زندگی خاک نہ تھی خاک اُڑاتے گُزری
تجھ سے کیا کہتے تِرے پاس جو آتے گُزری
دن جو گُذرا، تو کسی یاد کی رَو میں گُذرا
شام آئی، تو کوئی خواب دِکھا تے گُزری
اچھے وقتوں کی تمنّا میں رہی عُمرِ رَواں
وقت ایساتھا کہ بس ناز اُٹھاتے گُزری
زندگی جس کے مُقدّر میں ہو خوشیاں تیری!
اُس کو آتا ہے نِبھانا، سو نِبھاتے گُزری
زندگی، نام اُدھر ہے کسی سرشاری کا
اور اِدھر، دُور سے اک آس لگاتے گُزری
رات کیا آئی، کہ تنہائی کی سرگوشی میں!
ہُو کا عالم تھا مگر سُنتے سناتے گُزری
بار ہا چونک سی جاتی ہے مسافت دِل کی
کِس کی آواز تھی یہ کِس کو بُلاتے گُزری
یادش بخیر، شام دلآویز ہے بہت
دل بھی تپاں ہے، آنکھ بھی لبریز ہے بہت
ایسا تو ہو کہ بزم طرب ماجرا نہ ہو
غم کے لیے نشاط بھی مہمیز ہے بہت
احوال واقعئ کو تکلم ہے کیا ضرور
اپنا سکوت ہی خبر آمیز ہے بہت
سر پر ہے، اک پہاڑ سی تنہائیوں کی رات
اور شام سے چراغ کی لو تیز ہے بہت
کیا ہم سے پوچھتے ہو شب و روز خیرگی
مدت ہوئی کہ شہر سے پرہیز ہے بہت
اب کیا سخن کا ذائقہ مذکور ہر نصیرؔ
کٹنے لگی زباں کہ نمک تیز ہے بہت
٭٭٭
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی
٭٭٭
محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے
یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے
سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا
ترے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے
دمشق عشق میں دیوار و در کی حسرت کیا
مسافروں کو تو رہنا ہی گرد راہ میں ہے
تمام راستے جاتے ہیں ایک منزل تک
کہیں گئے بھی تو آنا اسی کی راہ میں ہے
وہ شہ سوار مری روشنیِ جاں ہے، نصیرؔ
نہ جو سپاہ سے باہر نہ جو سپاہ میں ہے
٭٭٭
شہر میں کس سے سخن رکھیئے، کدھر کو چلیئے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیئے
اتنا بے حال بھی ہونا کوئی اچھا تو نہیں
اب وہ کس حال میں ہے اس کی خبر کو چلیئے
یاں جو نقشِ کفِ پا ہے سو بساطِ جاں ہے
اک ذرا دیکھ کے اس راہ گزر کو چلیئے
دل بھی شعلے کی طرح اپنی ہوا میں گُم ہے
رقص کرتے ہوئے اک بار ادھر کو چلیئے
در و دیوار سے راتوں کو صدا آتی ہے
صبح سے پہلے کسی اور نگر کو چلیئے
مصلحت حلقہ کُناں رہتی ہے اُس کے اطراف
کس توقع پہ وہاں اپنی بَسر کو چلیئے
پھر کسی نام کی اک شام سرِ بام آئی
دل کی یہ ضد ہے کہ بس ایک نظر کو چلیئے
ہر طرف ایک سا عالم ہے جہاں بھی رُکیے
ہر طرف ایک سی گردش ہے جدھر کو چلیئے
دل سرائے میں دیا شام کو جلتے ہیں نصیرؔ
کوئی کہتا ہے کہیں سیر و سفر کو چلیئے
٭٭٭