پنجابی نظم ۔۔۔ امرتا پریتم
امرتا پریتم کی آخری نظم (امروز کے لیے)
میں تجھے پھر ملوں گی
کہاں؟ کس طرح؟ نہیں معلوم
شاید تیرے تخیل کی چنگاری بن کر
تیرے کینوس پر اتروں گی
یا شاید تیرے کینوس کے اوپر
ایک رہسیہ مے* ریکھا بن کر
خاموش ہوئی تجھے دیکھتی رہوں گی
یا شاید سُوریہ کی لو بن کر
تیرے رنگوں میں گھُلوں گی
یا رنگ کے بازوؤں میں بیٹھ کر
تیرے کینوس سے لپٹوں گی
پتا نہیں کس طرح۔ کہاں
پر تجھے ضرور ملوں گی۔
یا شاید ایک چشمہ بنی رہوں گی
اور جیسے جھرنوں کا پانی اُمڈتا ہے
میں پانی کی بوندیں
تیرے جسم پر مَلوں گی
اور ایک ٹھنڈک سی بن کر
تیرے سینے کے ساتھ لگوں گی۔۔۔
میں اور کچھ نہیں جانتی
پر اتنا جانتی ہوں
کہ وقت جو بھی کرے گا
یہ جنم میرے ساتھ چلے گا۔۔۔
یہ جسم ختم ہوتا ہے
تب سب کچھ ختم ہوتا ہے
پر سمرتیوں کے دھاگے
کائناتی ذرّوں کے ہوتے ہیں
میں اُن ذروں کو چُنوں گی
دھاگوں کو لپیٹوں گی
اور تجھے میں پھر ملوں گی۔
٭ بھید بھری
٭٭
چہارسو، راولپنڈی، مئی جون ۲۰۱۰ء، مدیر گلزار جاوید
٭٭٭