پچھلی کئی دہائیوں سے اردو میں نثری نظم موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ میرے علم کے مطابق اس بحث کا آغاز 1974 میں ڈاکٹر وزیر آغا کے رسالے ’اوراق‘ میں ’سوال یہ ہے‘ عنوان کے تحت ایک مذاکرے کی شکل میں ہوا تھا۔ اس کے بعد نہ صرف یہ کہ اس موضوع کے دروازے کھل گئے، بلکہ اچھی بری بہت سی نثری نظمیں بھی وجود میں آنے لگیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شعر و ادب کی دنیا میں جب بھی کوئی نیا تجربہ وجود میں آتا ہے تو فطری طور پر اس کی حمایت اور مخالفت دونوں میں خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ پرانی نسل کے بزرگ، جو اپنی روایات کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں، کسی بھی ’بدعت‘ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اور نئی نسل کے جوان تقلید اور فیشن پرستی کی رو میں ہر نئی چیز کو اپنانے کی دوڑ میں اندھا دھند شامل ہو جاتے ہیں۔ نثری نظم کے سلسلے میں بھی یہ دونوں شدت پسند رویے، جن میں ہوش سے زیادہ جوش اور سخن فہمی کے بجائے طرف داری یا بے تعلقی کی کارفرمائی ہوتی ہے، ایک فطری اور لازمی امر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان انتہا پسندانہ رویوں سے قطع نظر، اس ضمن میں کئی ایسے بھرپور مقالے بھی منظر عام پر آئے جن کو علمی دلائل پر استوار کیا گیا تھا، اور جن سے اتفاق یا اختلاف کے با وصف، اس نئے تجربے کے خد و خال کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، نیز مزید بحث کی راہیں کھلتی ہیں۔ متشاعروں اور تیسرے درجے کے شاعروں کی بے ہنگم تحریروں کے ساتھ ساتھ متعدد جینوئن شعرا نے بھی ان نثر پاروں میں، جنھیں ’نثری نظم‘ کا نام دیا گیا ہے، عمدہ شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں۔ بات سے بات نکالتے ہوئے یہ واضح کرتا چلوں کہ میں شاعری اور نظم کو الگ الگ خانوں میں رکھتا ہوں۔ نثری نظم کے موضوع پر اپنے معروضات پیش کرنے سے پہلے اس بات کی وضاحت بھی نامناسب نہ ہو گی کہ مجھے شروع ہی سے اس اصطلاح سے اختلاف رہا ہے، اور یہ اختلاف کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ لغوی اعتبار سے ہے۔ لفظ ’نثری‘ کو اگر یائے نسبتی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے معنی ’نثر سے متعلق‘ یا ’از اقسامِ نثر‘ ہوں گے۔ نثری نظم کو ان معنی کے ساتھ Identify کرنے کے لیے نہ تو نثری نظم لکھنے والے اور نہ اس کی حمایت کرنے والے تیار ہوں گے، جو اسے از قسمِ نظم منوانے پر مصر ہیں۔ اگر ’نثری‘ کو یائے توصیفی کے تعلق سے بیان کیا جائے تو اس کے معنی ’شعری‘ کے نقیض کی حیثیت سے ’نثر کے انداز کی‘، ’ناثرانہ‘ یا ’نثریت کی حامل‘ قرار پائیں گے، اور اس طرح نثری نظم کا رشتہ Prosaic سے جا ملتا ہے، اور کوئی بھی شاعر اپنی شاعری کو Prosaic کہلانا پسند نہیں کرے گا۔ اگرچہ بجا طور پر یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ Prosaic کا فیصلہ سیاق کے حوالے سے ہوتا ہے، لیکن اصطلاح وضع کرنے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ صرف مطلوبہ مفہوم برآمد ہو اور قریب یا بعید کسی بھی دوسرے مفہوم کی گنجائش یا شائبہ نہ رہے۔
بہرحال نثری نظم کی اصطلاح دوسری متعدد غلط اصطلاحات کی طرح غلط العام کا درجہ پا کر رائج ہو چکی ہے۔ اس لیے اب اس سے مفر بھی نہیں۔ اسی مجبوری کی وجہ سے مجھے اپنے اس مضمون کے عنوان میں اس اصطلاح کو استعمال کرنا پڑا، حالانکہ میں نے اپنی کتاب ’اردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم‘ (مطبوعہ 1982) میں ضمناً اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے دوسرے کئی حضرات کی طرح ’نظمِ منثور‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی، یعنی ایسی نظم جو نثر کی ہیئت میں لکھی جائے۔ نام یا پہچان کے لیے ’نظمِ منثور‘ کی اصطلاح مناسب ہونے کے باوجود اس کا اختیار بھی میرے لیے ایک طرح کے جبر کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اصل مسئلہ یہی لفظ ’نظم‘ ہے۔ سارے سوالات اس ایک لفظ سے اٹھتے ہیں اور میرے اس مختصر مضمون میں بھی بحث کا مرکز و محور یہی لفظ ’نظم‘ ہے جو نثری یا منثور کوئی بھی صفت اس کے ساتھ استعمال کی جائے، بہرحال نثر سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح بنیادی سوال یہ ہے، اور جو پہلے سے بھی اٹھایا جاتا رہا ہے، کہ نثری نظم کو نثر تصور کیا جائے یا نظم قرار دیا جائے یا پھر اسے نثری نظم کہنے کی بجائے ’نثر میں شاعری‘ کہا جائے، جیسا کہ شمس الرحمن فاروقی کے مقالہ ’نثری نظم یا نثر میں شاعری‘ کے دوسرے ٹکڑے سے مترشح ہے۔ خود فاروقی صاحب کے مقالے کے اس عنوان سے ظاہر ہے کہ نظم اور شاعری میں فرق و امتیاز ہے۔ معاصر اردو نثری نظم کا رشتہ مغربی اثرات سے جوڑا جاتا ہے لیکن خود مغرب میں Prose Poem کو ’نثر میں شاعری‘ ہی کہا گیا ہے۔ انگریزی لغات میں Prose Poem کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
"A Piece of imaginative poetic writing in prose۔”
بودلیئر، جسے عام طور پر اس پیرایۂ اظہار کا موجد کہا جاتا ہے، اس نے بھی اپنی نظموں کو "Poemes En Prose” کہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے اور اس کے بعد دوسرے فرانسیسی شعرا نے اپنی اس طرح کی شعری کاوشوں کو نثر کی طرح پیراگرافوں میں تحریر کیا ہے۔ جہاں تک انگریزی نظم کا تعلق ہے، اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں نثری نظم روایت نہ پا سکی۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں اس کی علاحدہ سے کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی، کیونکہ وہاں آزاد نظم کی فارم ہی میں اس کی گنجائش موجود تھی۔ انگریزی میں فری ورس کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق وہ ایسی نظم ہے جس کی تشکیل مختلف اوزان و بحور کے امتزاج سے بھی اور وزن کو یکسر نظرانداز کر کے بھی کی جا سکتی ہے۔ اس تعریف کی مثال کے طور پر ہلڈا ڈو لِٹل اور والٹ وٹمین جیسے شعرا کی فری ورس کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو انگریزی کی آزاد نظم ’نظمِ منثور‘ کو بھی محیط ہے۔
اب رہا سوال اردو کا تو ذرا گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹا کر دیکھیے اور نثر میں شاعری کے اس انداز کو ملاحظہ فرمائیے جسے ’شعرِ منثور‘ کے نام سے پیش کیا گیا تھا اور جس کا آغاز اور رواج بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے ابتدائی برسوں ہی میں چینی اور جاپانی نظموں کے ترجموں اور ٹیگور کی شاعری کے زیراثر ہو گیا تھا۔ گو آج کی نثری نظم کی انفرادی اہمیت منوانے کے لیے اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا، لیکن در اصل یہ شعرِ منثور جسے ایک ادیب نے ’نثرِ شاعری‘ کے نام سے بھی موسوم کیا ہے (ملاحظہ ہو مضمون ’ادبیاتِ اردو‘ از سالک بٹالوی مطبوعہ ہمایوں اکتوبر 1923، ذیلی عنوان ’ادب کی نئی بیماری‘) معاصر نثری نظم کی پیش رو ہے۔ میں نے ’اردو میں نظم معرّا اور آزاد نظم‘ میں اس ضمن میں بحث کرتے ہوئے دس سال کی مدت پر پھیلے ہوئے مختلف رسالوں سے شعرِ منثور کی چند مثالیں پیش کی ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ مختلف زمانوں کے مزاج اور اظہاری رویوں سے قطعِ نظر اس ’نثرِ شاعری‘ کے پاروں میں آج کی نثری نظم کی تقریباً تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ بے محل نہ ہو گا اگر یہاں ان میں سے دو مثالیں پیش کر دی جائیں۔
شرابی کا گیت:
151شاعر رائنر میر یارِلکے (Rainer Maria Rilke)
مترجم: ڈاکٹر سلیم الزماں )
میرے اندر نہ تھا، جاتا تھا، آتا تھا۔
میں نے روکنا چاہا۔
شراب نے روکا
(اب کچھ یاد نہیں کہ کیا تھا)
پھر اس نے میرے لیے کبھی یہ چیز روکی کبھی وہ۔
پھر میں نے اپنے تئیں بالکل اس کے حوالے کر دیا۔
میں سڑی
اور اب میں اس کا کھیل ہوں
مجھے جدھر چاہے پھینکے، میری اوقات پہ تھوکے،
چاہے ابھی اس جانور کے ہاتھ بیچ دے
جس کا نام موت ہے۔
اور جب اس نے مجھ میلے کچیلے پتے کو جیت لیا
تو مجھ سے اپنی کھوپڑی کی پپڑیاں کھجائیں
اور مجھے لید کے ڈھیر پر پھینک دیا
(’جامعہ‘ اگست 1929، ص۔ 123-124)
بلا عنوان از گلچیں:
میں نے دیکھا دیکھتی آنکھوں
چہکنے والی چڑیاں پیاری پیاری
دوکانوں میں بکتی
لوگوں کے کھانے کو
بکتی، دوکانوں میں
حماقت بازار کی!
میں نے دیکھا خواب میں
گیہوں میں کیڑا
اور دو کانوں میں کچھ نہیں
لوگوں کے کھانے کو
دوکانیں خالی
حماقت بازار کی!
(’ہمایوں‘ ستمبر 1934، ص 73)
دوسری مثال میں بیشتر فقرے موزوں ہیں۔ عجزِ کلام کی یہ صورت آج کی نثری نظموں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اب دیکھیے کہ ’’شعرِ منثور‘‘ کو رواج دینے والے ادیبوں نے بھی، جو اس اصطلاح کے وضع کرنے میں محتاط تھے بلکہ دیکھا جائے تو آج کی بہ نسبت زیادہ با شعور بھی تھے، اپنی کاوشوں کو نظم کہنے کے بجائے نثر میں شاعری ہی کہا ہے، یعنی جو بنیادی طور پر نثر ہے مگر اسے شاعرانہ انداز میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس میں بھی یہی نکتہ پوشیدہ ہے کہ نظم کے ایک صنفِ شعر ہونے کے باوجود، شاعری اپنے اظہار کے لیے نظم کے پیرایے کی محتاج نہیں۔ اس کا ثبوت اردو نثر کے سب سے بڑے شاعر محمد حسین آزاد سے لے کر آج تک اردو شعر و ادب کی تاریخ سے فراہم ہوتا ہے۔ ان تخلیقی یا شاعرانہ نثر لکھنے والوں کی تحریروں کو نثری پیراگراف میں لکھنے کے بجائے جملوں اور فقروں کو الگ الگ سطروں میں لکھ دیا جائے، جیسا کہ شمس الرحمان فاروقی اور دیگر حضرات نے کیا بھی ہے، تو شکل و صورت کے اعتبارسے بھی اور شعری طرز اظہار کے اعتبار سے بھی ان میں اور آج کی نثری نظم اور پچھلے زمانے کے شعرِ منثور میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔ آج سے آٹھ نو دہائی پہلے شعرِ منثور یا نثری شاعری کی موجودگی اس خیال کی تردید کے لیے کافی ہے کہ نثری نظم آزاد نظم کی توسیع یا اس کے بعد کی چیز ہے۔
شاعری کی حیثیت روح کی ہے اور جس پیرایۂ اظہار کو وہ اختیار کرتی ہے اس کی حیثیت قالب کی ہے اور یہ قالب نثر بھی ہو سکتا ہے اور بہ شمول نظم کوئی شعری صنف یا ہیئت بھی ہو سکتی ہے۔ شاعری کی یہ روح جسے شعریت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اپنے اظہار کے لیے، جیسا کہ پہلے کہا گیا، نظم کے قالب کی محتاج نہیں۔ اسی چیز کو ڈاکٹر وزیر آغا نے ’شعری مواد‘ کا نام دیا ہے۔ بنیادی طور پر مجھے ان کے خیال سے اتفاق کے باوجود شعری مواد کی ترکیب سے اختلاف ہے۔ کوئی بھی مواد اپنی اصل کے اعتبار سے نہ شعری ہوتا ہے نہ نثری۔ ادیب یا شاعر کا احساس، اس کا تخلیقی رویہ، اس کا فنی برتاؤ اسے شعری یا نثری بناتا ہے۔ اس شعریت کی کارفرمائی نثری نظموں میں بھی پائی جاتی ہے اس کی بنیاد پر نثری نظم کو نظم کی ایک صنف یا ہیئت قرار دینا کس حد تک درست ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ نثری نظم کے جواز کے طور پر اس کی حمایت میں عام طور پر جتنی بھی بحثیں کی گئی ہیں اور ان کے ذریعے نظم کی جتنی بھی تعریفیں کی گئی ہیں یا اس کی جتنی بھی خصوصیات بیان کی گئی ہیں جیسے شدتِ احساس، ارتکازِ خیال، الفاظ کا تخلیقی استعمال وغیرہ سب کی سب شاعری سے متعلق ہیں نہ کہ نظم سے۔ نظم ایک شعری صنف ہے لیکن ایک ایسی ڈھیلی ڈھالی صنف جس کے نہ تو موضوعات متعین ہیں اور نہ اس کے لیے کسی ہیئت کی تخصیص و تعیین ہے۔ اس کے با وصف اس کی مختلف اقسام اپنی ہیئت یا مخصوص پیرایۂ اظہار کی بدولت اپنی واضح اور منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ یہ بات نثری نظم کے ساتھ نہیں۔ ہیئت اور شعری پیرایۂ اظہار کی حیثیت سے اس کی انفرادی اور بے میل شناخت ممکن نہیں۔ اس کی ہیئت نثر کی ہیئت ہے جسے جملوں اور فقروں کو الگ الگ سطروں میں لکھنے کی تکنیک کے ذریعے نظم کی شکل دینے کی سعیِ نا مشکور کی جاتی ہے۔ ہیئت اصل کے خلاف، تکنیک اکثر و بیش تر ہنر سے عاری۔ لے دے کر بات صرف آہنگ کی رہ جاتی ہے، تو اس کا آہنگ بھی شعری آہنگ نہیں ہے۔ یہاں آہنگ سے میری مراد خارجی آہنگ ہے، ایسا خارجی آہنگ جو نہ صرف موجود ہو بلکہ محسوس بھی ہو، کیونکہ داخلی آہنگ تو شاعری یا شعریت کے ذیل میں آتا ہے۔ نثری نظم میں داخلی آہنگ تو ہے لیکن محسوس خارجی آہنگ نہیں جو نظمیہ پیرایۂ اظہار کے لیے ضروری ہے۔
انگریزی زبان کو بنیاد بنا کر نثر میں آہنگ کی موجودگی کی بات کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میں نے تفصیل کے ساتھ بحث ’اردو میں نظم معرّا اور آزاد نظم‘ میں آزاد نظم کے ذیل میں کی ہے، جسے دہرانا نہ تو ضروری ہے اور نہ مناسب۔ مختصراً یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ اردو اور انگریزی دو الگ الگ زبانیں ہیں اور ان کی اپنی اپنی لسانی خصوصیات ہیں۔ انگریزی ایک تاکید اساس (Stress-Based) زبان ہے، جس کا ہر لفظ، اور ہر عروضی رکن بھی، مستثنیات سے قطعِ نظر، ایک تاکیدی جزو (Stressed Syllable) اور باقی اجزا غیر تاکیدی (Unstressed) ہوتے ہیں۔ تاکیدی جزو کو لہجے پر زور دے کر ادا کیا جاتا ہے، جبکہ غیر تاکیدی جزو کے ساتھ یہ صورت نہیں ہوتی۔ اب انگریزی کو انگریزی کے صحیح لب و لہجے اور انداز کے ساتھ پڑھایا بولا جائے تو تاکید کی بدولت اور تاکیدی اور غیر تاکیدی اجزا کے اپنی اپنی باری سے ادا ہونے پر نثر میں بھی زیر و بم یا اتار چڑھاؤ کی ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو محسوس کی جا سکتی ہے۔
اس طرح نثر کا یہ محسوس خارجی آہنگ شعری آہنگ یا عروضی آہنگ نہ ہوتے ہوئے بھی آزاد یا منثور نظم کی ضروریات کے تحت شعری آہنگ کا بدل یا قائم مقام بن جاتا ہے، اور انگریزی زبان کا عروضی نظام سخت اور جامد نہ ہونے کے باعث نظم کے لیے بھی قابلِ قبول ہوتا ہے، نیز ایک عام قاری بھی اس کی ادائیگی پر قادر ہوتا ہے۔ اردو میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ نثر میں بھی ایک آہنگ ہوتا ہے، اردو نثر میں وہ قابلِ شناخت اور محسوس خارجی آہنگ نہیں ہوتا جس کا ذکر کیا گیا۔
ماہرینِ لسانیات چاہے اپنے علمی دلائل سے اردو زبان میں Stress کی موجودگی کو ثابت بھی کر دیں لیکن ان کی علمی بصیرتوں کے تمام تر احترام کے باوجود، جہاں تک اردو کی عام بول چال اور لہجہ نیز فطری قرأت کا تعلق ہے، تو مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ، کچھ علاقائی اثرات اور مخصوص لسانی صورتوں جیسے جملوں اور فقروں کے استعجابیہ یا استفہامیہ انداز کے استثنا کے ساتھ، بنیادی طور پر اردو تاکید اساس زبان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو بولنے یا اس کی نثر پڑھنے میں وہ محسوس خارجی آہنگ نہیں پیدا ہو پاتا جو شعری آہنگ کی جگہ لے سکے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نثری نظم بلکہ آزاد نظم بھی سنائی جانے کے لیے نہیں پڑھی جانے کے لیے ہوتی ہے۔ ادب کا ذوق رکھنے والے ایک عام قاری سے (اور اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ قاری بھی شامل ہیں )یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایک ایسی نظم کو، جس کی بنیاد نثری آہنگ پر رکھی گئی ہو، جس طرح ساقی فاروقی یا کوئی اور شاعر اپنی تربیت یافتہ ادائیگی اور ڈرامائی انداز کے ساتھ پڑھتا ہو، اسی انداز سے پڑھ سکے گا۔ ان معروضات کی روشنی میں مجھ جیسے کم علم کے حلق سے یہ بات نہیں اترتی کہ نثری نظم کی بنیاد نثر کے فطری آہنگ پر رکھی گئی ہے، اس کے باوجود وہ نظم ہے۔ میرے نزدیک نثر کا فطری آہنگ، کم از کم اردو کی حد تک، نظم کا آہنگ ہو ہی نہیں سکتا۔ نظمیہ پیرایۂ اظہار کے لیے شعری آہنگ لازمی ہے، جو عروضی ارکان کے کسی نہ کسی شکل میں ترتیب پانے ہی سے ظہو رمیں آتا ہے۔ اس میں آزادیاں بھی انھیں حدود میں اختیار کی جا سکتی ہیں جو عروض کی رو سے ممکن یا جائز ہیں۔ اب اسے چاہے جبر کہیے یا کچھ اور اس سے مفر نہیں۔ ایسی صورت میں یہ بات سوچنے کی ہے کہ منثور شاعری کو شعری نثر کہنا مناسب ہو گا یا نثری شاعری اور منثور نظموں کو نثری نظم کہنا مناسب ہو گا یا شعری نثر پارہ۔
نثری نظم کے کچھ ’طرف دار‘ حضرات اس کے جواز کے حق میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ چونکہ شاعر نے خود اسے نظم کہا ہے، اس لیے ہمیں بھی اسے نظم ماننا چاہیے۔ یہ تاویل یا دلیل وکالتِ محض کا درجہ رکھتی ہے اور سخن فہمی کے بجائے طرف داری پر مبنی ہے، نیز یہ غلط فہمی و غلط روی کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ اوّل تو یہ کہ شاعر کی بات پر آمنا صدقنا کہہ کر اسے کھیل کھیلنے کی چھوٹ دے دی جائے تو بے چاری تنقید کا گوشۂ عافیت کہاں رہے گا۔ دوسرے یہ کہ شاعر کبھی کچھ مصلحتوں کے تحت، کبھی لاعلمی یا خوش فہمی اور کبھی خود تشہیری کے طور پر اپنی ذات اور کلام کے ان پہلوؤں کو نمایاں کرنے کے لیے، جو فطرتاً اور عموماً قابلِ توجہ نہیں سمجھے جاتے، اس طرح کے اعلانات و بیانات کرتا ہے۔ کیا ہم ان تمام دعاوی کو بے چون و چرا تسلیم کر لیں! تنقید نے تو اقبال جیسے عظیم الشان شاعر کو نہیں بخشا اور انھوں نے جن چہار مصرعی قطعات کو رباعی کا نام دیا تھا، رباعی ماننے سے انکار کر دیا اور اس طرح ان کے نظریے کو سرے سے مسترد کر دیا، حالانکہ ان قطعات میں سوائے رباعی کی بحر کے رباعی کے باقی تمام لوازم موجود ہیں۔ لہٰذا چاہے وہ نثری نظم ہو یا کچھ اور اس طرح کی وکالت سے احتیاط لازم ہے۔
اپنے معروضات کا اختتام اس وضاحت کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں کہ ادبی شریعت میں تجربہ گناہ نہیں ہے۔ تجربہ مستحسن ہے کیونکہ یہ زندہ ادب کی پہچان اور ادب کی زندگی اور رفتار کی علامت ہے۔ لیکن کسی بھی تجربے کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ قبولِ عام کی منزل سے گزر کر خود اپنی جگہ ایک مستحکم روایت بن جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نثری نظم کا تجربہ قبولِ عام حاصل کر کے روایت کا درجہ پاچکا ہے؟ اور کیا نثری نظم نے ایک غالب یا حاوی پیرایۂ اظہار کی حیثیت حاصل کر کے شعری اظہار کے دوسرے پیرایوں کی بالادستی ختم کر دی ہے، جس طرح سے آزاد نظم نے پابند نظم کی بالادستی اور اجارہ داری ختم کر دی ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو اس خوش گمانی کا کیا جواز ہے کہ اردو میں مستقبل کی نظم نثری نظم ہی ہو گی؟
سہ ماہی فکر و تحقیق، دہلی، جنوری تا مارچ 2015
٭٭٭
مضمون نہایت عرق ریزی سے تحریر کیا گیا ہے۔