مائی ڈیر قاری، وہ ناول آ گیا جس کا انتظار تھا۔ ایک سو پچاس برس کے عرصہ میں یہ پہلا ناول ہے جو مغرب کے شاہکار ناولوں پر حاوی ہے۔ اردو میں ناول کہاں لکھا گیا۔ عینی آپا، تارڑ صاحب، سب بھاڑ ہی جھونکا کئے، ناول تو یہ ہے۔
آجکل فیس بک پر کچھ اسی انداز سے ناولوں کی پبلیسٹی کی جا رہی ہے۔ اشتہار بازی کی اس مہم سے میں حیران ہوں۔ پکے پکائے ناسٹیلجیا کو لیا، تہذیب کے اوراق کا قیمہ بنایا، زوال کا نوحہ لکھا اور پھر جمعہ جمعہ چار دن کے لکھنے والے دعویٰ کرنے نکلے کہ صاحب جو کچھ ہیں، ہم ہیں۔
پھر ہم سب بھاڑ جھونک رہے ہیں صاحب۔ میں بھی اعلان کر سکتا ہوں، ذوقی کو نہیں پڑھا تو آپ جان ہی نہیں سکتے کہ اردو ناول میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ ناول ناسٹلجیا، تقسیم کے بوسیدہ اوراق سے دور اب مستقبل سے آنکھیں چار کر رہا ہے۔ مرگ انبوہ یا لے سانس بھی آہستہ، یا مردہ خانے میں عورت کا مطالعہ نہیں کیا تو آپ تمیز نہیں کر سکتے کہ اردو ناول کس مقام تک پنھچ چکا ہے۔ اصل میں ہوا یہ کہ ایک خیمے سے چند پولیس والے نکلے اور ان کی شکلیں نقادوں جیسی تھیں، سب اپنی اپنی بانسری بجانے لگے۔ میری ترکی ٹوپی سب سے عمدہ۔ میں بیس برس کی عمر میں مغرب کے بیشتر شاہکار ناولوں کا مطالعہ کر چکا تھا۔ ایک گلوبل دنیا سامنے تھی، جس کی چمک میں پرانی دنیا گم ہو چکی تھی۔ سائنس، کائنات اور انسان کو ادب کی مضبوط بنیاد کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ہرمن ہیسے نے ’ڈیمیان‘ میں کہا۔ ’ایک چڑیا انڈے سے جنم لینے والی ہے۔ جو جنم لینا چاہتا ہے، اسے ایک دنیا کو تباہ و برباد کرنا پڑے گا۔ پرانی دنیا کا زوال نزدیک آ رہا ہے۔ یہ دنیا نئی شکل لے گی۔‘ مارخیز کو کہنا پڑا۔ ’ایک ایسی حقیقت بھی ہے جو کاغذی نہیں، ہمارے اندر رہتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسے پابند اظہار یا ذریعے کی تلاش کا رہا ہے، جو ہماری زندگیوں کی حقیقت کو قابل یقین بنانے میں ہماری مدد کر سکے، یہی تنہائی کا عقیدہ ہے۔‘ ان سے الگ ایک فکر میری بھی تھی۔ میں ہندوستانی سطح پر ایک نوآبادیاتی نظام کا گواہ تھا۔ مسلمانوں کی آمد، مغلوں کی حکومت، انگریزوں کی غلامی کے بعد تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا ہندوستان میرے سامنے تھا۔ نئی صدی کے بیس برسوں میں فرقہ پرستی، دہشت گردی کے ساتھ سوپر انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا کے نعرے بھی تھے۔ حقیقت سے زیادہ فنتاسی حاوی تھی۔ عالمی سطح پر مارخیز کے سو سال کی اداسیوں کا پہرہ تھا۔ اس کو بھی نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ پھر ایک بار سمجھ میں آئی۔ نیا ناول انتشار اور طلسمی حقیقت نگاری سے نکلے گا۔ نیا ناول گلوبل وارمنگ، عالمی دہشت گردی، ابہام، مضحکہ خیزی، تجرید اور بکواس موسم کا تعاقب کرے گا۔ نئی دنیا شاطروں کے پاس ہے۔ مضحکہ خیز شیطانیت کے ٹوٹے ہوئے پل پر سوار ہو کر ہم محض تہذیبوں کا نوحہ لکھنے کے لئے نہیں پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں دوستوفسکی کا احمق بھی ہے۔ سر وانٹس کا ڈان کیہوت بھی۔
غور کریں تو 600 برس قبل ناولوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ ڈنیل ڈیفو کا ناول رابنسن کروسو یوں تو ایک جہازی کی کہانی ہے جہاں پر اسراریت اور تحیرات کی فضا بھی ہے اور لا شعوری طور پر علامتوں کا استعمال بھی۔ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو سمندری جہاز کے تباہ ہونے کے بعد بہتے ہوئے ایک ویران جزیرے تک پہنچ جاتا ہے۔ رابنسن کروسو وہاں زندہ رہنے کے لئے راستہ تلاش کرتا ہے۔ جزیرے پر اس نے دو فہرستیں بنائیں۔ ایک فہرست کو اس نے بہتر کے نام کیا اور دوسرے کو ‘برا’ کہا، اس نے اپنی حالت کے بارے میں سوچا اور دوسری فہرست میں اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے لکھنا شروع کر دیا۔ اس نے لکھا، میں اس ویران جزیرے پر پھنس گیا ہوں، جو برا ہے۔ لیکن میں زندہ ہوں، جو اچھا ہے۔ جہاز میں سوار تمام دوسرے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن میں فرار ہو گیا۔ میں بالکل تنہا ہوں، جو برا ہے۔ لیکن میں بھوک سے نہیں مر رہا ہوں، جو اچھا ہے۔ میرے پاس کپڑا نہیں ہے، جو برا ہے۔ لیکن موسم ایسا ہے کہ مجھے کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے، لہذا یہ اچھی بات ہے۔ انسان آغاز سے ہی کہانیوں کا موجد تھا۔ تخلیقی ذہن تھا اس کے پاس۔نیکی کا عمل اور بدی کا عمل۔ رابنسن کروسو دونوں پہلوؤں سے گزرتا ہے۔ ممکن ہے کہ ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ لکھتے ہوئے روبرٹ لوئس سٹونسن کے شعور میں یہ ناول رہا ہو۔ تالستائی ہوں، ترگنیف ہوں، دوستووسکی ہوں، پشکن یاگوگول ہوں یا الکزنڈر سولنسٹین ہوں۔ ان کے ناول اٹھائیے اور پڑھیے۔ وہاں کے سیاسی، سماجی ہر طرح کے حالات کا اندازہ آپ کو ہو جائے گا۔ انقلاب اورعام رجحان کی تفصیل آپ کو معلوم ہو جائے گی۔ پشکن نے سپاہی کی بیٹی لکھا۔ تالستائی نے جنگ اور امن لکھا۔ دوستوفسکی نے بڑھتے ہوئے جرائم کو محسوس کیا تو اس کا حل (Crime and punishment) میں ڈھونڈھا۔ یہی نہیں اس نے اپنے ملک کے اخلاق، جرائم اور سیاسی و سماجی تبدیلیوں کو محسوس کیا تو ایک سے بڑھ کر ایک ناول لکھ ڈالے۔ ایڈیٹ، برادر کرامازوف، پوزینرڈ۔ سیاسی وسماجی حالات پر طنز کے لیے دوستوفسکی نے احمق کے کردار کو سامنے رکھا۔ یہ احمق ان کے طویل افسانے دا سٹوری آف اے ریڈیو کلس میں میں بھی موجود تھا۔ دوستوفسکی نے ایک احمق کردار کا سہارا لیا۔ یہ احمق جو ہوشمندوں اور عقلمندوں کی دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ محض اس احمق کردار کے ذریعہ دوستوفسکی اپنے موضوع اور اپنے کینوس کو وسعت عطا کرتا ہے اور پھر اس دائرہ کور وسعت عطا کرتے ہوئے وہ مذہب، سیاست سے سماج کے تمام مسائل پرجامع تبصرہ کرتا ہے۔ اب چاہے (Crime and punishment) کار سکولینکو ہو یا وہ ایڈیٹ جو شرفاء کی محفل میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ مگر اس کی یہ حرکتیں اس کے مضبوط وجود کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ وہ محض تصور کی وادی میں نہیں بلکہ اپنے وجود کے سہارے جیتا ہے۔ محفل میں لوگوں کی آنکھوں سے بچتا ہوا خوفزدہ ہو کر جب اس کے ہاتھوں سے شراب کا جام چھوٹ کر زمین پر گر پڑتا ہے تو پرنسز اس کی اس حرکت کا بھی لطف لیتی ہے۔ اور اسے کہنا پڑتا ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان بظاہر احمق نظر آنے والا یہ شخص سب سے عقلمند ہے۔ آج ہر شعبے میں دوستوفسکی کا احمق داخل ہے۔ دوستوفسکی معمولی آدمی کے درد کو اٹھاتا ہے اور اتنی بلندی تک لے جاتا ہے کہ اس کی ہر تخلیق شاہکار ہو جاتی ہے۔ سولنسٹین نے کینسر وارڈ اور گلاگ آرکیپلاگو لکھا۔ یہ ایسے روس کی تصویر تھی جس سے تمام لوگوں نے نفرت اور کراہیت محسوس کی۔ اور بالآخر سولنسٹین کو روس سے بھاگنا پڑا۔ گلاگ آرکیپلاگو میں اسٹالن عہد کی شاندار عکاسی تھی۔
گابرئیل گارسیا مارکیز نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ ہم یہاں فطرت کو شکست دینے آئے ہیں لیکن آپ جانئے، اس کا دوسرا پہلو ہے کہ آپ فطرت کو شکست نہیں دے سکتے۔ فطرت لگاتار آپ کو Dehumanise کر رہا ہے۔ آپ ترقی اور ایجادات کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں اور قدرت سکنڈ میں آپ کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ تعمیر کے ہر شعبے میں تخریب کی پیوند لگی ہے۔ Theory of deconstraction ___آپ ہتھیار بناتے ہیں، امن کے لئے، ملک کی سلامتی کے لئے اور ڈر جاتے ہیں کہ دوسرے ممالک نے بھی ایسے ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔ کہیں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ برسوں پہلے ایچ جی و پلس نے ایک ناول لکھا تھا۔۔ انسان نے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے بھی روبوٹ تیار کر لئے ہیں اور ایک دن یہ روبوٹ انسان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیتے ہیں _ میں اس دور کے ناولوں کو دیکھتا ہوں تنگ دامنی کے باوجود احتجاج کی آواز وہاں بھی سنائی دیتی ہے۔ آپ فطرت کو شکست نہیں دے سکتے۔
یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ کیونکہ یہ سب بونسائی تھے۔ ناول تو اردو میں اب لکھا گیا۔ ناول تو ایک مخصوص خیمے کی پیدا وار ہے۔ ناول کے چھ سو برس کے طویل سفر میں، اردو نے پہلا ناول نگار پیدا کر لیا ہے جو عظیم ہے۔ نہ اس سے پہلے کوئی تھا، نہ اس کے بعد کوئی ہو گا۔
٭٭
ماخذ: فیس بک
٭٭٭