ذہن کا کورا کاغذ لے کر
کب سے بیٹھا
سوچ رہا ہوں
دیکھ رہا ہوں کرب و بلا کے خونیں منظر
سوچ رہا ہوں کیسے کچھ لکھ پاؤں گا
لفظوں کے لب سوکھ رہے ہیں
سوچ کے بازو ٹوٹ رہے ہیں!
آج مجھے بھی کوفے سے پیغام آتے ہیں
سوچ رہا ہوں میں بھی کسی مسلم کو بھیجوں
آج کے دور کی امِ ہانی بھی بے بس ہے
اور ملوکیت کا افسوں
سر پر چڑھ کر بول رہا ہے
زہر لہو میں گھول رہا ہے
اور اِک مردِ خدا کا ماتم کرنے والے
آپ اپنے سر کاٹ رہے ہیں
خون کے دریا پاٹ رہے ہیں
آج بھی شمر اور ابنِ زیاد کے کتنے بھائی
راہِ وفا میں رہزن بن کر بیٹھ گئے ہیں
آج کروڑوں کرب و بلا کے مارے ہوؤں کو
ایک حسین بھی مل نہ سکا تو۔۔۔
پھر کیا ہو گا؟
اس سے آگے سوچ کی گردن کٹ جاتی ہے!!
آج ہماری بے سر لاشیں ناچ رہی ہیں
اِن سے گرتے سرد لہو کے قطرے دھبے بن جاتے ہیں
اور میں ذہن کا میلا کاغذ لے کر بیٹھا سوچ رہا ہوں
کیسے کچھ لکھ پاؤں گا
کیا کچھ لکھ بھی پاؤں گا؟
٭
۲۴؍ ستمبر ۱۹۸۵ء
ماخذ: مجھے اک نظم کہنی تھی
٭٭٭