کووڈ 19 کے سبب سال 2020ء بد ترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ حارث خلیق نے اس سال کو اسلامی تاریخ کے سال 619ء کی طرز پر عام الحزن کہا ہے کہ اس برس کتنے ہی اہم اور ممتاز ادیب، ایک ایک کر کے، اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سب اموات ہی بھاری ہوتی ہیں اور کچھ زیادہ ہی بھاری ہوتی ہیں۔ انھیں برداشت کرنے کے لیے دیوتاؤں کا سا حوصلہ چاہیے ہوتا ہے، جس سے فانی انسان محروم ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی کا سانحہ ارتحال، ان سب سانحوں سے بڑا ہے جنھیں ہم یاد کر سکتے ہیں یا سوچ سکتے ہیں۔ ایک عام آدمی کی موت بھی سانحہ ہے مگر ایسے شخص کی مرگ سانحے سے کہیں بڑھ کر ہے جس نے اپنی تخلیقی و ذہنی صلاحیتوں کی مدد سے پورے عہد کو متاثر کیا ہو اور جس کی ہستی ایک ادارے اور تہذیب کے مرتبے کو پہنچ گئی ہو۔ فاروقی صاحب ایسے ہی شخص تھے! حقیقی معنوں میں بڑے اور عہد ساز ادیب۔ کورونا کا شکار ہونے سے پہلے پچاسی برس کے فاروقی صاحب، ادب سے پوری طرح وابستہ اور فعال تھے۔ شمیم حنفی صاحب کے بہ قول ایک نئی لغت پر کام کر رہے تھے اور اس کے لیے خاصے پر جوش تھے۔ یہ ہماری دنیا کا کیسا خوف ناک اسرار ہے کہ ایک نظر نہ آنے والا، انتہائی حقیر وائرس، عظیم تصورات کی حامل مخلوق کو شکست — اور موت جیسی حتمی شکست — دے لیتا ہے۔
فاروقی صاحب کو بہ یک وقت اردو، انگریزی اور فارسی زبانوں اور ان کے کلاسیکی و جدید ادبیات پر غیر معمولی عبور حاصل تھا۔ وہ بے مثال یادداشت اور غیر معمولی تجزیاتی صلاحیت رکھتے تھے، جن کا اجتماع خال خال ہوتا ہے۔ فاروقی صاحب نے تنقید میں راہ ساز اور فکشن میں بنیاد گزار کام کیا۔ اگر اردو میں صرف دو تین نقادوں کا نام بھی لینا ہو تو ان میں فاروقی صاحب کا نام ضرور شامل ہو گا۔ انھوں نے اردو فکشن میں پہلی بار ادبی تاریخ، ادیب اور ادبی مرکز کو موضوع بنایا اور اس کے ذریعے تہذیبی حافظے کی گم شدگی کا مداوا کیا اور فکشن کی شعریات کو بدلا۔ شاعر، مترجم اور مدیر کے طور پر بھی شہرت حاصل کی۔
اپنے آخری دن تکلیف میں گزارے۔ دہلی میں اپنی بیٹی کے گھر زیر علاج فاروقی صاحب بہ ضد تھے کہ انھیں ان کے گھر الہ ٰآباد لے جایا جائے۔ انھیں اپنے گھر کے پھولوں، پودوں، پرندوں اور جانوروں سے محبت تھی۔ کیا وہی محبت انھیں کھینچ لے گئی؟ جیسے ہی گھر پہنچے، فرشتۂ اجل پہلے سے منتظر تھا۔ رہے نام اللہ کا!
آج–کرسمس اور قائد اعظم کے یوم پیدائش کے دن— پوری اردو دنیا جس قدر سوگوار ہے، ایسے شاید پہلے کبھی نہیں تھی!!
فاروقی صاحب ہی کا شعر ہے:
اب کے دھوئیں میں خون کی سرخی کا رنگ ہے
یوں ان گھروں میں پہلے بھی لگتی رہی ہے آگ
٭٭٭