اقتباس
۱
سر شام افق پر اُگے تنہا ستارے کی بھی اپنی ایک اداسی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔!
اس کی آنکھوں میں اداسی کا کچھ ایسا ہی رنگ تھا اور اگر دھند کا کوئی چہرہ ہوتا ہے تو اُس کا چہرہ بھی۔۔۔۔۔
وہ خوب صورت نہیں تھی۔ خط و خال بھی تیکھے نہیں تھے۔ پھر بھی ہونٹوں کے خم دلگیر تھے اور آنکھوں میں تنہا ستارے کی جھلملاتی سی اداسی تھی۔ بالائی ہونٹوں کا مرکزی حصّہ دبیز تھا جو کنارے کی طرف اچانک باریک ہو گیا تھا اور نچلا اندر کی طرف ا ک ذرا دھنسا ہوا۔۔۔۔ وہ خاموش رہتی تو لگتا صدیوں سے لب وا نہیں ہوئے اور باتیں کرتی تو جیسے تتلیاں پکڑتی تھی۔ دانت ہم سطح اور سفید تھے۔ آ گے کے دو دانتوں کے درمیان ہلکا سا شگاف تھا۔ یہ راہو کا اثر تھا۔۔۔۔۔۔
اور مجھ میں یہی خرابی ہے۔۔۔۔۔ آدمی میں فوراً اس کے ستارے ڈھونڈنے لگتا ہوں۔ ایک نقص اور ہے جب کوئی قصّہ بیان کرتا ہوں تو واقعات کا تسلسل ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔ مجھے چاہیے تھا کہ پہلے ساجی کی بابت بتاتا کہ کون تھی اور یہ کہ اس سے تعلّقات کی نوعیت کیا تھی؟
اصل میں میرا تبادلہ ہمیشہ چھوٹے شہر میں ہوتا ہے جہاں ڈھنگ کے اسکول نہیں ہوتے لیکن سیفی اور کیفی کا پٹنہ کے اچھے اسکول میں داخلہ ہو گیا ہے۔ نصیب بچّوں کو لے کر پٹنہ میں رہتی ہے اور میں آتا جاتا رہتا ہوں۔ اکثر چھٹّیوں میں سب میرے پاس چلے آتے ہیں۔
میری پوسٹنگ ان دنوں لال گنج میں تھی۔ کچھ دن آفس کے کمرے میں گذارہ کیا۔ پھر معلوم ہوا کہ چوک کے قریب ایک فلیٹ خالی ہے تو دیکھنے چلا آیا۔
فلیٹ پسند آیا۔ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔ ایک چھوٹی سی بالکنی بھی تھی جو میدان کی طرف کھلتی تھی۔ میدان کے آخری سرے پر برگد کا ایک پیڑ تھا۔ مجھے حیرت ہوئی۔ گھنی آبادی والے شہر میں عموماً ایسے پیڑ نظر نہیں آتے۔ پیڑ گھنا تھا اور اس کی لٹیں نیچے تک جھول رہی تھیں۔ تنے پر سیندور کے گہرے نشانات تھے جو بالکنی سے صاف نظر آ رہے تھے۔ تنے سے لگ کر کچھ مہابیری جھنڈے رکھے ہوئے تھے۔ پیڑ کی پوجا ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے اس شہر میں پیڑ ابھی بھی سلامت تھا۔
بالکنی اچھی لگی۔ وہسکی پینے کے لےے یہ جگہ مناسب تھی۔ مکان مالک نے کرایہ پانچ ہزار بتایا تھا۔ کرایہ معقول تھا اور میرے بجٹ سے زیادہ نہیں تھا لیکن ایک جو فطرت ہوتی ہے مول تول کی۔۔۔۔۔ تو میں نے فوراً اپنی رائے ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا ورنہ وہ کرایہ کم نہیں کرتا۔ جس بالکنی کی وجہ سے فلیٹ پسند آیا تھا، اسی پر اعتراض کیا۔
’’بالکنی چھو ٹی ہے۔‘‘
’’آپ اسے چھوٹی کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’بالکل۔‘‘
’’دس فٹ لمبی بالکنی چھوٹی نہیں ہوتی۔‘‘
’’چوڑائی میں کم ہے۔‘‘ میں نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’اب آپ کو مکان نہیں پسند ہے تو اور بات ہے۔‘‘ مکان مالک جھنجھلا گیا۔ اس کی جھنجھلا ہٹ پر مجھے لطف آیا۔
’’اس لحاظ سے کرایہ زیادہ ہے۔‘‘
’’سو روپے کم دیجیے گا۔‘‘
’’چار ہزار۔‘‘
وہ چپ ہو گیا۔ مجھے لگا اس پر حاوی ہو رہا ہوں۔ امید بندھی کہ راضی ہو جائے گا۔
’’چار ہزار کم ہوتے ہیں۔‘‘
’’مناسب ہے۔ ٹو لیٹ کا بورڈ دیکھ کر یہاں آ گیا ورنہ دفتر کے قریب ہی کوئی مکان دیکھتا۔‘‘
’’اب میں کیا کہوں؟‘‘ اس کے لہجے میں احتجاج تھا۔ میں مسکرایا اور رقم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے خوش دلی سے بولا۔
’’پیشگی رکھ لیجیے۔۔۔۔!‘‘ ایک لمحے کے لے سوچا کہ چار ہزار میں راضی نہیں ہوا تو ساڑھے چار ہزار میں ہو جائے گا۔
آدمی سادہ لوح تھا۔ راضی ہو گیا۔ میں جب اس کی طرف رقم بڑھا رہا تھا تو اچانک محسوس ہوا کوئی دروازے کی اوٹ سے جھانک رہا ہے۔ ادھر نظر ڈالی۔ چہرہ فوراً چھپ گیا پھر بھی پیشانی کی چمکتی ہوئی بندیا صاف جھلک گئی۔
وہاں سے نکل کر نصیب کو فون پر بتایا کہ مکان مل گیا ہے، کرایہ چار ہزار ہے اور یہ کہ کل شفٹ کر جاؤں گا۔ نصیب نے سب کی خیریت سے آ گاہ کیا اور پوچھا کہ میں گھر کب آ رہا ہوں؟ میں نے اگلے اتوار کی تاریخ بتائی۔ دوسرے دن ساز و سامان کے ساتھ فلیٹ میں شفٹ کر گیا۔
یہ تین منزلہ عمارت تھی جس میں تین فلیٹ تھے۔ ایک فلیٹ نچلی منزل پر تھا جس میں کوئی وکیل صاحب رہتے تھے۔ بیچ والی منزل پر میں آ گیا تھا اور مکان مالک اوپری منزل پر تھا۔ نیچے جو مشترکہ سیڑھی اوپر کی طرف گئی تھی، وہ بیچ کی منزل پر ایک چورس سطح پر ختم ہو گئی تھی۔ میرے فلیٹ کے دونوں کمرے کے صدر دروازے اسی سطح پر کھلتے تھے۔ بیڈ روم کا ایک دروازہ اندر سائبان میں کھلتا تھا جس کے نصف حصّے میں مکان مالک کا کچن تھا۔ سائبان کا باقی حصّہ میرے تصرّف میں تھا۔ شاید مکان کی تعمیر ایک بار نہیں ہوئی تھی۔ میں جس حصّے میں رہتا تھا۔ وہ غالباً پہلے بنا تھا۔ مکان مالک نے اسے سہولت کے مطابق وقتاً فوقتاً بنایا ہو گا۔ کچن سے ہوتی ہوئی ایک دوسری سیڑھی اوپر کی طرف گئی تھی جہاں بیڈ روم تھے۔ اس کا بیڈ روم میرے بیڈ روم کے عین اوپر واقع تھا۔ مکان مالک سیدھا سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوتا جس کا پتا مجھے اس کے قدموں کی چاپ سے ہوتا تھا۔
میرے کمرے میں سامنے کی دیوار پر ایک چھوٹا سا روشن دان تھا جس سے لگ کر سیڑھی اوپری منزل کی طرف گئی تھی۔ روشن دان میں سیمنٹ کی جالی لگی ہوئی تھی جس میں پرانا اخبار چسپاں تھا۔ اخبار گرد آلود تھا اور اس میں جگہ جگہ سوراخ ہو گئے تھے اور رنگ پیلا ہو گیا تھا۔ کمرے میں پنکھا چلتا تو اخبار کا کونا پھڑپھڑانے لگتا۔ کچن کی سیڑھیاں طے کرتا ہوا کوئی اوپری منزل پر جاتا تو اس کا سر روشن دان کی جالیوں سے نظر آتا۔ میں جب بھی بستر پر ہوتا نظر ادھر اٹھ جاتی۔۔۔۔۔ لگتا کوئی جھانک رہا ہے ور ایک دن سامنا بھی ہو گیا۔ میں سیڑھیاں پھلانگ رہا تھا اور وہ خراماں خراماں اتر رہی تھی۔ سیڑھی جہاں اندر کی طرف مڑی تھی، وہاں اس سے اچانک ٹکرا گیا۔ میرے ہاتھ اس کے کولہے سے چھو گئے۔۔۔۔۔ وہ ٹھٹھک گئی اور میں گھبرا گیا۔ در اصل میرا ہاتھ بہت غلط انداز سے اس کے کولہے سے مس ہوا تھا۔ یہ ٹکّر ایک دم غیر متوقع تھی۔
’’اوہ۔۔۔۔ ساری۔۔۔۔!‘‘ میں نادم تھا۔
جواب میں اس نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا، آہستہ سے مسکرائی اور نیچے اتر گئی۔۔۔۔ میں اسی طرح سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اپنے کمرے میں آیا۔
وہ کس طرح مسکرائی تھی۔۔۔۔؟ میں نے گدگدی سی محسوس کی۔ میرے ہو نٹوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی۔ میں بستر پر لیٹ گیا اور اس خوشگوار ٹکّر کے بارے میں سوچنے لگا۔ دفعتاً میں نے محسوس کیا کہ کوئی دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ قدموں کی ہلکی سی چاپ صاف سنائی دی۔ لگا وہی ہو گی۔ چاہا اٹھ کر دیکھوں لیکن بستر پر ہی پڑا رہا۔ وہی تھی۔ اس نے اچانک آخری سیڑھی پر چھلا نگ لگائی اور ہنستی ہوئی کاری ڈور میں گھس گئی۔ میں مسکرائے بغیر نہیں رہا۔ اس کی ہنسی میں کھنک تھی۔ زہرہ والی عورتیں اسی طرح ہنستی ہیں۔ اس دن شام کو یہ دیکھنے کا موقع بھی مل گیا کہ ستارہ زہرہ اس کے زائچے میں کہاں واقع ہے؟
وہ ستاروں کا حال جاننے آئی تھی۔ ساتھ میں درجات یعنی شوہر نامدار بھی تھا۔ اس کے ہاتھ میں جنم کنڈلی تھی۔ کنڈ لی پولی تھین میں لپٹی ہوئی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ بات انہیں کیسے معلوم ہوئی کہ میں نجومی بھی ہوں۔ درجات نے بتایا کہ یہ انکشاف میرے ہیڈ کلرک نے کیا تھا۔ میں نے کنڈلی پھیلائی۔ وہ برج سرطان میں پیدا ہوئی تھی۔ زہرہ اور راہو ساتویں خانے میں تھے۔ زحل دوسرے خانے میں مشتری کے ساتھ بیٹھا تھا۔
’’آپ کھانا دیر سے ختم کرتی ہیں؟‘‘ میں نے پو چھا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’آپ کو آنولے کا مربّہ پسند ہے؟‘‘
اس کی آنکھوں میں حیرت کا رنگ گھل گیا۔
’’کنڈلی میں یہ بھی ہوتا ہے؟‘‘
’’پوری زندگی کی چھاپ ہوتی ہے۔‘‘
’’آپ بہت پڑھتے ہیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’میں دیکھتی ہوں آپ ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں۔‘‘
’’آپ نے کیسے دیکھ لیا؟‘‘
’’دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔‘‘
’’جھوٹ۔‘‘
’’کیوں؟ جھوٹ کیوں۔۔۔؟‘‘
’’آپ روشن دان سے دیکھتی ہیں۔‘‘
وہ جھینپ گئی۔ اس نے کنکھیوں سے درجات کی طرف دیکھا۔ وہ ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی بہت مدھم اور بہت عجیب تھی۔۔۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔ غٹ۔۔۔۔۔ جیسے حلق میں کچھ انڈیل رہا ہو۔ اس کا دہانہ پھیل گیا تھا۔ بتیسی جھلک گئی تھی اور حلق سے غٹ غٹ کی آواز نکل رہی تھی۔ اس طرح ہنستے ہوئے وہ ہونّق معلوم ہوا۔
’’کچھ اور بتایئے۔‘‘
’’کنڈلی مکمّل نہیں ہے۔‘‘
’’گاؤں کے پنڈت نے بنائی ہے۔‘‘
’’میں خود بناؤں گا اور آگے کا حال بتاؤں گا۔‘‘ میں نے پیچھا چھڑانے کے لے کہا۔
اصل میں مجھے درجات سے الرجی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھ میں یہ عیب ہے۔ میں اکثر کسی شخص سے خوا ہ مخواہ بھی الرجی محسوس کرنے لگتا ہوں۔ خاص کر اُن سے جن کا آئی کیو کم ہے۔ درجات گرچہ آدمی سادہ لوح تھا لیکن آنکھیں عجیب مند مند سی تھیں۔ آنکھیں روح کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ درجات کی آنکھوں سے نہ روح کا اضطراب جھلکتا تھا نہ انبساط کی کوئی آتی جاتی سی لہر اُن میں تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک مکروہ قسم کی آسودگی تھی جیسے تالاب میں ٹھہرے ہوئے پانی کا سکوت۔۔۔۔۔۔
ایسا لگتا تھا یہ شخص زندگی میں کبھی کسی کرب سے نہیں گذرا۔ اس کی ہنسی جیسے کہرے میں لپٹی ہوئی تھی۔ آواز اتنی مدھم تھی کہ کمرے میں بھی مشکل سے سنائی دیتی تھی۔
وہ اٹھ گئی۔ جاتے جاتے اس نے حسرت سے کتابوں کی شیلف کی طرف دیکھا۔
جو آنکھیں خواب بنتی ہیں ان میں دھند ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں بھی دھند تھی۔ دھند سے پرے انتظار تھا۔ ایک تلاش تھی۔۔۔۔۔ آخر شیلف کی طرف اس طرح دیکھنے کا کیا مطلب تھا اور پھر روشن دان سے مجھے گھورتے رہنا۔۔۔۔؟ مجھے حیرت ہوئی کہ چالیس کی دہلیز سے گذرتی ہوئی عورت آخر کس مقام میں اپنے لے راحت ڈھونڈ رہی تھی؟ روح میں اگر ایک بار سنّاٹا قائم ہو جائے تو کبھی نہیں بھرتا۔ اس کی روح میں یقیناً کوئی خلا تھا جس کی تکمیل میں وہ سرگرداں تھی۔ مجھے یقین تھا کہ تنہائی میں ملاقات ہوئی تو راز افشا ہو گا اور یہ موقع بھی جلد ہی مل گیا۔
اس بار وہ رینو کی کنڈلی دکھانے آئی تھی۔ درجات ساتھ نہیں تھا لیکن سات سال کی رینو کو لے کر آئی تھی۔ اس کی چار بیٹیاں تھیں بلکہ پانچ۔۔۔۔۔ پانچویں کا پتا مجھے بعد میں چلا۔ رینو سب سے چھوٹی تھی۔ اس کے ہاتھ میں رینو کی کنڈلی تھی لیکن اس کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ وہ صرف اپنے ہی بارے میں باتیں کر رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا وہ ایک بہانے سے آئی ہے۔
’’میری کنڈلی بنی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
کچھ بتایئے نہ۔۔۔!‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کچھ بھی۔‘‘
’’آپ کی زندگی کا باب ختم ہو گیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’شادی ہو گئی۔ گھر بس گیا۔ بچّے ہیں۔‘‘
’’دوست۔۔۔۔!‘‘
’’دوست۔۔۔۔؟‘‘ میں چونکے بغیر نہیں رہا۔
وہ دور خلا میں تکنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کا رنگ گہرا گیا تھا۔
اچانک وہ چہکی۔ ’’وہ دیکھیے۔‘‘
میں نے بالکنی سے باہر دیکھا۔ برگد کی اوپری شاخ پر ایک بگلا تنہا بیٹھا تھا۔ اس نے چونچ گردن میں چھپا رکھی تھی۔
’’کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ وہ اسی طرح چہک کر بولی۔ اس کا چہرہ ایک معصوم سی خوشی سے دمک رہا تھا۔ یہ بات ایسی تھی جیسے کسی بچّے کو کوئی عجوبہ نظر آئے اور وہ خوشی سے تالیاں بجائے۔
’’جی چاہتا ہے چپکے چپکے جاؤں اور بگلے کے سفید پروں کو آہستہ سے چھوتی ہوئی گذر جاؤں۔‘‘
میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
’’برسات کے دنوں میں جب بادل گھر آتے ہیں تو یہاں سفید بگلوں کی قطار ہوتی ہے۔ میں گھنٹوں بیٹھی تکا کرتی ہوں۔‘‘یہ بات اس نے بے ساختہ کہی تھی۔ اس کی بے ساختگی بہتے جھرنے کی طرح مترنّم تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پا نچ بچّے جننے کے بعد بھی ایک عورت اس طرح معصوم ہو سکتی ہے۔ وہ اپنی داخلیت میں مری نہیں تھی۔ وہ محسوسات کی اسی سطح پر تھی جہاں پچیس سال قبل رہی ہو گی۔ میں نے اس منظر کو اس کے ساتھ شیئر کیا۔
’’واقعی بہت پیارا لگ رہا ہے۔‘‘
’’ہے نا۔۔۔۔؟‘‘ وہ اور خوش ہو گئی۔
میں مسکرایا۔ منظر جیسا بھی تھا، اس کے احساسات کا پاس ضروری تھا۔ وہ تنہا ان لمحوں کو جی رہی تھی۔ درجات نے ایسے احساسات کبھی شئیر نہیں کیے ہوں گے۔ اس کی امید بھی اس جیسے گاؤدی شخص سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ ان لمحوں کو جینے کی آرزو اُس کی روح میں تھی اور اس آرزو نے اس کی معصومیت کو برقرار رکھا تھا۔ مجھے چاہیے تھا کہ اس کے قریب بیٹھ جاتا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر آہستہ سے دباتا اور دونوں ایک ٹک لگائے پرندے کو دیکھتے۔ مجھے یقین تھا وہ برا نہیں مانتی لیکن میں نے خود پر قابو رکھا اور مجھے چاہیے بھی تھا۔ پانچ بچوں والی ماں سے رشتہ استوار کرنا مناسب نہیں تھا۔ میں خود شادی شدہ تھا دو بچّوں کا باپ۔۔۔۔! نصیب پر کیا اثر ہو گا۔۔۔۔؟ پرائی عورتوں کی بو بہت جلد سونگھتی ہے۔ قیامت ڈھا دے گی۔۔۔۔۔ کہتی ہے ترین قبیلے کی ہوں۔ میں نے ترین عورتوں کا غصّہ دیکھا ہے۔
بالکنی سے اٹھ کر ہم کمرے میں آئے۔
’’آپ کیا پڑھتے ہیں؟‘‘ اس نے شیلف پر ایک نظر ڈالی۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’آپ کی دلچسپی کس موضوع سے ہے؟‘‘
’’میری دلچسپی آثارِ قدیمہ میں ہے۔‘‘
’’میں آپ کو آثارِ قدیمہ نظر آتا ہوں؟‘‘ میں شرارت سے مسکرایا۔
نہیں تو۔۔۔۔!‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور دیر تک ہنستی رہی۔ یہاں تک کہ اُس کا آنچل ڈھلک گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی چھاتیاں ابھی بھی۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ تو رئیس ہیں۔‘‘ وہ آ نچل سنبھالتی ہوئی بولی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’آپ کو پڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں۔۔۔۔۔ بستر پر دراز۔۔۔۔ ہاتھوں میں کتاب۔۔۔۔ انگلیوں میں سگریٹ دبی ہوئی۔۔۔۔ خدمت گذار پاؤں دباتے ہوئے۔۔۔۔۔ اچھا لگتا ہے آپ کا یہ روپ۔۔۔۔!‘‘
میں خاموش رہا۔ وہ پھر کہیں کھو گئی۔ ایک ٹک فرش کو تکنے لگی۔
’’آپ کہیں کھو گئیں۔‘‘ میں نے ٹوکا۔
اس نے پھیکی سی مسکرا ہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور حسرت بھرے لہجے میں بولی کہ وہ چھٹی جماعت تک پڑھی ہوئی ہے۔ گاؤں کے اسکول میں پڑھتی تھی کہ شادی ہو گئی۔ اس نے پہلا تلخ تجربہ بیان کیا۔ وہ یہ کہ اسے بتایا گیا تھا کہ سسرال میں لوگ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ یہاں آئی تو معلوم ہوا سبھی مڈل فیل ہیں۔ خود درجات نے کہا تھا اُس کے پاس کتابوں سے بھری الماری ہے لیکن ایک اخبار تک اس گھر میں نہیں آتا۔
’’شادی کے بعد پڑھتیں؟‘‘
’’کیسے پڑھتی۔ یہاں ماحول نہیں تھا اور میری عمر اس وقت محض پندرہ سال تھی۔‘‘
اس کا لہجہ اداس تھا اور مجھے لگا اس کی پلکیں بھی نمناک ہیں۔ میں نے غور سے دیکھا۔ آنکھوں کے گوشے میں پلکوں پر آ نسو کا ننھا سا قطرہ لرز رہا تھا۔ مجھ میں ہلچل سی ہوئی۔ میرے جی میں آیا اس کی بھیگی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ اصل میں میری ایک کمزوری ہے، عورت کے آنسو مجھے بر انگیختہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ خصوصاً سسکی لیتی ہوئی عورت۔۔۔۔۔۔ اس کے سکڑتے اور پھیلتے ہونٹ۔۔۔۔۔! شاید یہ میری سادیت پسندی ہے۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میرے لےم اس عورت کو چھونا آسان ہے۔ ہر عورت اپنے لا شعور کے نہاں خانوں میں ایک مثالی مرد کی تصویر سجائے رکھتی ہے۔ وہ اس شخص سے قربت محسوس کرتی ہے جس میں مثالی شبیہ نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے درجات میں یہ خوبیاں برائے نام بھی نہیں تھیں اور مجھ میں۔۔۔۔۔؟ میرے پاس کتابوں سے بھری شیلف تھی۔ میں اس کی نظر میں ہیرو تھا۔۔۔۔۔ اعلا درجے کا رئیس۔۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں کتاب۔۔۔ انگلیوں میں سگریٹ۔۔۔۔ خدمت گذار پاؤں دباتے ہوئے اور جالیوں سے تکتی ہوئی وہ۔۔۔۔!
جس لہجے میں اس نے یہ منظر بیان کیا تھا وہ معنی رکھتا ہے۔ اس میں حسرت تھی۔۔۔۔۔ اس منظر نامے کا حصّہ بن جانے کی حسرت جو اُس کی زندگی میں سراب کی طرح ابھرا تھا اور یہی وہ مقام تھا جہاں میں اس کی مثالی شبیہ میں بہت حد تک موجود تھا۔
میں نے اس کی دلجوئی کی۔ ’’آپ ابھی بھی پڑھ سکتی ہیں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’پرائیویٹ سے امتحان دیجیے۔۔۔۔ میں پڑھا دوں گا۔‘‘
جواب میں ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے ہو نٹوں پر پھیل گئی۔ کچھ بولی نہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھی پھر جاتے جاتےتا کید کر گئی کہ میں اس کی کنڈلی ضرور بنا دوں۔
نصیب کے کچھ اپنے الفاظ بھی ہیں۔۔۔۔۔ ’’او ٹکّر لیس۔‘‘، ’’انترا‘‘ اور ’’سین کی دھوپ۔‘‘
اگلی اتوار کو جب میں گھر پہنچا تو نصیب سین کی دھوپ میں گرم کپڑے سکھا رہی تھی۔ پہلے یہ بات میری سمجھ سے پرے تھی کہ نصیب ستمبر کی دھوپ کو سین کی دھوپ کیوں کہتی ہے لیکن جب علم نجوم سے شغف ہوا تو جانا کہ یہ اس کا اجتماعی شعور ہے۔ ۱۴؍ اگست کو شمس برج اسد میں داخل ہوتا ہے یعنی سنگھ راشی میں پرویش کرتا ہے اور وہاں تیس دن قیام کرتا ہے۔ سنگھ راشی سورج کی اپنی راشی ہے جہاں اس کو شرف حاصل ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سورج کی کرنیں اس ماہ میں زیادہ نوکیلی محسوس ہوتی ہیں اور نصیب بھی اسی ماہ گرم کپڑے سکھاتی ہے اور اسے سین کی دھوپ کہتی ہے۔ سنگھ کا لفظ صدیوں کے لسانی سفر میں سین میں بدل گیا، لیکن نصیب کچھ پریشان تھی۔ فروزی کہیں بھاگ گئی تھی اور گھر میں کام کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ گھر فروزی پر منحصر ہے۔ وہ ہم سب کی کمزوری ہے لیکن کمبخت رہ رہ کر بھاگ جاتی ہے اور نصیب اسے پکڑ پکڑ کر لاتی رہتی ہے۔ پچھلی بار کالونی میں کسی کے یہاں رہ گئی تھی۔ اس گھر کی مالکن سے نصیب کی اچھی خاصی تکرار ہو گئی تھی لیکن اس بار اس کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔
’’اپنی خالہ کے یہاں گئی ہو گی۔‘‘ میں نے اندازہ لگایا۔
’’نہیں! خالہ سے تو وہ لڑ کر آئی تھی۔‘‘
’’پھر۔۔۔۔۔؟‘‘
’’وہ ضرور کسی کے یہاں زیادہ اجرت پر کام کر رہی ہے۔‘‘
نصیب کے لے اس کو ڈھونڈ نکالنا مشکل نہیں ہے۔ وہ جاسوس رکھتی ہے۔ رحیمن بوا۔۔۔ مینی بوا۔۔۔۔ سونی۔۔۔! اصل میں کالونی کی نوکرانیوں کا پورا کنبہ اُس کے تابع ہے لیکن نصیب بھاگل پور دسہرے کی تعطیل میں جانا چاہ رہی تھی۔ میں خوش ہوا۔۔۔۔ نہیں چاہتا تھا وہ ابھی لال گنج جائے۔ نصیب میں سونگھنے کا مادّہ ہے۔
میں نے کسی طرح دو دن گذارے۔ گھر کا ایک دو چھوٹا سا کام کیا۔ جیسے بجلی بل کی ادائگی۔۔۔۔۔ ٹیبل فین کی مرمّت۔۔۔۔! نصیب سے بہانا بنایا کہ آفس میں ضروری کام ہے اور لال گنج چلا آیا۔ فلیٹ میں داخل ہوا تو ساجی بالکونی میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اندر چلی گئی شاید مسکرائی بھی تھی اور یہ معنی خیز تھا۔ اس کو توقع تھی کہ میں جلد ہی واپس آؤں گا اور جس بے نیازی سے وہ اندر گئی تھی تو جتا رہی تھی کہ مجھے کیا۔۔۔۔؟ آ ؤ۔۔۔۔یا۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔!
میں کمرے میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ رینو آئی۔
’’انکل! چائے لیں گے۔۔۔۔۔؟‘‘
یعنی وہ میرے انتظار میں تھی۔ میں خوش ہوا۔ مجھے چائے کی طلب بھی تھی۔ اکبر اس وقت موجود نہیں تھا۔
چائے لے کر وہ خود آئی۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہی ہو ’’کیوں۔۔۔؟ دل نہیں لگا نا۔۔۔؟‘‘
میں جھینپ رہا تھا لیکن فوراً خیال آیا اسے بھی شرمندہ کروں۔ میں نے شرارت سے پو چھا۔
’’ایک بات بتایئے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’آپ کو میرا انتظار تھا؟‘‘
ارے نہیں۔۔۔!‘‘
’’آپ جس طرح بالکونی میں۔۔۔۔؟‘‘
’’میں کمار کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘
’’کمار۔۔۔۔؟‘‘
’’میں انہیں کمار کہتی ہوں۔‘‘
میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اعتراف کروں گا کہ ایک جلن سی محسوس ہوئی۔ اس گاؤدی کو وہ کمار کہہ رہی تھی۔۔۔۔ اس مڈل فیل کو۔۔۔!
’’کہاں گئے آپ کے کمار؟‘‘ میرے ہونٹوں پر تضحیک آمیز مسکرا ہٹ تھی۔
’’بابا دھام گئے ہیں۔‘‘
کب گئے؟‘‘
’’جس دن آپ گئے۔‘‘
’’ابھی تو دو دن بھی نہیں ہوئے۔ بھلا آپ کے کمار آج کیوں آئیں گے۔ سوموار تو پرسوں ہے۔‘‘
وہ سٹپٹا گئی لیکن جواب کے لےا جیسے تیّار تھی۔
’’وہ باہر جاتے ہیں اور میں انتظار کرنے لگتی ہوں۔ ان کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا۔ بھوک پیاس مر جاتی ہے۔ کچھ کھایا پیا نہیں جاتا۔‘‘
’’جھوٹ۔۔۔۔!‘‘ میں نے دل میں کہا۔
وہ یقیناً جھوٹ بول رہی تھی۔ یہ پروجیکشن کا عمل تھا۔ جو بات تھی نہیں وہ بات پرو جیکٹ کرنا چاہ رہی تھی۔ اس کو درجات کا انتظار نہیں تھا۔ کوئی سوال نہیں اٹھتا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ درجات سوموار کو جل چڑھانے کے بعد آئے گا۔ وہ میری راہ دیکھ رہی تھی۔ اس وقت اس کے چہرے پر جو خوشی تھی میری قربت کی خوشی تھی، اس کے ہونٹوں پر پر اسرار مسکرا ہٹ تھی، یہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی کہ تم بھاگ کر آ گئے۔ درجات گھر پر نہیں تھا۔ وہ تنہا تھی اور آزاد تھی اور مجھ سے گھنٹوں بات کر سکتی تھی۔
چند ساعت پہلے جو جذبۂ رقابت محسوس کر رہا تھا وہ ترّحم میں بدل گیا۔۔۔۔۔۔۔ بے چاری جتا رہی ہے کہ پتی ورتا ہے اور شوہر کا انتظار کر رہی ہے۔ اس گاؤدی شخص کو کمار کہہ کر خوش ہو رہی ہے۔ کمار اُس کا آئڈیل ہے جو درجات میں مجروح ہوا ہے اس لے نام بدل دیا۔۔۔۔ کیا نام بدل دینے سے شخصیت بدل گئی؟ کس قدر بھرم میں جی رہی ہے وہ۔۔۔۔؟
’’آپ کھانا کھائیں گے؟‘‘
کیوں تکلّف کر رہی ہیں؟‘‘
’’تکلّف کی کیا بات ہے۔ آپ کا ملازم تو ہے نہیں۔‘‘
’’ہوٹل تو ہے۔‘‘
’’اچھا نہیں لگے گا۔‘‘
’’او کے۔۔۔!‘‘ میں مسکرایا۔ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔
وہ اپنے فلیٹ میں گئی تو میں نے بھی غسل کیا اورتا زہ دم ہو کر بالکنی میں بیٹھا۔ وہ کھانا لے کر وہیں آ گئی۔ اس نے کھانا اپنے لےپ بھی لایا تھا۔ مٹر پلاؤ بنایا تھا اور دال مکھانی کے ساتھ آلو پرول کی سبزی۔
’’یہ گنگا جمنی کلچر ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پلاؤ کے ساتھ دال اور سبزی۔‘‘
’’گوشت چاہیے؟‘‘
’’ایران میں گوشت رو ٹی اور ہندوستان میں دال روٹی۔‘‘
پو چھا کہ وہسکی پی سکتا ہوں تو اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے الماری سے بو تل نکالی۔ اس نے میرے لےو پیگ بنایا۔ میری نظر اس کی انگلیوں پر پڑی۔۔۔۔ انگلیاں لانبی اور مخروطی تھیں۔۔۔۔ جوڑ پر کوئی گرہ نہیں تھی۔۔۔۔۔ ناٹ لیس جوائنٹس۔۔۔۔ ایسے ہاتھ کو کیرو نے فلاسفک ہینڈ بتایا ہے۔ ایسے لوگ بہت حسّاس ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی سمجھ نہیں پاتا لیکن میں سمجھ رہا تھا۔ وہ اوّل درجے کی ہیپو کریٹ تھی۔ کچھ دیر پہلے کہہ رہی تھی کہ کمار کے بغیر کھایا پیا نہیں جاتا اور اب مٹر پلاؤ لے کر آئی تھی لیکن میری سوچ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میں کیوں بھول جاتا ہوں کہ کمار اس کا آدرش پرش ہے جو درجات نہیں ہے۔ کمار میں ہوں اور میرے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے گویا کمار کے ساتھ کھا رہی ہے۔
’’کمار کے نام۔‘‘ میں نے پہلے پیگ کی پہلی چسکی لی۔
’’تھینکس۔‘‘
وہ مسکرائی۔ ایک نوالہ منھ میں ڈالا اور بالکنی سے باہر دیکھنے لگی۔ باہر ملگجا اندھیرا تھا۔ برگد کا پیڑ پر اسرار نظر آ رہا تھا۔ جھینگر کی آواز مستقل گونج رہی تھی۔ میں نے غور کیا، وہ واقعی آہستہ کھاتی تھی۔۔۔۔۔ پہلے دن زائچہ دیکھ کر کہا بھی تھا۔ اصل میں دوسرے خانے میں برج اسد تھا جو غیر متحرّک برج ہے۔ زحل اور مشتری وہاں موجود تھے۔ دونوں آہستہ رو ستارے ہیں اور زائچے کا دوسرا خانہ خوردنی سے وابستہ ہے۔
میں وہسکی کی چسکیاں لیتے ہوئے اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک زلفوں کی ایک لٹ اس کے رخسار پر لہرا گئی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس لٹ کو پیچھے کر دیا۔ اس نے آنکھ کے گوشے سے میری طرف دیکھا۔ میری یہ حرکت غیر متوقع تھی۔ شاید وہسکی رنگ لا رہی تھی۔
’’وہ لٹ اٹھکھیلیاں کر رہی تھی۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ زور سے ہنس پڑی۔ آنچل ڈھلک گیا لیکن اس نے آنچل برابر نہیں کیا۔ اسی طرح ہنستی رہی۔ پھر اس کا لہجہ یکایک بدل گیا۔
’’آپ پچیس سال قبل کیوں نہیں ملے؟‘‘
میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔
وہ خاموش ہو گئی۔ ہو نٹوں کے خم نے کچھ عجیب انداز اختیار کر لیا۔ نچلا ہونٹ اک ذرا اندر دھنس گیا اور بالائی حصّہ کچھ اور محراب نما ہو گیا۔
میرے ذہن میں وہی بات گونجی۔۔۔۔ اس عورت کو چھونا آسان ہے۔۔۔۔!
اور وہ گھڑی آ گئی۔
ساون کی جھڑی تھی۔ قمر منزل شرطین سے گذر رہا تھا۔ شیو بھکتوں کا مہا کمبھ شروانی میلہ شروع ہو چکا تھا۔ ہر ہر گنگے اور بول بم کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ سلطان گنج پر کیسریا خمار چھانے لگا تھا۔ گھنگھروؤں کی رن جھن سے فضا مترنّم تھی۔ بھگت جن جوق در جوق امنڈے چلے آ رہے تھے۔ شیو بھگتوں نے سلطان گنج میں گنگا جل بھرا۔ کنوریا کا ایک جتّھا ہنومان اور بے تال کا روپ دھارن کیے چل رہا تھا۔ کچھ گلال اور ابیر اڑاتے چل رہے تھے۔ کچھ جتّھے ایسے بھی تھے جن کے افراد پہلے پہنچ گئے تھے اور گھاٹ کنا رے باقی ساتھیوں کا انتظار کر رہے تھے۔ مل ماس ہونے کی وجہ سے ایک ماس تک چلنے والا میلہ اس بار دو ماس چلے گا۔
مہا پنڈت راون پہلے کانوریا تھے جنہوں نے بابا دھام کا گنگا جل ابھیشیک کیا تھا۔ لنکا ادھی پتی کی ارادھنا سے خوش ہو کر بھگوان بھولے شنکر کیلاش سے لنکا جانے کے لےس راضی ہو گئے تھے مگر آریا ورت کے بھگتوں کا موہ تیاگ نہیں سکے اور داروک بن میں استھاپت ہو گئے۔ داروک بن میں ناگیش جیوتی لنگ کے وجود کا ذکر پران میں آیا ہے۔ سمندر منتھن کے بعد دیوتاؤں نے شری ناگیش نا تھ جیوتی لنگ کو باسکی ناگ کو سونپ دیا جس سے ناگیش ناگ کا نام باسکی ناتھ پڑا اور یہ دھام باسکی ناتھ دھام کہلانے لگا۔ پورا علاقہ گھنے جنگلوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہاں داروکا نام کی راکشسی بھی رہتی تھی۔
بھگوان بھولے ناتھ کو راون داروک سے نہیں لے جا سکا اور وہیں ان کی پوجا ارچنا شروع کی۔ لنکا ادھی پتی با قاعدہ ہری دوار سے گنگا جل کانوریہ میں ڈھو کر بابا وید ناتھ کا مستک ابھیشیک کرتے تھے۔ کانوریہ پتھ اور ارد گرد کے درجنوں استھل دیو نام سے جانے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ شیو لوک۔۔۔۔ بھوت ناتھ۔۔۔۔ بھول بھلیاں۔۔۔ گیرو پربت۔۔۔ رنگیشور۔۔۔۔ مہیش مارا۔۔۔۔ شیشو بن۔۔۔۔ لچھمن جھولا۔۔۔۔۔ اندر بن۔۔۔۔! کانوریہ پتھ کا زرّہ زرّہ شیو ہے اور ہر شے بم۔۔۔ بم۔۔۔۔!
فضا میں بول بم کے مہا منتر کی گونج ہے۔۔۔۔ بابا مندر کے ٹھیک پورب میں تری پورہ کا مندر ہے جسے پاروتی کے روپ میں جانا جاتا ہے۔ تری پورہ کے بائیں پہلو میں ماں جے درگا کی مو رتی ہے۔ بابا مندر شکھر پر پنچ پھول لگے ہوئے ہیں۔
بھولے ناتھ نشہ کرتے ہیں اور بھوت پریت بھی۔۔۔۔ بھو لے ناتھ وش پی گئے تھے۔۔۔۔ بھگت جن کو بھی کچھ پینا چاہیے۔۔۔۔ گانجے اور بھنگ کے نشے میں چور۔۔۔۔ روحانیت سے سر شار۔۔۔۔ بھگت جن کانوریہ پتھ پر بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔۔۔۔ گیروا رنگ میں شرابور۔۔۔۔ اپنے بابا وید ناتھ کے درشن کو بے قرار۔۔۔۔۔
درجات کے کندھے سے کانوریہ جھول رہی تھی۔ قدم مسلسل بابا دھام کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن عین مندر کے قریب اس کو ٹھو کر لگی۔ کانوریہ کے ساتھ اوندھے منھ گرا۔۔۔۔ اور سارا جل زمین پر الٹ گیا۔۔۔۔!!
ساجی اداس تھی۔ یہ خبر اس کو موبائل پر معلوم ہوئی۔
’’یہ اپ شگون ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’بھولے ناتھ نے جل قبول کر لیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’بھگوان نیت دیکھتے ہیں۔‘‘
’’لیکن جل تو الٹ گیا۔‘‘
یہ شیطانی حرکت تھی۔ درجات کا کیا قصور۔۔۔۔؟ اور بھولے ناتھ کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ سب کے ہیں جن کلّیان کے لیے وش پی گئے۔۔۔۔!‘‘
’’آپ ہیں تو مجھے سہارا ہے۔‘‘ اس کی پلکوں پر آ نسو کا ننھا سا قطرہ لرز رہا تھا۔ میں نے اچانک اس کے چہرے کا کٹورہ سا بنایا اور پلکیں چوم لیں۔ وہ میرے سینے سے لگ گئی۔۔۔۔۔ جیسے اس کو اسی پل کا انتظار تھا۔ میں نے اسے بازوؤں میں بھینچا اور چومنے کی کوشش کی۔ مجھے اپنے رخسار پر اس کی گرم سانسوں کا لمس محسوس ہوا اور نتھنوں میں عجیب سی مہک گھل گئی۔۔۔۔ اوس میں بھیگے ہوئے جنگلی گھاس کی سی مہک۔۔۔۔۔۔ میں بے قرار ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کے لب و رخسار پر اپنے ہونٹ ثبت کرتا، وہ تڑپ کر میرے بازوؤں سے نکل گئی اور اندر کاری ڈور میں گھس گئی۔ میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔ وہ اس دن پھر نہیں آئی۔
٭٭٭