جناب نصیر ترابی سے ایک گفتگو ۔۔۔ روما رضوی

 

کس کی یہ کائنات ہے کون ہے اس کا مدعی۔

کس کو ’ثبات‘ چاہئے نرغۂ بے ثبات میں۔

 

ذہنِ رسا نہ جا سکا حدِ معینات تک۔

کُن کی روش نہ رک سکی راہ معینات میں۔

 

ان اشعار کو پڑھ کر آپ کو بھی ایسا ہی لگے گا۔ کہ شکوہ جوابِ شکوہ سے منتخب کئیے گئے ہیں۔

لیکن در اصل یہ جنابِ نصیر ترابی کے کہے اشعار ہیں۔

آپ ایک ایسے معروف خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو بیک وقت علمی ادبی اور مذہبی شناخت رکھتا ہے۔ محترم ذاکر و خطیبِ منبر علامہ رشید ترابی۔ جن کی ٹیلی کاسٹ ہوئی شبِ عاشور و شام غریباں کی مجالس اب بھی اکثریت کے ذہن میں محفوظ ہوں گی۔

جنابِ نصیر ترابی کو میں نے اکثر پاکستان ٹیلی وژن کے مشاعروں میں نظامت کرتے دیکھا اور ہمیشہ ان کا بہت ہی عمدہ کلام بھی سننے میں آیا۔ وہ اردو شعراء کی صفِ اول میں ہمیشہ شامل نظر آتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی مشاعروں میں بھی نظامت کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ کافی عرصے تک کالمز بھی لکھتے رہے۔ مختلف یونیورسٹیز میں تحقیق کے طلبہ کی رہنمائی کرتے رہے اردو زبان اور اردو شاعری کے فروغ کے لئے باقاعدہ سیمینارز کا انعقاد کرواتے رہے ہیں۔ میر انیس کے مرثیے اور کیمرا ورک پر ان کا تحقیقی مقالہ بھی اہم دستاویز ہے۔ مختلف شعراء کے کلام کا انتخاب بھی کئی سال شائع کرتے رہے ہیں۔

آپ کی پہلی کتاب عکس فریادی سن 2000 میں منظرِ عام پر آئی۔ 2013 میں شعریات کے موضوع پر بہت اہم کتاب تحریر کی جو اردو اساتذہ کی شاعری کو سمجھنے کے لئے طلبہ اور مدرسین کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہی کتاب مختلف اداروں نے اپنے سلیبیس میں بھی شامل کر رکھی ہے۔

سن 2017 میں عقیدہ نوائی ’لاریب‘ حمد و نعت اور منقبتوں کا مجموعہ شائع ہوا جو مخصوص حلقوں میں بہت مقبول ہے۔

ہفتے کی اس صبح نصیر ترابی صاحب ہمارے مہمان ہیں۔

سب سے پہلا سوال میں نصیر بھائی آپ سے یہی کرنا چاہوں گی کہ آپ نے 1962 میں لکھنے کا آغاز کیا مگر پہلی کتاب سن 2000 میں ’عکسِ فریادی‘ کے نام سے شائع ہوئی اس قدر دیر سے کتاب لانے کی کیا وجہ ہوئی۔

ج- دیکھیں اس کی خاص وجہ تو میرے والد جناب رشید ترابی کی مجھے نصیحتیں تھیں۔ جو مجھے ہر قدم پر کام آئیں وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی ایسا کام نہ کرو کہ جس پر بعد میں شرمندگی ہو۔ جب تک تحریر یا شعر میچیور حالت میں نہ آ جائے اسے مکمل نہ سمجھا جائے۔ ضروری نہیں کہ اپنا ہر کلام چاہے وہ کسی حالت میں ہی ہو عوام کی نذر کر دیا جائے۔ جب تک خود کے لکھے پر ہر زاویئے سے مطمئن نہ ہوں اسے شائع نہ کیا جائے۔

 

س۔ آجکل بیشمار لوگ شاعری کر رہے ہیں اور تواتر سے کلام چھپوا رہے ہیں کیا ایسا کرنا درست ہے۔

ج۔ شعر کہنا اور اسے شاعری قرار دینا یوں تو شہرت کا باعث بن سکتا ہے اور ممکن ہے کہ لکھنے والے کی بہت ساری کتابیں بھی چھاپ دی جائیں۔ مگر خیال رہے کہ آپ بطورِ شاعر عرصے تک لوگوں کو یاد نہیں رہیں گے میں اسٹریم کا حصہ کبھی نہ بن پائیں گے۔ ادب لکھنے والوں کی جو فہرست ہو گی ان میں شمار نہیں کئے جائیں گے۔

اس دور میں ویسے بھی ادب کی معلومات حاصل کرنے اور شہرت حاصل کرنے کے بہت شارٹ کٹس اور ذرائع ہیں ٹی وی، ریڈیو، اخبار، میگزین۔ اور فیس بک پر تو ایسے ایسے شعراء دستیاب ہیں کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کہ ایسے اشعار بھی داد و تحسین حاصل کرتے ہیں جو سرے سے شعر ہی نہیں ہوتے۔

اس لئے میرے والد ہمیشہ کہتے تھے کہ بہت ہی احتیاط سے اپنے کلام کو پرکھا جائے۔ میں خود اپنے کلام سے بہت دیر میں راضی ہوتا ہوں۔ میرے قریبی دوست مصطفی زیدی اور عبید اللہ علیم بھی اکثر مجھے قصائی کہا کرتے تھے کیوں کہ اگر اپنا کلام مجھے خود درست نہ لگے تو لکھی لکھائی غزل کو بھی تلف کر دیا کرتا تھا۔

س۔ آپ کی پہلی کتاب کے بعد لوگوں کے کسی بھی بھی رد عمل کے بعد کوئی تبدیلی آپ نے اپنے لکھنے کے انداز میں کی؟

ج۔ میری پہلی کتاب عکسِ فریادی سے میرا اسلوب لوگوں کے سامنے آیا لوگ بیشمار کتابیں لکھتے ہیں مگر ان کا اسلوب واضح نہیں ہوتا۔ ہمیشہ اپنا وہ رخ دکھانا چاہیئے جس سے آپ کا اسلوب آپ کا اسٹائل آپکی پسند نا پسند کا اظہار ہو سکے۔ یعنی آپ کے پاس خوشی کیا چیز ہے اور غم کا کیا اظہار ہے۔

میں نے شروع سے ہی صرف اپنے جذبات کے اظہار کے لئے ہی لکھا ہے۔

 

س۔ کیا ہر وہ شخص جو جذبات و احساس رکھتا ہو۔ شاعری یا نثر نگاری کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنا سکتا ہے؟۔

ج۔ بھئی لکھنے کے لئے یا بصورت دیگر بھی مطالعہ بہت اہم ہے۔ افسوس کہ کثرتِ مطالعہ کے ہم عادی نہیں ہیں۔ میرا تو یہ عالم ہے کہ گذشتہ کل اگر کسی نے بالفرض کوئی 400 صفحات کی کتاب بھیجی ہے تو اگلی شام تک میں اس کتاب کی تفصیل خود مصنف کو بتا دیتا ہوں اور وہ حیرت کرتا ہے مگر حق یہی ہے کہ کثرتِ مطالعہ سے آپ میں معیار پیدا ہوتا ہے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ لکھا گیا مواد قابل اشاعت ہے کہ قابلِ رد مطالعہ آپ میں ایسی قدرت پیدا کر دیتا ہے کہ خود کے معیار قائم کر سکیں معیار نہ ہو تو اظہار طاقت نہیں رکھتا۔

 

س۔ عام طور پر کوئی بھی تخلیق کار کسی خاص واقعے یا کسی خاص محرک کے زیر اثر کوئی کلام یا فن پارہ تخلیق کرتا ہے۔ آپ کو لکھنے کی تحریک کس سبب ہوئی؟

ج۔ میرے زمانے میں بطور تفریح ٹی وی، انٹرنیٹ فلم یا برینڈز وغیرہ کا ٹرینڈ نہیں ہوا کرتا تھا۔ میری تربیت تو اس ماحول میں ہوئی کہ والد صاحب خود شعر کہتے تھے اور ہفتے میں ایک دن یعنی اتوار کو ایک شعری نشست گھر میں لازمی ہوتی تھی جس میں وقت کے مشہور شعرا کلام سناتے تھے جوش صاحب آتے تھے فیض صاحب پڑھتے تھے۔ خاصی طویل نشست ہوتی تھی پھر کھانا وغیرہ کھایا جاتا۔ ہم سلفچی میں ان حضرات کے ہاتھ دھلاتے تھے۔ جب وہ تخت سے اترتے تو ان کے جوتے سیدھے کرتے تھے۔ اس ماحول میں رہتے ہوئے تہذیب و تمیز پیدا ہوئی۔ پھر ایک طرح ان محافل نے نفسیاتی تربیت کی اور شاعری کی جانب رغبت پیدا ہوئی۔

پھر لفظ سمجھ میں آنے لگے۔ گھر کی تربیت تو اول ہوئی اور یہ نشستیں بہت سیکھنے کا سبب بنیں۔ پھر اسکول سندھ مدرستہ الاسلام جہاں قائد اعظم بھی زیر تعلیم رہے وہاں پر پڑھا تو نویں جماعت سے خود بھی اشعار کہے۔ مگر شروع میں مختلف شعراء کے کلام کی پیروڈیز بہت کیں۔

 

س۔ کوئی ایسا خاص دور جب آپ نے بہت لکھا ہو۔؟

ج۔ زیادہ اور کم لکھنے کا تو کبھی مسلہ ہی نہیں ہوا کیونکہ میرا اپنا معیار خاصہ سخت تھا۔ مگر ہاں اچھے اسپورٹس میں کی طرح ابتدائی زمانہ خاصہ سرگرم رہا اس وقت کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ لکھا گیا غالباً 70 سے 80 کی دہائی مصروف گذری۔

 

س۔ اپنی فطرت سے نزدیک تر لکھتے ہیں یا وہ جو آپ کا سامع یا قاری سننا اور پڑھنا چاہتا ہو؟

ج۔ لوگوں کی فرمائش پر پابند ہو کر کبھی نہیں لکھا اس سبب سے مشاعروں میں کم ہی شرکت کی کہ میں پبلک ڈیمانڈ پر کچھ پیش نہیں کرتا بس اپنا احساس اپنا رد عمل لکھتا ہوں۔

 

س۔ نئے سننے والوں کو آپ کی وہ غزل بہت بھاتی ہے۔

وہ ہم سفر تھا مگر اس میں ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی۔

اور ڈرامہ سیریلز میں بطور ٹائٹل سونگ بہت زیادہ سنی گئی ہر فرد بالتفریق عمر کے ہر ایک نے پسند کی جبکہ آپ کے مطابق وہ سقوط ڈھاکہ پر آپ نے لکھی تھی اور ڈراموں میں رومانوی انداز سے فلمائی گئی ہے۔

ج۔ غزل کی یا اشعار کی تہہ داری ہی در اصل خوبی ہے کہ آپ اسے پڑھیں تو کئی معنی اخذ کر سکتے ہیں فیض کی کتنی ہی غزلیں جو سیاسی حالات پر لکھی گئی تھیں۔

انکا رومانی نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔

ایک اور مثال سنئیے نواب رام پور کے گھر ایک محفل میں شاعر داغ غزل سنا رہے تھے چلمنیں پڑی تھیں اور بیبیاں چلمن کے دوسری طرف سے غزل سن رہی تھیں کہ داغ نے دیکھا کے نواب صاحب کی توجہ چلمن کے دوسری جانب زیادہ ہے تو وہ غزل جو ہے۔

باعثِ ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں۔

اس میں ہی ایک شعر پڑھا

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں۔

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔

اور مورخین لکھتے ہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے رامپور کے ایک جلسے میں وجودِ باری تعالیٰ پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے اس شعر کا خوب عالمانہ قدرت سے استعمال کیا کہ کوئی بھی معترض نہ ہو سکا۔

 

س۔ شعر لکھنا آپ کو توانائی دیتا ہے یا اذیت کا باعث بن جاتا ہے؟

ج۔ لکھنا در اصل وہ جو انگریزی کا لفظ ہے نا کتھارسس وہ بن جاتا ہے شعرا اکثر کہتے ہیں نا کرب میں ہوں یا اذیت میں ہوں۔ اور جیسے ہی غزل کاغذ پر تحریری صورت میں اتر آتی ہے تو ایسی آسودگی اترتی ہے کہ روح تک سرشاری و راحت محسوس ہوتی ہے۔

 

س۔ کیا آپ کو بھی کبھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ کیا لکھ دیا؟

ج۔ نہیں ابھی تک تو کسی کی ایسا اتفاق نہیں ہوا ہے اور میں خود بھی اپنے معاملے میں محتاط ہوں بہت محنت و سخت گیری سے شعر تخلیق کرتا ہوں۔ ہم عصر تو خیر ساتھ ہی ہیں مگر سنیئر شعراء نے بھی کسی غزل شعر یا لفظ تک پر بھی اعتراض نہیں کیا۔ میں اپنا ہر لفظ خود بھی پرکھتا ہوں اگر دیکھنے میں بھی برا محسوس ہو تو کاٹ دیتا ہوں۔

 

س۔ لفظ کی طاقت پر کس قدر یقین رکھتے ہیں؟

ض۔ لفظ ہاں بہت طاقت رکھتے ہیں لوگوں کے ذہن میں اور زبان پر رہ جاتے ہیں اب اسی غزل کو لیجئے جو ڈراموں میں چلی۔

امریکہ انگلینڈ یا کسی بھی بیرونی ملک کے دورے پر محفلوں میں نوعمر لڑکے لڑکیاں اسے گاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹربیوٹ ٹو انکل ہمسفر۔

تو دل خوش ہوتا ہے کہ اس بہانے اردو تو پڑھ رہے ہیں۔

 

س۔ لکھنے والوں کے دوست ضروری ہے کہ لکھنے والے ہی ہوں؟

ج۔ نہیں یہ قطعی ضروری نہیں اچھا سامع بھی اچھا دوست ہوتا ہے اچھا قاری بھی دوست ہوتا ہے شعر سمجھنے والا ذہین قاری اپنی گفتگو سے نئے سوالات اٹھاتا ہے وہ بھی بہت اچھا دوست بن جاتا ہے۔

 

س۔ کبھی شعبۂ تدریس سے وابستہ رہے؟

ج۔ براہ راست تو نہیں مگر یہ کتاب شعریات جو لکھی اس کا مقصد سیکھنے اور سکھانے والوں کی ذہنی تربیت تھی کہ شعر کو کس طرح پڑھا جائے کیسے سمجھا جائے۔ اس کتاب کو بھی خاص حالات میں لکھا۔ 2004 میں جب میرے چھوٹے بھائی کا اچانک انتقال ہوا تو صدمے کے باعث میں کافی عرصے خود میں محصور رہا پھر خود ہی اپنے گھر والوں کی خاطر اپنے آپ کو مصروف کیا اور زندگی کی جانب واپس آیا۔ احباب تو غم غلط کرنے کے لئے سیر و تفریح کرتے ہیں مگر میں نے کتاب لکھی سوچا کہ میر و غالب پر تو لاکھوں کتابیں ہیں اب ان کے اشعار کو سمجھنے کے لئے کچھ لکھا جائے۔ تو سن 2004 میں شعریات شائع ہوئی۔

 

س۔ عام طور پر شعراء اپنے محبوب کے ذکر سے غزل میں رنگ بھرتے ہیں کیا ایسا کبھی آپ کے کلام میں ہوا؟

ج۔ دلچسپیاں تو پیدا ہوتی ہیں نوعمری میں لڑکپن میں بھی ایسا ہوتا ہے ایسے ہی خیال میں اشعار بھی ہوتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ خیال زندگی کے معمولات پر یا گھریلو ذمہ داریوں پر حاوی آیا ہو۔

 

س۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اگر شاعر نہ ہوتے تو کیا وجہ شہرت بنتی کبھی ایسا سوچا بالفرض اگر شاعر نہ ہوتا تو کرکٹر ضرور ہوتا؟

ج۔ ہاں یہ دلچسپ بات ہے کہ واقعی کرکٹ کھیلتا تھا کالج میں بھی اور یونیورسٹی میں بھی ٹیم میں شامل تھا حنیف محمد اسکول میں میرے سنئیر تھے اور مشتاق محمد ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ مگر شاعری زندگی پر زیادہ غالب رہی۔

 

س۔ لکھنے کے لئے کوئی خاص جگہ جیسے لائبریری یا گھر کا کوئی حصہ مخصوص ہے؟

ج۔ نہیں ایسا نہیں کہ بیٹھ کر ہی سوچا ہو۔ شعر تو اکثر لوگوں کے درمیان۔ گاڑی چلاتے گھر بیٹھے ذہن میں آتے ہیں فوری نہیں لکھتا انہیں ذہن ہی میں درست کرتا رہتا ہوں ذہن میں چبھتا رہتا ہے بہتر لگے تو پھر لکھا جاتا ہے۔

پہلے اپنا گھر تھا تو وہاں بیشمار کتابوں پر مشتمل بڑی سی لائبریری تھی پھر کئی بار جب مجھ پر فائرنگ ہوئی تو حفاظت کے پیشِ نظر فلیٹ میں شفٹ ہو گیا لائبریری کی تمام کتابیں کسی پبلک لائبریری کو دے دیں۔ اب صرف کچھ پسند کی کتابیں ساتھ ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں۔

 

س۔ آپ نے ریڈیو اور ٹی وی پر ملکی و بین الاقوامی بیشمار مشاعروں کی نظامت کی ہے۔ کوئی خاص انداز جو میزبان کو اپنانا چاہیئے؟

ج۔ میں ہمیشہ بطور۔ میزبان کم سے کم گفتگو کرتا ہوں تاکہ مہمان شاعر ادیب یا تخلیق کار کو زیادہ سنا جا سکے۔ کیونکہ مخصوص وقت میں اگر میزبان ہی زیادہ بول لے گا تو مہمان کو وقت نہیں دے پائے گا۔

 

س۔ آپ کی بطور شاعر و محقق مجموعی طور پر چار کتابیں آئیں اب مزید کن موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں؟

 

ج۔ پہلی کتاب عکسِ فریادی تو غزلیات کا مجموعہ ہے جس میں میرا اسلوب متعارف ہوا۔

دوسرا شعریات جو شائع کی اس کا مقصد در اصل یہی رہنمائی تھی کہ شعر کو کس طرح پڑھیں اور سمجھیں غلط العام کیا ہے املا کیا ہونا چاہیئے۔ کن دو الفاظ کو ملا کر نہیں لکھنا چاہیئے۔

ویسے بھی اساتذہ پر لازم ہے کہ جو طلبہ کو سکھانے جا رہے ہیں اس پر خود بھی مکمل عبور حاصل کریں۔

تیسری کتاب عقیدہ نوائی ’لاریب‘ اکیڈمی ادبیات کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔

 

اگلی لغت العوام ہے جس میں وہ الفاظ جو اب بہت بولے جاتے ہیں مثلاً پھڈا، پنگا جو عام بول چال میں زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ جنہیں انگریزی میں سلینگ کہا جاتا ہے وہ عامیانہ نہیں بلکہ عوامی الفاظ ہیں جو لوگ بولتے ہیں۔ ان پر بحث کی گئی ہے۔

 

س۔ آخر میں ہمارے پڑھنے والوں کے لئے کوئی ایسا اہم پیغام جو کسی بھی فرد کی زندگی سنوار سکتا ہے۔

 

ج۔ انسان کی زندگی میں تین مراحل یا معاملات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

پہلا یہ کہ اس کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے

اب یہ معاملہ تو اس کے وسائل پر ہے کہ کہاں تک جاری رکھ سکتا ہے

دوسرا مرحلہ تربیت یافتہ ہونا ہے۔

تربیت کرنے میں ہر انسان کا اپنا ماحول ہوتا ہے جس میں اس کے والدین، اساتذہ اور دیگر بزرگ شامل ہوتے ہیں جن کا انتخاب خود انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔

تیسرا مرحلہ یہ کہ وہ صحبت یافتہ ہے کہ نہیں۔

صحبت میں ہمارے دوست سنئیرز۔ اٹھنے بیٹھنے کی جگہیں اور دلچسپیاں شامل ہوتی ہیں جو صحبت کہلائیں گی۔

اگر کوئی اچھی صحبت سے بھی محروم ہو تو اِس کمی کو مطالعہ پوری کرتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر آپ فیض کو بہت پڑھتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ نے فیض کیساتھ بہت وقت گزارا ہو۔ یا اگر یوسفی آپ کے زیرِ مطالعہ ہیں تو یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ان کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے ہیں

کیونکہ آپ ان مصنفین کی شعوری کوششوں اور دن رات کی عرق ریزی کے بعد اخذ کئے گئے نتائج کو پڑھ رہے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے