س: لکھنے کی ابتدا کیونکر ہوئی۔ ابتدا میں کن مصنفین سے متاثر ہوئے۔ ادبی ذوق کے نکھار میں کن لوگوں کا حصہ رہا؟
ج: یہ ۱۹۶۰ء کے آغاز کی بات ہے۔ میں ۵۰۱ ورکشاپ میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے مطالعے کا موضوع زیادہ تر جاسوسی ناول اور ان کے تراجم تھے۔ دفتر میں حاضری کے فارم مکمل کرنے کے بعد میں فارغ ہو جاتا تھا چنانچہ ایک آدھ کتاب ساتھ لے جاتا تھا اور پڑھتا رہتا تھا۔ اسی سیکشن میں ایک اور نوجوان بھی اسی طرح کتاب پڑھتے دکھائی دیتا تھا اس کا نام اعجاز حسین تھا۔ ہم نے کتابوں کا تبادلہ شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اعجاز راہی کے نام سے لکھتا ہے۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی ایک کہانی پڑھنے کو دی۔ کہانی پڑھ کر میں نے اسے کہا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ اس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ سو دو ایک دنوں بعد میں نے اسے ایک کہانی لکھ کر دکھائی۔ اس نے کہا یہ تو افسانہ ہے اور تم اب باقاعدگی سے لکھا کرو۔ چنانچہ میں نے لکھنا شروع کر دیا اور اختر رشید ناز کے نام سے اس زمانے کے رومانی پرچوں (رومان وغیرہ) میں یہ کہانیاں بھیجنا شروع کر دیں۔ دو تین کہانیاں آگے پیچھے چھپ گئیں۔ مجھے لکھنے کی چاٹ لگ گئی۔ اسی دوران اعجاز راہی ایک شام تین چار دوستوں کو لے کر میرے گھر آن پہنچا اور بتایا کہ یہ سارے راولپنڈی کے نوجوان ادیب ہیں۔ ان میں نثار ناسک اور سلیم الظفر شامل تھے۔ میرے پاس انھیں چائے پلانے کے پیسے نہیں تھے نہ گھر میں کوئی ڈھنگ کی جگہ بیٹھنے کے لیے تھی چنانچہ ہم کشمیری بازار میں واقع پارک میں چلے گئے۔ نثار ناسک ہم میں بڑا تھا۔ اس نے نوجوان ادیبوں کے مسائل پر بڑی مبسوط گفتگو کی۔ تجویز دی کہ ہمیں ہر شام کہیں اکٹھا ہونا چاہیے اور ایک ادبی انجمن بھی بنانا چاہیے۔ چنانچہ بڑی بحث کے بعد ’’بزم میر‘‘ کے نام سے ایک انجمن کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ مجھے اس کی مجلس عاملہ کا رکن بنایا گیا۔ دوسرے دن شام سے ہم نے پنڈی ہوٹل (راجہ بازار) میں اکٹھا ہونا شروع کر دیا۔ یہیں میری ملاقات غلام رسول طارق سے ہوئی۔ ’’بزم میر‘‘ کے ہفتہ وار اجلاس بھی شروع ہو گئے۔ یہ اجلاس موچی بازار کے ایک ہوٹل میں ہوتے تھے۔ دوسرے تیسرے جلسے میں میں نے ایک کہانی پڑھی۔ جب جلسہ ختم ہو گیا تو غلام رسول طارق نے مجھے روک لیا اور کہنے لگے۔ یہ کہانی تم نے خود لکھی ہے۔ میں نے کہا، جی میں نے ہی لکھی ہے۔ کہنے لگے، کل دوپہر کو مجھے صدر بوہڑ ہوٹل میں ملنا میں صدر میں ایک پریس میں کام کرتا ہوں اور دوپہر کا کھانا اس ہوٹل میں کھاتا ہوں۔ میں دوسرے دن وہاں پہنچ گیا۔ طارق صاحب بڑی شفقت سے ملے اور کہنے لگے۔ دیکھ بچے تم میں کہانی لکھنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ لیکن ایک تو فضول لوگوں سے بچو اور دوسرے کوئی ڈھنگ کا نام رکھو۔ یہ اختر رشید ناز اچھا نام نہیں۔ میں نے کہا تو آپ ہی کوئی نام رکھ دیں۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد طے پایا کہ اب میں رشید امجد ہوں۔ انھوں نے میری گزشتہ دن پڑھی کہانی میں ایک دو زبان کی غلطیوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ اسے کسی اچھے پرچے میں بھیجو۔ میں نے یہ کہانی میرزا ادیب صاحب کو بھیج دی جو ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر تھے۔ ایک ہفتہ میں ہی میرزا صاحب کا خط آیا جس میں کہانی کی بڑی تعریف کی گئی تھی اور یہ مژدہ تھا کہ کہانی زیر ترتیب شمارے میں آ رہی ہے۔ سو رشید امجد کی پہلی کہانی ’’لیمپ پوسٹ‘‘ کے نام سے ادب لطیف کے ستمبر ۶۰ء کے شمارے میں چھپی۔ یہ کہانی اس وقت کچھ نیم استعاراتی سی تھی۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ کہانی ادب لطیف میں چھپ جائے گی، چنانچہ میں نے اس کے آخر میں لکھا تھا (ایک چینی کہانی سے ماخوذ)۔ اس کے بعد میں نے کئی کہانیاں لکھیں جو سادہ بیانیہ میں تھیں۔ ۱۹۶۵ء میں، میں نے اسی کہانی کو دوبارہ لکھا اور یہی کہانی ’’لیمپ پوسٹ‘‘ ایک نئے علامتی انداز سے اوراق کے چوتھے شمارے (اکتوبر ۱۹۶۶ء) میں چھپی۔ یہ میرے نئے دور کا آغاز تھا۔ ستمبر ۶۰ء میں اختر رشید ناز سے رشید امجد برآمد ہوا تھا اور اکتوبر ۱۹۶۶ء میں اس رشید امجد میں سے ایک نئے رشید امجد نے جنم لیا جس نے علامت کو اپنا پیرایۂ اظہار بنایا۔ اس دوران جن لوگوں کو میں نے پڑھا ان میں منٹو اور بیدی دور تک میرے ساتھ چلے۔ میری ابتدائی کہانیوں پر منٹو کے خاصے اثرات ہیں، خصوصاً موضوع کے حوالے سے، جنس ایک عمر میں سب سے پسندیدہ موضوع ہوتا ہے۔ میری ابتدائی کہانیوں کا محور بھی جنس ہے۔ ان میں منٹو جیسی نفسیاتی دبازت تو نہیں، لیکن میں نے جنس کو معاشی بدحالی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ ’’بزم میر‘‘ کے بعد ’’حلقہ ذہن جدید‘‘ وجود میں آیا۔ اس کا سیکرٹری میں تھا۔ اس کے بعد ’’لکھنے والوں کی انجمن‘‘ وجود میں آئی۔ اب پنڈی میں نئے لکھنے والوں کا ایک مضبوط گروپ بن گیا تھا۔ نئی لسانی تشکیلات کی بحثیں زور و شور سے جاری تھیں۔ کچھ عرصہ بند رہنے کے بعد حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس بھی شروع ہو چکے تھے لیکن سینئر لکھنے والے ہمیں گھاس نہیں ڈالتے تھے۔ اختر احسن اور مصطفی کمال نے ’’پنڈی کلچرل فورم‘‘ کے نام سے ادبی انجمن بنائی تھی لیکن نئے پن کے تمام تر دعووں کے باوجود یہ لوگ بھی ایک اسٹیٹس سے نیچے نہیں اترے تھے چنانچہ راولپنڈی اسلام آباد کے تمام نئے لکھنے والے منشا یاد، اعجاز راہی، سرور کامران، مظہر الاسلام، نثار ناسک، سلیم الدین سلیم، سلیم الظفر، بشیر مرنی مرحوم لکھنے والوں کی انجمن میں اکٹھے ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ہمارے کچھ سینئر آفتاب اقبال شمیم، ماجد الباقری بھی انجمن کے جلسوں میں آنے لگے اس وقت ’’اوراق‘‘ اور ’’شب خون‘‘ نئے ادب کے ترجمان تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد پنڈی آتے اور انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتے۔ اب ہم لوگوں نے حلقہ میں بھی جانا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ حلقے کے جلسوں میں نئے ادب کی بحثیں شروع ہو گئیں۔ میرے ادبی ذوق کے نکھار میں حلقہ ارباب ذوق، لکھنے والوں کی انجمن اور شخصیات میں سے استاد غلام رسول طارق کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا اور ’’اوراق‘‘ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ خصوصاً جدید فکری رجحانات اور رویوں کو نمایاں کرنے اور مجھے بطور ایک علامت نگار متعارف کروانے میں وزیر آغا اور ’’اوراق‘‘ کے نام میرے لیے ہمیشہ محترم رہیں گے۔
س: آپ کے علامتی افسانوں میں تمثیلی انداز نمایاں ہے۔ تمثیل ہماری اساطیری داستانوں میں بھی موجود ہے۔ یوں ایک طرف تو آپ کا شمار جدید علامتی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف آپ کا رشتہ قدیم داستانوں سے جا ملتا ہے۔ یہ کوشش شعوری ہے یا بات خود بخود بن جاتی ہے؟
ج: میرے افسانوں میں علامت، تجرید اور استعارے کے ساتھ ساتھ تمثیل بھی موجود ہے۔ تمثیلی انداز ہمارے ادب میں نیا نہیں۔ ہماری داستانی روایت کا ایک حصہ ہے، اور اس طرح میرا ایک رشتہ داستانوں سے بھی قائم ہوتا ہے۔ پہلی بار مجھے اس کا احساس قاضی عبد الستار نے کرایا تھا۔ وہ ایک وفد کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ میری ان سے دو تین ملاقاتیں اکادمی کے جلسوں میں ہوئیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کے اسلوب کا مطالعہ رجب علی بیگ سرور کو ذہن میں رکھ کر ہونا چاہیے۔ اس وقت تو میں نے اس پر غور نہیں کیا لیکن بعد مجھے خیال آیا کہ میرا ایک گہرا تعلق اساطیر سے ہے، لیکن میرا انداز اور اسلوب اساطیری یا داستانی نہیں بلکہ میں نے اسے ایک جدید صورت میں استعمال کیا ہے جو اپنے عہد کی مروج زبان، محاورے اور انداز و مزاج کے دائرے میں اپنی ایک الگ شناخت بناتا ہے۔ یہ کوشش اگر شعوری ہو بھی تو اس کے پیچھے ایک لاشعوری رویہ ضرور موجود ہے جو میرے اسلوب کو روایت سے بھی جوڑتا ہے اور اسے نیا پن بھی عطا کرتا ہے۔
س: کہا جاتا ہے کہ (چند ایک سے قطع نظر) سب سے زیادہ نقصان، ان افسانہ نگاروں نے جدید افسانے کو پہنچایا ہے جنہوں نے افسانہ نگاری کو شاعری سے قریب تر کرنے کی کوشش کی۔ آپ کے افسانوں میں بھی شعری فضا پائی جاتی ہے۔ آپ اس کی وضاحت کریں گے؟
ج: مجھے آپ سے اتفاق نہیں کہ شعری فضا نے افسانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ بات یوں ہے کہ علامت، استعارہ اور تشبیہ شعری وسائل ہیں۔ جدید افسانہ نگار نے ان شعری وسائل کو استعمال کر کے اپنی کہانی میں معنوی دبازت پیدا کی ہے اور اسے ہمہ جہت بنایا ہے۔ ان شعری وسائل کا استعمال انور سجاد کے یہاں بھی ہوا ہے لیکن انور سجاد کے یہاں شعری فضا پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ان کے اسلوب کی خشکی اور حسابی ترتیب اس میں مزاحم ہے۔ یہ شعری وسائل ہر جدید افسانہ نگار کے یہاں موجود ہیں لیکن میرے یہاں ان کے استعمال کے طریقہ کار نے ایک ملائمت اور معنوی دبازت پیدا کی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ افسانے کو نظم سے قریب کرنا دیگر رویہ ہے اور شعری وسائل کا استعمال دوسرا رویہ ہے۔ میرے افسانوں میں یہ فضا اور وسائل Readability پیدا کرتے ہیں اور میرے اسلوب میں ایک ایسی روانی پیدا کرتے ہیں کہ کہیں معنوی ترسیل نہ بھی ہو رہی ہو تو بھی قرات میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ بعض افسانے (خاص طور پر ساٹھ کی دہائی میں) تو پڑھتے ہوئے بار بار جھٹکا لگتا ہے۔ میرے اسلوب میں یہ بات نہیں۔ میں نے شعری وسائل کو معنوی دبازت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور انہیں تخلیقی سطح پر اپنے اسلوب کا حصہ بنایا ہے، اس لیے ان کے استعمال میں شعوری کوشش شامل نہیں بلکہ یہ میرے مجموعی تخلیقی عمل کا ایک حصہ ہیں۔ پھر یہ کہ میرے تہہ دار شعور اور انکشافات ذات کے گہرے مطالعے اور بیان کے لیے ان کا استعمال ضروری تھا۔
س: بے نام کردار اور بے چہرہ آدمی، آپ کی کہانیوں میں نمایاں ہیں۔ یہ بے نام کردار اور بے چہرہ انسان معاشرے کی بے معنویت کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا ان بے نام کرداروں اور بے چہرہ انسانوں کے ہجوم میں آپ خود اپنے تشخص اور اپنی پہچان کے متلاشی ہیں؟
ج: سایہ دراصل جسم ہی کا ایک علامتی اظہار ہے۔ بے نام کردار اور بے چہرہ آدمی بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہیں جو خود بے شناخت ہوا جا رہا ہے۔ ہمارا عہد ایک بڑے زوال کے تسلسل میں ہے اور زوال میں چیزیں بے چہرہ اور بے شناخت ہو ہی جاتی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کا افسانہ (The other) دوسری ذات کی تلاش کا افسانہ ہے۔ یہ زمانہ دروں بینی کا ہے جب افسانہ نگار باہر سے اندر کی طرف جا رہا تھا۔ خارج سے باطن کی طرف اس سفر کے پس منظر میں سیاسی زوال، سماجی زوال، مارشل لاء اور بہت سے دوسرے عوامل شامل ہیں۔ اندر کی شخصیت بے نام اور بے چہرہ ہے اس سارے حوالے سے میرے افسانوں میں شناخت اور تشخص ایک اہم موضوع ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ایک ارتقاء ہوا ہے۔ میرے پہلے مجموعے ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ میں جنسی اور معاشی فرسٹیشن کا شکار ایک ایسا اینگری ینگ مین ہے جو جنس اور معاش کی کشمکش میں اپنا تشخص ڈھونڈ رہا ہے۔ اس کی بے شناختی بے انفرادی اور ہیجان خیز جذباتیت سے وابستہ ہے۔ لیکن آگے جا کے شناخت کا یہ مسئلہ طبقاتی کشمکش سے جڑ جاتا ہے۔ تیسرے مجموعے ’’سہ پہر کی خزاں‘‘ میں میرے کردار سیاسی جبر میں اپنا چہرہ تلاش کر رہے ہیں۔ ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ میں شناخت کا یہ مسئلہ کائناتی ہو جاتا ہے جہاں ازل سے ابد تک کے سفر میں شناخت کا معاملہ روحانی ہو جاتا ہے اور اس میں مابعد الطبیعاتی رنگ آ جاتا ہے۔ شناخت کے ان مرحلوں میں میرے اسلوب میں بھی ایک تبدیلی آئی ہے اور شناخت کی ان پرتوں کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شناخت کی صورتیں بدلی ہیں میرے اسلوب و اظہار میں بھی جذباتیت اور غصہ کم ہوتا گیا ہے اور کشفی دبازت اور پہلو داری بڑھتی گئی ہے۔
س: آپ کے افسانوں میں تشبیہی انداز کے بجائے استعاراتی فضا نمایاں ہے۔ بعض علامتوں یا بیشتر علامتوں سے آپ کے قاری واقف نہیں ہوتے اور یہ عمل ان کے لیے الجھن کا باعث ہے۔ آپ قاری کا امتحان کیوں لینا چاہتے ہیں؟ آپ کے بعض افسانے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ افسانہ لکھتے ہوئے آپ کے پیش نظریہ رائے ہوتی ہے کہ کہانی ایک حل طلب معمہ ہے اور اگر یہ معمہ نہ ہو تو قاری کے لیے اس میں کشش پیدا ہونا ناممکن ہے۔
ج: میرے افسانوں میں صرف علامت کا استعمال نہیں بلکہ میں نے پیکر تراشی، استعارہ اور کہیں تمثیل سے بھی کام لیا ہے۔ بعض افسانے Absurd بھی ہیں۔ تجرید بھی ہے۔ علامت کا تعلق اسلوب سے ہے اور تجرید کا خیال سے۔ میں نے بعض جگہ ان سارے وسائل کو اکٹھا بھی کیا ہے۔ اچھی علامت تو اپنے ماحول سے پیدا ہوتی ہے، یہی صورت دوسرے وسائل کی بھی ہے۔ لیکن بہرحال علامت استعارہ یا اشارہ نہیں ہوتی اس کے معنوی تہہ تک پہنچنے کے لیے ذہانت کی ضرورت ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ذہین قاری کی اصطلاح بہت عام تھی، میں اس پر اصرار تو نہیں کرتا لیکن یہ بات بہرحال اپنی جگہ ہے کہ لکھا ہوا لفظ سب کے لیے نہیں ہوتا اور وہ لفظ جو کسی فن کے ساتھ جڑ جاتا ہے اس کا ترسیلی دائرہ اور بھی محدود ہو جاتا ہے۔ میرے چند افسانوں کو چھوڑ کر جو ساٹھ کی دہائی سے تعلق رکھتے ہیں، ترسیل یا ابلاغ کا مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوا۔ میرا اسلوب اتنا رواں ہے کہ افسانہ خود کو پڑھواتا چلا جاتا ہے۔ نئے افسانے میں مجموعی طور پر ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ بات چند افسانوں کی وجہ سے ہوئی اور بہت سے نقادوں نے جدید افسانے کو پڑھے بغیر اس کی رٹ لگانا شروع کر دی۔ ترسیل یا ابلاغ کے ضمن میں مجھے میرا جی کا یہ جملہ دوہرانا ہے کہ ’’ابلاغ ایک اضافی قدر ہے‘‘ ایک وقت میں کسی فن پارے کا عدم ابلاغ دوسرے وقت میں ہو جاتا ہے اور بعض اوقات اس کی خوبی بن جاتا ہے۔ پھر یہ کہ ابلاغ کی اپنی سطحیں ہیں جو قاری کی ذہنی سطحوں کے مطابق اپنے معنی وا کرتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ نیا افسانہ بہرحال پرانے افسانے سے مختلف ہے نہ صرف ہئیت و بنت کاری کے حوالے سے بلکہ زبان و بیان کے حوالے سے بھی، اس لیے وہ قاری جس کے پڑھنے کی ٹریننگ پرانے افسانے کے حوالے سے ہوتی ہے، ابتداء میں نئے افسانے کو سمجھنے میں دقت محسوس کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نیا افسانہ اپنا دائرہ وسیع کرتا گیا۔ تیسرے یہ کہ ابتداء میں خود نئے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی عجز بیاں کی وجہ سے کئی ابلاغی مسائل پیدا ہوئے جو آہستہ آہستہ دور ہوتے گئے۔ اس لیے اب نئے افسانے یا میرے افسانے کے بارے میں عدم ابلاغ کی بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔
س: بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کہانی کار اپنی کہانی کی ابتداء اس کے انجام سے کرتا ہے۔ اس کی تکنیک کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ کہانی کی ابتدا چونکا دینے والی ہو یا نہ ہو لیکن دلچسپ ضرور ہوتا کہ قاری کا تجسس اسے آگے پڑھنے پر مجبور کرے؟
ج: ہر کہانی کا اپنا ایک ہیئتی یا تکنیکی ڈھانچہ ہوتا ہے جو ظاہری ڈھانچے کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ آپ کے یہ دونوں سوال اس افسانہ نگار سے متعلق ہیں جو کہانی کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک میکانیکی طریقے سے کہانی بناتا ہے۔ نئی کہانی اس طرح نہیں لکھی جاتی۔ میں واقعات کے ٹکڑے نہیں جوڑتا، مجھے پر پوری کہانی ایک اکائی کی صورت وارد ہوتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ لکھتے ہوئے یا بعد میں ایک آدھ جگہ کوئی تبدیلی کر لی جائے۔ میں نے اپنی اکثر کہانیاں ایک نشست میں لکھی ہیں۔ اگر پورا خیال اپنے ابتدائی جملوں کے ساتھ مجھ پر وارد نہ ہو تو میں کہانی نہیں لکھ سکتا۔ پرانا افسانہ نگار واقعات کو جوڑ کر یا کسی کردار کو تلاش کر کے اس کے گرد کہانی بنتا تھا۔ میری اکثر کہانیوں کی بنیاد Idea ہے۔ پوری کہانی ایک خیال کے گرد بنی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹھوس واقعات کی بجائے بعض اوقات سیال صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال یہ تو ہے کہ کہانی کا آغاز ہی ٹریپ کرنے والا ہوتا ہے۔ میری اکثر کہانیوں کہ پہلے یا ابتدائی چند جملے ایسے ہیں کہ قاری حیرت اور تجسس کے ساتھ کہانی کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔
س: کہانی کی تخلیق کا سفر آپ اکیلے طے کرتے ہیں یا قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں یا قاری بہت بعد میں شامل ہوتا ہے۔
ج: زندگی کے معمولی واقعات میں سے غیر معمولی واقعات کا انتخاب کہانی کار کی باریک بینی اور زندگی کے گہرے مشاہدے کے ذریعے ہو سکتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی تب وجود میں آتی ہے جب اس واقعہ کا ذکر کیا جائے جو ابھی پیش آنا ہے۔
س: آپ کا کیا خیال ہے اچھی کہانی وہ ہے جو پڑھنے والے کو اچھی لگے، یا جو تخلیق کار کو پسند ہو؟
س: کیا آپ کہانی شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کرتے ہیں، کہانی کا موضوع اور خاکہ سوچتے ہیں اور کیا کہانی اس خاکے کے مطابق ہو جاتی ہے جو آپ نے سوچا ہے اور اسی طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہے یا لکھتے ہوئے اصل موضوع سے ہٹ جاتے ہیں؟
ج: ان تین سوالوں کو میں اکٹھا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ میرے افسانے موضوعاتی نہیں ہیں۔ وہ تو کسی خیال یا Idea پر لکھے گئے ہیں۔ میرا تخلیقی عمل یوں ہے کہ میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے یا کسی صورتِ حال کو دیکھ کر یا اس سے گزرتے ہوئے ایک Idea پیدا ہوتا ہے۔ اس پر میرے ذہن میں ایک تخلیقی پروسیس شروع ہو جاتا ہے بعض اوقات فوراً اور بعض اوقات مہینوں یہ خیال اس تخلیقی پروسیس سے گزرتا رہتا ہے۔ میں لکھنے سے پہلے اس کی منطقی یا تکنیکی ترتیب قائم نہیں کرتا۔ یہ خیال اپنے ابتدائی جملوں کے ساتھ میرے ذہن کی سکرین پر واضح ہوتا ہے۔ اگر یہ ابتدائی جملے مناسب نہ ہوں تو میں اسے لکھ نہیں سکتا۔ اگر ایک جملہ لکھتا ہوں یا دو ایک جملے لکھ کر انہیں بار بار کاٹوں تو مجھے خود اس کا احساس جاتا ہے کہ یہ کہانی ابھی اپنے تخلیقی پروسیس سے پوری طرح نہیں گزری۔ میں اسے اسی طرح چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن اگر میں نے اس کے ابتدائی چند جملے لکھ لیے اور وہ میرے خواہش کے مطابق ہوئے تو کہانی آگے چل پڑتی ہے۔ کہانی شروع کرتے ہوئے میرے ذہن میں اس کا ایک دھندلا سا اختتام ہوتا ہے۔ بعض اوقات کہانی اس سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات آگے نکل جاتی ہے۔ اس اختتام کے بارے میں میری پلاننگ کم ہوتی ہے۔ بس مجھے کوئی چیز احساس کرا دیتی ہے کہ کہانی یہاں ختم ہونی چاہیے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کہانی مکمل ہونے کے بعد میں جب اسے دوبارہ پڑھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کہانی جہاں ختم کی گئی ہے اس سے کچھ پہلے مکمل ہو گئی ہے، چنانچہ میں بعد کا حصہ کاٹ دیتا ہوں یا کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بات ابھی بنی نہیں سو دو چار جملے یا پیرا گراف اور لکھنا پڑتا ہے۔ یہ کام میرا تخلیقی سیلف نہیں بلکہ میرے اندر کا نقاد کرتا ہے۔ اب یہ بات شاید واضح ہو گئی ہے کہ میں کہانی لکھتے ہوئے کوئی خاکہ نہیں بناتا یا موضوع نہیں سوچتا۔ نہ ہی اس کے آغاز، درمیان اور نقطہ عروج کی کوئی بات میرے ذہن میں ہوتی ہے۔ میری کہانی ایک مکمل اکائی کی شکل میں وارد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری اکثر کہانیوں میں پیچ ورک نہیں ہوتا۔ بہرحال ان کا ایک موضوع ضرور بنتا ہے ایک مرکزی خیال یا مرکزی رو بھی ہوتی ہے۔ میری اکثر کہانیوں کے موضوع ایسے ہیں جو ایک عام افسانہ نگار کے تخلیقی پروسیس کا حصہ نہیں بن سکتے اس لیے میرا تخلیقی عمل اور اس کا طریقہ کار قدرے مختلف ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ مجھے ایک خیال سوجھتا ہے جو کہانی کی صورت اختیار کرتا ہے میں کسی واقعہ میں سے خیال نہیں نکالتا۔ میرے یہاں شعری وسائل کا زیادہ استعمال بھی اسی سبب سے ہے کہ میرے خیال اور موضوع عام یا سیدھے سادے طریقے کے متحمل نہیں۔ میرے اکثر افسانے (ابتدائی افسانوں کو چھوڑ کر) ایک چھوٹی سی بات سے شروع ہوتے ہیں اور ازلی و ابدی صداقتوں کو جا چھوتے ہیں۔ میرے افسانوں کا مرکزی کردار بیک وقت کئی زمانوں میں سانس لے رہا ہے اور وہ حال کے لمحہ پر کھڑا ایک ہی جست میں کبھی ماضی اور کبھی مستقبل میں اتر جاتا ہے۔ لیکن پڑھنے والے کو زمانی جھٹکا نہیں لگتا۔
س: کہا جاتا ہے کہ موپساں نے یوں افسانے تخلیق کئے جیسے صفائی سے زندگی کے ٹکڑے کاٹ لیے جائیں۔ کیا آپ کا ایسے افسانے لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ یا آپ کے خیال میں زندگی یا حقیقت جیسی کہ وہ ہے اسے اسی طرح پیش کر دینا افسانہ نگار کی سہل پسندی کو ظاہر کرتا ہے جس میں افسانہ نگار کا اپنا کوئی نظریہ کوئی فلسفہ کسی مخصوص اسلوب میں ظاہر نہ ہو؟
س: ای ایم فاسٹر نے کہا ہے کہ زندگی فکشن میں دو سطحوں میں پیش ہوتی ہے:
ایک Life in Time، دوسرے Life in Values، آپ کا نظریہ کیا ہے؟
ج: یہ دونوں سوال ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ نیا افسانہ حقیقت نگاری نہیں بلکہ وہ اس دھند میں سے نکلتا ہے جو ظاہری حقیقت کے پیچھے ہے۔ اس دھند اور اس میں چھپی پر اسرار دنیا تو عام شخص نہیں دیکھ سکتا۔ اصل حقیقتیں یا سچائیاں اس سے مختلف ہیں جو ہمیں بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ محض بیانیہ حقیقت نگاری یک سطحی ہوتی ہے۔ اب تو حقیقت نگاری کا رویہ بھی بدل گیا ہے اور وہ لوگ جو خود کو حقیقت نگار کہتے ہیں محض حقیقت بیان نہیں کرتے بلکہ اس سے کچھ آگے جاتے ہیں۔ صفائی سے زندگی کے ٹکڑے کاٹ کر کہانی بنا لینا بڑا فن نہیں۔ ہمارا مشرقی مزاج تو جزو میں کل اور قطرے میں دریا دیکھنے کا ہے۔ انسان وقت اور اقدار دونوں ہی میں زندہ ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پرانے تنقیدی نظریے، کلیے یا رویے نئی کہانی کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے۔ آج کی کہانی سماجی سیاسی رویوں سے متعلق ہوتے ہوئے بھی بڑے ازلی و ابدی سوالات سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک مکمل فن صرف ناف سے نیچے، یا شکم تک، یا دل تک محدود نہیں، اب اس میں ذہن بھی شامل ہے اور یہ کائنات کی تسخیر اور نت نئے انکشافات کا زمانہ ہے۔ ایک اچھے افسانہ نگار کے یہاں وقت، اقدار، سماج، سیاست حقیقت اور دھند، تجسیم و تجرید سب کچھ موجود ہوتا ہے، کبھی ملی جلی صورت میں، کبھی انفرادی عکس کی شکل میں۔
س: بانجھ لمحہ میں مہکتی لذت، بند ہوتی آنکھ میں ڈوبتے سورج کا عکس، گم راستوں میں کشف، فاصلے سے بچھڑا غم، منجمد موسم میں ایک کرن، بے راستوں کا ذائقہ، بے ثمر عذاب، بے دروازہ سراب، دھند منظر میں رقص، کھلی آنکھ میں دھند ہوتی تصویر۔۔۔ یہ عنوانات صرف ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ سے منتخب کئے گئے ہیں۔ یہ تمام عنوانات موجود کو غیر موجود، معنویت کو بے معنویت، روشنی کو دھند اور اثبات کو نفی میں تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ روش انسان کی بے چارگی اور مجبوری کی دلیل نہیں اور اسے مایوسی کی طرف نہیں لے جاتی؟
ج: ہمارا یہ موجود اصل حقیقت کا پرتو ہے۔ اعیان نا مشہود تک ہماری رسائی براہ راست ممکن نہیں۔ ہم جسے معنویت سمجھتے ہیں وہ دراصل بے معنویت ہے چنانچہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم کو ایک بار موجود سے نا موجود کی طرف جانا پڑتا ہے۔ روشنی سے دھند اور اثبات سے نفی کا یہ سفر بہت اہم ہے، اس لیے کہ ایک بار نفی کرنے کے بعد ہی اثبات کا اثبات ہو گا اور بے معنویت کے نقطے سے معنویت کا اشارہ ملے گا۔ صوفیاء اپنی نفی کے بعد اثبات کا سفر شروع کرتے تھے۔ موجود صورت میں حقیقت اور معنویت دونوں ہی اضافی چیزیں ہیں۔ کلی حقیقت اور کلی معنویت کا کوئی کلی تصور موجود نہیں۔ موجود سے نا موجود کی طرف جانا اور پھر اس نقطہ سے دوبارہ موجود کی طرف لوٹنا ایک کشفی عمل ہے۔ یہ سارے عنوانات اسی کشفی عمل اور مابعد الطبیعاتی پروسیس کی علامتی صورتیں ہیں اور اپنی اپنی کہانی کی مرکزی واردات کی نوعیت کا انکشاف کرتے ہیں۔ میری کہانیاں صرف زمینی وارداتوں یا حکایات تک محدود نہیں، ان میں اٹھائے گئے سوال بڑے ہیں اور انسان و کائنات کی ازلی و ابدی حقیقتوں اور وارداتوں سے منسلک ہیں۔ اس لیے عنوانات بھی انفرادیت لیے ہوئے ہیں۔ میری کہانیوں میں شناخت اور تشخص کا عمل فرد سے شروع ہو کر اجتماع اور اجتماع سے پھر فرد اور فرد کے حوالے سے کائناتی ہو جاتا ہے۔ انسانی المیہ کئی سطحوں پر موجود ہے۔ طبقاتی معاشرے میں بے چارگی ایک معنی رکھتی ہے۔ پورے گلوب پر اس کے معنی دوسرے ہیں۔ خالصتاً فرد کی سطح پر اس کا احساس اور اظہار دوسرا ہے اور انسان کی تخلیق اور لمحہ ازل میں کل سے اس کی جدائی اور کائنات کے وسیع تر تصور میں اس کی بے چارگی اور تنہائی ایک بالکل ہی الگ چیز ہے۔ یہی صورت تنہائی کی بھی ہے۔ تنہائی کو ہمارے ادب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ لیکن تنہائی کی کئی سطحیں ہیں۔ فرد کی انفرادی تنہائی، مجمع میں تنہائی اور روحانی و ازلی تنہائی۔ پھر اس کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ انفرادی بے چارگی، طبقاتی و معاشی جبر، سماجی و سیاسی جبر اور ان سب سے مختلف ازلی و ابدی روحانی تنہائی ان سب کی کیفیت اور اسباب مختلف ہیں، لیکن ان میں ایک ارتقائی سفر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، میرے فنی سفر میں شاید ارتقاء موجود ہے، چنانچہ یہ روش انسان کی بے چارگی اور مجبوری نہیں بلکہ حقیقت کی تلاش اور اس کو پانے جاننے کی معنویت سے عبارت ہے۔
س: قبر، موت، جنازہ آپ کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ کبھی شہر میں جنازہ گم ہو جاتا ہے اور قبر لاش مانگتی ہے۔ کبھی بیوی کو بار بار یقین دلایا جا رہا ہے کہ میں مر چکا ہوں۔ کبھی گھر قبر اور قبر گھر معلوم ہونے لگتے ہیں۔ کبھی ماں کے مرنے کی دعا ہے۔ کبھی زہر پینے کے بعد موت کا انتظار تو کبھی اپنی قبر کھدنے کا انتظار۔ کیا موت آپ کے نزدیک ذریعہ نجات ہے؟
ج: قبر، موت اور جنازہ مختلف ادوار میں مختلف معنویت کی علامت ہے۔ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ کی کہانیوں میں قبر اور موت خارج میں موجود ناموافق صورتحال سے پناہ کی جگہ ہیں۔ یہاں آ کر ایک سکون ملتا ہے۔ کچھ دیر کے لیے دشمن فضا سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ یہ فرار انفرادی نوعیت کا ہے اور حقیقت سے آنکھ چرانے کے رویے سے عبارت ہے۔ یہاں فرد طبقاتی جبر اور معاشی ناہمواری کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور کسی حد تک، کچھ نہ کر سکنے کے رویے نے اس کے اندر ایک غصہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ غصیلا جو ان اشیاء اور قدروں کو توڑنا پھوڑنا چاہتا ہے۔ ان کے ہونے کا انکار کرتا ہے اور جب رد عمل شدید ہوتا ہے تو قبر اور موت اس کی پناہ گاہیں بنتی ہیں۔ یہاں کی دھند اور تاریکی میں اس کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ لیکن جب مارشل لاء کے جبر و تشدد میں شناخت اور پہچان مٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اسے تلاش کیا جاتا ہے تو قبر، موت اور جنازہ سیاسی علامتیں بن جاتے ہیں (’’سہ پہر کی خزاں‘‘ کے افسانوں میں) لیکن جب شناخت اور پہچان کا یہ سفر روحانی ہو جاتا ہے اور مابعد الطبیعاتی سچائیوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو قبر اور موت کی علامتیں اپنے معنی بدل لیتی ہیں (’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ کے افسانوں میں)۔ یوں ان علامتوں میں ایک معنوی اور فکری ارتقاء بھی پیدا ہوا ہے جو میرے بنیادی موضوع شناخت اور پہچان کے تصور کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
س: آپ کے افسانوی مجموعوں ’’کاغذ کی فصیل‘‘ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ اور ’’دشت خواب‘‘ ان سب میں اسلوبی سطح پر فرق واضح ہے۔ اس میں قاری کی خواہش کا احترام شامل ہے یا پھر یہ تبدیلی غیر شعوری طور پر بدلتے ماہ و سال کے ساتھ ہوئی ہے؟
ج: میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ (۱۹۷۴ء) ہے لیکن ترتیب کے اعتبار سے پہلا مجموعہ ’’کاغذ کی فصیل‘‘ ہے جو بہت بعد میں (۱۹۹۳ء) میں چھپا۔ ’’کاغذ کی فصیل‘‘ سے ’’دشت خواب‘‘ تک اور اب تازہ افسانوں میں میرے اسلوب میں ایک تبدیلی آئی ہے، لیکن اس کی وجہ کسی کی خواہش کا احترام نہیں۔ میرے ابتدائی افسانے زیادہ تر جنسی حقیقت نگاری کی ذیل میں آتے ہیں۔ کہانی کی بنت اور موضوع کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں اسی بیانیہ انداز میں لکھا جائے۔ لیکن یہ بیانیہ بھی بالکل سادہ نہیں بلکہ میرے بعد کے اسلوب کے اشارے اس میں موجود ہیں اور اس سادہ بیانیہ میں بھی استعارہ اور تشبیہ کی جھلکیاں موجود ہیں۔ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ میں ایک غصیلا نوجوان، طبقاتی اور معاشی جبر میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے۔ یہ شناخت ذاتی ہے اور یہاں علامتیں بھی کہیں کہیں پرسنل ہو جاتی ہیں لیکن مجموعی فضا میں ان کے معنی موجود ہیں۔ اسلوب میں استعارہ سازی کا عمل پیکر تراشی سے مل کر ایک نیا انداز پیدا کر رہا ہے۔ ’’ریت پر گرفت‘‘ کے افسانوں میں تجریدیت زیادہ ہے اس لیے اسلوب میں دبازت، شعری و سائل کا استعمال، شعریت اور پیکر تراشی میں باطنی گہرائی نمایاں ہے۔ موضوع کی گنجلک اور دبازت کی وجہ سے اسلوب میں بھی ادقیت ہے۔ اس مجموعہ میں کسی حد تک ترسیل کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ یہ افسانے ذہین قاری کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن اسی مجموعہ کا آخری افسانہ ’’ڈوبتی پہچان‘‘ ایک نئے ذائقے اور مزاج کی نشاندہی کرتا ہے اور یہاں سے اسلوب کی ایک نئی پرت شروع ہوتی ہے جس میں جملہ بظاہر سادہ ہے لیکن علامتی دبازت اور معنویت گہری ہے۔ ’’سہ پہر کی خزاں‘‘ کی کہانیاں مارشل لائی جبر اور تشدد میں گھرے شخص کی کہانیاں ہیں جو اس جبر میں اپنی شناخت تلاش کر رہا ہے افسانوں کا اسلوب اپنی ایک الگ علامتی معنویت لیے ہوئے ہے۔ یہاں قبر، موت اور جنازہ اور کہیں قبرستان اور گٹر سیاسی فضا میں سی چنی گئی علامتیں ہیں۔ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ کی کہانیوں میں شناخت کا عمل ایک وسیع تر سماجی پروسیس میں شروع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسلوب میں بھی ایک تبدیلی ہوتی ہے۔ ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ کی شناخت کائنات کے وسیع تر تناظر میں ایک کشفی روحانی عمل کا حصہ ہے، چنانچہ اسلوب میں ایک نئی طرح کی دبازت اور معنویت آ جاتی ہے۔ علامتیں آفاقی ہو جاتی ہیں اور ایک نیا کردار مرشد اپنی پہچان کراتا ہے۔ مرشد کے کردار کی ابتدائی جھلکیاں میرے شروع کے افسانوں میں بھی کہیں کہیں موجود ہیں لیکن اس کی واضح صورت اس مجموعے میں سامنے آئی ہے۔ اسلوب کی ساری صورتیں میرے مجموعی اسلوب کی مختلف پرتیں ہیں اور یہ میرے بنیادی موضوع شناخت اور پہچان کے ارتقائی تصور سے جڑی ہوئی ہیں۔
س: ایک تخلیق کار کی حیثیت سے آپ کے نزدیک ماضی اہم ہے، حال یا مستقبل۔ آپ کا تصور وقت کیا ہے؟
ج: میرے یہاں وقت کا تصور ماضی، حال یا مستقبل کے کسی ایک نقطے تک محدود نہیں۔ میں ماضی کو حال کے لمحہ موجود سے مل کر مستقبل کی طرف سفر کرتے ہوئے وقت کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔ ’’دریا‘‘ میرے یہاں ایک خاص استعارہ ہے جو بہتے ہوئے وقت کی تصویر بناتا ہے۔ اس میں ماضی و حال اور مستقبل ایک ہو جاتے ہیں۔ میرے پاس وقت کا تصور زمانی تقسیم کے بغیر ہے۔ ماضی حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔ اصل اہمیت وہ جست ہے جو لمحہ موجود کو پھیلا کر وقت کا تسلسل بنا دیتی ہے۔ وہ تسلسل جو وقت کو زمانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ میرے افسانے ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘ (بھاگے ہے بیاباں مجھ سے) کا کردار یوں کہتا ہے:
’’شیخ کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز پراسرار تبسم ابھرا، بولے ’’وقت ایک دریا کی مانند ہے جس کی لہروں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ دیکھنے میں وہ الگ الگ نظر آتی ہیں۔ ماضی کی گود سے حال، حال کی گود سے مستقبل اور مستقبل کی گود سے پھر ماضی طلوع ہوتا ہے۔ ایک دائرہ جس کا ایک مرکز ہے اور اس مرکزہ کی کوئی زبان نہیں نہ کوئی اس کا احاطہ کر سکتا ہے۔‘‘
ایک ہی لمحہ میں کئی جہانوں میں رہنے کی اذیت و لذت میرے تصور وقت کا ایک اہم پہلو ہے۔ ایک ہی لمحہ میں بیک وقت کئی حقیقتوں کی آگاہی کے نتیجے میں میرے تخلیقی عمل میں تہہ داری پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے میرے اظہار میں بھی تہہ داری آئی ہے۔ ڈاکٹر نوازش علی نے اپنے ایک مضمون میں میرے بارے میں لکھا ہے کہ ’’تہہ دار شعور تضادات اور تقابل کے علاوہ بے یقینی کی صورت میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ یہ بے یقینی عمل اور بے عملی کے درمیان لٹکتے رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اس کے علاوہ بیک وقت دو انتہاؤں کی کھینچا تانی بھی تہہ دار شعور کو جنم دیتی ہے۔‘‘ لمحہ موجود میں مختلف طرح کے احساسات اور کیفیات کو گرفت میں لینے کی کوشش نے وقت کو ایک گزراں لمحہ بنا دیا ہے یوں وقت زمانے کی قید سے آزاد ہو کر صرف وقت رہ جاتا ہے۔ یہ مختلف احساسات کی درمیان حدوں کو توڑنے، ان میں یکجانی پیدا کرنے اور لمحہ میں ابدیت کا عکس دیکھنے، زمانے کی قید سے آزاد وقت میں زندہ رہنے اور مختلف زمانوں کے واقعات و تجربات کو بیک وقت سوچنے، محسوس کرنے اور اپنے آپ پر طاری کر کے ایک نئی فضا پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ چنانچہ میرے پاس وقت کا تصور کسی زمانی قید تک محدود نہیں بلکہ ایک ہی لمحہ میں کئی لمحوں کی بازیافت ہے جہاں وقت زمانے کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔
س: ٹوٹی ہوئی دیوار (کاغذ کی فصیل) کہانی تیس سال پہلے کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ آج ہی کی معلوم ہوتی ہے۔ یہ کہانی کسی دیہاتی سکول کا منظر ہی پیش نہیں کرتی بلکہ مہذب شہر کے مہنگے سکول کی صورتِ حال بھی ایسی ہے۔ بحیثیت استاد آپ نظام تعلیم کو کہاں تک درست سمجھتے ہیں، کیا تجاویز پیش کرتے ہیں؟
ج: یہ کہانی (ٹوٹی ہوئی دیوار) تیس سال پہلے لکھی گئی تھی، آج بھی صورتحال یہی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کا زوال تو بہت پرانا ہے۔ بلکہ اس کا آغاز تو برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے ہمارے مدرسے کسی بھی طرح کی سیاسی اور حکومتی مداخلت سے آزاد تھے۔ بادشاہ مدرسہ کو ایک بار جو جاگیر دے دیتا تھا، بعد والوں کے لیے ممکن نہ تھا کہ اسے واپس لے لیں۔ ہمارے ان مدرسوں میں دین کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے علوم پر بھی توجہ دی جاتی تھی چنانچہ حدیث، فقہ اور تفسیر کے ساتھ ساتھ منطق، حساب اور فلسفہ بھی نصاب میں شامل تھا۔ انگریزوں نے اس نظام پر ضرب لگائی۔ جاگیریں چھین لیں اور مدرسوں کو زکوٰۃ اور چندے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا انگریزی ٹائپ کے مدرسے قائم ہوئے جن میں سے دین تقریباً خارج ہو گیا۔ ان مدرسوں کا مقصد انگریز حکومت کے لیے وفا دار سرکاری ملازم پیدا کرنا تھا۔ مولانا شبلی نے علی گڑھ کے بارے میں کہا تھا ’’یہ ہر میجسٹی کے لیے وفا دار ملازم پیدا کرنے کی فیکٹری ہے۔‘‘ اکبر الٰہ آبادی کو بھی یہی اختلاف تھا کہ مسلمانوں کو ہنر اور مختلف پیشے سکھانے کی بجائے ان تعلیمی اداروں کے ذریعے سرکاری وفا دار ملازم بنایا جا رہا ہے۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کا اولین مقصد آئی سی ایس کرنا ہوتا تھا اور یہ نہ ہو سکے تو پھر کلرک بن جانا۔ یہ رویہ اور مقصد آج بھی موجود ہے۔ ہماری تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا ہے اور سرکاری کی اطاعت کرنا۔ میکالے نے جو تعلیمی پالیسی بنائی تھی اسے جب منظوری کے لیے وائسرائے کے پاس بھیجا تو اس پر جو نوٹ لکھا وہ قابل غور ہے۔ اس نے لکھا، ’’ہم چند ہزار انگریز کروڑوں کی آبادی کے اس ملک پر اس وقت تک دیر تک حکومت نہیں کر سکتے، جب تک یہاں ایک ایسی جماعت وجود میں نہ آ جائے جو نسلاً ہندوستانی ہو اور ذہنی طور پر انگریز، مجھے یقین ہے کہ اس تعلیمی پالیسی پر عمل کر کے چند ہی برسوں میں ایسی جماعت وجود میں آ جائے گی۔‘‘ یہ تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ ہے کہ چند ہزار انگریز (جن کی تعداد پچیس تیس ہزار سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی اور کسی وقت تو یہ دس ہزار سے بھی کم رہی) کروڑوں کی آبادی کے اس ملک پر نوے سال حکومت کر گئے اور اس دوران کوئی بڑا واقعہ یا ہنگامہ بھی نہیں ہوا۔ ایک شہر میں انگریز حاکم چار پانچ ہی ہوتے تھے۔ ایک کمشنر، ایک ڈپٹی کمشنر، ایک ایس پی اور ایک افسر مال اور ایک دو اور۔ باقی سارا انتظام یہی نسلاً ہندوستانی ذہنی انگریزی کرتے تھے۔ یہی وہ جماعت تھی جسے میکالے کے نظام تعلیم نے جنم دیا۔ یہی نظام تعلیم تقریباً اسی صورت میں آج بھی رائج ہے اور ہمارے حاکم عوام کو محکوم سمجھتے ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم قومی مقاصد سے ہم آہنگ نہیں۔ ہم طالب علم کی ذہانت کا نہیں یادداشت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارا معیار نمبر ہیں۔ ہم پروفیشنل کالجوں یا دوسرے اداروں میں داخلے کے لیے نمبروں کو معیار سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مقررہ نمبروں سے ایک نمبر کم والا نا اہل ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف جہاں داخلہ ٹیسٹ اور امتحان کا نظام ہے وہ بھی ہماری روایتی بد دیانتی کی وجہ سے ناکام ہو گیا ہے۔ سیاسی مقاصد اور شہرت کے لیے غیر ضروری نصابی بوجھ بڑھایا گیا ہے۔ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو انگریزی اور اُردو زبان کے نصاب میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بعض زبانوں کی غیر ضروری لازمی تعلیم بھی ایک بوجھ ہے۔ انگریزوں نے دینی مدارس اور دنیاوی مدارس کو الگ الگ کر کے مسلمان معاشرے میں جس تقسیم کا بیج بویا تھا وہ آج بھی قائم ہے۔ ادھر سے دنیا نکل گئی، ادھر سے دین نکل گیا۔ وہ ایک انتہا اور یہ دوسری انتہا ہو گئی۔ دین و دنیا کے اسی جھگڑے نے ہماری مجموعی دانش، روا داری اور قومی مزاج کو متاثر کیا۔ اب تک ہماری جتنی تعلیمی پالیسیاں بنی ہیں۔ وہ میکالے کے نظام تعلیم کے اصولوں پر ہی قائم ہیں۔ بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی صرف انتظامی تبدیلیوں کے پیچھے سیاسی مقاصد اور کچھ لوگوں کو ملازمتیں دینا اور ان کے لیے نئے محکمے کھولنا رہا ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے اپنے تعلیمی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں تو سیاسی وابستگیوں اور مفاد سے بالا ہو کر اس پر غور کرنا چاہیے۔ لیکن شاید یہ ممکن نہیں کہ ہم جس مجموعی زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں اس میں صورتِ حال یہی رہے گی۔ جب کوئی قوم اپنے زوال پر فخر کرنے لگے اور زوال سے لطف اٹھانا شروع کر دے تو پھر اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔
س: آج قاری کی جگہ ناظر نے لے لی ہے۔ کیا یہ صورتِ حال ادب کے لیے نقصان دہ نہیں؟
ج: یہ تبدیلی تو دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ لیکن اس سے خوف زدہ ہونے کی بجائے خود کو اس کے مطابق تیار کرنا چاہیے۔ اب تو انٹرنیٹ پر بھی ادب فیڈ ہو رہا ہے۔ بنیادی بات تو اظہار اور قاری یا ناظر تک پہنچنے کی ہے۔ اگر یہ کام کتاب کی بجائے سکرین یا کمپیوٹر کا نیٹ ورک کر رہا ہے تو ٹھیک ہے۔ ہم زمانے کو تو واپس نہیں لے جا سکتے، خود کو اس کے مطابق تیار کر سکتے ہیں اور یہی ہمیں کرنا چاہیے۔
٭٭٭