میں شاید پانی میں یا کیچڑ میں گردن تک ڈوبا تھا۔
گلے میں آواز پھنس گئی تھی۔
یہ کیا میں تو گنہ گاروں کی قطار میں کھڑا تھا۔ نیکو کار لوگوں کی قطار بہت لمبی تھی۔ اس کی لمبائی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ قطار میری نظروں سے اوجھل ہو کر پتہ نہیں کدھر مڑ گئی تھی۔ گنہ گاروں کی قطار میں بہت کم لوگ تھے یا شاید تھے ہی نہیں۔ نیکو کار بندوں کی قطار داہنی طرف تھی اور گنہ گاروں کی بائیں طرف۔ میں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ نیکو کاروں کی قطار میں میرا کوئی شناسا، رشتہ دار، دوست اور پڑوسی ہے کہ نہیں۔ میں گنہ گار ہوں اس لیے گنہ گاروں کی قطار میں کھڑا کر دیا گیا۔ میری قطار میں ایک آدمی تھا یا دو آدمی یا شاید کوئی نہیں تھا۔ میرے پیچھے کتنے لوگ تھے بتا نہیں سکتا کہ میں مڑ کر دیکھنے کا قائل نہیں۔
میں رینگ رینگ کر آگے بڑھ رہا تھا۔ میرے آگے تو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
اچانک ایک آواز کانوں میں ٹکرائی۔۔۔ تم گنہ گاروں کی قطار میں کیوں کھڑے ہوئے؟
پتہ نہیں!
شاید گناہ کئے ہوں!
گناہ بتاؤ۔۔۔!
دل کھولتا ہوں اس کے اندر بند ہیں۔
اس طرح بتاؤ کہ آواز حلق سے باہر نہ نکلے۔
میری عمر ستتر (۷۷) سال ہے۔ بشری کمزوری اور اس سے سرزد ہونے والی لغزشیں، ہوس اور لالچ نے گناہ کروائے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اپنی غلطی اور گناہ پر نادم ہوا اور اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی مانگی۔۔۔ میرا رب رحیم و کریم ہے۔
پھر کان میں سرسراہٹ ہوئی۔
نہیں نہیں میں نے کسی کی حق تلفی نہیں کی۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی کو دکھ نہ دوں۔ ہاں کبھی کبھی زہریلے بول منہ سے نکل گئے۔ میں نے بستر پر جانے سے پہلے اپنا محاسبہ کیا اور اپنے رب سے معافی مانگی۔۔۔ چپکے چپکے آنسو بہا کر اس شخص سے جس کا میں گنہ گار ہوں اس سے بھی معافی مانگی۔
نہیں ایسا میں نے کبھی نہیں کیا۔ میں نے صدقہ کی ہوئی چیز کو کبھی اپنے تو اپنے غیروں کو بھی نہیں دیا۔۔۔ میں نے دائیں اور بائیں ہاتھ کے فلسفے کو نظر میں رکھا۔ رشتہ داروں، دوستوں، پڑوسی اور بہت قریبی لوگوں کو اپنے رب کے حوالے سے اس طرح دیا کہ بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پور بھی اس سے بے خبر رہے۔۔۔
دیتا تو میرا رب ہے۔۔۔ سانس کے اکھڑنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔
میں عبادت کرتا ہوں مگر اس پر فخر نہیں کرتا۔۔۔ میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میری عبادت شرف قبولیت حاصل کرے گی۔۔۔ میں عبادت کے حوالے سے کسی کو گمراہ نہیں کرتا
پھر سرسراہٹ ہوئی۔
نہیں یہ فریضہ میں نے اب تک انجام نہیں دیا۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک میں اتنا پاک و صاف نہیں ہوا کہ اس در پر حاضری دوں۔۔۔ ہاں میں ڈرتا ہوں، بہت ڈرتا ہوں۔۔۔ ان سے بھی جو اس فریضے کی ادائیگی کے بعد بھی، زر اور زمین کی بات کرتے ہیں اور ان سے بھی جو اس فریضے کے ہرا دا کرنے والے کو بہروپیا کہتے ہیں۔۔۔ نہیں میں کبھی کسی کو برا نہیں کہتا۔ میں دوسروں کے لئے بھی اپنے رب سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتا ہوں۔ شاید مجھ جیسے گنہ گار کی دعا قبول ہو جائے۔
ہاں ڈرتا ہوں اپنے آس پاس کے ہر فرد سے کہیں ان کے ساتھ کبھی کچھ غلط تو نہیں کیا میں نے۔ میرا گریبان تو وہ نہیں پکڑیں گے۔ سو دو زیاں اور سزا و جزا تو اس کے ہاتھ ہے۔ ہم محبت میں کانٹ چھانٹ کیوں کریں، کیوں۔۔۔ وہ تو نہیں کرتا۔۔۔ وہ تو اس کو بھی رزق دیتا ہے جو اس کی عبادت نہیں کرتا۔۔۔
پھر سرسراہٹ ہوئی۔ نہیں نہیں میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا۔ میں نے ہمیشہ اپنے دوست فن کاروں کے فن کو سراہا، اپنے فن سے بہتر اور بہترین کہا۔ لوگوں نے مجھے بھی فن کار کہا۔۔۔ میں نے ان کا استقبال کیا مگر مغرور نہیں ہوا۔
قبل اس کے کہ مجھ سے اور سوالات کیے جاتے، میری آنکھیں کھل گئیں۔۔۔ دروازے پر کوئی دستک دے رہا تھا۔ میں نہ تو پسینے سے بھیگا تھا اور نہ ڈر سے کانپ رہا تھا۔ ایک عجیب سی خوشبو جسم و جاں سے لپٹی تھی۔ اعتراف کے در کھل رہے تھے۔
میں نے برآمدے کا دروازہ کھولا۔
بھابھی جی!
وہ ہماری بیٹی کے گھر گئی ہیں۔
بیٹھیے وہ آپ کے لئے کچھ رکھ کر گئی ہیں۔
بھگوان بھابھی کو صحت و تندرستی دے، ان کو اچھا رکھے۔
آپ ہی تو سب کچھ ہیں۔۔۔!
نہیں۔۔۔ سب کچھ تو وہ ہے جو ہر طرف ہے مگر ہم اس کو آسمان میں تلاش کرتے ہیں۔
یہ جو کچھ دے رہا ہوں اس کے حکم سے دے رہا ہوں۔
اعتراف کا ایک دروازہ اور کھلا۔
مگر، میں اب بھی گنہ گار ہوں۔۔۔ اپنے کو گنہ گار کہنے سے ایک عجیب سی مسرت ہوتی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل کا سارا درد سمٹ سمٹا کر کہیں دور چلا گیا۔۔۔
اچانک میری آنکھ کھل گئی۔۔۔ میں کرگسوں کے درمیان لیٹا تھا۔ وہ مجھے ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے۔۔۔ میں گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوا اور دوڑتا چلا گیا۔
سانس درست کرنے کے لئے ذرا رکا ہی تھا کہ دیکھا، سروں پر سینگ سجائے کچھ لوگ میرے سامنے کھڑے تھے ان کی آنکھیں اُبلی پڑ رہی تھیں اور ان کی سانسوں میں بارود کی بو تھی۔۔۔ میں لڑکھڑا گیا۔ قبل اس کے کہ میں بے ہوش ہو جاتا کسی نے مجھے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔
آپ شانتی رنجن دا، آپ تو؟
میں تو مر گیا تھا، یہی نا مگر تمہارے دل کے اندر تو میں اب بھی زندہ ہوں۔ تم تو مجھے ہمیشہ یاد کرتے ہو۔ ہے نا یہ سچ۔۔۔؟ تمہیں یاد ہے نہ وہ دن جب کچھ لوگوں نے مجھے گھیر لیا تھا اور تم دور سے چیخے تھے مت مارو یہ میرا دوست ہے میرا محسن ہے
میں نے گھبرا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔ آنکھیں کھولیں تو خود کو ایک سایہ دار درخت سے لپٹا پایا۔۔۔ دور دور تک سناٹا تھا۔ میں آگے بڑھتا گیا، میں کدھر جا رہا تھا، کہاں جا رہا تھا خود سے بے خبر نا آشنا راستوں پر کہ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اجنبی ہیں؟ نماز پڑھیں گے؟ مغرب کی اذاں کا وقت ہو گیا ہے مگر مسجد یہاں سے دو کوس دور اشرفیہ گاؤں میں ہے۔ بہت دیر ہو جائے گی‘‘۔۔۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا چڑیوں کا غول اور کبوتروں کا جھنڈ اپنے اپنے آشیانوں کی طرف مائل پرواز تھا۔۔۔ میری آنکھوں میں ملبے میں تبدیل شدہ گنبد گھوم گئے۔۔۔
آئیے میرے ساتھ۔
میں بادل نخواستہ ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔ مندر سے ملحق ان کا کمرہ تھا۔ کمرے کے باہر ایک بڑا سا چبوترہ۔۔۔ وہ کمرے سے جائے نماز اور پانی سے بھرا تانبے کا لوٹا لے آئے۔ وضو کر لیں، جائے نماز بچھا دی ہے ٹوپی تو آپ نے پہن رکھی ہے۔ اکثر میرے مسلم دوست اور ملاقاتی آتے رہتے ہیں۔۔۔۔
میں نے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی۔ آرام و اطمینان سے وظائف پڑھے، لمبی دعائیں مانگیں۔۔۔ ابھی جائے نماز تہہ بھی نہیں کیا تھا کہ وہ بتاشا اور چوڑا لے کر آ گئے، جل پان کر لیجئے۔۔۔ آج بہت دنوں بعد یہ موقع ملا ہے۔
میں نے ان کی آنکھوں میں اترنے کی کوشش کی مگر ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سمندر تھا۔ آپ بہت غور سے کبوتروں اور چڑیوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہاں سے کوئی کبوتر یہاں نہیں آیا۔ وہ جانتے ہیں کہ ان ہی ملبوں کے آس پاس ان کو رہنا ہے جہاں وہ پیدا ہوئے۔ انہوں نے گلو گیر آواز میں کہا اور پوچھا اب آپ کہاں جائیں گے۔
دل کرتا ہے کچھ دنوں آپ کے یہاں رک جائیں، کچھ اور جان لیں۔
ہم ہزاروں سال سے ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اب تک ایک دوسرے کے دل میں اتر نہ سکے۔ ہم مصافحہ کرتے ہیں، آداب بجا لاتے ہیں مگر وہ جو کونے کھدرے میں چھپا شک ہے اسے مٹانے میں ناکام رہتے ہیں اچانک زور سے بجلی کڑکی۔۔۔ میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں ایک وسیع و عریض باغ میں کھڑا تھا۔ اچانک تیز بہت تیز ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ میں نے اپنی آنکھوں پر دائیں ہاتھ کی ہتھیلی رکھ دی۔ یہ کیا؟ میں نے دیکھا میرے کُرتے کی آستین پر خون رنگ آنسوؤں کے قطرے جذب تھے۔ ابھی پوری طرح مسکرایا بھی نہیں تھا کہ آنکھیں پھر بند ہونے لگیں۔۔۔۔
٭٭٭
آج کل، نئی دہلی، ستمبر ۲۰۲۰ء، مدیر: ابرار رحمانی