خواب سے سانجھ تک ۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ

 

کچی اینٹوں اور گارے سے بنی چوڑی چوڑی دیواروں والے بغیر پھاٹک کے کھلے کھلے بڑے بڑے احاطے کے اندر چار چار پانچ پانچ گھروں کے کچے کوٹھے اور کچے صحن، گرد سے اٹی کھلی کھلی گلیاں اور سڑکیں، دور تک بکھرے درخت اور کھیت، اور ان سب کے اوپر لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے آسمان کی چھت!! فضا پر بالعموم خاموشی کا راج ہوتا۔ یہ خاموشی منہ اندھیرے مرغے کی بانگ اور اللہ اکبر کے سرمدی نغمے سے ٹوٹتی تو کئی مکالموں کا آغاز ہو جاتا، بھینسوں، گایوں اور بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ اور بیل گاڑیوں کی کھڑکھڑاہٹ تو گلیوں سے نکل کر کھیتوں میں گم ہو جاتی۔ لیکن چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ننھے بچوں کا شور صبح دم زندگی سے آشنائی کا اعلان کر دیتا۔ کچھ ہی دیر بعد سرمئی اور سفید دھوئیں کی لکیریں کچے گھروں کے صحنوں سے اٹھ کر فضا میں لہرئیے بناتیں اور تحلیل ہو جاتیں۔ سورج ذرا اوپر اٹھتا تو کتنی ہی الھڑ مٹیاریں ناشتے کی اشیاء سروں پر رکھے اپنے دوپٹوں کے لہرئیے بناتی اورسراپاؤں سے بجلیاں جگاتی مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی کھیتوں میں گم ہو جاتیں۔ بڑے بوڑھوں کا تو پتہ نہیں، لڑکے بالے بجلی کی صرف ایک ہی صورت سے واقف تھے، جو بادلوں میں چمک جایا کرتی اور پھر کبھی کڑکڑاہٹ اور کبھی گڑگڑاہٹ سنائی دے جاتی۔ بارش سے گلی کوچوں کی دھول کیچڑ اور گاد میں بدل جاتی اور فضا شفاف ہو جاتی۔

مگھر پوہ کی ایسی ہی صبح تھی، صاف شفاف، بارش سے دھلی ہوئی! پہر بھر دن گزرنے پر بھی خنکی غالب تھی۔ ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک دمکتے چہرے والا بوڑھا کھلے احاطے میں بچھی چارپائی پر نیم دراز تھا۔ سفید ململ کے صافے ڈھکے سر میں اس کے بالوں، ہلکی پھلکی داڑھی اور باریک تراشی ہوئی مونچھوں کی سفیدی بھی شامل ہو رہی تھی۔ پائنتی کی طرف بیٹھا بارہ تیرہ برس کا لڑکا آنکھوں میں صدیوں کے خواب سجائے بوڑھے باپ کے پاؤں داب رہا تھا۔ بوڑھے کا مہینوں کا بیمار جسم یک دم یوں لرز اٹھا جیسے بھونچال آ گیا ہو۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ اس کے منہ سے اوغ کی آواز نکلی اور کوئی سیر بھر لہو قے کی صورت میں کچھ اس کے سفید لباس پر، کچھ چارپائی پر اور کچھ زمین پر بکھر گیا۔ بچہ پریشان ہو کر اندر کو بھاگ گیا۔ ایک نحیف بڑھیا اپنے کانپتے وجود کو سنبھالتی ہوئی آئی۔ بوڑھے نے ہاتھ سے ’سب ٹھیک ہے‘ کا اشارہ دیا۔ بڑھیا نے لڑکے کے کان میں کچھ کہا اور وہ تیزی سے احاطے سے باہر نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں بڑھیا نے اپنے رفیقِ حیات کا منہ ہاتھ دھلا کر کپڑے تبدیل کرا دئے اور اندر چلی گئی۔ وہ دودھ سے بھرا پیالہ لے کر آئی تو بوڑھا اپنے زردی کھنڈے چہرے پر دنیا جہان کی آسائشیں سجائے آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔ ’یہ دودھ پی لے یعقوب کے ابا!‘۔۔۔ کوئی جواب نہ پا کر اُس نے بوڑھے کے بازو کو پکڑ کر ہلایا تو جیسے زمین ہل گئی۔ پہلے تو اس کے ہاتھ سے پیالہ گرا اور پھر وہ خود بھی چارپائی کے پاس ڈھے گئی۔ کوئی ایک پہر دن باقی ہو گا جب بوڑھا منوں مٹی تلے جا چکا تھا، یعقوب کے سارے خوابوں سمیت!

یہ کہانی کی ابتدا ہے، صاحبو! کون جانے؟ یہی ناآسودہ خواب ہوں اور اظہار کو ترس رہے ہوں اور لفظ سے میرے تعلق کا سبب بنے ہوں۔ ایک تھا بادشاہ، اس کے سات بیٹے تھے۔۔۔ ایک تھا بادشاہ، اس کی سات ملکائیں تھیں، ہر ایک سے ایک ایک لڑکی تھی۔۔۔ ایسے جملوں سے شروع ہونے والی داستانیں بڑے بوڑھوں میں بہت مقبول تھیں۔ ہر داستان میں کبھی ایک اور کبھی زیادہ اخلاقی درس ہوتے۔ سردیوں کی طویل اور گرمیوں کی مختصر راتوں میں کسی زمیندار کے ڈیرے پر محفل جمتی۔ ایک شخص داستان شروع کرتا: ایک تھا فقیر، وہ بستی سے دور جنگل میں ایک کٹیا میں رہتا تھا۔۔۔۔۔ اور پھر رات گزر جاتی داستان جاری ہوتی۔ اگلی رات جہاں پر بات رکی تھی، وہاں سے آگے چلتی اور یوں کئی ہفتوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ میں کہانی کی ایسی محفلوں میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا اور ہر کہانی کو اس قدر توجہ سے سنتا جیسے وہ میرا سکول کا سبق رہا ہو۔

والدہ مرحومہ رسمی تعلیم کے لحاظ سے تو اَن پڑھ تھیں تاہم قرآن مجید کے علاوہ چیدہ چیدہ دینی کتابیں جو عموماً پنجابی شاعری تھی خواتین کی محفلوں میں پڑھا کرتی تھیں۔ میں پہلے پہل تو والدہ کے پاس بیٹھ کر انہیں سنا کرتا اور کرتے کرتے ان کتابوں کو روانی سے پڑھنے لگا۔ لفظ کے ساتھ میرا تعلق شاید اُن داستانوں کی بدولت قائم ہوا اور شعر کا چسکا اُن دینی کتابوں کی برکت سے پڑا۔ مجھے شعر کو درست پڑھناآ گیا تھا۔ سو میرے مہربان استاد نے مجھے سکول کی بزم ادب میں شامل کر لیا۔ پھر تو ہر جمعے کو بزمِ ادب کے اجلاس کی نظامت مجھے کرنا پڑتی اور ہیڈماسٹر صاحب صدرِ بزم ہوتے۔ یہ سلسلہ ہائی سکول سے میری فراغت تک جاری رہا۔ ۱۹۶۷ء میں جب میں دسویں جماعت میں تھا، لفظ اور مصرعے سیدھے کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری میں ہی دو روٹی کے باٹوں میں پسنے لگیں۔

میرے بڑے بھائی فوج میں ہوا کرتے تھے، وہ ڈھاکہ میں تعینات تھے جب اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ بلند ہوا، جو بالآخر دھرتی ماں کے سینے کو دولخت کر گیا۔ ۱۹۷۱ء میں جس رات سقوطِ ڈھاکہ کا کرب انگیز سانحہ پیش آیا، وہ رات میں نے کیسے گزاری، بیان کرنا مشکل ہے۔ تاہم وہی رات مہمیز کا کام کر گئی اور ۱۹۷۲ء میں اسی تناظر میں میری ایک نظم اور چند کہانیاں اس وقت کے معروف پنجابی ماہانہ پرچے ’’پنجابی زبان‘‘ میں (جس کی ادارت ڈاکٹر رشید انور کرتے تھے) شائع ہوئیں۔ نانِ جویں کا غم فکر سخن پر غالب رہا تاہم وہ مہمیز جو سقوطِ ڈھاکہ کا تحفہ تھی اپنا کام دکھا گئی اور میں خود کو ادیب اور شاعر سمجھنے لگا۔ دن پھر چکی کی سی مشقت ہوتی اور رات سوچوں کے پاٹوں بیچ کٹتی۔ سرِنوکِ خیال جو کچھ بھی آ جاتا میں لکھ کر رکھ لیتا اور بس! تب سے حلقہ تخلیقِ ادب میں شمولیت(غالباً اکتوبر ۱۹۸۴ء) تک تقریباً خاموشی کا زمانہ گزارا۔

بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے میں اس کشٹ کا عینی گواہ ہوں جو والدہ نے ابا کی وفات کے بعد کاٹا تھا۔ میرے بڑے بھائی اور بہن کی شادیاں کیں، میرے تعلیمی اخراجات کے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر لوگوں کا سوت کاتا، کپڑے سیئے اور جو کچھ اُن سے بن پڑا کرتی رہیں۔ ۱۹۷۲ء میں ان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ تو انہیں ایک اور فکر لاحق ہو گئی۔ کل میں نہ رہی تو یہ بچہ بہنوں اور بھابی کے رحم و کرم پر ہو گا!؟ رزق کا وعدہ تو اللہ نے کر رکھا ہے، اگر آج کچھ تنگی ہے تو کیا، کون جانے آنے والی کے نصیب اچھے ہوں! اپنی رشتے کی ایک بھتیجی تلاش کر لی اور میری بے روزگاری کے عین شباب میں میرا بیاہ کر دیا۔ یہ جولائی ۱۹۷۳ء کی بات ہے۔

مئی ۱۹۷۴ء میں اللہ نے مجھے ایک بیٹی کا باپ بنا دیا اور لطف کی بات، کہ اسی ماہ مجھے ایک سرکاری محکمے میں کلرک کی باقاعدہ ملازمت مل گئی۔ دو سال بعد میرے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی اور ساتھ ہی میں کلرک سے اسٹینو بن گیا۔ والدہ کی دعائیں بارور ہو چکی تھیں! ان کی دنیاوی ذمہ داریاں شاید پوری ہو گئی تھیں، اللہ نے اُن کو بھی بلا بھیجا۔ میں ساہی وال شہر میں رہا کرتا تھا اور عائشہ گاؤں میں میری والدہ کے پاس ہوتی تھی۔ جب والدہ نہ رہیں تو میں نے ساہی وال میں کرائے کا ایک چھوٹا سا مکان ڈھونڈا اور بیوی اور بچیوں کو وہاں لے گیا۔ یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ جو عارضی طور پر ساہی وال میں قائم ہوا تھا، فروری ۱۹۷۸ء میں اپنے مستقل کیمپس ٹیکسلا میں منتقل ہو گیا۔ اور میں بھی اپنے چھوٹے سے کنبے سمیت اس شہرِ سنگ و آہن میں آن بسا۔ اس کے بعد جوں جوں میرا کنبہ بڑا ہوتا گیا، مالی حالات بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔ جونیئر سے سینئر سٹینوگرافر، پھر ایڈمن آفیسر، پھر اسسٹنٹ رجسٹرار، اور ڈپٹی کنٹرولر امتحانات۔ تیس برس تک جامعہ ہندسیہ سے وابستہ رہ کر سبک دوش ہونے کا فیصلہ کر لیا (۲۰۰۸ء میری فراغت کا پہلا سال ہے)۔ یہ الگ بات کہ اس طویل دوڑ میں سارے بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدل چکی ہے۔ یہ تو زندگی کے رنگ ہیں نا! تارَ حریرِ دو رنگ۔ اور انہی رنگوں سے روز و شب سجا کرتے ہیں۔

دنیائے حرف و معنی میں میری شناخت کا پہلا اور آخری حوالہ ٹیکسلا ہے۔ یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے جب میں اختر شادؔ سے پہلی بار متعارف ہوا۔ اُس وقت میرا اور اس کا سانجھا غم نانِ جویں کا غم تھا۔ چند مہینے بعد اختر شاد یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑ گئے اور میرا ان سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ اختر شادؔ شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں، یہ بات تو کوئی چھ سال بعد کھلی جب مقبول کاوشؔ مرحوم نے حدید و حجر کی اس وادی میں حرف و معنی کا وہ کومل پودا کاشت کیا جسے آج ہم حلقہ تخلیقِ ادب کے نام سے جانتے ہیں۔ حلقہ کی بنیاد ۱۹۸۴ء میں رکھی گئی اور کاوش مرحوم کو صدر مقرر کیا گیا، اختر شادؔ اور ظفری پاشا ان کے دست و بازو قرار پائے۔ میں پہلی بار ۱۹۸۴ء کے اواخر میں حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوا تو اختر شادؔ کو وہاں موجود پا کر مجھے یک گونہ اطمینان ہوا کہ ایک چہرہ تو ایسا نکلا جو پہلے سے جانا پہچانا ہے۔

حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا میں شمولیت نے مجھے اعتماد اور حوصلہ بخشا، اپنے جیسوں سے شناسائی ہوئی۔ حرف اور معنی کا احساس سے جو تعلق بچپن سے موجود تھا، وہ مضبوط ہوا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا، جب یعقوب آسیؔ کی شناخت کا اولین حوالہ یہی تعلق ٹھہرا۔ اگست ۱۹۸۶ء میں کچھ دوستوں کو تیار کیا کہ یونیورسٹی کے اندر بھی ادبی مجالس کا اہتمام کیا جائے۔ یوں ستمبر ۱۹۸۵ء میں ’’ادب قبیلہ‘‘ کے پہلے باقاعدہ اجلاس تک بات پہونچی۔ فروری ۱۹۸۶ء میں اختر شادؔ کی تجویز پر اس ادارے (ادب قبیلہ) کا نام بدل کر ’’دیارِ ادب‘‘ رکھا گیا۔ ’’دیارِ ادب‘‘ کم و بیش اڑھائی سال تک سرگرمِ عمل رہنے کے بعد حلقہ تخلیقِ ادب میں ضم ہو گیا۔ اس دوران اجلاسوں کی نظامت اور ریکارڈ کی دیکھ بھال میرے ذمے رہی۔ اپریل ۱۹۸۸ء میں رمضان المبارک کی ایک شام، حلقہ کے بانی صدر مقبول کاوشؔ مرحوم کے گھر پر دونوں تنظیموں کا انضمامی اجلاس ہوا، تب سے ۱۹۹۸ء تک حلقہ کے جنرل سکرٹری کی ذمہ داریاں زیادہ تر مجھ پر رہیں۔

مقبول کاوشؔ مرحوم ٹیکسلا سے لاہور چلے گئے تو ان کے بعد اختر شادؔ اور وسیم کشفیؔ کچھ عرصے تک حلقہ کی صدارت کا بوجھ اٹھائے رہے۔ اِن دونوں نے بھی ٹیکسلا کو خیرباد کہا تو یہ ذمہ داری ظفری پاشا اور وحید ناشادؔ باری باری اٹھاتے رہے۔ اور پھر مئی ۱۹۹۸ء میں مجھے بھی یہ بارِ گراں اٹھانا پڑا۔ اس عرصے میں مجھ سے حلقہ کی تنظیم اور کارکردگی میں ہر روز پہلے سے بہتر لانے میں جو کچھ بن پڑا، کرتا رہا۔ اکتوبر ۱۹۹۵ء میں (تاسیس کے ساڑھے گیارہ سال بعد) حلقہ کا تحریری آئین منظور ہوا، جس کا مسودہ تیار کرنے کا اعزاز بہر حال مجھے حاصل ہے۔

۱۹۸۸ء کے اوائل میں عروض کے مطالعے اور تجزیے کی طرف میلان ہوا، جس نے جون ۱۹۸۹ء تک ایک کتاب کے مسودے کی صورت اختیار کر لی۔ اگست ۱۹۹۳ء میں دوست ایسوسی ایٹس، لاہور کے زیرِ اہتمام یہ مسودہ ’’فاعلات‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے پذیرائی کا مستحق ٹھہرا۔ دسمبر ۱۹۹۵ء میں اختر شادؔ نے احساس دلایا کہ اب شعری مجموعہ بھی شائع ہو جانا چاہئے، سو اس کے لئے اپنی شعری کاوشوں کی چھان پھٹک شروع کر دی، اور ایک طویل عرصے تک اپنے لکھے ہوئے حروف کے لئے مجوزہ نام ’’حرفِ اَلِف‘‘ کے ساتھ رد و قبول کے دو راہے پر کھڑا رہا۔ ’’فاعلات‘‘ کی طرف میرا پہلا قدم بھی اختر شادؔ کی تحریک کا نتیجہ تھا!۔

پہلا قدم اٹھ جائے، سفر ایک بار شروع ہو جائے تو پھر بات بدل جایا کرتی ہے۔ اپنے قابلِ قبول مصرعوں کی تلاش شروع ہوئی تو کئی کام نکل آئے۔ ’’فاعلات‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں بہت سی فنی اور تیکنیکی خامیاں رہ گئی تھیں، سوچا انہیں ٹھیک کر لیا جائے۔ ادھر چلا تو عروض کے کئی نئے سوالوں سے سابقہ پڑا، اور ’’فاعلات‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ’’حرفِ اَلِف‘‘ کو وہیں چھوڑا، اور ’’فاعلات‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کا مسودہ ترتیب دیا۔ مئی ۱۹۹۸ء میں حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کی صدارت پھر مجھ پر ڈالی گئی۔ اسی ماہ حلقہ کا ماہانہ خبرنامہ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا، اس کی ادارت بھی مجھ پر آن پڑی۔ یہ دونوں ذمہ داریاں ایسی تھیں کہ ’’حرفِ الف‘‘ کی اشاعت مؤخّر ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ بیسویں صدی کا آخری سورج غروب ہو گیا۔

میری ادبی تربیت میں اختر شادؔ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ ’فاعلات‘ مجھ سے اختر شادؔ ہی نے لکھوائی، ورنہ مجھ میں شاید اتنی جرأت نہ تھی۔ حلقہ کی انتظامی اور ادبی سرگرمیوں میں اختر شادؔ کا بہت بڑا حصہ رہا ہے اور اُن کے توسط سے کچھ نہ کچھ میرا بھی۔ مجھ میں اور اختر شادؔ میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں جن کا ذکر مختلف حوالوں سے آتا رہا ہے اور آتا رہے گا۔ اختر شادؔ ایچ ایم سی میں ہوتے تھے، میں یونیورسٹی میں اور صدیق ثانیؔ ایک قریبی گاؤں میر پور میں۔ حلقے کے اجلاسوں کے علاوہ بھی ہم تینوں کی لمبی لمبی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں، کبھی کسی ایک کے گھر میں اور کبھی میر پور، یونیورسٹی اور ایچ ایم سی کو ملانے والی پگڈنڈیوں پر۔ چند مہینوں بعد شہزاد عادلؔ اور طارق بصیرؔ بھی حرف کے اس کارواں سے آن ملے۔ روز بروز تیز سے تیز تر ہوتی زندگی کے بہاؤ نے اختر شادؔ اور صدیق ثانیؔ کو ٹیکسلا سے نکال کر راولپنڈی میں ڈال دیا تو یہ دونوں یعنی شہزاد عادلؔ اور طارق بصیرؔ میرے محفلوں کے ساتھی ٹھہرے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان پانچ لوگوں میں سے کسی ایک کا نام آ جائے تو باقی کے چار نام از خود آ جاتے ہیں۔ پھر ان کے تسلسل میں کتنے ہی نام آتے ہیں جن میں ہر ایک نام کے ساتھ کوئی خصوصیت وابستہ ہوتی ہے۔ اجمل خان اور احمد فاروق کا اپنا ایک مقام اور مرتبہ ہے، تفصیل کا موقع نہیں۔ چیدہ چیدہ نام اور ان کی یادیں تازہ کرتا چلوں: وسیم کشفی، ظفری پاشا، وحید ناشادؔ، امجد شہزاد، پاشا رازؔ، غفور شاہ قاسم، سلمان باسط، عثمان خاور، رؤف امیر، ایوب اختر، ابوذر، نثار ترابی، رفعت اقبال، عصمت حنیف، شمشیر حیدر، اظہر نقوی، طفیل کمالزئی، اکمل ارتقائی، حسن ناصر، احمد جمیل، بشیر آذر، شکیل اختر، نثار ترابی، شعیب آفریدی، وحید قریشی، افسر رشیدی، احمد حسین مجاہد، شبیہ رضوی، احمد ہاشمی، سفیان صفی، مشتاق آثم، راکب راجا، نوشیروان عادل، نوشاد منصف، سعید دوشی، عارف سیمابی، میثم بخاری، شمشیر حیدر، شہاب عالم، طالب انصاری، اختر عثمان، شہباز احمد، حفیظ اللہ بادل کے علاوہ بہت سے دیگر احباب اور واہ کے صنعتی ماحول میں بوڑھے برگد جیسا مہربان بزرگ شاعر سید علی مطہر اشعرؔجسے احباب بجا طور پر حرف و قلم کی آبرو کہا کرتے ہیں۔

اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت سی تیز رفتار تبدیلیاں لے کر آئی۔ یہاں قریبی شہر حسن ابدال میں ایف ایم ۹۷ کے نام سے ایک نجی ریڈیو سٹیشن قائم ہوا، ادب اور معاشرتی تعلقات کا شعبہ معروف شاعر سید آلِ عمران کے کندھوں پر ڈالا گیا۔ ان کی کوششوں سے مقامی ادبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے شعراء کی آواز زمین سے اٹھ کر لامحدود فضاؤں میں گونجنے لگی۔ یہ سلسلہ بہت دیر تک نہ چل سکا، آلِ عمران جیسا حساس شخص ایک نجی ریڈیو سٹیشن کی ترجیحات کو نہیں اپنا سکتا تھا۔ تاہم ادیب ہونے کے ناطے اس تھوڑے سے عرصے میں اس نیم دیہی علاقے کے اہل قلم کو آسمان کی وسعتوں سے شناسا کر گیا۔

انہی دنوں نوید صادق نامی ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو احمد فاروق کی تلاش میں مجھ تک آ پہنچا تھا۔ چند ایک ملاقاتوں میں پتہ چلا کہ وہ بہاول پور سے تعلق رکھتا ہے، انجینئر ہے اور شعر بھی کہتا ہے۔ اس کی کتابِ حیات کھلی تو کھلتی چلی گئی اور کھلا کہ وہ سر تا سر لفظوں کا بنا ہوا ہے، مطالعہ بھی رکھتا ہے اور شعور بھی! اور سب سے بڑی بات کہ وہ نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کے آتے ہی حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا میں ایک مثبت ہلچل بپا ہو گئی۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ وہ یہاں پورے دو سال بھی نہیں ٹک سکا۔ یہاں سے لاہور اور وہاں سے ریگزارِ عرب میں جا نکلا۔ حوادث اس کے جلو میں رہا کرتے ہیں یا وہ خود حوادث کے، یہ بات ابھی نہیں کھلی۔ عربستان کے وسیع صحراؤں سے لاہور واپس آیا تو شاید اسے یہ شہر اور اس کی گلیاں تنگ محسوس ہونے لگیں، یا شاید یہ زمین بھی! سو، اُس نے خلاؤں میں ایک ادبی تنظیم کی داغ بیل ڈال دی اور اسے مجلسِ ادب کا نام دیا۔ میں اگست ۲۰۰۵ء کے اواخر میں اس مجلس میں شامل ہوا۔

زمینی اور خلائی ادبی محفلوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ زمینی محفلوں کے شرکاء اپنی پوری شخصیت سمیت آمنے سامنے ہوتے ہیں اور کسی بھی اچھے شعر اور اچھے جملے پر اُن کی بے ساختہ داد و تحسین کا اپنا ایک سماں ہوتا ہے، خلائی محفل میں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ تنقیدی نشست ہی کو لے لیجئے، مباحث اور دلائل کی گرما گرمی اور ناقدین کے چہروں پر دکھائی دینے والے تاثرات اور بات کاٹنے کے مراحل خلا میں کہاں پہنچ پاتے ہیں؟ اب اسے ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے۔ آپ جو جی چاہے لکھ کر نیٹ پر ڈال دیجئے کوئی آپ کو فوری طور پر روک نہیں سکتا، رد عمل بعد کی بات ہے۔ کسی فن پارے پر بحث ہو رہی ہے، آپ پورے اطمینان اور یک سوئی ہے اپنے خیالات اور دلائل ترتیب دیجئے اور بھیج دیجئے۔ اس طرح آپ زمینی نشست میں متوقع کسی مداخلت کے بغیر اپنی بات مکمل کر سکتے ہیں۔ ہاں اس کے لئے وقت چاہئے! جو مکالمہ زمین پر ایک دو ساعتوں میں تکمیل پذیر ہو جاتا ہے اس کو خلائی مجلس میں ایک ڈیڑھ ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ تفاعل اور شراکت کے حوالے سے اور بھی مختلف صورت بنتی ہے۔ یہاں مکالمے میں صرف بالمشافہ شامل ہو سکتے ہیں جب کہ انٹر نیٹ پر آپ کا مکالمہ ایسے لوگوں سے بھی ہو رہا ہوتا ہے جن سے آپ بھلے شناسا بھی نہ ہوں۔

انٹرنیٹ کی بات ہو اور ’’اردو محفل فورم‘‘ اور ’’صریرِ خامۂ وارث‘‘ کا ذکر نہ ہو، کیسے ممکن ہے۔ یہ فورم اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ یہاں وہ مسائل نہیں جن سے فیس بک اور دوسرے پلیٹ فارموں پر واسطہ پڑتا ہے۔ جناب محمد وارث اور ان کی پوری ٹیم داد و تحسین کی بجا طور پر مستحق ہے۔ اس لئے بھی کہ یہاں کچھ نہ کچھ کہنے لکھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔

سال ۲۰۱۰ ء ایک اور پیش رفت کے ساتھ طلوع ہوا۔ انٹرنیٹ پر کسی نے ’’فیس بک‘‘ نامی ویب سائٹ پر شمولیت کی دعوت دے ڈالی اور یوں مجلسِ ادب کی نسبت وسیع تر ’خلاؤں‘ کی پیراکی کا موقع ملا۔ یہاں مجلس ادب کے دوستوں کے علاوہ جن احباب سے مؤثر سلسلہ جنبانی قائم ہوا، اُن میں جناب محمد وارث، جناب عزم بہزاد، جناب مجید اختر، جناب ظفر خان، جناب ظہیر جاوید، محترمہ نسیم سید، جناب نسیم سحر اور بہت سے اہلِ علم و فن کے نام آتے ہیں۔ جناب طارق اقبال بٹ اور جناب مسعود منور کا وجود ہمیشہ میرے لئے یک گونہ اطمینان کا باعث رہا ہے۔ نوید صادق کی پیشہ ورانہ مصروفیت سے زیادہ شاید ان کی آئے روز کی ہجرت ہے، جس نے مجلسِ ادب کو بہت حد تک غیر فعال کر دیا ہے۔ ۲۰۰۹ء کے اواخر میں، نوید کے تتبع میں القرطاس نام کے ایک انٹرنیٹ گروپ کی داغ بیل ڈالی۔

ایک بات ضرور ایسی ہے جسے کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انٹر نیٹ پر میرے، آپ کے مخاطب پورے کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں، اس لئے مجھے آپ کو جو بھی کہنا ہے، پوری ذمہ داری سے کہنا ہے۔ آپ کے کہے پر منحصر ہے کہ آپ عالمی سطح پر قبولیت حاصل کرتے ہیں یا اس کے برعکس ہو جاتا ہے۔ خلائی مجالس میں آپ کا ہر جملہ اور ہر کام چند ثانیوں میں تمام مقامی اور سیاسی حدود سے ماوراء پورے کرہ ارض پر پھیل جاتا ہے۔ اور آپ کو بہت اچھے دوست بھی مل سکتے ہیں۔ مجلس ادب کے پلیٹ فارم سے میری شناسائی بہت سے اہل علم حضرات سے ہوئی، اور کچھ احباب سے تو قلبی تعلق بھی استوار ہو گیا۔

سعودی عرب میں مقیم اپنے بہت پیارے دوستوں طارق اقبال بٹ، اقبال احمد قمرؔ اور پرویز اختر مرحوم کا ذکر نہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ بٹ صاحب کو نہ صرف میں بلکہ قمر صاحب بھی بڑے بھائی کا درجہ دیتے ہیں اور بٹ صاحب بھی اس پر شاداں ہیں۔ قمر صاحب مارچ ۲۰۰۶ء میں پندرہ دن کے لئے پاکستان آئے تو انہوں نے پورا ایک دن یہاں ٹیکسلا میں میرے اور دیگر ادیب دوستوں کے ساتھ گزارا۔ جولائی ۲۰۰۶ء میں اختر صاحب کی آمد متوقع تھی جو مؤخر ہوتی گئی اور ایک دن پتہ چلا کہ اب یہ ملاقات حشر کے دن ہو تو ہو۔ اختر صاحب کو دوسری بار دل کا دورہ پڑا تو جاں بر نہ ہو سکے۔ ناروے میں مقیم سینئر استاد اور صحافی مسعود منور بھٹی سے رابطہ بھی مجلس ادب کے وسیلے سے ہوا۔ اُن کا پہلا جملہ جو اُنہوں نے مجھ سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا، وہ میرے دل میں گھر کر گیا۔ بعد کے سلسلہ ہائے جنبانی نے اِس تعلق کو مزید استوار کر دیا۔ طارق اقبال بٹ صاحب آج کل اپنے گھر کراچی میں ریٹائرمنٹ کے مزے لے رہے ہیں۔

اس سے قبل دسمبر ۲۰۰۵ء میں مدتوں سے بچھڑے دوست وحید قریشی، سفیان صفی اور افسر رشیدی میرے مہمان بنے۔ اِ ن احباب سے رابطہ بھی انٹرنیٹ کی بدولت بحال ہوا۔ اختر شادؔ نے مجھ سے ’فاعلات‘ لکھوائی اور قاسم شہزاد نے اسے علامہ اقبال سائبر لائبریری میں جگہ دی۔ نوید صادق نے ’اسباقِ فارسی‘ کو نیٹ پر رکھوا دیا، اور ان تینوں بھائیوں نے مجھے ’زبانِ یارِمن‘ جیسا مضمون لکھنے کا حوصلہ بخشا۔ میرے مہربان تو ایسے ایسے ہیں، کہ ان پر فخر ہوتا ہے!

طارق اقبال بٹ، اقبال احمد قمر اور پرویز اختر مرحوم مجھے یوں بھی عزیز ہیں کہ ان کے توسل سے مجھ جیسے کم مایہ شخص کی شرمندہ شرمندہ سی آواز حرمین شریفین میں حاضری کا شرف حاصل کر چکی ہے۔ کسی دوست کی طرف سے ایسا تحفہ کسی کو کیا ملا ہو گا!۔ نوید صادق انجانے میں کتنا بڑا کام کر گیا!! ا ب تو یہ آرزو ہے کہ بدنی طور پر بھی وہاں ایک بار حاضری نصیب ہو جائے! آمین!!

اس بات کو بھی ایک عرصہ ہو گیا جب بٹ صاحب نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ کہنے لگے :یار، تم اپنی شاعری کو منظر عام پر کیوں نہیں لاتے؟ میں کیا عرض کرتا! پبلشرز کے ناز و ادا کے شکوے کرتا رہا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم اسے انٹرنیٹ کے ذریعے ہی شائع کر دو! اگرچہ مطبوعہ کتاب کا ایک اپنا وقار ہوتا ہے۔ میں نے یہاں کے حالات کے حوالے سے اُن کے اس مشورے پر سوچا تو اُن کی رائے بہت صائب لگی۔ سید علی مطہر اشعرؔ کی ’تصویر بنا دی جائے‘ سے نوشیروان عادلؔ کی ’آنسو آگ بجھانے نکلے‘ تک کا معروضی منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنا شعری اثاثہ، جو ہے جیسا ہے، احبابِ نظر کے حضور پیش کر دیا جائے۔ بٹ صاحب بجا فرماتے ہیں کہ طبع شدہ کتاب کا اپنا ایک وقار ہوتا ہے، اور یہ میرا بہت پرانا خواب بھی ہے۔ کون جانے یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے!

خوابوں کا معاملہ بھی عجیب ہے، یہ سوتے میں بھی دکھائی دیتے ہیں اور جاگتے میں بھی۔ ان کی کوئی حد نہیں ہوتی، نہ عددی نہ زمانی نہ مکانی نہ امکانی۔ یہ ستاتے بھی بہت ہیں اور لبھاتے بھی بہت ہیں۔ خواب زندگی کو اجیرن بھی بنا جاتے ہیں اور زیستنی بھی! اور خواب سارے کے سارے تو پورے ہوا بھی نہیں کرتے!

اپنے وہ خواب جو غزل کے قالب میں سمو سکا ’حرف الف‘ کے نام سے احباب کے حسنِ نظر کی نذر کر رہا ہوں٭زلوں کو زمانی ترتیب میں رکھا ہے، مفردات کو کسی خاص ترتیب میں نہیں لا سکا۔ زمانی ترتیب میرے نزدیک بھی آسان رہی اور آپ کے لئے بھی آسان رہے گی۔ آپ مجھے وہاں سے پڑھنا شروع کریں گے جہاں سے میں نے لکھنا شروع کیا۔ اور پھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گے، اور میری آپ کی سانجھ بنی رہے گی۔ اور، ان شاء اللہ، چلے گی بھی۔

اردو نثر اور پنجابی نظم اور نثر کو بھی ترتیب دے رہا ہوں۔ اردو نظموں کا مجموعہ ’’مجھے اک نظم کہنی ہے‘‘ کے نام سے القرطاس پر پیش کر چکا ہوں۔ کچھ طویل مضامین بچ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں فرداً فرداً آپ کے ذوق کی نذر کر دوں۔

اس ماحضر میں سے اگر انتخاب کرنے بیٹھ جاتا تو شاید کوئی بھی سالم غزل نہ نکل پاتی۔ دریں اثنا ساٹھ کے لگ بھگ غزلوں اور تیس کے قریب نظموں کا پراگا خلا میں بکھیر دیا ہے۔ اِس میں کوئی کنی ہو گی تو خود ہی ستارہ بن جائے گی! میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی، کہ گرد و غبار خلا میں ٹک بھی نہیں سکتا۔

 

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان

۱۰؍ مارچ ۲۰۱۰ء

(دیباچہ، لفظ کھو جائیں گے)

٭٭٭خواب سے سانجھ تک۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ

 

 

 

 

کچی اینٹوں اور گارے سے بنی چوڑی چوڑی دیواروں والے بغیر پھاٹک کے کھلے کھلے بڑے بڑے احاطے کے اندر چار چار پانچ پانچ گھروں کے کچے کوٹھے اور کچے صحن، گرد سے اٹی کھلی کھلی گلیاں اور سڑکیں، دور تک بکھرے درخت اور کھیت، اور ان سب کے اوپر لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے آسمان کی چھت!! فضا پر بالعموم خاموشی کا راج ہوتا۔ یہ خاموشی منہ اندھیرے مرغے کی بانگ اور اللہ اکبر کے سرمدی نغمے سے ٹوٹتی تو کئی مکالموں کا آغاز ہو جاتا، بھینسوں، گایوں اور بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ اور بیل گاڑیوں کی کھڑکھڑاہٹ تو گلیوں سے نکل کر کھیتوں میں گم ہو جاتی۔ لیکن چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ننھے بچوں کا شور صبح دم زندگی سے آشنائی کا اعلان کر دیتا۔ کچھ ہی دیر بعد سرمئی اور سفید دھوئیں کی لکیریں کچے گھروں کے صحنوں سے اٹھ کر فضا میں لہرئیے بناتیں اور تحلیل ہو جاتیں۔ سورج ذرا اوپر اٹھتا تو کتنی ہی الھڑ مٹیاریں ناشتے کی اشیاء سروں پر رکھے اپنے دوپٹوں کے لہرئیے بناتی اورسراپاؤں سے بجلیاں جگاتی مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی کھیتوں میں گم ہو جاتیں۔ بڑے بوڑھوں کا تو پتہ نہیں، لڑکے بالے بجلی کی صرف ایک ہی صورت سے واقف تھے، جو بادلوں میں چمک جایا کرتی اور پھر کبھی کڑکڑاہٹ اور کبھی گڑگڑاہٹ سنائی دے جاتی۔ بارش سے گلی کوچوں کی دھول کیچڑ اور گاد میں بدل جاتی اور فضا شفاف ہو جاتی۔

مگھر پوہ کی ایسی ہی صبح تھی، صاف شفاف، بارش سے دھلی ہوئی! پہر بھر دن گزرنے پر بھی خنکی غالب تھی۔ ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک دمکتے چہرے والا بوڑھا کھلے احاطے میں بچھی چارپائی پر نیم دراز تھا۔ سفید ململ کے صافے ڈھکے سر میں اس کے بالوں، ہلکی پھلکی داڑھی اور باریک تراشی ہوئی مونچھوں کی سفیدی بھی شامل ہو رہی تھی۔ پائنتی کی طرف بیٹھا بارہ تیرہ برس کا لڑکا آنکھوں میں صدیوں کے خواب سجائے بوڑھے باپ کے پاؤں داب رہا تھا۔ بوڑھے کا مہینوں کا بیمار جسم یک دم یوں لرز اٹھا جیسے بھونچال آ گیا ہو۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ اس کے منہ سے اوغ کی آواز نکلی اور کوئی سیر بھر لہو قے کی صورت میں کچھ اس کے سفید لباس پر، کچھ چارپائی پر اور کچھ زمین پر بکھر گیا۔ بچہ پریشان ہو کر اندر کو بھاگ گیا۔ ایک نحیف بڑھیا اپنے کانپتے وجود کو سنبھالتی ہوئی آئی۔ بوڑھے نے ہاتھ سے ’سب ٹھیک ہے‘ کا اشارہ دیا۔ بڑھیا نے لڑکے کے کان میں کچھ کہا اور وہ تیزی سے احاطے سے باہر نکل گیا۔ کچھ ہی دیر میں بڑھیا نے اپنے رفیقِ حیات کا منہ ہاتھ دھلا کر کپڑے تبدیل کرا دئے اور اندر چلی گئی۔ وہ دودھ سے بھرا پیالہ لے کر آئی تو بوڑھا اپنے زردی کھنڈے چہرے پر دنیا جہان کی آسائشیں سجائے آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔ ’یہ دودھ پی لے یعقوب کے ابا!‘۔۔۔ کوئی جواب نہ پا کر اُس نے بوڑھے کے بازو کو پکڑ کر ہلایا تو جیسے زمین ہل گئی۔ پہلے تو اس کے ہاتھ سے پیالہ گرا اور پھر وہ خود بھی چارپائی کے پاس ڈھے گئی۔ کوئی ایک پہر دن باقی ہو گا جب بوڑھا منوں مٹی تلے جا چکا تھا، یعقوب کے سارے خوابوں سمیت!

یہ کہانی کی ابتدا ہے، صاحبو! کون جانے؟ یہی ناآسودہ خواب ہوں اور اظہار کو ترس رہے ہوں اور لفظ سے میرے تعلق کا سبب بنے ہوں۔ ایک تھا بادشاہ، اس کے سات بیٹے تھے۔۔۔ ایک تھا بادشاہ، اس کی سات ملکائیں تھیں، ہر ایک سے ایک ایک لڑکی تھی۔۔۔ ایسے جملوں سے شروع ہونے والی داستانیں بڑے بوڑھوں میں بہت مقبول تھیں۔ ہر داستان میں کبھی ایک اور کبھی زیادہ اخلاقی درس ہوتے۔ سردیوں کی طویل اور گرمیوں کی مختصر راتوں میں کسی زمیندار کے ڈیرے پر محفل جمتی۔ ایک شخص داستان شروع کرتا: ایک تھا فقیر، وہ بستی سے دور جنگل میں ایک کٹیا میں رہتا تھا۔۔۔۔۔ اور پھر رات گزر جاتی داستان جاری ہوتی۔ اگلی رات جہاں پر بات رکی تھی، وہاں سے آگے چلتی اور یوں کئی ہفتوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ میں کہانی کی ایسی محفلوں میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا اور ہر کہانی کو اس قدر توجہ سے سنتا جیسے وہ میرا سکول کا سبق رہا ہو۔

والدہ مرحومہ رسمی تعلیم کے لحاظ سے تو اَن پڑھ تھیں تاہم قرآن مجید کے علاوہ چیدہ چیدہ دینی کتابیں جو عموماً پنجابی شاعری تھی خواتین کی محفلوں میں پڑھا کرتی تھیں۔ میں پہلے پہل تو والدہ کے پاس بیٹھ کر انہیں سنا کرتا اور کرتے کرتے ان کتابوں کو روانی سے پڑھنے لگا۔ لفظ کے ساتھ میرا تعلق شاید اُن داستانوں کی بدولت قائم ہوا اور شعر کا چسکا اُن دینی کتابوں کی برکت سے پڑا۔ مجھے شعر کو درست پڑھناآ گیا تھا۔ سو میرے مہربان استاد نے مجھے سکول کی بزم ادب میں شامل کر لیا۔ پھر تو ہر جمعے کو بزمِ ادب کے اجلاس کی نظامت مجھے کرنا پڑتی اور ہیڈماسٹر صاحب صدرِ بزم ہوتے۔ یہ سلسلہ ہائی سکول سے میری فراغت تک جاری رہا۔ ۱۹۶۷ء میں جب میں دسویں جماعت میں تھا، لفظ اور مصرعے سیدھے کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری میں ہی دو روٹی کے باٹوں میں پسنے لگیں۔

میرے بڑے بھائی فوج میں ہوا کرتے تھے، وہ ڈھاکہ میں تعینات تھے جب اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ بلند ہوا، جو بالآخر دھرتی ماں کے سینے کو دولخت کر گیا۔ ۱۹۷۱ء میں جس رات سقوطِ ڈھاکہ کا کرب انگیز سانحہ پیش آیا، وہ رات میں نے کیسے گزاری، بیان کرنا مشکل ہے۔ تاہم وہی رات مہمیز کا کام کر گئی اور ۱۹۷۲ء میں اسی تناظر میں میری ایک نظم اور چند کہانیاں اس وقت کے معروف پنجابی ماہانہ پرچے ’’پنجابی زبان‘‘ میں (جس کی ادارت ڈاکٹر رشید انور کرتے تھے) شائع ہوئیں۔ نانِ جویں کا غم فکر سخن پر غالب رہا تاہم وہ مہمیز جو سقوطِ ڈھاکہ کا تحفہ تھی اپنا کام دکھا گئی اور میں خود کو ادیب اور شاعر سمجھنے لگا۔ دن پھر چکی کی سی مشقت ہوتی اور رات سوچوں کے پاٹوں بیچ کٹتی۔ سرِنوکِ خیال جو کچھ بھی آ جاتا میں لکھ کر رکھ لیتا اور بس! تب سے حلقہ تخلیقِ ادب میں شمولیت(غالباً اکتوبر ۱۹۸۴ء) تک تقریباً خاموشی کا زمانہ گزارا۔

بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے میں اس کشٹ کا عینی گواہ ہوں جو والدہ نے ابا کی وفات کے بعد کاٹا تھا۔ میرے بڑے بھائی اور بہن کی شادیاں کیں، میرے تعلیمی اخراجات کے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر لوگوں کا سوت کاتا، کپڑے سیئے اور جو کچھ اُن سے بن پڑا کرتی رہیں۔ ۱۹۷۲ء میں ان کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ تو انہیں ایک اور فکر لاحق ہو گئی۔ کل میں نہ رہی تو یہ بچہ بہنوں اور بھابی کے رحم و کرم پر ہو گا!؟ رزق کا وعدہ تو اللہ نے کر رکھا ہے، اگر آج کچھ تنگی ہے تو کیا، کون جانے آنے والی کے نصیب اچھے ہوں! اپنی رشتے کی ایک بھتیجی تلاش کر لی اور میری بے روزگاری کے عین شباب میں میرا بیاہ کر دیا۔ یہ جولائی ۱۹۷۳ء کی بات ہے۔

مئی ۱۹۷۴ء میں اللہ نے مجھے ایک بیٹی کا باپ بنا دیا اور لطف کی بات، کہ اسی ماہ مجھے ایک سرکاری محکمے میں کلرک کی باقاعدہ ملازمت مل گئی۔ دو سال بعد میرے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی اور ساتھ ہی میں کلرک سے اسٹینو بن گیا۔ والدہ کی دعائیں بارور ہو چکی تھیں! ان کی دنیاوی ذمہ داریاں شاید پوری ہو گئی تھیں، اللہ نے اُن کو بھی بلا بھیجا۔ میں ساہی وال شہر میں رہا کرتا تھا اور عائشہ گاؤں میں میری والدہ کے پاس ہوتی تھی۔ جب والدہ نہ رہیں تو میں نے ساہی وال میں کرائے کا ایک چھوٹا سا مکان ڈھونڈا اور بیوی اور بچیوں کو وہاں لے گیا۔ یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ جو عارضی طور پر ساہی وال میں قائم ہوا تھا، فروری ۱۹۷۸ء میں اپنے مستقل کیمپس ٹیکسلا میں منتقل ہو گیا۔ اور میں بھی اپنے چھوٹے سے کنبے سمیت اس شہرِ سنگ و آہن میں آن بسا۔ اس کے بعد جوں جوں میرا کنبہ بڑا ہوتا گیا، مالی حالات بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔ جونیئر سے سینئر سٹینوگرافر، پھر ایڈمن آفیسر، پھر اسسٹنٹ رجسٹرار، اور ڈپٹی کنٹرولر امتحانات۔ تیس برس تک جامعہ ہندسیہ سے وابستہ رہ کر سبک دوش ہونے کا فیصلہ کر لیا (۲۰۰۸ء میری فراغت کا پہلا سال ہے)۔ یہ الگ بات کہ اس طویل دوڑ میں سارے بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدل چکی ہے۔ یہ تو زندگی کے رنگ ہیں نا! تارَ حریرِ دو رنگ۔ اور انہی رنگوں سے روز و شب سجا کرتے ہیں۔

دنیائے حرف و معنی میں میری شناخت کا پہلا اور آخری حوالہ ٹیکسلا ہے۔ یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے جب میں اختر شادؔ سے پہلی بار متعارف ہوا۔ اُس وقت میرا اور اس کا سانجھا غم نانِ جویں کا غم تھا۔ چند مہینے بعد اختر شاد یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑ گئے اور میرا ان سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ اختر شادؔ شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں، یہ بات تو کوئی چھ سال بعد کھلی جب مقبول کاوشؔ مرحوم نے حدید و حجر کی اس وادی میں حرف و معنی کا وہ کومل پودا کاشت کیا جسے آج ہم حلقہ تخلیقِ ادب کے نام سے جانتے ہیں۔ حلقہ کی بنیاد ۱۹۸۴ء میں رکھی گئی اور کاوش مرحوم کو صدر مقرر کیا گیا، اختر شادؔ اور ظفری پاشا ان کے دست و بازو قرار پائے۔ میں پہلی بار ۱۹۸۴ء کے اواخر میں حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوا تو اختر شادؔ کو وہاں موجود پا کر مجھے یک گونہ اطمینان ہوا کہ ایک چہرہ تو ایسا نکلا جو پہلے سے جانا پہچانا ہے۔

حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا میں شمولیت نے مجھے اعتماد اور حوصلہ بخشا، اپنے جیسوں سے شناسائی ہوئی۔ حرف اور معنی کا احساس سے جو تعلق بچپن سے موجود تھا، وہ مضبوط ہوا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا، جب یعقوب آسیؔ کی شناخت کا اولین حوالہ یہی تعلق ٹھہرا۔ اگست ۱۹۸۶ء میں کچھ دوستوں کو تیار کیا کہ یونیورسٹی کے اندر بھی ادبی مجالس کا اہتمام کیا جائے۔ یوں ستمبر ۱۹۸۵ء میں ’’ادب قبیلہ‘‘ کے پہلے باقاعدہ اجلاس تک بات پہونچی۔ فروری ۱۹۸۶ء میں اختر شادؔ کی تجویز پر اس ادارے (ادب قبیلہ) کا نام بدل کر ’’دیارِ ادب‘‘ رکھا گیا۔ ’’دیارِ ادب‘‘ کم و بیش اڑھائی سال تک سرگرمِ عمل رہنے کے بعد حلقہ تخلیقِ ادب میں ضم ہو گیا۔ اس دوران اجلاسوں کی نظامت اور ریکارڈ کی دیکھ بھال میرے ذمے رہی۔ اپریل ۱۹۸۸ء میں رمضان المبارک کی ایک شام، حلقہ کے بانی صدر مقبول کاوشؔ مرحوم کے گھر پر دونوں تنظیموں کا انضمامی اجلاس ہوا، تب سے ۱۹۹۸ء تک حلقہ کے جنرل سکرٹری کی ذمہ داریاں زیادہ تر مجھ پر رہیں۔

مقبول کاوشؔ مرحوم ٹیکسلا سے لاہور چلے گئے تو ان کے بعد اختر شادؔ اور وسیم کشفیؔ کچھ عرصے تک حلقہ کی صدارت کا بوجھ اٹھائے رہے۔ اِن دونوں نے بھی ٹیکسلا کو خیرباد کہا تو یہ ذمہ داری ظفری پاشا اور وحید ناشادؔ باری باری اٹھاتے رہے۔ اور پھر مئی ۱۹۹۸ء میں مجھے بھی یہ بارِ گراں اٹھانا پڑا۔ اس عرصے میں مجھ سے حلقہ کی تنظیم اور کارکردگی میں ہر روز پہلے سے بہتر لانے میں جو کچھ بن پڑا، کرتا رہا۔ اکتوبر ۱۹۹۵ء میں (تاسیس کے ساڑھے گیارہ سال بعد) حلقہ کا تحریری آئین منظور ہوا، جس کا مسودہ تیار کرنے کا اعزاز بہر حال مجھے حاصل ہے۔

۱۹۸۸ء کے اوائل میں عروض کے مطالعے اور تجزیے کی طرف میلان ہوا، جس نے جون ۱۹۸۹ء تک ایک کتاب کے مسودے کی صورت اختیار کر لی۔ اگست ۱۹۹۳ء میں دوست ایسوسی ایٹس، لاہور کے زیرِ اہتمام یہ مسودہ ’’فاعلات‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے پذیرائی کا مستحق ٹھہرا۔ دسمبر ۱۹۹۵ء میں اختر شادؔ نے احساس دلایا کہ اب شعری مجموعہ بھی شائع ہو جانا چاہئے، سو اس کے لئے اپنی شعری کاوشوں کی چھان پھٹک شروع کر دی، اور ایک طویل عرصے تک اپنے لکھے ہوئے حروف کے لئے مجوزہ نام ’’حرفِ اَلِف‘‘ کے ساتھ رد و قبول کے دو راہے پر کھڑا رہا۔ ’’فاعلات‘‘ کی طرف میرا پہلا قدم بھی اختر شادؔ کی تحریک کا نتیجہ تھا!۔

پہلا قدم اٹھ جائے، سفر ایک بار شروع ہو جائے تو پھر بات بدل جایا کرتی ہے۔ اپنے قابلِ قبول مصرعوں کی تلاش شروع ہوئی تو کئی کام نکل آئے۔ ’’فاعلات‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں بہت سی فنی اور تیکنیکی خامیاں رہ گئی تھیں، سوچا انہیں ٹھیک کر لیا جائے۔ ادھر چلا تو عروض کے کئی نئے سوالوں سے سابقہ پڑا، اور ’’فاعلات‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ’’حرفِ اَلِف‘‘ کو وہیں چھوڑا، اور ’’فاعلات‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کا مسودہ ترتیب دیا۔ مئی ۱۹۹۸ء میں حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کی صدارت پھر مجھ پر ڈالی گئی۔ اسی ماہ حلقہ کا ماہانہ خبرنامہ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا، اس کی ادارت بھی مجھ پر آن پڑی۔ یہ دونوں ذمہ داریاں ایسی تھیں کہ ’’حرفِ الف‘‘ کی اشاعت مؤخّر ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ بیسویں صدی کا آخری سورج غروب ہو گیا۔

میری ادبی تربیت میں اختر شادؔ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ ’فاعلات‘ مجھ سے اختر شادؔ ہی نے لکھوائی، ورنہ مجھ میں شاید اتنی جرأت نہ تھی۔ حلقہ کی انتظامی اور ادبی سرگرمیوں میں اختر شادؔ کا بہت بڑا حصہ رہا ہے اور اُن کے توسط سے کچھ نہ کچھ میرا بھی۔ مجھ میں اور اختر شادؔ میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں جن کا ذکر مختلف حوالوں سے آتا رہا ہے اور آتا رہے گا۔ اختر شادؔ ایچ ایم سی میں ہوتے تھے، میں یونیورسٹی میں اور صدیق ثانیؔ ایک قریبی گاؤں میر پور میں۔ حلقے کے اجلاسوں کے علاوہ بھی ہم تینوں کی لمبی لمبی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں، کبھی کسی ایک کے گھر میں اور کبھی میر پور، یونیورسٹی اور ایچ ایم سی کو ملانے والی پگڈنڈیوں پر۔ چند مہینوں بعد شہزاد عادلؔ اور طارق بصیرؔ بھی حرف کے اس کارواں سے آن ملے۔ روز بروز تیز سے تیز تر ہوتی زندگی کے بہاؤ نے اختر شادؔ اور صدیق ثانیؔ کو ٹیکسلا سے نکال کر راولپنڈی میں ڈال دیا تو یہ دونوں یعنی شہزاد عادلؔ اور طارق بصیرؔ میرے محفلوں کے ساتھی ٹھہرے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان پانچ لوگوں میں سے کسی ایک کا نام آ جائے تو باقی کے چار نام از خود آ جاتے ہیں۔ پھر ان کے تسلسل میں کتنے ہی نام آتے ہیں جن میں ہر ایک نام کے ساتھ کوئی خصوصیت وابستہ ہوتی ہے۔ اجمل خان اور احمد فاروق کا اپنا ایک مقام اور مرتبہ ہے، تفصیل کا موقع نہیں۔ چیدہ چیدہ نام اور ان کی یادیں تازہ کرتا چلوں: وسیم کشفی، ظفری پاشا، وحید ناشادؔ، امجد شہزاد، پاشا رازؔ، غفور شاہ قاسم، سلمان باسط، عثمان خاور، رؤف امیر، ایوب اختر، ابوذر، نثار ترابی، رفعت اقبال، عصمت حنیف، شمشیر حیدر، اظہر نقوی، طفیل کمالزئی، اکمل ارتقائی، حسن ناصر، احمد جمیل، بشیر آذر، شکیل اختر، نثار ترابی، شعیب آفریدی، وحید قریشی، افسر رشیدی، احمد حسین مجاہد، شبیہ رضوی، احمد ہاشمی، سفیان صفی، مشتاق آثم، راکب راجا، نوشیروان عادل، نوشاد منصف، سعید دوشی، عارف سیمابی، میثم بخاری، شمشیر حیدر، شہاب عالم، طالب انصاری، اختر عثمان، شہباز احمد، حفیظ اللہ بادل کے علاوہ بہت سے دیگر احباب اور واہ کے صنعتی ماحول میں بوڑھے برگد جیسا مہربان بزرگ شاعر سید علی مطہر اشعرؔجسے احباب بجا طور پر حرف و قلم کی آبرو کہا کرتے ہیں۔

اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت سی تیز رفتار تبدیلیاں لے کر آئی۔ یہاں قریبی شہر حسن ابدال میں ایف ایم ۹۷ کے نام سے ایک نجی ریڈیو سٹیشن قائم ہوا، ادب اور معاشرتی تعلقات کا شعبہ معروف شاعر سید آلِ عمران کے کندھوں پر ڈالا گیا۔ ان کی کوششوں سے مقامی ادبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے شعراء کی آواز زمین سے اٹھ کر لامحدود فضاؤں میں گونجنے لگی۔ یہ سلسلہ بہت دیر تک نہ چل سکا، آلِ عمران جیسا حساس شخص ایک نجی ریڈیو سٹیشن کی ترجیحات کو نہیں اپنا سکتا تھا۔ تاہم ادیب ہونے کے ناطے اس تھوڑے سے عرصے میں اس نیم دیہی علاقے کے اہل قلم کو آسمان کی وسعتوں سے شناسا کر گیا۔

انہی دنوں نوید صادق نامی ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو احمد فاروق کی تلاش میں مجھ تک آ پہنچا تھا۔ چند ایک ملاقاتوں میں پتہ چلا کہ وہ بہاول پور سے تعلق رکھتا ہے، انجینئر ہے اور شعر بھی کہتا ہے۔ اس کی کتابِ حیات کھلی تو کھلتی چلی گئی اور کھلا کہ وہ سر تا سر لفظوں کا بنا ہوا ہے، مطالعہ بھی رکھتا ہے اور شعور بھی! اور سب سے بڑی بات کہ وہ نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کے آتے ہی حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا میں ایک مثبت ہلچل بپا ہو گئی۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ وہ یہاں پورے دو سال بھی نہیں ٹک سکا۔ یہاں سے لاہور اور وہاں سے ریگزارِ عرب میں جا نکلا۔ حوادث اس کے جلو میں رہا کرتے ہیں یا وہ خود حوادث کے، یہ بات ابھی نہیں کھلی۔ عربستان کے وسیع صحراؤں سے لاہور واپس آیا تو شاید اسے یہ شہر اور اس کی گلیاں تنگ محسوس ہونے لگیں، یا شاید یہ زمین بھی! سو، اُس نے خلاؤں میں ایک ادبی تنظیم کی داغ بیل ڈال دی اور اسے مجلسِ ادب کا نام دیا۔ میں اگست ۲۰۰۵ء کے اواخر میں اس مجلس میں شامل ہوا۔

زمینی اور خلائی ادبی محفلوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ زمینی محفلوں کے شرکاء اپنی پوری شخصیت سمیت آمنے سامنے ہوتے ہیں اور کسی بھی اچھے شعر اور اچھے جملے پر اُن کی بے ساختہ داد و تحسین کا اپنا ایک سماں ہوتا ہے، خلائی محفل میں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ تنقیدی نشست ہی کو لے لیجئے، مباحث اور دلائل کی گرما گرمی اور ناقدین کے چہروں پر دکھائی دینے والے تاثرات اور بات کاٹنے کے مراحل خلا میں کہاں پہنچ پاتے ہیں؟ اب اسے ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے۔ آپ جو جی چاہے لکھ کر نیٹ پر ڈال دیجئے کوئی آپ کو فوری طور پر روک نہیں سکتا، رد عمل بعد کی بات ہے۔ کسی فن پارے پر بحث ہو رہی ہے، آپ پورے اطمینان اور یک سوئی ہے اپنے خیالات اور دلائل ترتیب دیجئے اور بھیج دیجئے۔ اس طرح آپ زمینی نشست میں متوقع کسی مداخلت کے بغیر اپنی بات مکمل کر سکتے ہیں۔ ہاں اس کے لئے وقت چاہئے! جو مکالمہ زمین پر ایک دو ساعتوں میں تکمیل پذیر ہو جاتا ہے اس کو خلائی مجلس میں ایک ڈیڑھ ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ تفاعل اور شراکت کے حوالے سے اور بھی مختلف صورت بنتی ہے۔ یہاں مکالمے میں صرف بالمشافہ شامل ہو سکتے ہیں جب کہ انٹر نیٹ پر آپ کا مکالمہ ایسے لوگوں سے بھی ہو رہا ہوتا ہے جن سے آپ بھلے شناسا بھی نہ ہوں۔

انٹرنیٹ کی بات ہو اور ’’اردو محفل فورم‘‘ اور ’’صریرِ خامۂ وارث‘‘ کا ذکر نہ ہو، کیسے ممکن ہے۔ یہ فورم اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ یہاں وہ مسائل نہیں جن سے فیس بک اور دوسرے پلیٹ فارموں پر واسطہ پڑتا ہے۔ جناب محمد وارث اور ان کی پوری ٹیم داد و تحسین کی بجا طور پر مستحق ہے۔ اس لئے بھی کہ یہاں کچھ نہ کچھ کہنے لکھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔

سال ۲۰۱۰ ء ایک اور پیش رفت کے ساتھ طلوع ہوا۔ انٹرنیٹ پر کسی نے ’’فیس بک‘‘ نامی ویب سائٹ پر شمولیت کی دعوت دے ڈالی اور یوں مجلسِ ادب کی نسبت وسیع تر ’خلاؤں‘ کی پیراکی کا موقع ملا۔ یہاں مجلس ادب کے دوستوں کے علاوہ جن احباب سے مؤثر سلسلہ جنبانی قائم ہوا، اُن میں جناب محمد وارث، جناب عزم بہزاد، جناب مجید اختر، جناب ظفر خان، جناب ظہیر جاوید، محترمہ نسیم سید، جناب نسیم سحر اور بہت سے اہلِ علم و فن کے نام آتے ہیں۔ جناب طارق اقبال بٹ اور جناب مسعود منور کا وجود ہمیشہ میرے لئے یک گونہ اطمینان کا باعث رہا ہے۔ نوید صادق کی پیشہ ورانہ مصروفیت سے زیادہ شاید ان کی آئے روز کی ہجرت ہے، جس نے مجلسِ ادب کو بہت حد تک غیر فعال کر دیا ہے۔ ۲۰۰۹ء کے اواخر میں، نوید کے تتبع میں القرطاس نام کے ایک انٹرنیٹ گروپ کی داغ بیل ڈالی۔

ایک بات ضرور ایسی ہے جسے کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انٹر نیٹ پر میرے، آپ کے مخاطب پورے کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں، اس لئے مجھے آپ کو جو بھی کہنا ہے، پوری ذمہ داری سے کہنا ہے۔ آپ کے کہے پر منحصر ہے کہ آپ عالمی سطح پر قبولیت حاصل کرتے ہیں یا اس کے برعکس ہو جاتا ہے۔ خلائی مجالس میں آپ کا ہر جملہ اور ہر کام چند ثانیوں میں تمام مقامی اور سیاسی حدود سے ماوراء پورے کرہ ارض پر پھیل جاتا ہے۔ اور آپ کو بہت اچھے دوست بھی مل سکتے ہیں۔ مجلس ادب کے پلیٹ فارم سے میری شناسائی بہت سے اہل علم حضرات سے ہوئی، اور کچھ احباب سے تو قلبی تعلق بھی استوار ہو گیا۔

سعودی عرب میں مقیم اپنے بہت پیارے دوستوں طارق اقبال بٹ، اقبال احمد قمرؔ اور پرویز اختر مرحوم کا ذکر نہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ بٹ صاحب کو نہ صرف میں بلکہ قمر صاحب بھی بڑے بھائی کا درجہ دیتے ہیں اور بٹ صاحب بھی اس پر شاداں ہیں۔ قمر صاحب مارچ ۲۰۰۶ء میں پندرہ دن کے لئے پاکستان آئے تو انہوں نے پورا ایک دن یہاں ٹیکسلا میں میرے اور دیگر ادیب دوستوں کے ساتھ گزارا۔ جولائی ۲۰۰۶ء میں اختر صاحب کی آمد متوقع تھی جو مؤخر ہوتی گئی اور ایک دن پتہ چلا کہ اب یہ ملاقات حشر کے دن ہو تو ہو۔ اختر صاحب کو دوسری بار دل کا دورہ پڑا تو جاں بر نہ ہو سکے۔ ناروے میں مقیم سینئر استاد اور صحافی مسعود منور بھٹی سے رابطہ بھی مجلس ادب کے وسیلے سے ہوا۔ اُن کا پہلا جملہ جو اُنہوں نے مجھ سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا، وہ میرے دل میں گھر کر گیا۔ بعد کے سلسلہ ہائے جنبانی نے اِس تعلق کو مزید استوار کر دیا۔ طارق اقبال بٹ صاحب آج کل اپنے گھر کراچی میں ریٹائرمنٹ کے مزے لے رہے ہیں۔

اس سے قبل دسمبر ۲۰۰۵ء میں مدتوں سے بچھڑے دوست وحید قریشی، سفیان صفی اور افسر رشیدی میرے مہمان بنے۔ اِ ن احباب سے رابطہ بھی انٹرنیٹ کی بدولت بحال ہوا۔ اختر شادؔ نے مجھ سے ’فاعلات‘ لکھوائی اور قاسم شہزاد نے اسے علامہ اقبال سائبر لائبریری میں جگہ دی۔ نوید صادق نے ’اسباقِ فارسی‘ کو نیٹ پر رکھوا دیا، اور ان تینوں بھائیوں نے مجھے ’زبانِ یارِمن‘ جیسا مضمون لکھنے کا حوصلہ بخشا۔ میرے مہربان تو ایسے ایسے ہیں، کہ ان پر فخر ہوتا ہے!

طارق اقبال بٹ، اقبال احمد قمر اور پرویز اختر مرحوم مجھے یوں بھی عزیز ہیں کہ ان کے توسل سے مجھ جیسے کم مایہ شخص کی شرمندہ شرمندہ سی آواز حرمین شریفین میں حاضری کا شرف حاصل کر چکی ہے۔ کسی دوست کی طرف سے ایسا تحفہ کسی کو کیا ملا ہو گا!۔ نوید صادق انجانے میں کتنا بڑا کام کر گیا!! ا ب تو یہ آرزو ہے کہ بدنی طور پر بھی وہاں ایک بار حاضری نصیب ہو جائے! آمین!!

اس بات کو بھی ایک عرصہ ہو گیا جب بٹ صاحب نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ کہنے لگے :یار، تم اپنی شاعری کو منظر عام پر کیوں نہیں لاتے؟ میں کیا عرض کرتا! پبلشرز کے ناز و ادا کے شکوے کرتا رہا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم اسے انٹرنیٹ کے ذریعے ہی شائع کر دو! اگرچہ مطبوعہ کتاب کا ایک اپنا وقار ہوتا ہے۔ میں نے یہاں کے حالات کے حوالے سے اُن کے اس مشورے پر سوچا تو اُن کی رائے بہت صائب لگی۔ سید علی مطہر اشعرؔ کی ’تصویر بنا دی جائے‘ سے نوشیروان عادلؔ کی ’آنسو آگ بجھانے نکلے‘ تک کا معروضی منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنا شعری اثاثہ، جو ہے جیسا ہے، احبابِ نظر کے حضور پیش کر دیا جائے۔ بٹ صاحب بجا فرماتے ہیں کہ طبع شدہ کتاب کا اپنا ایک وقار ہوتا ہے، اور یہ میرا بہت پرانا خواب بھی ہے۔ کون جانے یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے!

خوابوں کا معاملہ بھی عجیب ہے، یہ سوتے میں بھی دکھائی دیتے ہیں اور جاگتے میں بھی۔ ان کی کوئی حد نہیں ہوتی، نہ عددی نہ زمانی نہ مکانی نہ امکانی۔ یہ ستاتے بھی بہت ہیں اور لبھاتے بھی بہت ہیں۔ خواب زندگی کو اجیرن بھی بنا جاتے ہیں اور زیستنی بھی! اور خواب سارے کے سارے تو پورے ہوا بھی نہیں کرتے!

اپنے وہ خواب جو غزل کے قالب میں سمو سکا ’حرف الف‘ کے نام سے احباب کے حسنِ نظر کی نذر کر رہا ہوں٭زلوں کو زمانی ترتیب میں رکھا ہے، مفردات کو کسی خاص ترتیب میں نہیں لا سکا۔ زمانی ترتیب میرے نزدیک بھی آسان رہی اور آپ کے لئے بھی آسان رہے گی۔ آپ مجھے وہاں سے پڑھنا شروع کریں گے جہاں سے میں نے لکھنا شروع کیا۔ اور پھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گے، اور میری آپ کی سانجھ بنی رہے گی۔ اور، ان شاء اللہ، چلے گی بھی۔

اردو نثر اور پنجابی نظم اور نثر کو بھی ترتیب دے رہا ہوں۔ اردو نظموں کا مجموعہ ’’مجھے اک نظم کہنی ہے‘‘ کے نام سے القرطاس پر پیش کر چکا ہوں۔ کچھ طویل مضامین بچ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں فرداً فرداً آپ کے ذوق کی نذر کر دوں۔

اس ماحضر میں سے اگر انتخاب کرنے بیٹھ جاتا تو شاید کوئی بھی سالم غزل نہ نکل پاتی۔ دریں اثنا ساٹھ کے لگ بھگ غزلوں اور تیس کے قریب نظموں کا پراگا خلا میں بکھیر دیا ہے۔ اِس میں کوئی کنی ہو گی تو خود ہی ستارہ بن جائے گی! میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی، کہ گرد و غبار خلا میں ٹک بھی نہیں سکتا۔

 

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان

۱۰؍ مارچ ۲۰۱۰ء

(دیباچہ، لفظ کھو جائیں گے)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے