زمانۂ قدیم سے ہی عورت پدر سری سماج میں مسائل سے جوجھ رہی ہے۔ ہر دور میں معاشرے نے اپنے اپنے مزاج و ذوق کی مناسبت سے عورت کو قبول کیا ہے اور اسے نظر انداز بھی کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سماج کی تشکیل اور بقا میں عورت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ مرد کے ساتھ مل کر وہ بنی نوع انسان کو منزل بہ منزل آگے کی طرف بڑھاتی رہی ہے۔
ماقبل تاریخ کا دور ہو یا تاریخی دور ہو، عورت نے ہر دور میں انسانیت کی تشکیل اور تعمیر و ترقی میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ اس کا رول تو نمایاں ہے لیکن کیا اس کی حیثیت بھی نمایاں ہے؟ اور اسے وہ درجہ دیا گیا ہے جس کی وہ مستحق ہے۔ دیکھئیے آخر کیا وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی عورت اپنے تشخص کے لیے جد و جہد کر رہی ہے۔ وہ معاشرے کی بے حسی کا شکار ہے اس کے خلاف جرائم کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آئے دن اخباروں اور رسالوں میں اس نوع کے واقعات نظر سے گزرتے ہیں۔ کہیں بچیاں مرد کی ہوس کا شکار ہو رہی ہیں تو کہیں شوہر کے ذریعہ بیوی پر ظلم ہو رہا ہے۔ ایسے وقت میں عورت ذات جس ذہنی کرب سے گزرتی ہے اس کو اُردو ناول نگاروں نے بیان کیا ہے۔ اُردو ناولوں میں ابتدا سے ہی عورتوں کے مسائل کو مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے جن میں ازدواجی تعلقات کی پیچیدگیوں سے لے کر روزمرہ کی زندگی کے احوال سبھی کچھ شامل ہیں۔ جدید تعلیم کے اثرات کے سبب انسانی سماج میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اور گھریلو حادثات و واقعات اور خاتون خانہ کی حقیقی روداد بھی ناول کا اہم حصہ ہے۔
ناول انسانی فطرت کا عکاس ہوتا ہے اس لیے اس میں انسانی عادات و خصائل، خوبیوں اور خامیوں، پسند نہ پسند اور حرکت و عمل کا گہرا تجزیہ ہونا لازمی ہے۔ انسانی شخصیت کی وسعت، پیچیدگی، سنجیدگی اور اس کے امتزاج کی بنا پر ہی ناول کا آغاز ہوتا ہے۔ کردار نگاری، کرداروں کے حرکت و عمل سے عبارت ہے کرداروں کا عمل ہی واقعات کا موجب بنتا ہے اور واقعات کی منطقی ترتیب پلاٹ کی شکل اختیار کرتی ہے۔ کرداروں کے بغیر کسی قصے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مغربی فکشن نقاد نے کردار کو ناول کا تین چوتھائی کہا ہے۔ ناول کے واقعات اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تشکیل کردار کی فطرت سے ہوتی ہے اس طرح ناول میں آنے والے ہر کردار کی اپنی کرداری صفات ہوتی ہیں جو واقعات قصہ کا حصہ بنتے ہیں انھیں کے تناظر میں کردار وں کی ذاتی صفات واضح ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کردار وں کی جانبداری، آزادی اور حرکت و عمل ناول کی روح ہے اس روح کو روشن اور پر اثر بنانے کے لیے ناول نگار میں تخیل کی صلاحیت اور فنکاری بھی ہونی چاہئے۔ فطری اور عام زندگی سے قریب لگنے والے کرداروں کی تخلیق وہی ناول نگار کر سکتا ہے جو حدو درجہ حساس، باریک بین، ایماندار، نڈر، غیر مصلحت پسند اور رموز فکر و فن سے آشنا ہو۔ ان صفات کے ساتھ ناول نگار میں گہری انسانی ہمدردی اور لطافت کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ اگر ناول نگار میں یہ خصوصیات موجود نہیں تو اس کے کردار اجنبی معلوم ہوں گے اور قاری کو کرداروں کے دل کی دھڑکنوں میں اپنے دل کی آواز سنائی نہیں دے گی لہذا یہ ضروری ہے کہ ناول میں کردار کی تخلیق اس طرح کی جائے کہ وہ قاری کی شخصیت کا ایک حصہ بن جائے۔ ایسے کردار زندہ انسانوں کی طرح چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کرداروں کی کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ زندہ انسانوں کی طرح چلتے پھرتے محسوس ہوں اور کتاب بند کر لینے کے بعد بھی ہماری یاد داشت میں محفوظ رہ سکیں۔
کردار نگاری کی شرط یہ ہے کہ قاری ناول کے کردار سے کوئی اجنبیت محسوس نہ کرے۔ قاری کو اس کردار سے دلچسپی ہوتی ہے جو ہمارے آس پاس کے لوگوں کی طرح محسوس ہو۔ ناول کے کردار سے ہماری دلچسپی اور ہمدردی کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان میں ہم اپنی جانی پہچانی شخصیت کو دیکھ لیتے ہیں۔ ناول نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو اتنا جاندار بنا کر پیش کرے کہ وہ پلاٹ کی زمین اور ناول کی فضا میں متحرک نظر آئیں اور قاری کے دل و دماغ پر ان کی خوبیوں اور خامیوں کے اثر دیر تک قائم رہے یہاں تک کیہ کرداروں کے دکھ درد میں قاری خود کو دکھی محسوس کرنے لگے اور ان کی خوشی سے اسے اپنے اندر بھی مسرت کا احساس ہو اور کردار کے تئیں قاری کے دل میں ہمدردی پیدا ہو جائے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ناول نگار پلاٹ کی طرح کرداروں کا انتخاب بھی اپنی ذاتی واقفیت اور تجربوں کی بنیاد پر کرے جس میں وہ خود سانس لے چکا ہو جس کا اسے اچھی طرح علم ہو اور جس کے زیر اثر پرورش پانے والے افراد کی نفسیات اور مزاج کو وہ اچھی طرح سمجھتا ہو۔
پیغام آفاقی کو کردار نگاری میں خاص مہارت حاصل رہی ہے اس کا انعکاس ان کے ناول ’مکان‘ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس ضمن میں ’مکان‘ کے نسائی کردار اہم محسوس ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے ’مکان‘ کی کردار نگاری ہمارے سامنے آتی ہے۔ ناول بہت سے کرداروں پر مشتمل ہے۔ ان کرداروں میں ایسے کردار بھی ہوتے ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک قدم قدم پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کے قدموں بلکہ اپنے قدموں کی آہٹیں بھی سنتے چلے جاتے ہیں۔ اُردو ناول کے نسائی کردار اپنی جگہ تنہا اور بے یارو مددگار دکھائی دیتے ہیں ان میں سے کچھ ایسے کردار بھی ہوتے ہیں جو پل بھر کے لیے رونما ہوتے ہیں اور پھر ناول کی دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں لیکن کچھ دائمی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُردو ناول کے نسائی کردار عورت کے جداگانہ وجود صنفی صداقت اور معاشرتی و معاشی اکائی کو سمجھنے کی جد و جہد زمینی و مادی حقائق پر حقوق نسواں یا نسائی تحریک کی حیثیت و اہمیت، بنیادی حقوق، آزادی رائے کے حصول اور اسے مکمل انسان تسلیم کرنے کے نقطۂ نظر کا احاطہ کرتے ہیں۔ احترام آدمیت کے مروج قوانین کے تحت ذہنی، فکری آزادی، معاشرتی انصاف، وقعت، ذات اور خودمختار و مکمل زندگی کی خواہش عورت اور مرد دونوں کو ودیعت کی گئی ہے لیکن گذشتہ ادوار کے مطالعہ و مشاہدے اور تاریخی حوالوں سے یہ بات بخوبی عیاں ہے کہ ہر عہد میں عورت پر استحصالی قوتیں، مذہبی، ریاستی اور خاندانی سطح پر حاوی رہیں اور اس کے صنفی اور ذاتی تشخص اور فردی آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی رہی ہیں۔ ان نسائی کرداروں سے مذہبی ریاستی اور خاندانی سطح پر استحصال کی بھرپور تصویر کشی ہوتی ہے
پیغام آفاقی نے دلّی شہر میں ایک مکان کی حفاظت میں پریشان حال میڈیکل سائنس کی طالبہ نیرا کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے اس ناول میں کرداروں کی پختگی ان کا انداز زندگی، روزمرہ کا رہن سہن، ان کی فکر، شخصیت کی پیچیدگی، نفسیاتی انتشار، گو کہ ہر پہلو کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہر کردار کو گوشت پو ست کے ساتھ زندگی کی ساری رنگینی میں ڈبو کر صفحۂ قرطاس پر سجا دیا ہے۔ ہر فرد کو اس کی اصل زندگی عطا کی ہے۔ نہ کسی کو صرف ’’ویلن‘‘ بنا کر پیش کیا ہے اور نہ ہی ہیرو کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ جو کچھ ہے وہ اصل زندگی سے بہت قریب ہے۔ نہ پوری طرح برا ہے اور صرف اور صرف اچھائی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے ناول کا مرکزی کردار نیرا کم عمر ہے لیکن زمانے کے سرد و گرم سے فرار اختیار کرنے والی ہرگز نہیں ہے۔ معاشرے کا بھرپور مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے اندر ایک پختگی آئی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ پختگی اس کے اندر پوری طرح رچ بس جاتی ہے۔ اس کینوس کے پس منظر میں پیغام آفاقی نے ہر انسان کی زندگی کی عکاسی کر دی ہے جو بھی پریشانیاں خواہ وہ خاص ہوں یا عام، کوئی امیر ہو یا غریب ان پریشانیوں کا سامنا کرنے میں ہمت ہار جاتے ہیں قسمت کا گلہ کرتے ہیں لیکن ان سے ایک تنہا لڑکی کس طرح نبرد آزما ہوتی ہے یہ اس ناول میں انتہائی سلیقہ سے پیش کیا گیا ہے۔
مکان کا سب سے اہم کردار نیرا کو اپنے مکان کو بچانے کے لیے کہاں کہاں جانا پڑا اور کس طرح کے لوگوں سے ملنا پڑا، وکیل سے مشورہ کرنے پر اسے کس طرح کی رائے کی امید تھی اور اس نے کیا رائے اسے دی۔ محکمہ پولیس کے ایک افسر نے کیا کیا پلان کیا، یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد اپنا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ یہ بد قسمتی سے ہمارے ملک کی سچی تصویر ہے جو آئے دن مصیبت کے لمحوں میں فریم سے باہر نکل کر ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
’مکان‘ کے کرداروں کی زبان کوئی خاص نہیں ہے۔ شاید اس کی وجہ گاؤں کے اس ماحول کا مشاہدہ اور پس منظر ہے جس میں پیغام آفاقی صاحب نے آنکھ کھولی۔ سماج میں الگ الگ طرح کے لوگ رہتے ہیں سب کا اپنا انداز گفتگو اور مخصوص لہجہ اور روزمرہ میں استعمال ہونے والی زبان ہوتی ہے جو ہندوستان میں متحدہ اقوام میں اتحاد کے بیچ انفرادیت کو ہوا دیتی ہے اور یہی انفرادیت خصوصیت ناول ’’مکان‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ عورتوں کی ہمت اور قوت برداشت کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کر کے پیغام آفاقی صاحب نے اسے اپنے ناول میں پیش کیا ہے۔ ایک تنہا لڑکی جو میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہے بڑے بڑوں سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہے اور اس جد و جہد میں آخر تک اپنے وجود کو ٹوٹنے سے بچائے رکھتی ہے۔ طبقاتی کشمکش کے درمیان اقتصادی پریشانیوں کے باوجود وہ سبقت حاصل کرتی ہے باصلاحیت اور موجودہ وقت کی با ہمت عورت کی اس ناول میں عمدہ مثال پیش کی گئی ہے۔
نیرا ایک لڑکی نہیں بلکہ ہندوستان کی وہ اقلیت ہے جو اکثریت سے برسر پیکار ہے لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ نیرا کے مرکزی کردار اقلیت کے اکثریت سے پیکار ہونے کی داستان نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر اس بظاہر کمزور لیکن کسی مشین سے زیادہ مضبوط انسان کی داستان ہے جو طاقت سے برسر پیکار ہے۔ اگر مکان کے مرکزی کردار نیرا کو دنیا کے نقشے پر کھنچی ہوئی لکیروں کو مٹا کے دیکھا جائے تو نیرا کا کردار ایک بہت بڑے کینوس پر بنائی ہوئی تصویر ہے۔
پیغام آفاقی کے ناول ’مکان‘ کا مرکزی کردار نیرا اپنے سچ کو منوانے کی ضد اور اس سے جڑی بے مثال ذہنی و جسمانی مشقت، تھکن، ٹوٹتے اور ٹوٹ ٹوٹ کے جڑنے کی داستان پیش کرتا ہے۔ اب اس اظہار کی وضاحت کے لئے ایک مختصر سی عبارت ملاحظہ کیجیے
’’اس نے غور کیا یہ مکان تمہاری ملکیت ہے تم اس مکان کی مالک ہو یہ دو طرفہ رشتہ ہے کہ مکان تمہاری ملکیت ہے اور تم مکان کی مالک ہو اور اس طرح مکان تمہارے ساتھ مقفل ہے اور تم مکان کے ساتھ مقفل ہو۔ لیکن مکان کے ساتھ تمہارا رشتہ ایک الگ ہی چیز ہے اور یہ تمہارے اور مکان کے علاوہ تیسری چیز ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ اس وقت بالکل فلسفی ہو گئی تھی۔‘‘
نیرا کی بے مثال جنگ اور اس کی جرأت نے ناول میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ’مکان‘ کی نیرا ایک ایسا مرکزی کردار ہے جو سیلاب حیات کے منجدھار سے الجھتی ہی نہیں بلکہ طوفانی موجوں پر راس ڈال کر ان کا رخ موڑ دیتی ہے۔ نیرا انسانی مسائل اور ان سے نبرد آزمائی کا وہ آئین ہے جو انسان کو زندگی کرنے کا ڈھنگ دیتا ہے۔ نیرا ایک ایسی مضطرب روح کا نام ہے جو وقت کی بین کرتی، جگاتی، آوازوں پر خود بھی لبیک کہتی ہے اور صدا دیتی اور جھنجھوڑتی ہے۔ وہ اپنی قوت ارادی سے واقف ہے اور اپنی تخلیقی قوت کو متشکل کرنا چاہتی ہے جس کا ادراک ہوتے ہی اس کے لیے جسم بے معنی ہو جاتا ہے۔ اور اس قوت کے زور پر اپنے اردگرد کے گھیروں کو توڑتی اور رکاوٹوں کو روندتی چلی جاتی ہے۔ اونچے اونچے پہاڑ گرنے اور بکھرنے لگتے ہیں خلیجیں پٹنے لگتی ہیں، نشیب و فراز ہموار ہونے لگتے ہیں اور نیرا پُر پیچ راستوں اونچے اونچے پہاڑوں، گہری گہری گھاٹیوں، خوفناک موڑوں اور ٹیڑھی میڑھی اور تنگ سڑکوں سے ڈرنے کے بجائے ان سے کھیلنے لگتی ہے۔ ان میں اسے مزا آنے لگتا ہے۔
’’وہ اس ترنگ کی تھرتھری کو اپنے اندر محسوس کرنے لگی۔ یہ پہاڑ پر پوری قوت سے چڑھنے کا تھرل تھا اسے لگا جیسے وہ گاڑی کی اس قوت سے خود ہم آہنگ ہو گئی ہو اور اپنی قوت سے پہاڑ کی اونچائی پر تیز رفتار کے ساتھ چڑھ رہی ہو۔ اس کا جی چاہا اونچائیاں اور زیادہ ہوں تاکہ گاڑی کے استعمال کی وہ مشینی آواز محسوس کرے جو اس کے جسم میں نشے کی کیفیت گھولتی جا رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ اگر وہ خود گاڑی ہو تو زیادہ سے زیادہ سیدھی اوپر چڑھتی پہاڑی کا انتخاب کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ مزہ آئے‘‘
پروفیسر خورشید احمد کا خیال ہے کہ در اصل ’’مکان‘‘ Bildungsroman ہے۔ یعنی ایسا ناول جس میں ایک نوخیز کردار یعنی نیرا کی شخصی تشکیل کی کہانی بیان ہوئی ہے تاکہ اس کے اندر سماجی زندگی میں داخل ہونے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسے ناول یورپ میں بھی کم ہی لکھے گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ناول کا یہ فارم جرمن ادب کی خاص عطا ہے۔ نیرا اس Bildungsrsman ناول کا مرکزی کردار ہے۔ کیونکہ وہ درس گاہ حیات میں شخصیت کی تکمیل کے بعد کار زار حیات میں قدم رکھتی ہے۔ وہ جن سخت آزمائشوں سے گزرتی ہے اسے میلو ڈراما میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور اس کی نشو و نما کی تکمیل کے ساتھ ہی یہ ناول ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ پیغام آفاقی نے Bildungsroman ناول ’مکان‘ میں صنف قومی کے مقابلے میں نیرا جیسی صنف لطیف کو مرکزی کردار کیوں بنایا ہے اور پھر نیرا کو ڈاکٹری کی تعلیم کیوں دلوائی ہے؟ غالباً اس سوال کا جواب اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ نسائیت کے تصور کو واضح کرنے کے لئے صنف لطیف کو مرکزی کردار بنانا ضروری تھا تاکہ یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ اگر عورت ہوتی تو ٹوٹ جاتی اور ڈاکٹری تعلیم اس لیے کہ سماج سے بے لوث رشتہ قائم کرنے کا یہ بہترین وسیلہ ہے۔ ناول کے مرکزی کردار کے لیے ایک لڑکی کا انتخاب یقیناً مصنف کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ عورت برسہا برس سے کمزوری کے لیبل کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ چنانچہ زندہ جل جانے والی قرآن سے بیاہ دی جانے والی تاوان میں دے دی جانے والی۔ نن بنا کے گرجاؤں میں حنوط کر دی جانے والی لاتعداد عورتیں جو ذاتی اور سماجی حقوق سے طرح طرح سے دھتکاری جاتی رہی ہیں۔ پیغام آفاقی اس عورت کے تشخص کو پہچانتے بھی ہیں اور اس کی پہچان بہت بھرپور طریقے سے دنیا سے بھی کراتے ہیں۔ وہ اپنی تابناک فکر کو نیرا کی سوچ میں ڈھال کے عورت کے وجود کو اپنی شناخت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیرا کا کردار اس بات کی وضاحت پیش کرتا ہے کہ عورت کا کوئی سرپرست نہیں ہے۔ کوئی اس کی حفاظت کرنے والا اس کے لیے سوچنے والا نہیں ہے اسی لیے مکان میں سب سے مشکل مرحلہ اس کا اختتام ہے یعنی وہ نقطہ جو نیرا کے لیے درس گاہ حیات کا نقطۂ اختتام ہے۔ مکان کی ابتدا نیرا کی جد و جہد حیات کا نقطۂ آغاز ہے۔ مسلسل بھاگتے رہنے کے دوران نیرا پر انکشاف ہوا۔ یہ سارے بھروسے صرف اذیت پہچانتے ہیں اور اس انکشاف پر جب اس نے سوچنا شروع کیا تو:
’’سوچنے کے دوران اس نے محسوس کیا کہ اس کے دماغ کے ریشے از سر نو مرتب ہو رہے ہیں۔ جیسے اس سے کوئی ہولے ہولے کہہ رہا تھا یہاں قدم قدم پر رہزن گھات میں بیٹھے ہیں۔ یہ بیسویں صدی کی نویں دہائی کی دلّی ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں کب رات ہوتی ہے اور کب دن نکلتا ہے پتا نہیں چلتا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر انسان اپنی حفاظت کا آپ ہی ذمہ دار ہے یہاں بھروسوں کی تجارت ہوتی ہے یہاں معاہدہ بنانے والے ایک ایک لفظ کے ہزاروں روپے لیتے ہیں اور اس شہر میں تم بھروسوں پر چل رہی ہو۔‘‘
اور اسی سوچ کے بیچ اسے یہ بھی محسوس ہوا:
’’بچپن سے لے کر چند روز پہلے تک وہ زندگی کو جس روپ میں دیکھ رہی تھی وہ زندگی کا اصل روپ نہیں تھا۔ زندگی اس روپ میں بھیس بدل کر کھڑی تھی۔ وہ زندگی کا جو روپ اب دیکھ رہی ہے یہ حقیقت ہے۔ زندگی کے اس روپ کے ایک ایک خد و خال کو غور سے دیکھنے کے لیے وہ بے چین ہو گئی۔‘‘
اور جب وہ اصل زندگی کے خد و خال کی تلاش میں نکلی تو اس پر کائنات کے اسرار کھلنے لگے۔ اسے صاف دکھائی دینے لگا:
’’یہ سب کچھ جو وہ دیکھ رہی ہے وہ محض تماشا ہے اور زندگی ایک کھیل ہے اور اس کھیل میں جیتنے یا ہارنے کا احساس ہی اس کی روح ہے اور اسی روح کی گہرائی میں اس کی بقا مضمر ہے کہ لہروں کی طرح ڈوبنے اور اتراتے رہنے کا احساس ہی دائمی ہے اور اس احساس کی لہریں ہی ہر چیز کی اصل ہیں۔‘‘
زندگی کی مزید باریکیوں کی تلاش کرتے ہوئے ایک دن اسے نیند آ گئی اور اس نے:
’’نیند میں اپنے اندر ایسی کیفیت محسوس کی کہ اسے لگا کہ آج اس کی نیند حسب معمول نہیں تھی۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اس کے اندر بدلتے موسموں والی بے چینی تھی۔ تم سب مجھے کیا سمجھتے ہو؟ اس نے ایک ایک کو کھا جانے والی نگاہ سے اپنے چاروں طرف کے ماحول کو دیکھا۔ تم سمجھتے ہو کہ میں ایک کمزور لڑکی ہوں، میں عورت ہوں، میں سمندر ہوں کہ جس میں پورا کا پورا پہاڑ غرقاب ہو سکتا ہے لیکن میں جو کچھ اپنے اندر سہتی ہوں اس سے کئی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ میں کو کھ ہوں، میرے اندر جوعکس پیدا ہوتا ہے وہ محض خیال نہیں ہوتا۔‘‘
اس دن کے بعد نیرا کو یہ محسوس ہونے لگا:
’’اس کی زندگی کے نقوش اب اور تیزی سے یکے بعد دیگرے بدلنے لگے۔ چند ماہ پہلے اس کے ذہن میں جو آتش فشاں پھوٹا تھا اور جس نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا تھا اس کی ایک ایک چنگاری سے سورج پیدا ہو رہا تھا۔‘‘
’’اپنی زندگی کے اس دور میں جب وہ اندھوں کی طرح چل رہی تھی لوگ اسے اپنے اشاروں پر دوڑاتے تھے اور وہ چوٹ کھاتی تھی تو ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی لیکن اب یہ چوٹیں اور یہ دوسروں پر بھروسہ کرنا ایک کھیل، ایک لذت آمیز کل بن گیا تھا اور جیسے جیسے وہ اس آندھی کے ساتھ تیز حرکت میں آ رہی تھی ویسے ویسے اس کو لگ رہا تھا کہ وہ ایک رقاصہ کی طرح دوسروں کے لیے سب کچھ کر رہی ہے۔ وہ اپنے آپ سے باہر نکل آئی تھی اسے ناچنے، دوڑنے، بھاگنے اور تھکنے میں لذت مل رہی تھی‘‘
گویا اس طرح نیرا کی تخلیقیت اس پر آشکارا ہوتی ہے اور وہ دبلی پتلی کمزور سی لڑکی مضبوط اور طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے۔ گویا اس طرح دبلی پتلی کمزور سی نیرا کے نسائی کردار میں تانیثیت کا شعور بیدار ہوتا ہے اور وہ مضبوط اور طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے اور جنس کی تخصیص و تشخیص کے برخلاف برابری قائم کرنے کا عمل شروع کرتی ہے۔ یہ کوشش ظلم و استبداد سے آزاد زندگی فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ حق تلفیوں اور ان پر ہو رہے جبر و استحصال کے خلاف ایک مہم ہے۔ اس نسائی جد و جہد کا ایک مقصد مردانہ پن اور نسائیت کے زوجی تضاد کو ڈی کنسٹرکٹ (Deconstruct) کرنا ہے تاکہ عورت بھی مرد کی طرح اپنی مرضی کے مطابق زندگی کے تمام فیصلے خود کر سکے۔ پیغام آفاقی نے نیرا کی مدد سے خواتین کی ذہنی تربیت اسی لیے کی ہے تاکہ وہ پدرانہ سماج کے برخلاف مردوں کی تنگ ذہنیت کو چیلنج کر سکے۔
٭٭٭