفظ ‘جانکار’ کس قدر بھونڈا اور گنوارو ہے:

(1) فلاں کو فلاں علم کی اچھی واقفیت ہے۔

(2) فلاں (شخص) فلاں علم سے اچھی واقفیت رکھتا ہے۔

(3) فلاں کو فلاں علم کی اچھی آگاہی ہے۔

(4) فلاں (شخص) فلاں علم کو بخوبی جانتا ہے۔

اگر ‘جاننا’ مصدر کا کوئی صیغہ لکھنا ضروری سمجھا جائے تو یوں کہنے میں کیا برائی ہے؟

(1) فلاں (شخص) فلاں علم کو اچھی طرح جانتا ہے۔

(2) فلاں (شخص) فارسی اچھی جانتا ہے۔

(3) فلاں (شخص) سائنس اچھی جانتا ہے۔

اردو میں دَرویش بالفتح اور دُرویش بالضم دونوں درست ہیں لیکن بالضم، یعنی دُرویش، اب بہت کم سنائی دیتا ہے۔ اردو میں اس لفظ کے معنی ہیں، گداگر، اللہ والا یعنی صاحب معرفت۔ معین اللغات میں دُرویش بالضم درج نہیں۔ آنند راج میں ضرور ہے لیکن انھوں نے کہا ہے کہ میری رائے میں اہل اللہ، صاحب معرفت، کے معنی میں دُرویش بالضم کہنا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بات میں نے اپنی طبیعت سے نکالی ہے۔ نور اللغات میں بھی شاید آنند راج کے اتباع میں لکھا ہے کہ اہل اللہ اور صاحب معرفت کو دُرویش بالضم کہنا چاہیے۔ لیکن میں دَرویش بالفتح کو دونوں معنی میں فصیح سمجھتا ہوں۔

یہ بھلا کیا سوال ہے کہ بدون اضافت کے معنی کیا ہیں؟ بدون کے معنی ‘بغیر’ کسی بھی لغت میں دیکھ لیتے۔ بدون اضافت کے معنی ہیں جہاں اضافت نہ ہو۔ لہٰذا بے اضافت، بغیر اضافت، بلا اضافت۔

اجتماع ضدین: دو ایسی چیزوں کا جمع ہونا جن کا جمع عقلاً محال ہو۔ مثلاً کوئی شے بیک وقت سفید اور سیاہ نہیں ہو سکتی، لہٰذا ‘سیاہ و سفید رنگ’ میں اجتماع ضدین ہے۔ کوئی چیز بیک وقت سست اور تیز نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ‘سست تیز ریل گاڑی’ میں اجتماع ضدین ہے۔ استعارے میں کبھی کبھی یہ صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

فصیح وہ لفظ ہے جسے کسی زبان کے اچھے اور معتبر بولنے والے استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہ سمجھتے ہوں۔

فعل لازم کے ساتھ ‘نے’ کے استعمال کا کوئی حتمی قاعدہ نہیں ہے۔ بعض صورتیں پہلے زمانے میں عام تھیں؛ ‘سب نے ہنس دیا’ لکھنؤ والے ہمیشہ لکھتے بولتے تھے، ‘میر انیس مرثیہ پڑھے’ لیکن اب کم سنائی دیتا ہے۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ فعل لازم کے ساتھ ‘نے’ استعمال نہ کیا جائے جب تک کسی استاد کی ایسی سند نہ ہو جسے لوگ آج بھی قبول کر سکیں۔ ‘سب نے ہنس دیا’ محمد حسین آزاد نے لکھا ہے، لہٰذا غلط نہیں ہے لیکن آج کل غلط ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اردو زبان و ادب میں استادی شاگردی کا سلسلہ شروع سے چلا آ رہا ہے، بطور خاص شاعری میں یہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ یہ صرف کتابیں پڑھ لینے یا اپنے وجدان کی بنیاد پر اس فن پر گرفت ایک حد تو ہو سکتی ہے لیکن اس میں کاملیت نہیں آ سکتی، سو اس کے لیے اساتذہ کی رہنمائی کو لازمی تصور کیا گیا۔ تعلیم و تربیت کا یہ طریقہ کار روایتی فنون سے آیا تھا جہاں استاد براہ راست شاگرد کو ہنر کے پیچ و خم سکھاتا ہے۔ پھر زمانہ بدلا، پرانی رسمیں بدلیں، پرانے ادارے منہدم ہوئے اور ان کی جگہ نئے تصورات نے لے لی۔ بہت ساری خوشگوار تبدیلیاں ہوئیں لیکن کچھ ناگوار صورت حال کی تجسیم بھی عمل میں آئی، مثلاً یہی کہ ہر منشی خود کو بحر العلوم اور کامل فن سمجھنے لگا، نتیجتاً اکتساب علم و فن کا رجحان رخصت ہوا اور اس کی جگہ ادعائیت اور خود پسندی نے لے لی۔ لیکن اس دور قحط الرجال میں پھر بھی طلب علم کی کچھ لوگوں میں بو باس باقی ہے جو گاہے گاہے اپنے عہد کے ماہرین سے رابطے میں رہے اور ان سے رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ جیسا کہ گزشتہ قسط میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فاروقی صاحب کے پاس بھی ایسے تشنگان علم و ادب کے استفسارات آتے رہے جن کے جواب باقاعدگی سے وہ دیتے رہے۔ یہ جواب اب بھی ان لوگوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں جو خود ‘ادھورا’ سمجھتے ہیں، شیخی خوروں کی بات علاحدہ ہے کہ ان کے دل اور دماغ مہر بند ہو چکے ہیں چونکہ ‘کاملیت’ کے التباس نے ان کی تمام راہیں مسدود کر دی ہیں۔

نبیل حسن (حیدرآباد) نے فاروقی صاحب سے صوتی قافیوں کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ فاروقی صاحب کا جواب تھا:

’’صوتی قافیہ اس وقت بالکل درست ہے جب قافیے پر مبنی دونوں لفظ الگ الگ معنی میں استعمال ہوں۔ جیسے غالب کی ایک رباعی میں ہے:

بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جمجاہ نے دال

ہے لطف عنایت شہنشاہ پہ دال

"پہلے مصرعے میں ‘دال’ وہ دانہ ہے جسے پکاتے اور کھاتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں ‘دال’ کے معنی ہیں ‘دلالت کرنے والا’۔ اسی طرح، ‘جان’ بمعنی ‘زندگی، روح’، اور ‘جان’ بمعنی ‘جاننا’ کا امر، یا ‘جِن’ کی جمع، کا قافیہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ‘مار’ بمعنی ‘سانپ’ اور ‘مار’ بمعنی ‘مارنا’ کا امر بھی قافیہ ہو سکتا ہے۔ یہی صورت ‘بیت’ بمعنی ‘شعر’ اور ‘بیت’ بمعنی ‘گھر’ کی بھی ہے۔

’’اب رہا ایسا قافیہ، جس میں حرف مختلف ہو لیکن آواز ایک ہو، جیسے ؛ ‘بعض/باز’؛ ‘احتیاط/بات’؛ ‘برہ/طرح’ تو ایسا قافیہ ہمیشہ غلط مانا گیا ہے، شاید پرانے دکنی کسی شاعر کے یہاں اکا دکا مثال مل جائے۔ مجھے اس طرح کے قافیے میں کوئی عیب نہیں نظر آتا، لیکن قاعدہ بنانے والوں نے قاعدہ بنا دیا ہے تو میں بھی اس کی پابندی کرتا ہوں۔ ممکن ہے کبھی پابندی نہ بھی کروں۔ یا اگر کوئی اور شخص پابندی نہیں کرتا (غزل میں بعض جدید شعرا نے ایسے قافیوں کو روا رکھا ہے، لیکن شاذ) تو میں اسے غلط نہیں کہتا۔

’’پرانے زمانے میں ایک اور طرح کے قافیے کی گنجائش تھی۔ اسے ‘مکتوبی’ کہتے ہیں۔ یعنی دو لفظ جو لکھنے میں ایک طرح ہوں لیکن ان کا تلفظ مختلف ہو، انھیں قافیہ کر سکتے ہیں، چاہے آواز کی ہم آہنگی برقرار نہ رہے۔ مثلاً ‘سُوت/سَوت’؛ ‘قوَّت/قُوت’؛ ‘عَین/عِین’ ؛ ‘کِیا/کیا’ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ایسے قافیے بہت کم ہیں۔ انگریزی میں ایسے قافیے بہت ہیں اور انھیں Eye Rhyme کیا جاتا ہے۔ مثلاً:

"good/blood; read/dread; love/move

————————————–

لکھنؤ سے طارق احمد بلگرامی پوچھتے ہیں کہ حرف عطف اور حرف جار کو حروف کیوں کہا جاتا ہے جب کہ یہ تو مکمل الفاظ کی صورت میں ہوتے ہیں؟

فاروقی صاحب جواب دیتے ہیں:

’’حرف’، ‘لفظ’، ‘کلمہ’، یہ سب اکثر حالات میں ہم معنی ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں عروض، صوتیات، اور نحو کی بنیاد حرف پر ہے، یعنی حرف ہمارے یہاں اکائی ہے جس سے سب کچھ بناتے ہیں، اس لیے نحوی لوگ عام طور پر ‘حرف’ لکھتے ہیں، بجائے ‘لفظ’ یا ‘کلمہ’۔ لیکن یہ تینوں بالکل ٹھیک ہیں:

حرف جار/کلمہ جار/لفظ جار

"لیکن بہتر یہی ہے کہ اصطلاحی لفظ میں کوئی تحریف یا ترمیم نہ کی جائے۔ ”

———————————–

اسی طرح ہردوئی سے دانش مسعود صاحب دریافت کرتے ہیں، حروف علت کو مصمتے کیوں کہتے ہیں جب کہ کوئی حرف صامت نہیں ہوتا۔

فاروقی صاحب جواب دیتے ہیں:

‘‘مصمتہ’ اس حرف کو کہتے ہیں جو کسی حرکت کے بغیر خود کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ اور ‘مصوتہ’ اس حرف کو کہتے ہیں جو خود کسی حرکت پر دلالت کرتا ہو، یعنی جو مصمتوں کو جوڑتا اور آواز کو ظاہر کرتا ہو۔

’’یہ اصطلاحیں ہمارے ماہرین لسانیات نے انگریزی کی اصطلاحوں Vowel اور Consonant کے متبادل کے طور پر بنائی اور مصنوعی طور پر رائج کی ہیں۔ اردو میں Vowel اور Consonant کا کوئی تصور نہیں، اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ لسانیات پڑھنے اور پڑھانے والے انھیں استعمال کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔‘‘


فرحان شیخ (کوسہ، ممبرا) دریافت کرتے ہیں: الفاظ میں غیر ملفوظی یا خاموش حروف کی ضرورت کیوں ہے؟

جواب:

’’اردو، یا کسی بھی زبان میں غیر ملفوظ الفاظ اپنے وقت پر اور کسی تاریخی یا لسانی ضرورت کی بنا پر وجود میں آتے ہیں۔ لفظ کے بننے کے بعد کسی وقت میں وہ تاریخی، یا لسانی ضرورت زائل ہو جاتی ہے لیکن اس وقت تک لفظ کا املا متعین ہو چکا ہوتا ہے، لہٰذا اس باب میں یہ بحث نہیں ہوتی کہ فلاں حرف اس میں غیر ملفوظ یا خاموش کیوں ہیں؟

’’ایسا بھی ہوتا ہے کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ ایسے الفاظ کا تلفظ بدل بھی جاتا ہے۔ جو حرف کل ملفوظ تھا، آج غیر ملفوظ ہو سکتا ہے۔ مثلاً انگریزی کے جو لفظ Psy سے شروع ہوتے ہیں، ان میں آج P غیر ملفوظ ہے، لیکن مدتوں پہلے اس P کو صاف ادا کرتے تھے۔ مثلاً حسب الفاظ میں P کو صاف ادا کرتے تھے:

Psychology موجودہ تلفظ، سائیکالوجی؛ پرانا تلفظ، پسائیکالوجی

Psche موجودہ تلفظ، سائکی؛ پرانا تلفظ پسائیکی

Psoriasis موجودہ تلفظ، سورائے سس؛ پرانا تلفظ، پسورا

Pslam موجودہ تلفظ، سام؛ پرانا تلفظ پسالم

"آخری لفظ کی اصل یونانی Psalmos ہے اور P اور L دونوں ملفوظ ہیں۔ پرانی انگریزی میں یہ لفظ

s(e)alm(e)

کی شکل میں بھی رائج ہوا۔ چونکہ L اور M کو ملا کر بولنا مشکل ہے، اس لیے جدید انگریزی میں ’’سام‘‘ ہو گیا، مگر املا باقی رہا۔

’’اردو کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں الفاظ کی تاریخ پر کام کچھ بھی نہیں ہوا ہے، اس لئے ہم اپنے الفاظ کی اصل کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ بہر حال، موٹی موٹی اصولی باتیں یہ ہو سکتی ہیں:

’’جو لفظ جس زبان سے لیا گیا (خواہ اصل معنی میں، یا بدلے ہوئے معنی میں)، اس کا املا وہی رہا جو کہ اصل زبان میں تھا۔ مثلاً:

’’فارسی: -خواب (اردو نے معنی بدل لئے)؛ خواہ، خواہ مخواہ؛ اسی اعتبار سے خواہی مخواہی۔ یہاں معنی وہی رہے لیکن املا اور تلفظ کچھ بدل گیا، مگر واؤ اب بھی صرف ملفوظ رہی۔

"عربی: -حتیٰ الامکان؛ الیٰ لآخر ؛ عین والے زیادہ تر الفاظ جن میں عین کی جگہ صرف الف یا ہمزہ سنائی دیتا ہے۔ ان سب طرح کے لفظوں میں عربی املا باقی رہا لیکن تلفظ یا تو ہم نے بدل لیا، یا اپنی مرضی کے مطابق آسان کر لیا، جیسے اعلیٰ، علامت، تعین، وغیرہ۔

’’عربی: -الفاظ کا املا وہی رہا لیکن تلفظ ہم نے اپنے طور پر بنا لیا، جیسے علٰحدہ؛ علیحدہ؛ یا ہم نے املا اور تلفظ دونوں بدل لیے، جیسے علاحدہ۔

’’ترکی: -کئی الفاظ جن میں حرف صرف حرکت کو ظاہر کرتا ہے، ہم نے ان میں حرف کو باقی رکھا اور اسے اعراب بالحرف کہا، جیسے یورش، کہ اس کا تلفظ یُرِش ہے۔ لیکن کچھ لوگ واؤ کو ظاہر کرتے ہیں، کچھ لوگ نہیں کرتے۔

’’اصل اردو الفاظ: -یہاں املا اور تلفظ بدلتا رہا ہے اور جو حرف ظاہر نہیں تھے وہ ظاہر کیے جانے لگے۔ مثلاً پہلے زمانے میں ‘کہیں’ کو ‘کھیں’ اور ‘کہنا’ کو ‘کھنا’ بھی لکھتے اور بولتے تھے تھے (شعر میں تو بار بار ایسا ہوا ہے)۔ یہاں ہائے ہوز ظاہر نہیں ہے۔ اب صرف اول الذکر املا اور تلفظ رائج ہے۔

’’یہی معاملہ حروف کا بھی ہے۔ جو لفظ جہاں سے آیا، وہاں سے اپنے حرف بھی ساتھ لایا۔ اسی وجہ سے ہمارے یہاں ز، ذ، ظ، ض، سب ہیں۔ کچھ لفظ عبرانی سے عربی میں آئے، جیسے ‘ذئب’ یا ‘ذیب’، بمعنی بھیڑیا، ذال کے ساتھ۔ عربی نے ذال کو قائم رکھا، ہم نے بھی قائم رکھا۔ "(29 مارچ 2012)

7 اگست 2011 کو جمال عبدالوحید (دہلی) کے استفسارات کے جواب میں فاروقی صاحب لکھتے ہیں:

’’(1) آپ نے ‘اختلاطیست کہ ظرفا با اہل ملاہبت کنند’ میں ‘ملاہبت’ کے معنی دریافت کیے ہیں۔ ‘ملاہبت’ عربی میں نہیں ہے۔ اگر ل۔ ہ۔ ب، سے باب مفاعلہ میں لے جائیں تو یہ لفظ بنتا ضرور ہے، لیکن عربی والوں نے بنایا نہیں، وجہ جو کچھ بھی ہو۔ ایسا عربی میں بہت ہوتا ہے کہ کسی مادے کو کسی باب میں نہیں لے جاتے، اور کسی مادے کو ہر باب میں لے جاتے ہیں۔ اگر ملاہبت/ملاہبہ بنتا بھی تو اس کے معنی ہوتے ‘آگ لگانا’ جو ظاہر ہے یہاں بے معنی ہے۔ ‘ملہبت’ سے ‘ملاہبت’ نہیں بن سکتا، جیسا کہ شروانی صاحب نے تجویز کیا ہے لیکن اگر بنتا بھی تو معنی وہی رہتے، ‘آگ لگانا’ جو یہاں بے معنی ہے۔

’’اگرچہ آپ اسے بعید از قیاس سمجھتے ہیں، لیکن عین ممکن ہے یہ لفظ ‘ملاعبت’ ہو، بمعنی ‘کھیل کود، چھیڑ چھاڑ’ وغیرہ۔ کتابت کی غلطی اگر ایک بار ہو جائے تو آئندہ ایڈیشنوں میں بھی جاری رہتی ہے، یہ اکثر دیکھا گیا ہے۔ فارسی میں بھی ‘ملاہبت’ نہیں ہے، یعنی یہ لفظ فارسی والوں کا بنایا ہوا نہیں ہے، جیسے ‘نزاکت، تمازت’ وغیرہ بنا لیے گئے ہیں۔

"میں نے اپنے دوست اور عربیات کے مستند ماہر ظفر احمد صدیقی سے پوچھا تو انھوں نے بھی کہا کہ ‘ملاہبت’ عربی میں نہیں ہے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ مادہ، د۔ ع۔ ب۔ سے یہ لفظ ‘مداعبت’ ہو سکتا ہے، بمعنی ‘چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق’ وغیرہ۔ ممکن ہے ‘مداعبت’ کی جگہ ‘ملاعبت’ لکھ گیا ہو جو بالکل قریب قیاس ہے اور معنی کے اعتبار سے بھی ‘مداعبت’ سے بہتر ہے کیوں کہ ‘ملاعبت’ میں جنسی پہلو بھی اور ‘مداعبت’ میں یہ بات نہیں۔

’’(2) آپ نے ‘در اصطلاح اہل دعوت مخصوص ‘اسم’ مصطلح (است)، و بدیں اعتبار خالی از لطف نیست’ میں ‘اہل دعوت’ کے معنی پوچھے ہیں۔ ‘دعوت’ کے ایک معنی ‘جنات اور روحوں کو بلانا، یعنی حاضرات کا عمل کرنا’ بھی ہیں۔ لہٰذا ‘اہل دعوت’ وہ لوگ ہوئے جو حاضرات کا عمل کرتے ہیں۔ مضمون کے شعر پر میر کے استدراک سے بات صاف ہو جاتی ہے، جیسا کہ آپ نے خود اسے نقل کیا ہے۔ مضمون کا شعر تھا:

مضموں تو شکر کر کہ ترا نام سن رقیب

غصے سے بھوت ہو گیا لیکن جلا تو ہے

"میر نے ‘نکات الشعرا’ میں لکھا کہ اگر ‘نام’ کی جگہ ‘اسم’ ہوتا تو لطف بڑھ جاتا۔ یعنی ‘بھوت’ رعایت سے ‘اسم’ بہتر تھا کہ روحوں کو بلانے کے باب میں اہل دعوت ‘اسم پڑھنا’ وغیرہ بولتے ہیں۔

’’(3) آپ نے ذوق کے اس مطلعے میں جنگ نوفل کی تشریح چاہی ہے:

خبر کر جنگ نوفل کی تو مجنوں اہل ہاموں کو

کبادہ تا صبا کھنچوائے شاخ بید مجنوں کو

’’میرا خیال ہے میں ایک بار پہلے بھی آپ کو اس شعر کے معنی لکھ بھیجے تھے۔ خیر، اسے مدت ہو گئی، کاغذ ادھر ادھر ہو گیا ہو گا۔

’’جنگ نوفل کا ذکر نظامی کی مثنوی ‘لیلیٰ مجنوں’ میں ہے اور امیر خسرو کی مثنوی ‘مجنون و لیلیٰ’ میں بھی ہے۔ مجنوں جب لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو کر صحرا نورد ہو گیا تو اس کے دوست نوفل نے لیلیٰ کے باپ کے پاس جا کر درخواست کی کہ لیلیٰ کو مجنوں سے بیاہ دو لیکن لیلیٰ کے باپ نے صاف انکار کر دیا۔ پھر نوفل نے لیلیٰ کے باپ کے قبیلے پر چڑھائی کر دی۔ جم کر محاربہ ہوا لیکن جنگ بے نتیجہ رہی یعنی لیلیٰ کی شادی کسی اور سے کر دی گئی۔

"ذوق کے شعر کا مطلب یہ ہے کہ مجنوں خود تو بہت لاغر اور ہڈیوں کا ڈھانچا ہو چکا تھا، اس لیے وہ جنگ میں حصہ لینے کے قابل نہ تھا۔ متکلم کہتا ہے کہ اے مجنوں، اہل ہاموں کو تو خبر کر دے کہ نوفل تیری طرف سے لڑ رہا ہے تاکہ اہل ہاموں سے اور کچھ نہ ہو سکے تو اتنا تو کریں کہ باد صبا بید مجنوں کی شاخ کو جھکا کر نرم کمان کی طرح کر دے اور اس طرح مجنوں کو نہ سہی لیکن بید مجنوں کو کمان کشی کی مشق ہو جائے اور اس طرح اہل ہاموں بھی جنگ نوفل میں علامتی طور پر شریک ہو جائیں۔

اہل ہاموں =جنگل والے یعنی جنگل کے درخت وغیرہ، جیسے اہل شہر= شہر والے۔

جنگ نوفل (نوفل میں ن اور ف دونوں مفتوح ہیں) = اس کا حال اوپر بیان ہوا۔

کبادہ = نرم یا چھوٹی کمان جس سے نو آموزوں کو کمان کشی کی مشق کراتے ہیں۔

کبادہ کھنچوانا=کمان کشی کی مشق کرانا۔

شعر میں خوبیاں بہت ہیں لیکن طوالت کے خیال سے ترک کرتا ہوں۔ خیال بندی کے رنگ کا بے مثال شعر ہے۔ ”

——————————–

راقم الحروف نے بھی ایک بار وزیر علی صبا کے شعر کے بارے میں فاروقی صاحب سے دریافت کیا، ان کا جواب آیا:

’’وزیر علی صبا کا شعر تم نے حسب ذیل لکھا ہے:

محتسب آ نہ تعلی پہ گرا کر مجھ کو

جام توڑا کہ فلک سے کوئی اختر ٹوٹا

’’مجھے اطمینان نہیں تھا کہ شعر صحیح ہے۔ میری سمجھ کے مطابق ‘اختر توڑا’ ہونا چاہیے تھا، اور ‘گرا کر مجھ کو’ بھی بے مطلب بات تھی، کہ محتسب بیچارا کسی کو گرائے بھلا کیوں۔ موجودہ صورت میں شعر بہت سقیم نظر آتا تھا۔ خیر، آج میں نے فرصت نکال کر صبا کے دیوان (مطبوعہ 1869) میں ڈھونڈا تو شعر کو یوں پایا:

محتسب آ نہ تعلی پہ گرا کر مے کو

جام توڑا کہ فلک سے کوئی اختر توڑا

’’اب یہ شعر ہر طرح سے درست اور مکمل ہو گیا۔

’’اب رہا لفظ ‘تعلی’ کے معنی کا معاملہ، تو یہ لفظ فارسی شعرا نے شاید استعمال نہیں کیا، اور فارسی والے شاید اسے اپنا لفظ مانتے بھی نہیں ہیں۔ ‘فرہنگ آنند راج’ اور ‘فرہنگ معین’ میں یہ درج نہیں۔ ‘منتخب اللغات’ میں بھی یہ لفظ نہیں ہے، حالاں کہ اس لغت میں عربی کے وہ لفظ سب درج ہیں جو صاحب لغت (سید عبد الرشید الحسینی) کے زمانے میں فارسی میں مستعمل تھے۔۔ (یہاں کسی فارسی لغت کا نام تھا جو پڑھا نہیں جا رہا: ا۔ ن۔) میں یہ لفظ ضرور ہے، لیکن مثال یا سند کوئی نہیں دی ہے۔ عربی میں اس کے معنی ہیں: ‘اونچا اٹھانا’۔ بظاہر فارسی والوں کو یہ لفظ نہ بھایا۔ بہرحال، ہم لوگوں نے اسے شعر کی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا۔ شاعر جب کسی نظم یا غزل میں اپنی تعریف کرتا ہے کہ میں ایسا ہوں اور ویسا ہوں، تو اسے ہم لوگوں نے ‘تعلی’ کہا۔ پھر اسی سے معنی پیدا ہوئے، ‘بڑھ بڑھ کر باتیں کرنا’۔ لیکن ان معنی میں بھی یہ لفظ ہمارے یہاں بھی بہت کم استعمال ہوا ہے۔ (غالباً) انیسویں صدی میں حسب ذیل محاورے دیکھنے میں آنے لگے:

تعلی پر آنا، تعلی کی لینا، تعلی باز، تعلی کرنا، تعلی پر اُتر آنا۔

‘تعلی پر اتر آنا’ یہ محاورہ ‘اردو لٖغت، تاریخی اصول پر’ میں درج نہیں۔

‘تعلی’ بمعنی ‘بڑائی، بزرگی، برتری، ترقی’ کی سند میں ‘اردو لغت، تاریخی اصول پر’ میں یہ شعر میر کے نام سے درج ہوا ہے:

یہ شرافت یہ سیادت یہ تقدس یہ کمال

یہ تنزہ یہ تعلی یہ تفوق ہے کہیں

"کلیات میر کو دو تین بار سرسری دیکھا لیکن یہ شعر مجھے نہ ملا۔ ممکن ہے جم کر ڈھونڈنے سے مل جائے۔ ان معنی کے لیے ایک اور سند کے طور پر مانی جائسی کا شعر درج کیا گیا ہے:

کبھی مایہ ناز و تعلی ہے کبھی مضطر دل کی تسلی ہے

کبھی پرتو برق تجلی ہے کبھی جلوہ فراز عرش بریں

"مانی جائسی کو مستند ماننے میں مجھے تامل ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ منقولہ بالا شعر میں ‘تعلی’ کے معنی ‘بلندی’ زیادہ مناسب ہیں لیکن ‘اردو لغت، تاریخی اصول پر’ میں یہ معنی درج نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ‘بلندی’ یا ‘بلند کرنا’ کے معنی میں یہ لفظ مستند لوگوں کے یہاں اردو میں استعمال نہیں ہوا۔ ‘بڑائی’ وغیرہ کے معنی قابل قبول ہیں، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ‘اردو لغت، تاریخی اصول پر’ میں میر کے نام سے جو شعر نقل کیا گیا ہے، وہ میر ہی کا ہے۔ ” (6 جولائی 2011)

————————————-

عرفان خان (اعظم گڑھ) کے استفسار کے جواب میں فاروقی صاحب فرماتے ہیں:

’’(1) ‘مصروف’ اور ‘مشغول’ میں کوئی بنیادی فرق نہیں، خوش ذوق شخص از خود ان کے لیے مناسب موقع استعمال کو متعین کر لیتا ہے۔ ایک فرق جو میرے خیال میں اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ‘مصروف’ کو تنہا بھی بول سکتے ہیں۔’’آج کل میں مصروف ہوں۔‘‘ لیکن ‘مشغول’ کو تنہا نہیں بولتے؛’’آج کل میں ایک کام میں مشغول ہوں‘‘ کہیں گے، صرف ’’آج کل میں مشغول ہوں‘‘ نہیں کہیں گے۔

"(2) ‘سبحان اللہ’ کا محل ہر اس موقعے پر ہے جب استعجاب، اعتراض، مسرت، تعریض کا اظہار کرنا ہو۔ ‘ماشا اللہ’ صرف تعریف کے موقعے پر بولتے ہیں۔ ہر طرح کی تعریف کے ساتھ ‘ماشا اللہ’ کہنا ٹھیک ہے۔’’ماشا اللہ اچھے نمبر آئے‘‘،’’ماشا اللہ خوب صورتی میں کچھ کمی نہیں‘‘، وغیرہ۔ ‘الا ماشا اللہ’ الگ فقرہ ہے۔ اردو میں اس کے معنی ہیں، ‘کبھی کبھی، کہیں کہیں۔ ‘ مثلاً ’’اب پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں، الا ماشا اللہ۔‘‘ اب یہ فقرہ بہت کم بولا جاتا ہے۔

’’(3) ‘راشٹر’ اردو میں نہیں ہے۔ ‘دیش’ بھی اردو میں نہیں ہے۔ اس کی جگہ ‘دیس’ درست ہے۔ ‘راشٹرا’ کا استعمال اردو میں غلط ہے۔ (17 اپریل 2011)

————————

27 ستمبر 2011 کو کے۔ پی۔ شمس الدین (کیرالہ) کے خط کے جواب میں فاروقی صاحب کہتے ہیں:

"یہ بات متعین کرنا ممکن ہے کہ ‘انقلاب زندہ باد’ کا نعرہ کب اور کس نے ایجاد کیا۔ بہرحال یہ 1857 کے بہت بعد کا ہے۔ اب رہی بات کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے تو اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ اردو کا لفظ ہے۔ اگر الگ الگ دیکھیں تو ‘انقلاب’ عربی ہے اور ‘زندہ باد’ فارسی کا فقرہ ہے۔ لیکن یہ پورا فقرہ ‘انقلاب زندہ باد’ نہ فارسی میں ہے نہ عربی میں ہے۔ یہ صرف اور صرف اردو کا مال ہے۔ زبان یوں ہی مختلف جگہوں سے الفاظ لے کر انھیں اپنا بنا لیتی ہے اور اکثر انھیں بدلے ہوئے تلفظ یا بدلے ہوئے معنی کے ساتھ بھی استعمال کرتی ہے۔ ایک سامنے کی بات یہ ہے کہ لفظ ‘کتاب’ عربی میں مذکر ہے لیکن اردو میں مونث ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہہ کہ عربی کے قاعدے کو اردو پر جاری کیا جائے اور ‘کتاب’ کو مذکر کہا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ زبان اردو کی سالمیت اور آزاد حیثیت پر حملہ کر رہا ہے۔‘‘

————————–

محمد سیف عالم شاہیں جو اکثر فاروقی صاحب سے کرید کرید کر سوال دریافت کیا کرتے تھے، انھوں نے ایک بار پھر ہندوستان کے تناظر میں اردو کی صورت حال پر کچھ سوال دریافت کیے، ان کا پہلا سوال تھا کہ یہ دوسری سرکاری زبان کیا ہے اور اس سے کیا فائدے ہوتے ہیں؟ اس کے جواب فاروقی صاحب نے انھیں 14 جولائی 2011 کو حسب ذیل دیے:

’’کسی ریاست یا کسی شہر میں بھی اردو کو، یا کسی بھی زبان کو دوسری سرکاری زبان بنا دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ جو مراعات دوسری سرکاری زبان کو ملتی ہے، وہ اس قسم کی ہیں کہ مثلاً حکومت کے دفتروں پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ دوسری سرکاری زبان میں درخواستیں اور کاغذات قبول کریں۔ لیکن جب اردو میں درخواست لکھنے والا نہ ہو تو یہ مراعات کسی کام کی نہیں۔ اور اگر کوئی اللہ کا بندہ اردو میں درخواست دینے والا موجود بھی ہو تو اس کی درخواست کو پڑھنے والے نہ ہوں گے۔ کہا گیا ہے کہ حکومت دوسری سرکاری زبان کے مترجم مہیا کرے گی لیکن وہ مترجم آئیں گے کہاں سے جب اردو جاننے والا ہی کوئی نہ ہو گا؟ اور پھر حکومت کتنے دفتروں میں مترجم کا اہتمام کرے گی؟ اور کیا ضروری ہے وہ مترجم ہر طرح کی درخواست کو پڑھ سکے گا؟ اور کیا ضروری ہے کہ دفتر کے لوگ لاپروائی یا تعصب کی بنا پر ایسی درخواست کو گم نہ کر دیں یا دوسرے کاغذوں کے انبار تلے دبا نہ دیں گے؟ بہار میں اردو جاننے والے بہت ہیں اور ہاں اردو دوسری سرکاری زبان بھی ہے۔ آپ خود معلوم کر لیجیے کہ وہاں کے سرکاری دفتروں میں اردو کی کیا حیثیت ہے۔ وہی حال دہلی کا بھی ہے۔ آندھرا پردیش کے کچھ ضلعوں میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے۔ وہاں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ اردو پڑھنے والے نہ ہوں تو اسے دوسری سرکاری زبان بنا دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔

گزارش ہے کہ ‘نئی نویلی’ وغیرہ الفاظ خاص معنی رکھتے ہیں۔ انھیں کسی حکومت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ جس ماحول میں آپ نے اسے استعمال کیا ہے، اس سے گمان گذرتا ہے کہ آپ سنجیدہ نہیں ہیں، حالاں کہ در حقیقت آپ سنجیدہ ہیں۔ اور یوں بھی ‘نئی’ کے بعد ‘نویلی’ غیر ضروری ہے۔‘‘

محمد سیف صاحب نے دوسرا سوال اردو کے ساتھ روزگار کی وابستگی پر کیا تھا جس پر فاروقی صاحب جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ؛’’جس زبان کے بولنے والے چند کلرکوں کے تقرر میں اپنی زبان کی زندگی ڈھونڈیں، وہ خود اپنی زبان کے گلے پر چھری پھیر رہے ہیں۔ کچھ کلرکوں کے تقرر پر قناعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اردو بولنے والے اپنی زبان کی اوقات اور قیمت بس اتنی ہی سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ اپنی زبان کی بھلا کیا خدمت کر سکیں گے۔ تیسری بات یہ کہ ‘روزی روٹی سے جڑنا’ وغیرہ فقرے معیار یا درست اردو زبان میں نہیں ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اس فقرے سے بھیک مانگنے اور اللہ کے واسطے کچھ دے دو بابا کا مزاج ظاہر ہو رہا ہے۔

محمد سیف نے جب اگلے سوال میں فاروقی صاحب سے دریافت کیا کہ اردو کی ترقی اور بقا کے لیے اردو والوں کو کیا کیا کرنا چاہیے تو فاروقی صاحب نے برجستہ کہا،’’اردو پڑھیں۔ اور اگر ممکن ہو تو بچے کو ایسے اسکول میں بھیجیں جہاں اردو کی تعلیم ہوتی ہو۔ ہمارا کہنا یہ ہرگز نہیں کہ بچہ صرف اردو پڑھے۔ ہمارا کہنا ہے کہ بچہ اردو بھی پڑھے۔ اس وقت عمومی صورت حال یہ ہے کہ بچے اسکول میں اردو نہیں پڑھتے لیکن کالج میں اردو پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسے بچے اگر اردو پڑھتے بھی ہیں تو بہت کمزور رہتے ہیں اور اردو زبان و ادب کا علم ان کا ناقص رہتا ہے۔ انھیں میں سے اکثر بچے کالج یونیورسٹی میں استاد، یا اخبار، ریڈیو، ٹی وی میں اردو کے صحافی بنتے ہیں۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں میں صحافتی اداروں میں اردو کا حال زبوں اور دردناک حد تک زبوں ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بہت کم بچے اسکول میں اردو پڑھنے کے بعد کالج میں پہنچتے ہیں۔‘‘

نا مکمل۔۔۔۔

(اشعر نجمی اس مضمون کو قسط وار لکھ رہے تھے اپنی (Esbaat Quarterly) فیس بک کی ’وال‘ پر۔ بعد میں اسے مکمل کر کے انہوں نے اپنی مرتبہ کتاب ’وہ جو چاند تھا سرِ آسماں‘ میں شامل کر دیا ہے۔ بقیہ مضمون کے لئے اس کتاب کا مطالعہ کریں۔)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے