وہ بستیاں، وہ بام، وہ در کتنی دور ہیں
مہتاب، تیرے چاند نگر کتنی دور ہیں
وہ خواب جو غبار گماں میں نظر نہ آئے
وہ خواب تجھ سے دیدۂ تر کتنی دور ہے
بام خیال یار سے اترے تو یہ کھلا
ہم سے ہمارے سشام وسحر کتنی دور ہیں
اے آسمان ان کو جہاں ہونا چاہئیے
اس خاک سے یہ خاک بسر کتنی دور ہیں
بیٹھے بٹھائے دل کے سفر پر نکل تو آئے
لیکن وہ مہربان سفر کتنی دور ہیں
یہ بھی غزل تمام ہوئی، شام ہو چکی
افسون شاعری کے ہنر کتنی دور ہیں
٭٭٭
مطلب کے لئے ہیں نہ معانی کے لئے ہیں
یہ شعر طبیعت کی روانی کے لئے ہیں
وہ چشم اگر سحر بیانی کے لئے ہے
یہ لب تو میری تشنہ دہانی کے لئے ہیں
جو میرے شب و روز میں شامل بھی نہیں تھے
کردار وہی میری کہانی کے لئے ہیں
یہ داغ محبت کی نشانی کے علاوہ
یہ عشق تری مرثیہ خوانی کے لئے ہیں
آتی ہے سکوت سحر و شام کی آواز
دراصل تو ہم نقل مکانی کے لئے ہیں
جو رنگ گل و لالہ ونسریں سے تھے منسوب
وہ رنگ اب آشفتہ بیانی کے لئے ہیں
٭٭٭
آج کل، نئی دہلی، دسمبر ۲۰۰۷ء، مدیر: خورشید اکرم
ایک طوفان کا سامان بنی ہے کوئی چیز
ایسا لگتا ہے کہیں چھوٹ گئی ہے کوئی چیز
سب کو اک ساتھ بہائے لئے جاتا ہے یہ سیل
وہ تلاطم ہے کہ اچھی نہ بری ہے کوئی چیز
ایک میں کیا کہ مہ و سال اڑے جاتے ہیں
اے ہوا! تجھ کو زمانے میں بچی ہے کوئی چیز
عشق نے خود رخ گلنار کو بخشا ہے فروغ
ورنہ کب اپنے بنائے سے بنی ہے کوئی چیز
یعنی زخموں کے گلستاں پہ بہار آئی کبھی
یعنی میری بھی یہ آشفتہ سری ہے کوئی چیز
شاعری کیا ہے مجھے بھی نہیں معلوم مگر
لوگ کہتے ہیں کہ یہ دل کی لگی ہے کوئی چیز
٭٭
شعر و حکمت، کتاب ۹، ۲۰۰۶ء، مدیر: اختر جہاں، مرتبین: شہریار، مغنی تبسم
٭٭٭