(مشرف عالم ذوقی نے ’مرگ انبوہ‘ نامی ناول سے چار عدد ناولوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے، ’مرگ انبوہ‘ کے بعد دوسرا حصہ ’مردہ خانے میں عورت‘ حال ہی میں شائع ہو چکا ہے۔ تیسرا حصہ ’صحرائے لا یعنی‘ اور چوتھا ’ہائی وے پر کھڑا آدمی‘ ابھی زیر طبع ہیں۔ زیر نظر اقتباس، ’صحرائے لا یعنی” کا ایک حصہ ہے)
ایک آتش فشاں ہے، جسے میں دیکھ رہا ہوں، جسے میں نے پہلے بھی دیکھا ہے اور اس وقت بھی دیکھتا ہوں جب جسم کی سنسناہٹ اچانک بارود میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مجھے ابّا یاد آتے ہیں، جو کہتے تھے، سینتالیس میں ایک آتش فشاں پھٹا تھا۔ اس کا لاوا اب بھی بہہ رہا ہے اور درجہ حرارت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ایک لاوا اٹھا جو آسمان کی بلندی تک جا پہنچا۔ کروڑوں بے گھر اور کوئی بھی خوش نہیں رہا۔ ہم اب بھی آتش فشاں کے درمیان ہیں اور لاوا مستقل پھٹتا رہتا ہے، بس ہم دیکھ نہیں پاتے۔۔۔۔ ابا کچھ موقعوں پر اچانک خاموش ہو جاتے تھے۔ مسکراتے چہرے پر اچانک آتش فشاں کی گرم راکھ دکھائی دینے لگتی تھی۔ آتش فشاں لاوا کے ساتھ کئی قسم کی زہریلی گیسوں کو خارج کرتا ہے۔ بہت سے لوگ ان گیسوں کے رابطے میں آنے پر فوت ہو جاتے ہیں۔ ابا کہتے تھے، زہریلی گیس کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ سرحد کے دونوں طرف جاری ہے۔ آزادی کے برسوں بعد بھی ہم اپنے ساتھ آتش فشاں اور اس کے لاوا کو لئے زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے، آتش فشاں، لاوا اور زہریلی گیس کی یادوں کو بھلانے کے لئے ہی ابا نے قہقہے اور داستانوں کا سہارا لیا تھا۔ ان کے قہقہوں سے درجۂ حرارت میں کمی آ جاتی تھی اور لاوے ٹھنڈے پڑ جاتے تھے۔ راشد، کہاں ہیں آپ؟ میں آواز دیتا ہوں تو فضاء میں خاموش آواز سنائی دیتی ہے
یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم
مرگ اسرافیل سے
اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا پتھرا گیا
جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا
ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں
ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں
مرگ اسرافیل سے
دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زباں بندی کے خواب
جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو
اس خداوندی کے خواب
آواز خاموش ہوتی ہے تو آتش فشاں پھٹنے کا دھماکا سنائی دیتا ہے۔۔۔ مرگ اسرافیل پر آنسو بہاؤ، ریگ ساحل پر خاموش دھوپ، رقاص کے کھلے گھنگھرو اور نغمہ کا فنا ہو جانا، مجھے ابا یاد آتے ہیں، جو کہتے تھے، حقیقت کی ہتھیلیوں پر ہزاروں کانٹے ہیں، ان کانٹوں سے بے نیاز بھی نہیں ہو سکتے۔۔۔۔ اور ان کانٹوں کی چبھن برداشت بھی نہیں ہوتی۔
میں ان آندھیوں کے درمیان ہوں، جہاں وقت کی رفتار اچانک تھم گئی ہے۔ بادل کے گرجنے کی آواز اور موسلا دھار بارش، میں ایک پریشان کرنے والی کیفیت میں اٹھتا ہوں پھر بیٹھ جاتا ہوں۔ ایک مذاق جس کی آگ آسمان کی طرف اٹھی اور میں نے انصاف کی عمارتوں کو لرزتے ہوئے محسوس کیا۔ گدھ، عمارتوں پر بیٹھے ہوئے گدھ۔ دشمن۔ میں چلانا چاہتا ہوں مگر میری آواز اندر ہی اندر گھٹ جاتی ہے۔ میں سرفراز کو دیکھتا ہوں، جو اندھیری کوٹھری میں منہ کے بل گرا ہوا ہے۔ میں ابا کی آواز سنتا ہوں۔ تم نے اچھا نہیں کیا۔ میں ان قیدیوں کو دیکھتا ہوں جن کے پسے میں چارکوں کا گہرا کالا رنگ داخل ہو گیا ہے۔۔۔۔ ایک ممنوعہ پناہ گاہ اور ابابیلیں۔ ابابیلوں کے جھنڈ نے چھوٹے چھوٹے کنکر چونچ میں پھنسا رکھے ہیں۔۔۔۔ اور یہ تمام کنکر میری طرف آ رہے ہیں۔ میرے پاؤں میں سوجن ہے اور میں چلنے میں تکلیف محسوس کر رہا ہوں۔ ایڈوکیٹ سباق نے کہا تھا، ویڈیو دیکھ لیجیے اور پھر مجھ سے بات کیجیے۔ میں نے موبائل ہاتھ میں لیا تو میرے ہاتھ میں تھرتھراہٹ تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ تھرتھراہٹ کیوں تھی اور سورج اچانک سوا نیزے پر کیسے آ گیا تھا۔ میں ویڈیو دیکھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا۔ رات کا وقت۔ کچھ پولیس والے کھڑے ہیں۔ کچھ دور پر پولیس والوں کی وین کھڑی ہے۔ ایک سفید گٹھری ہے، جو آگ میں جل رہی ہے۔ آدھی رات کا وقت۔ گٹھری آہستہ آہستہ سلگ رہی ہے۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔
میں ایڈوکیٹ سباق کو فون لگاتا ہوں۔ پوچھتا ہوں۔۔۔۔ یہ کیا ہے۔۔۔۔۔
ایک لاش، جس کو آدھی رات کے وقت پولیس والے جلا رہے ہیں۔
لیکن یہ کس کی لاش ہے۔
مصدقہ اطلاع کے مطابق یہ بیگ صاحب کی لاش ہے۔
میں زور سے چیختا ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
یہ ہو چکا ہے۔۔۔۔ اور آپ چاہیں تو اس وقت میرے پاس آ سکتے ہیں۔
میں ایک گھنٹے بعد ایڈوکیٹ سباق کے کیبن میں تھا۔ ایڈوکیٹ سباق خاموش تھے۔ ان کے چہرے کا رنگ زرد تھا۔ کمرے میں حبس سمٹ آیا تھا۔
میں زور سے چیختا ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
یہ ہو چکا ہے۔
مگر کیوں؟ کیسے ہوا۔
ممکن ہے وہ وائرس کے زد میں آ گئے ہوں اور اچانک پولیس پر دباؤ پڑا ہو کہ لاش جلادی جائے۔
اگر وائرس کی زد میں نہ آئے ہوں تو؟
ممکن ہے اذیت ناقابل برداشت ہو۔ وہ مر گئے اور انہیں جلا دیا گیا۔
میں چیختا ہوں۔ ایک مذاق کے نام پر؟
’مذاق ہی تو ہو رہا ہے۔ ہر طرف مذاق۔ مسخرے مذاق کرتے ہیں مگر عام انسانوں کے مذاق انہیں پسند نہیں آتے۔
اور اس لے ان کا نشان مٹا دیتے ہیں۔
ہاں۔ اس کیس میں ایسا ہی ہوا ہے۔
کیا ہم مردے ہیں؟
خود کو زندہ خیال کرنا غلط فہمی ہے۔
ہم دونوں کے درمیان مجھے ایک خلیج نظر آتی ہے۔ ایک شکست خوردہ ہے اور دوسرا شکست کے نتائج پر غور کر رہا ہے۔
اب کیا ہو سکتا ہے، میں پوچھتا ہوں۔
ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
نہیں میرا سوال ہے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر فائدہ۔ ایڈوکیٹ سباق نے میری طرف دیکھا۔ ہم کورٹ میں جا سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
نتیجہ کیا نکلے گا؟
کچھ نہیں۔ وہ کہہ دیں گے، وائرس سے موت ہو گئی تھی۔ ہم نے جلا دینا بہتر سمجھا۔ وہ کہہ دیں گے، خود کشی کر لی تھی۔ وہ کچھ بھی کہہ دیں گے، جسے ماننا ہو گا کیونکہ اس نظام میں وہ سرکش بھی ہیں آزاد بھی۔ اور ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔
میں پھر زور سے کہتا ہوں۔ ایک شخص مذاق کرتا ہے۔ پولیس گرفتار کرتی ہے اور وہ سرکاری ذرائع سے گم کر دیا جاتا ہے۔ کیا اسطرح ایک دن ہم سب گم نہیں ہو جائیں گے۔؟
— کیا ابھی ہم گم نہیں ہیں؟
کوشش؟
کر سکتے ہیں مگر۔۔۔۔۔
مگر کیا؟
اس کے نتائج پر غور کر لیجیے۔ ابھی آپ اور آپ کے گھر والے آزاد ہیں۔
یعنی ہم سوچ لیں کہ ابا جیل گئے۔ عدالت میں بلائے گئے۔ پھر دوسری جیل میں منتقل ہوئے اور ابا ہمیشہ کے لےر چلے گئے۔
اس سے زیادہ ہم اور کیا کر سکتے ہیں؟
یعنی اگر کوشش کرتے ہیں تو ابا کے بعد ہمارا نمبر بھی آ سکتا ہے۔
بلا شک و شبہ۔ کیونکہ آپ سرکاری احکامات سے دو دو ہاتھ کر رہے ہیں۔
وہ میرا کیا برا کر سکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ سباق طنزاً مسکرائے۔ آپ چینل میں تھے۔ چینل سے نکال دیئے گئے۔ وہ ہزار ثبوت آپ کے خلاف پیدا کر دیں گے۔ آپ کے گھر والوں کے خلاف پیدا کر دیں گے۔
اس وقت آپ کی حیثیت کیا ہے؟
ایک غیر محفوظ وکیل جو نہیں جانتا کہ اس کی دوکان کب بند ہو جائے گی۔
یعنی ہم دونوں کے لےف خاموش رہنا بہتر ہے۔
مدافعت کے آگے جنگ ہے اور سلاخیں۔
آخری سوال، کیا ہم خلا میں ہیں؟
ہم بہت حد تک خلا میں ہیں جہاں ہماری چیخیں بھی سو گئی ہیں۔
**
رونے والیاں، جن کو پنجابی زبان میں سیاپا پٹنیاں بھی کہا جاتا ہے اور جو مرنے والی کی میت پر جوشیلے انداز میں ماتم کرتی ہیں، میں نے ابا کے کمرے میں دیکھا تو ابا کی کتابیں سیاپا پٹنیاں بن گئی تھیں۔ مجھے بین کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اور مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ کتابوں سے دھواں نکل رہا ہو۔
میں نے کتابوں سے کہا، ابا نہیں ہیں۔۔۔۔ اور کبھی نہیں آئیں گے۔ اور ابا غائب ہو گئے ہیں۔ سیاپا پٹنیاں معاوضہ لے کر بین کرتی ہیں مگر میں نے، نئی پرانی بوسیدہ کتابوں کو ماتم کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔ اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ کتابیں اچھل اچھل کر ریک سے گر رہی ہیں۔ مگر ابا کے قہقہے نہیں ہیں، جو کہا کرتے تھے کہ دیکھو آج غالب گر گئے۔ آج میر گر گئے۔ آج ہماری داستانیں زمین پر آ گئیں۔ میں نے سناٹے کو شور کرتے ہوئے سنا اور کچھ دیر کے لےا احساس ہوا کہ کمرے میں زلزلہ آ گیا ہے۔ دیواریں ہل رہی ہیں اور میرے سر میں چکر آ رہے ہیں۔ ایک شخص اچانک روئے زمین سے غائب کر دیا گیا ہے اور کتابیں بین کر رہی ہیں۔
میں نے بہت بہت اور حوصلہ کے ساتھ اماں کو حادثے کے بارے میں بتایا اور کہا۔ سب کچھ ختم۔۔۔ ہاں سب کچھ ختم۔
اماں کی آنکھیں خشک تھیں۔ رخسانہ اور مریم بوا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
’کوئی نہیں روئے گا۔‘ اماں نے زور سے کہا۔ سب کچھ ختم۔
اماں نے کمرے میں مصلیٰ بچھایا۔ جب وہ سجدے میں گئیں، میں نے ان کی سسکیوں کی آوازیں سنیں۔۔۔۔ سب کچھ ختم۔ یہ اماں کا رد عمل تھا۔ ایک بے کنار میدان میں، جہاں چاروں طرف انسانی ملبہ ہے، میں اس ملبہ پر چل رہا ہوں۔
سب کچھ ختم، میں خود سے کہتا ہوں۔۔۔۔ مگر دھوپ ہے، روشنی ہے، آسمان ہے، سمندر ہے، وائرس ہے اور زندگی ہے۔۔۔۔۔ اور انسانی ملبہ، جہاں اس وقت میں چل رہا ہوں۔۔۔۔ اجسام کو روندتے ہوئے اور مجھے نہیں معلوم، اس سفر کی حقیقت کیا ہے اور مجھے کہاں جانا ہے۔ مضبوط لکڑی کا ایک مربع نما ٹکڑا جو پانی کے ساتھ بہتا بہتا میرے پاس آ گیا ہے۔ میں اس وقت قصہ حاتم طائی، قصہ چہار درویش، قصہ عمر عیار، قصہ طوطا مینا، سند باد جہازی کے کارنامے اور الف لیلیٰ کی داستانوں سے دور ہوں اور پریوں، جنوں، جادوگروں، شہزادوں اور شاہزادیوں کی داستانوں سے دور اس مربع نما ٹکڑے کو دیکھے جا رہا ہوں۔ طلسم و اسرار کی دنیا سے الگ یہ ٹکڑا میرے لئے معنی رکھتا ہے۔ میری ہتھیلیوں کی لکیریں دیکھ کر کبھی کسی نے بتایا تھا کہ میں ایسا شخص ہوں جو متخیلہ سے معمور ہے اور نہایت ہی منطقی طبیعت کا مالک ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی میرے ساتھ نہیں ہے، بلکہ اس وقت میری ہتھیلیوں سے جو بو خارج ہو رہی ہے، میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔۔۔ اور میں سمجھتا ہوں یہ مخصوص بو لکڑی کے اسی مربع نما ٹکڑا سے آ رہی ہے۔ مجھے دار الفنا میں وہ بزرگ یاد آئے جنہوں نے میرا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ میں نے ہاتھ کو سختی سے پکڑا۔۔۔ اور جب تیز جھٹکا کھانے کے بعد پاؤں کے نیچے زمین کے ہونے کا گمان ہوا تو عجب نظارہ سامنے تھا۔ نیم خوابیدہ چہرے، السائے چہرے، زمین پر گرے ہوئے، کچھ ہوا میں رُکے ہوئے، کچھ بے بس، کچھ لاچار، کچھ فالج زدہ اور چلنے سے محروم۔ رنگ اور لباس ایک— یہ یہاں بھی گہری نیند میں ہیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور اب ایک دوسری چھلانگ، بزرگ نے لیٹے ہوئے لوگوں کی لمبی قطار کو دکھا کر بتایا، یہ لوگ جب سے یہاں آئے ہیں، اسی طرح ہیں۔ ان کے پاس بیدار کیے جانے والا ایک شنکھ تھا، جسے حاتم طائی آٹھویں سوال کے طور پر حل کرنے میں ناکام رہا۔۔۔۔ اور یہ رہا تیسرا دروازہ۔ اس دروازہ کو بند کرنا ہی بہتر ہے۔ بہت تیز بدبو۔ یہ دار الفنا سے دار البقا میں نہیں آ سکے اور ان کے اجسام سے تیز بدبو کے فوارے اٹھ رہے ہیں۔ چلو چھلانگ لگاتے ہیں۔
مجھے سب کچھ یاد ہے اور اس وقت مضبوط لکڑی کا ایک مربع نما ٹکڑا جو پانی کے ساتھ بہتا بہتا میرے پاس آ گیا ہے، میرے سامنے ہے۔ میں اس لکڑی کے ٹکڑے کو ٹھوکر مارنا چاہتا ہوں، تو ایک آواز آتی ہے، بے چین ارواح۔۔خالی بوتلیں، انسانی ملبے، زندہ رہنے والے شیطان کی ہشت پہلو شخصیت کے درمیاں حقیقت شونیہ کے مرکز میں اور یہاں چاروں طرف قبریں ہیں۔ ہم بہت جلد خلا میں اچھال دیئے جائیں گے۔
میں انسانی ملبوں کے قریب بھٹک رہا ہوں۔ سورج اپنی سنہری کرنوں کے ساتھ اداس ہے۔ وائرس ختم نہیں ہوا ہے۔ جھیلوں میں مردہ مچھلیاں ہیں اور جھیلوں کا پانی گندا ہو چکا ہے۔ میں اپنے بیٹے کے کمرے میں آتا ہوں تو وہ لیپ ٹاپ پر ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔
یہ کیا ہے؟
میں وائرس کا شکار کر رہا ہوں
کیا تم وائرس کو مارنے میں کامیاب ہو؟
ہاں۔ مگر کبھی کبھی نشانہ چوک جاتا ہے۔
نشانہ چوک جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔؟
وائرس پھر سے زندہ ہو جاتے ہیں۔
داستانیں زندہ ہیں۔ ابا کا کمرہ آباد ہے۔ ابا کے چہیتے روزانہ ہی آتے ہیں اور اماں کا دل بہلاتے ہیں۔ اس درمیان جولی صحت مند ہو کر گھر واپس آ گئی۔ جولی خوش ہے کہ اس نے وائرس کو شکست دے دی۔ لیکن اس کے خوش ہونے کے باوجود وائرس زندہ ہے۔ مجھے اب بھی خلا میں راسپوتین نظر آتا ہے جو ایک بڑی سی گٹھری ہات میں لےب مردہ چوہوں کو فضائے بسیط میں اچھالتا ہوا قہقہہ لگا رہا ہے۔ میری آنکھوں میں کشمیر نہیں ہے۔ ایک رشتہ جو قائم ہوا تھا، صالحہ نے اس رشتہ کو ختم کر دیا۔ جولی نے فون پر کہا۔ زندگی کبھی کبھی ایک مذاق لگتی ہے۔ مذاق کبھی کبھی اوپر سے بھی مسلط کئے جاتے ہیں۔ جس دن ابا کے انتقال کی خبر آئی، اس دن تیز بارش ہوئی اور میں اماں کو فریز سے آب زم زم کی شیشی نکالتے ہوئے کہا۔ محافظ، انہوں نے آہستہ سے کہا، ہمارے خیمے روشن رہیں۔ ایک بڑی سی مکڑی جو اچانک کمرے میں آ گئی ہے اور مربع نما ٹی وی کی طرف بڑھ رہی ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ اب اس ٹی وی کو اس کمرے میں نہیں ہونا چاہیے۔ اسکرین سے بد روحیں نکال کر مذاق کا ترانہ چھیڑتی ہیں اور بڑی آبادی سے کچھ لوگ گم ہو جاتے ہیں۔ مذاق سے بادل برستے ہیں اور کچھ گھر سلگ اٹھتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں، ملبے میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کی ضرورت ہے مگر یہ کام اتنا آسان نہیں۔ برسوں بلکہ صدیوں پہلے جو بانسری والا، گاؤں کے چوہوں کو اپنے ساتھ لے گیا تھا، وہ دوبارہ واپس آ گیا ہے۔ اور یہ وہی جھکے ہوئے کمزور چوہے ہیں جنہیں بانسری والا، بانسری بجاتا ہوا ملبے تک لے گیا ہے۔ میں اب بھی پولیس کے سائرن اور فوجی بوٹوں کی آوازیں سن رہا ہوں اور مجھے خوف ہے کہ رات کے کسی وقت میرے گھر پر انجان لوگوں کی یلغار ہو سکتی ہے۔ میں دھوئیں کے درمیان اونگھتے ہوئے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو شنکھ بجانے کی مشق کر رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں آسمانوں کی طرف اٹھی ہوئی ہیں مگر ویران ہیں۔ میں ان میں سے ایک ہوں اور اب گھر کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ میں ایک مسلم بے روزگار ہوں۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ راستہ میرے پاس نہیں ہے۔ میں جب کبھی کسی کیب یا اولا میں بیٹھتا ہوں تو یہ بھی دیکھتا ہوں کہ ڈرائیور موبائل میں منزل کا نقشہ دیکھ رہا اور ایک آواز اسے سمت بتا رہی ہے۔ دائیں جائیں۔ اب بائیں لو۔ بیس میٹر کی دوری طئے کرنے کے بعد سیدھے جاؤ۔ میں اکثر خیال کرتا ہوں، یہ آواز غلط بھی بتا سکتی ہے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ منزل کی جگہ کوئی گمنام راستہ ہو، جہاں پہنچنے کے بعد پریشانی ہو سکتی ہے۔ میں نے اکثر کہانیوں میں ایسے قطب نما کے بارے میں پڑھا ہے جو طوفان آنے کے بعد راستہ بتانا بھول گئے۔ اور جہاز سمندر میں ڈوب گئے۔ اس وقت ملک کے نقشے سے یہ قطب نما گم ہو گیا ہے۔ میرے پاس ایک راستہ اسی چینل کی طرف جاتا ہے اور دوسرا راستہ گنیش کے چینل کی طرف۔ لیکن ان دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے سے قبل مجھے راسپوتین کے قہقہوں سے گزر نا ہو گا۔ مجھے کچھ اور بھی کام کرنے ہوں گے۔ مجھے قلب کی صفائی کرنی ہو گی۔ مجھے اس بچھو دل کا راستہ دکھانا ہو گا، جو ایک مدت سے میری طرف دیکھ رہا ہے۔ زندگی کے لےو میں یہ سب کر سکتا ہوں۔ مگر یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ میرے پاس قطب نما نہیں ہے۔ جب سمندر کی لہریں اچھل رہی ہوں گی۔ مجھے سمندری طوفان کے لےھ رہا کیا جائے گا۔ سمندر جو میری آخری فنتاسی کا حصہ ہے۔ بندر گاہوں اور سمندروں کے بارے میں، میں بہت سے قصے جانتا ہوں۔ آسٹریلیا کے کوئنز لینڈ ساحل پر بے مقصد گھومتا ہوا ایک پرانا جہاز کنارے آ گیا۔ ایک میز پر ایک گرم کافی پڑی تھی۔ بیس برس پرانا اخبار اور چاندی کی ایک کٹوری رکھی تھی۔ جب ماہی گیر جہاز کو دیکھنے کے لےے پہنچے تو آواز آئی۔ مجھے تنگ مت کرو۔ میں اخبار پڑھ رہا ہوں۔ جہازوں کی تباہی کے واقعات اب اتنے عام نہیں ہے، جتنے ماضی میں تھے۔ بحری قزاقوں کا زمانہ بھی گزر گیا لیکن قصوں میں ایسے بہت سے جہاز تھے، جہاں ماہی گیروں نے بھوت یا ارواح کے ہونے کی نشاندہی کی تھی۔ میں اس وقت خود کو ٹوٹے پھوٹے جہاز میں تصور کرتا ہوں اور اس میز کو دیکھ رہا ہوں جہاں چاندی کی ایک کٹوری پڑی ہے اور کوئی ہے جو مجھ سے کہتا ہے، تم میرے جیسے ہو اور تم سے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ تم چاہو تو میرے سامنے بیٹھ سکتے ہو۔
’آپ کا سر کہاں گیا؟ میں تعجب سے پوچھتا ہوں۔
’اوہ سر۔ میں ابھی لگاتا ہوں۔۔۔ اور ہاں، سر تمہارے پاس بھی نہیں ہے اور تمہیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کافی پیو اور عیش کرو۔‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ بیس برس پہلے سمندر اتنا آلودہ نہیں تھا۔ مگر اب ہو گیا ہے۔
میں نے سمندری لہروں کے مخالف چلنا شروع کیا۔ مجھے کباڑ خانہ پھر پیانو کی یاد آئی۔ پیانو سے وابستہ کہانیوں میں شادمانی کی چاندنی اب بھی باقی تھی۔ میں نے کباڑ خانے سے پیانو نکالا اور کھینچتے ہوئے برآمدے میں لے آیا۔ میں نے پیانو کی صفائی کی پھر مجھے علی اصغر یاد آیا جو گھر سے کچھ دوری پر رہتا تھا اور پرانے سازوں کی مرمت کرتا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد علی اصغر آ گیا۔ آنے کے بعد ہی وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ میں نے علی سے کہا کہ میں یہ پیانو اپنے بیٹے کو تحفے میں دینا چاہتا ہوں۔ یہ پیانو مجھے اس کے باپ نے دکھایا جو مجھے پہلی نظر میں پسند آ گیا تھا۔ اب اس کا باپ حیات نہیں تھا۔ یہ پیانو پوری طرح سے لکڑی سے بنا تھا۔ علی کے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی ڈور بھی لکڑی کی ہے اور بہت اچھی طرح سے بندھی ہوئی ہے۔ اس سے آواز بہت ہی خوشگوار پیدا ہوتی ہے۔ جب علی کام کر رہا تھا، میں مسلسل پیانو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ خواب میں پیانو بجانا ایک سازگار علامت ہے، آپ مایوس، پریشان، افسردہ، اعصابی خرابی کا شکار ہیں تو پیانو کی آوازیں آپ کی افسردگی کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔ پیانو بجانے کاخواب ایک طویل گمشدہ دوست کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی یاد دلاتا ہے۔ مجھے گاندھی کی یاد آئی۔ وہ روما روولا سے ملنے فرانس گئے تو انہوں نے روما سے کہا، آپ مجھے بیتھوون کی پانچواں سمفنی سنائیں۔ روما رولا بیمار تھیں۔ لیکن وہ اٹھیں اور ان کی انگلیاں پیانو پر ناچنے لگیں۔۔۔۔۔ سات آٹھ گھنٹے بعد پیانو نئے مسافر کے لئے تیار تھا۔ میں ایک سٹول پر بیٹھ گیا۔ اماں، مریم بوا، رخسانہ کی نظریں مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے بیتھوون کو یاد کیا۔ آغاز میں وہ بھی پیانو بجایا کرتا تھا۔ میں نے بیتھوون کی روح کو اندر سرایت کرتے ہوئے محسوس کیا۔ یہ خواب اس وقت ختم ہوا جب میں نے شعیب کے تالیوں کی آواز سنی۔ میں نے شعیب کو پاس بلایا اور کہا، یہ تحفہ تمہارے لئے ہے۔
میں نے آہستہ سے کہا، بیتھوون، تمہاری بے نور آنکھوں میں غضب کا نور ہے۔۔۔۔۔!
٭٭٭