شورِ دریائے خواب تجھ سے ہے
سایۂ آفتاب تجھ سے ہے
تو ہی موضوعِ گفتگو ہے تمام
ہر سوال و جواب تجھ سے ہے
میں نے برباد کر لیا خود کو
میرا حالِ خراب تجھ سے ہے
وہ کسی اور سے نہیں ممکن
جو عذاب و ثواب تجھ سے ہے
کوئی جلدی نہیں مجھے کہ ابھی
میرا باقی حساب تجھ سے ہے
سب کو چھوڑا ترے سہارے پر
خیمۂ بے طناب تجھ سے ہے
غصہ ہے تیری اتنی دوری پر
غم کوئی ہم رکاب تجھ سے ہے
مست رکھتی ہے کیا مہک اس کی
داغِ دل کا گلاب تجھ سے ہے
جس قدر ہے ظفرؔ کے ہونے کا
یہ حضور و غیاب تجھ سے ہے
**