تصویر کے پردے میں گل انداز بھی ہو
اس ساز کے پیچھے کوئی آواز بھی ہو
سامان گماں ہو نہ کہیں دید و سماع
یہ کیفیت سحر یقیں ساز بھی ہو
٭٭
کچھ پاس تو ہو، ساعتٕ حرماں ہی سہی
دے زخم کوئی، صورتِ درماں ہی سہی
ہے کچھ تو اثاثہ پسِ دل آرائی
کچھ اور نہیں، دولتِ ارماں ہی سہی
٭٭
بے صوت ہوا جائے ہے آہنگ مرا
بے رنگ ہوا جائے ہے ہر رنگ مرا
کچھ دیکھ ہی لے ڈوبتے سورج کا سماں
بے نام و نشاں ہونے لگا سنگ مرا
٭٭
رنگوں میں ابھر آئے تخیل کیسے
لفظوں سے نکل آئے کوئی گل کیسے
جادو نظری چاہتا ہے شہرِ فسوں
دو چار قدم سے یہ کٹے پُل کیسے
٭٭
روشن ہو مری صبح، مری شام خدا
رہنے دے مرا نام، مرا نام خدا
بھٹکائے ہے جنگل میں سیہ گامی کیوں
بس تھام مجھے تھام مجھے تھام خدا
٭٭
راہوں کو مری میل کا پتھر ہی ملا
سانسوں کو مری حجرۂ بے در ہی ملا
دیکھا ورقِ ہستیِ دل کی جانب
آنکھوں کو مری لمحۂ محشر ہی ملا
٭٭
ماہنامہ ’سب رس‘، حیدرآباد ہند، دسمبر ۲۰۰۸ء، مدیر: مغنی تبسم