غم ہزاروں دِلِ حزیں تنہا
بوجھ کتنے ہیں اور زمیں تنہا
بس گئے یار شہر میں جا کر
رہ گئے دشت میں ہمیں تنہا
اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے
آدمی ہو اگر کہیں تنہا
تیری یادوں کا اِک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
وہ کسی بزم میں نہ آئے گا
گوشۂ دل کا وہ مکیں تنہا
کار و بارِ حیات کا حاصل
ایک عشرت ہی تو نہیں تنہا
دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
ہے عبث سجدۂ جبیں تنہا
میرے مولا! کبھی تو اِس دل میں
ہو ترا خوف جاگزیں تنہا
میرا سامانِ آخرت مولا
چشمِ نادِم کا اِک نگیں تنہا
٭
۱۹؍ اگست ۱۹۸۵ء
٭٭٭
ہم کو آتا ہے پیار کر لینا
آزمائش بھی یار کر لینا
پھر کبھی ذکرِ یار کر لینا
شکوۂ روزگار کر لینا
اک نظر دیکھ لیجئے پہلے
بھر نگاہوں کے وار کر لینا
ایک مسکان کا فریب تو دے
نفرتیں بھی ہزار کر لینا
کس قدر سادگی سے وہ بولے
ہاں، ذرا انتظار کر لینا
ہائے کتنے فریب دیتا ہے
عادتاً اعتبار کر لینا
اک ذرا دوستوں کو جانے دو
زخم دل کے شمار کر لینا
کتنا مہنگا پڑا ہے آسیؔ جی
عقل پر انحصار کر لینا
٭
۲۱؍ جولائی ۱۹۸۵ء
٭٭٭
ابتر کاٹی ہیں راتیں
سو کر کاٹی ہیں راتیں
ریشہ ریشہ سپنوں کا
بن کر کاٹی ہیں راتیں
بیٹھے بیٹھے آنکھوں میں
اکثر کاٹی ہیں راتیں
سنتے ہیں کہ اس نے بھی
رو کر کاٹی ہیں راتیں
رکھ کر سینے پر ہم نے
پتھر کاٹی ہیں راتیں
شانت پور کے لوگوں نے
ڈر ڈر کاٹی ہیں راتیں
تم نے بھی تو آسیؔ جی
مر مر کاٹی ہیں راتیں
٭
۲۲؍ ستمبر ۱۹۸۵ء
٭٭٭
کیا کہا؟ وہ مری تلاش میں ہے؟
وہ کسی اور کی تلاش میں ہے!
کوئی دل؟ جو کہ اس کے لائق ہو!
درد کی تازگی تلاش میں ہے
ہو نہ جائے مری سماعت گم
تیری آواز کی تلاش میں ہے
فکر گوشہ نشین ہو بیٹھی
شوقِ آوارگی تلاش میں ہے
کون جانے کہیں ملے، نہ ملے
وہ جو خود بھی مری تلاش میں ہے
اک سکوں سا بڑے دنوں سے ہے
سانحہ کیا کوئی تلاش میں ہے؟
وہ جو لوہو میں ہے رواں کب سے
درد ہے آہ کی تلاش میں ہے
صبح دم آج پھر صدا آئی
کوئی ہے؟ جو مری تلاش میں ہے
میری پہچان کھو گئی ہے کہیں
میری بے چہرگی تلاش میں ہے
٭٭٭
(ماخذ: لفظ کھو جائیں گے)