نظروں کے سامنے گہری دھند تھی۔۔۔ گرد و غبار تھا شاید۔۔۔۔ اس کا چہرہ ذرا سا چمکا تھا۔۔۔۔ اس دھند کے پیچھے۔۔۔ مگر شور اور بھیڑ میں وہ گم ہو گئی۔۔ میں نے اسے دوبارہ دیکھنے کی جستجو کی مگر نہیں۔۔۔۔ دھند بہت گہری ہے۔۔ یہ گرد و غبار نہیں، کہرا ہے شاید یا رات کا ملگجا اندھیرا۔۔۔۔ میری جستجو جدّ و جہد میں بدل گئی۔۔۔۔ میں اسے دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ مجھے اس بھیڑ میں زور کا دھکّا لگا اور میں لڑکھڑا گئی۔۔۔۔
’’عجیب عورت ہے۔‘‘ کوئی بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
اور میں اپنی جگہ کھڑی۔۔۔ اچانک بھیڑ سے الگ ہو گئی۔۔۔ جیسے ہوا میں معلّق۔۔۔۔۔ ہاں کسی کو پہچاننے کا یہ طریقہ صحیح ہے۔۔۔ میں نے ایک لمبی سانس لی اور اس چہرے کو یاد کرنے کی کوشش کی۔۔۔ کون تھی وہ؟۔۔۔ حجاب تھا اس کے چہرے پر۔۔۔؟ یا۔۔۔ نہیں، وہ تو سر برہنہ گھوم رہی تھی!۔۔۔ شاید نوجوان سی تھی۔۔۔ مگر پیشانی پر چند لکیریں بڑی واضح تھیں۔ پر یہ اچانک میں اس کے پیچھے کیوں پڑ گئی تھی۔۔۔ مجھے یاد آیا۔۔۔ جب وہ میرے پاس سے گزری تھی تو کسی نے کہا تھا۔۔۔ ’’عجیب عورت ہے یہ‘‘ اور میں نے تجسس میں ادھر نظر دوڑائی تھی۔۔۔ مگر وہ چہرہ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔۔۔ لیکن بہت شناسا بھی لگا تھا اور تب سے کانٹا سا بن گیا تھا اور دل میں چبھ رہا تھا۔۔۔ ایک معمّے کی طرح۔۔۔ میں اس معمّے کو حل کرنا چاہتی تھی۔۔۔ کسی نے دھکّا دے کر مجھے بھی تو عجیب کہا تھا۔۔۔ یہ تو ایک ایسا خطاب ہے۔۔۔ جو کبھی نہ کبھی ہر عورت کو ملتا ہے۔۔ کیونکہ وہ دنیا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خود کو نہ جانے کتنے سانچے میں ڈھالتی چلی جاتی ہے اور بدلے میں اسے اس خطاب سے نواز دیا جاتا ہے۔ میں اپنی جستجو چھوڑ کر گھر واپس جانا چاہتی تھی مگر راستے کی دھند میں جیسے کھو گئی تھی۔ نظر نے ساتھ دینا چھوڑ دیا مگر میری سوچ نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔۔۔ اپنے ذہن میں میں ان عجیب عورتوں کا خاکہ مرتّب کرتی رہی۔۔۔ اور کیوں نہ کرتی؟۔۔۔ یہ لفظ عجیب اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔۔۔ اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنی پیچیدہ یہ عورتیں۔۔۔۔ اس لفظ کے اندر پرت در پرت مفہوم کی دنیا آباد ہے۔۔۔۔ کیونکہ یہ اپنے اندر محبت، نفرت، غصّہ اور جھنجھلاہٹ سب کو سمیٹ لیتا ہے اور عجیب بن جاتا ہے پھر کسی نہ کسی عورت کو خطاب کی طرح عطا کر دیا جاتا ہے۔ میں اسی خطاب کا پیچھا کرتے ہوئے جیسے بادلوں پر سوار ہو گئی۔۔۔ جن میں بہت سارے رنگ شامل تھے۔۔۔ میں دونوں ہاتھوں سے ان رنگوں کو ہٹا کر جیسے کوئی واضح اور ٹھوس شبیہ تلاش کر رہی تھی مگر سب رنگ آپس میں خلط ملط ہوئے جا رہے تھے۔۔۔ ان رنگین بادلوں میں تیرتے ہوئے کبھی کبھی مجھے لگتا میں گہرے سمندر میں ڈوبتی جا رہی ہوں اور سانس لینا بھی میرے لئے دشوار ہے۔۔ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔۔۔ ذہن کی دھند چھٹ گئی۔ میں اپنے کمرے اور اپنے بستر پر تھی۔۔۔ محفوظ و مامون۔ سانس لے رہی تھی۔۔۔ سب کچھ صاف صاف دیکھ سکتی تھی۔۔۔ نہ دھند تھی، نہ بادل اور نہ ہی کہیں گہرا سمندر تھا۔ نہ الجھے الجھے خیال۔۔۔ بس دل پر کچھ بوجھ سا تھا اور سر میں درد۔
تو یہ عجیب عورتوں کی تلاش مجھے خواب میں پریشان کر رہی تھی۔۔۔ کیسی گھٹن تھی خواب میں۔ توبہ میں نے کروٹ بدلی۔۔ لگتا ہے عرصے سے پر سکون ہو کر نہیں سوئی۔۔ کبھی بے خوابی میں پریشان سوچ الجھائے رکھتی ہے کبھی نیند میں دھندلے خواب۔
کچن کی کھٹ پٹ سے اندازہ ہوا کہ سونی آ چکی ہے۔ اور روز کی طرح جلدی میں ہے۔۔ میں فریش ہو کر کچن میں پہنچی تو وہ چائے بنا چکی تھی۔ میں بالکنی میں آ کر بیٹھ گئی۔ خواب کا تاثّر زائل نہیں ہوا تھا۔۔ دل پر ایک بوجھ سا تھا اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔۔۔ عرصہ سے دل میں ایک انجانی پھانس سی چبھی تھی، جس سے بے خوابی کی شکایت رہنے لگی تھی۔۔۔ اور جب نیند آتی بھی تو اس طرح کے خواب پریشان کرتے۔
’’آنٹی‘‘ سب کام کر چکی ہوں، آج مسالہ آپ خود گرائینڈر میں پیس لیں۔۔۔؟‘‘ اس نے چائے کی کپ مجھے تھماتے ہوئے کہا
’’کیوں۔۔؟‘‘میں نے چڑھ کر پوچھا۔۔
’’میں نے آج نئی کرتی پہنی ہے۔ مسالے کی سل پر نہیں بیٹھوں گی۔‘‘ یہ چھبیس یا ستائیس سالہ دوشیزہ سونی کے نخرے تھے۔ جو روز نئی نئی کرتی پہن کر آتی تھی اور کام سے جی چرایا کرتی تھی، مگر کچھ اس طرح استدعا کرتی کہ غصّہ نہیں آتا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ جیسے جی چاہے کر لو۔ پر تمہارا روز کا یہی ڈرامہ ہے۔‘‘
وہ ہنستی ہوئی اپنا موبائیل سائیڈ ٹیبل سے اٹھا کر لہراتی ہوئی میرے سامنے سے نکل گئی۔۔۔
یہ بڑی عجیب ہے۔۔۔ کبھی اپنے حالات سے نالاں نظر نہیں آتی۔۔۔ ہر وقت ہنستی مسکراتی اچھے لباس میں صاف ستھری نظر آتی۔۔ اس کی ایک بیٹی اور ایک ناکارہ شوہر ہے۔۔ وہ عجیب اس لئے ہے کہ شوہر سے پٹ کر ہر وقت طلاق ملنے کی دھمکی کے باوجود اس کے خلاف رپورٹ نہیں کرتی۔ جب لوگ اسے بتاتے کہ قانون بن گیا ہے تو یہ کہہ کر سب کو لاجواب کر دیتی۔۔۔ ’’قانون بنانے والوں سے کہو، ان عورتوں کو پہلے انصاف دلوائیں جو دن رات پاور اور پیسے والوں کے ذریعے نوچی کھسوٹی جا رہی ہیں۔۔ وہ مجھ پر اپنی ناکامیوں کا غصہ نکال لیتا ہے پر میری عزّت کا رکھوالا تو ہے۔ دوسروں کی بہو بیٹیوں کو تو نہیں نگل رہا۔‘‘
اسے ضد تھی کہ وہ اپنے بل بوتے پر اپنی بیٹی کو تعلیم دلوائے گی۔۔ وہ مجبوری، بے بسی اور آنسو کو حقارت سے دیکھتی تھی۔ محنتی تھی۔۔۔ مگر اپنے کام کو آسان بنانے کا ہنر جانتی تھی۔۔ وہ ایسے گھر اپنے کام کے لئے منتخب کرتی تھی جہاں کم اور سلجھے ہوئے کام ہوں، چھوٹی فیملی ہو اور ہر وقت کی بک جھک نہ ہو۔ وہ اپنے کام کو جاب کہلوانا پسند کرتی تھی اور اپنی بیٹی سے ہمیشہ کہتی کہ تو پڑھ لکھ کر مجھ سے اچھی جاب کرنا۔۔۔۔ آفس والی!۔۔۔ گھر والی نہیں۔۔۔۔!! ایک دن مجھے اخبار دیتے ہوئے صفورہ زرگر کی تصویر پر انگلی رکھ کر بولی۔۔ ’’میں اپنی بیٹی کو ایسا بناؤں گی۔۔۔ پڑھی لکھی اور بہادر۔۔‘‘
وہ خود بھی تو بہادر تھی۔۔ کتنی ہمت سے پچھلے دنوں اپنے نا مساعد حالات کے باوجود مظاہرے میں ساری رات حاضر رہتی تھی، کیونکہ جینے کے لئے دن میں اسے مزدوری کرنا تھا۔۔ یہ ہمّت اور یہ جذبہ مجھ میں کیوں مفقود ہے۔ میں نے چائے کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے سوچا۔ اور کپ سامنے ٹیبل پر رکھ دیا۔
اور یہ صفورہ زرگر۔۔۔ یہ بھی تو کتنی عجیب لڑکی ہے اتنی کم عمر، نئی شادی شدہ اور تین ماہ کی حاملہ مگر اس نے کیا کچھ برداشت نہیں کر لیا اس چھوٹی سی عمر میں۔۔ اپنی پہاڑ جیسی ہمّت سے پورے ایک نظام سے ٹکرا جانا کیا معمولی بات ہے۔ اس کی ہمت نے نظام کے جبر کو ہی نہیں، بلکہ اس جبر کی زد میں آئے اس خوف کو بھی للکارا تھا جو دلوں میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ اسی للکار نے تو میرے خوف کو کھینچ کر روشنی میں کھڑا کر دیا تھا اور میں خود سے شرمندہ تھی۔۔، پچھلے دنوں ایک سو ایک دن چلنے والے احتجاج میں میں ایک دن کے لئے بھی اس اندھے قانون اور ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں اپنی آواز شامل نہیں کر پائی تھی۔ گھر اور گرہستی کی مصروفیات چھوڑ کر اس طرح کے احتجاج اور مظاہرے میں شامل ہونا کیا آسان بات ہے۔۔۔۔ ہر وقت گولیوں بموں اور پولس کی لاٹھیوں کے خوف کے سائے میں۔۔۔ وہ بھی دسمبر اور جنوری کی خون منجمد کر دینے والی اس سردی میں۔ آسمان کے نیچے۔؟ جب کہ ہر انسان اپنے گھروں کی محفوظ چہار دیواری میں آرام دہ رضائیوں میں دبکا رہتا ہے۔ میں بھی تو دبکی رہی تھی۔۔ خواب کے دھندلکے میں میں نے کئی بار صفورہ کا چہرہ بھی دیکھا تھا۔ ایک پر اعتماد چہرہ۔۔ کیا تمہیں اپنی نئی شادی شدہ زندگی کی فکر نہیں، نہ اس بدنامی کی جو تمہارے نام سے منسوب کی جا رہی ہے اور نہ ہی اپنے آنے والے بچّے کی یا اس کے روشن مستقبل کی۔ اور وہ حقارت سے قہقہے لگاتی دھند میں غائب ہو جاتی۔۔۔ جیسے کہہ رہی ہو، کون سا روشن مستقبل؟ کون سی زندگی؟
میرے دل کا بوجھ بڑھ جاتا۔۔ میں نیند اور جاگنے کا فرق بھولتی جا رہی تھی۔ حقیقت اور خواب جب خلط ملط ہو جائیں تو جینا محال ہو جاتا ہے۔۔۔ زندگی اور موت کی دو انتہاؤں کے درمیان یہ خواب ہی تو ہے جس کے پیچھے ہم زندگی بھر دوڑتے ہیں۔ اگر ان کے درمیان کی تفریق ختم ہو جائے تو ہم تعبیر ڈھونڈھنا بند کر دیتے ہیں۔ تب زندگی ہمیں ڈرانے اور تھکانے لگتی ہے۔ میں سچ مچ تھک گئی تھی۔۔۔ سوچتے سوچتے ڈر جاتی تھی۔۔۔ کیونکہ بھول گئی تھی کہ جن پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے اس کے لئے کوئی ہے۔۔ جو دریا میں راستے بنا دیتا ہے اور اپنی ساری طاقت کے باوجود فرعونیت غرق ہو جاتی ہے۔ مگر ایسے نتائج کے لئے پہلے خود میں دریا میں اترنے کی ہمّت کرنی پڑتی ہے۔
دروازے کی گھنٹی بجی تو میرے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا۔۔۔ میری چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
میں دروازے کی طرف دوڑی۔ اس خیال سے بھی کہ سونی کے جانے کے بعد سے دروازہ تو کھلا ہوا ہو گا۔ نہ جانے کون ہے اس وقت۔ دیکھا تو پڑوس والی دادی کھڑی تھیں۔۔ انہیں ساری بلڈنگ کے ہر عمر کے لوگ دادی کہتے تھے۔
’’السلام علیکم۔۔۔۔‘‘میں نے گرمجوشی سے کہا۔
’’وعلیکم السلام۔۔۔ آج حلیم بنایا تھا۔۔ گھر کا بالکل صفائی سے بنا ہوا ہے۔۔ اگر کوئی پرہیز نہیں تو لے لو‘‘ انہوں نے پیالہ میری طرف بڑھایا۔
’’ارے آپ کے ہاتھ سے کیسا پرہیز۔ پر آپ نے کیوں زحمت کی مجھے بلا لیا ہوتا۔۔ یا میں سونی کو بھیج دیتی۔‘‘
’’نہیں بھئی۔۔۔ پانچ ماہ سے گھر میں بند ہوں۔۔۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی، صبح کی سیرتو ختم ہی ہو گئی ہے، اب اسی بہانے میں ذرا اپنے فلور پر ہی چل پھر لیتی ہوں۔ اور دیکھو ماسک بھی لگاتی ہوں۔‘‘
’’اتنی صبح صبح آپ نے حلیم تیار بھی کر لیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے پیالہ پکڑتے ہوئے کہا
’’یہ صبح ہے؟۔۔۔ ا گیارہ بجنے والے ہیں۔‘‘
’’آپ اندر تو آئیے۔۔ میں نے تو ابھی صبح کی چائے بھی نہیں پی۔ اس لئے میرے لئے یہ صبح کی شروعات ہی ہے‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’دیر تک سونا۔۔۔ تم نئی نسل والوں کا طریقہ ہے۔ ہم لوگ تو پانچ بجے اٹھنے والے لوگ ہیں۔ ویسے بھی سارا دن اور ساری رات۔۔ احتجاج میں شامل ہونے کی عادت نے صبح ہی صبح سارا کام ختم کر لینے کی عادت کو اور بھی پختہ کر دیا ہے۔‘‘ وہ اندر آ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’میں حیرت کے سمندر میں غرق ہو گئی۔۔۔ اسّی سالہ اس خاتون کے خون میں کہاں سے اتنی گرمی آ گئی کہ برف گراتے آسمان کے نیچے بیٹھنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا تھا ان میں۔‘‘
’’کیا ہوا بی بی۔۔ کس سوچ میں گم ہو۔۔ میرا پیالہ خالی کر کے لے آؤ۔‘‘ میں ان کی آواز کے ساتھ سوچوں کی گرداب سے باہر آئی۔
’’جی۔ ابھی لائی۔ مسز فرحان تو بہت تعریف کرتی ہیں آپ کے کھانوں کی۔۔‘‘ میں ان کے جواب کا انتظار کئے بغیر کچن کی طرف چلی گئی۔ واپسی میں ٹی پاٹ کی ٹرے میرے ہاتھ میں تھی۔
’’ارے چائے بنانے کی زحمت کیوں کی؟۔۔‘‘ انہوں نے خوش دلی سے ماسک اتارتے ہوئے کہا۔
میں نے دو پیالیوں میں چائے نکالی، اور ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ آج آپ کے ساتھ ہی سہی۔۔۔
مسکرا کر بولیں۔
’’مسز فرحان کے یہاں بھی حلیم دے کر آئی۔ آج کل تو گھر میں ہی ہیں، آفس بند ہونے سے۔ کرونا نے سب کو قید کر دیا ہے۔ ان کے شوہر کہنے لگے۔۔ ’گھر کے کھانے کا مزہ تو آپ کی وجہ سے آتا ہے ورنہ نغمہ ہوٹل کا بنا ہوا لا کر۔۔۔ سرو بھی خود سے نہیں کرنا چاہتیں۔ مگر لاک ڈاؤن میں سب بند ہے، اور ہر وقت گھر میں پکا پکا کر مسز کی حالت خراب‘‘۔ پھر کچھ توقّف کے بعد بولیں۔۔۔۔ ’’کتنی عجیب ہیں نا۔۔؟ کھانا بنانا بھلا کیا مشکل۔‘‘
’’جی ورکنگ ہونے کی مجبوری ہے۔ بے چاری گھر سے دس گھنٹے تو باہر ہی رہتی تھیں۔۔ اس لئے باہر کے کھانے کی عادت پڑ گئی ہو گی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں اسی لئے میں نے کہہ دیا۔۔۔ جو کھانا ہو مجھے کہہ دو میں بنا دیا کروں گی، خوش ہو گئے دونوں کہنے لگے، آپ کے یہاں کا صاف ستھرا بنا ملے تو میں اپنے دوستوں سے بھی کہوں گا آپ سے منگوا لیا کریں آپ یہ کام شروع کر دیجئے۔ مفت کیوں کھلاتی ہیں۔‘‘
’’ہاں پر۔۔۔ اس عمر میں اتنی محنت آپ کیسے۔۔۔۔‘‘
’’ارے بی بی یہ میرا شوق ہے میں اپنی کام والی کی مدد سے سب کر لوں گی۔ مجھ سے خالی نہیں بیٹھا جاتا۔ سب نے اپنی اپنی نوکرانی کو بلانا شروع ہی کر دیا ہے۔ میں بھی بلواتی ہوں پر ہر طرح کی احتیاط لازمی رکھتی ہوں۔‘‘
’’جی۔۔ احتیاط تو لازمی ہے، قدرت نے ایک عجیب امتحان میں ڈال دیا ہے ساری انسانیت کو۔‘‘
’’اس کے ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے، اس کی ذات سے نا امید نہیں ہونا چاہئے۔ اچھا خدا حافظ تمہیں بھی ابھی کام ہو گا۔ چلتی ہوں۔۔‘‘ وہ چائے کی خالی پیالی میز پر رکھتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔
جاتے جاتے وہ ایک اور عجیب عورت سے میرا تعارف کروا گئیں، مسز فرحان سے۔۔۔ بلکہ دو عجیب عورتوں سے۔۔ خود بھی تو۔۔۔ عجیب ہیں، اسّی سال کی عمر میں نہ جانے کہاں سے اتنا جوش اور شوق سنبھال کر باقی رکھا ہوا ہے۔۔ میں اپنے کمرے میں واپس آئی تو لگا جو پھانس دل میں چبھی ہے وہ ابھی تک نکلی نہیں ہے، اب بھی میں اس مطلوبہ چہرے تک پہنچ ہی نہیں پا رہی تھی، نہ خواب میں۔۔۔ اور نہ ہی حقیقت میں۔ یہ ساری عجیب عورتیں ہمارے ہی درمیان کی معمولی عورتیں ہیں۔۔۔ جو کوئی نا کوئی زندگی کا مقصد لے کر بس جئے چلی جا رہی ہیں۔۔۔۔ میری طرح۔۔ مجھے اوپر کے فلیٹ والی سنیتا یاد آئی۔۔۔ سنگل پیرنٹ۔۔۔ اسے میں کبھی معمولی نہیں سمجھتی تھی۔۔ شوہر کے مسلسل جبر کا شکار شادی کے آٹھ سال بعد اپنے بچّوں کے ساتھ الگ ہو گئی۔ تعلیم یافتہ، خوبصورت اور اسمارٹ۔ کھل کر جیتی ہے۔۔ لڑکوں کے ساتھ دوستی رکھنا، خوب گھومنا مست رہنا اس کے لئے معیوب نہیں ہے، مگر ان باکس میں گلدستے، دل اور بوسے بھیجنے والوں کو دور تک رگید دیتی ہے۔ زندگی ہو یا ان باکس، حد تجاوز کرنے کی کوشش کرنے والوں کو حد میں رکھنے کے لئے اس کی ایک گرم نگاہ ہی کافی ہے۔۔۔ اس کا کوئی بھی عمل مخفی نہیں ہوتا، اس لئے وہ اپنے موبائیل میں پاس ورڈ لاک رکھنا پسند نہیں کرتی۔ کیونکہ وہ اپنے کسی عمل پر پشیمان نہیں رہتی۔ اس کے بچّے بہت پیارے ہیں۔ جن پر وہ جان نچھاور کرتی ہے۔ اس لئے ان کے مستقبل کے لئے فکر مند رہتی ہے۔ گاؤں چھوڑ کر شہر بھی اسی لئے آئی کہ ان کا مستقبل محفوظ کر سکے، پر جب سے شہریت قانون آیا ہے۔ فکرمند رہتی ہے۔ مائیکے اور سسرال کسی کا سہارا نہیں۔۔ صرف اسکول کالج کی ڈگری ہے۔ اب وہ کیسے اور کہاں سے لائے اپنے پرانے کاغذات۔۔ کہتی ہے۔۔۔ ’’اب سے پہلے کبھی اتنا کمزور خود کو محسوس نہیں کیا تھا۔‘‘ اور تب احساس ہوا تھا کہ وہ بھی ایک معمولی اور کمزور سی عورت ہے۔
میں نے سوچا۔ شاید اپنی کمزوری اور معمولی پن سے جوجھنے کی ادنیٰ سی خواہش انہیں عجیب بنا دیتی ہے۔ ڈگر سے ہٹ کر بنے بنائے راستوں پر چلنے سے انکار کی کوشش۔۔۔ ہاں یہ سب عورتیں نہ تو خاص ہیں اور نہ ہی غیر معمولی۔۔ یہ سب معمولی عورتیں ہیں۔۔۔ سب عورتوں کی طرح۔۔ اپنے بچّوں، اپنے سہاگ اور اپنے مستقبل کے لئے سر گرداں اور پریشاں۔۔۔ پھر میں ان ہی کے بارے میں کیوں سوچ رہی ہوں۔ مجھے خواب میں ان کے ہی مختلف ہیولے کیوں نظر آتے ہیں۔۔۔ ہم سب معمولی عورتوں میں کچھ بھی غیر معمولی نہیں۔۔۔ سب میں چند خوبیاں اور چند خامیاں ہیں بس۔۔ پھر ہمیشہ یہ عجیب کی تلاش مجھے ایک بند دروازے کے سامنے لے جا کر کیوں کھڑا کر دیتی ہے۔ فون کی گھنٹی بج رہی ہے۔ میرے بیٹے کا ہو گا۔ ہندوستاں سے باہر بھیج کر کتنی خوش تھی کہ اس کا مستقبل محفوظ کر دیا ہے۔۔ پر اب ڈرنے لگی ہوں۔۔۔۔ فون پر نہ جانے کیا سننے کو ملے۔۔۔ دنیا میں کوئی جگہ ہے جو محفوظ ہو؟۔۔ میں نے فون ریسیو کیا دعا کرتے ہوئے۔۔ کہ سب خیریت ہو۔
’’امّی۔۔۔ مجھے گھر واپس آنا ہے۔‘‘
’’کیا ہوا بیٹا۔۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ یا نوکری؟۔۔۔‘‘ میری آواز حلق میں پھنسنے لگی۔
’’اسپیشل فلائیٹ سے کافی لوگ اپنے اپنے ملک لوٹ رہے ہیں۔۔ میرا دل یہاں نہیں لگ رہا۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اپنے ملک میں اپنے گھر پر۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں بیٹا۔۔۔ واپس آ جاؤ۔۔ میرا بھی دل نہیں لگ رہا۔ حالات جیسے بھی ہوں مل کر ہمّت بنی رہتی ہے۔‘‘
’’شکریہ امّی۔۔۔ میں کل بتا دوں گا کب کی فلائیٹ ہے۔‘‘
کبھی کبھی ہم فیصلہ نہیں کر پاتے کہ جو ہو رہا ہے وہ بہتر ہے یا نہیں۔ مجھے لگا کہ اس کی نوکری جا چکی ہے، جسے وہ ابھی بتانا نہیں چاہتا تاکہ میری ہمّت بنی رہے۔ ایک نوکری جانے سے مستقبل تو ختم نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اس خبر سے۔۔۔ اس فیصلے سے مجھے ایک سکون حاصل ہوا۔۔ جیسے میری کھوئی ہوئی طاقت واپس مل رہی ہو۔۔۔ ایسا لگا ذہن سے ساری دھند صاف ہونے لگی ہے۔ میں خود کو جن عورتوں سے بالکل الگ سمجھ رہی تھی، اس ایک خبر سے اب خود کو اسی قطار میں کھڑا ہوا دیکھ سکتی تھی۔۔۔ اور میرا چہرہ بھی ان سارے معمولی چہروں میں شامل ہو چکا تھا۔۔ یہ سارے معمولی چہرے مل کر ایک بھیڑ میں بدل گئے۔۔۔ جس میں سونی بھی تھی۔۔۔ اسّی سالہ دادی بھی۔۔ اکیلی بچوں کی پرورش کرنے والی پڑوسن سنیتا بھی اور گھر اور کچن کے کام سے گھبرانے والی مسز فرحان بھی۔۔۔ یہ سارے چہرے ضرب ہوتے ہوتے ایک لا متناہی بھیڑ میں بدل گئے۔۔۔ ایک سیلاب کی طرح سڑکوں پر ابل آئے۔۔۔ یہ ساری کی ساری عجیب عورتیں طاقت کا استعارہ بن کر ابھریں اور ساری دنیا کی نظروں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔۔ انہوں نے اپنی فولادی ہمّت سے طاقت، حکومت قانون سب کی سانسیں پھلا دیں۔۔ جو ان کے سامنے آتا ان کی پھنکار سے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا۔ آسمان سے برسنے والی موسم کی شدّت بھی ان کے پیر اکھاڑ نہ سکی۔ موت کا خوف بھی انہیں باز نہ رکھ سکا۔۔۔ اپنے آنچل میں اپنے لال کو سمیٹے۔۔ ان کے مستقبل کے لئے اور اپنے حقوق کے لئے بھیڑ بن کر سڑکوں پر بیٹھ گئیں تھیں۔۔۔ ان کی اس عجیب ہمّت اور خصلت نے بد خواہوں کے دانتوں چنے چبوا دئے۔ میرا لال بھی واپس آ رہا تھا۔۔۔ بلکہ اسے بھیج کر اب تک خود دھوکے میں جی رہی تھی، مگر میں اب ان سے الگ نہیں تھی۔ مجھے بھی اس کے مستقبل کی فکر کرنی تھی۔۔۔ میرے دل میں سکون اتر آیا۔ میں اب خود کو ان عجیب عورتوں میں شامل کر کے پر سکون ہو گئی تھی۔۔۔۔ دریا پر ہمارے قدم پڑ چکے تھے۔
٭٭
ثالث، شمارہ ۱۵، ۱۶،عالمی خواتین نمبر، جنوری تا دسمبر ۲۰۲۰ء، مدیر ثالث آفاق صالح، مدیر اعزازی اقبال حسن آزاد
٭٭٭