غزلیں ۔۔۔ سید امین اشرف

 

زیب اس کو یہ آشوب گدائی نہیں دیتا

دل مشورۂ ناصیہ سائی نہیں دیتا

 

کس دھند کی چادر میں ہے لپٹی کوئی آواز

دستک کے سوا کچھ بھی سنائی نہیں دیتا

 

ہے تا حد امکاں کوئی بستی نہ بیاباں

آنکھوں میں کوئی خواب دکھائی نہیں دیتا

 

عالم بھی قفس رنگ ہے ایسا کہ نظر کو

اس دام تحیر سے رہائی نہیں دیتا

 

یادوں کو سلا دیتا ہے سائے میں شجر کے

وہ حوصلۂ درد رسائی نہیں دیتا

 

دل اس کا ہتھیلی پہ ہے میرے لےر لیکن

ہاتھوں میں مرے دست حنائی نہیں دیتا

 

آرائش جاں کے لےا کافی نہیں وحشت

مجھ کو تو کوئی زخم دکھائی نہیں دیتا

 

اس عشق میں کچھ شائبہ حرص بھی ہوگا

میں قوت باطن کی صفائی نہیں دیتا

 

روشن ہے شب ہجر بہ انداز تعلق

وہ مہر نظر داغ جدائی نہیں دیتا

٭٭

شبخون، آخری شمارہ، شمارہ ۲۹۳ تا ۲۹۹، جون تا دسمبر ۲۰۰۵ء، مدیرہ: عقیلہ شاہین

٭٭٭

 

یہ صبح و شام مری ہے نہ ساز و رخت مرا

ہے کوئی اور جو کرتا ہے بندوبست مرا

 

دماغ سیر نفس سوز و ساز رنج و نشاط

میان بیم و رجا ہے یہ بود و ہست مرا

 

مجھے ہے ذرۂ خاکی بھی مطلع گردوں

بلند‌‌ بیں ہے خیال بلند و پست مرا

 

مرے فسانے میں یزداں بھی اہرمن بھی مگر

وہ ڈھونڈھتا رہا عنوان سرگزشت مرا

 

یہ لڑکھڑاتے ستارے یہ جوئے مست خرام

بکھر رہا ہے خیال‌ جنوں پرست مرا

 

مرے ندیم‌‌ دل و جاں پہ خسروی تسلیم

شہی عصائے دل آرا کی تاج و تخت مرا

 

فلک نما تھا جمال غزال رم خوردہ

اسی کے ساتھ گیا آسمان‌‌ بخت مرا

 

نہ جانے کیوں اسے سچ ناگوار گزرا ہے

کہ دل نواز تھا لہجہ نہ تھا کرخت مرا

٭٭

آج کل، نئی دہلی، ستمبر 2010، مدیر: ڈاکٹر ابرار رحمانی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے