میرواہ کی راتوں ‌کا سحر ۔۔۔ محمد خان داؤد

 

رات کافی گزر گئی تھی، یا میں نے گزار دی تھی، وہ اس لے کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ اور میں یہی کوشش کر رہا تھا کہ جب اسے پڑھنے بیٹھا ہوں تو کم از کم ختم ہی کر لوں۔ کیونکہ وہ کتاب محض ایک سو بائیس صفحات پر مشتمل تھی، اور میں ایسا پڑھاکو کہ شہاب صاحب کا ’’شہاب نامہ‘‘ دو دن میں پڑھ لوں، تو محض ایک سو بائیس صفحات کیا معنی رکھتے ہیں …۔

جب میں نے وہ کتاب پڑھنی شروع کی تو شام ڈھل چکی تھی، اور سورج اپنی آخری کرنے دھرتی پر نچھاور کرنے جا رہا تھا، اور وہ پرندے جو صبح ہوتے ہی شہر کا رخ کرتے ہیں، اور انہیں معلوم ہے کہ انہیں رات اپنے گھونسلے میں ہی بتانی ہے، وہ بھی واپس ہو رہے تھے، کہیں کچھ بلب جل چکے تھے، کہیں پر ابھی یہ سزا وارد ہونے والی تھی، وہ بلب تھے، وہ دیے نہ تھے جن کا دامن جلتا تھا۔ پھر بھی ان دیوں کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ بھلے ان کا سارا دامن جل جائے پر وہ اپنے سے کسی کو کچھ تو دے جائیں!

کچھ بلب جلنے کی سزا میں جلائے جا چکے تھے، اور کتنے ایسے بلب تھے جن کی گردنیں موٹی تاروں سے لپٹی ہوئی تھیں، اور انہیں وہی سزا ہونے والی تھی جس سزا میں گھروں، قصبوں، گوٹھوں، گاؤں، گلیوں، محلوں اور شہروں کے بلب جلائے جا چکے تھے۔ شام کے اثرات ختم ہوئے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ شام ڈھل گئی۔ اور رات نے اپنے پر کھول دیے۔ اور مجھے بھی اندھیرا محسوس ہوا۔ میں اُٹھا، اور وہ بلب جو بار بار مجھے تک رہا تھا، اور بہت ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس کا بٹن بھی آن کر دیا۔ وہ گوں گی خاموشی میں چیختا جل اُٹھا، اور مجھے تکنے لگا۔ پر میں کیا کرتا۔ اسے تو یہ سزا ملنا ہی تھی۔ روایت جو ٹھہری۔

میں بلب جلانے کے بعد کتاب میں کھو سا گیا۔ اس کتاب کی جلد کالی تھی، اور اس پر جو ٹائٹل بنا ہوا تھا، وہ کسی باگڑی عورت کا تھا۔ جو اپنے سر پر کوئی پانی کا گھڑا لےد جا رہی ہے …۔اُس طرف جہاں پانی ہوتا ہے۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر مجھے یاد آیا وہ لوک گیت جسے جی جی زرینہ بلوچ نے آواز دی ہے کہ، ’’میرے بچے کو جھولا جھلا دو، میں پانی بھرنے جا رہی ہوں، یہاں کھارا پانی ہے، میں میٹھا پانی بھرنے جا رہی ہوں۔ ارے میرے بچے کو کوئی تو جھولا جھلا دو!‘‘ پر مجھے نہیں معلوم کہ وہ کتاب کے ٹائٹل پیج والی باگڑی لڑکی شادی شدہ ہے کہ نہیں؟ اگر اس کی شادی ہے بھی تو اس کا بچہ ہے کہ نہیں؟ اگر اس کا بچہ ہے تو وہ بڑا ہے یا چھوٹا؟ اور نہیں معلوم کہ اس کے کتنے بچے ہیں؟ یہ بات تو معلوم نہیں ہوتی پر یہ بات بالکل عیاں ہے کہ وہ حسینہ پانی ہی بھرنے جا رہی ہے۔

میں کتاب پڑھنے میں مشغول تھا۔ اور وہ بھی بس ایک سو بائیس صفحات۔ رات نے اپنے پر پورے طرح پھیلائے ہوئے تھے، کہیں دور دور انسانوں کی آپس میں لڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اور کتے خاموش تھے۔

کتے کیوں خاموش تھے؟ اس وقت تو یہ سوال میرے ذہن میں اٹکا رہا۔ پر میں جیسے جیسے وہ کتاب پڑھتا گیا، مجھے اس بات کا جواب ملتا گیا کہ رات گئے یا دن چڑھے یا ڈھلے، کتے کیوں خاموش ہوتے ہیں اور انسان کیوں بھونکتے رہتے ہیں۔ پھر مجھے اس بات کا جواب مل بھی گیا جو میں آپ سے بھی شئیر کروں گا۔ پر پہلے اس کتاب کی بات…

رفاقت حیات صاحب نے جو کتاب لکھی ہے، اس کا نام ہے ؛ ’میر واہ کی راتیں!‘ راتیں تو ہر جگہ ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بس جیسے ہی دن ڈھلتا ہے تو رات نمودار ہو جاتی ہے، اور ہر دکھنے والی چیز کے اوپر ایک سیاہ چادر سی تن جاتی ہے۔ چاہے وہ اپنا وجود ہو، چاہے گھر کی دیوار۔ راتیں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ پر سب راتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں، شہر کی راتیں گاؤں کی راتوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ جیسے گاؤں کی بیڑی شہر کے سگریٹ سے بہت ہی جدا ہوتی ہے …۔

تو ’میر واہ کی راتیں‘ سکھر کی راتوں سے کیسے میل کھا سکتی ہیں، اور ’میر واہ کی راتیں‘‘ کراچی کی راتوں کی کہاں تاب لا سکتی ہیں۔ اس لےو رفاقت حیات بہت ہی سلیقے سے ہم پڑھنے والوں کو بس ’میر واہ کی راتوں‘‘ تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہم تو پڑھنے والے ہیں، اور رفاقت حیات لکھنے والے ہیں۔ اگر وہ اپنی ’’میر واہ کی راتوں‘‘ میں ہمیں کسی کراچی یا واشنگٹن کی ایک رات کی سیر بھی کرا دیں تو ہم اسے کیا کر سکتے تھے، یا وہ اپنے لکھنے میں اتنے آزاد تھے کہ میر واہ کی راتوں میں ہمیں گھمانے لے آتے لیاری کی لال بازار راتوں میں۔ یا وہ ہمیں بس کچھ دور سے ہی دکھا دیتے وہ دروازے جہاں اس شہر کراچی کے امیر لوگ جاتے ہیں۔ اور بہت ہی مزے سے واپس لوٹتے ہیں۔ تو ہم کیا کر سکتے تھے یا کیا بگاڑ سکتے تھے رفاقت حیات کا۔ پر انہوں نے اپنے لکھنے میں یہ بڑی بے ایمانی نہیں کی۔ کس گلی کی باتیں ہیں تو انہوں نے لوگوں سے لے کر بھونکتے کتوں تک وہی دکھایا ہے، اور ہمیں مجبور نہیں کیا کہ بات کی جائے سکھر کی اور وہ ہمیں دکھائیں کراچی کا مینا بازار!

اور میں سمجھتا ہوں کہ رفاقت حیات کے مختصر ترین اور بہت ہی شاندار ناول ’’میر واہ کی راتیں‘‘ کی کامیابی ہی یہی ہے کہ وہ ہمیں ان ایک سو بائیس پنوں کے درمیان کہیں اور نہیں لے گئے، اگر لے بھی گئے ہیں تو کبھی درزی کی دکان پر، کبھی پکوڑے فروش کی یاری پر۔ کبھی حیدری کی تمباکو کی دکان پر، کبھی یعقوب کاریگر کی چاشنی باتوں میں۔ کبھی آس پاس کے بسوں کے اڈوں پر، کبھی اسی میر واہ کے ریل کے ٹریک پر۔ کبھی سنار کی دکان پر۔ پھر اسی گھر پر یا میر واہ کی اکیلی اور اداس پرانی پلایا پر۔

وہ ہمیں ان پنوں پر میر واہ کی راتیں گھماتا رہتا ہے۔ اور ہمیں یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ، جیسے موسم ہوتے ہیں، آتے ہیں، اپنا اثر دکھاتے ہیں، اچھی یا برُی یادیں چھوڑ جاتے ہیں اور پھر لوٹ آتے ہیں، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، پر اس موسم کا کیا؟ جو انسان تو انسان پر حیوانوں کو بھی پاگل کر دیتا ہے …۔اور وہ اپنے میں ہوتے بھی اپنے آپ میں نہیں ہوتے۔ حیوان تو جاتے ہیں اور اپنا کوئی نہ کوئی جوڑ ڈھونڈ لیتے ہیں، اور اس دیوانے پن سے باہر آ جاتے ہیں۔ پر وہ انسان کیا کریں؟ جن کے آگے کئی سمندر ہوتے ہیں اور وہ پار نہیں کر پاتے۔ تو کیا ہی اچھا ہوتا ایک موسم ایسا بھی ہوتا، جو سب کو رنگ جاتا۔ سب کو سب رنگ سانول کر جاتا۔ سب کو بہار بہار کر جاتا۔ اس میں کوئی بھی انفرادی یا اجتماعی کوشش نہیں کرتا۔ بس موسم ہوتا؛ جیسے سردی کا، گرمی کا، بہار کا یا ساون کا۔ اور وہ موسم آتے ہیں، سب کو اپنے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ تو ایک موسم ایسا بھی آتا جو سیکس کا موسم ہوتا۔ اس میں سب خوش ہوتے، پاگلوں کی طرح مارے مارے نہیں پھرتے اور نہ ہی ان نوجوانوں کو اپنی راتیں وہاں جا کر کالی کرنی پڑتیں، جہاں ’’میر واہ‘‘ ہے۔ بس جیسے ہی موسم اپنا رنگ دکھاتا، سب ایک دوسرے کے پاس کھچے ہوئے آتے اور سب سیر ہوتے، فقیر شاہ کو دعا دیتا۔ اور شاہ دعا نہ بھی دیتا تو کیا فقیر کا تو بھلا ہو جاتا۔ کوئی بھی صدا نہیں لگاتا۔ بس موسم ہی سب رنگ سانول جو ہوتا تو پھر کون سی دعا، اور کون سی صدا!……لینے والا بھی خوش، دینے ولا بھی خوش، اُٹھنے والا بھی خوش، چلنے والا بھی خوش!

اگر وہ موسم نہیں بھی آتا تب بھی رفاقت حیات نے بہت ہی سلیقے سے اپنے مختصر ناول میں ہمیں یہ بات بتا دی ہے۔ میلاپ یا میلاپ کی تڑپ کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ تو ایک آرٹ ہے، ایک ہنر ہے، ایک فن ہے۔ اورجب یہ سب چیزیں مل جاتی ہیں تو پھر یہ عشق بنتا ہے۔ اور جب اُس عشق میں شدت آ جائے تو پھر ایک دو نہیں پر کئی کردار رات کو اُٹھتے ہیں اور اپنے حصے کی راتوں کو کوئی تو کالا کر جاتا ہے اور کوئی ’میر واہ‘ کی راتیں کر جاتا ہے۔ اگر اسی ملاپ کو روک کے رکھو گے اور گناہ ثواب کے درمیان لٹکتے رہو گے تو پھر صرف اپنی ہی نہیں پر کئی کی راتیں کالی کر جاؤ گے اور گناہ و ثواب میں پھنسے رہ جاؤ گے۔

اس لےر رفاقت حیات اپنے اس مختصر ناول میں بہت ہی بلند اور آواز میں یہ نظم بھی لکھے جا رہے ہیں جسے سننے کے لے۔ دل کے کان کھولنے ہوں گے اور اس نظم کو سننا ہو گا۔

رفاقت حیات کہتا ہے کہ؛

عشق ساز بھی ہے، عشق سُر بھی ہے!

عشق بات بھی ہے، عشق خامشی ہے!

عشق کوئی گناہ نہیں اور گناہ عشق نہیں

عشق معصوم ہے، عشق مکار نہیں!

عشق، عشق ہے

وشق وشق، عشق نہیں!

جتنے قتل ہوئے

وہ ناحق ہوئے

عشق تو فلسفی

عشق تو ساز ہے

عشق تو راگ ہے

عشق تو راگنی!

عشق میں چاندنی!

چاندنی میں جہاں

جہاں میں راتیں

راتوں میں عشق

عشق میں وہی بات

جو بات

سب رنگ سانول میں ہے!!

میں نے رفاقت حیات کی ’’میر واہ کی راتیں‘‘ پڑھ کر پوری کی تو بات سمجھ میں آئی کہ کتے خاموش اور انسان کیوں لڑتے ہیں۔

بات واضح ہے کہ کتوں کی حیاتی میں ’’میر واہ کی راتیں‘‘ نہیں ہیں۔ وہ تو بس گناہ کیے جا رہے ہیں، اور انسانوں کی زندگی میں در آئی ہیں ’’میر واہ کی راتیں‘‘ اور ثواب۔ تو کیا پھر بھی وہ پاگل نہیں ہوں گے؟!!

اور اگر عشق کو اور سیکس کو ایک ہنر، آرٹ مانتے ہوئے اسے آزادی دی جائے، تو کتنے ایسے جوان ہوں گے جن کی راتیں یوں ’میر واہ‘ پر کالی نہیں ہوں گی، لڑکیاں کاری نہیں ہوں گی۔ اور اس ماحول سے شدت پسندی بھی دور ہو گی…۔۔

آزمائش شرط ہے!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے