جب سے جانا ہے غمِ زیست سے حاصل کیا ہے میں یہی سوچ رہا ہوں متبادل کیا ہے خواب آنکھوں میں بسائے تو ہوئی یہ خواہش کوئی ہم سے بھی یہ پوچھے کہ غمِ دل کیا ہے لوگ ہر قید سے آزاد ہوئے جاتے ہیں پوچھئے کس سے کہ اب کارِ سلاسل کیا ہے کس کو فرصت ہے کرے ہم کو جو زندہ ثابت بس یہی ایک وکیل اپنا ہے، قاتل کیا ہے نقش معدوم ہوئے جاتے ہیں رفتہ رفتہ اے خدا! آج مری راہ میں حائل کیا ہے آئینہ خانے میں یہ دیکھ رہا ہوں راحت مختلف کیا ہے یہاں اور مماثل کیا ہے ٭٭ کیسا نقشہ ہے کہ لگتا نہیں ساکن کوئی یہ بھی ممکن ہے کہ رہتا ہو یہاں جن کوئی اپنی آنکھوں سے کہو اپنے ہی اندر دیکھیں آئینہ یوں بھی دکھاتا نہیں باطن کوئی رات ہوتے ہی نکل جاتی ہے ساری تیزی جانے کب آن کے ڈس جاتی ہے ناگن کوئی رخ پہ دیوار نہ دیوار کا سایہ کوئی اس خرابے میں بقا کا نہیں ضامن کوئی ایک ہی ذکر سے اوبے نہ طبیعت کب تک یہ سماں کیسے گوارا کرے ہر دن کوئی یاد ہے مجھ کو ابھی اپنی روایت راحت ڈھونڈ لیتا ہوں میں ہر موڑ پہ محسن کوئی ٭٭ ادب ساز، شمارہ ۲، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء، مدیر نصرت ظہیر
جب سے جانا ہے غمِ زیست سے حاصل کیا ہے
میں یہی سوچ رہا ہوں متبادل کیا ہے
خواب آنکھوں میں بسائے تو ہوئی یہ خواہش
کوئی ہم سے بھی یہ پوچھے کہ غمِ دل کیا ہے
لوگ ہر قید سے آزاد ہوئے جاتے ہیں
پوچھئے کس سے کہ اب کارِ سلاسل کیا ہے
کس کو فرصت ہے کرے ہم کو جو زندہ ثابت
بس یہی ایک وکیل اپنا ہے، قاتل کیا ہے
نقش معدوم ہوئے جا تے ہیں رفتہ رفتہ
اے خدا! آج مری راہ میں حائل کیا ہے
آئینہ خانے میں یہ دیکھ رہا ہوں راحت
مختلف کیا ہے یہاں اور مماثل کیا ہے
٭٭
کیسا نقشہ ہے کہ لگتا نہیں ساکن کوئی
یہ بھی ممکن ہے کہ رہتا ہو یہاں جن کوئی
اپنی آنکھوں سے کہو اپنے ہی اندر دیکھیں
آئینہ یوں بھی دکھاتا نہیں باطن کوئی
رات ہوتے ہی نکل جاتی ہے ساری تیزی
جانے کب آن کے ڈس جاتی ہے ناگن کوئی
رخ پہ دیوار نہ دیوار کا سایہ کوئی
اس خرابے میں بقا کا نہیں ضامن کوئی
ایک ہی ذکر سے اوبے نہ طبیعت کب تک
یہ سماں کیسے گوارا کرے ہر دن کوئی
یاد ہے مجھ کو ابھی اپنی روایت راحت
ڈھونڈ لیتا ہوں میں ہر موڑ پہ محسن کوئی
٭٭
ادب ساز، شمارہ ۲، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء، مدیر نصرت ظہیر