عرفان صدیقی کے نام
بالکل اسی جگہ، اسی پل پر کھڑے ہو کر میں نے اس دن سوچا تھا کہ خاموش اونٹوں کی قطار کے ساتھ رمضان کا قافلہ تھوڑی ہی دیر میں رخصت ہونے والا ہی۔ تین میل دور قصبے کی پرانی مسجدوں سے مغرب کی اذان کی آواز، راستے کی دھند میں لپٹے ہوئے گھنے درختوں میں کھوتی ہوئی، ہم تک آئے گی اور ہم آخری روزہ افطار کریں گے۔ پھر لڑکپن سے لے کر اب تک بیتے ہر برس کی طرح اس پل سے اتر کر بے داڑھی کے غلام ماموں کو امام بنا کر رمضان کی آخری مغرب ادا کریں گے اور ٹیلے پر چڑھ کر نہر کے اس پار کھڑے شیشم کے درختوں کے اوپر عید کا چاند دیکھیں گے اور چاند دیکھ کر ہمیشہ کی طرح اپنی اپنی بندوق سے ایک ایک فائر کر کے عید کا استقبال کریں گے۔ پھر ذبح کئے ہوئے پرندوں کے تھیلوں کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے، ٹھنڈی بندوقیں تھامے، ہم لوگ واپس ہوں گے۔ واپسی پر ریتیلے دگڑے پر چلتے چلتے، حامد اپنے کم زور ہاتھوں سے غلام ماموں کو بندوق تھما کر، مجھ سے لپٹ کر خوشامدی لہجے میں کہے گا۔
’’کل آپ نے عیدی میں پورا ایک روپیہ نہیں دیا تو آپ میرے سب سے اچھے بھائی جان نہیں ہوں گے۔‘‘
میں اس کی پتلی مریل گردن کو آہستہ سے پنجے میں دبا کر مصنوعی خفگی دکھاتے ہوئے کہوں گا، ’’تم اتنے تو کمزور ہو۔ اتنی سردی میں شکار کھیلنے کیوں آئے ہو؟‘‘
’’آپ بھی تو آتے ہیں‘‘ وہ ضدی لہجے میں جواب دے گا۔
’’ہم۔۔۔ ہم تو بڑے ہیں، بھئی! پھر ہم تو عید، بقر عید سے ایک دن پہلے شکار ضرور کھیلتے ہیں، مگر آپ کو یہ شوق ابھی سے کیوں سوار ہوا ہے۔ پہلے ذرا بڑے تو ہو جاؤ۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’نہیں، بھائی جان! بس مجھے اچھا لگتا ہے۔ دھائیں سے بندوق بولتی ہے۔ ہریل پھڑپھڑاتا ہوا نیچے گرتا ہے۔ ایں بھائی جان! اس کا وزن سچ مچ کم ہو جاتا ہے، اگر زمین پر گرنے سے پہلے نہ لپک لو تو؟‘‘ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر میری آنکھوں میں حیرت سے جھانکتے ہوئے پوچھے گا۔
لیکن۔۔۔ اس دن یہ سب کہاں ہوا تھا۔ میں جیسے ایک دم جاگ پڑا۔
میں نے سوچا:
اس دن بس سورج غروب ہی ہونے والا تھا اور پُل کی کمر بھر اونچی فصیل پر سب نے تھیلوں سے افطاری نکال کر رکھ لی تھی۔
اور نماز کے بعد، سب سے پہلے حامد نے دعا ختم کی تھی۔ وہ بھاگتا ہوا، ریت اڑاتا، جھاڑیوں سے الجھتا ہوا ٹیلے پر چڑھ گیا تھا۔ ہم لوگ بھی تیز تیز سانسوں کے ساتھ ٹیلے پر چڑھ گئے تھے۔ موسم صاف تھا۔ غلام ماموں نے اپنے بھاری بدن کی پروا بھی نہیں کی تھی۔ پھولتی ہوئی سانسوں کا بوجھ ہمارے کندھوں پر ڈال کر انھوں نے پوچھا تھا، ’’پچھلے سال کدھر دیکھا تھا؟‘‘
’’اُدھر!‘‘ عزیز بھائی کی آواز سن کر ہم سب نے نگاہیں ان کی انگلی کی سیدھ میں نہر کے اُس پار کھڑے شیشم کے درختوں کے اوپر آسمان پر دوڑائیں۔
وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
نہر کے اُس پار، شیشموں کے اوپر، آسمان میں کچھ بھی نہیں تھا۔ کچھ پرندے واپسی کی پرواز کرتے ہوئے، ہمارے سامنے سے ہو کر نکلے۔ وہ پرندوں کی آخری قطار تھی کیوں کہ آسمان اب مٹیالا ہونے لگا تھا اور نہر کے پانی کی آواز میں گہری بے چین سرسراہٹیں بولنے لگی تھیں۔
’’موسم تو بالکل صاف ہے۔ چاند کیوں نہیں دکھائی دیتا؟‘‘ غلام ماموں نے بہت عجیب سی آواز میں کہا۔
’’چاند۔۔۔ کدھر ہے، بھائی جان؟‘‘ حامد میری کمر پکڑ کر مجھ سے قریب ہو گیا۔
’’عید تو کل ہونا ہی ہے۔ آج کا چاند تو تیسا تھا‘‘ جمال نے ہولے سے کہا تھا۔
’تھا‘ سُن کر میں نے اپنی ٹانگوں میں کپکپاہٹ محسوس کی، جیسے آج کا چاند ماضی کے گہرے پانیوں میں ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا ہو۔
چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑے ہم پانچوں انسانوں کو مجید بھیّا کی آواز نے سہارا دیا، ’’ادھر بھی تو دیکھو! چاند ہر سال جگہ بدل دیتا ہے۔‘‘
مجید بھیّا اوپر نہیں آئے تھے۔
ٹیلے پر کھڑے کھڑے ہم نے حدِّ نظر تک پھیلے ہوئے منظر کو دیکھا۔ دور کھیتوں میں دھواں سا اُٹھ رہا تھا اور ان کے پیچھے اندھیرے میں سماتے ہوئے آم کے باغات تاریک ہوتے جا رہے تھے۔ درختوں کے سائے میں آہستہ آہستہ نہر بہہ رہی تھی۔ اُفق دھندلا ہو چکا تھا اور شیشموں کے اوپر آسمان میں کچھ بھی نہیں تھا اور کسی بھی طرف آسمان میں کچھ نہیں تھا۔
’’کیا نہیں دکھائی دیا؟‘‘ مجید بھیّا نے پوچھا تھا۔
اوپر کھڑے پانچوں انسانوں نے خوف کی لہروں کو اپنے بدن پر مکڑی کے جالوں کی طرح لپٹتا ہوا محسوس کیا۔ ہم سب کے دل بہت زور زور سے دھڑک رہے تھے جیسے کچھ ہونے والا ہے اور اسی لمحے سب نے سوچا کہ جس نے بھی مجید بھیّا کی بات کا جواب دیا اس کا دل پھٹ جائے گا۔ ہم سب خاموش تھے کہ غلام ماموں نے بڑی ہمّت کر کے کہا، ’’ایسا تو کبھی نہیں ہوتا تھا۔ کیا ہمارے یہاں بھی کچھ ہونے والا ہے؟‘‘
حامد نے میری کمر مضبوطی سے پکڑ لی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
’’ایسی باتیں مت کیجئے غلام ماموں! ہمارے ساتھ بچہ ہے، ڈر جائے گا۔ ہم لوگ گھر سے دور ہیں۔ گھر واپس چلئے!‘‘ میں نے بڑی مشکل سے کہا۔
اسی وقت ہوا ایک دم سے چل پڑی اور ہم لوگ ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔
اسی وقت جمال بولے تھے، ’’میاں نے پہلے ہی منع کیا تھا کہ رمضانوں میں شکار مت جایا کرو۔۔۔‘‘
پھر جیسے انھیں خیال آیا کہ اس جملے سے سب پر ان کا خوف ظاہر ہو گیا ہے۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ افطار کرنے کے بعد پیاس کی شدّت سے کوئی ایک دم نہر کی طرف بھاگے اور لڑکھڑا کر نہر میں گر پڑے اور ڈوب جائے۔ معلوم ہے! کتنی گہری ہے نہر؟‘‘
مجید بھیّا نیچے سے اوپر آتے ہوئے مسلسل ہمیں تک رہے تھے جیسے ہماری تلاش کرتی ہوئی آنکھوں میں انھوں نے ساری تحریر پڑھ لی ہو۔
میں نے حامد کو مضبوطی سے پکڑ کر اس کی پیٹھ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تھپتھپائی تھی اور مجید بھیّا نے سیدھے کھڑے ہو کر شیشموں کے اوپر دیکھا تھا۔ دیکھتے رہے تھے۔ پھر انھوں نے ہم سب کو دیکھا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کو دیر تک دیکھتے رہے تھے۔
اور اسی وقت نہر کے پانی میں کوئی مچھلی تڑپ کر اُچھلی تھی۔ حامد اور زیادہ سہم گیا تھا اور پھر۔۔۔ اچانک چلّایا تھا۔
’’وہ کیا! ارے!ارے!‘‘
’’کیا بات ہے، حامد میاں؟ کیا ہے؟ بولو بیٹے!‘‘ غلام ماموں گھبرا کر بولے تھے، ’’کیا چاند دکھائی دیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ نہیں! اوپر نہیں۔ نہر کے اُدھر، شیشموں کے نیچے دیکھئے۔ دو پیڑوں کے بیچ میں ایک گھر سا بنا ہوا ہے‘‘ حامد بھرّائی ہوئی آواز میں چلّایا تھا۔
ہم نے اُدھر دیکھا، اور جب ہم نے حامد کی بتائی ہوئی جگہ پر غور سے دیکھا تھا۔۔۔ تو۔۔۔ وہ منظر۔۔۔ اُف!
اس وقت ہوائیں تیز ہوئیں اور ہمارے ڈھانچوں سے ٹکرائیں۔ ہمارے ڈھانچے ساکت کھڑے رہے اور ہڈیاں آپس میں ٹکرا ٹکرا کر بجنے لگیں۔ آنکھوں کے حلقے اتنے پھیل گئے کہ آنکھیں بند ہونا بھول گئیں۔ سانسیں خاموش ہو گئیں۔ پورے ماحول پر اندھیرے میں لپٹا ہوا وہ خوف مسلّط ہو گیا تھا جو زندگی کے کئی برس ایک ساتھ کھا گیا۔ پھر بے ہوش حامد کو کاندھے پر لادے ہوئے جب ہم قصبے میں داخل ہوئے تو عشا کی نماز ہو چکی تھی۔ سڑک کی لالٹین کی دھندلی روشنی میں، دو دو چار چار کی ٹکڑیوں میں کھڑے ہوئے لوگ بڑے فکر مند لگ رہے تھے۔ وہ سب ہمیں بہت اجنبی لگ رہے تھے۔ پورا قصبہ ایک بے سکون اداسی میں ڈوبا ہوا آہستہ آہستہ سرگوشیاں کر رہا تھا۔
ایک لالٹین کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم نے سنا تھا۔۔۔
’’ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ تیسا بھی نظر نہ آیا ہو۔‘‘
’’کل عید تو ہو گی کہ نہیں؟‘‘
’’وہ تو ہو گی ہی۔۔۔ لیکن ذرا سوچو! کیسی عجیب بات ہے کہ۔۔۔‘‘
چھوٹی بازار کے نکّڑ پر کھڑے شریف چچا لوگوں کو آہستہ آہستہ ایسی آواز میں سمجھا رہے تھے، جو ان کی اپنی آواز نہیں تھی۔
’’ایک بار تو انھوں نے چاند کے دو ٹکڑے کئے۔ پھر ایک دن جب مولا علی کی نماز قضا ہو گئی تو سورج۔۔۔‘‘
’’پر چچا! مجھے تو لگے کہ حج پر جو خون بہا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘
’’اجی! ہم سب آپس میں ہی کٹے پڑ رہے ہیں۔‘‘
سب کی آوازیں جاڑے کی ہواؤں کے ساتھ بکھر رہی تھیں۔ ٹوٹ رہی تھیں۔
ہم اندھیری سڑکوں پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ تکان سے ہم لوگ بوجھل ہو چکے تھے۔ بے ڈھنگے پن سے بندوقیں اٹھائے گھر کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم لوگ صرف یہ سوچ رہے تھے کہ جس وقت ہم گھر کے اندر داخل ہوں گے تو کیا گھر والے ہمیں اجنبی تو نہیں سمجھیں گے۔
موڑ پر کسی نے بہت سرگوشیوں والے انداز میں اپنے پاس کھڑے شخص سے کہا تھا، ’’دیکھو! میں نے اسی دن کتاب میں دکھایا تھا کہ جب چودھویں صدی۔۔۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘‘
’’آج تو بدلی بھی نہیں تھی۔‘‘
پھر ہم لوگ اپنے اپنے گھروں میں یوں داخل ہوئے جیسے نئی بستیوں میں آ رہے ہوں جہاں کی زبان ہمارے لئے اجنبی ہو۔ جب بہت دیر کے بعد ہم لوگ اپنے اپنے حواس میں آئے تو جو کچھ گزرا تھا سب کو بتایا لیکن وہ منظر بتاتے وقت مجھے پھر ایسا لگا جیسے میرے بدن کا گوشت گلنے ہی والا ہے اور ہڈیاں ٹکرا ٹکرا کر بجنے ہی والی ہیں۔ سب نے مجھے خاموش کر دیا تھا۔
دوسرے دن عید کی نماز پڑھتے وقت یوں محسوس ہوا جیسے کسی کی نمازِ جنازہ ادا کر رہے ہوں۔ پھیکی پھیکی مسکراہٹوں کے ساتھ لوگوں سے گلے مل کر ہم سب نے شریف چچا کو پورا واقعہ سنایا تھا۔ سب کچھ سن کر وہ چپ ہو گئے تھے۔ وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھے رہے تھے اور جب ان کی خاموشی بھی ڈراؤنی لگنے لگی تو غلام ماموں نے کہا تھا، ’’شریف چچا! تم تو پرانے شکاری ہو۔ برسوں نہر پر شکار کھیل چکے ہو۔ تم تو مچھلی کا شکار بھی کھیلتے تھے۔ تم بتاؤ! کیا شیشم والی پائنتی میں کوئی ہے؟‘‘
’’صرف ایک دفعہ۔۔۔ مجھے وہاں کچھ نظر آیا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب نور الدین کو لڑائی کی وجہ سے عرب کی نوکری چھوڑ کر آنا پڑا تھا۔ اس نے آنے کے دوسرے ہی دن مجھ سے کہا تھا کہ ابّا! اب ہم لوگ یہیں کوئی کام کریں گے۔ اگر نہر کے درختوں کا ٹھیکا لے لو تو آرا مشین لگا کر کام شروع کر دیا جائے۔ تو میں اور نور الدین، دونوں نہر کے درخت دیکھنے گئے تھے۔ ہم لوگ جب شیشمیں دیکھ کر واپس آ رہے تھے تو پُل پر آ کر نور الدین نے کہا تھا کہ اس پُل سے لے کر دوسرے پُل تک ساری شیشموں کا ٹھیکا کتنے میں ملے گا، کچھ اندازہ ہے ابّا؟ تو میں نے اندازہ کرنے کے لئے جب مڑ کر شیشموں کی پائتی کی طرف دیکھا تو۔۔۔ تو اس دن جو کچھ مجھے نظر آیا، وہ بتاتے ہوئے مجھے آج بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔ میں نے آج تک نور الدین کو بھی نہیں بتایا۔ لیکن مجھے نور الدین نے بتا دیا تھا اور تمھیں یقین نہیں آئے گا، جو نور الدین نے دیکھا، وہ میں نے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے کچھ اور دیکھا تھا۔‘‘
’’یہی بات ہے چچا! ہم لوگوں نے بھی الگ الگ چیزیں دیکھی تھیں۔ بس حامد نہیں بتاتا کہ اس نے کیا دیکھا۔‘‘
’’کیا کہتا ہے وہ؟‘‘
’’وہ کہتا ہے، اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس پر میں نے کہا کہ تم ہی نے تو سب سے پہلے اشارہ کیا تھا کہ ادھر نہر کے پار، شیشم کے دو درختوں کے بیچ، کچھ گھر جیسا بنا ہوا ہے۔ وہاں بھلا گھر کہاں سے آ جائے گا۔ تو اس پر وہ کہتا ہے کہ ہاں، بس ایک گھر نظر آیا تھا۔ وہ اور کچھ نہیں بتاتا۔ ڈر گیا ہے۔ بالک چپ ہو جاتا ہے۔ زیادہ پوچھو تو رونے لگتا ہے۔ لیکن۔۔۔ شریف چچا!‘‘
شریف چچا نے پلکیں اوپر اٹھائیں۔ ان کا چہرہ زرد ہو گیا تھا۔
’’تم نے کیا دیکھا تھا؟ چچا!‘‘ میرے بجائے جمال بولے تھے۔
’’میں سمجھ رہا تھا، تم یہی پوچھو گے۔ جو کچھ میں نے دیکھا تھا، وہ اگر تمھیں بتا دوں تو یقین کر لو گے؟‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہے تھے۔
’’تب مجھے میاں نے منع کر دیا تھا کہ کسی کو کچھ نہ بتاؤ، لیکن اب بہت دن بیت چکے ہیں اور تمھیں بھی نہر پر کچھ نظر آیا ہے، اس لئے آج بتا رہا ہوں۔۔۔ لیکن کیسا عجیب لگتا ہے یہ سوچ کر کہ ہم نے الگ الگ منظر دیکھا تھا۔ سنو! نور الدین نے دیکھا تھا کہ نہر کی پٹری پر یہاں سے وہاں تک تیل کے کنویں کھدے پڑے ہیں اور ان کنوؤں میں ایک ساتھ آگ لگ گئی ہے اور آگ کی لپٹیں اتنی اونچی ہیں جیسے آسمان سے زمین پر برس رہی ہوں اور ان آگ کی لپٹوں کے ساتھ، جا بجا چلتے ہوئے لمبے لمبے عمامے فضا میں لہرا رہے ہیں اور ’’یا حبیبی، یا حبیبی‘‘ کی بے چین صدائیں چاروں طرف گونج رہی ہیں۔ چند لمحوں تک یہ منظر اس نے دیکھا اور جب میں نے نور الدین کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں مردے کی آنکھیں لگ رہی تھیں۔‘‘
شریف چچا سانس لینے کو رُکے تھے اور پھر ہم سب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولے تھے، ’’تمھیں معلوم ہے میں نے کیا دیکھا تھا۔ میاں کے علاوہ آج پہلی بار سب کو بتا رہا ہوں۔ اس دن تمھاری چچی کو گزرے قریب ایک مہینہ بیت چکا تھا۔ مرنے سے پہلے مرحومہ کئی بار مجھ سے کہہ چکی تھیں کہ لاہور میں ان کے بھائی کو خط لکھ دوں کہ اب کی مرتبہ جب بزنس کے سلسلے میں ڈھاکا جانا ہو تو کسی آتے جاتے کے ہاتھ ململ کا ایک تھان ہندوستان بھیج دیں۔ بہت دن سے مہین کرتے نہیں پہنے ہیں۔ جب میں نے تمھاری چچی کو بتایا کہ کچھ دن ہوئے ڈھاکا پاکستان سے الگ ہو گیا ہے اور اب پاکستان والے وہاں نہیں جاتے تو یہ سب سُن کر ہذیانی انداز میں زور زور سے چلّانے لگی تھیں۔ جب میں نے انھیں پوری صورتِ حال سمجھائی تو وہ ایک دم کھلکھلا کر ہنسی تھیں اور پھر چپ ہو گئی تھیں۔ دوسرے دن سے ان کی کھانسی کے دورے تیز ہو گئے تھے۔ شام کو میرے پاس آ کر، میرے سینے پر سر رکھ کر، چپکے چپکے بولی تھیں کہ یہ سوچ سوچ کر ہمیشہ خود کو خوش کر لیتی تھی کہ لاہور والے بھائی جان، ڈھاکا والے رشتے داروں کے پاس جا کر، ململ کے تھان لے کر کسی آتے جاتے کے ہاتھ ہمیں ہندوستان بھیج دیں گے تو ہم سفید اجلے کُرتے پہن کر، پڑوس کے پنڈت کی بیوی سے کہیں گے کہ بی پڑوسن! ہمیں اچھے کپڑوں کی کیا کمی۔ ڈھاکا اور لاہور کے عزیز سلامت! جو ہمیں ململ خرید کر بھیج دیتے ہیں، لیکن۔۔۔ جب کل تم نے بتایا کہ اب لاہور اور ڈھاکے میں رشتہ نہیں رہا ہے تو میں نے سوچا کہ یہیں بازار سے کپڑے خرید لیں گے۔ تمھاری چچی نے پلنگ سے اٹھ کر مجھے جو کپڑے دکھائے وہ کھادی کے کرتے تھے۔ سفید، ہرے، نیلے اور گیروے رنگ کی کھادی، اور یہ کُرتے دکھا کر وہ پھر ہنسنے لگی تھیں۔ کچھ دن بعد وہ ایک رات گیروے رنگ کا کُرتا پہن کر سوئیں۔ میں انھیں دوا پلا کر اپنے بستر پر آ کر سو گیا۔ صبح فجر کے وقت میں نے انھیں جا کر جگایا تو وہ نہیں جاگیں۔ ان کی آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھیں اور ململ کی طرح سفید تھیں۔ اور اب تم سنو کہ اُس دن میں نے نہر پر کیا دیکھا تھا۔ اس شام سورج غروب ہو رہا تھا کہ نور الدین کے کہنے پر میں نے نہر کی پٹری پر شیشموں کی طرف دیکھا تو دیکھا کہ نہر کی پٹری پر تمھاری چچی کھڑی ہیں۔ وہ بالکل جوان ہیں جیسی اپنے گھر سے آئی تھیں۔ تمھاری چچی اوپر سے نیچے تک ململ کا تھان لپیٹے ہوئے ہیں اور مسکراتی ہوئی دونوں ہاتھوں سے اپنا لباس تھامے، میری طرف چلی آ رہی ہیں کہ اچانک نہر سے لمبے لمبے ناخنوں والے، بڑے بڑے، بہت سے ہاتھ باہر نکلے اور تمھاری چچی کے بدن سے کپڑے چھیننے لگے۔ وہ وحشت زدہ کھڑی دیکھتی رہیں۔ ان ہاتھوں نے ململ کا تھان اتار کر نہر کے دوسرے کنارے پر ڈال دیا اور تمھاری چچی بالکل بے لباس ہو گئیں۔ بے لباس کھڑے کھڑے انھوں نے تھوڑی دیر تک کچھ سوچا اور پھر زمین سے ایک کپڑا اٹھا کر اپنے بدن پر پہن لیا۔ وہ گیروے رنگ کا کُرتا تھا۔ تمھاری چچی لمبا کرتا پہن کر ایک دم زور سے کھلکھلا کر ہنسیں اور پھر اس قدر مطمئن ہو گئیں کہ میں اس خوف اور تحیّر کے عالم میں بھی چونک پڑا۔ بس اسی وقت میں نے نور الدین کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ مردے جیسی نظر آ رہی تھیں۔‘‘
شریف چچا جب خاموش ہوئی تو ہم اپنے دل کی دھڑکنیں واضح انداز میں سُن رہے تھے۔
اسی وقت غلام ماموں نے بیٹھک کا دروازہ کھولا تھا۔ سرد ہوا کا جھونکا اندر آیا تھا۔ تھوڑی دیر ٹھٹھکا تھا اور خاموشی سے واپس چلا گیا تھا۔
جمال نے دروازہ بند کیا تھا اور واپس آ کر پوچھا تھا، ’’یہ کیا بھید ہے شریف چچا؟‘‘
’’معلوم نہیں بیٹے! میرا دماغ کام نہیں کرتا۔ میاں سے پوچھا تو وہ خاموش ہو گئے تھے۔‘‘
’’لیکن چچا! ہم تو بچپن سے نہر پر شکار کھیل رہے ہیں۔ یہ خوف تو ہم سے ہمارا شوق بھی چھین لے گا۔ کیا نہر پر کوئی بڑی روح آ گئی ہے؟‘‘
’’کیا خبر! لیکن اب تم سب جا کر میاں سے کہو، وہی کچھ کریں گے۔۔۔‘‘
شام کو ہم سب میاں کے حجرے میں حاضر ہوئے تھے۔ اگر بتی کی خوش بو نے ماحول کو بوجھل بنا دیا تھا۔ میاں نے پوروں پر وظیفہ ختم کیا اور سفید پاکیزہ داڑھی سینے سے لگا لی اور تھوڑی دیر کے بعد جب اپنی نرم آنکھیں کھولی تھیں تو ہم سب نے اپنے آپ کو بہت محفوظ محسوس کیا تھا۔
تب میاں نے ٹھہری ہوئی آواز میں دھیمے سے کہا تھا، ’’صحابہؓ کے حلقے میں بیٹھے ہوئے سرور کائناتؐ نے فرمایا تھا: اے لوگو! جو مجھے معلوم ہے، اگر تمھیں اس کی خبر ہو جائے تو کبھی ہنسنے کی ہمّت بھی نہ کرو۔‘‘
میاں نے یہ کہہ کر اپنے آنسو خشک کر کے پوچھا تھا، ’’تم لوگوں کو معلوم ہے کہ حضوؐر کو کیا کیا معلوم تھا؟‘‘
ہم سب خاموش رہے۔ وہ سوال کر کے جواب خود ہی دیتے تھے۔ ہم سب ان کے جواب کے منتظر تھے لیکن جب وہ خاموش رہے تو ہم سب بے چین ہوئے۔
’’میاں! حضوؐر کو کیا کیا معلوم تھا؟‘‘ مجید بھیّا نے ہمّت کی تھی۔
میاں پھر بھی نہیں بولے تھے۔
اگر کا دھواں ہمارے سروں پر گاڑھا ہو رہا تھا اور خاموشی اس سے بھی زیادہ گاڑھی ہو چکی تھی۔
میاں آہستہ آہستہ رو رہے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے آنکھیں اٹھا کر مجید بھیّا کو مخاطب کیا تھا، ’’کیا نظام علی کا پوت ہے؟‘‘
’’جی ہاں! میں ہوں مجید‘‘ مجید بھیّا نے جواب دیا تھا۔
پھر میاں نے کہا تھا، ’’مجھے بھی نہیں معلوم ہے کہ انھیں کیا کیا معلوم تھا لیکن ربِّ علیم کی قسم! انھیں ہر چیز معلوم تھی۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر سب کو ہر چیز معلوم ہو جائے تو کبھی کوئی ہنسنے کی ہمّت بھی نہ کرے۔ اس خرابے کی ساری خرابیاں ان پر روشن تھیں۔ اس خرابے کے چاروں طرف جو کائنات ہے، اس میں ہر جگہ دکھوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے جو صاحبِ توفیق ہیں وہ دکھوں کے اس ڈھیر پر بیٹھے، دکھی نگاہوں سے، دکھ کا اتنا بڑا تماشا دیکھ رہے ہیں لیکن ہم دکھوں کی ماہئیت سے اَن جان ہیں، صرف صورت آشنا ہیں۔ وہ ان سب کی ماہئیت سے بھی واقف تھے۔ تبھی تو کہا تھا کہ جو کچھ مجھے معلوم ہے، وہ اگر سب لوگ جان لیں تو پھر کبھی کوئی نہ ہنسے۔‘‘
میاں کچھ دیر خاموش رہے تھے اور پھر بہت بھاری آواز میں کہا تھا، ’’تم سب لوگ جان لو کہ اب تمھاری دنیا میں دکھ بہت پیچیدہ ہو گئے ہیں ورنہ نہر پر تمھیں وہ منظر نظر نہ آتے۔ عید کا چاند محنت اور بندگی کا انعام ہوتا ہے۔ تمھاری محنت اور بندگی نامقبول ہوئی ورنہ چاند کیوں نہ دکھائی دیتا۔ ہم سب کے روزے گزرے ہوئے کل کی شام کو، زمین و آسماں کے درمیان معلق رہے ہوں گے اور دعا کرتے ہوں گے کہ اے خدا! اشرف المخلوقات کو ان کا انعام دے۔ انھیں چاند کا دیدار دے تو وہ صدقہ دیں اور ہم تیری بارگاہ میں مقبول ہوں۔ لیکن۔۔۔ خدا نے ہم میں سے کسی کو چاند کا دیدار نہیں دیا۔ ہمارے روزے درمیان میں معلق ہیں۔‘‘
مجھے حجرے کے نیم تاریک ماحول میں بیٹھے بیٹھے نظر آیا جیسے صحرا میں اونٹوں کا طویل قافلہ چلا جا رہا ہو اور کسی بڑے دشمن کے نیزہ بردار سپاہیوں نے تیز اور لمبے نیزوں سے، اونٹوں کی گردنوں کو چھید دیا ہو اور زخمی اونٹ بلبلا بلبلا کر چیخ چیخ کر تڑپ رہے ہوں۔
اسی وقت میاں نے میری طرف نظر کر کے فرمایا تھا، ’’شاہد! تمھیں کچھ کہنا ہے؟‘‘
میری زبان کھلنے سے پہلے ہی غلام ماموں نے کہا تھا، ’’میاں! مجھے سب کی طرف سے عرض کرنا ہے کہ ہم ہمیشہ سے نہر پر شکار کھیلتے ہیں، اور یہ خوف ہم پر مسلّط رہا تو ہمارا شکار چھوٹ جائے گا۔ اور ہم لوگوں کا شوق ہی کیا ہے۔ کیا یہ بھی۔۔۔ چھوڑ دیں؟ بستی کے سارے لوگ آپ سے پوچھ چکے ہیں۔ آپ! انھیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ چاند کیوں نہیں نکلا۔ آپ ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ نہر پر ہمیں وہ منظر کیوں دکھائی دئیے۔ میاں! اگر آپ بھی خاموش رہے تو پھر ہمیں اور کون بتائے گا؟ ہم لوگ کس کے پاس جائیں گے؟‘‘
غلام ماموں کے خاموش ہونے پر میاں نے تھوڑی دیر ان کی طرف دیکھا تھا اور پھر سب کو باری باری دیکھ کر آہستہ آہستہ بولے تھے، ’’غلام! سارے دکھوں کا اکیلا وارث میں نہیں ہوں۔ ساری امّت کے حصے میں دکھ تقسیم کئے گئے ہیں، بلکہ سب بندوں کو حصہ ملا ہے۔ اپنے دکھوں کو خود اپنے آپ پہچانو! جاؤ! نہر پر جاؤ۔ اسی جگہ بیٹھ کر اپنے اپنے منظر یاد کرو اور پھر سوچو کہ تمھیں وہ منظر کیوں دکھائی دیے۔ میں اب کم زور ہو چلا ہوں۔ مجھ پر اتنا بار نہ ڈالو۔ کل ظہر کے بعد نہر پر جانا۔ اب تم لوگ جاؤ۔ رات زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘
ہم سب نے میاں کے اُجلے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’اور سنو!‘‘
ہم سب پلٹ پڑے تھے۔
’’کل اپنے ساتھ حامد کو بھی لے جانا۔ بس اب تم جاؤ، خدا تم سب کو سکون دے۔‘‘
ہم لوگ جب حجرے سے نکلے تو آسمان صاف تھا اور ستارے بہت روشن تھے۔ ہم لوگوں کے لمبے لمبے سائے میاں کے حجرے سے دور ہو رہے تھے۔ مڑ کر دیکھا تو سفید پوش میاں حجرے کے دروازے پر کھڑے ہمیں جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور اسی وقت اجنبی آسمان کے نیچے چلتے چلتے ہم سب نے شاید ایک ساتھ سوچا تھا کہ خدا جانے کل کیا ہو گا۔
دوسرے دن ظہر کے بعد ہم لوگ نہر کی طرف چل پڑے تھے۔ نہر کے پُل پر کھڑے ہو کر میں نے سوچا کہ پرسوں اسی جگہ کھڑے ہو کر میں نے سوچا تھا کہ اونٹوں کے قافلے کے ساتھ رمضان اب رخصت ہونے ہی والے ہیں۔
عزیز بھائی نے پیچھے سے آ کر میرے شانے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’آج دن میں بھی ڈر لگ رہا ہے۔ کیا تمھیں بھی ڈر لگ رہا ہے؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’یہ حامد کہیں زیادہ نہ ڈر جائے۔‘‘ عزیز بھائی نے آہستہ سے کہا۔
’’نہیں۔ ہم لوگ اسے بہلائے رکھیں گے۔‘‘ جمال ہم لوگوں کے قریب آ گئے تھے۔
اب میں نے نہر کے پُل کے بالکل درمیان میں کھڑے ہو کر دور دور تک دیکھا۔ نہر کے چاروں طرف ایک سبز تصویر پھیلی ہوئی تھی جس میں کہیں کہیں مٹیالے دھبّے نظر آ رہے تھے کہ کچھ کھیت ابھی بونے سے رہ گئے تھے۔ گیہوں کے چھوٹے چھوٹے پودوں پر دھوپ نے چمک پیدا کر دی تھی۔ جہاں جہاں سایہ تھا، وہاں کھیتوں کی سبزی گہری ہو گئی تھی اور کھیت بہت گنجان لگ رہے تھے۔۔۔ اور تھوڑی دیر بعد چھوٹے ٹیلے پر بیٹھے ہم چھ افراد نے محسوس کیا کہ آج ہم یہاں اپنے اپنے فیصلے کرنے آئے ہیں۔ یہاں ہم لوگ یہ سوچنے آئے ہیں کہ ہماری زندگی میں وہ کون سی کجی آ گئی ہے جس کی وجہ سے معمولات نے اپنی راستی چھوڑ دی ہے۔
میاں نے کہا تھا کہ زمین پر پاؤں مارنے سے جو دھمک پیدا ہوتی ہے، اس کے نہایت معمولی سے ارتعاش سے بھی کائنات کا کوئی نہ کوئی عمل ضرور متاثر ہوتا ہے۔ ہر قدم اہم ہے۔
سردیوں کا سورج اوپر تھا اور نیچے ہم لوگ تھے، تب غلام ماموں نے ٹیلے پر کھڑے ہو کر نہر کے پار اس جگہ کو غور سے دیکھا۔
شیشم کے دو بوڑھے درختوں کے درمیان کچھ بھی نہیں تھا جس سے خوف محسوس کیا جا سکے۔ سامنے نہر کے کنارے دور تک درختوں کا سلسلہ چلا گیا تھا اور ان میں سے کسی بلند شیشم کے اوپر سے بڑی فاختہ کی ’’یا حق تُو‘‘، ’’یا دوست تُو‘‘ کی مسلسل صدائیں، اس کنارے پر بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں اور اب غلام ماموں نے سوچا کہ جو دن میں سوچو، رات کو وہی خواب میں نظر آتا ہے۔ پرسوں شام میں نے جو منظر دیکھا تھا وہ کسی بھیانک سوچ کا نتیجہ رہا ہو گا۔ شاید اسی لئے میاں نے ہم لوگوں کو نہر پر بھیجا ہے کہ ہم لوگ اپنا منظر یاد کریں اور اس منظر کی گانٹھ کا وہ سِرا تلاش کریں جس سے ہماری پچھلی سوچیں جُڑی ہوئی ہیں۔
’’کیا میں بتاؤں جو میں نے دیکھا تھا؟‘‘ جمال نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’نہیں، رُکو! پہلے خوب اطمینان سے سوچو کہ تم نے کیا دیکھا تھا۔ پھر سوچو کہ تم نے وہ کیوں دیکھا؟ پھر بتانا۔‘‘
’’کیوں دیکھا!‘‘ جمال نے حیرت سے کہا، ’’کیا کوئی اپنے اختیار میں تھا! آپ تو غلام ماموں بات کو اور بھی پیچیدہ بنا رہے ہیں۔‘‘
تبھی غلام ماموں نے میاں کے لہجے میں ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا، ’’تم سب لوگ یہیں خاموش بیٹھے بیٹھے سوچو۔ میاں نے یہ کہا تھا۔ ان کی یہی ہدایت تھی کہ کوئی اپنا منظر نہ بتائے۔ صرف حامد بتائے گا کہ اس نے کیا دیکھا تھا‘‘ یہ کہہ کر غلام ماموں نے سر نیچے ڈال دیا۔
اور اب غلام ماموں نے سوچا کہ سامنے ان دونوں درختوں کے بیچ وہ کیسا دہشت ناک منظر تھا۔ اُف۔۔۔ کہیں سچ مچ ایسا ہو جائے تو کیا ہو گا۔ اماں نے کتنے دکھ سہہ کر مجھے پالا۔ کھجور کی گٹھلیوں کی چھالیا کھا کھا کر، انھوں نے اپنے گردے میں پتھری پیدا کر لی لیکن میری پڑھائی کی طرف سے کبھی غفلت نہیں برتی۔ میں میٹرک کر کے ریلوے میں فائرمین سے ڈرائیور ہو گیا لیکن اماں کی زندگی کی گاڑی وہیں کی وہیں رہی۔ اماں ابا کتنے مزے سے غربت بھگت رہے ہیں اور میں ان سے سیکڑوں میل دور اپنے ساتھیوں میں، ’’غلام بابو‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہوں۔ کالونی میں سب سے اچھا کھانا میرے یہاں پکتا ہے اور صرف میرے ہی گھر ٹیلی وژن ہے۔ اس دن شکار پر آتے وقت میں نے اماں سے کہا تھا۔ اماں! میں عید کے دوسرے ہی دن واپس چلا جاؤں گا۔ ٹیلی وژن خراب پڑا ہے۔ منّو اور آپ کی بہو بور ہو رہے ہوں گے۔ مجھے وہاں جا کر ٹیلی وژن ٹھیک کرانا ہے۔
اماں یہ سن کر کچھ نہیں بولی تھی۔ اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ بیٹا غلام! تم اب اللہ رکھے، پچاس برس کے ہو رہے ہو۔ تم نے اس طویل عرصے میں ایک دن بھی یہ نہیں پوچھا کہ اماں! تم اور ابا، میرے بغیر یہاں خود کو غیر محفوظ سمجھ کر تو زندگی نہیں گزارتے ہو اور یہ کہ اماں! تمھارے پان دان میں اب بھی کھجور کی گٹھلیاں ہیں یا اب وہ بھی نہیں ہیں۔
اُف! وہ منظر۔۔۔ میں نے پرسوں اسی سامنے والے کنارے کی طرف حامد کے اشارہ کرنے پر دیکھا تو نظر آیا کہ شیشم کے دو درختوں کے درمیان ایک ریلوے اسٹیشن کا کمرا ہے اور کمرے کے برابر ریل کی پٹری پر میں بہت تیزی سے انجن میں ریل گاڑی چلاتا چلا جا رہا ہوں۔ دونوں طرف مٹی اڑ رہی ہے اور سامنے ریل کی پٹری پر امّاں کھڑی ہے اور وہ چلّا رہی ہے۔ غلام، رک جاؤ! غلام رک جاؤ! میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی لیکن اپنی گاڑی سے مجھے کچلو تو مت۔۔۔ لیکن میں نہیں رکا۔ میری گاڑی کا انجن میری ضعیف ماں کے بدن کے پرخچے اڑاتا ہوا تیزی سے نکل گیا اور ماں کے خون میں لتھڑے گوشت کی بو کو میں نے سونگھ کر محسوس کیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک سرخ ڈھیر پٹریوں پر پڑا تھا جو آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا۔ تبھی میں نے اپنی ہڈیوں میں ٹھنڈی ہوا کی رگڑ محسوس کی اور اس منظر سے واپس آیا تو سب ساتھ والے خاموش اور خوف زدہ کھڑے تھے اور حامد بے ہوش ہو چکا تھا لیکن اس منظر میں میرا کیا قصور تھا؟ میں نے تو بریک پر ہاتھ رکھا تھا لیکن اس وقت مجھے خیال آیا تھا کہ سامنے مجھے روکتی ہوئی یہ بوڑھی عورت وہی ہے جس نے اگر مجھے اپنی کوکھ سے پیدا نہ کیا ہوتا تو ساتویں کلاس میں میرے ساتھی، کسی لڑکے کی رفو کی ہوئی پتلون کا مذاق کیوں اڑاتے۔ میں اس خیال کے دھارے میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ جب ماں کے کٹے ہوئے بدن سے پھوٹتی ہوئی خون کی تیز مہک میری ناک میں آئی تب میں ہوش میں آیا تھا۔
میں نے دیکھا کہ غلام ماموں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا ہے اور چپ چاپ بیٹھے زمین تک رہے ہیں۔ تبھی حامد نے میری طرف کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا جن کا مطلب میں نہیں سمجھ سکا۔ میں نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور غلام ماموں کو بہت قابل رحم محسوس کیا۔ خدا جانے انھوں نے کیا منظر دیکھا تھا، لیکن مجھے یقین ہے انھوں نے جو کچھ بھی دیکھا ہو گا، اس میں ان کا قصور نہیں ہو گا۔ کیوں کہ میں نے بھی جو کچھ دیکھا تھا اس میں میری کیا خطا تھی۔ میرا دل بے اختیار چاہا کہ میں اس ڈوبتی ہوئی سرد شام کے اداس لمحوں میں، سب کو بتا دوں کہ پرسوں سورج ڈوبنے کے بعد چاند نظر نہ آنے پر جب حامد نے نہر کے اُدھر اشارہ کیا تھا تو میں نے دیکھا تھا کہ نہر کی پٹری پر میری شبانہ بالکل برہنہ پڑی ہے اور کچھ عجیب الخلقت آدمی اس کے پاس کھڑے ہیں جن کے سر اور پنجے بھیڑیوں جیسے ہیں اور وہ باری باری شبانہ کے جسم کی عصمت دری کر رہے ہیں۔ میں وہیں قریب میں کھڑا ہوں اور میرے سارے اعضا پتھر کے ہیں صرف آنکھیں ہیں جن سے میں دیکھتا ہوں کہ شبانہ ہر بھیڑیے کو مطمئن کرنے کے بعد میری طرف آنکھیں کھول کر ٹکر ٹکر دیکھتی ہے اور پھر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ وہ مجھ سے کچھ نہیں کہتی۔ مدد کے لے بھی نہیں کہتی۔ اور پھر اگلا بھیڑیا آگے بڑھتا ہے اور تیز دانتوں اور پنجوں سے دل بھر کر۔۔۔۔ شبانہ کو بھنبھوڑتا ہے اور دوسرے بھیڑیے کے لےا جگہ خالی کر دیتا ہے۔ اور پھر اگلا بھیڑیا آگے بڑھتا ہے اور پھر۔۔۔ لیکن میں یہ منظر کیسے بتاؤں۔۔۔ یہاں، اس نہر کی پٹری پر چھوٹے سے ٹیلے پر بیٹھا ہوا کوئی فرد۔۔۔ تمھیں نہیں جانتا شبانہ! اور اب تو شاید میں بھی تمھیں بھولتا جا رہا ہوں۔ تم مجھ سے پوچھو گی کہ چھ سال میں ہی تم مجھے بھول گئے؟ تم نے زندگی بھر یاد رکھنے کا وعدہ کیا تھا شاہد علی!
تو میں تمھیں جواب دوں گا شبانہ کہ چھ سال کی مدّت یوں تو اتنی طویل نہیں ہوتی کہ تم سے بچھڑ کر تمھیں بھلایا جا سکے لیکن شاید تمھیں اس کا اندازہ نہ ہو کہ بے روزگاری کے دن برسوں سے زیادہ طویل ہوتے ہیں اور وہ بھی ایسی بے روزگاری، جس کے ڈانڈے تمھاری جدائی سے ملتے ہوں۔ تمھیں شاید نہیں معلوم کہ ان طویل دنوں کے ساتھ کھردری تاریک راتیں بھی تو بندھی ہوئی ہیں جو اپنی سیاہی میں سب کچھ تاریک کر دیتی ہیں۔ ہاں، ہاں۔۔۔ تمھارا روشن چہرہ اور چمکتی ہوئی محبوب آنکھیں بھی تاریک ہو جاتی ہیں۔ تمھارے چمکتے ہوئے چہرے پر میری مادّی کلفتوں نے بہت موٹے موٹے پردے ڈال دیے ہیں۔ اور دیکھو، میری مجبوریوں اور محرومیوں نے اپنا انتقام لینے کے لےھ میرے لاشعور کو کیسی اچھی پٹّی پڑھائی ہے کہ میں تمھیں بھیڑیوں کے جنگل میں برہنہ اور اکیلا ڈال کر کھڑا ہوا تمھیں دیکھ رہا ہوں اور اپنے اعضا پتھر کے بنا لئے ہیں۔
حامد نے اُتھ کر میرے آنسو خشک کئے اور میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
میں نے دل ہی دل میں کہا: کیا دیکھ رہا ہے پگلے! اب ان آنکھوں میں کیا دھرا ہے۔ اب تو تُو نے وہ بھی خشک کر دئیے ورنہ آنسو ہی دیکھ لیتا۔ لیکن میں حامد سے کچھ نہیں کہہ پایا۔ وہ مجھے اچانک اپنی عمر سے بہت بڑا نظر آیا جیسے بیٹھے بیٹھے ان لمحوں میں اس نے پاس بیٹھے ہم سب لوگوں کی عمروں کا تھوڑا تھوڑا حصہ مانگ لیا ہو۔ مجھے معلوم نہیں کیوں، اس سے خوف محسوس ہوا۔ میں نے چاہا کہ اس کا ہاتھ چھوڑ دوں تاکہ وہ ان کم زور لمحوں میں میرے کانپتے ہوئے لمس سے کوئی نتیجہ نہ نکال لے۔ میں نے جب اس کا ہاتھ چھوڑنا چاہا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں اس کا ہاتھ نہیں پکڑے تھا بلکہ وہ میرا ہاتھ تھامے ہوئے تھا اور عزیز بھائی اور مجید بھیّا کی طرف دیکھ رہا تھا۔
عزیز اور مجید نے سوچا کہ پرسوں نہر کی پٹری پر جب چاند نہیں نکلا تو ہم لوگ ڈر گئے تھے کہ اس سال معلوم نہیں کیا ہو۔۔۔ پچھلے سال تو تیز اور گرم ہواؤں نے آم کی ساری فصل تباہ کر دی تھی اور اس سال سنا ہے وہاں لوگ لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان سے وہاں کوئی چیز نہیں جا سکتی۔ آم تو پھر شوقیہ کھانے کی چیز ہے۔ لڑائی کے عالم میں بھلا ہمارے آم کون پوچھے گا اور کسی کو بھلا کیا خبر کہ آم کی فصل ہی ہمارے بچوں کو سال بھر روٹی دیتی ہے، تو اس وقت حامد میاں نے اشارہ کر کے بتایا تھا کہ سامنے ان دو شیشموں کے بیچ ایک گھر سا بنا ہوا ہے۔
تو جب ہم نے دیکھا تو نظر آیا کہ ڈوبے ہوئے سورج کی زرد روشنی میں وہاں ایک گھر بنا ہے جس کے دروازے پر ہم کھڑے ہیں اور اس گھر کے چاروں طرف آم کے باغات ہیں اور ان آم کے باغوں میں چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ دھڑا دھڑ درخت جل رہے ہیں۔ پکے ہوئے آم آپ ہی آپ پھوٹ رہے ہیں اور ان میں سے انگارے نکل رہے ہیں، اور درختوں سے، جلے ہوئے مردہ پرندے ٹپک رہے ہیں اور جلتی ہوئی فاختائیں اور کبوتر پھڑک پھڑک کر دم توڑ رہے ہیں۔
ہم میں سب سے زیادہ سمجھ دار جمال میاں تھے تو ہم نے انھیں بتانے کے لئے جب ان کی طرف دیکھا تو وہ خود آنکھیں پھاڑے شیشموں کے بیچ کچھ دیکھ رہے تھے اور تبھی ہم نے دیکھا تھا کہ حامد میاں شاہد میاں کی کمر پکڑے بے ہوش ہو چکے ہیں۔
تب جمال نے خاموش بیٹھے پانچوں افراد کو باری باری دیکھ کر پھر سوچنا شروع کیا۔ پرسوں دو شیشم کے درختوں کے بیچ اس کنارے پر، نہر کی پٹری پر بنے گھر کی چھت پر اپنے آپ کو کھڑا دیکھ کر، اس کنارے پر خود کو میں نے کتنا غیر محفوظ محسوس کیا تھا۔ اچانک غلام ماموں نے اس کنارے پر کچھ دیکھا اور کہا۔
’’ارے! دیکھو! ہو سکتا ہے ان شیشموں کے درمیان دھوپ ڈھلتے وقت بڑے درختوں کا سایہ اس انداز سے پڑتا ہو کہ وہ جگہ ایک گھر کی طرح نظر آتی ہو۔ ابھی ابھی دوپ ڈھلے پر میں نے یہ محسوس کیا ہے۔ کیا تم لوگوں نے غور کیا؟‘‘
ہم سب نے ان کا یہ جملہ سنا اور بہتی ہوئی نہر کو دیکھا اور سامنے ان شیشموں کو دیکھا اور ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا اور بہتی ہوئی نہر کی گمبھیر خاموشی کے اوپر سے واپس آتے ہوئے ہم نے شاید ایک ساتھ سوچا کہ سب دھوکا ہے اور سب وہم ہے۔ لیکن یہ بہتی ہوئی نہر حقیقت ہے اور ڈھلتا ہوا یہ سورج حقیقت ہے اور ہم بیٹھے ہوئے یہ سارے افراد حقیقت ہیں۔
جمال نے سوچا، پرسوں حامد نے جیسے ہی اشارہ کیا تھا، میں نے اُدھر دیکھا تھا۔ میں اس نیم تاریک گھر کی چھت پر کھڑا تھا۔ سامنے دور دور تک میدان تھا جس میں بے شمار قافلے خاموشی سے چلے جا رہے تھے۔ قافلے والوں کے کندھوں پر جلتی ہوئی مسجدیں رکھی تھیں جن کے مناروں سے شعلے اٹھ رہے تھے۔ جلتے ہوئے مناروں کو دیکھ کر قافلے والے اپنی پیشانیوں کے زخموں سے بہتے ہوئے لہو کو اپنے ہاتھوں سے روکتے، ایک لمحے کو رکتے، سرخ ہتھیلیوں کو دیکھتے اور پھر قدم بڑھا دیتے تھے۔ بڑے میدان کو پار کر کے قافلے والے آہستہ آہستہ نیلے سمندروں میں اتر رہے تھے اور بے آواز سکون کے ساتھ ڈوب رہے تھے اور جو قافلہ سمندر کی جانب سے رخ موڑتا اور کوئی اور سمت اختیار کرتا تو اس قافلے میں بھگدڑ مچ جاتی۔ اصیل گھوڑے بدن سے بدن ملائے، اگلے سُموں کو اوپر بلند کرتے، دُم کو سیدھا کرتے اور سانپ کی طرح پھنکار پھنکار کر ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے اور ان کے سُموں سے آگ کی چنگاریاں نکلتیں۔ بلبلاتے ہوئے اونٹ بھاگتے اور ٹھوکریں کھا کر سر کے بل گرتے اور تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے۔ وجیہہ سپاہی، چلوں میں تیر جوڑتے اور کھڑے کھڑے بت بن جاتے۔ حسین اور طویل قامت عورتیں مشکیزوں میں پانی بھر بھر کے لاتیں اور لاشوں کے منھ میں پانی ڈال ڈال کر، ان لاشوں کی آنکھیں کھول کھول کر دیکھتیں اور ان آنکھوں میں لپٹی ہوئی موت کا نوحہ پڑھتیں اور ان جسموں کو یاد کرتیں جن کی قربت انھیں میسّر تھی اور پھر طویل گریے کے بعد وہ اپنی چوڑیاں توڑتیں اور کلائیوں میں سیاہ کلاوے باندھ کر سفید چادر ڈال لیتیں جنھیں دوسرے قافلے کے سپاہی کھینچ کھینچ کر وحشیانہ قہقہے لگاتے اور پھر خاموش قافلوں کا سفر شروع ہوتا جو اپنے شانوں پر جلتی ہوئی سفید مسجدیں اٹھائے رواں تھے اور گہرے سمندروں میں غرق ہونے کے لئے آہستہ آہستہ بڑھا رہے تھے اور جیسے ہی قافلہ سمندروں میں ڈوبنے سے انکار کرتا، اس قافلے کے گھوڑے سُموں کو بلند کرتے، سانپ کی طرح پھنکارتے اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے اور بلبلاتے ہوئے اونٹ ٹھوکریں کھا کر گرتے اور تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتے۔
جمال نے سوچا: شکار پر آنے سے پہلے میاں سے پوچھا تھا، ’’میاں! عہد وسطی کی تاریخ پڑھانا کس قدر مشکل کام ہے!‘‘
تو میاں نے آہستہ سے کہا تھا، ’’اس سے بھی زیادہ مشکل تاریخ ایک اور دور کی ہے۔‘‘
’’وہ کون سا دور ہے میاں؟‘‘
تو میاں نے میری طرف اتنی مایوس نظروں سے دیکھا تھا کہ مجھے لگا جیسے میں اپنا پڑھا لکھا سب بھول چکا ہوں۔ پھر میاں نے اپنے شانوں پہ بکھری ہوئی سفید کاکلوں میں انگلیاں ڈال کر انھیں الجھا لیا تھا۔ گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے نیچے تک چاک کر دیا تھا اور آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر مجھ سے کہا تھا، ’’صبر کرو! صبر کرو! اور کم از کم ایمان کے ادنا درجے سے کبھی گریز نہ کرو۔ اور شکر کرو کہ سارے دکھ سکھ تمھارے اپنے ہیں، تمھاری اپنی مِلک۔ اب جاؤ اور دیکھو! گھبرایا مت کرو۔ لکھنؤ والے بھائی کو دیکھو! دنیا جہان کی درد ناک خبریں صبح و شام جمع کرتا ہے، انھیں پڑھتا ہے اور صبر کرتا ہے اور مجھے وہاں سے لکھتا ہے کہ اسے اب شب خون کا خطرہ نہیں رہا۔ اس نے خیموں کو جلا کر صحرا روشن کر لیا ہے اور اُس موج خون سے اپنا چہرہ گل نار کر لیا ہے، جس سے کبھی دجلے کا پانی روشن ہوتا ہے، کبھی گنگا کا۔ اس نے مجھے یہ بھی لکھا ہے کہ جمال کو بتا دیجئے کہ جب بھی کہنہ محرابوں سے دھواں اٹھتا محسوس ہو تو خوابوں کا پھریرا روشن کر لے۔ بس اب۔۔۔ جاؤ! تمھارے ساتھی شکار کے لئے تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
وہاں سے نکل کر شکار کے لئے میں نہر پر آ گیا جہاں وہ منظر دیکھا۔
جمال سوچ کی دلدل سے آہستہ آہستہ اوپر ابھرا تو پانچوں ساتھی نیچے سر ڈالے خاموش بیٹھے تھے۔ جمال کو محسوس ہوا کہ سرد موسم کے ڈھلتے ہوئے دن کی شام کو، بہتی ہوئی نہر کے کنارے، اس چھوٹے سے ٹیلے پر ہم سب لوگ صدیوں پرانے کھنڈر ہیں جو خود اپنے آپ کو اپنی داستان سنا رہے ہیں۔ ہر جگہ ایسے ہی کھنڈر بکھرے پڑے ہیں جہاں داستانیں سنائی جا رہی ہیں۔ پوری داستان یاد نہیں رہی ہے۔ جو حصہ یاد آ جاتا ہے وہیں سے قصہ شروع ہو جاتا ہے۔ اصل سرا ہاتھ سے چھوٹ کر کہیں کھو گیا ہے۔
تبھی ایک کھنڈر نے اپنا سر سینے سے اٹھایا اور بولا، ’’میاں نے چلتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ آج نہر پر زیادہ دیر نہ کرنا۔ اب حامد سے پوچھ لیں کہ اس نے پرسوں شیشم کے درختوں کے بیچ کیا دیکھا تھا؟‘‘
غلام ماموں کی آواز سُن کر جیسے ہم لوگ جاگ پڑے اور ہم سب کو ایسا محسوس ہوا جیسے ہم سب ایک ساتھ الگ ہوئے تھے اور برسوں کا سفر طے کر کے، کوسوں کی مسافت کے بعد ابھی ابھی واپس آئے ہیں۔ مجھے لگا جیسے اس پورے عرصے میں ہم لوگ ایک دوسرے سے بالکل اجنبی ہو گئے تھے اور سارے لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو کر علاحدہ علاحدہ آسیب زدہ اور خاموش جزیروں میں بیٹھے ہوئے، اپنے سینے پر لکھی ہوئی وہ دھندلی تحریر پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے جس میں جزیرے سے باہر نکلنے کا راستہ لکھا تھا۔
دھوپ اب زرد ہو گئی تھی اور بہت دور کے کھیت، دھُند میں آہستہ آہستہ گم ہو رہے تھے۔ بڑی فاختہ خاموش ہو چکی تھی۔ نہر دھیمے دھیمے بہتی چلی جا رہی تھی اور ہمیشہ کی طرح شام ہونے پر اور زیادہ گہری محسوس ہونے لگی تھی۔ اور سردیوں کی اس خاموش اور اجنبی شام میں ہم سب لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا وہ لڑکا، ہم سب کو باری باری غور سے دیکھ رہا تھا۔
جس وقت اس نے اپنی زبان سے پہلا لفظ کہنا چاہا، اس وقت میں نے ہی نہیں، ہم سب نے محسوس کیا کہ وہ اَن جان لمحہ آ گیا جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ ہم سب جو اَب اپنی اپنی واردات سے واقف تھے، ایک دوسرے سے خود کو منسلک بھی سمجھ رہے تھے اور جدا بھی۔ اس بے نام کیفیت میں معلوم نہیں کیوں، ہم سب نے خود کو مجرم محسوس کیا۔
حامد نے تمام سہمے ہوئے چہروں کو ایک بار پھر غور سے دیکھا تو غلام ماموں نے کہا، ’’آج میاں نے صبح ہی صبح اسے گھر سے بلا کر اس پر دعا دم کی اور اس سے پوچھا کہ اس نے کیا دیکھا تھا؟ حامد نے جب اپنا دیکھا میاں کو سنایا تو وہ بہت روئے اور جب یہ ان کے روئے سے گھبرا کر خود بھی رونے لگا تو میاں نے اس کے آنسو پونچھ کر اس سے کہا، تو ابھی بہت کم عمر ہے۔ تُو نے ابھی کھویا ہی کیا ہے کہ تجھے صبر کی تلقین کروں۔ بس اللہ تجھے توفیق دے کہ تُو اپنے بڑوں کا قرض ادا کر سکے اور اس کے دکھ برداشت کر سکے۔ اللہ تجھے ہمّت دے اور پُر امید رکھے۔ پھر میاں نے حامد سے کہا کہ آج تُو نہر پر سب کے ساتھ جائے گا۔ کوئی اپنا منظر نہیں بتائے گا، میں غلام کو منع کر چکا ہوں۔ لیکن تجھے تو بتانا ہو گا۔ تجھے تو بتانا ہو گا میرے پُوت!‘‘
اسی وقت ہوا کسی درخت کی ٹہنیوں سے الجھ کر نکلی اور ہم لوگوں کے سروں پر ناچنے لگی اور ہم نے خود کو بہت کم زور محسوس کیا۔
تبھی حامد نے دھیمے دھیمے کہنا شروع کیا، اور جب وہ اپنا منظر بیان کر کے خاموش ہوا، ہم سب کی پتھرائی ہوئی، ساکت پُتلیاں اس کا چہرہ تک رہی تھیں اور وہ بے رحم نظروں سے ہماری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
غلام ماموں پسینے سے تر ہو گئے تھے۔ ہم لوگوں کی بھیگی ہوئی پیشانیوں کو دیکھ کر انھوں نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور بہت تھلی ہوئی آواز میں کہا۔
’’یہ پورا منظر بیان کر کے حامد نے میاں سے پوچھا تھا کہ یہ سب کس نے کیا ہے تو۔۔۔ تو میاں نے اسے بتا دیا کہ یہ کس کا کام ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غلام ماموں نے اپنا سر نیچے ڈال لیا۔ ہم سب نے بھی خاموشی کے ساتھ اپنے سر جھکا لےو کہ اور چارہ بھی کیا تھا۔
’’شام ہو رہی ہے۔ گھر واپس چلو!‘‘ غلام ماموں کی آواز بہت شکستہ تھی اور واپسی میں ابھی قصبہ دور تھا کہ سورج ڈوبنے لگا۔ سڑک کے دونوں طرف کے درختوں نے راستے کو مزید دھندلا کر دیا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کے قریب قریب چل رہے تھے کہ اچانک کوئی سیار زور سے رویا اور ہمیں آسمان کے نچلے کنارے پر، شروع تاریخوں کا مہین، اجنبی چاند نظر آیا اور اسی وقت ہم نے دیکھا کہ خلافِ معمول آج حامد نے غلام ماموں سے بندوق لے کر اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ معاً ہمیں خیال آیا کہ حامد نے ابھی بندوق چلانا سیکھا ہی نہیں ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہم سب کو ایسا اطمینان محسوس ہوا جیسے دل بھر کے رونے کے بعد ابھی خاموش ہوئے ہوں۔ ہم سب نے چور نگاہوں سے حامد کی طرف دیکھا جس نے تھوڑی دیر پہلے نہر کی پٹری پر اپنا منظر بیان کرتے وقت کہا تھا، ’’پرسوں جب چاند نہیں دِکھا اور جمال بھائی نے کہا کہ چاند تیسا تھا، نہ بھی نظر آئے تو کیا فرق پڑے گا تو بس یہی سن کر مجھے امی کی بات یاد آئی کہ عید آئے تو کیا فرق پڑے گا تو بس یہی سن کر مجھے امی کی بات یاد آئی کہ عید تو بچوں کے لئے ہوتی ہے اور چاند نکلتے ہی شروع ہو جاتی ہے تو میں نے سوچا کہ چاند ہی نہیں تو عید کیسے شروع ہو پائے گی۔ بس اسی وقت سامنے والے دو درختوں کے بیچ مجھے ایک گھر سا بنا ہوا دکھائی دیا اور اس گھر سے میں نے اپنے آپ کو نکلتے دیکھا۔ میری دونوں آنکھوں پھوٹی ہوئی تھیں اور کان بند تھے اور زبان کٹی ہوئی تھی۔ میں پھر ٹھوکریں کھاتا ہوا آگے بڑھا کہ وہ لڑکا باہر نکلا۔ اس بار، معلوم ہے، کون تھا؟ اس بار بھی میں ہی تھا اور میری دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی تھیں اور کان بند تھے اور زبان کٹی ہوئی تھی۔
’’اس گھر سے مسلسل میں ہی باہر نکل رہا تھا اور ٹھوکریں کھاتا ٹٹولتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
’’اُسی وقت میں نے آپ سب کو جلدی سے دکھایا تھا کہ وہ سامنے کیا ہے، شیشم کے نیچے۔ آپ سب لوگ دیکھنے میں لگ گئے اور کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ سامنے اس گھر میں سے جو لڑکے باہر آ رہے تھے، ان کی صورت میری جیسی کیوں ہے اور میری آنکھیں کس نے پھوڑی ہیں، میرے کان کس نے بند کیے ہیں، میری زبان کس نے کاٹ ڈالی ہے؟ لیکن اب۔۔۔ میاں مجھے بتا چکے ہیں۔‘‘
چلتے میں حامد نے تیز نظروں سے ہم سب کو باری باری دیکھا جیسے کچھ پوچھنا چاہتا ہو لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس حالت میں نہیں تھا کہ اسے جواب دے سکے۔
تو جب قریب کے درختوں کی پرچھائیوں نے دور کے درختوں کی پرچھائیوں کو کاٹا اور اس عالم میں ہم لوگوں کے لمبے لمبے سائے، دھند میں ڈوبی نیم تاریک بستی میں داخل ہوئے تو ہم مجبور لوگوں نے بہت بے بسی کے ساتھ، بے حد واضح طریقے سے محسوس کیا کہ اب ہم سب کے سب اس اناڑی بندوق والے کی رہ نمائی میں پیچھے پیچھے چل رہے ہیں جس کی دونوں آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔
٭٭
ادب ساز، دہلی، شمارہ ۱، اپریل تا جون ۲۰۰۶ء، مدیر: نصرت ظہیر
٭٭٭