افسانچے۔۔۔ جوگندر پال

 

ارے ہاں

 

اس نے اپنی تلاش میں گھر بار تیاگ دیا اور چار کھونٹ گھومتا پھرا، اور تلاش کرتے کرتے بھول گیا کہ وہ کیا تلاش کئے جا رہا ہے۔ مگر ایک دن اچانک اپنے آپ کو پھر اپنے گھر کی چوکھٹ پر پا کر مسرت سے اس کی گھگی بندھ گئی، کہ وہ گھر ہی تو بھولے ہوئے تھا، اور یہیں لوٹ کر عین مین وہیں پہنچ گیا ہے جس مقام کو ڈھونڈنے یہیں سے نکل کھڑا ہوا تھا۔

٭٭

 

گمشدہ

 

اُس کی ابھی آنکھ بھی نہ کھلی تھی کہ اُس نے ایک دم چیخ مار کر اپنی بیوی کو بلایا۔ وہ بیچاری سراسیمگی میں دوڑی دوڑی آئی۔ ’’کیا ہوا؟‘‘

’’اب کیا ہو گا؟‘‘ اس کا پاگل پتی اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا

’’اپنا آپ تو میں اپنے خواب میں ہی چھوڑ آیا ہوں۔‘‘

٭٭

 

آج کے لوگ

 

ہاں، بھئی، ہاں میری موت واقع ہو لی تھی، مگر دیکھ لو، میرا دل کیسے دھائیں دھائیں دھڑکے جا رہا ہے۔

ہاں اور کیا؟ پورے کا پورا مر چکا تھا مگر تم خود ہی دیکھ لو، جوں کا توں زندہ ہوں۔

کیسے کیا؟ جیسے ہے، ویسے!۔۔۔ جیتے جی جب میرے دل کی دھڑکن میں خلل واقع ہوا تو ڈاکٹروں نے میرے سینے میں ایک پیس میکر (Pace Maker) فٹ کر دیا اور دعویٰ کیا کہ اب دَم نکل جانے پر بھی میرا دل جوں کا توں دھڑکتا رہے گا۔ سو جو ہے سو ہے۔۔۔ مر کھپ کر بھی۔۔۔۔ کیا؟۔۔۔۔ مرا کب؟۔۔۔۔ کتنے احمق ہو بھئی! جو مرگیا اسے کیا پتہ، وہ کب مرا؟۔۔۔ ہاں، بھئی، اب خدا کا ڈر کاہے کو؟ مر کر خدا کے پاس تھوڑا ہی جانا ہے۔۔۔ ہاں اور کیا؟ اب تو سدا اپنے ہی پاس رہنا ہے۔۔۔۔ ہیہ ہیہ ہا! ٹھیک کہتے ہو اب تو صرف اسی نیک کام سے نجات وابستہ ہے کہ اپنی مشین بگڑنے نہ دو۔

٭٭

 

اپنا اپنا

 

ایک دفعہ سائبیریا کا ایک باشندہ ہمیں بتا رہا تھا۔ ’’پھر کیا ہوا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک عجیب و غریب اُڑن کھٹولا زمین پر اُتر آیا۔ اس اُڑن کھٹولے سے دو شکلیں باہر نکلیں۔ بڑی مختلف النوع مخلوق تھی۔ الٹا سیدھا لباس پہن رکھا تھا ا ور چہروں پو کوئی آلے جما رکھے تھے۔‘‘

’’کیا انہوں نے بھی آپ کو دیکھا؟‘‘

’’نہیں، میں پاس ہی جھاڑی میں چھپ گیا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر میں دو میں سے ایک کا آلہ اس کے منہ سے گر کر سینے پر لٹکنے لگا۔ اتنا عجیب چہرہ تھا کہ میرے بیان سے باہر ہے۔ کچھ دیر وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔‘‘

’’کیا باتیں کرتے رہے؟‘‘

’’مجھے ان کی زبان تو نہیں آتی مگر جب ایک نے دوسرے کی طرف دیکھ کر چونکی چونکی آواز میں ایک جملہ بولا تو مجھے لگا، اس نے کہا ہے، بے وقوف اپنا آلہ جلدی سے منہ پر چڑھا لو، ورنہ آکسیجن کے زہر سے دَم توڑ دو گے۔‘‘

٭٭

 

محض

 

میں اپنے پیروں کے ٹکاؤ، ہاتھوں کی پینگ اور سر کی چھتری پر ہی اپنی ذات کو محمول کرنے لگا اور میری اصلی ذات سالہا سال بڑے صبر و سکون سے دوسرے عالم میں میرا انتظار کرتی رہی اور ہنستی رہی کہ میں اپنے آپ کو محض جوگندر پال سمجھ بیٹھا ہوں۔

٭٭

 

بسے ہوئے لوگ

 

میرے ناول کے ہیرو اور ہیروئن دونوں مجھ سے ناراض تھے، کئی دفعہ جب ان کی شادی کے اسباب آپ ہی آپ عین فطری طور پر انجام پار ہے تھے تو میں نے ان کا بنا بنایا پلان چوپٹ کر دیا اور اپنی ترجیحوں کو ناول پر لاد کر انہیں آخری صفحے تک ایک دوسرے سے جدا کرنے پر اڑا رہا۔

نہیں، میں ان دونوں کو بے حد عزیز رکھتا ہوں، مگر مشکل یہ ہے کہ اگر انہیں ایک دوسرے کے لیے جینے کا موقع فراہم کر دیتا ہے تو میری اپنی زندگی کے نشانے دھرے رہ جاتے۔ وہ بہر حال میرے کردار تھے اور جو اور جیسے تھے، میری ہی بدولت تھے اور انہیں یہی ایک چارہ تھا کہ میری زندگی کا اسباب کرتے رہیں۔

مگر وہ دونوں تو موقع کی تاک میں تھے۔ ایک دن نظریں بچا کر اچانک غائب ہو گئے۔ میں نے ناول کے مسودے کی ایک ایک سطر چھان ماری اور مقام پر انہیں اپنے ناموں کی اوٹ میں ڈھونڈتا رہا، مگر وہ وہاں ہوتے تو ملتے۔

مجھے بڑا پچھتاوا محسوس ہونے لگا۔

اگر وہ مجھے کہیں مل جاتے تو میں فوراً ان کا نکاح پڑھوا دیتا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ میں منھ سر لپیٹ کر پڑ گیا۔

آپ حیران ہوں گے کہ کئی سال بعد ایک دن وہ دونوں بہ اتفاق مجھے اپنے ہی شہر میں مل گئے۔

نہیں، وہ مجھے بڑے تپاک سے ملے اور اپنے گھر لے گئے۔

میرے ناول کے پنوں سے نکلتے ہی انھوں نے اپنی شادی کی تدبیر کر لی تھی اور اتنے سال بعد اب تین پھول جیسے بچوں کے ماں باپ تھے اور ان کا گھر بار خوب آباد تھا۔

نہیں، انہیں اپنے سنسار میں اس قدر پھلتے پھولتے پا کر مجھے حوصلہ ہی نہ ہوا کہ انہیں ناول میں لوٹ آنے کو کہتا۔

٭٭

عکاس انٹرنیشنل، اسلام آباد، شمارہ ۱۸، مدیران: ارشد خالد، امین خیال

٭٭

 

خانۂ خدا

 

میرے یہاں آنے سے پہلے میری ضعیف ماں میرے چھوٹے بھائی کے پاس رہا کرتی تھی۔ وہاں گوردوارہ گھر کے ساتھ ہی لگا ہوا تھا، سو وہ نہا دھو کر ناشتہ کرنے سے پہلے بلا ناغہ متھا ٹیکنے گردوارے چلی جاتی، مگر میری رہائش دہلی کے ایک مسلمان علاقے میں تھی جہاں آس پاس کوئی گردوارہ واقع نہ تھا۔ چند روز تو میں دفتر جانے سے پہلے ماں کو اپنی گاڑی میں دور پار کے ایک گردوارے لے گیا، پھر وہ میرا دفتر میں اُن دنوں لیٹ پہنچنے کا سن کر مجھ سے کہنے لگی: "پتر! تم یہ تکلیف مت اُٹھایا کرو”

"پھر تم اپنے واہگورو کے پاس کیسے جاؤ گی ماں؟ ”

میری سیدھی سادی بوڑھی ماں نے ذرا سوچ کر یہ اُپائے سجھایا "میں پڑوس کی مسجد میں ہی واہگورو کو متھا ٹیک آیا کروں گی”

٭٭

جدید ادب، جرمنی، شمارہ ۱۰، جنوری تا جون ۲۰۰۸ء، مدیران: حیدر قریشی، نذر خلیق

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے