بابو جی نے کہا تھا، اڈے پر اترتے ہی تانگہ لے لینا۔ مگر یہاں تو دور دور تک کسی تانگے کا نام نشان نہیں تھا۔ اس کے بجائے رکشوں کا ایک چنگھاڑتا ہوا ہجوم تھا جو ہارن بجا بجا کر، مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ مجھے سخت کوفت ہوئی۔ پھر میں نے ایک رکشے کو قریب آنے کا اشارہ کیا جسے دیکھ کر دس بارہ رکشے میری طرف لپکے۔ میری کوفت میں اور اضافہ ہو گیا۔
مجھے میٹھے نلکوں تک جانا ہے؟
میں نے بیزاری سے اونچی اور درشت آواز میں کہا۔ اپنی برسوں کی تربیت اور شعور کی پرورش کے سارے سبق میں یک لخت بھول گیا تھا۔
’’میٹھے نلکے؟ وہ کہاں ہیں جی؟‘‘
ہیں؟ تم میٹھے نلکوں کو نہیں جانتے؟
’’نہیں جی۔۔۔‘‘ اس نے تمسخر سے میری طرف دیکھا۔
’’نئے آئے ہو اس شہر میں؟‘‘میں نے طنزیہ کہا اور دوسرے رکشے کی طرف بڑھا۔
’’میٹھے نلکوں تک چلنا ہے۔‘‘
’’جگہ بتائیں جی!‘‘
’’بتایا تو ہے، میٹھے نلکوں تک۔‘‘
’’میٹھے نلکے تو کہیں بھی ہو سکتے ہیں جی، جگہ بتائیں؟‘‘
’’جگہ بتائیں کیا مطلب، جگہ ہی تو بتا رہا ہوں۔ میٹھے نلکے‘‘
’’او بزرگو، پر وہ ہیں کہاں؟ کس محلے میں، کس گلی، کس کالونی میں، کس بازار میں؟‘‘
’’بھئی میٹھے نلکے تو سارے شہر میں ایک ہی جگہ ہیں۔ تمھیں نہیں معلوم؟
یہ سن کر رکشے والے نے برا سا منہ بنایا اور کندھے اچکا کر ایک اور سواری کی طرف بڑھ گیا جو ابھی ابھی آ کر رکنے والی بس سے نکلی تھی۔
میری کوفت اب سراسیمگی میں بدل گئی۔
’’میں کسی غلط شہر میں تو نہیں آ گیا؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر خود سے پوچھا۔
پھر جیب سے ٹکٹ نکال کر دیکھا، اس پر کسی شہر کا نام نہیں تھا۔ گھبرا کر میں نے اس بس کو تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے ابھی ابھی اترا تھا۔ وہ اڈے سے نکل کر کسی اور سمت مڑ گئی۔
’’بھائی، یہ بس کہاں جا رہی ہے؟‘‘ میں نے حواس باختہ ہو کر قریب کھڑے ریڑھی والے سے پوچھا۔
’’کیا پتا کہاں جا رہی ہے! سارا دن بسیں چلتی ہیں، ادھر سے ادھر جاتی ہیں، ہمیں کیا پتا چلتا ہے کون سی بس کہاں سے آئی اور کہاں چلی گئی۔ کیلے لے لو، پچاس روپے درجن لگائے ہیں۔‘‘
میں نے جھنجھلا کر دل ہی دل میں اس پر نفرین بھیجی اور سوچا بس کمپنی کا دفتر تلاش کروں۔ بس کمپنی کا نام ٹکٹ پر لکھا ہوا تھا۔ اس کا دفتر بھی یہیں کہیں ہو گا۔
مگر اس کی ضرورت نہیں پڑی۔ بس کمپنی کا بورڈ ڈھونڈنے کے لےی جوں ہی میں نے نظر اٹھائی، تو سامنے ہی مٹھائی کی ایک بڑی دکان نظر آئی جس پر میرے شہر کا نام بڑے بڑے روشن حروف میں لکھا تھا۔
’’میرا شہر!‘‘ میں نے اطمینان کی ایک لمبی سانس لی اور جی چاہا کہ وہیں کہیں بیٹھ جاؤں۔ یہ احساس، یہ اپنا پن اس سے پہلے مجھے کبھی اس شہر کے لےی محسوس نہیں ہوا تھا۔ ایک مدت سے میں اس شہر سے نکل چکا تھا۔ صرف جسمانی طور پر نہیں، ذہنی اور قلبی طور پر بھی۔ ایک بڑی اور مختلف دنیا کا باسی بن چکا تھا۔ اب اس شہر کے تصور سے مجھے کوئی انس نہیں رہا تھا لیکن اس لمحے اچانک اس کا نام مٹھائی کی دکان کے بورڈ پر لکھا دیکھ کر مجھے جو طمانیت محسوس ہوئی اس نے جیسے کوئی ٹوٹا ہوا تار جوڑ دیا ہو، میرے اندر مدتوں سے بجھا ہوا کوئی بلب روشن ہو گیا تھا۔
میں یہاں اپنی مرضی سے نہیں آیا تھا۔ میں کہاں واپس آنا چاہتا تھا۔ مجھے اس شہر، اس کی گلیوں، اس کے ٹھکانوں کو دیکھنے کی کوئی آرزو نہیں تھی۔ ٹھیک ہے میں یہیں پیدا ہوا تھا، یہیں میں نے پہلی سانسیں لی تھیں، یہیں میں نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا، زندگی کے بنیادی اسباق بھی یہیں ملے تھے لیکن میرے شعور کی تمام تر پرورش کسی اور ماحول میں ہوئی تھی جو اس شہر سے کئی زمانوں کے بُعد پر واقع تھا۔ زمان اور مکان دونوں کے بُعد پر۔
مجھے یہاں بابو جی نے بھیجا تھا۔ کئی سال سے وہ اصرار کیے جا رہے تھے، مجھے مجبور کر رہے تھے کہ میں ایک بار یہاں ضرور آؤں۔ یہاں کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھ کر انھیں بتاؤں۔ ان کا مکان جسے انھوں نے بڑی چاہت سے تعمیر کروایا تھا، اب کس حال میں ہے؟ باہر کے پلستر اکھڑ تو نہیں گئے؟ بیٹھک کے دروازے کا نیلا رنگ، جو ان دنوں بڑا مقبول تھا، اب بھی باقی ہے یا نہیں؟ گلی کے ساتھ ایک چھوٹے سے تھڑے پر وہ جو ایک سیاہ فام مجذوب اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا اور اس منظر کا ایک مستقل حصہ معلوم ہوتا تھا، وہ اب بھی وہاں بیٹھا ہے، یا کہیں چلا گیا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میٹھے نلکوں کا پانی اب بھی میٹھا ہے یا نہیں؟
جب سے وہ خود یہاں لوٹنے کے امکان سے محروم ہوئے تھے، ذہنی طور پر وہ یہیں آ کر بس گئے تھے اور اب جاننا چاہتے تھے کہ ان کا شہر ان کے بغیر کیسا ہے؟
اس کے علاوہ بھی ایک بات ان کی خواہش کا حصہ تھی، اگر چہ میرا مزاج جاننے کے بعد وہ اسے کبھی صاف صاف نہیں کہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے میں اپنے شہر سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ بحال کر لوں۔ اسی لےچ وہ مجھ سے ایک بار یہاں جانے پر اصرار کرتے رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا، یہاں آ کر میں اپنی کٹی ہوئی جڑوں سے دوبارہ جڑ جاؤں گا۔
میں سوچتا، ’’بے چارے بابو جی۔۔۔ زندگی کے بارے میں ان کے نظریات کس قدر فرسودہ اور تخیلاتی ہیں۔ زمانہ کتنا بدل گیا ہے، انھیں ذرا بھی احساس نہیں۔ وہ اب بھی زندگی کو اسی صدیوں پرانی عینک سے دیکھتے ہیں اور ویسی ہی جذباتی باتیں کرتے ہیں جیسے ڈیڑھ سو سال پہلے ان کے پرکھوں کی عادت تھی۔‘‘
لیکن ایک بات ہے۔ بابو جی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مجھے ان کی محبت اچھی لگتی ہے۔ اگرچہ اس محبت میں کبھی کبھی ایک عجیب سی لیس دار، چپچپی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے میرا دم گھٹنے لگتا ہے لیکن عموماً یہ محبت قابل برداشت ہی رہتی ہے۔ فالج نے ان کے جسم کے دائیں حصے کو یوں مفلوج کر دیا تھا کہ وہ کروٹ تک نہیں بدل سکتے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ جب ان پر فالج کا حملہ ہوا تو وہ عید منانے میرے پاس امریکہ آئے ہوئے تھے۔ اگر وہ یہاں ہوتے۔۔۔ اکیلے۔۔ تو کیا بنتا۔۔۔ سب لوگ مجھے مجبور کرتے کہ میں آ کر ان کے پاس رہوں۔ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مگر اب وہ اصرار کرنے لگے تھے کہ میں ایک بار جا کر اپنا شہر دیکھ آؤں۔ پاس پڑوس والوں سے ملوں، ان کی خیر خبر لوں۔ بابو جی کے اصرار نے مجھے دیر تک ایک مخمصے میں رکھا اور پھر پلٹ کر یہاں آنے اور ایک بار پھر اس شہر میں لوٹنے پر مجبور کر دیا تھا، جہاں سے کئی دہائیاں پہلے میں نے ہجرت کر لی تھی۔
__________
کم از کم شہر تو وہی تھا۔ بورڈ دیکھ کر مجھے یک گونہ تسلی سی ہو گئی تھی اور پورے وجود میں اطمینان کی ایک لہر سی دوڑ گئی تھی۔ یہ اطمینان صرف اس بات کا نہیں تھا کہ میں کسی غلط شہر میں نہیں پہنچ گیا تھا، بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر تھا۔ میں اس نئے احساس کو اپنے اندر اترتا ہوا دیکھ رہا ہے اور اپنے پورے بدن میں ایک پر مسرت حیرت کی سنسنی محسوس کر رہا تھا۔
’’بالکل تازہ، میٹھے کیلے ہیں۔ پینتالیس روپے لگا دوں گا۔‘‘ ریڑھی والے نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا۔
میں نے ریڑھی والے کو دیکھا اور بلا وجہ ہی ہنس دیا۔
’’اچھا لاؤ دے دو! ایک درجن!‘‘ میں نے سوچا گلی کے کونے پر بیٹھے ہوئے سیاہ فام مجذوب کو دے دوں گا۔
لیکن وہ میٹھے نلکے؟ کسی رکشے والے کو ان کا پتا کیوں معلوم نہیں۔ بابو جی تو کہتے تھے کہ یہ شہر اپنے میٹھے نلکوں کی وجہ سے ہی مشہور تھا۔ ان میٹھے نلکوں سے پینے کا پانی بھرنے سارے شہر کے ماشکی جمع ہوتے تھے۔ چمڑے کی سیاہ مشکیں کندھے سے لٹکائے وہ سارے شہر میں پھرا کرتے تھے۔ شام کو نچلے طبقے کی عورتیں بھی سر پر مٹی کے گھڑے اور پیتل اور سلور کی گاگریں اٹھا کر پانی بھرنے آ جاتی تھیں۔ یہ کنویں کا گھاٹ تو نہیں تھا لیکن یہاں رونق ویسی ہی ہوتی تھی۔ رنگ برنگ آنچل لہراتے، چوڑیاں بجتیں اور رسیلی آوازوں کی شیریں ندیاں بہتیں۔ عورتیں ایک دوسرے کو چھیڑتیں اور اپنے اپنے معمولات کی ساری یبوست میٹھے پانی کے نلکوں کے سامنے الٹ کر خوش باش گھروں کو لوٹ جاتیں۔
مجھے خواہ مخواہ ہی احساس ہونے لگا کہ اس پچھڑے ہوئے، دھول میں اٹے، قصباتی ماحول میں زندگی کا ذائقہ زیادہ تیز اور لطف انگیز تھا۔ اتنے برسوں میں میں نے کبھی اس قصباتی ماحول کو رشک کے احساس سے یاد نہیں کیا تھا۔ الٹا ہمیشہ اسے تمسخر نہیں تو ترحم کی نظر سے ضرور دیکھا تھا۔
اب یہ احساس ایک مختلف صورت اختیار کر گیا تھا۔
میں نے ذہن پر ذرا زور ڈالا تاکہ میٹھے نلکوں تک پہنچنے کا راستہ یاد کر سکوں۔ بچپن میں، میں نے بھی تو کئی بار زور زور سے نلکے کی ہتھی چلا کر کبھی بالٹی، کبھی مٹی کے گھڑے میں پانی بھرا تھا۔ لیکن یہ بات اتنی پرانی تھی کہ کسی اور زمانے کی لگتی تھی، خواب میں دیکھے مگر صبح اٹھ کر بھولے ہوئے منظر کی طرح۔ دھندلی دھندلی سی۔ اتنا یاد تھا کہ ان نلکوں کے عین پیچھے ایک سرکاری عمارت کی دیوار تھی۔ سرخ اینٹوں والی مخصوص طرز کی دیوار۔ ایسی دیواریں صرف سرکاری عمارتوں ہی کی ہوتی تھیں۔
میں نے اسی یادداشت کے سہارے پیدل چلنے کا ارادہ کر لیا اور شاید میری یادداشت نے بھی، میری بدلتی ہوئی کیفیت بھانپ کر میرا ساتھ دینے کا ارادہ کر لیا تھا اور میرے لاشعور کی گہرائیوں سے ابھر کر سطح پر آتی جا رہی تھی۔ مجھے یاد آ گیا کہ بسوں کے اڈے کے عقب سے نکلنے کا ایک چھوٹا سا راستہ تھا جس کے ایک طرف گاڑیوں کی ورک شاپ تھی۔ پورے شہر میں ایک دو ہی ورک شاپیں تھیں۔ مستری اور ان کے چھوٹے اس راستے کے دونوں طرف زمین پر اکڑوں بیٹھ کر پانی کے تسلے میں ڈبو ڈبو کر پہیوں کو پنکچر لگایا کرتے تھے۔ مگر بسوں کا اڈہ پرانی جگہ سے نکل کر شہر سے باہر ایک نئی جگہ پر منتقل ہو چکا تھا۔ یہ بھی مجھے بس میں معلوم ہوا تھا جب کنڈکٹر نے پرانے اڈے کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہا تھا کہ بس پرانے اڈے پر نہیں رکے گی۔ سب مسافر نئے اڈے پر ہی اتریں۔ میں اس نئے اڈے کے محل وقوع سے واقف نہیں تھا اس لے سوچا کہ پہلے پرانے اڈے پہنچوں اور وہاں سے اپنی یاد کی مدد سے میٹھے نلکوں کا راستہ تلاش کروں۔ اب اس تلاش میں جھنجلاہٹ کم اور اشتیاق زیادہ ہونے لگا تھا۔ ذرا سی کوشش سے میں پرانے اڈے پر پہنچ گیا اور اس کے وسطی میدان کے عین درمیان کھڑے ہو کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔
مین روڈ کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو جائیں تو دائیں ہاتھ کو ورکشاپوں والی گلی ہونی چاہیے جو دوسری طرف غلّہ منڈی والی سڑک پر نکلتی ہے۔ میں اندازے سے اس سمت میں بڑھنے لگا۔ بدلے ہوئے ماحول کے باوجود مجھے اس گلی کو ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی مگر اب یہاں وہ پرانی کچی پکی گلی نہیں، ایک با قاعدہ بازار دکھائی دے رہا تھا۔ سیاہی میں ڈوبی ہوئی ورکشاپوں کی جگہ آٹو موبائیل سٹور کھل گئے تھے۔ چمکتے ہوئے بورڈز، رنگ برنگے ڈبوں سے اٹا اٹ بھری ہوئی شیلفیں اور الماریاں، شیشے کے کاؤنٹر اور ان کے پیچھے فخر سے تن کر بیٹھے ہوئے سوٹڈ بوٹڈ دکان دار۔
’’واہ، بڑی ترقی کر لی ہے۔‘‘ بے اختیار میرے ذہن سے آواز آئی مگر دل نے قدرے مایوسی کا اظہار کیا۔ میں چپ چاپ دونوں طرف دیکھتا ہوا غلّہ منڈی والی سڑک پر نکل گیا۔ وہاں سے دائیں ہاتھ کو مڑا اور تھوڑا سا آگے چل کر تحصیل والے چوک پر پہنچا۔ چوک عبور کرتے ہی، میری متلاشی نگاہوں نے سڑک کے دائیں طرف تحصیل کی، پیلے چونے سے رنگی عمارت اور بائیں ہاتھ پر تھانے کی سفید قلعی اور نیلے حاشیوں والی عمارت کو تلاش کرنا شروع کیا مگر انسانوں کے ہجوم میں سے نظر کو رستہ نہیں مل رہا تھا۔ اجنبیت کا غبار ہر طرف سے اٹھ اٹھ کر میری آنکھوں میں پڑ رہا تھا۔ شور اتنا تھا کہ کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔
ادھر ذہن کی سکرین پر، بھولی بسری یادداشت سے نکلے ہوئے سائے روشن ہوتے جا رہے تھے اور ہر خارجی منظر کے متوازی ایک اور منظر ساتھ ساتھ چلے جا رہا تھا۔ تحصیل کی عمارت کے پیچھے کھلے میدان میں والی بال کا کورٹ اور اس کا جگہ جگہ سے پھٹا ہوا نیٹ میرے ذہن میں اس طرح ابھر آیا کہ اس جالی کا ہر سوراخ مجھے دکھائی دینے لگا۔ روز شام کو شہر کے لڑکے یہاں والی بال کھیلا کرتے تھے۔ مجھے یاد آ گیا کہ اسی میدان میں ایک بار ہاکی کا میچ ہوا تھا جس میں قومی ہاکی ٹیم نے شرکت کی تھی۔ اتنے چھوٹے سے شہر میں قومی ٹیم کا آنا کتنی حیرت کی بات ہے، مگر یہ ہوا تھا۔ سارا شہر میچ دیکھنے اسی سڑک پر امڈ آیا تھا۔ میں نے یہ میچ اپنے سکول کے عقبی کمرے کے روشن دان سے دیکھا تھا جس کے لےہ مجھے اپنے سکول ڈیسک پر ماسٹر جی کا میز رکھ کر اس کے اوپر کھڑے ہونا پڑا تھا مگر جتنا اچھا نظارہ اس روشن دان سے مجھے میسر آیا تھا، شاید ہی کسی اور تماشائی کو آیا ہو۔
اس کے ساتھ ہی مجھے اپنا سکول یاد آ گیا۔ اس کے برآمدے، اس کے کمرے، اس کا ہلکی گلابی ٹائلوں والا صحن، اس صحن کے چاروں طرف گھومتی ہوئی کیاریاں اور ان میں گلاب کے پھول۔ سکول کے گیٹ کے ساتھ لگے دو اونچے اونچے سرو کے درخت تھے جودن رات دربان کی طرح ایستادہ رہتے تھے۔ یہ منظر مجھے اس سے پہلے کبھی اتنی وضاحت سے یاد نہیں آئے تھے۔ میں نے قدم تیز کر دیے اور بے چینی سے آگے بڑھا کہ چل کر پہلے اپنے اسکول کو دیکھ لوں۔ تحصیل کا عقبی میدان ختم ہوتے ہی سکول کی دیوار شروع ہو جاتی تھی مگر اب نہ تو میدان تھا اور نہ دیوار۔ تحصیل اور تھانے کی عمارتیں بھی دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
یہ دفتر شاید کہیں اور منتقل ہو گئے ہیں۔‘‘ میں نے سوچا۔
سڑک کے دونوں طرف مارکیٹیں بن چکی تھیں۔ دو منزلہ مارکیٹیں۔ مال سے بھری ہوئی دکانیں۔ مارکیٹوں کے باہر ٹھیلے والوں اور ریڑھی والوں کی قطاروں کی قطاریں کھڑی تھیں۔ خریداروں کا ہجوم انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوا تھا۔
اچانک مجھے دونوں طرف سے دکانوں میں گھرا ہوا اور ان سے بالکل متصل ایک چھوٹا سا گیٹ دکھائی دیا جس کے اوپر میرے سکول کا نام لکھا تھا۔ اندر کی طرف جہاں صحن ہوا کرتا تھا، دو منزلہ عمارت کھڑی تھی۔ شاید سکول نے ترقی کر لی تھی۔ مجھے خوش ہونا چاہیے تھا مگر نجانے کیوں میں بہت بد مزہ ہوا اور میں نے سکول کے اندر جانے کا ارادہ منسوخ کر دیا۔
میٹھے نلکوں کی تلاش، جو پچھلے کچھ منٹوں کے دوران میرے ذہن سے اوجھل ہو گئی تھی، ایک بار پھر میرے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ میں نے قدم اور تیز کر دیے۔ اب رش کچھ کم ہونے لگا تھا۔ بابوجی نے کئی بار بتایا تھا، بلکہ بار بار پوچھ کر ذہن نشین بھی کروایا تھا:
’’کربلا سے تھوڑا سا آگے نکلو گے تو تقریباً دو فرلانگ کے فاصلے پر میٹھے نلکے نظر آئیں گے۔ وہاں پانی بھرنے والوں کا ایسا ہجوم ہو گا کہ تمھیں دور سے دکھائی دینے لگے گا۔ میٹھے نلکوں کے عین سامنے جو گلی بائیں ہاتھ کو مڑتی ہے، اس کے دائیں طرف پہلے ایک خالی پلاٹ ہے اور اس کے بعد پہلا مکان ہمارا تھا۔ مرکزی دروازہ ڈیوڑھی میں کھلتا ہے، جس کے دونوں طرف نیلے دروازوں والی دو بیٹھکیں ہیں؛ ساتھ اسی رنگ کی کھڑکیاں جن میں لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔ پہلے ایک بیٹھک تھی، دائیں ہاتھ والی۔ بائیں ہاتھ والی بیٹھک کی جگہ خالی تھی۔ زمین کچی ہی پڑی تھی۔ بس ایک کنیر کا پودا لگا ہوا تھا اور پیچھے ایک چھپر سا تھا جس میں دو بکریاں رکھ لی تھیں۔ پھر جب کنبہ بڑا ہو گیا اور تم لوگوں کو ٹیوشن پڑھانے کے لے ماسٹر خدا بخش آنے لگے تو میں نے اس کچی جگہ پر ایک نئی بیٹھک بنوا لی تھی۔ دیواروں پر پلستر کروا لیا تھا مگر روغن کروانے کی استطاعت نصیب نہیں ہوئی۔ یوں ہی پلستر والی دیواروں میں ہی سارا وقت گزار دیا۔ لیکن اس کی چھت لینٹر کی تھی۔ باقی مکان کی طرح لکڑی کے شہتیروں اور کڑیوں والی نہیں تھی۔‘‘
بابوجی جب بھی بات کرتے، اتنی ہی تفصیل سے کرتے۔
’’ٹھیک ہے بابوجی! ٹھیک ہے، جب جاؤں گا تو دیکھ لوں گا!‘‘ میں بیزار ہو کر کہتا۔
’’ہاں ہاں، ضرور دیکھنا۔ اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھنا۔ یاد ہے نا وہ کونے والا کمرہ، جس میں تم پیدا ہوئے تھے؟‘‘
’’اب اپنا پیدا ہونا کسے یاد ہوتا ہے بابو جی!‘‘ میں مذاق کر کے ان کا دھیان بٹانے کی کوشش کرتا۔
’’مگر کمرہ تو یاد ہو گا نا۔ ڈیوڑھی سے نکل کر صحن میں داخل ہوں تو سامنے ہی گول محرابوں والا برآمدہ ہے۔ جس کے دوہرے ستون ہیں۔ یاد ہے نا، تم ان ستونوں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر کتنا اوپر چڑھ جایا کرتے تھے
میں خیال ہی خیال میں خود کو بندروں کی طرح ستونوں سے لپٹتا اور اوپر چڑھتا ہوا دیکھ کر شرمندہ ہو جاتا۔ ’’اگر کہیں میرے بچوں کو پتا چل جائے کہ میں ایسی حرکتیں کیا کرتا تھا تو۔۔۔۔‘‘
’’بابوجی! اس برآمدے کے دونوں کونوں پر کچن تھے نا۔ بھلا آپ نے ایک ہی گھر میں دو کچن کیوں بنوائے تھے۔‘‘ میں ان کا دھیان بٹانا چاہتا تھا۔
بابو جی پھیکی سی مسکراہٹ سے ہنستے اور کہتے، ’’میں نے سوچا تھا، بہو آئے گی تو تمھاری ماں کے ہاتھ کا کھانا اسے پسند آئے نہ آئے، ہم شروع میں ہی اس کا چولہا الگ کر دیں گے۔‘‘
’’واہ! بابوجی! آپ تو اس زمانے میں بھی بڑے ماڈرن خیالات کے مالک تھے۔‘‘
بابوجی کے چہرے پر سایہ سا لہرا جاتا۔
’’ہاں بیٹا، لیکن ماں باپ کتنے ہی ماڈرن اور دور اندیش ہو جائیں، بچے اس سے بھی چار ہاتھ آگے ہی نکل جاتے ہیں۔‘‘
میں دل ہی دل میں شرمندہ ہو جاتا۔ بابو جی نے پتا نہیں کیا کیا سوچا ہو گا۔ اولاد والدین کے خوابوں پر قدم رکھ کر ان سے بہت آگے بڑھ جاتی ہے۔
____________
اچانک کوئی شخص میرے کندھے سے زور سے ٹکرایا اور ایک بڑی سی گالی دے کر رکے بغیر آگے نکل گیا۔ میں نے چونک کر دیکھا، میں کربلا کے گیٹ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ مگر یہ وہ گیٹ نہیں تھا، جس کے دونوں حصے ہمیشہ سارا سال کھلے رہا کرتے تھے اورجس کے اندر ایک کھلے، ریتلے میدان میں شامِ غریباں کی مجلس سننے پورا شہر امڈ آتا تھا۔ ذو الجناح کے گھوڑے بھاگتے ہوئے پورے میدان کا چکر لگاتے اور آخر میں عزا داروں کے جلوس میں تعزیہ داخل ہوتا۔ نوحے، بین، ماتم اور زنجیر زنی کے مناظر دیکھ کر کیا شیعہ کیا سنّی، ہر ایک ہچکیاں لے لے کر رونے لگتا۔ ہم بچے تو رات گئے تک اسی میدان میں جمے رہتے۔ کبھی سبیل سے دودھ شربت لیا، کبھی نیاز کے چاول کھائے اور پھر سے کربلا کے کسی گوشے میں کھڑے ہو کر محو نظارہ ہو گئے۔
مگر اب اس میدان کا نام و نشان نہیں تھا۔ گیٹ لکڑی کے بجائے لوہے کا تھا اور بہت بڑا اور اونچا۔ اندر اونچی اونچی عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔ جن پر حضرت عباس کے پنجے والے علم لگے تھے۔ فصیل پر خاردار تاریں تھیں۔ باہر سیکیورٹی کی چوکی نصب تھی۔ گیٹ کے دونوں طرف برجیوں میں مسلح گارڈ مستعد کھڑے تھے جیسے کسی حملے کی اطلاع مل چکی ہو۔ چوکی کے ساتھ ایک بورڈ نصب تھا جس پر لکھا تھا، غیر متعلق افراد کا اندر داخل ہونا منع ہے۔
میرا دل دکھ گیا۔ ’’تو کیا اب میں غیر متعلق سمجھا جاؤں گا۔ کیا اب یہ کربلا میری نہیں رہی۔‘‘
اس کے ساتھ ہی گزرے ہوئے برسوں کی شیعہ سنّی منافرت کی کہانیاں ذہن میں گھوم گئیں۔ یہی شیعہ سنّی غیر ملکوں میں تو بھائی بھائی بن کر رہتے ہیں، پھر ہمارے ہاں۔۔۔۔
سیاست کی کڑواہٹ نے حلق میں جیسے مرچیں بھر دی ہوں۔
اب میں میٹھے نلکوں کے مقام کے بالکل قریب آ چکا تھا اور اچک اچک کر دائیں طرف دیکھ رہا تھا۔ سرکاری عمارت کی دیوار مجھے دور ہی سے نظر آ گئی تھی مگر اس کا سرخ رنگ طرح طرح کے اشتہاری پوسٹروں اور بورڈوں سے چھپ گیا تھا۔ دیوار کچھ دور جا کر دائیں طرف مڑ جاتی تھی۔
میٹھے نلکے یہیں ہونے چاہئیں۔
بائیں ہاتھ وہ گلی بھی نظر آ گئی جس کے پہلے مکان میں میں پیدا ہوا تھا۔ گلی چوڑی ہو گئی تھی اور اس کے اطراف میں بہنے والی بد رو پر چھت پڑ چکی تھی۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔ گلی کے دائیں طرف نہ وہ خالی پلاٹ تھا نہ وہ نیلے دروازوں والا مکان۔ ان دونوں کی جگہ ایک بڑی عمارت تھی جس پر ہسپتال کا بورڈ لگا تھا۔ بائیں طرف کا مکان بھی ایک نئی عمارت میں بدل چکا تھا جس پر کسی پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول کا بورڈ لگا تھا۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔
اب تک میں نے جتنی بھی تبدیلیاں دیکھی تھیں، سبھی نے مجھے مایوس کیا تھا، مگر اس تبدیلی نے تو مجھے اندر سے توڑ دیا۔ کچھ بچپن کی یادیں اور کچھ بابو جی کی باتیں، دونوں نے مل کر اس مکان کو میرے اندر اس طرح زندہ کر رکھا تھا کہ اس کا ایک ایک گوشہ میرے ذہن میں محفوظ تھا۔ مگر وہ مکان کہاں گیا۔
وہ مکان جس کی ایک ایک اینٹ بابوجی کے لفظوں میں اور شاید انھی کی بدولت میرے ذہن کی سطح پر کھدی ہوئی تھی جیسے کسی نے لکڑی کے تختے پر کاروِنگ کر کے بنائی ہو۔ وہ صحن، وہ برآمدہ، اس کے پیچھے وہ تین کمرے، درمیان کے گول کمرے میں سامنے ہی لگی کارنس پر پرانی فیملی تصویریں اور الارم والی گول گھڑی جو ہمیشہ درست وقت بتاتی تھی اور کبھی کھڑی نہیں ہوتی تھی کیوں کہ بابوجی روز صبح اٹھتے ہی اس میں چابی بھر دیتے تھے۔ دونوں طرف کی دیواروں کے ساتھ رنگین پایوں والے پلنگ لگے تھے جن پر ہاتھ کی کڑھائی والے پلنگ پوش بچھے رہتے تھے۔ درمیان میں دو آرام کرسیاں اور ان کے سامنے ایک سنٹر ٹیبل۔ یہ کمرہ نشست گاہ بھی تھا اور خواب گاہ بھی۔ کونے والے دونوں کمروں میں پیٹیوں کی قطاریں اور بستروں سے لدی ہوئی چارپائیاں پڑی رہتیں۔ کارنس کے دونوں طرف بغیر دروازوں کی دیواری الماریاں بھی تھیں جن میں بابو جی کی کتابیں قرینے سے جمی رہتیں اور ہم انھیں لائبریری سمجھتے تھے۔
اس زمانے میں کم و بیش ہر گھر کا یہی نقشہ ہوتا تھا۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے مختلف نمونے کے گھر بنانے کا خبط نہیں تھا اور نہ ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کا سودا تھا۔ بس جس کے پاس جو تھا، سامنے تھا۔ جس کی مرضی آئے، جس کی مرضی جائے۔ جب چاہے آئے جائے۔ نہ کوئی روک ٹوک، نہ ممانعت۔
لیکن وہ گھر اب تھا کہاں؟
احساسِ زیاں میرے اندر یوں کاٹتا ہوا اترتا جا رہا تھا جیسے میں نے تیزاب کی بوتل کو منھ لگا رکھا ہو۔ ایک لمحے میں یہ بات میرے شعور میں کسی تصویر کی طرح روشن ہو کر اتر آئی کہ مکان تو مٹی اور پتھروں سے بنے ہوتے ہیں مگر مکانوں کے نقشے، ان کا طرز تعمیر ایک خاص طرح کی رہتل بہتل اور طرز زندگی کے محافظ ہوتے ہیں۔ جب وہ طرزِ زندگی ترک کر دیا جائے تو مٹی اور پتھر بھی اپنی جگہ چھوڑ جاتے ہیں۔
یکایک میرا احساسِ زیاں ایک آبائی مکان کے ڈھے جانے کے غم سے نکل کر ایک بہت بڑے خلا میں جا گرا؛ یہاں تک کہ بابو جی کا خیال بھی میرے ذہن سے نکل گیا۔ میں نے گلی میں مڑنے کا ارادہ ترک کر دیا اور سامنے کی دیوار کی طرف بڑھنے لگا۔
وہاں نلکوں اور ان سے جڑی رونقوں کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ بس ایک کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی ہتھی والا زنگ آلود نلکا خاموش اور بے یار و مددگار کھڑا تھا۔ میں نے بے دھیانی میں ٹوٹی ہوئی ہتھی کو نلکے کے اوپر رکھ کر جمایا اور اسے چلا دیا۔ پانی کی ایک مٹیالی سی دھار نکلی۔ میں نے اوک بنا کر پانی کا گھونٹ بھرا تو وہ زہر کی طرح کڑوا کسیلا تھا۔
٭٭
ادبیات، اسلام آباد، شمارہ ۱۲۵، ۲۰۲۰ء، مدیر اختر رضا سلیمی
٭٭٭
بہت عمدہ منظر نگاری ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں بھی اس منظر کا حصہ بن گیا ہوں۔