انیسویں صدی کی دلی کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے، بہت کچھ بھلا دیا گیا ہے اور بہت کچھ مٹا بھی دیا گیا ہے۔ ماضی کو حال میں متشکل کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کی ذکاوت درکار ہے جو بہ یک وقت ’اندر کا نقاد‘ اور مورخ ہو۔ شمس الرحمن فاروقی ہی کئی چاند تھے سرِ آسماں جیسا بیانیہ لکھ سکتے تھے، جو نہ صرف بے عیب ہے بلکہ نہایت تفصیل کے ساتھ اور لطافت سے گھڑا گیا ہے۔ فاروقی نے مگرمچھوں کے اس تالاب میں گہرا اور پر اعتماد غوطہ لگا کر۔۔۔جسے ہم میں سے اکثر انیسویں صدی کی دلی کے شب و روز سمجھتے ہیں۔۔۔ ہمیں ایک ایسی کہانی عطا کی ہے جو 1857 کی جنگ آزادی سے کچھ پہلے کی دہائیوں کی ہو بہو عکاسی کرتی ہے۔ اس میں مرکزی کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنی جائے پیدائش دلی کی مانند توجہ انگیز اور ترغیب آمیز حسن کی مالک، دل موہ لینے والی سرکشی کی حامل، بے ساختہ رجھانے والی، غم کی ماری بد قسمت عورت ہے۔ یہ ناول ہماری اجتماعی زندگی کے المیے کو سامنے لانے اور حقیقی بنانے کی یادگار کوشش کرتا ہے۔ اس ناول کے ذریعے ہم اس سب سے کہیں بڑھ کر وہ کچھ جاننے لگتے ہیں، جسے اب تک محض جاننے کے قابل سمجھا گیا تھا، ان چیزوں سے مختلف چیزیں یاد کرنے لگتے ہیں جنھیں محض یاد رکھنے کے قابل قرار دیا گیا تھا، اوراس شے کا تعاقب کرنے لگتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرنے لگتے ہیں جس کی تھاہ لانا تو کیا، خبر پانا بھی محال سمجھا جاتا رہا تھا۔
فاروقی صاحب ’معیاری‘ تصورات اور ’رہ نمایانہ‘ بیانیوں کی تقلیب کرتے ہوئے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اب تک ہم ایسا تاریخی بیانیہ پڑھتے چلے آئے تھے جسے شیر کے شکاری نے تشکیل دیا تھا، شیر نے نہیں۔ شکاری جو شیر کو مستقل طور پر ایک ایسے عظیم ’غیر‘ کے طور پر دیکھتا تھا، جس سے خوف کھایا جاتا تھا، اور جس کے خلاف دل میں نفرت ہوتی تھی، اور جسے ہتھیاروں کے زور سے غلام بنا لیتا تھا۔
اس مقالے میں ژاک دریدا کے ’آرکائیو‘ کے تصور (جسے اس نے اپنے مضمون Archive Fever: A Freudian Impression میں پیش کیا ہے ۱) کی روشنی میں یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح شمس الرحمٰن فاروقی وزیر خانم کے ’مدھم نشان‘ (Trace) کو قائم اور روشن کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس مقالے میں فاروقی کے پہلے انگریزی ناول The Mirror of Beauty (جو ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ کا خود مصنف کے ذریعے کیا ہوا ترجمہ ہے) میں وزیر خانم کے اوائلِ حیات سے لے کر ان دنوں کی پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے، ان کی ’عتیق نگاری‘ (Archive-writing) کے طریق کار پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یہ مقالہ نو آبادیاتی آرکائیو کے حالیہ غیاب کو منکشف کرتے ہوئے وزیر خانم اور دہلی کو دو متوازی خطوط کے طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ دونوں اپنے وقت میں آقا بھی تھے اور آفت رسیدہ وجود بھی۔
جہاں سے دریدا نے بحث کا آغاز کیا ہے، وہیں سے ہم بھی گفتگو شروع کرتے ہیں۔ یعنی آرکائیو کے اشتقاق کی تحقیق، اوراس لفظ کے ماخذ ’arkhe‘ تک جب ہم پہنچتے ہیں تو اس تصور کی ردّ تشکیل کے بڑے پراجیکٹ کی جھلک دیکھ لیتے ہیں۔ دریدا ’arkhe‘ کے دو معنی کو نمایاں کرتا ہے: ’آغاز‘ یعنی commencement اور ’مقدس فرمان‘ یعنی commandment۔ اس لفظ کے بہ طور واحد استعمال ہونے اور پھر بھید و معنی کا حامل ہونے کی بنا پر ہی شاید نطشے کی وہ تھیسس قائم ہوتی ہے جو الفاظ کے استعمال اور ان کی ملکیت حاصل کرنے سے متعلق ہے۔ گزرانِ وقت کے ساتھ لفظ ‘arkhe’ نے اس مقبول عام خیال میں جگہ بنا لی جو ایک معنی پر دوسرے معنی کو فوقیت دینے سے عبارت ہے۔ نتیجتاً لفظ ’archive‘ کا استعمال بھی مقدس فرمان (مقتدرہ) سے زیادہ آغاز (ابتدا) کے سیاق و سباق میں ہونے لگا۔ دریدا اس ثنویت میں موجود خالص عدم مطابقت کی نشان دہی کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ دو لفظ، دو یکسر مختلف ’درجے کے درجوں‘ میں وجود رکھتے ہیں۔ اگر ایک ’متسلسل‘ ہے تو دوسرا’حاکمانہ‘ ہے۔ اگر ایک ’مقامیاتی‘ ہے تو دوسرا ’علم الذہن سے متعلق‘ ہے۔ دریدا اس کے لیے استدلال یہ لاتا ہے، اس آرکائیو کے اس تجسیمی اصول کی مدد سے، جسے وہ‘ توطن پذیری‘ کا نام دیتا ہے۔ وہ جب کہتا ہے کہ ’’جب یہ دستاویزات ان پناہ گاہوں (آرکائیو) کی تحویل میں دی جاتی ہیں تو اصل میں وہ قانون کو بیان کرتی ہیں: وہ قانون کو یاد کرتی ہیں، اور قانون پر اصرار کرتی ہیں یا قانون مسلط کرتی ہیں۔ اس طرح محفوظ کیے جانے سے، یعنی ’قانون کو بیان کرنے‘ کے اس دائرۂ اختیار میں، انھیں بہ یک وقت ایک سرپرست اور مقامیت کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرپرستی اور تعبیریاتی روایت کے باوجود بھی آرکائیو بے کار ہیں، اگر انھیں ایک زیریں طبق اور جگہ حاصل نہ ہو۔ یہ توطن پذیری اور نظر بندی ہی ہے جس میں آرکائیو واقع ہوتی ہیں۔‘‘ (یہ اصطلاحیں دریدا کی ہیں۔) یہی وہ مقامیت کاری ہے جس کی بنا پر آرکائیو کو محفوظ بنانے کا عمل ممکن ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہیں ذہنی قوانین کا علم اور مقامیات یک جا ہوتی ہیں۔ اسی جگہ ’’قانون اور وحدانیت ایک دوسرے کو باہمی مفاد میں قطع کرتے ہیں۔‘‘ تاہم جس بات کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے، وہ اس توطن پذیری کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ’عام‘ کو اس کی ’خصوصیات‘ کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے، اور یہیں دریدا انتہائی واضح انداز میں ’ترسیل‘ کا تصور پیش کرتا ہے:
’’حاکمانہ تفاعل محض مقامیات اور قوانینِ ذہنی کے علم سے عبارت نہیں۔ اس کے لیے فقط یہ ضروری نہیں کہ آرکائیو کو کسی مقام پرایک مستحکم زیریں طبق میں ایک جائز تعبیریاتی مقتدرہ کی تحویل میں دیا جائے۔ حاکمانہ طاقت کو، جو یک جائی، تماثل کاری، اور زمرہ بندی کا تفاعل بھی حاصل کر لیتی ہے، اس شے سے جوڑا جائے جسے ہم ترسیل کاری (consignation) کہتے ہیں۔ ترسیل کاری سے ہماری مراد محض اس کا یہ عام فہم مفہوم نہیں کہ ایک جگہ پر اور ایک زیریں طبق میں، رہائش مقرر کرنا یا تفویض کرنا ہے تاکہ اسے مخصوص کیا جا سکے (منتقل کرنا، جمع کروانا) بلکہ یہاں ترسیل کے عمل سے مراد ہے نشانات کو جمع کرنا۔ یہ فقط روایتی ترسیلیہ (consignatio) نہیں ہے، جو تحریری ثبوت کی صورت ہوتا ہے، بلکہ اس کے مفہوم میں وہ سب کچھ شامل ہے، جس کا آغاز ترسیلیے کے اوّلین مفروضے سے ہوتا ہے۔ ترسیل کا مقصودِ واحد مجموعہ کتب کو ایک نظام یا ہم وقتیت میں منظم کرنا ہے جس میں جملہ عناصر ایک مثالی ہیئت کو وجود میں لاتے ہیں۔ آرکائیو میں مطلق علاحدگی پسندانہ، کسی طرح کے غیر متجانس عناصر یا بھید نہیں ہونے چاہیئے جو [آرکائیو کی مثالی ہیئت کو] مطلق طور پر جدا یا علاحدہ (secernere) کر سکیں۔ آرکائیو کا حاکمانہ اصول، ترسیل کا اصول بھی ہے، جو اکٹھا جمع کرنے سے عبارت ہے۔‘‘ ۲
دریدا ترسیل کے عمل کو ظاہر کرنے کے لیے اسے دلیل بناتا ہے، کیوں کہ اس کے مطابق اس امر کی معنویت بے انتہا ہے کہ اس طرح کی تحقیقات کی جائیں۔ تنصیب یا ترسیل کا تقدیمی اصول سامنے لانا چاہیے، تاکہ وہاں مضمر تشویق کو سمجھا جا سکے۔ یہ ضروری ہے کہ ’مقامیاتی ذہنی قوانین کے علم‘ میں سے ذہنی قوانین کے علم پر توجہ کی جائے، تاکہ وجود کی ان شرائط سے آگاہی حاصل کی جا سکے جنھوں نے اوّل اس ترسیل میں آسانی پیداکی، اور اس بنیادی اصول کو ممکن بنایا جس سے رونما ہونے والی آرکائیو اپنا آئینی جواز حاصل کرتی ہے۔ وہ لکھتا ہے:’’آرکائیو کی سائنس میں اس ادارہ سازی (institutionalisation) کی تھیوری لازماً شامل ہونی چاہیے، یعنی بہ یک وقت اس قانون کی تھیوری جس کا آغاز خود کو وہاں نقش کرنے سے ہوتا ہے، یا اس حق کی تھیوری جو اسے [آرکائیو کو] مستند بناتی ہے۔ یہ حق ایسی کتنی ہی تحدیدات مسلط کرتا ہے، یا فرض کرتا ہے، جن کی ایک تاریخ ہے، ایک ردّ تشکیل پذیر تاریخ۔۔۔اور جس کی ردّ تشکیل کے لیے تحلیلِ نفسی کبھی اجنبی نہیں رہی‘‘ (ایضاً)۔
سفید فام آدمی کے نو آبادیاتی آرکائیو میں ’گورے بیانیوں‘ کی موجودگی کہیں زیادہ آسیبی صورت میں نظر آتی ہے، بہ مقابلہ اس تلخ حقیقت کا آئینہ دار ہے جس کا علم پس نوآبادیاتی دنیا میں عام ہے۔ استعمار زدہ عورت کی موجودگی کہیں زیادہ کم یاب ہے، اور یہ ایک ایسا المیہ ہے، جس کی طرف اتنی ہی توجہ ہونی چاہیے، جس کا یہ المیہ بجا طور پر مستحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاروقی نے کئی چاند تھے سرِ آسماں میں اس سمت قدم اٹھایا ہے، اوراس عورت کی موجودگی کا سراغ لگایا ہے، جس کی شناخت کو مورخوں کے قلم کی بے راہ روی اور مردانہ تعصبات نے مسخ کر رکھا ہے اور اولین سطح پر یہی بات اس ناول کو ایک اہم ادبی متن بناتی ہے۔
آرکائیو کی اہمیت کے بارے میں مبالغہ ممکن نہیں، خاص طور پراس وقت جب طاقت کے ان رشتوں سے معاملہ کیا جا رہا ہو جو سماجی حالات کی تنظیم کرتے ہیں۔ ان سماجی حالات میں عورتیں اپنے ہم پایہ مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستقل طور پر نظر انداز کی جاتی رہی ہیں۔ دریدا لکھتا ہے:
’’اگر کوئی سیاسی طاقت [عوام کی] یادداشت پر اختیار نہیں رکھتی تو لازماً آرکائیو پر اختیار رکھتی ہے۔ کامیاب جمہوری عمل کی پیمائش کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آرکائیو میں عوام الناس کی شرکت اور رسائی کس حد تک حاصل ہے، نیز ان کی ترکیب اور تعبیر میں انھیں کتنا عمل دخل ہے‘‘ ۳۔
سماج میں مجموعی طاقت اور منصب کے استحکام کی بنیادی شرط یہ ہے کہ آرکائیو پر اختیار حاصل ہو۔ طاقت اور منصب، ایسے منطقے تھے جو واضح طور پر اس زمانے کی عورتوں کے لیے تھے ہی نہیں۔ اس زمانے میں عورتیں آرکائیو کی دنیا میں آسیبی شبیہوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں، کہ وہ نظر تو آتی تھیں، مگر تھیں نہیں۔ وہ زندہ تھیں لیکن مردہ تھیں۔ ان کا سکوت ہی ان کا کلام تھا۔ وہ غیر موجودگی میں موجود تھیں۔ سرمور کی رانی کے زمان و مکاں میں مقام متعین کرنے کی مشکل سے متعلق لکھتے ہوئے، گائتری چکرورتی سپیوک دلیل دیتی ہیں:
’’انیسویں صدی کے برطانوی ہندستان کی کسی شبیہ کو علم کے ایک معروض کے طور پر مجسم کرنے میں حائل بڑی مشکلات میں سے ایک مشکل یہ ہے کہ اب برطانوی ہندستان کو ایک ایسی ثقافتی شے (cultural commodity) کے طور پر سخت محنت سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ روزمرہ کی اینگلو امریکی زندگی کی تعمیر پر جو چیزیں اثرا نداز ہو رہی ہیں، ان میں نئی مائیکرو برقی سرمایہ داریت کے نتیجے میں رونما ہونے والی عالمی سطح پر محنت کی عالمی تقسیم کا گہرا ہونا، نو آبادیاتی جارحیت کا عالمی پھیلاؤ، اور نیوکلیائی ہولوکاسٹ شامل ہیں۔ آج کا حاوی برطانوی عہد (Pax Brittanica)، جو شکار ہے، ٹی۔وی اور فلم کے فوق حقیقت پسندانہ غنائی شکوہ کا، اس میں ناظرین کو امپیریل ازم کا جواز مہیا کیا جاتا ہے، جس کی سطح پر منافقانہ انداز کی [امپیریل ازم کی] ایک سہل اور نیک نہاد قسم کی تنقیدِ ذات کے خد و خال موجود ہوتے ہیں ۴۔‘‘
شمس الرحمن فاروقی بھی غالباً اسی نوع کی مشکلات کے پیشِ نظر وزیر خانم کی تاریخ کا کھوج لگاتے ہیں۔ وزیر خانم پندرہ سال کی عمر میں کیپٹن ایڈورڈ مارسٹن بلیک کی رکھیل بنی۔ وہ درمیانی درجے کا فرنگی نو آبادیاتی فوجی افسر تھا۔ بعد ازاں وزیر خانم مشہور اردو شاعر داغ دہلوی کی اس وقت ماں بنیں جب وہ فیروز پور جھرکہ اور لوہارو کے نواب شمس الدین احمد خاں کے حرم میں داخل تھیں۔ یہی نہیں، اس کے بعد رام پور کے آغا تراب علی سے ان کی باقاعدہ شادی ہوئی، اور آخر میں مرزا فتح الملک بہادر، جو آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے وارث تھے، ان کی بیگم بنی۔ فاروقی صاحب First City Magazine کو انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’متن، خاص طور پر بیانیہ متن اپنا آقا یا مالک خود ہوتا ہے، اور مصنف کو نکیل ڈال کے لے چلتا ہے۔ تاہم جب میں نے غور کیا تو مجھ پر کھلا کہ وزیر خانم اور اس کی دلی ایک دوسرے کا ہو بہو عکس تھے۔ دونوں کے پاس سب کچھ تھا، یعنی کلچر، نفاست، علمیت اور اعلا ذوق، اپنے مجرد مفہوم میں۔ لیکن کچھ بھی ان کے لیے سود مند نہیں ہوا۔ دہلی ایک فرسودہ، متروک اور ناخواندہ شہر نہیں تھا، جیسا کہ نو آبادکاروں اور ان کے مقتدر د انش وروں نے کہا ہے۔ وزیر خانم من موجی، اخلاق سے عاری رنڈی نہیں تھی، جیسا کہ اسے معمولاً پیش کیا گیا ہے ۵۔‘‘
ٹھیک یہی وجہ ہے کہ یہ ناول، حسن اور انیسویں صدی کی زندگی کی تاراجی کے آئینے کے طور پر ہر اس شے پر سوال قائم کرنے کی جسارت کرتا ہے جسے اب تک مسلمہ صداقت کے طور پرپیش کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ناول ہمیں واپس ماضی میں لے جاتا ہے اور اس کی ہر طرح کی کثرت وفراوانی کو دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ ہمیں اس امر کی تحسین کرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ ماضی کے اس قدر متنوع لوگوں کے لیے واحد، غالب بیانیہ نا ممکن ہے۔ ہمیں اس انتخاب کی تحسین بھی کرنی چاہیے کہ ناول کے مرکز میں مرد کے بجائے ایک نوجوان عورت ہے جو پدری اور سماجی اصول کی اطاعت سے انکار کرتی ہے، انھیں للکارتی ہے۔
گائتری چکرورتی سپیوک اپنے مضمون ’کیا نچلا طبقہ [سبلٹرن] کلام کر سکتا ہے؟‘ میں دلیل دیتی ہیں کہ ’’کولونیل تاریخ نگاری کے معروض کے طور پر اور سرکشی کے فاعل (Subject) کے طور پر، صنف کی آئیڈیالوجیائی تشکیل، مرد کو غالب رکھتی ہے۔ اگر کولونیل تشکیلات کے تناظرمیں، نچلے طبقے (سبلٹرن) کی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے اور وہ کلام نہیں کر سکتے تو عورت کے طور پر سبلٹرن تو کہیں زیادہ پرچھائیں ہے‘‘ ۶۔ فاروقی صاحب انہی دوہری پرچھائیوں میں وزیر خانم کی تخلیق کرتے ہیں، جو اپنے ریڈیکل خیالات اور مسلمہ نظام کی اس کے اندر ہی سے تخریب کرنے کی قوت کی بنا پر نہ صرف ابتدائی تانیثیت پسندوں (فیمنسٹ) میں سے ہے، بلکہ ایک ایسی ہندستانی بھی ہے جو اپنے فولادی اعتماد کے سبب ولیم فریزر جیسے طاقت ور شخص کو گھر کی راہ دکھاتی ہے۔ اس کے دل میں ان پدرسری احکام کا کوئی احترام نہیں ہے جن میں عورتوں سے کہا جاتا ہے کہ شوہر کے لیے ان کا جینا مرنا ہی ان کا حقیقی منشا اور مقصد حیات ہے۔ جب اس کی بڑی بہن، بڑی بیگم نے اسے زندگی کے حقائق سے آشنا کرنے کی کوشش کی، اور عورتوں کے ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرنے پرز وردیا تو وزیر نے جو کچھ کہا، انھیں ایسے حقیقی اور انتہائی سخت الفاظ کہا جا سکتا ہے جو اب تک انیسویں صدی کی عورت سے منسوب کیے گئے ہیں:
’’میں کس مرد سے کم ہوں؟ جس اللہ نے مجھ میں یہ سب باتیں جمع کیں اس کو کب گوارا ہو گا کہ میں اپنی اہلیت سے کچھ کام نہ لوں بس چپ چاپ مردوں کی ہوس پر بھینٹ چڑھا دی جاؤں‘‘؟ (ص 177)
گو یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انیسویں صدی، اردو (جسے فاروقی بجا طور پر ’ہندی‘ کہتے ہیں، جو اس زمانے میں اس زبان کا نام تھا) شاعری کا عہد زریں تھا، مگر کوئی شخص اس عہد کی زرخیزی، جمال اور شائستگی کا تصور، نو سو صفحات کو محیط اس ناول کو پڑھے بغیر نہیں کر سکتا۔ یہ ناول انتہائی نفیس اور سحر انگیز اشعار اور نثر سے مزین ہے جن میں انیسویں صدی کی روح سرایت کیے ہوئے ہے۔ وزیر خانم، جو الفاظ کی دلفریبی اور قوت سے برابر آگاہ رہتی ہے، شعر گوئی کو فرصت کا مشغلہ کہتی ہے، جس کی مدد سے وہ مردوں سے برابری کا دعویٰ کر سکتی ہے، نیز اس کی مدد سے مردوں کے دلوں کو گرفتار کر سکتی اور چھین لے جا سکتی ہے۔ (ص 391)۔ یہ دیکھنا کہ وزیر خانم کا منصوبہ کیسے رو بہ عمل ہوا، ان بہت سی مسرتوں اور لطف اندوزیوں میں سے ہے، جو ہر اس شخص کی منتظر ہیں، جو اس کے صفحات کی سیر کے لیے کبھی کبھی وقت نکالتا ہے، صفحات جو ضرب المثل مینا بازاروں کی طرح دمک رہے ہیں۔ صدیق الرحمٰن قدوائی کہتے ہیں کہ انھوں نے اس ناول کا مطالعہ کئی طویل راتوں کے دوران میں کیا، اس کے ہر لفظ کا لطف لیا، اور ہر واقعے کو نئے سرے سے بسر کیا۔
وزیر خانم (یا چھوٹی بیگم کہ وہ اسی نام سے عموماً معروف تھی)، اس کو مارسٹن بلیک کے ساتھ جے پور گئے ہوئے ایک ہی دن گزرا تھا کہ اس نے اپنی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اپنی منطق اور عملی سمجھ بوجھ سے کام لینا شروع کیا۔ وہ کچھ استغراق یا خود کلامی کے عالم میں، ایک مرتبہ اپنی زندگی کا موازنہ اپنی بڑی بہن سے کرتی ہے، اور یہ فیصلہ دیتی ہے:
’’اور بڑی۔۔۔؟ بھلا ان جیسا کون ہو سکتا ہے۔ پاک صاف جنت کی حور۔ لیکن ان کی زندگی بھی کیا زندگی ہے۔ بچوں کی خدمت، میاں کی ناز برداری، ساس سسر کے دباؤ میں جینا، یہ بھی کوئی جینا ہے۔ ابھی کم سے کم مجھے تو صاحب کے ناز نہیں اٹھانے پڑتے، وہی میرے ناز اٹھاتے ہیں۔ نہ بابا۔ ایک پاؤں پر کھڑی ہو کر سارے گھر کی خدمتیں، ساس سسر کے چونچلے، بچوں کی چیخم دھاڑ، میاں کے تن بدن پر اپنی جان نچھاور کر کے دو وقت کی روٹی کھانا، یہ مجھ سے نہ ہو گا۔ میں کسی مرد سے دبنے والی نہیں۔ کیسی اچھی گڑیا سی صورت تھی ان کی۔ اب منہ سوکھ کر ذری سا نکل آیا ہے۔ آخر دنیا میں عورتیں ہی سارے دکھ کیوں بٹوریں، سارے بوجھ کیوں اٹھائیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ لونڈی کو لونڈی کہا رو دیا بی بی کو لونڈی کہا، ہنس دیا اسی لیے تو کہتے ہیں کہ بس دو بول پڑھوا لو اور جو خدمت چاہو لے ہو۔ ذلیل بھی کرو تو وہ ہنسی میں ٹالے گی۔ ایسی بیگم صاحبی کس کام کی۔ اس سے تو میں اچھی ہوں۔ موے شیر سے بلّی بھلی۔ بلا سے بیگم نہیں ہوں لیکن ماما چھو چھو بھی نہیں ہوں‘‘۔ (ص 190)
چھوٹی بیگم نے مارسٹن بلیک کی بی بی کی حیثیت میں اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا کہ اس کی خانگی دنیا فقط اس کی اپنی ہو، اور روزمرہ کی انتہائی معمولی سرگرمیاں بھی اس کی ہدایت اور ثقافتی اوامر کے مطابق ہوں۔ مارسٹن بلیک کو مجبور ہونا پڑا کہ اس کی زندگی وزیر کی زندگی سے مطابقت رکھتی ہو، نہ کہ اس کے بر عکس ہو۔ یہی نہیں، وزیر نے مسلمان خاندان کی وضع کی تقلید میں آب دار خانہ (شراب اور الکحل رکھنے کا کمرہ) ختم کر دیا اور مارسٹن کے لیے روزانہ غسل لازم کیا۔ باورچی خانے میں سور کا گوشت ممنوع کر دیا۔۔۔ تازہ گوشت کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے چڑیا خانہ بنایا جس میں مرغی، تیتر، کوئل، بطخ، مور اور کبوتر پلے ہوئے تھے۔ نیز تازہ دودھ کے لیے بکری (جو انگریزوں کی ترجیح رہی ہے) کی جگہ دو گائیں اور بھینس رکھیں۔ ہر چند وزیر ہمیشہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھی کہ آس پاس کون اصلی’غیر‘ ہے۔ وہ اپنے نوکروں پر چوری کا الزام لگنے کی صورت میں ان کا ہمیشہ دفاع کرتی تھی۔ ایک دفعہ جب بلیک کو نوکروں پر چھوٹی موٹی چوری کا شک گزرا اور اس نے کہا ’’یہ ہندستانی سب حرامی ہیں۔ یہ سب ایک جیسے ہیں‘‘ تو وزیر غصے میں یہ کہتے ہوئے اس پر جھپٹ پڑی کہ:
’’نکاح بیاہ کے تو تم لوگ قائل نہیں ہو اور میرے لوگوں کو حرام کا جنا کہتے ہو۔ آئندہ ایسی بات منہ سے نکالنا متی، نہیں تو۔۔۔‘‘ (ص 194)
اس واقعے کے ذکر سے (اور اس طرح کے کئی واقعات ناول میں ہیں) میرا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اگرچہ وزیر خانم بغیر شادی کے بلیک کے ساتھ رہ رہی تھی اور مکمل طور پر اس کی محتاج تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اسے انگریزوں کے خلاف اپنا دفاع کرنا ہے۔ بلیک اس کا عاشق ہو سکتا تھا، مگر وہ اس کی ماتحت نہ تھی، لونڈی نہ تھی۔ یہی صورت دہلی شہر کے ساتھ تھی: حکم کمپنی بہادر کا ہو سکتا تھا، مگر ملک بادشاہ کا تھا۔ بازاروں، حویلیوں، لوگوں کی نجی زندگیوں میں اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ کون یہاں کا تھا، اور کون باہر کا تھا۔ فاروقی صاحب، یا ناول کا بیان کنندہ ہمیں بتاتا ہے کہ
’’بجا کہ کمپنی بہادر کا حکم شاہ عالم کی سلطنت کے وسیع حصے پر چلتا تھا، مگر ہندستان کے لوگوں نے ابھی تک اپنے دلوں میں (گوروں کے) حکومت کرنے اور خراج اور لگان وصول کرنے کو جائز نہیں سمجھا تھا۔‘‘
اس بحث کا اختتام ایک خوب صورت سطر پر ہوا ہے، جو ہندستان کے پورے نو آبادیاتی نظام کو عمدگی سے بیان کرتی ہے:
’’کمپنی کے تحت بہت کچھ خطۂ زمین تھا تو سہی، لیکن ابھی اہلِ ہند کی نظر میں وہ حکم چلانے اور خراج و باج وصول کرنے کی مستحق نہ ہوئی تھی۔ حکم اس کا رہا ہو، لیکن حکومت اس کی نہ تھی‘‘۔ (ص 99)
مارسٹن بلیک نے وزیر سے شادی کا وعدہ کیا تھا، مگر اس سے پہلے کہ وہ اس پر عمل کرتا، اس کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد وزیر کو انگریزوں کی برہمی اور ریا کاری کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے بلیک کے سلسلے میں وزیر کے کسی قانونی حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بلیک کے دور کے رشتہ داروں میں سے ٹینڈل میاں بیوی نے نہ صرف یہ کہ متوفی کے اثاثوں پر دعویٰ داغ دیا، بلکہ اس کی اولاد اور وزیر خانم پر اپنا اخلاقی اور مذہبی حق بھی جتایا۔ جب ٹینڈل نے اس سے کہا کہ اس کے پاس نہ پیسہ ہے، نہ عزت تو وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتی ہے،’’عزّت ناپنے والی آپ کون ہیں اے بی میم صاحب‘‘۔ (ص 224)
جب وزیر کو احساس ہوا کہ وہ ولایتی قانون کی طاقت کے مقابلے میں کمزور ہے، تو اس نے اپنے اختیارات کو نئے سرے سے مرتب کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ اگرچہ وہ بچوں کو ساتھ نہیں لے جا سکتی، مگر ’’وہ ان کی پرورش اور روزمرہ کے تمام اخراجات برداشت کرے گی، اور انھیں ہندی اور فارسی کی تعلیم دی جائے گی۔۔۔انھیں اجازت ہو گی کہ وہ ہماری طرح اور آپ کی طرح کا لباس پہنیں‘‘، اور وہ اپنی ’’قربانیوں کے بدلے‘‘ بلیک کے چھوڑے ہوئے گھر کے اثاث البیت کی اکلوتی مالک ہو گی۔’’ایک ہندستانی عورت سے انھیں توقع نہ تھی کہ وہ اس لیاقت کے ساتھ گفت و شنید کرے گی اور پھر مردوں کی طرح ہاتھ بھی ملائے گی‘‘ (ص 227)۔ لہٰذا ہم در اصل ایک لڑکی کو ایک عورت بلکہ ہندستانی عورت کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ بلیک کی موت کے وقت وہ بہ مشکل انیس سال کی تھی۔۔۔یہ ایک ایسی صلاحیت اور دانش مندانہ حکمت تھی جس کی توقع کسی ہندستانی مرد سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس ملک کے حقیقی محافظ جب ملک کی باگ ڈور برطانویوں کے سپرد کرتے چلے جا رہے تھے تو وہ وزیر ہی تھی جس نے احساس کمتری کے اس الجھاوے کا رخ بدل دیا (فرانز فانن Franz Fanon نے انھیں ’الجھاووں کا بارود خانہ‘ کہا ہے) جو مقامی باشندوں کے دلوں میں استعمار کاروں کے لیے موجود ہوتا ہے، اور جس کی مثالوں اور نتائج سے آج بھی ہماری تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
وزیر میں اپنی عزت نفس کے لیے ایک جابر۔۔۔ قطع نظر کہ اس کی چمڑی کا کیا رنگ ہے۔۔۔ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی غالباً یہ صلاحیت ہی تھی جو اسے نواب شمس الدین احمد خان کے قریب لائی۔ نواب دوسرے شخص تھے جو وزیر کی زندگی میں آئے اور جن سے وزیر کا تعلق دہلی کے لیے دوسری تمثیل کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ وزیر جب نواب کے ساتھ ممکنہ تعلق کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر رہی ہوتی ہے، تو وہ مافوق الفطری مدد کی جستجو ایک ایسے انداز میں کرتی ہے جو ہندستان کے مشترکہ ثقافتی مزاج کی پیچیدگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ پنڈت نند کشور، وزیر کی درخواست پر اس کی راہ نمائی کے لیے خواجہ حافظ کے دیوان سے فال نکالتا ہے۔ ہر چند کہ نواب کے ساتھ تعلقات میں اس کا کردار اطاعت شعاری پر مبنی ہے، مگر جب کبھی اسے کسی بات پر تحفظات ہوتے ہیں تو وہ ان کا برملا اظہار کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس نے خود کو جسمانی لذتوں سے محروم کیا، جن کی اسے خواہش تھی، اور جنھیں وہ اپنا حق تصور کرتی تھی جب اس نے نواب کے ساتھ پہلی رات بسر کی۔ اس نے نواب سے پہلے خود کو بے لباس کیا، جس سے نواب کے دل میں تکدّر کا چھوٹا سا بگولا اٹھا۔’’انگریز کی صحبت نے اسے بے حیا بنا دیا ہے‘‘ (ص 353)، انھوں نے سوچا۔ لیکن پھر انھیں انیسویں صدی کے شاعر میرؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے:
مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
کپڑے اُتارے ان نے سر کھینچا ہم کفن میں
ولیم فریزر شروع ہی سے وزیر کا پیچھا کر رہا تھا، حالاں کہ وہ اس وقت بھی ایک طرح سے نواب کی ہو چکی تھی۔ وہ اس کے گھر آتا ہے اور پیش قدمی کرتا ہے جسے وہ ناکام بناتی ہے۔ فریزر اسے دھمکی دیتا ہے کہ ’’یہ سودا تجھے مہنگا پڑے گا‘‘، جس کا جواب وہ غیر معمولی وقار اور شدید طنز کے ساتھ دیتی ہے:’’میرا آپ کا کوئی سودا نہیں۔ اور میں وارے کا سودا بھی نہیں ڈھونڈتی۔ میں تو عیار طبع خریدار دیکھتی ہوں۔ یہ کہہ کر وزیر بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی: دروازہ اُدھر کی جانب ہے صاحب کلاں بہادر‘‘ (ص 396)۔
یہ حقیقت کہ یہ الفاظ ایک عورت نے دہلی کے ریزیڈنٹ کو خطاب کر کے کہے ہیں، اس فرق کو ظاہر کرتا ہے جو عام مردوں عورتوں اور وزیر میں تھا، وہ وزیر خانم جسے اردو مورخ ایک رنڈی اور زرپرست فاحشہ سمجھ کر ملامت کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ ہم اس امر پر متعجب ہونے سے باز نہیں رہ سکتے کہ دنیا کس قدر مختلف ہوتی اگر عورتوں کی آزادی کو اس وقت کے معاشرے کے تقدس مآب مردانہ نظامِ مراتب کی بھینٹ نہ چڑھایا جاتا۔
وزیر خانم کے اپنے دوسرے ساتھی نواب شمس الدین احمد کے ساتھ تعلق کا بیانیہ بھی دہلی کی زوال پذیر تقدیر کی علامت ہے: ہم دہلی پر برطانوی پھندے کو تنگ ہوتا دیکھتے ہیں، جس کا مظاہرہ نواب کی گردن کے گرد جلاد کے پھندے کی صورت میں ہوتا ہے، اور جو پھیل کر ہندستان کی سر زمین کی گردن تک پہنچتا ہے۔ نواب کے ولیم فریزر کو انکل کہنے سے لے کر فریزر کے ذریعے اس کے قتل ہونے تک کی کہانی، نو آبادیاتی محکوموں کے انگریزوں سے تعلق کی تمثیل ہے۔ انگریز بے ضرر تاجر بن کر آئے، دوست ہونے کا تاثر دیا اور آخر آخر میں پوری تہذیب، اور پورے طرزِ حیات کے قاتل کے طور پر انھوں نے اپنی اصلیت ظاہر کر دی۔ جب شمس الدین احمد خاں جیل میں تھے اور ان کا معاملہ زیر تفتیش تھا، ان کے کسی دور کے بھی رشتہ دار کو دہلی کی گلیوں میں نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ محاصرہ تھا، گھیرا ڈالے بغیر۔ وزیر اپنے بیٹے کی زندگی کو خطرے میں دیکھ کر اسے بالآخر رام پور بھیجتی ہے۔ اسے دہلی چھوڑنے کے خیال ہی سے وحشت ہوتی ہے جہاں اس کا محبوب نواب دفن تھا، لیکن حالات نے اسے دوسرے کوچ پر مجبور کیا۔ اس مرتبہ منزل رام پور تھی، جہاں اس کے جمال اور نفاست کے سبب، ایک اور شخص اس کا عاشق بنا۔ وزیر نے اس کی جستجو نہیں کی تھی، مگر وہ خود اپنے طور سے پچھلے دو چاہنے والوں کی ماننداس کا مشتاق تھا۔ آغا مرزا تراب علی بھی، جو اس کا تیسرا عاشق اور پہلا شوہر تھا، بد قسمتی کا شکار ہوا اور شارع عام پر موت کے منہ میں چلا گیا۔ وزیر دہلی لوٹ آتی ہے، مگر بے گھر ہے۔ لیکن اگر وہ مکان نہ ہوتا جو اسے نواب شمس الدین نے تحفے میں دیا تھا تو اس کے سر پر چھت نہ ہوتی۔ جب ہم ناول کے آخری حصے تک پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وزیر اور دہلی کی بد قسمتی کے ایک جیسے سلسلے ہیں جو مدغم ہو کر دونوں کو لال قلعہ کی طرف لے جاتے ہیں، جن کا عروج بہ ظاہر شادی پر ہوتا ہے، مگر انجام موت اور علیحدگی پر ہوتا ہے، جو حتمی زوال ہے۔ انگریزوں نے فرمان جاری کیا کہ بادشاہ کی موت کے بعد بادشاہی نہ رہے گی، اس کی آل کو لال قلعے سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف، یہ بھی تھا کہ بہادر شاہ ظفر کی منظورِ نظر بیوی زینت محل نے حکم دیا کہ وزیر کو، جو اپنے شوہر فتح الملک بہادر کے انتقال کے بعد قلعے کی پہلی وارث تھی، لال قلعہ ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہو گا۔
یہاں اہم بات یہ نہیں ہے کہ ناول مغل حکومت کے سقوط کی تصویر کشی کرتا ہے، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ناول میں یہ کہانی از سر نو بیان کی گئی ہے، حقائق میں رد و بدل کیے بغیر اور تعصب کی آنکھ سے نہیں بلکہ حقائق کی آنکھ سے دیکھ کر واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ یہ ناول در اصل طاقت کی کار فرمائی کا مطالعہ ہے۔ مدھوسری چٹرجی نے فاروقی صاحب کا یہ بیان نقل کیا ہے:’’میں دہلی میں اور ہندستان میں اردو کلچر سے متعلق مجموعی طور پر لوگوں کی قطعی بے خبری کے خلاف اپنے دلی جذبات کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا تھا‘‘۔ ۷
حقیقت یہ ہے کہ ایک اجنبی ملک کے اندھے آرکائیو کی تیرگی جو تاریخ کے قلب میں اتری ہوئی ہے، اس میں سے ماضی کی بازیافت ہی نے ناول The Mirror of Beauty کی تخلیق ممکن بنائی ہے۔ بار بار دہرائی ہوئی ایک کہانی کو نئے سرے سے لکھنے اور بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ نو آبادیاتی تاریخ پر کی گئی استر کاری کو منصفانہ طور پر منکشف کیا جائے۔ یہ ناول استعمار کے تحت بسر کی گئی زندگی پر مسلط جھوٹ کی گھنی تہوں کو ہٹا کر سچائی کی کھوج کرتا ہے۔ فاروقی صاحب کا پراجیکٹ ٹھیک ٹھیک وہی ہے، جسے شاہد امین نے ’بیہڑ، اڑیل وقوعے‘ (recalcitrant event) کی صورت پیش کیا ہے، جو ’’متنازع حقیقت کی حدود سے باہر لرزتا رہتا ہے، نادیدہ ریکارڈ ہے، جو قابل مشاہدہ واقعات کی تاریخ سے بیانیے کی قلمرو تک پھیلا ہوا ہے‘‘ ۸۔ بلاشبہ ایک ناول نگار کے لیے اس مخصوص کردار کو آرکائیو سے نکال کر زندہ کرنا آسان نہیں تھا، جس کا وجود وسیع تناظر میں رکھنے سے بالکل حقیر نظر آتا تھا۔ لیکن تحریری ریکارڈ، ہر چند کہ وہ ناکافی ہے، لیکن اس سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، اس سے ثابت ہے کہ وزیر خانم کا کردار ہماری تہذیب کی علامت بننے کی پوری صلاحیت کا حامل تھا۔
کولونیل آرکائیو کسی کو جواب دہ نہیں۔ جیسا کہ انجلی اروندکر نے کہا ہے:’’اس طرح کے مسائل خصوصاً اس وقت سر اٹھاتے ہیں، جب کوئی شخص انیسویں صدی کے برطانوی ہندستان پر قلم اٹھاتا ہے۔‘‘ وہ جغرافیائی سیاسی دنیا، جسے سامراجی آرکائیو کہیں تو غلط نہ ہو گا، اس کی تعریف اروندکر نے کہا ہے کہ ’’یہ کوئی عمارت نہیں، نہ متون کا مجموعہ ہے، بلکہ ان سب کا اجتماعی تخیلی سنگم ہے، جن کا علم حاصل کیا گیا، یا جن کا علم حاصل کیا جا سکتا تھا، یعنی ایک زبردست تخیلی نمائندگی تھی، علمیاتی بنیادی پیٹرن کی!‘‘ فاروقی صاحب خود اپنی بیانیہ آرکائیو تخلیق کرنے پر صریحاً توجہ مرکوز کرتے ہیں: ایسی آرکائیو جس کی بنیاد ماضی کے پارچوں (palimpsest) پر ہو۔ یہاں فاروقی صاحب خاص اس مدھم نقش (trace) کا تعاقب کرتے ہیں، جسے دریدا نے ’’خود اپنے آپ، خود اپنی موجودگی کی تنسیخ کہا ہے، اور جو اس کی بے درماں غیر موجودگی، اس کی غیر موجودگی کی دھمکی یا کرب سے عبارت ہے۔ جس مدھم نقش کو مٹایا نہ جا سکے، وہ مدھم نقش نہیں ہے، اس کی کامل موجودگی ہے۔۔۔‘‘ گائتری سپیوک زور دے کر کہتی ہیں ’’میں جن دستاویزات کا مطالعہ کرتی ہوں، ان سے مجھ پر کھلتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہی اور منتظمین، نمائندگیوں کے جس معروض (object of representations) کی تشکیل کر رہے تھے، وہی ہندستان کی حقیقت بن جاتا ہے‘‘۔ ادبی تھیوری کی قدرے غیر عمومی زبان میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فکشن کی تشکیل تھی، جس کا مقصود ’’حقیقت کے اثرات‘‘ کا مکمل مجموعہ پیدا کرنا تھا، اور اس ’’فکشن‘‘ کی ’’غلط قرأت‘‘ (misreading) نے اسم معرفہ ’’انڈیا‘‘ کو پیدا کیا‘‘ ۹۔
دریدا کی دلیل ہے کہ ’’اگر کوئی سیاسی طاقت [عوام کی] یادداشت پر اختیار نہیں رکھتی تو لازماً آرکائیو پر اختیار رکھتی ہے۔ کامیاب جمہوری عمل کو ماپنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کس حد تک آرکائیو میں عوام الناس کی شرکت اور رسائی حاصل ہے، نیز ان کی ترکیب اور تعبیر میں انھیں کتنا عمل دخل ہے‘‘۔ برطانوی آرکائیو کے نظام نے کس طرح حقائق کو مسخ کیا اور بگاڑا، ناول میں اس کی عکاسی بالکل ابتدا ہی میں ملتی ہے جہاں ہمیں وسیم جعفر کی لورڈ رابرٹس کی ڈائری تک پہنچنے کی کوشش کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ وزیر خانم کی شبیہ کی حقیقت اور اصل تاریخ کی جستجو نے وسیم جعفر کو لارڈ رابرٹس کی ڈائری تک پہنچایا تھا۔ وسیم جعفر کو بتایا جاتا ہے کہ ’’1857 کے بہت سے کاغذات جنھیں غیر اہم قرار دیا گیا تھا، وہ کتب خانے کی فہرست میں درج ہی نہ ہوئے تھے۔ انھیں بکسوں میں بند کر کے تہ خانے میں رکھوا دیا گیا تھا کہ کبھی فرصت اور وسائل ہوں گے تو انھیں کیٹلاگ کیا جائے گا لیکن وہ نوبت ہی نہ آئی‘‘ (ص 41)۔ ہندستان کی پہلی جنگ آزادی کے ریکارڈ کا برٹش لائبریری کے تہ خانے میں بغیر کیٹلاگ کے پڑا ہونا ہماری دنیا کا المیہ ہے۔ جب وسیم جعفر نے شبیہ کو حاصل کر لیا تو اسے پتا چلا کہ ’’کسی بے درد نے اسے اس طرح پھاڑ ڈالا تھا کہ تہائی سے کچھ زیادہ تصویر ضائع ہو گئی تھی‘‘ (ص 43)۔ جو چیز ہم تک پہنچی وہ محمد حسین آزاد کا ذوق بیان تھا:’’شہر میں چھوٹی بیگم نام ایک حسین صاحب جمال اپنے ہنر میں۔۔۔ کہہ تو دو۔ شاید سمجھ جائے‘‘۔ (ص 45-46)
فاروقی صاحب کا مقصود، آرکائیو میں تاریخ کو محفوظ کرنے کے اس عمل پر تنقید ہے۔ ان کا منشا ایک متبادل، اور خود اپنی بصیرت سے مستند حقیقت پیش کرنا ہے، تاکہ ہم نہ صرف اس سب پر سوال اٹھا سکیں جو کچھ ہم تک’حقیقت‘ کے طور پر پہنچا ہے، بلکہ کولونیل آرکائیو کے نظام (جو طاقت کا ایک اور ہتھیار تھا) کے ذریعے ان حقائق کی پیداوار، اور تعمیر کے عمل کا جائزہ بھی لے سکیں۔ یہاں ایشل میمبر کا قول یاد آتا ہے: ’کوئی ریاست بغیر آرکائیو، بغیر اپنی آرکائیو کے نہیں ہے۔ دوسری طرف، آرکائیو کی موجودگی، ریاست کے لیے مستقل خطرہ ہوتی ہے‘‘ ۱۰۔ اس علمیاتی تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے، وسیم جعفر ناول میں سوچتا ہے:’’اب مجھے آنکھ کی حقیقت سب معلوم ہے۔ یہ تار نگاہ وار نگاہ فضول توہماتی تشکیلات ہیں۔ روشنی آنکھ سے نہیں نکلتی، آنکھ کے اندر آتی ہے تو دکھائی دیتا ہے۔ ابن الٰہیثم نے یہ بات ہزار برس پہلے بتا دی تھی۔ لوگوں کو یقین تب آیا جب اسے انگریزی کتابوں میں ثابت کیا گیا‘‘۔ (ص 53)
دریدا کے مطابق ’آرکائیو بخار‘ میں مبتلا ہونے کا مطلب ’’آتشِ جوش کا حامل ہونا ہے۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا اضطراب ہے، آرکائیو کو وہاں تلاش کرنے کا، جہاں یہ ہاتھ سے پھسل جاتے ہیں۔ یہ آرکائیو کے پیچھے دوڑنا ہے، اس وقت بھی جب آرکائیو کا ڈھیر موجود ہو، اور ٹھیک اس جگہ جہاں اس میں ’ہر طرح کے آرکائیو‘ (anarchives) ہوں۔ یہ آرکائیو کے لیے ایک مجبور کن، بار بار ظاہر ہونے والی اور ناستلجیائی آرزو ہے، یہ اصل کی طرف لوٹنے کی بے قابو آرزو ہے، ایک دیس لگن ہے، مطلق ابتدا کی قدیمی جگہ کی طرف واپسی کا ناستلجیا ہے‘‘۔ سائمن مورگن ورتہیم کی اس رائے میں دریدا کی فکر سمٹ آئی ہے کہ ’’آرکائیو، توطن پذیری کی صورتِ حال میں وجود میں آتی ہے، جس میں ان اشیا کو کم یا زیادہ مستقل طور پر نظر بند کیا جاتا ہے، جنھیں آرکائیو میں رکھا جاتا ہے۔ یہ نجی اشیا کو عوامی اشیا بنانے کے ادارہ جاتی طریقے کی عمومی طور پر نشان دہی کرتا ہے، تاہم ضروری نہیں کہ یہ پوشیدہ کو عام کرنے کا طریقہ ہو، کیوں کہ آرکائیو میں رکھا گیا متن ہمیشہ اسے محفوظ رکھتا ہے، جس کی (اپنی توثیق کے عمل میں) تخفیف محض شہادت یا ثبوت تک نہیں کی جا سکتی‘‘ ۱۱۔ دستاویز سازی کی اہمیت اور (سماج کی) تقدیر کو بدلنے کی طاقت پورے بیانیے میں گونجتی ہے۔ اگر مارسٹن بلیک، وزیر کا اندراج اپنی بیاہتا بی بی کے طور پر کرا لیتا، بچوں کو اپنی حیاتیاتی اولاد کے طور پر قبول کر لیتا، یا اس سے شادی کرنے کے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنا لیتا تو صورتِ حال بالکل مختلف ہوتی۔ صورتِ حال تب بھی بالکل مختلف ہوتی، اگر نواب شمس الدین احمد خاں نے، جنھوں نے وزیر سے بے کنار محبت کا دعویٰ کیا تھا، اپنی زندگی میں وزیر کی حالت، کسی انہونی کی صورت میں مستحکم کرنے کی کچھ کوشش کی ہوتی، یا اپنے اکلوتے بیٹے نواب مرزا کو اپنا قانونی وارث قرار دیا ہوتا۔ اس صورت میں بھی حالات مختلف ہوتے، اگر آغا تراب علی نے اپنی نو بیاہتا بیوی کو حق مہر کے حصے کے طور پر اپنا مکان لکھ دیا ہوتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صورتِ حال یکسر مختلف ہوتی، اگر برطانویوں کو نواب شمس الدین احمد خاں کا وہ خط نہ ملا ہوتا، جو کریم خاں کو بھیجا گیا تھا۔ انگریزوں نے اس خط کے مندرجات کی جو تعبیر کی، اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ نواب ہی قتل کا اصل محرک تھا۔
دریدا جسے ’آرکائیوی تشدد‘ کہتا ہے، اس پر بحث کا آغاز اپنے مضمون ’مسکوکیات، یعنی سکے کی پشت پر وہ خالی جگہ جو سکے کے ڈیزائن کے نیچے ہوتی ہے‘ (Exergue) سے کرتا ہے، اور مسکوکیات کے خلقی، بیضوی امکانات کا جائزہ لیتا ہے، جو بعد ازاں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ مسکوکیات کا موازنہ، اپنے آرکائیو کے فہم سے کرتا ہے کہ دونوں بہ یک وقت ’قانون عائد کرنے اور تنظیم دینے‘ کا دوہرا تفاعل انجام دیتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:’’مسکوکیات کا کام یہ ہے کہ وہ پیش بندی کے طور پر جمع کرے، اور فرہنگ کو پہلے سے آرکائیو میں شامل کرے، اس کے بعد مسکوکیات کو قانون عائد کرنا چاہیے اور ترتیب پیدا کرنی چاہیے، خواہ اس کا مطلب کسی مسئلے، یعنی انسانی فاعل (subject) کی شناخت تک خود کو مطمئن کرنا ہو۔ اس طرح، مسکوکیات کا کام، بہ یک وقت اداراتی اور مائل بہ تحفظ ہے: جیسا کہ بنجمن؟ (آف ضر کریٹک گیوالٹ؟ ) نے کہا ہے کہ یہ طاقت کا تشدد ہے، جو بہ یک وقت قانون کو قائم کرتا اور اسے محفوظ کرتا ہے۔ مسئلہ زیرِ بحث یہ ہے کہ مسکوکیات کے ساتھ جس تشدد کا آغاز ہوتا ہے، وہ خود آرکائیو کا تشدد ہے، آرکائیو کی حیثیت میں، آرکائیوی تشدد۔ اس طرح وہ استدلال کرتا ہے کہ کس طرح ایک آرکائیو بہ یک وقت اداراتی اور مائل بہ تحفظ ہوتی ہے، کیوں کہ آرکائیو ایک طرح کی فراوانی میں کار فرما ہوتی ہے، اس مفہوم میں کہ اسے محفوظ بنانے کا عمل اسی وقت وقوع پذیر ہوتا ہے، جب اسے لوگوں تک پہچانے کا انتظام کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اب چوں کہ آرکائیو کو خود اپنا قانون وضع کرنا ہوتا ہے، اس لیے وہ ایجاد کی ایک خاص قوت کی گرفت میں بھی ہے، جس کی وجہ سے دریدا کہتا ہے کہ آرکائیو اتنی ہی انقلابی ہے، جتنی روایتی ہے۔ آرکائیو کا غیاب، اس کی موجودگی کا مدھم نقش مستقبل کے تمام بیانیوں میں بار بار ظاہر ہوتا رہے گا۔ جیسا کہ کیپوٹو نے دریدا کے ’آرکائیوی بخار‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’انجام کار آرکائیو کو ایک کھلی کتاب ہونا چاہیے، جس کا رخ مستقبل کی طرف ہو، اسے امید کا رکھوالا ہونا چاہیے، اس میں نا ممکن کے لیے آتش شوق ہونی چاہیے۔ اس کی خصوصیت کوئی وعدۂ فردا ہونا چاہیے‘‘۔
شمس الرحمن فاروقی نے تحریر کے لیے تحقیق سے زیادہ یادداشت پر انحصار کیا ہے۔ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں ’’میں نے حقیقتاً کوئی تحقیق نہیں کی۔ یہ ناول کم یا زیادہ اسی ادبی اور سماجی کلچر پر ہے، جس کے بارے میں میں نے سالہا سال سے پڑھا اور جذب کیا ہے، اور جس کے بارے میں لکھتا ہوں۔ میں نے مخصوص حقائق کی تصدیق کے لیے تاریخ کی مخصوص کتابیں دیکھیں، جیسے یہ جاننے کے لیے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے سکے کب متعارف کروائے۔ تاہم روایتی مفہوم میں، میں نے کوئی ’تحقیق‘ نہیں کی۔ اس ناول میں بیانیہ آوازوں کی کثرت ہے، بعض اوقات بیان کنندہ اور ناول نگار بہ طور بیان کنندہ ایک ہیں، مگر اکثر وہ الگ الگ ہیں‘‘۔ اس کثرت کو ممکن بنانے، اور یادداشت پر انحصار کرنے کا عمل ٹھیک وہی ہے جسے آرکائیو کو غیر قانونی بنانے کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے، یہاں واضح طور پر ’آرکی رائٹنگ‘ کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔ دریدا کی دلیل ہے کہ ’’آرکائیو کو ماضی کی چیز سے زیادہ اور کہیں بڑھ کر، مستقبل کی آمد کو معرض سوال میں لانا چاہیے۔۔۔۔اس طرح آرکائیو محض ماضی کا مسئلہ نہیں ہے: یہ مستقبل کا مسئلہ ہے، بجائے خود مستقبل کا مسئلہ، فردا کے ردّ عمل، امید اور ذمہ داری کا مسئلہ‘‘۔
فاروقی نے ہمیں ایک ایسا ناول دیا ہے، جس میں ولولہ خیز انداز میں جزئیات نگاری کی گئی ہے اور کوئی بات قاری کے علم سے مخفی نہیں رہتی۔ نیز وہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ہمیں اس طرح کہانی، اس خوبی سے سنائی جا رہی ہے کہ جیسے یہ اوّل تا آخر تھی، وہ ایک ایسی جامع تصویر کشی کرتے ہیں کہ اس سے فی نفسہٖ انکار کا امکان ہی مٹ جاتا ہے۔ یہ سب پال ریکئر (Paul Ricoeur) کے اس خیال سے مطابقت رکھتا ہے کہ ’’ایک اچھے مورخ کا بنیادی مقصد، آرکائیو کے دائرے کو وسیع کرنا ہے، یعنی ایک با ضمیر مورخ کو آرکائیو کی عام دستیابی ممکن بنانی چاہیے، اور اسے اس کے ان مدھم نشانات کی بازیافت کرنی چاہیے، جنھیں غالب آئیڈیالوجیائی طاقتیں دبانے کی کوشش کرتی ہیں‘‘۔ [آرکائیو کو] وسیع کرنے کا یہی وہ عمل ہے، جس کی مدد سے فاروقی نے مکان (space) تخلیق نو کی اور وزیر خانم کی آواز نمایاں کی۔ یہ ایسی آواز ہے جو اپنے تاریخی اور نمایاں ہم وطنوں کے درمیان بلند قامت دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہے جو ایک طاقت ور پدری سماج کے انتہائی طاقتور مردوں کو اپنی منشا کے مطابق ڈھال سکتی، قابو کر سکتی، اور انھیں خاموش کر سکتی تھی۔
حواشی:
۱ Derrida, Jacques, Archive Fever, from Diacritics, Vol۔ 25, No۔ 2 (Summer, 1995) , pp۔ 9-63, Published by: The Johns Hopkins University Press۔ Translated by Eric Prenowitz۔ P 42۔#Stable
URL: http: //www۔jstor۔org/stable/465144۔
۲ ایضاً ص 10۔
۳ ایضاً ص 11۔
۴ گائتری چکرورتی سپیوک، The Rani of Sirmur: An Essay in Reading the Archives، بلیک ویل پبلشنگ برائے ویسلین یونیورسٹی، ص 247-72۔
۵ شمس الرحمن فاروقی، First City Magazine کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے، 17 جولائی 2013۔
۶ گائتری چکرورتی سپیوک، ‘Can the Subaltern Speak’، مشمولہ Literary Theory، مرتّبہ سوگاتا بھادری اور سیمی ملہوترہ، اینتھم پریس، 2010،ص 263-318۔
۷ http://madhu-madhusree۔blogspot۔in/2013/07/yet- another -white-mughal- look-at-wazir۔html
۸ امین شاہد، Writing the Recalcitrant Event, presented at Remembering/ Forgetting: Writing Historys in Asia, Australia and the Pacific، یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، سڈنی، 5 جولائی 2001۔
۹ گائتری چکرورتی سپیوک، The Rani of Sirmur: An Essay in Reading the Archives، بلیک ویل پبلشنگ برائے ویسلین یونیورسٹی، ص247-72۔
۱۰ ایشل میمبر، The Power of the Archive and its Limits، مشمولہ، Reconfiguiring the Archive، مرتبہ، کیرولین ہیملٹن، ورنر ہیرس، کلوور اکیڈمک پبلشرز، ڈوردریشٹ، بوسٹم، لندن، 2002۔
۱۱ سائمن مارگن ورتہیم، The Derrida Dictionary، کنٹی نیوم پبلی کیشنز، نیویارک، لندن، 2010،ص 71۔
***
ماخذ:
اب مرحوم ’ادبی دنیا‘ ویب سائٹ
٭٭٭