مصنفہ: آمنہ آفرین (ریسرچ اسکالر HCU)حیدرآباد۔
مبصر: (ریسرچ اسکالرعثمانیہ یونیورسٹی)لطیف بازار، نظام آباد ہندوستان
اردو ادب میں نثری تیقی ادب کو افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب کے زمرے میں تقسیم کیا گیا ہے۔جسے انگریزی میں فکشن اور نان فکشن کہا جاتا ہے۔ افسانوی ادب کی ایک جدید صنف مختصر افسانہ شارٹ اسٹوری یا منی کہانی ہے۔دراصل یہ منی کہانی اور افسانچہ اردو افسانے کی مختصر ترین صنف ہے۔مختصر افسانہ یا منی کہانی سے متعلق کہا یہ گیا کہ کسی خاص زماں اور مکاں میں پیش آنے والے واقعہ یا باہم مربوط واقعات کا دلکش بیان مختصر افسانہ (منی کہانی)ہے۔ٹکنالوجی اور صنعتی دور میں انسان کی مصروفیت اور تنگی وقت کی وجہ سے یہ صنف پروان چڑھی۔ کم وقت میں قاری تک کہانی کے ذریعے پیغام پہونچانے کی کوشش منی افسانے کی وجہہ تخلیق ہے۔ زندگی کے مسائل کا یکلخت اظہار بھی اس کے فروغ کا ایک سبب ہے۔ اردو افسانہ کی طرح اردو میں منی کہانی بھی ان دنوں اخبارات اور رسائل کی زینت بن رہی ہے۔ منی کہانی کے فروغ میں اردو رسائل نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔اور اردو کے کئی افسانہ نگار اس صنف سے وابستہ ہو گئے۔ منی افسانے کے فن اور اس کے آغاز و ارتقاءسے متعلق ایک معلوماتی اور تحقیقی کتاب "اردو میں منی افسانہ” کے عنوان سے یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبہ اردو کی طالبہ آمنہ آفرین نے تحریر کی ہے۔یہ کتاب ان کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے۔جسے محترمہ نے بڑی ہی محنت و جدوجہد سے تصنف کیا ہے۔
کتاب کا پیش لفظ پروفیسر مظفر شاہ میری صدر شعبہ اردویونیورسٹی آف حیدرآباد نے :دعا گو ہوں کہ” کے عنوان سے لکھا جس میں انہوں نے منی افسانہ کے فن سے متعلق لکھا کہ
"منی افسانہ کا فن اپنے اندر ایک جاذبیت رکھتا ہے۔یہ مختصر ہے اور جامع بھی ایک عمدہ شعر کی طرح اپنے جسم کے اعتبار سے مختصر مگر روح کے اعتبار سے جامع اس صنفِ نثر کا جو فن کار رمز شناس ہوتا ہے وہ کامیاب منی افسانے تخلیق کرتا ہے اور جو نا آشنا ہوتا ہے وہ اپنے ہی فن کا شکار ہو جاتا ہے کالا جادو کرنے والے جادوگر کی طرح۔”(ص ۷)
ڈاکٹر شہ میری نے شعبے کی طالبہ کی حوصلہ افزائی کی اور اس کتاب کی اشاعت کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور مصنفہ کو مبارکباد پیش کی اور ان کے حق میں دعا بھی دی۔زیر تبصرہ کتاب میں پیش لفظ کے بعد ’’حرف چند‘‘ کے عنوان سے پروفیسر بیگ احساس سابقہ صدر شعبہ اردو HCUنے کتا ب پر اپنی رائے ثبت کرتے ہوئے منی افسانہ کے فن پر مختلف زاویوں سے گفتگو کی ہے اور منی افسانہ کو نثری نظم کی طرح اعتبار حاصل ہونے کی بات کہی ہے۔ساتھ ہی کتاب کے محاسن و معائب کو بیان کیا ہے ساتھ ہی منی افسانہ کے فروغ کے سلسلہ میں نیم ادبی فلمی رسالے شمع کے رول کو اجاگر کیا ہے اور مصنفہ سے متعلق لکھا کہ”’آمنہ آفرین نے بڑی عرق ریزی سے منی افسانے جمع کیے۔انہوں نے بعض فن کاروں کا ایک ایک افسانہ بھی شامل کیا جو ان کی باریک بینی کا ثبوت ہے۔تحقیقی اعتبار سے اس مقالے کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ یہ منی افسانوں کا ایک بہترین اور مستند انتخاب ہے”(ص10)
فاضل مصنفہ نے "کچھ اپنی بات” کے عنوان سے ” اردو میں منی افسانے“ کی اشاعت کے مقاصد کو بیان کیا ہے ساتھ ہی اپنے مقالہ کی تیاری میں تحقیقی مواد کی فراہمی کے مسئلہ پر گفتگو کی ہے۔ اور منی افسانہ کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔
اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب کے پہلے حصہ میں”اردو منی افسانہ شناخت کا مسئلہ” کے موضوع پر منی افسانہ کے معنی، جدید صنف،منی افسانہ کا فن اور ہیئت پر مختلف حوالوں سے معلومات فراہم کی ہے اور لکھا کہ
"قصہ پن منی افسانے کا ایک اہم عنصر ہے جسکی وجہہ سے یہ افسانوی صنف کہلاتی ہے اس میں عموماً حقیقی واقعات ہی کو موضوع بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پڑھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے یہ واقعہ دیکھا یا سنا ہے۔”(ص ۴۲)
فاضل مصنفہ نے منی افسانہ کی شناخت کے مسئلہ پر مختلف ماہرین کی رائے کو شامل کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ”منی افسانہ ایک ایسا کوزہ ہے جس میں ایک دریا بند ہے۔”
باب دوم اردو منی افسانہ آغاز و ارتقاء کے عنوان سے شامل ہیں جس میں انہوں نے منی افسانے کا خالق یا آغاز کرنے کا سہرا سعادت حسن منٹو کے سر باندھا ہے اور لکھا ہے کہ منٹو نے اپنی منی افسانوں کے مجموعے "سیاہ حاشیے” کو سب سے پہلے 1948ءمیں شائع کیا تھا اور اس میں ان کا پہلا افسانہ "ساعت شرایں” ہے”(ص۹۲)
فاضل مصنفہ نے منی افسانہ کا آغاز و ارتقاءسے متعلق کافی اہم معلومات لکھیں ہے اور جوگیندر پال کو بھی منی افسانہ کو رواج دینے والا قرار دیا ہے اور دیگر افسانچہ نگاری کے منی افسانوی مجموعے کی تفصیلات دی ہیں۔باب سوم "اردو منی افسانے کا فن تنقیدی جائزہ” کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے اس میں دو عنوانات دئیے گیے ہیں الف۔موضوعات، ب۔اظہار کے طریقے۔موضوعات کے تحت انہوں نے آٹھ الگ الگ حصہ بنائے ہیں اور ہر حصہ میں موضوع کے اظہار کے طریقوں پر بحث کی ہے۔جیسے ۱)فسادات ۲)مذاہب ۳)لڑکیوں کی شادی ۴)انسانی نفسیات ۵) آلودگی ۶)کمپیوٹر ۷)اردو ادب ۸)جدید زندگی کے مختلف پہلو۔ اظہار کے طریقے کے تحت انہوں نے مختلف لکھنے والوں کے طریقہ اظہار کو بیان کیا ہے۔اور اس کو بھی دو حصوں میں بانٹا ہے۔ ۱) علم بیان ۲) مکالماتی انداز بیان۔
آخری حصہ چہارم اردو میں منی افسانہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ الف۔ منی افسانہ نگار اور ان کے منی افسانے ب۔ متفرق منی افسانہ نگاروں کے منی افسانے۔حصہ الف کے تحت جن افسانہ نگاروں کا تعارف اور افسانے پیش کیے گئے ان میں سعادت حسن منٹو، جوگیندر پال، راجندر سنگھ بیدی، قاضی مشتاق احمد،عظیم راہی، نذیر فتح پوری، عبدالعزیز خان، منظور وقار، کوثر صدیقی، علیم صباء نویدی ، رحیم انوار، اقبال انصاری، محمد طارق، بشیر مالیر کوٹلوی، قاسم خورشید،محمد رفیع الدین مجاہد، سلطان آزاد۔قطب سرشار، نسیم محمد جان، شاہد اختر، فضل امامِ، ضامن علی حسرت، ف س اعجاز ، گلشن کھنہ،مظہر الزماں،رؤف خیر،حمید سہروردی، عارف خورشید، اکرام نقاش، نورالحسنین،ساحل احمد کے نام شامل ہیں۔
متفرق منی افسانہ نگاروں کے منی افسانے کے عنوان کے تحت افسانہ نگاروں کے صرف افسانہ شامل ہیں ان کا تعارف و دیگر تفصیلات جس طرح سے "منی افسانہ نگار اور ان کے منی افسانے” میں پیش کیے گئے تھا یہاں صرف نام کے نیچے افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ اس موضوع کے عنوان کو کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت تھی جیسے جن افسانہ نگار کا تعارف نہ ہو انکے افسانچہ وغیرہ۔
متفرق افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر اشفاق احمد،ڈاکٹر نریش، سالک جمیل،بتول فاطمہ، ڈاکٹر وقار انور، اعجاز قریشی، طفیل سیماب،جاوید ندیم،مجتبیٰ فہیم، ساحر کلیم،اطہر معز،خرم سہروردی،ظفر محبوب نگری،محمد آصف، س۔علی۔نقی، اول سرحدی،محمد یحیی خان۔آصف درویش،م۔ناگ، ظفر اقبال کے افسانے شامل کئےب گئے ہیں۔آخر میں کتاب کا اختتامیہ دیا گیا ہے”ساتھ ہی یہ امید بھی کی گئی ہے کہ اردو میں منی افسانہ کا یہ ابتدائی دور ہے۔ یہ صنف آگے چل کر اپنی مقبولیت کے منازل طے کرے گی”۔
آمنہ آفرین نے اردو میں منی پر بہترین مواد مہیا کیا ہے جس سے افسانچہ نگاری کے موضوع پر آئند تحقیق کرنے والوں کئےہن راہیں فراہم ہوں گی۔ ان کی یہ کتاب منی افسانہ پر نہایت ہی اہم ہیں۔ امید کہ آمنہ آفرین کا یہ کام سراہا جائے گا۔کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔ اس کتاب کی خوب پذیرائی کی جانی چاہیے تاکہ منی افسانہ کے فن کو فروغ حاصل ہو سکے۔
٭٭٭