تخلیق کا حشر۔۔۔ علیم صبا نویدی

آج اس کی مانگ کا سیندور اجڑ گیا تھا۔۔ وہ چہرہ، وہ آنکھیں جو کل تک روشن تھیں۔ آج اس میں اداس پن کے گہرے نقوش اجاگر ہو چکے تھے۔ اور بولتے ہوئے بدن کے خد و خال بھی پگھل کر اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ اور وہ زلفیں جن کا شکار اور کمار اور گپت ہو چکے گویا بڑھاپے سے پہلے بڑھاپے کو اس نے دعوت دی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی خوش گوار زندگی میں ایک ایسا موڑ بھی آئے گا جس موڑ کو وہ اپنی بیوگی کا نام بھی نہیں دے سکے گی۔۔
وہ سوچ رہی تھی کہ آخرش اس موڑ کا انت کیا ہے؟! کمار اور گپت اس کی زندگی میں کیوں آئے گی؟! خالق نے اس کو جنم کیوں دیا۔۔ اور جنم دینے کے بعد اس نے اپنی تخلیق کے حشر کو دیکھنے کی تمنا کیوں کی تھی؟!۔۔ کاش اس نے اسے جنم دینے کے بعد اس کی آنکھوں کی خوبصورت جیوتی اور جسم کے نمایاں خد و خال اپنے لیے رکھ لیے ہوتے۔۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے